راز وفا

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 25

میم آپ کو کوئی صاحب لینے آئے ہیں ___” چھٹی کے وقت وہ جیسے ہی کلاس روم سے نکلتی حال میں داخل ہوئی بچوں کے شوروغل میں ابھرتی ملازم کی آواز پہ وہ حیران ہوئی کہ آج چاچو اتنے جلدی اسے لینے کیسے آگئے عام حالات میں تو وہ اُسے جلدی نہیں آتے تھے
نورِ حرم اب جینا سیکھ رہی تھی اپنے لیے نہ سہی تو اپنے اردگرد کے لوگوں کےلیے __” زعفران کے رشتے کے صاف انکار کے بعد کچھ ذہنی سکون سا حاصل ہوا تھا یہ علحیدہ بات کہ صائمہ بیگم کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی لیکن اسکی مسلسل انکار پہ کچھ وقت کےلیے ہی سہی زعفران نامی بلا سے چھٹکارا حاصل ہوا اماں چاچو کی باتوں پہ مزید بھپرگئی تھیں اس کے اسکی ناعقلی پہ کوسنا ان کا معمول بن گیا دو مہنیے اسے رشتے سے انکار کیے ہوگیا لیکن اماں کا رویہ ہنوز وہی تھا __
بہرحال اسی کشمکش میں وہ چوکیدار سے کچھ گفتو کرتی سٹاف کی جانب آئی سر پہ چادر لی نقاب کیا بیگ اور بوتل اٹھائے وہ اپنی فی میل کولیگ سے ہمیشہ کی طرح اختتامی سلام دعا کرتے باہر دیر کیے بناء نکل آئی کہ چاچو زیادہ وقت اسکےلیے خجل نہ ہوں ____”مگر باہر نکلتے ہی اس کو چار سو واٹ کا جھٹکا لگا زعفران عالم گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا نورِ حرم اسے دھتکار دھتکار کہ عاجز آگئی دو مہینوں کے بعد پھر وہ ہی حال تھا ___”
اپنے تاثرات کو ٹھیک کرتے وہ دوسری طرف سے ہوتی بس اسٹاپ کی طرف تاکہ وہ اس شخص کی نظروں کی زد میں بھی نہ آئے __” نورِ حرم ___”زعفران نے اسے بلند آواز میں پکارا وہ بڑی تکلیف سے پلٹی سب کا دھیان اسی کی طرف تھا__”
میں یہاں ہوں نور___” کافی بلند آواز میں اسے پکارتے اس نے ہاتھ ہلاتے وہ اسکے قریب آگیا تھا __
آپ کیوں آئے ہیں ___؟؟ اسکے لہجے کے تاثرات خطرناک حد تک سنگین ہوگئے جیسے وہ کچھ بھی سخت الفاظ سے خود کو روک رہی تھی __
میں تمھیں لینے آیا ہوں ابو کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی اس لیے میں خود آگیا ___” آرام سے بتاتے وہ اسکے ہاتھ سے بوتل لینے لگا لہجہ بڑا مہرباں تھا اسکا بڑھتا ہاتھ دیکھ لہ نورِ حرم نے جھٹکے سے بوتل والا ہاتھ پیچھے کیا __زعفران عالم کا ہاتھ ہوا میں معلق رہ گیا اسے دیکھتا وہ جیسے خود پہ ضبط کرتا رہ گیا
میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ میں بس میں بھی آجاسکتی ہوں پھر کیوں آئے مجھے لینے ___؟ نہ تومیں آج پہلے دن آئی ہوں نہ آپ پہلے مجھے لینے آتے تھے ___” رنج کی شدت سے اسکی آواز کافی بھاری ہوگئی تھی
یہ ہی تو پچھتاوا ہے کہ کاش میں آجایا کرتا تو آج تمھاری زبان صالح کے گُن نہ گارہی ہوتی__” اسکے الفاظ سنتی نورحرم سن رہ گئی وہ کیوں اپنا اور اُسکا موازنہ کرتا تھا ___”
دیکھو نورِ حرم آرام سے گاڑی میں بیٹھ جاؤ تماشہ مت بناؤ میرا __” اسے گم صم سا دیکھ کہ اب کی بار وہ تھوڑا بلند آواز میں مخاطب ہوا نور حرم کے ماتھے پہ بل پڑے __”
تماشہ میں نہیں آپ میرا بنا رہے ہیں میری ذاتیات پہ کتنے سوال اٹھ رہے ہیں یہ آپ کو بخوبی علم ہے مگر آپ کو کیا فرق پڑتا ہے اسے ___” خراب تو میں کہلائی جاؤں گی نہ ذات تو میری ہلکی ہوگی نہ __”
تایا کی بیٹی ہونے کے ناطے میں تمھیں لینے آیا ہوں اس میں کیا عیب ہے؟ یہاں آئے روز ہزاروں لڑکیاں بغیر کسی رشتے کے ہوتے ہوئے ڈیٹنگ پہ جا رہی ہوتی ہے ان سے پوچھ گچھ کرنے والا نہیں ہے پتہ نہیں تمھیں کونسے لوگوں کی پرواہ ہے __” وہ چار سو چار دلیلیں لیے کھڑا تھا یہ جانے کے بغیر اسکے سامنے جو لڑکی کھڑی ہے انہی دلیلوں کے سبب تو اس نے ہیروں کی سی صفت رکھنے والا شخص ٹکرا دیا __”
نہ تو میرا آپ سے کوئی حق حلال کا رشتہ ہے سوائے چاچو کے بیٹے کے علاوہ __” کہ آپ کی گاڑی میں بیٹھوں اور نہ ہی میرا ان ہزاروں لڑکیوں میں شمار ہے اور الحمداللہ مجھے لوگوں کی پروا نہیں ہے بلکہ اللہ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے اور احکام کی ہے سو آئندہ یہاں آنے کا تکلف مت کجئیے گا آپ کی یہاں زحمت کا بہت شکریہ بھائی ___” اور بہت بہت معذرت میں بس پہ چلی جاؤں گی
بڑی سہولت اور اعتماد سے انکار کرتی بیگ کندھوں پہ لیے وہ مڑی حالانکہ دل تو اس کے سیکنڈ بھی یہاں کھڑا رہنا کا رودار نہیں تھا __
میں دیکھتا ہوں تم کیسے نہیں جاتی بہت غرور ہے تمھیں خود پہ بہت جلد یہ غرور ملیامیٹ کر دوں گا پر ابھی تو گھر چلو نہ ___” زعفران عالم نے اسکا ہاتھ پکڑا لہجہ عجب قسم کی رعونت لیے ہوئے تھا جیسے وہ اسے اپنے اس عمل سے پسپا کر لے گا۔۔۔”
چھوڑیں مجھے __؟؟ اسکا انداز تباہ کُن حد تک خطرناک انداز وارننگ لیے ہوئے تھا اسےیہ لمس آگ کی لپیٹ سے کم نہ لگا اور اطراف میں بکھرتے ان شعلوں سے اپنا جلتا ہوا محسوس ہوا ___”
میری بات ___” وہ ابھی فقرہ مکمل نہ کرپایا جب کان سائیں سائیں کرنے لگے اسکے دائیں ہاتھ کا تھپڑ کسی کاری ضرب کی وار سے کم ہرگز نہ تھا وہ آنکھیں واہ کیے اسے دیکھتا رہ گیا نگاہ اسکے ہاتھ پہ پڑی سیکنڈ کے دوارن جو ایک بات کا اندازہ لگایا گیا تھا کہ اسے الٹے ہاتھ کا تھپڑ پڑا تھا اور چار انگلیاں تھی جو اسکے چہرے پہ چھب کے رہ گئیں ایک عورت کے ہاتھ کا تھپڑ اور وہ بھی اتنا بھاری یہ یقین کرنا مشکل تھا __
کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے آپ میرا سوائے ہراس کرنے کے کیا ہوا وہ نہیں مگر میرا محافظ اللہ ہے اور مجھے بزدل لڑکی سمجھنے کی کوشش مت کجئیے گا جو ہاتھ میری طرف بڑھے گے انھیں توڑنے میرے لیے کوئی دشواری نہیں ہوگی میری ایک پکار کی دیر ہے یہاں آپ کو اپنی جان کے لالے پڑ جائیں گے ___” ایک ایک لفظ باور کرواتی وہ پلٹی تھی __”
بہت بڑی غلطی کر دی تم نے مجھ پہ ہاتھ اُٹھا کہ __” میں آج تک خاموش تھا تو اس لیے کہ تمھیں آرام سے ہینڈل کیا جاسکتا ہے مگر تم آرام سے ہینڈل کرنے والی چیز ہی نہیں ہو گھی نکالنے کےلیے انگلیاں ٹیڑھی کرنی پڑتی ہیں اور تمھیں سیدھا کرنے کےلیے میں ہر اقدام سے گزروں گا میں تمھیں اتنا بے بس کردوں گا تم خود چل کہ میرے پاس آؤ گی کہ مجھے اپنا لو اور جہاں تک بات ہے نہ میرے ساتھ نہ چلنے تو معاملہ مجھے کچھ اور لگ رہا ہے خود داری کی آڑ میں کیا پتہ کہاں کہاں منہ مار کہ آتی ہو ___” اس کے لہجے میں تقربیا غراہٹ تھی نورِ حرم نے اسکے سارے الفاظ سنے تکلیف بھی ہوئی مگر پھر نظر انداز کرتی بس کی طرف بڑھی تھی ___”
♥️♥️♥️
اسے ایسا مارنا کہ لاش پہچاننے کے قابل بھی نہ رہے ___” سامنے بیٹھے شخص کو دیکھتے وہ مخاطب تھا جس کا تعلق امیر طبقے سے تھا وہ سیٹھ نواز تھا جس کا کام ہی دھوکا دینے کے پیشے سے تھا اپنی دولت کے بل بوتے لاکھوں واردتیں کروا چکا تھا غیر” قانونی کاموں میں اسکا کوئی ثانی نہ تھا ___” وہ سیٹھ میرو کے گھر آیا تھا جس نے یہ باور کراویا کہ وہ بہت بڑا کر”منل ہے
یہ اُس خبیث کی اولاد کی تصویر ___” ساری ایجن”سیوں کو گن چکر بنا کہ رکھ دیا ہے سالے نے ایسے ایسے روپ بدلتا ہے کہ کوئی بھی اسے پکڑ نہیں پا رہا __” اس نے سیٹھ میرو کے سامنے تصویر پھینکی تھی
بس اتنی چھوٹی سی بات کےلیے آپ میرے غریب خانے پہ تشریف لائے ہیں___” تصویر دیکھتاسیٹھ میرو گرج کہ بولا جیسے اس کےلیے یہ کام کوئی کام ہی نہ تھا ___
اسکو عام سمجھنے کی غلطی ہرگز مت کرنا سیٹھ ازمیر یہ بہت خطر ناک شخص ہے سنا ہے یہ روپ بدل کہ نقب لگاتا ہے بولتا نہیں ہے بس سنتا سوچتا اور پھر اپنے مشاہدے سے بنے بنائے کھیل کو تباہ کر دیتا ہے تمھیں اسلیے بتا رہوں تاکہ تم اسے اس جیسا بن کہ تباہ کرتے بازی پلٹ دو یہ ہاتھ کم دماغ ذیادہ استعمال کرتا ہے اس لیے شاید اپنے ارادوں سے جلدی کامیابیاں سمیٹ لیتا ہے__” سیٹھ رب نواز نے اسے حکمت عملی سے سمجھا دیکھنے سننےمیں تو وہ خود بہت شاطر محسوس ہو رہا تھا _
شرکار ___” آپ نے شرف شنا (صرف سنا )ہے ہم نے تو اشل میں دیکھا بھی ہے سچ بہت خطرناک ہے ___” سیٹھ ازمیر کا نوکر مٹھو بڑبڑایا تو سیٹھ ازمیر کی ایک گھوری دیکھتا سٹپٹا کہ رہ گیا __”
خطر ناک اگر وہ ہے تو عام سیٹھ ازمیر بھی نہیں ہے سیٹھ جی __” اس نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے غصے سے کہا آنکھیں لہو رنگ ہوگئیں تھیں ___”
شر جی ڈینجرس تو میں بھی بہت ہوں مگر کسی کو یقین ہی نہیں آتا ____” سیٹھ نواز کے جانے کے بعد کپ اٹھاتے مٹھو بڑابڑ عروج پہ تھی ___”
ڈینجرس نہیں ایک نمبر کا ڈنگر ہے تصیح کرلے ___” سکون سے جواب دیتے وہ فون اٹھائے کسی سے کال پہ مصروف ہوا __
شرکار اٹھیں اور تشریف کا ٹوکرا لے جائیں کلائکمش کا وقت ختم ہوا چاہتا ہے ___” اسے نشست سنھبالتے دیکھ کہ مٹھو کی بڑبڑاہٹ میں اضافہ ہوا__”
♥️♥️♥️
موسم خرابی کی وجہ سے اسے کافی دیر ہوگئی گھر پہنچی تو بارش کی وجہ سے چھوٹے سے گھر کا نظام درہم برہم ہوگیا اماں سامنے نظر نہیں آرہی تھی شال اتارتے اس نے تار پہ پھیلائی اور پھر اپنے کمرے کی طرف بڑھی کچھ دیر بعد لباس تبدیل کرتی کچن میں داخل ہوئی تو اماں چائے بنا رہیں تھیں
آگئی اپنی من مانیاں کرکے ___” لہجہ کافی چبھتا ہوا سا تھا وہ اماں کا اشارہ سمجھ گئی اس لیے ڈھیٹ بنے مسکرا دی تھی چلیں اس بہانے آج کتنے عرصے بعد ماں نے مخاطب تو کیا __”
جی آگئی ___” کاونٹر سے ہاٹ پاٹ اٹھانے جب ماں کی اگلی بات پہ حرکت کرتا ہاتھ رکا ___'”
تو آزادیوں کی عادی ہوگئی ہے نورِ حرم پھر گھر بسانے کا دل کیسے کرے گا مردوں سے مرد بن کہ مقابلے کرنا عورت کو جچتا نہیں ہے اللہ نے مرد کو عورت پہ برتری دی ہے _”
اُس نے میرے تھپڑ کا بتا دیا آپ کو مگراپنی حرکت کا نہیں بتایا ___” نوالے لیتے وہ اب جرح پہ اتری __”
تت___” تو نے اسے تھپڑ مارا ___” اماں کی آنکھیں مزید کھل گئیں وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ان کی بیٹی نے اتنی بڑی حرکت کی ہے وہ ہاں میں سر ہلاگئی
یہ کیا کر دیا توُ نے نورِ حرم تجھے حیا نہیں آئی ___” تیرے ہاتھوں پہ چھالے کیوں نہیں پڑگئے ___” وہ اس کی حرکت پہ افسوس زدہ تھیں اُن کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اسکا حلیہ بگاڑ کہ رکھ دے انھیں اس سے اتنی بیوقوفی کی اُمید نہیں تھی اتنی مشکلوں سے تو انھوں نےزعفران کو اسے قائل کرنے کا بولا تھا یہ کہہ کہ اتنے بڑے صدمے سے گزری ہے کچھ وقت لگے گا مگر آج انھیں اپنی ساری محنت اُکارت ہوتی نظر آئی تھی ایک نظر اسے پھر دیکھا جو مطمن سی کھانا کھا رہی تھی انھیں مزید غصہ آیا پھر جو اُن کے منہ میں آیا وہ کہتی چلی گئیں یہ نہیں دیکھا کہ ان کی بیٹی اپنے دفاع کےلیے کیسی کیسی جنگوں سے لڑ رہی تھی
تیرے ماتھے پہ ہی بدنصیبی کی کالک ہے تجھے عزت راس ہی نہیں آتی غرور کے علاوہ تیرے پاس چیز ہی کیا ہے جس پہ توُ ناز کرے __” دو سال یہ خوبصورتی رہے گی یا چار سال __” ذرا سی عمر گزاری تو سفید بال لیے اسی در پہ بیٹھی رہ جائیگے کوئی بھی بیاہنے نہیں آئے گا تجھے ___” ابھی وقت ہے زعفران کےلیے ہاں کر دے ___”
وہ بے شک سونے کا بھی بن کہ آجایا مگر مجھے نہیں قبول ___” وہ بڑی سختی سے کہتی کھانا لیے کمرے میں چلی گئی __
♥️♥️♥️♥️
زندگی کی ڈور ایسے چلی کہ وہ نئی ڈگر کے راستوں پہ چل پڑا دن مہینوں کی رفتار لیے گزرنے لگے اپنے کام کے علاوہ کچھ بھی اسے نہ سوجھتا تھا وہ اب اس لیے جی رہا تھا کہ جو ہونا تھا ہوگیا ___” مگر اسکو بھلا پانا بس میں کہاں تھا کہ جو اسکی آنکھوں کا نور تھی
ابھی کچھ دیر پہلے وہ کپٹن فاروق کے کہنے پہ ایمن کو انسٹیوٹ سے لینے آیا تھا وہ کبھی نہ آتا مگر یہ اسکے محسن کا حکم تھا جسے وہ ٹال نہیں سکتا تھا اور ایمن فارقی اسکی محبت کی کھوج میں اسے اس خوش قسمت لڑکی کا نام اگلوانا چاہتی تھی اس لیے بنا رکے بول رہی تھی ___
میں خود بخود آپکی زندگی سے چلی جاؤں گی یہ تک بھلا دوں گی کہ میری زندگی میں کوئی ارمغان عالم نامی شخص آیا تھا میرے دل میں بسی آپکی محبت کتابوں کے صحـفوں تک رہے جائے گی میں سب بھلا دوں گی کپٹن بس اتنا یاد رکھوں گی میری زندگی کا حاصل شخص میرے لیے لاحاصل ٹھہرا جو کبھی میرے مقدر کا حاصل نہیں بن سکتا تھا __”
میں آپ کو حادثہ یا پھر اللہ کی رضا سمجھ کہ بھول جاؤں گی مجھے صرف صاف صاف الفاظ میں اتنا بتا دیں میجر آپ کسی اور کے مقدر میں ہیں کیا___؟؟؟
وہ جو گاڑی کے پچھلی سیٹ پہ بیٹھی سارے راستے لب بستہ رہی دل میں چھپے لفظوں کے ذخیرے زبان پہ لاتی پختگی سے اسے محو کلام تھی _
مجھے جس کا مقدر ٹھہرا گیا تھا میں بس اس کے مقدر میں لگی سیاہی کا بد نما دھبہ رہا ہوں مس ایمن بنتِ فاروقی __” اس سے زیادہ ستھرے الفاظ ارمغان عالم کے پاس نہیں ہیں جس سے وہ آپ کو سمجھا سکے کہ وہ مقدر کے سکندر میں صفر ہے __” اپنے سفاک الفاظ سے وہ ایمن فاروقی بے اعتناہی ، سرد مہری ، لا تعلقی کے مجموعے میں ڈھلا ایک بے رحم شخص معلوم ہوا اس نے اسے بہت کھوجا لیکن ایک سرا بھی اس کے ہاتھ نہ آیا ___”
آپ میرے سوالات کے اتنے مشکل جوابات کیوں دیتے ہیں جن کے مفہوم سمجھنا ہی میرے بس میں نہ ہوں ___” اس کے سوالوں میں الجھتے ایمن اچھی خاصی جزبز ہوتی جیسے شکوہ کرگئی __
اور آپ اتنے مشکل سوالات کیوں پوچھتی ہیں جن جوابات کے مفہوم سمجھانا ہی میرے بس میں نہ ہوں ___” میری ذات کی کھوج کرنا چھوڑ دیں مس ایمن بنتِ فاروقی میں تو وہ بے نام شخص ہوں جس پہ لوگ فاتحہ پڑھ کہ اسے کب کا بھول چکے ہیں لوگوں کو تو رہنے دیں ارمغان عالم خود ہی خود پہ فاتحہ پڑھ چکاہے کہ اسکا کوئی وجود تھا بھی یا نہیں ___”
سڑک پہ نگاہیں رکھے لاپرواہ سے انداز اس نے بظاہر عام سے لہجے میں جواب دیا مگر ایمن فاروقی کو اس وقت یہ پہ شخص کسی اُداس شام کے غروبِ آفتاب کی مانند معلوم نظر آ رہا تھا جس کے الفاظ پہ وہ سوچوں کے نئے سفر کی طرف گامزن ہوئی __”
❤❤❤
زعفران عالم نے جو کہا تھا اسکا نیتجہ سب کی ناراضگیوں کی صورت میں سامنے آیا عالم صاحب تھوڑا عرصہ خفا رہے مگر گزرتے دن ناراضگی کی یہ دیوار چھٹ گئی نجانے ایسا کیا کہا کہ زارا چاچی کو بھی اسکے خلاف کر دیا اور علیزے نے بھی کچھ دن فون نہ اٹھایا وہ جب بھی کال کرتی وہ فون کال کاٹ دیتی ___” اس شخص نے اسے بے انتہا کا بے بس کر دیا جب پیدا کرنے والی ماں ہی بات پہ بات طعنے دینے لگی __”
بڑھتی خلیج کی ایک وجہ اسکی جاب کی تھی جب سے اسکی شفٹنگ کا پتہ چلا تب سے ازحد بدگماں تھیں اس واقعے کے بعد زعفران عالم کی آنکھوں میں تمسخر تو ہوتا مگر وہ جیسے پیچھے ہٹ گیا اس کا پیچھے ہٹنا بھی نورِ حرم کو خطرے سے کم نہ لگا تھا ___
اس نے ایک آخری دفعہ علیزے کو میسج کیا__”
میں جارہی ہوں پھر کیا پتہ ملاقات نہ ہو پائے مجھ سے مل جاؤ___” دل میں عدوات رکھنے سے بہتر ہے آکہ غبار نکال جاؤ ___” میں جانتی ہوں ہمارے درمیاں پہلے والی باتیں نہیں رہی وقت بدلتا ہے تو جذبے بھی بدل جاتے ہیں دوست نہیں تو اپنے شہید بھائی کی منکوحہ سمجھ کہ آجانا ___” چاچو چاچی سے تو وہ صبح مل آئی تھی چاچی کا لہجہ سرد ہی سہی مگر انھوں نے اسے غلط نہیں کہا __
آج اسکا اس گھر میں آخری دن تھا گرلز ہوسٹل سوات میں اسکی شفٹنگ ہوگئی جہاں سے رہائش اور مناسب تنخواہ سمیت سفییٹی ڈاکومنٹس میں درج تھی وہ صائمہ بیگم کو ساتھ لے کہ جانا چاہتی تھی کہ ارد گرد رینٹ پہ کوئی فلیٹ لے لے گی مگر اماں نے صاف انکار کر دیا کہ وہ اپنے محروم شوہر کا گھر چھوڑ کہ کہیں نہیں جائیگی وہ اماں کو کسی کے سہارے چھوڑ کہ نہیں جانا چاہتی تھی مگر اماں اسکے ساتھ چلنے سے تو کیا اسکی بات سننے تک کی تو روداد نہیں تھیں __
آج دل فطرتی طور پہ بہت اُداس تھا اس گھر میں اس شخص کی بہت سی یادیں بکھری ہوئی تھی زندگی کے چوبیس سال یہاں گزر گئے پھر دل کیسے اُداس نہ ہوتا ___”
❤❤❤❤
ابو بتا رہے ہیں کہ تمھاری پوسٹنگ ہوگئی کیا تم سچ میں جارہی ہو __” علیزے آتے ہی اس کے گلے زور سے لگی جیسے صدیوں سے بچھڑی ہو وہ جیسے سارے گلے شکوے ترک کر گئی نورِ حرم نے اسکی بات پہ سر اثبات پہ سر ہلایا ___”
یہ تم بہت غلط کر رہی ہو اپنے ساتھ اور ہم سب کے ساتھ __” اسکی بات میں گہرے دکھ جھلک رہا تھا __
یہ در در کی ٹھوکریں کھائے گی تب اسے سمجھ آئیں گی دو جماعتیں پڑھ کہ اسے لگتا ہے کہ یہ دنیا فتح کرلے گی ___” باہر سے صائمہ بیگم کمرے میں آتی سنائے بغیر رہ نہ سکیں ___” نورِ حرم ماں کی بات پہ ڈھیٹائی سے قہقہ لگا گئی یہ قہقہ ایسا تھا کہ آنکھوں سے نمی چمک پڑی علیزے اسے دیکھتی رہ گئی __”
صائمہ پنی دل کی بھڑاس ہلکی کیے نکل گئی تھیجبک9 علیزے نے ہاتھ آگے بڑھاتے اسکی آنکھوں کی نمی صاف کی وہ جن آنکھوں میں اسکے بھائی کا عکس نظر آتا __” وہ آئی تو اسکا دماغ لگانے تھی مگر اسکا چہرہ دیکھا تو اس سے زیادہ مضبوط کوئی نہ لگا تھا __
حالات چاہے جیسے بھی ہوں مگر تم حقیقت سے بھاگ رہی ہو ___” اس نے جانا تھا وہ چلا گیا اب ساری زندگی ایسے ہی گزار دو گی تلخیوں کا مقابلہ کرنا سیکھو _____” تائی حق پہ ہیں میں ان کو غلط نہیں کہوں گی بس تمھارا جانا بے وقوفی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ___”
تم سہی کہہ رہی ہو مجھے یہاں رہنا ہی نہیں ہے میں اُس جہاں میں جانا چاہتی ہوں جہاں کسی زعفران عالم کا وجود نہ ہو بس میں اوراسکی کی یادیں ہوں ___” لیکن یہاں ناممکن ہے امی کو بس تمھارے بھائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں سوجھ رہا وہ چاہتی ہے کہ بس میری شادی کردیں جلد سے جلد__” اور مجھے فرار جاب کی صورت میں مل گئی ہے
یہاں سے چلے جانا کا وہم و گماں میں بھی کبھی نہ سوچا تھا علیزے___” میں بہت پختہ دل رہی ہر جنگ لڑنے کی خود میں استقامت تیار کرتی رہی مگر اب مجھے اتنا مجبور کیاگیا ہے میرا یہاں رہنے کا کوئی جواز ہی نہیں رہا صالح کے بے نام سے قہقے میری سماعت میں ابھی تک گونجتے ہیں اسکی یادوں کے علاوہ میں یہاں سے کچھ بھی نہیں لے کہ جا رہی میرے حق میں دعا کرنا کہ میں اپنے فیصلے پہ ثابت قدم رہوں __”
لفظوں سے مضبوطی پنہاں لہجے میں ہلکی سی لڑکھڑاہٹ
وہ عہد لے رہی تھی یا باندھ رہی تھی علیزے اخذ نہ کر پائی مگر جہاں تک اسکا مشاہدہ رہا صالح کے بعد وہ لڑکی زندگی سے امتحانوں سے گزرتی مزید پتھر دل بن گئی __”
زندگی میں جو چپٹر مشکل ہو ان کو بند کر دینا ہی بہتر حل ہے نورِ حرم __” اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے اس نے اسے جانے سے روکا تو نور چند ثانیے اسکا چہرہ دیکھتی اسے جانچتی رہی __”
وہ صرف چپیڑ ہوتا تو سوچا جاسکتا تھا علیزے لیکن تمھارا بھائی میری زندگی کی پوری کتاب ہے اور ان کے اوارق پہ حسین پہلوؤں اسکی محبت اور اسکی یادوں کی رقم داستاں ہے جن کو بند کرنے کا خیال ہی سوہانِ روح ہے اور وہ محبتیں صرف اسکی تھی اس نے یکطرفہ محبت کی تھی وہ سہتا رہا اور میں مزید اسکی روح گھائل کرتی رہی جب دو طرفہ ہوئی تو مجھے یکطرفہ کرکے چلاگیا ___”
اب سہتی ہوں اکیلی __” اس وقت اسکی محبت کا اندازہ نہیں تھا لیکن اب پل پل ہجر کی سزائیں کاٹ رہی ہوں __”
یکطرفہ محبت میں اذیتیں بھی یکطرفہ سہنا پڑتی ہیں علیزے__ میں نے کچھ سہہ لی ہے ، کچھ سہہ رہی ہوں اور کچھ سہہ لوں گی پر شرط یہ ہے کہ اِس جہاں میں نہ سہی تو اُس جہاں پہ وہ میرا ہو زمین پہ نہ سہی تو عرش پہ روبرو آجائے __”
؁ مافقد بلارض یوسترد بالسما
جو کچھ زمین پہ کھوگیا ہے جنت میں مل جائے گا __”
یہ محبت نہیں پاگل پن کی انتہا ہے نورِ حرم ___” اسکی آنکھوں میں رقم حسرتوں کے پہاڑ دیکھتی علیزے نے اسے ٹوکا تھا__”
بہر حال چھوڑو سب باتوں کو کچن میں چلتے ہیں خوب ساری باتیں کریں گے پھر کیا پتہ ملاقات ہو نہ ہو___” وہ میشنی انداز میں یہ کہتی اسے لیے باہر آگئی __”
❤❤❤
صالح یار اب تُو ہی کچھ عرض کر دے ____” رات کے وقت کھلے آسماں تلے کیمپوں کے باہر ساری ٹیم محفل لگائے جشن منانے کا سوچتے لطف اٹھا رہی تھی یہ آج پہلا موقع تھا جو سارے بہت شاد نظر آرہے تھے کیونکہ مشن کی کامیابی کی بناء پہ خوشیاں منائی جانے والی تھی نیم لائٹ روشنیوں میں بسیرا رکھے خوش گیپوں میں مصروف تھے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے آج ہی سب کو قید سے رہائی ملی ہو کوئی گیت گا رہا تھا بار بار صالح کو خلوص سے ملتے اسکی ٹانگیں کھینچ رہے تھے کیونکہ کوئی بعید نہیں تھا اور دو تین ماہ میں اسکی پروموشن ہو جانے کا امکان تھا تو اس سلیسے میں یہ میدان سجایا گیا وہ سارے جگتوں میں مصروف تھے جبکہ صالح بس مسکراہے جا رہا تھا ___”
دودھ کڑھ کہ ملائی ہوگیا_________”
ہنڑ میرا ویاہ کر دیو مُنڈا پڑھ کہ سپاہی ہوگیا
جونئیر سپاہی رضا نے اسکے گرد ٹھٹھا لگاتے لڈی ڈالتے بنجابی ٹپہ گایا تو ساروں کے قہقے بے اختیار تھے وہ ٹیم میں سب سے شرارت و مستی میں ماہر سپاہی تھا حالت جتنی بھی نازک ہوتی وہ جگتوں کا میدان سجائے رکھتا ___”
صالح بیٹھ جا یار کہاں جا رہا ہے توُ ___” عیسیٰ نے اسے وردی جھاڑتے دیکھ کہ حیرت سے پوچھا جو اٹھ کھڑا ہوا تھا __
نماز پڑھ کہ آ رہا ہوں ___” مختصر سا جواب دیتے وہ جانے لگا جب اسکی تقلید کرتے کہیں لڑکے بھی اٹھ کھڑے ہوئے __
مولوی اب توُ میدان چھوڑ کہ بھاگ رہا ہے یہ بلکل اچھی بات نہیں ہے ___” رضا نے وارننگ دیتے اسے آنکھیں دکھائی __”
شیر میدان چھوڑتے نہیں توڑتے ہیں جگُتی انسان ___” عیسیٰ کو اس کی جُگت ذرا پسند نہیں آئی اس لیے آنکھیں پھاڑ کے عیسی کو یاد دہانی کروانا ضروری سمجھا ___”
پندرہ منٹ تقربیاً ٹیم کی آدھی سے زیادہ نفری اُسی میدان میں نماز ادا کر رہی تھی یہ منظر بڑا پیارا بھلا محسوس ہو رہا تھا پہلی دفعہ وہ یوں اکھٹے سر بسجود ہوئے تھے یہ پورا دستہ اللہ کے آگے سر جھکائے تھے وردی میں ملبوس فوجیوں کا یہ دستہ دو صفیں لیے دو جہانوں کی خوشی سمیٹ رہا تھا سجود میں سبحان ربی یااللہ کی پکار گونجتی تودل و دماغ جھکتے تو روحیں سکون کا درجہ اختیار کرتیں __”
ہم جو چیز کھو دیتے ہیں وہ سجدے میں پالیتے ہیں بس بات یقین کی ہونی چاہیے ___”
وہ نماز پڑھ کہ واپس آئے تو سب سےپہلے رضا زمین پہ لیٹ گیا جبکہ صالح ، عیسیٰ ، احسن ، فہد ، اس سے کچھ فاصلے پہ بیٹھ گئے __”
چل چل وے تو بندیا اس گلی اے جہاں
کوئی بھی تجھ کو نہ جانے ____”
وہ سر لگائے کسی انڈین گانے میں مصروف ہوا اس میں کوئی شک نہیں تھی اُس کی آواز میں بہت جادو ایسا تھا کہ اردگرد خاموشی چھاگئی ___
اوئے شرم کر جمعرات ہے کل ___” احسن نے الٹے ہاتھ کا بنجا اسکی طرف واہ کیا ___
اوہ سالے جمعراتی سید توُ اپنی زبان بند رکھ ___” ایک دھپ لگاتے عیسیٰ نے اسے خاموش کروایا ___”
کیا رہنا وہاں پہ سنڑ بندیا_____”
جہاں اپنے بھی تجھ کو نہ پہچانے
اس بار صالح بھی متوجہ ہوچکا تھا یہ الفاظ خودبخود اسے اپنی طرف کھینچ گئے اس کے گرد پوری ٹیم کا جم غفیر جمع ہو چکا تھا کیونکہ یہ موقع کبھی کبھی دیکھنے کو ملتا _
رہ گئے ہیں جو تجھ میں میرے لمحے لُٹا دے
میری آنکھوں میں آکے مجھے تھوڑا رُلا دے
چل چل وے تو بندیا اس گلی اے جہاں
کوئی بھی تجھ کو نہ جانے ____”
اسکا مطلب تیرا ارادہ بھیک مانگنے کا ہے ___ ” احسن کی آواز ایک دفعہ پھر سے ساکت ماحول میں ابھری رضا کا اشارہ اسکی طرف تھا گانے کے بول سے یہ ہی اندازہ لگا سکا است چپ کروا نہیں تو دانت باہر بھی آسکتے ہیں اس نے آنکھوں سے اشارہ عیسیٰ کو کیا___”
خواب جو ہوئے ہے کھنڈر خواب ہی نہیں تھے
اک نیند تھی نیم سی ہائے ________”
کھو دیا ہے جس نے وہ تیرا ہی نہیں تھا__
اک ہار تھی جیت سی ________”
کتنا رلائے گا یہ تو بتا بندیا وے _____”
تجھے ہے تیرے رب دا واسطہ _______”
وہ سب اسکے اردگر بیٹھے اسکے گانوں کے بول میں کھوئے ہوئے تھے رضا گانا گاچکا تو پورا ہجوم اپنے اردگرد اکھٹا دیکھ کہ آنکھیں واہ کرگیا __” مجھے تو لگا تھا میری سُر سن کہ مجائد بھاگ جائیگے گے___
ویسے اقبال کے شاہینوں ایک بات تو بتاؤ ___” کچھ دیر پہلے جب ہمارے قاری صاحب امامت کروا رہے تھے اس وقت تم سارے لعنتی کہاں مرئے ہوئے تھے ___اسکی بات سنتے وہ کان کجھاتے شرمندہ ہوگئے __
اور اس سالے کا تو اس وقت تو وہ حال تھا جیسے آخری سانس لے رہا ہو __” اس نے فہد کی طرف اشارہ کیا
وہ سب قہقے لگا رہے تھے مگر اس شخص کی سوچوں کا محور بس وہ لڑکی تھی جس کی ذات سے بھی اسکو عقیدت تھی __
ملکہ ترنم نور جہاں ___” اب بھی ہماری شان میں کچھ پیش کرے گی کچھ___” فہد نے صالح کے سامنے چٹکی بجائی __*
نہ نہ ___قاری صاحب سے امید نہ رکھنا یہ تو وہ ہیں پہلے کچھ سننے کی خواہش کی تو جواب میں آدھی جماعت میدان میں کھڑی ہوگئی اب خیال کرنا کہیں اسلامی محفل ہی نہ جم جائے ___” رضا تپ کہ بولا ___”
جب تک تک وہ سوئے نہیں تب تک صالح کے اردرد منڈلاتے رہے ___” یہ جانے بغیر اسکی خاموشی میں بھی لکار گونجتی ہے
❤❤❤❤
ساری رات اسکی کروٹیں بدلتی گزری تھی گھڑی دو بجا چکی تھی مگر نیند تھی کہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی دل جب حد سے زیادہ بوجھل ہوا وہ اٹھ کے اماں کے کمرے میں آگئی جہاں وہ سکون و وادی کی نیند میں پرسکون سو رہی تھیں وہ ماں کے چہرے کو تکتی رہ گئی
اپنی نافرمان بیٹی کو معاف کر دیجئے گا اماں ___” وہ ماں کے قدموں کی طرف بیٹھتے رو پڑی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے آنسوؤں حلق میں اٹک رہے تھے ان کے ہاتھ چومتے وہ باہر نکل آئی وہ ایک دفعہ ان کے گلے لگنا چاہتی تھی مگر انھوں نے صاف کہہ دیا کہ تم اپنے معاملوں میں خود مختار ہو ___” جب تک وہ صائمہ کمرے میں رہی وہ ساکت سی لیٹی رہی اسکے کمرے سے باہر قدم رکھتے ہی اسکی ماں آنکھیں واہ کرگئیں ___
اللہ تیری مشکلیں آساں کرے میری بچی میری اتنی کڑوی کسیلی سہہ کہ بیوقوفوں کی طرح مسکرا دیتی ہے __”کاش میرے بس میں ہوتا میں تیری آنکھوں کی چمک لاسکتی تیرا نصیب سونے کے قلم سے لکھ سکتی ___” ان کا دل دکھ سے دو چار ہوجاتا وہ جب جب اسکے ویراں چہرے اور آنکھوں کو دیکھتیں ___” کوشش کی تھی کہ تیرا نصیب سنوارنے کی مگر اب تیرا رب وارث ہے ___” وہ خود سے مخاطب تھیں اس نے انکی زندگی میں بیٹوں کی طرح کردار نبھایا تھا وہ اس پہ کرسکتیں روٹھ سکتیں تھی مگر اسے غلط نہیں کہی سکتی تھیں
چھوڑنا کہاں آساں تھا وہ تو اپنا سب کچھ یہاں چھوڑے جا رہی تھی یہ سوچ کہ وہ کل یہاں نہیں ہوگئی آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے کمرے میں واپس آئی کتنی دیر تو صالح ارمغان عالم کی تصویر دیکھتی رہی یہ وہ شخص تھا جس سے ملن کےلیے وہ خون کے آنسو رو رہی تھی ___یہ وہ شخص تھا جو دستیاب تھا تو اسکی ہستی کچھ بھی نہ تھی اس کے سامنے ، یہ وہ شخص تھاجو عام سے خاص اور خاص سے انمول ہوگیا __” بعض اوقات قمیتی لمحوں کی قدر کا اندازہ ہم لگا نہیں سکتے جب تک وہ ہمارے لیے فقط یادیں نہیں بن جاتے ___”
؎کیسی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی
کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے
رات جیسے گزر گئی صبح کے سورج پہلی کرن کا اجالا جیسے آنے والے وقت کی خوشی کی گھڑیوں میں انتظار لیے کھڑا تھا بس کسی کے سفر کے نکلنے کی دیر تھی مززل اسکی رائیں دیکھ رہی تھی
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial