قسط: 26 پارٹ 2
حیرت کی بات تو یہ تھی کہ مرینہ سرفراز اس کے بعد نظر نہ آئی اور نور حرم جیسے سولی پہ لٹک گئی ناکردہ الزامات کا بوجھ بڑھتا چلا گیا ایسا محسوس ہورہا تھاجیسے سب اس پہ ہنس رہے ہوں ___”
شام تک جیسے بات کو بہ کو پھیل گئی وہ جہاں سے گزری اساتذہ تو کیا لڑکیوں کی نگاہوں میں عجیب قسم کی رعونیت بھری باتوں میں اضافہ ہوتا چلاگیا گویا یہ رات بہت بھاری تھی الزامات کے ساتھ جینا بہت مشکل تھا کھانا کیا پانی کا قطرہ حلق سے نہ اتر سکا ___”
ایک دن میں ہی وہ الزام ، بہتان ، بے یقینی ، بے اعتباری جیسے اثاثوں کی مالک ہوگئیاپنے جرح کےلیے کہاں کہاں نہ بھاگی تھی دن سے شام ہوگئی حیرت کی بات تھی سر فیصل نے اسکے بعد کوئی دھمکی نہ دی مگر وہ غورو فکر کیسے کرتی ___” دماغ ہزاروں سوچوں میں کھب گیا __
دوپہر سے شام ، شام سے رات ہوگئی لمحہ بہ لمحہ گزرتی گزرتی غم کے سوچوں میں ڈھلی کربناک رات ، جرموں و بے قصور کی کشمکش میں الجھا وجود ،
سوچوں کا سفاک و خطرناک انداز ، پھر وقت صدیوں کی مانند طویل ہوتا چلا گیا __
سر پہ ناکردہ گناہوں کا انبار تھا آسودہ حالی پھر کیسے ممکن ہوتی طبعیت مضحمل پن کا شکار ہوگئی صبح ہوئی نجانے کب وحشتوں کو سمیٹی یہ عذاب میں ڈھلی رات بےیقینی سمیٹ الوادع ہوگئی نماز پڑھتے پرسکون ہوئی ___” آنکھیں سوج گئیں دماغ درد سے پھٹ رہا تھا مگر اپنی ذات کی ہار بھلا کسے منظور تھی ؟
خود کو سنھبالنے میں دیر ہوئی نوبج گئے، لیکچر شروع ہوگئے جس وقت وہ نکلی سیڑھیوں پہ لڑکیوں کا ہجوم سا تھا ہمیشہ کی طرح اپنی ذات میں اعتماد رکھتے نیچے آئی کہ سر فیصل سے بات کرنے میں کیا حرج تھا ؟ اپنی ذات کی پاسداری کرنا اسے آتی تھی ___ کمرے سے سیڑھیوں تک لڑکیاں فقرے کس رہی تھی ہنسی کے آواز نے دور دور تک پیچھا کیا مگر وہ آج وہ اجنبی کے گزری قدم پرنسپل کے آفس کی طرف تھے ___” وہاں چند ٹیچر تھیں اسے اطمنیان ہوا سب کو نظر انداز کیے اجازت طلب کرتے وہ اندر داخل ہوئی اس نے بات کا آغاز کیا پھر جو باتیں ہوئی اسے بے یقینی کی کھائیوں میں دکھیل گئی ___” اس میٹنگ کا دوارنیہ آدھا گھنٹہ تھا حیرت کی بات تھی سر فیصل نے اسے کوئی پوچھ گچھ تفشیش نہ کی اور نہ ان کی گفتگو دھمکی تھی__”
اسے معمول کی طرح لیکچر اٹینڈ کرنے کا کہا گیا اور ان کی کچھ ہدایات دی تھیں ان کی باتوں میں گویا کل کے واقعے کا ذکر تک نہ تھا بس اس بات پہ زور دیاگیا کہ سب کچھ بھول کہ بچیوں کے کئرئیر پہ توجہ دیں ___”ان سے بات ہوئی تو ایسا محسوس ہوا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو نورِ حرم کو کھٹکا سا ہوا کہ کچھ تو تھا جوصیح نہ تھا لیکن خاموش رہنے کے علاوہ چارہ نہیں تھا ___”
وہ صیح تھی اس میں کوئی شک نہ تھا ____؟؟؟ لیکن کچھ تو غلط تھا اس میں بہت سے شک تھے __؟؟ جو اس کی سمجھ سے باہر تھے لیکچر لیتے وقت ہزاروں سوال ذہن میں کلبلا رہے تھے دماغ کی گتھلیاں الجھتی جا رہی تھی اتنی آسانی سے بھول جانا اس کے بس کی بات نہیں تھی __” ایک سرا سلجھتا تو دوسرا الجھ جاتا ___” بہرحال اسے کھوج لگانی تھی بوجھ ضرور ہٹا تھا الزام نہیں دھلے تھے ___دماغ پہ زور ڈالنا چاہتی تھی مگر افسردگی کے بادلوں ، اور مختلف آوارہ خیالوں نے اعصاب کو شل کرکے رکھ دیا تھا ___”






















صالح کی ساری رات بے چینی میں کٹی تھی اسکا چہرہ بار بار عکس بن کہ اترتا جو آنکھوں کی روشنی بن کہ روح کو خیرہ کرتا رہا وہ غیر مرئی نقطے میں دیکھتا اپنی محبت کی کھوئی ہوئی ذات کو کھوجتا رہا کچھ تو کھٹکا اسے تھا کچھ تھا جو بہت غلط تھا اچھنبا یا ایک پہیلی جسے وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا یا سمجھنا ہی نہ چاہتا تھا ___؟؟ صالح ارمغان عالم کو اسکی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت نظر آتی وہ گھن کھاتی اسے ___” وہ اسکی آنکھوں میں چھپے پاک جذبوں کا غلاظت کا نام دیتی تو وہ ذومعنی سا مسکرا دیتا وہ چاہتا تو اسکی انا کو مسمار کرسکتا تھا جب وہ کھلے عام اسے دھتکارتی ذلیل کرتی وہ اسے اپنی تذلیل کا بدلا لے سکتا تھا مگر وہ محبت میں جبر کا قائل ہرگز نہ تھا وہ محض اسکی ایک جھلک دیکھنے کےلیے اسکی لفظوں میں چھپی حقارت سہہ لیتا یا ذلالت برداشت کرنا اُس نے اپنے پیشے سے سیکھ لی تھی __اس بات کا راز اسے آج تک معلوم نہ ہوا ___؟؟
یا اللہ میں کوئی خاص و پاکیزہ ہستی نہیں ہوں عام سا حقیر سا جو خطا کے پتلے میں گھرا ادنیٰ سا انسان ہوں میری دعاؤں میں شاید وہ شدت نہیں جو تیری بارگاہ ہلچل مچا دے اے اللہ وہ عورت تب مجھے عطا کی گئی جب میں کچھ بھی نہ تھا اے اللہ وہ عورت تیری عطا کی گئی بہت خالص تحفہ و نعمت تھی میرے لیے ___” اتنا کہ اس کے بعد میرے دل میں میری زندگی میں کسی عورت کی گنجائش بچتی نہیں ___” میں نے اس وقت اسے پایا جب ہر شے مجھ سے کھوگئی تھی آج جب میں نے سب کچھ پالیا تو وہ گمشدہ ہوگئی بس میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی وہ میری نسلوں کی امین ہو ___” میں اپنی ہر کمی و تشنگی کو مصلحت ایزدی سمجھ لیا میں صرف تیری رحمت کے صدقے پہ خاموش ہوں مگر اسے سوچوں تو صبر کی طنابیں ٹوٹ جاتی ہے ___” وہ کافی اسے باتوں میں مصروف تھا جو دلوں کے حال جانتا تھا ___
صبح فجر کی اذان شہر کی مسجدوں میں سحر بکھیر رہی تھی معمول کی طرح نمازِ فجر ادا کرتے سورة فتح کو تفسیر کے ساتھ پڑھتا یہ سورت اسکی ارادوں کو پختگی استقامت لاتی ___”
اگلے دس منٹ میں وردی زیبِ تن کی اور پھر بوٹ پہنتے اٹھ کھڑا ہوا بقیہ تیاری اسکے نزدیک صرف چند سیکنڈ کی تھی ملائم سا پردہ پیچھے کیے اسٹڈی روم میں داخل ہوا مگر ٹھٹک گیا جہاں ٹیبل پہ اسکے لیپ ٹاپ سمیت سلیقے سے سجی ہوئی چیزوں میں کبھی فرق نہ آتا مگر تین چیزیں میں اضافہ ہوا جو کسی کی بکھری ذات کی ادھوری داستاں کی رو داد دکھانے کے ماہر لگ رہے تھے سابقہ شام کی داستاں بھی ماضی کے بکھرے اوارق کی طرح بھی ادھوری رہ گئی _
لیپ ٹاپ کے آگے کپ اور الٹی کھلی کتاب ،کتاب کی دائیں جانب چشمہ ، بائیں جانب پڑےکپ کے بالائی حصہ پہ جمی چائے تہہ ، اس بات کی چشم گواہ تھی وہ یاد آئی تھی__پہلے وہ یاد آتی تو وہ دل کو دماغ کے تابع کرلیتا مگر اب وہ ہر جگہ عکس بن کہ نظر آتی تو دل کی کیفیات عجیب ہوجاتی کھوئے اثاثے کا رنج بڑھ جاتا ___” بمشکل آنکھوں کو جھپکتے اس کے خیال کو جھٹکنا چاہا ایسا کرنے سے جیسے وہ غائب ہوجائے گی __” خود کو مصروف کرنے کےلیے لیپ ٹاپ آن کیا تو سامنے سکرین پہ اسکی تصویر جگمگا رہی تھی جو گزری شام کو کئی گھنٹوں اسے تکتا رہا وہ کیا کرنے آیا تھا سب کچھ بھول گیا ___” یہ تصویر مہندی کی رات کی تھی جو اسے علیزے نے بھیجی تھی اس تصویر میں اسکی آنکھیں شاید پہلی دفعہ مسکرائی تھیں بے اختیاراسکی صورت دیکھی تو فیض احمد فیض کے غزل کے پسندیدہ اشعار گونج اٹھے __’
؎مجھ سے پہلی سی محبت
میرے محبوب نہ مانگ __
تیراغم ہے تو غم دہر کا__
جھگڑا کیا ہے______؟
تیری صورت سے ہے___؟
عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا
رکھا کیا ہے_____؟؟؟؟
تو جو مل جائے تو تقدیر__
نگوں ہوجائےیوں نہ تھا___
میں نے فقط چاہا تھا کہ یوں ہوجائے
فراق ہجر کے کھٹن وقتوں کی وہ آساں گھڑی تھی پہلے بھی یاد آتی مگر اب بے انتہا آتی اور اتنی آتی کہ صالح ارمغان عالم اپنی ذات تک بھول جاتا___” اب بھی بھول گیا وہ ہر چیز سے یکسر انجان تھوڑی کے نیچے دائیں ہاتھ کی پشت ٹکائے اسے دیکھے گیا ___










صالح ___” اپنے نام کی پکار پہ وہ لحظہ بھر کےلیے رکا پھر پلٹ کہ پکارنے والی ہستی کو دیکھا عیسی اسے دیکھ کہ ٹھٹھکا ___” میدان میں ٹریننگ آفسیررز نئے آنے والے بھریتوں کی محنتوں میں سرکوشاں تھے یونٹ میں سپائیوں کی بلند صدائیں گونج رہی تھیں ٹریننگ میں سولجر کو رات کے وقت زیرِ استعمال لانے کے لیے ٹارگٹ کو ہنٹ کرنے کی سرتوڑ کوشش میں مگن تھے اس وقت میدان میں پلا”ٹون ، سٹاف” آفیسر سپاہی اور مختلف عیدے کے آفیسر بھی تھے مشقیہ ٹریننگ کی اہم سرگرمیوں کی بریفنگ آنے والے وقت ؛کوخبر دار کرنے اور ان کو معلومات سے آگاہ کرنے کےلیے بہت ضروری تھی عیسیٰ نے ایک نظر دیکھا دیکھتے پھر اسکی جانب چلا آیا _”
کہاں غائب تھا پچھلے تین دن سے نظر نہیں آیا ___” جیب میں ایک ہاتھ پھنسائے
دوسرےہاتھ سے پیشانی مسلتے عیسیٰ نے استفسار کیا __”
فرو ” نٹیرز ” کور ز کو آپریٹ کرنے میں مصروف تھا___” صالح ضرورت کے مطابق دیتے خاموش ہوا عیسیٰ نے اسے دیکھا شش و بنج بڑھ گیا __
میں گیا تھا مگر __” وہ ہکچا رہا تھا صالح کے تاثرات سرد ہوئے نظر پریشان حال سپاہیوں پہ ٹکی تھیں عیسیٰ کبھی تاثرات دیکھ سکتا مگر وہ پڑھنے میں ماہر ہرگز نہ تھا__
چوتھی برسی کا اہتمام کیا گیا ہوگا ___” صالح کا لہجہ ٹھنڈا ٹھار سا سرد موسم ہجر کی رات کی طرح تھا_
تجھے یاد ہے ___؟؟عیسی کی آواز میں بے یقینی تھی اب ہجوم چھٹ رہا تھا آوازیں دھم پڑتی محسوس ہوئی __
اپنی موت کا دن کون بھولتا ہے بندے کی قدر نہ سہی مگر ہر سال قبروں پہ چادریں مہنگی اور تازے خوشبو رکھنے رکھنے سے روحیں خوش نہیں ہوتی ___” موت برحق ہے مگر مزہ تو تب ہے زندہ کی قدر کی جائے __” آنکھوں میں سکوت ، انداز میں سرد پن عیسی سب سمجھ رہا تھا __”
کچھ دیر پھر خاموشی چھاگئی عیسیٰ چند لمحے بول نہ سکا __
ماں کیسی تھی ___؟؟ اور؟؟ آگے وہ لب کشاہی کر نہ سکا مضبوطی میں کچھ ٹوٹ جانے کا عنصر تھ باپ کا ذکر زباں پہ آ ہی نہ سکا __”
اک شخص دیکھامیں نے جھکے کندھے ، بالوں میں چاندی کا اضافہ نگاہوں میں جھلکتا غضب غائب __” جیسا توُ بتاتا تھا گھر خالی، ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ چیخ چیخ کے صالح ارمغان عالم کے جانے کا غم بتائیں ، مگر میں نے اس شخص کے لرزتے ہاتھ میں صبر کی کنجیاں دیکھی ضبط کے شکستہ تالوں کو وہ دیکھنے سے ڈر رہا تھا کہ کہیں ٹوٹ ہی نہ جائیں اک آہ تھی آنکھوں میں__اک واہ تھی لبوں پہ ___”
اور زبان پہ ورد چھوٹے سے محلے میں بسنے والے ایک بگڑے فریق کے تھے دل کیا تھا بتادوں سارے اگلے پچھلے حساب بے باک کردوں مگر پھر تیرا خیال آگیا___” اس کے اظہار سے اگلا سانس نہ لے سکا وہ چند لمحے چہرہ موڑے اسے دیکھے گیا ___”
تیری ناراضگی میں انا کے رنگ نظر آنے گے ہیں صالح یہ رنگ جب گہرے ہوجائیں تو کہیں زندگیاں بے رنگ ہو جاتی ہیں تمھارے لیے پیچھے پلٹنا ممکن تھا صالح لیکن تم شاید اس زندگی کی عادی ہوگئے ہو __عیسی کا انداز احتجاجی سا تھا وہ تاثرات چھپانے کےلیے درختوں کی اوٹ بڑھ گیا عیسی بھی پیچھے تھا باپ سے ملنے کی شدت خواہش پلٹ گئی جو بھی تھا باپ کا ایسا حال اسے قطعاً پسند نہ آیا __”
ہاں شاید ___” وہ کندھے اچکا گیا جیسے یہ باور کروانا چاہا کہ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا __”
حقیقت تو یہ ہے کہ تم ایک دھوکے باز لڑکی کےلیے خود
غرض بن گئے ہو صالح وجہ اور کوئی نہیں ہے ورنہ تین سال تو محض بہانہ تھے ___” اسکے الفاظ گویا برچھی تھے جو صالح کو سینے تک اترتے محسوس ہوئے آنکھوں کے تاثرات یکدم بدل گئے پاؤں میں جیسے اس کے الفاظ پہے بیڑیاں ڈلتی محسوس ہوئی عیسی اسکے نگاہوں کے خم زوایے کو دیکھتا یکدم خاموش ہوا __”
نہیں ہے وہ دھوکے باز ___” دوسری شادی کا حق شریعت نے اسے دیا ہے مفتی صاحب اور کئی علماء سے بھی میری اس متعلق بات بھی ہوئی ہے اگر شوہر مرجائے تو شریعت کی رو سے بیوی دوسری شادی کا بھرپور حق ہے کیونکہ اس صورت میں پہلا نکاح ٹوٹ جاتا ہے وہ نکاح میرے بعد میری غیر موجودگی میں ہوا ___” مجھے مردہ سمجھ کہ ہوا ___”
جانا چاہتا تھا دیکھنا چاہتا تھا مگر اُسے اپنے باپ کے دوسرے بیٹے کے ساتھ دیکھنے کےلیے زمین و آسماں کی وسعتوں جتنا حوصلہ چاہیے جو نہیں ہے مجھ میں ___” اسے زعفران کے ساتھ تو کیا کسی مرد کے ساتھ دیکھنے کی ہمت نہیں ہے اب ڈر لگتا ہے کہ کہیں خدا کی اتنی وسیع دنیا میں اور وہ روبرو نہ ہوجائیں ___” جس جگہ جہاں کبھی میں تھا اب وہاں زعفران ہے __” یہاں آکہ لگتا ہے اصل مات وہ ہے اس سے آگے سوچناہی نہیں چاہتا ___”
کبھی کبھی لگتا ہے کہ میرے اور اس کے بیج دنیا آگئی ہے گویا اسے بچھڑنے کا وہ ایک سال غار اصحابِ کہف میں گزر گیا جب آنکھ کھلی تو علم ہوا میرا زمانہ گزر گیا میرے سکے کھوٹے ہوگئے میری بات سمجھنے والے لوگ گزر گئے سب کے چہرے پہ شناساہی ختم ہوگئی مجھے پہچاننے سے انکاری ہوں جیسے سب __” میرے زمانے ختم ہوگئے ہیں عیسی ___” بیٹے کا نہ سہی انسان انسان کا وجودہوگیا ___ وہ ان چار سالوں میں پہلی دفعہ یوں براہ راست اپنے متعلق بتا رہا تھا ورنہ بہت کم لوگ جنھیں اسکی ہستی تک رسائی حاصل تھی چہرے پہ راز و اجنبیت کا پرکشش خول ایسا تھا جو لوگوں کو ایک مقناطیسی کشش کی طرح اپنی جانب کھینچتا __ “
رہی بات ماں باپ کی اور زندگی کے ان سہنری سالوں کی تو یہ مرتبے ، یہ عہدے بیٹھے بیٹھائے نہیں ملتے اپنی ہستی کو مٹانا پڑتا ہے مشن شروع کرنے سے پہلے معائدے پہ دستخط کیے تھے کہ ان تین سالوں میں موت ہی اس معائدے کو توڑ سکتی ہے اور کوئی چیز نہیں اور کور والا معاملہ ختم ہو تو اماں ابا کو یہاں لے آؤں گا ___”
ایک اور بات آج وضاحت دی ہے اسکے بعد نہیں دوں گا ہنسی مذاق لاکھ سہی لیکن یہ بات تجھے معلوم ہے تو اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ تو ناجائز فائدہ اٹھائے ___”
تعلق نہ سہی عزت و احترام ابھی تک میرے دل میں قائم ہے یہ کبھی ختم نہیں ہو گی ___” کمال احتیاط سے چلتے وہ اس کے مقابل کھڑا کہہ رہا تھا عیسی نے ایک نظر اسے دیکھا پھر چہرے پہ نافہم سی مسکراہٹ نے احاطہ کیا پھر وہ ہنستا چلا گیا___”
اور محبت ___؟؟؟ ویسے تیری زندگی کی داستاں پھیکی ہے ___” وہ ہنس رہا تھا اورصالح کو لگا کہ وہ اسکا امتحاں لینے پہ تلا ہوا ہے __”
جھینگروں کی آوازوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا سکوت ماحول میں پرندوں کی ہلکی سی پرسکون چہچائٹ مدھم ہوتی جارہی تھی __
زندگی بذات خود داستاں ہے عیسیٰ جس میں بعض اوقات من چاہے کردار نہیں ملتے ان سے محبت ہوسکتی ہے انسیت ہوسکتی ہے نہیں ہوتا تو ملن نہیں ہوتا ___”
میرا وجود ختم ہوجائے لیکن اُس کےلیے محبت ختم نہیں ہوگی __
فرض کر اگر تقدیر پھر سے اسے تجھے ملا دے تو تیرا ردعمل کیسا ہوگا ___”عیسی نے جیسے اسکی محبت کی وسعت کا اندازہ لگانا چاہا ___”
مل گئی تو معجزہ نہ ملی تو موت___” اسکا انداز بھی جیسے ضدی ہوگیا __
واہ جی واہ ویسے محبت کی اس حسین داستاں میں مجنوں کو کون سا تمغہ پیش کیا جائے ___؟ اس سنجیدہ سے ماحول میں عقب پہ رضا کی آواز گونجی صالح نے اسے بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوتے دیکھ کہ گہری سانس بھری لو جی یہ ہونا رہ گیا __
میں کہتا ہوں یہ لے ___” دونوں ہاتھ بڑی دلکشی سے اسکی طرف پیش کیے گئے عیسی صالح کے تاثرات دیکھتا منہ پہ انگلی رکھے اسے زبان بند رکھنے کی تاکید نزدیک چلا آیا ___” اشارہ بس خاموش رہنے کا تھا __
بکواس نہ کر اسکا مرتبہ اونچا ہوگیا ہے اب وہ کچھ بھی کرسکتا ہے مطلب کچھ بھی کرسکتا ہے کمانڈ اسکے انڈر ہے خیال کر ___” عیسی کو جیسے فکر لاحق ہوئی لیک
رضا کا قہقہ بے ساختہ گونج اٹھا __
یہ صرف خطبے ہی دے سکتا ہے ___” ویسے بھی فکر مت کر پلٹون ” ن اور سپاہی کی کمانڈ اس کے انڈر نہیں ہے ڈرنے کا نہیں کچھ کرنے وقت ہے ___” اس نے صاف ستھرے انداز میں چیلینج کیا __”
دیکھتے ہیں پھر ___؟؟ تیار رہنا ___؟؟ نیند پوری کرلینا __ صالح اسکے قریب سے گزرنے لگا تو کندھے پہ ہاتھ رکھتے کچھ پل ٹھہرا چہرے پہ ہمیشہ کی طرح سنجیدگی طاری تھی مر گھنی پلکوں تلے غلافی آنکھوں میں کچھ نیا تھا جسے رضا کو کھٹکا ہوا اس لیے اسے صدائے لگائی جس کے اٹھتے قدم کوارٹر کی طرف تھے __”
مولوی مذاق کر رہا تھا یار ___” صفائی کے ساتھ عرض اتر آئی تھی __
پر میں مذاق نہیں کر رہا ____” بے ساختہ کہتے س نے ہاتھ ہلائے تو رضا نے عیسی کو بے بسی سے دیکھا جو مسکرا کے کندھے اچکا گیا__







ساڈے اپنڑیاں ساڈے تے ظلم کیتے
ساکوں کاں دے گلے بیگانے تے __”
سانوں حشر دے دن تک نہیں بُھلدے
کیتے سجنڑ جو ظلم نمانڑیں تے __”
پونچھا لگاتے رضا نے گیت کی بھرپور نقل اتارتے گویا عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی کو پیچھے چھوڑ دیا فہد جو میس کی تیاریوں میں تھا ایک نظر اسے دیکھا فارمل سی خاکی پینٹ شرٹ پہنے اس وقت بارکس کے وسیع حال میں صفائی میں مصروف دکھڑے رونے میں مصروف تھا آج یہ ڈیوٹی سزا کے طور پہ اسے دی گئی تھی __”
یونٹ میں گویا افرا تفری کا سماں تھا کیونکہ اتوار کے دن سپاہیوں کےلیے گویا عید کا دن تھا پریڈ گروانڈ میں آج قدرے خاموشی اور ہجوم بھی نہ ہونے کے برابر تھا مگر اسکے برعکس سپورٹ گروانڈ میں والی بال کا کھیل جاری تھی بیڈ پہ بیٹھا کوئی سپائی محبوبہ سے باتوں میں مصروف تھا رضا نے ایک نظر والی بال کھیلتے سپائیوں کو دیکھا اور پھر پلٹ کہ پونچھا ہاتھ میں اٹھائے فون میں گم سپاہی کو دیکھا وقفے وقفے کے بعد ابھرتی ہلکی پیار بھری سرگوشیوں کی آواز سنائی دے رہی تھی کچھ پل وہ ڈاڑھی کجھاتا اس دلچسپ کاروائی کو دیکھتا رہا پھر کنکھارا__
ہم فوج میں محلہ موج میں ___” بلند آواز میں کہتے ہاتھ کی انگلیوں کو موڑتے داد دیتے وہ پھر سے کام میں مگن ہوگیا سپاہی لمحہ بھر کےلیے شرمندہ ہوا پھر فون اٹھائے باہر چلاگیا گویا اسکی مداخلت پسند نہ آئی __”
بخدا ہم پیار کے دشمن نہیں ہے لیکن دشمنوں کا پیار دیکھ بھی نہیں سکتے ___” ٹھنڈی آہ بھر کے کہتے پھر سے گیت میں مصروف ہوگیا سرخ و سفید رنگت کا حامل تئییس سالہ نوجوان کو دیکھتے سپاہیاں اسے جھانک دیکھتے لطف اندوز ہو رہے تھے جسے یہ سزا بہت بڑی لگ رہی تھی __
؎ اوہ گلہ غیراں تے بنڑڈا نہیں ساڈا
سانوں اپنڑیاں زہر دا جام دیتا __”
محترم یہ یونٹ ہے آپکی اماں کا گھر نہیں ہے اتوار ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ پوری یونٹ ، بارکس اور کوارٹر میں ڈسٹربنس پھیلائیں ___ ” صالح ارمغان عالم اندر داخل ہوا رضا کا کامکمل ہونے کے قریب تھا اسے دیکھتے ماتھے پہ چمکتا پسینہ صاف اٹھ کھڑا __” کیونکہ وہ اس وقت محض اور اصولوں پہ قائم رکھنے والا سخت گیر اور پیشے کے لحاظ سے اسکے مدِ مقابل تھا اسکی کی ذات میں ایک اچھوتا سا جھلکتا روعب کہ سامنے کھڑا شخص جتنا بھی اسکے قریب ہوتا بات کہنے میں جھجک محسوس کرتا وہ شاید ابھی ابھی کوارٹر سے آیا تھا پیشہ وارنہ انداز اپنائے اسے دیکھا ان کے درمیان کوئی چیلنج کی بات ہوئی تھی جیسے وہ سب نظر انداز کردی گئی یہاں وہ صرف ایک سنیئر تھا _
میرے ساتھ کوارٹر میں آئیں ___” اسے ہونقوں کی طرح منہ دیکھتے رضا کا چہرہ مزید اترگیا وہ جانتا تھا اگلی سزا اسکی منتظر تھی ___”
مولوی ایسا نہ کر رحم کر میرے چھوٹے چھوٹے ماں باپ ہے انھیں بھنک بھی پڑگئی کہ ان کا وہ بیٹا جو اٹھ کہ پانی کا گلاس تک نہ پیتا تھا فو”ج اس بیٹے کو پیس پیس کہ چھان رہی ہے اور چھان چھان کہ پیس رہی ہے تو وہ یہ صدمہ برداشت نہیں کرپائیں گے مولوی میں جانتا ہوں تیرا اس وقت یہاں کوئی کام نہیں بس تو میرے زخموں پہ نمک چھڑکنے آیا ہے __پچھلے ایک ہفتےسے کام کرکرکے لگتا ہے میں فوجی کم کھوجی بن کہ رہ گیا ہوں ___”پونچھا زمین پہ پھینکتے اس کے انداز میں کافی بے بسی تھی___
اگلے پانچ منٹ میں آپ کوارٹر میں ہوں ___” صالح نے حکم دیا تھا ___”
جی سر ___؟؟ سلیوٹ پیش کرتے وہ مودب کھڑا ہوا کیونکہ اس وقت صالح ارمغان عالم سنجیدہ تھا لیکن اسے دیکھتے ہلکی ڈاڑھی تلے سنجیدہ لب مسکرا اٹھے وہ ہاتھ پیچھے باندھتا پلٹ گیا تھا ___”
توُ ظلم ستم دی حد نہ کر
میں اپنڑاں صبر نبھسیاں
اس کی پشت کو دیکھتے اس نے اپنا حلیہ درست کیا مگر اندر کا غمزدہ عطا اللہ پھر سے جاگ اٹھا سر پہ ہاتھ کی پشت رکھے غم کی عملی تفسیر نظر آرہا تھا __” اس سے پہلے سزا مزید بڑھ جاتی وہ منہ پہ انگلی رکھے باہر نکل آیا _”





دن سبک خرامی سے چلتے گئے وہ خود پہ پڑے الزامات کا بوجھ ابھی تک اسکے کندھوں پہ تھا جسے جیسے یوں نظر انداز کیاگیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا__
وہ آج فرح کے ساتھ مارکیٹ تک آئی تھی کیونک پیسے اماں کے اکاونٹ کے ٹرانسفر کروانے کےلیے مجبورا بازار تک آنا پڑا اس سلسلے میں وہ فرح کے ساتھ گئی مارکیٹ سے نکلتے انھیں کافی دیر ہوگئی اور پھر قسمت نے ساتھن نہ دیا بس بھی راستے میں خراب ہوگئی تھی ادھیڑ عمر کنڈیکٹر اور ڈرائیور ٹھیک کرنے میں مصروف تھے
قسمت نے اسے کہاں سے پٹخا تھا ادارک آج ہوا ماں کی باتیں ذہن میں گونجنے لگی انھوں نے بلکل ٹھیک کہا تھا دو چار کتابیں پڑھ کہ اسے لگتا ہے یہ دنیا فتح کرلے گی پتہ تو چل جائے گا جب یہ در در ٹھوکریں کھائے گی آج اسے علم ہوا کہ وہ اسکی ماں کی بد دعا نہیں بلکہ زندگی کا تجربہ تھا اس حقیقت سے پیچھا چھڑایا تو صالح کی یاد شدت پکڑ گئی اسے اب صالح کا پچھتاوا نہیں بلکہ خود پہ رحم آتا اصل خسارہ تو اسکا ہوا تھا وہ اسے یاد نہیں کرتی تھی بلکہ وہ یاد آجاتا تھا وہ پچھلی دفعہ گھرگئی تو اماں نے بے اختیار ہاتھ جوڑ دیے گویا صالح کے علاہ کسی اور شخص کا ذکر بھی اسکی کے نزدیک دکھتی رگ تھا ابھی وقت ہے زعفران سے نہ سہی تو کسی عزت دار شخص سے شادی کرلو کب تک فقط اُس کے نام بیٹھی رہو گی ___”لیکن اسے اپنے بگڑے سے مانی کے نام علاوہ کوئی بھی نہیں منظور تھا اسکا دائرہ بس اسکی ذات تک گھومتا تھا __”
؎ میں چٹیاں فجراں لبدی ہاں
مینوں گھپ اندھیرے ملدے نے
مینوں دل دا محرم نہیں ملایا
مینوں یار بتھیرے ملدے نے
میم فرح اگلی سیٹ پہ بیٹھی ہوئے ایک نظر فرنٹ سیٹ پہ ڈالتے وہ تھکی تھکی سانس خارج کرتے سر کھڑکی کے ساتھ ٹکائے باہر دیکھنے میں مگن ہوگئ
دیو قدوقامت درخت بلند و بالا چوٹیاں ، سرسبزو پہاڑوں کے درمیان سے نکلتی پانی کی آبشاریں یچے گرتی جھیل میں ملتیں سترنگی تاثر دے رہی تھیں ٹریکنگ روٹ کے ساتھ بہتی جھیل میں ملتا یہ پانی اٹھکلیاں کھا رہا تھا ریور کراسنگ ، راک کلائمنگ ، زپ کلائمنگ ہر طرح کی خوبصورتی قابل دید تھا دھوپ کی شعاعوں نے گویا مزید چار چاند لا دیے تھے وادی کلام کا منظر اس نے پہلی بار دیکھا تھا جو مصنوعی رنگوں سے پاک قدرتی حسن کی دولت سے مالا مال تھا چند لمحے وہ خود کو بھول گئی اس نے ساحتی مقام کے بارے میں صرف سن رکھا تھا حقیقت میں اسکی سوچ سے بڑھ کہ خوبصورت تھا مگر اسے سارے رنگ پھیکے سے محسوس ہوئے ____”
دیکھتے دیکھتے نگاہوں کا رخ الٹ گیا آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں وہ کہیں پل آنکھیں جھپک نہ سکی آر” می جیپ کے پیچھے دو تین گاڑیاں جو باہیں اطراف کی راہ گزر پہ رکی تھیں خاکی وردی میں ملبوس وہ شخص سر پہ میں پہنی کیپ ، بازوں کھڑکی پہ ٹکائے سڑک کے ساتھ بہتی جھیل کو دیکھ رہا تھا اور کچھ کہہ بھی رہا تھا وہ اتنے فاصلے پہ بھی اسکے بازؤں پہ بندھی گھڑی تک کو دیکھ سکتی تھی تھوڑی کے نیچے ہاتھ بازوں کو موڑے سنجیدگی سے دیکھتا رخ پھیر گیا ___بے اختیار جھپاک سے آنکھوں کی پتلیوں میں کچھ منظر نورِ حرم کی آنکھوں میں ٹھہرگئے ___
لمبے بال ، کانوں میں پہنی مندری ، ہاتھوں پہ بے شمار دھاگے ، سر پہ لگایا گیا تیل ، آنکھوں میں سرمے کی دھار ، بڑے بڑے کُرتے اور پرانی سے جینز اور پاؤں میں ماپ سے بڑی چپل پہنے اسکا عکس گھوما ___” اسے بے اختیار سیڑھیوں سے اترتا دھپ دھپ کرتا وہ خود سے بیگانہ اور کبھی چاچو سے مار کھاتا اک شخص یاد آگیا __
وہ جھیل کے اس پار جیپ میں بیٹھے شخص کو دیکھ کہ ساکت رہ گئی اسے اپنی آنکھوں پہ یقین ہی نہیں آیا نہ وہ دھوکہ تھا نہ وہ سراب تھا ___مانی اور سامنے بیٹھے شخص میں زمین آسماں کا فرق تھا مگر پھر بھی وہ اسے ہزاروں کروڑوں میں پہچان سکتی تھی بہرو”پیہ صرف وہ دنیا کےلیے تھا اسکےلیے وہ مانی تھا اسکا صالح ارمغان عالم تھا جس کےلیے چار سال ایک بت کی طرح پرستش کی اُس کے اس روپ سے وہ پہلی دفعہ متعارف ہوئی وہ تصویر میں اچھا لگتا تھامگر روبرو اسے دیکھنا اتنی باوقار شخصیت کا ادارک اسے آج ہوا __”
وہ آوارہ لفنگا سا مانی ان چار سالوں میں سنجیدہ و سوبرصالح ارمغان عالم کے روپ میں ڈھل گیا نگاہوں میں حیا کا پہرہ واضح نظر آتا __”
کوئی دوسرا سپاہی پانی بھرتا پچھلی جیپ میں سوار ہوا فقط ایک نگاہ بہت سارے راز افشاں کرگئیں اس نے آنکھیں مسل کے بے یقینی سے دیکھا اور دیکھتی رہ گئی __جب تک اس نے ہوش کی دنیا میں قدم رکھا تب تک جیپ فراٹے بھرتی نظروں سے اوجھل ہوگئی _
پہلے ایسا لگا وہ گماں تھا مگر عشق کی آنکھ نے اسے دیکھا پھر کیوں اور کیسے گماں ہوسکتا تھا وہ تیزی سے بس کے پچھلی حصے سے باہر نکلی ___”کئی لوگوں نے حیرت سے اس بھاگتی لڑکی کو دیکھا ___”
صالح ___” پاگلوں کی طرح اس نے پکارا وہ چھوٹی سے بہتی جھیل پار کرتی اس جگہ آکھڑی ہوئی جہاں کچھ دیر پہلے وہ جیپ کھـڑی تھی اور اس میں وہ شخص تھا جو چار سال اسکے دل کے نہاخانوں یں قید تھا صدا میں تڑپ تھی
صالح ___آواز پہلے سے بلند تھی صالح کا نام گونجا ___”
پچھلے چار سالوں سےوہ اس شخص کو نقش نقش میں کھوجتی رہی مگر وہ نہ نظر آیا پھر اس کے محبوب کی صدا سوات کے پہاڑوں میں گونجی تھی جو کلام کی وادیوں کو سنائی دی دیدارِ یار کے نصیب نے جیسے ہر منظر کو ساکت کردیا وادیاں ، چرند پرند بہتی اور سڑک کے درمیان بہتی جھیل تک کا شور تک جیسے گہرے سکوت میں تبدیل ہوگیا ___”
کوئی عشق مجازی کی تڑپ سے انجان سا اپنے سفر میں مگن تھا اور کوئی ایک جھلک پہ سب کچھ لٹا کہ خالی ہاتھ رہ گیا وہ ان چار سالوں میں سےاسکا رہا سکون بھی لے کہ فرار ہوگہا بس کے مسافروں نے جھانک کے حیرت سے سڑک کے پار دیکھا جو چادر میں گم خالی راہوں کو حسرت سے تک رہی تھی سیرو تفرحی تک آنے والے سیاح تک اس بکھری سی لڑکی کو دیکھنے پہ مجبور ہوگئے یہ منظر اُن کےلیے باعث حیرت تھا ___ اسے سارے رنگ پھیکے پڑتے محسوس ہوئے تھے مس فرح اسے پکار رہی تھی اور اسکا دل خالی ہوگیا چار سال کے لمبے انتظار کے بعد صرف ایک پل آیا اور پل میں رخصت ہوگیا ___” اس کے بس میں ہوتا تو وقت کو روک دیتی ___”
نورِ حرم پاگل تو نہیں ہوگئی چلو یہاں سے ___فرح اسکے قریب پریشانی سے پکار رہی تھی چہرے پہ شرمندگی بھی تھی ___
وہ صالح تھا ___وہ غازی ہے ___؟؟؟ تو پھر اُس نے شہادت کا جھوٹ کیوں بولا ___؟؟
اس کے چہرے پہ بیک وقت پریشانی و خوشی کے آثار تھے جو سامنے کھڑی لڑکی سمجھ نہ سکی اسے وقت وہ خطبی لگ رہی تھی ___”
چلو ___بہت مشکلوں سے اسے ہاتھ سے پکڑتے تقریباً گھسیٹتے لے کہ جارہی تھی جس کے نظریں ابھی تک ویراں سڑکوں پہ تھیں __







چاچو نے میری بات کا یقین نہیں کیا تم تو کرو ___” بخدا وہ صالح تھا ___” وہ وضاحت دیتے دیتے تھک گئی ہوسٹل پہنچتے ہی اس نے چاچو کو فون کیا جو اُداس سے مسکرائے اور بولے تو آواز میں رنجیدگی تھی ___”
جانے والے کبھی لوٹ کہ نہیں آتے میری جھلی سی دھی ___” وہ بس یہ ہی کہہ سکے___ پھر کچھ باتوں کے بعد فون بند کرتے اس نے علیزے کو کال ملائی تھی
کیا گیا ہوگیا ہے نور تمھیں ___” تم اتنی سمجھدار تھی یہ بیوقوفانہ باتوں کی امید ہرگز نہیں تھی مجھے تم سے ___” مانتی ہوں صالح کی شہادت کا تمھیں دکھ ہے مگر اتنا ذیادہ یہ تو پاگل پن ہے ___؟؟ کسی اچھے سے سائیکاٹرٹ سے علاج کی ضرورت ہے تمھیں _____” علیزے نے اسے ڈپٹا اور خفگی سے فون بند کرگئی ___”
تم نے مجھے سچ میں پاگل کر دیا ہے صالح __” وہ تصور میں اسے مخاطب ہوئی ان چار سالوں کے سارے غم بھول گئے فقط تمھاری ایک جھلک ہر چیز وار دی ___؟؟ حیرت تمھارے غازی ہونے پر نہیں ہے حیرت تو اس بات پہ ہے تم نے میرے زندگی کے اتنے قمیتی سال ضائع کردیے ___” جس وقت میں تمھارے ساتھ تصویروں میں رنگ بھرنا چاہتی تھی اس وقت میں نے زمانے کے ہر رنگ دیکھے ___” کھڑکی میں کھڑی وہ شکوہ کناں انداز لیے محو کلام تھی __