قسط: 27
نورِ حرم کئی دن اس کے دیدار کے حصار میں رہی بے رنگ و پھیکی سی زندگی میں اسکی ایک جھلک ہر غم پہ بھاری تھی صالح سے رابطے کی کوشش کا اس نے ایک دفعہ سوچا مگر پھر کچھ یاد آنے پہ خود کو وقت کے دھارے پہ چھوڑ دیا کیونکہ صالح اسکا نصیب تھا جس نے جلد با دیر ، دور یا قریب اسی کا رہنا تھا وہ کچھ دنوں ڈسٹرب رہی مگر پھر جیسے تیسے کیھنچ تن کہ خود ہمیشہ کی طرح نارم کرلیا ____”
بی بی اے کے پیپر کی وجہ سے اسے ان دنوں اسے کافی رعایت مل گئی __” ہوسٹل والوں نے مہینے کے آخری ہفتے میں بہت بڑی تقریب منعقد انعقاد کا فیصلہ طے کیا تھا ایک عام سا دن تھا بدلتے موسم کی ٹھنڈی رت میں ہلکی ہلکی ہوا کا راج تھا دیودار پیروں کی ٹھنڈی ہوا نے موسم کو راحت بخش رہی تھا یہ قدرے ٹھنڈا علاقہ تھا تب ہی سکون کا جہاں اباد تھا __
ابھی ابھی انفیٹی روم میں اسے کسی کے ملنے کی اطلاع ملی وہ تیزی سے سیڑھیوں سے اتری ہلکے آسمانی رنگ کے سوٹ میں ملبوس وہ متوازن سی چال چلتی لابی میں داخل ہوئی جب اسکے سامنے وہ شخصیت آئی س نے اسکی عزتِ نفس پہ وار کیا مگر پھر بھی اسے حالات کا سامنے کرنے سے روکنے والا کوئی پیدا نہیں ہوا ___”کیونکہ اسے اپنے اللہ پہ یقین تھا جو بہترین کارساز تھا مگر ابھی اسے سامنے دیکھ کہ وہ اسے نظر انداز کیے جانے لگی جب مرینہ سرفراز اسکے مقابل آکھڑی ہوئی __”
بھول تو نہیں گئی میم آپ مجھے ___” بلیک جینز اور وائٹ شرٹ میں وہ دندناتی ہوئی پھیر رہی تھی اس دن کے بعد نورِ حرم نے اسے آج دیکھا اور افسوس کے علاوہ وہ کچھ نہ کرسکی ___”
چچ چلیں بتاتی ہوں میں ہوں مرینہ سرفراز ارے وہی جس سے فون لینے کی غلطی سے جرات کر ڈالی تھی آپ نے اس نے لبوں کو اوہ کی اشکال میں سیکڑا__”
چچ چچ اس دن بہت افسوس ہوا آپ کی حالت دیکھ کہ مگر کاش آپ سے یہ غلطی ہوتی تو کچھ تو آج آپ کے پاس ہوتا ؟؟ ارے نام نہاد عزت کے علاوہ تھا ہی کیا آپ کے پاس ___؟؟ اس دن آپ کو روتے ہوئے دیکھا اور سچی مجھے بہت زیادہ ترس آیا ہائے افسوس بہت زیادہ دکھ ہوا کہ صرف عزت کا ترازو تو تھا ہی آپ کے پاس ___؟؟ میں بھی کبھی کبھی زیادہ شدت پسند ہوجاتی ہوں لیکن آپ کو بھی تو چاہیے تھا کہ میری تشویش کرنے سے پہلے ایک بار دیکھ تو لیتیں کہ میں کون ہوں ؟؟
پونی ٹیل بال آگے پیچھے ہوا میں لہرا رہے تھے لہجے میں انتہا کا غرور سجا ہوا تھا دائیں ہاتھ میں پکڑے آئی فون کو کنپٹی پہ بجاتی انگلیاں ، چہرے پہ رعونت سے بھرپور مسکراہٹ ، تمسخر اڑاتے الفاظ میں برتری کا زعم صاف دیکھا جاسکتا تھا __
نور حرم نے اسے سر سے لیکے پاؤں تک تفیصلی نگاہ سے دیکھا اور پھر داعتماد سے بھرپور دو آنکھیں چمک اٹھی فاصلہ ختم ہوا پھر جرات کی ایک اور مثال قائم ہوئی مرینہ سرفراز کے کپنٹی پہ بجتے ہاتھوں کی انگلیاں لمحے کے اگلے حصے میں ہوا میں معلق رہ گئیں زور آواز کے ساتھ ہی ماربل کی دیوار سے ٹکراتا آئی فون کئی ٹکڑوں میں بٹ گیا لابی کے کونے پہ کھڑی لڑکیاں اور لیکچرار کے آنکھیں واہ کی واہ رہ گئیں کہیں لڑکیاں باقدہ نزدیک کھڑی ہوئیں اور کچھ تو اپنی پسندیدہ میم کے جرات کے اس ردِ عمل کو سرائے بغیر نہ رہ سکیں ___”
سوال یہ نہیں کہ مجھے اجازت کون دے گا سوال یہ ہے کہ مجھے روکے گا کون ___؟؟؟ ایک نظر جامد سی مرینہ سرفراز کو دیکھا جو اپنے آئی فون کو حیرت کے زیادتی اور پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ___”
باقی میرے پاس وقت نہیں ہے یہ اٹھا لیجئے گا اور جب کبھی رقم کی ضرورت پڑی تو دوگناہ ادا کرنے کا ظرف ہے میرے پاس بس اکاونٹ نمبر بتا دییجئے گا ٹرانسفر کروانے میں مسئلہ درپیش نہیں ہے اور رہی بات رونے والی تو میں رونے والوں میں سے نہیں رولانے والوں میں سے ہوں ___”خیال تھا تو آج تک اپنے معزز مرتبے کا نہیں تو میں لفظی نہیں عملی کام پہ یقین رکھتی ہوں __”
اور ___” جانے کےلیے قدم بڑھائے مگر پھر کچھ یاد آنے پہ پلٹی اور پھر سے روبرو آکھڑی ہوئی ___”
میں اپنی زندگی میں ایسے لوگوں کو نہیں لاتی جو فقط میرے لیے بوجھ ہوں ___” مرینہ نواز کے کندھے کو تھپکتے وہ توازن چال چلتے آگے بڑھ گئی اور پیچھے مرینہ سرفراز اپنے ڈھائی تین لاکھ کہ آئی فون کو دیکھتی اشتعال سے میُٹھیاں بھیچ گئی پیچھے کھڑی رہ جانے والی لڑکیوں نے لابی کے کونے تک اسکی پشت کو دیکھا جو ادائے بے نیازی سے انفیٹی روم کے قریب تھی کہیں نگاہیں اس پہ مرکوز تھیں جو ہر چیز سے بے خبر ادائے بے نیازی سے چلتی اندر داخل ہوگئی یہ جانے بغیر کہ اپنی بے نیازی میں وہاں کھڑی کئی لڑکیوں خود اعتمادی کے نئے روپ کا درواہا کھول گئی __
میم وہ زعفران نامی شخص یہ کچھ چیزیں دیے واپس چلے گئے ہیں ___’ ہوسٹل کا ملازم کچھ چیزیں اسکے ہاتھ میں دیتا چلاگیا اوور دوسری طرف نورِ حرم کو زعفران اس غیر اخلاقی حرکت پہ طیش سا آگیا ___”
وہ سمجھتا کیا ہے خود کو ___؟؟ یہ اسکی کوئی نئی سازش ہوگی ___” وہ سوچوں کے تانے بانے بنتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ آئی __” اور وہ پارسل نما چیز بے دلی سے الماری میں رکھتے اپنی چادر نکالنے لگی تھی __






رات کے آٹھ بجے سیٹھ ازمیر کی شاندار عمارت میں بیٹھک سی سجی ہوئی تھی کرسیاں میز کے اردگرد ایک دوسرے سے متصل تھی ٹانگوں پہ ٹانگے رکھے اکڑ سے بیٹھے سیٹھ نواز کے کچھ دوست دعوتوں میں مشغول تھے یہ دعوت سیٹھ ازمیر کی طرف ضیافت کے طور پہ پیش کی گئی تھی مگر مقام حیرت تھا کہ دعوت کا میزباں ہی منظر عام سے غائب تھا جبکہ اسکا ملازم مٹھو میزبانی کی تمام رسومات نبھا رہا تھا کندھے پہ کپڑالٹکائے وہ گھن چکر بنا ہوا تھا پوری عمارت مختلف رنگوں کی روشنی اور پھولوں سے آراستہ تھیں__
عمارت کے بڑے حال کو کھانے کےلیے سجایا گیا وال پہ لونار پاٹیو کی خوبصورت سے پوٹرے سجی منظر کو مزید مست بنا رہی تھی حال کے کونے تک چھوٹی چھوٹی لائیٹوں سے چمک رہے تھے ___’
کچھ گھڑیاں گزری صالح قدم بڑھائے کسی فاتح کے مانند چلتا حال میں داخل ہو ہوا سٹیھ اور اسکے دوستوں کی چمک میں اضافہ ہوا مٹھو نے کھانا سرو کیا بھورے رنگ کے لباس اور سیاہ پشاوری چپل پہنے صالح گویا رف سے حلیے میں بلکل عام سے حلیے میں شامل ہوا __
سیٹھ میرو کہاں ہے تیرا ___؟؟ سیٹھ نواز خوشی کے حدت اور چمکتے چہرے سے گھن چکر مٹھو سے گویا کیونکہ اصل لشکر تو اسی نے سجایا تھا اور اس منصوبے کے مائنڈ ماسٹر کے انتظار میں تھے کسی کو فنا کرنے کی تیاریاں زرو شور سے عروج پہ تھیں وہ کسی بھوکےعقاب کی مانند چیل کو جپٹنے کےلیے بے تاب نظر آ رہے تھے اس سے بے خبر یہاں صیاد بھی ایک تھا اور بلبل بھی ___”
شرکار صاحب کی گاڑی خراب ہوگئی ہے کچھ دیر تک پہنچ رہے ہیں__” مٹھو نے بیچارگی سے کہتے لب بھینچتے کیا کسی نے اسی حرکت کو واضح دیکھا__
جو بھی ہے سیٹھ ازمیر نے تو کمال کر دیا اتنے بڑے صیاد کو بلبل نے اپنے جال میں پھنسالیا جو خودبخود چل کہ پھنسنے آیا ہے ہے تو حیرت کی بات ___” سیٹھ نواز کے چہرے فاتحانہ و مکروہانہ مسکراہٹ کا پیرا تھا__
دوسری طرف صالح نے کسی سے ہاتھ ملانا بھی مناسب نہ سمجھا مگر خوشی کے شاطرانہ چہرے سے دیکھ سکتا تھا کھانا کھانے سے پہلے ٹیبل پہ ایک بیگ اسکے سامنے رکھاگیا__
یہ لے تیرے صاحب کی امانت ___” بیگ انھوں نے مٹھو کو تھمایا تو مٹھو الگ تھلگ بیٹھے صالح کی نظروں سے بری طرح گبھرایا پھر کچھ سوچتے بیگ تھام گیا __
کھانا شروع ہوچکا تھا منصوبے کے مطابق وہ سب بھی کھانا کھانے لگے تھے کولڈرنک کا گلاس لیے مٹھو بھی پینے میں مشغول تھا محفل میں موجود شخص نے اسے گھورا اس اقدام سے باز بھی رکھنا چاہا مگر تب تک داؤ الٹا اور تیر کمان سے نکل چکا تھا __
کچھ پانے کےلیے کچھ کھونے پڑتا ہے کوئی اسکو مدنظر رکھ کہ خاموش تھا سب معنی خیزی سے رنگ برنگی لائٹیوں کو دیکھنے میں مشغول رغبت سے کھانے میں مصروف تھے پھر وقت بدلا سب بری طرح اپنے سروں پہ ہاتھ رکھے اپنے اردگر دھندلی نگاہوں سے چیزوں کو دیکھتے ہوش کھوتے طائرِ بسمل کی صورت میں صوفے پہ پڑے کے پڑے رہ گئے جن کے چہرے پہ کچھ وقت از قبل طاؤس کی مستی چھائی ہوئی تھی __
رضا ___” صالح نے پکارا مگر پھر ہوش آنے پہ لب بھینچ کہ رہ گیا گھڑی کی ٹک ٹک میں اضافہ ہوا وقت گزرا کوئی اندر داخل ہوا بلاشبہ وہ عیسیٰ تھا __”
واہ سیٹھ ازمیر کیا دماغ پایا ہے تو نے ___” اور دوسری میرا مٹھو شرکار کہاں ہیں شکر ہے ویسے مجھے ڈر تھی یہ چول کہیں کوئی گڑبڑ ہی نہ کردے ___” دروازے کے بیج ٹیبل کے نزدیک کھڑا وہ صالح سے مخاطب تھا بے اختیار نظر ایک کرسی پہ پڑی جہاں سب سے الگ تھلگ ہوش و ہواس سے بیگانہ رضا پہ پڑی ___” عیسی کے حلق سے قہقہ امڈ پڑا صالح نے آستنیں فولڈ کرتا اسکی جانب بڑھا اور آنکھیں ترچھی کرتے رضا کو دیکھا _
اب کچھ دیر بعد یہ کہے گا کہ یہ پلاننگ کا حصہ تھا حالانکہ یہ محض اسکی بیوقوفیوں کا نتیجہ ہے ___”
بے اختیار ہنستے ہوئے وہ گویا ہوا تو عیسیٰ نے بغور اسے دیکھا جو مسکرا رہا تھا کچھ ہی پل میں ان کی ٹیم آگئی اور پھر اسکے حکم پہ سب کو پابند کرلیا گیا ___”
تم ____” کچھ گھنٹے گزرے سیٹھ نواز کی آنکھیں جو نیم واہ تھیں اس سانحہ پہ مکمل کھل گئیں __






اپنی بیٹی نجانے کہاں چار سالوں سے منہ مارتی پھر رہی ہے علم نہیں ہے اور ہم پہ نگاہ ایسے رکھی جاتی ہے جیسے چند روپیوں کے عوض ہمیں خرید لیا ہو اس نے __” اس بات کا تو گواہ میں خود ہوں جانتے ہو وہ صاحب کے گھر وہ جوان سا لڑکا آتا تھا آدھی رات کو چھوٹی مالکن اس لڑکے کے گھر جاتی اور کبھی کبھی اکیڈمی سے میں خود چھوڑ کہ آجاتا ___” ہماری باری ان بڑے لوگوں کو اصول یاد آجاتے ہیں پتہ نہیں کیسے لوگ ہیں یہ ___” کارپورچ سے ابھرتے الفاظ سن کہ فاروق صاحب ٹھٹک گئے بے ارادہ قدم اٹھ ہی نہ سکے ___” اُنکے ملازم عیب گوئی میں مصروف تھے ان کے ماتھے پہ بل پڑ گئے قدم باہر بڑھانے کی بجائے بے اختیار اپنے اندر کی جانب اٹھ گئے جہاں ثمرین فاروقی ٹاول اسٹینڈ سے اپنا چہرہ صاف کر رہی تھی __
آپ کی صاحبزادی کہاں ہیں ___؟؟ کپٹن فاروق کے قدموں کی آہٹ ، لہجے کا انداز ، چہرے پہ کچھ الگ رقم داستاں تھی ثمرین فاروقی کو وہ زندگی میں پہلی بار اس قدر رنجیدہ نظر آ رہے تھے ماتھے پہ شکنوں کا جال بچھا ہوا سا تھا گلاسسز کے نیچے آنکھوں میں کرختگی کا جہاں آباد تھا ___”
ہوا کیا ہے آپ اتنے لال پیلے کیوں ہو رہے ہیں ___” ثمرین فاروقی نے جو ٹاول اسٹینڈ پہ رکھ کہ پلٹی شش و بنج میں مبتلا ہوگئیں کیونکہ ان کے چہرے کے ثاثرات جھٹلانے کے قابل ہرگزنہ تھے__
یہ ساری آپ کی تربیت کا نتیجہ ہے جو مجھے آج یہ دن دیکھنا پڑا ___” گلاسز اتارتے رعب و دبدبہ کئی اڑا اچانک سے آنکھوں میں تھکن سی اتر آئی تھی ___” پیچھے دیوار پہ آویزاں تصویر میں مسکراتے کپٹن فاروق اس شخص سے یکسر مختلف نظر آ رہے تھے __
میں ایمن کو بلا کہ لاتی ہوں آپ خود بات کرلیں ہوسکتا ہے آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو ___” ثمرین فاروقی نے طائرانہ سی نگاہ ڈالتے وہاں سے جانا چاہا لیکن کپٹن فاروق کی آواز نے ان کے قدموں میں بیڑیاں ڈال دی ثمرین فاروقی کے قدم اٹھنے سے انکاری ہوگئے _”
نہیں رہنے دیں آج شاید ہم دونوں ایک دوسرے سے نظریں نہ ملا پائیں _ ” آرزادگی سے کہتے وہ انھیں ٹوک گئے اندر ایک ٹوٹ جانے کا احساس ماندہ تھا ___”
سیٹرھیوں سے اترتی ایمن فاروقی کے قدموں میں جان نہیں رہی تھی آواز اتنی بلند تھی کہ واضح طور پہ سنی جاسکتی تھی اور پھر لاحاصل محبت کا دائرہ بھی کتنا تنگ ہوجاتا ہے انسان اپنے ہی قدموں کی دھول بن جاتا ہے وہ سوچ میں پڑگئی کہ قصور صالح ارمغان عالم کا نہیں تھا قصور اس کا تھا جس نے محبت کی تھی __ کپٹن فاروق کی پراگندگی سے بھرپور آواز بر آمد ہوئی جو شاید دونوں کی سابقہ گفتگو سن چکی تھی اور جیسے گفتگو سے اس کی اندر اذیت کی لہروں نے سرایت کی تھی __
بابا ____ ” بے یقینی کے جال میں الجھے اس نے انھیں پکارا تھا مگر وہ سرے سے نگاہیں پھیرگئے __
اسے کہیے یہ یہاں سے چلی جائے آج اس نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا جانتی ہیں یہ چار سال ایک نامحرم کے گھر جاتی رہی اور میرے جیسا نام نہاد اصول پرست باپ لاعلم رہا آج اس نے مجھے میری نظروں میں گرا دیا سنا تھا مگر آج دیکھ لیا بیٹیاں واقعی آزمائش ہوتی ہیں جانتی ہیں آپ کی صاحبزای نے اعتبار کی دھول جھونکی ہے میری آنکھوں میں ___” میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ وہاں جاتی رہی ہے وہ صرف میرا ٹیم کا بندہ تھا اب تو اسکا رتبہ مجھ سے بڑا ہوگیا چار سال وہ نظریں جھکا کہ عزت و تکریم سے بات کرتا رہا مجھ سے__” کیا سوچا ہوگا کہ میں کمانڈ چلانے والا نظام کو کنڑول کرنے والا اپنی بیٹی کو کنٹرول نہ کرسکا ___”
وہ آج باپ نہیں ایک اجنبی شخص معلوم ہو رہے تھے ایمن فاروقی میں یہ احساس کا لمحہ پہلی دفعہ آیا __” وہ کچھ کہنے کے لائق ہی نہیں رہی تھی بادامی رنگ کے لباس میں ملبوس اس شخص کو بغور دیکھا جو اسکا باپ تھا اتنا شکست حال تو وہ کبھی نظر نہیں آیا ثمرین فاروقی کی نگاہوں میں بیٹی کی فکر کا پہرہ آباد تھا اور ایمن فاروقی سانسیں کی رفتار مدھم پڑتی گئی __
آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی میری بیٹی ایسا نہیں کرسکتی ___” ثمرین فاروقی نے بیٹی کا دفاع کیا جامد سے ماحول میں ابھرتی گھڑی کی ٹک ٹک اوربیتتے وقت کے وار مزید گہرے ہورہے تھے غلطیاں گناہوں کا روپ ڈھارے اس چوبیسس سالا لڑکی کو مجرم بنا رہی تھیں __”
غلط فہمی ___” یک لفظی الفاظ کو کھینچتے فاروق صاحب ایمن کے مقابل آکھڑے ہوئے پرنسز کی ذات تو بیٹی کی تھی وہ نظریں جھکا گئی __
بتاؤ اپنی ماں کو کہ مجھے غلط فہمی ہوئی ہے___” وہ ڈھارے تھے ہاتھ نہیں اٹھا تھا لیکن سرد الفاظ کے لفافے میں لپٹے تھپڑ سے گویا چہرے کے اعضا جل گئے یہ مرحلہ اس بیٹی کےلیے بھاری تھا بہت بھاری ___ سل جتنا بھاری __” ثمرین فاروقی اسکے مقابل آکھڑی ہوئی کہیں باپ کا بیٹی پہ ہاتھ نہ اٹھ جائے __”
بے فکر رہیں ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا بس مجھے یہ اتنا بتادے کہ کیا یہ نہیں گئی __” اگر اسکا جواب نہ ہوا تو خدا کی قسم اٹھا کہ کہتا ہوں میں اس کے پاؤں پکڑ لوں گا __” ان کا بھاری لہجہ مدھم ہوگیا اور ایمن فاروقی کا بخار زدہ وجود مزید بھسم ہوا آج وہ واقعی اندر تک دھنس گئی ___
بابا آئی سوئیر میں ص__صرف اکیڈمی سے واپسی تین چار دفعہ گئی تھی ___؟؟ صفائی دیتے اسکے الفاظ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے__” ثمرین فاروقی کا حلق خشک ہوا تھا انکے شوہر چاہے جتنا امیر وکبیر لیکن وہ اس معاملے میں شروع سے ہی تنگ نظر نظریے کے حامل تھے __
صرف دو تین دفعہ __حرام تھوڑا ہو یا زیادہ حرام حرام ہوتا ہے کیا میں نے اسے حلال حرام کا فرق نہیں بتایاپوچھیں اسے ___” وہ مخاطب ثمرین فاروقی سے تھے لیکن نشانے پہ وہ تھی ” کاش میری چوبیس ریاضت خاک میں ملانے کی بجائے تم مجھے خاک میں ملا دیتی تو میرے آبرو کےلیے آسانی رہتی کہ جیتے جی تو ذلت برداشت نہیں ہوسکتی دیکھ رہیں نک آپ اس نے اپنے باپ کے منہ پہ چوبیس سالہ کی تربیت کا تھپڑ مارا ہے ___” ایمن فاروقی کو لگا کہ وہ کھڑے قد سے گر جائے گی کتنی دیر تو اسے اپنا گرد دھندلا ہوتا محسوس ہوا ___”
وہ غصے کی کیفیت میں کمرے سے نکلتے ہی جب قدم نحیف سے الفاظ کی گرفت کی زد میں آگئے ___”
بیٹیاں کبھی پرنسسز نہیں بن سکتی بابا وہ ہمشہ بیٹیاں ہی رہتی ہیں___” دل میں جبر وستم کیایک لہر ڈور اٹھی شرمندگی اسکی آنکھوں سے نظر آ رہی تھی اور وہ خود کو اپنے باپ کی مجرم تصور کر رہی تھی لیکن اندر بہت کچھ ٹوٹا تھا __”
گر تو غلطی ہے آپکی نظر میں تو معاف کردیں گر تو گناہ ہے تو سولی پہ لٹکا دیں حق ہے آپ کو ___” باقی آپ کی چوبیس سال کی ریاضت کبھی رائیگاں نہیں جائے گی آپ نے آزادی کا نہیں خود اعتمادی کا سبق پڑھایا ہے غلطی ضرور ہوئی ہے مگر غلط قدم نہیں اٹھایا ___”
اک بھول یہ ہوئی میں آج تک یہ سمجھتی رہی کہ میں ایک بادشاہ کی شہزادی ہوں مگر آج پتا چلا میں تو فقط بیٹی ہوں اور وہ بھی بدنصیب __”
مجھے لگتا تھا آپ مما سے زیادہ پیار کرتے ہیں مجھ سے مگر میں غلط تھی محبت کے سو حصے بھی ہو تو ننانوے حصوں کی حق دار ماں ہے ماں اولاد کی خاطر ہر چیز بھلا دیتی اور باپ کو فقط زمانہ یاد رہ جاتا ہے ___” آپ کہا کرتے تھا نہ کہ بیٹیوں کو ہر لحاظ سے اپنی جنگیں خود لڑنی پڑتی ہیں تو میں ہر جنگ خود سے لڑ رہی ہوں بابا ___” آپ سے عزیز کوئی بھی نہیں ___” وہ جھک کے کپٹن فاروق کے قدموں پہ لغزش زدہ ہاتھ رکھ گئی شاید پہلی دفعہ قسم کھائی تھی کہ اس نامحرم کی محبت حخود رام کرلوں گی مگر دل آتشزدہ تھا انکاری تھا چار سال کی محبت کا ایک دم سے خاتمہ ناممکن تھا __”
مجھے صفائیاں اورمعافیاں نہیں پسند ایک بات کان کھول کہ سن لو جلد سے جلد اپنے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں __”” وہ اپنے قدم جلد سے جلد پیچھے کرتے دونوں ماں بیٹی پہ ایک بھی نگاہ بھی ڈالے سرد لہجے میں کہتے باہر نکل گئے __” اور ایمن فاروقی پیچھے خالی ہاتھوں کو دیکھتی رہ گئی اسکی حالت گویا ایسی تھی جیسے بے قصور مجرم کو تختہ دار پہ لٹکا دیا گیا ہو ، جیسے پیاسے کو تپتے صحرا پہ چھوڑ دیا ہو ، جیسے موت کے بعد حشر کا سماں ہو اوراعمال نامے کھول دیے گئی ہوں ___”
وہ کرب و نارسائی کے بوجھ تلے ڈوبی فرش پہ دھرے اپنے خالی ہاتھوں کو گھورتی رہ گئی کب ماں نے اسے اٹھایا کیسے اسے سینے لگایا وہ پتھر کی ہوچکی تھی یہ درد ایسا تھا جو جان بھی لے گیا اور زندہ بھی چھوڑ گیا___” وہ بس عالم نزع کے تلاش میں زندگی کی آخر گھڑی کی پوشاک پہنے تیار تھی حاصل زندگی کا سب بڑا دکھ ہی یہ تھا کہ سب کچھ تھا اور کچھ بھی پاس نہ تھا __
سانسیں چل رہی تھی مگر زندگی جیسے مر رہی تھی__





باوردی اسے دیکھ کہ مکمل آنکھیں کھولے اسے دیکھے گیا سیٹھ ازمیر کا یہ روپ ہضم کرنا مشکل ہوا وہ چیخا مگر اسکے باوجود حرکت نہ کرسکا پچھلے تین ماہ کی ساری محنت ، پیسہ اور عقل تک اُکارت رہ گئی پیچھے مستعد و چوکنا اسکی پوری ساتھی ٹیم تھی وہ سب کو دیکھ کہ صدمے میں مبتلا ہوا پورا معاملہ سمجھ آیا وردی میں وہ پراعتماد چال چلتا متوازن چال چلتا اس کی کرسی کے نزدیک آرہا تھا ہاتھ سائیڈ پاکٹ میں اڑسے ہوئے تھے آستین فولڈ ہونے کی بناء پہ بازؤں کے بال پوشیدہ نہ تھا قدموں میں ایک عجب سی ٹھہراؤ تھا کمال احتیاط کے ساتھ چلتا وہ اسکے قریب آٹھہرا ___” چہرے پہ اتنا اطمنیان جیسے لمحوں کو قابو کرنے کی استطاعت رکھتا ہو ___”
غلافی آنکھیں گہری اور شدید نظر کی مالک تھیں فقط ایک نگاہ جیسے وہ اپنے مخالف کو دل کی گہرائیوں تک جان سکتا تھا__
کسی کتے کی اولاد ____” وہ ابھی غم و صدمے سے اپنی بات مکمل کرتا ہی جب صالح کے الٹے ہاتھ کے زور دار تھپڑ سے منہ دوسری طرف کرسی کے ساتھ لگا تھا اسکے اردگرد تارے گھوم گئے یہ روپ بھی بھاری تھا __
بھونکنے کا کام تو تم نے اپنے سر لیا ہوا ___” بائیں ہاتھ کے زور دار پنچ نے سیٹھ نواز کے حواس سلب کردئیے اسکی رگوں میں بہتاخون تک منجمد ہوگیا اسکے سیاتھی سہمے ہوئے چوزوں کی طرح سانس روکے کاروائی دیکھ رہے تھے ہاتھوں میں اتنی سختی کہ وہ ایک ہی ضرب سے مخالف کو شکست دے گیا __
اسکے چہرے کے تاثرات ارادوں کی مضبوطی اور چٹانی قوت تک کو ظاہر کرتے نظر آئے جیسے کہ وہ اپنے مقصد سے پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا __
میرے باپ کے نام تک بھی پہنچنے کےلیے تمھیں میری لاش پر سے گزرنا ہوگا ___” اس پہ جچتا اسکا قومی لباس زیب و زینت کا ایسا نمونہ جو اپنے مقام و مرتبے کو ظاہر کر رہا تھا __
میں معاف کرنے پہ یقین رکھتا ہوں بدلہ لینے والی ذات تو میرے اللہ کی ہے ___” وہ کمال فراست پسندی سے کہتا پیچھے ہٹ گیا جب کہ اسکی ٹیم نے ان کو رسیوں سے آزاد کرتے گریباں سے پکڑتے مکمل حراست میں لیتے اصل ٹھکانے پہ چلے گئے پیچھے غلافی آنکھوں میں سکون کی ایک لہر اتر آئی __”
آج ایک اور سفر تمت بالخیر ہوا جس کا آغاز کھٹن تھا مگر اختتام بازی لے گیا __
چار سال___ پورے چار سال صالح ارمغان عالم نے گمنامی کی زندگی گزاری کسی کو اُس کے اصل روپ کی بھنک تک نہیں تھی مجرم اسکو مارنے کے منصوبے بنا رہے ہوتے کہ انکا اصل ہدف کھیل میں شامل اول صف میں پہلے نمبر پہ شامل تھا اصل پلین ماسٹر تو موصوف خود ہی تھا جو دشمنوں کو اپنی مو “ت کے منصوبے میں شامل کرنے کے مشواروں سے نوازتا رہتا وہ قاتل اور مقتول بھی خود تھا جو دوہرے سے روپ اپنائے ہمہ وقت تیار رہتا ___”
شرکار ہم جا رہے ہیں ___” پشت پہ شناسا سی آواز
ابھری وہ پلٹا اور پھر اس عمارت کے اصل مالک کے قرض چکاتا نئی منظر کا ہمراہی بننے کو تیار ہوگی __





علیزے آج نجانے کتنے عرصے بعد عالم صاحب اور زارا بیگم سے ملنے آئی تھی کیونکہ پریگنسی کی وجہ سے وہ کم یہاں ایک آدھ بار آئی تھی اسکے دوسرے بیٹے کی پیدائش کو دوماہ ہوچکے تھے اسکا بڑا بیٹا عرشمان دوسال کا تھا جبکہ دوسرے بیٹا حسفان دو ماہ کا تھا عرشمان جب پیدا ہوا تو اسکی بڑی شدت سے خواہش تھی کہ اپنے بیٹے کا نام ” صالح ارمغان عالم ” رکھوں گی مگر ابا کا ماننا تھا کہ صالح صرف زارا کے بطن سے پیدا ہوا تھا زارا بیگم نے کہا صالح میرے نصیب میں نہ تھا پھر کیسے تیرا نصیب ہوگا مگر یہ الگ بات تھی انھیں اپنے نواسوں سے پیار بہت تھا وہ عرشمان میں صالح کو تلاشتے رہتے ابھی بھی وہ کمرے میں حسفان کو خود سے لگائے تھپک رہی تھی مگر گاہے بگاہے کھڑکی کے باہر نظر ڈال لیتی جہاں پلنگ پہ عالم صاحب عرشمان سے لاڈ کرنے میں مشغول اور زارا بیگم سے باتوں میں مصروف تھے ___”
یہ میرے صالح کی طرح بہادر ہوگا زارا___” وہ کہے رہے تھے ابا کی آواز میں حسرت ٹپک رہی تھی علیزے کی آنکھیں نم ہوئیں اب وہ بے اختیار عرشمان کے ننھے ہاتھوں کو چوم رہے تھے جیسے اسکے عکس میں صالح کو تلاش کر رہے ہوں ___” صالح اسے بہت یاد آیا آج برآمدے سے باہر صاف ستھرا صحن جہاں وہ بچپن میں ہر جگہ بیٹھتے کسی نہ کسی کو تنگ کرنے میں مصروف ہوتا کبھی سیڑھیوں سے تو کبھی شیڈز کے ساتھ ہاتھ لٹکائے جمپ نکالتا نظر آتا پھر کچھ ہی دیر میں سزا کے طور پہ ابا سے جوتے کھا رہا ہوتا ___” جہاں کبھی اس چھوٹے سے گھر میں صالح کی وجہ سے رونقوں کا جہاں آباد ہوتا آج وہ گھر سونا پڑا ہوا تھا __
قدرَ مَردن بعد مُردن ” (آدمی کی قدر اسکے مرجانے کے بعد معلوم ہوتی ہے ) چار سالوں سے یہ خلش بہت بھاری تھی کہ ہر روز ،ہر لمحہ ، ہر گزرتے دن ، میں یہ احساس ہر پل ساتھ رہتا کہ صالح ان سے بچھڑ چکا ہے __” علیزے کو اسکا بات بات پہ لڑنا یاد آتا وہ اسکے دکھ و سکھ اور راز کا شریک تھا __” زعفران بھی بھائی تھا لیکن وہ ذرا دوسرے مزاج کا تھا جو پیسوں سے محبتوں کا خریدار نظر آتا تھا__”
صالح __” ایک آہ سے خارج ہوئی اور وہ اماں ابا ، اور پھر عرشمان کو دیکھنے میں مصروف ہوگئی جہاں وہ لاڈ سے ان کی گود میں کھڑا بابا کی رٹ لگائے ان کی ڈاڑھی کے ہلکے ہلکے بالوں کو کھینچ رہا تھا ___”
شام کا سنہری پن عروج پہ تھا اس منظر میں سکون سمیت ہزاروں بے سکونیاں بھی درج تھی مگر ہر ڈھلتے دن کے بعد صبح ضرور آتی ہے __انسان خدا کی حکمت عملی کو سمجھ نہیں سکتا __” بعض دفعہ انسان ہر چیز سے لڑلیتا ہے مگر قسمت سے نہیں ___”




صبح کے آٹھ بجے کا وقت تھا ہوسٹل میں معمول سے زیادہ چہل پہل کا سماں تھا رنگین پھول اور پودوں سے گروانڈ سجا نظر آرہا تھا رنگین کپڑے تقریب کے لحاظ سے بینرز لگا کہ اسٹیج کو سجایا گیا چار پانچ سو قریب کرسیوں کا ارنیج منٹ تھا چھوٹے چھوٹے جھنڈیوں سے بظاہر تقریب کی شان و شوکت میں اضافہ کیا گیا _” افتتاحی تقریب کے سلسلے میں لڑکیاں تقریب اور پروگرام کی تیاریوں میں مشغول تھیں رنگ برنگے لباس میں ملبوس اتراتی ہوئی لیکچرار سے رہنمائی لیتی نظر آئی تھیں بزنس کی سٹوڈنٹ بزنس لباس پہنے الگ تھلگ ریہرسل کی تیاریوں میں مصروف تھیں ہر کلاس کی منتخب کردہ لڑکیاں اپنے اپنے لیکچرار کے قریب غورو فکر میں تھیں ___”
سیاہ لباس میں ملبوس وہ سیڑھیوں سے اتری چادر سے خود کو ڈھانپے ہوئے تھی ہاتھ میں فائل اور ایک پنسل جس بناء پہ وہ سب ممتاز نظر آتی آج بھی رات بھر تیاری اور پروگرامز کو ترتیب دیتے وہ سو نہ سکی مگر پھر بھی نماز فجر کے بعد اس نے خود کو آنے والے وقت کےلیے تیار کیا ___”
اُس دن الزام کے بعد پہلے والی بات نہ رہی اب بھی فرائض نبھاتی مگر بہت حد تک خود کومحدود کرلیا زندگی کی بھاگ ڈور نے اچھا خاصا تھکا بھی دیا اسے ہار منظور نہیں تھی مگر کہیں جگہ اسے لگتا کہ وہ ہار گئی بعض دفعہ تھک جاتی ضبط جواب دینے لگتا اندر کی گھٹن میں مزید اضافہ ہوجاتا ___”
میم پلیز آنلی ون آٹو گراف ___” اسکے مقابل کھڑی ایک انجان سی لڑکی جسے وہ جانتی تک نہ تھی وہ اسے آٹو گراف مانگ رہی تھی سادہ سے لباس لڑکی کے چہرے پہ کچھ حد تک گبھراہٹ کی رقت بھی تھی جو نورِ حرم نے واضح محسوس کی اسے کچھ شبہ ہوا ایک لڑکی جو دوسرے ڈیپارنمنٹ کی تھی مضامین بھی مکمل مختلف تھے __”اسکے باوجود دوسرا تیسرا دن وہ لڑکی اسکی ذات سے انسپائر نظر آ رہی تھی کچھتو بات ایسی تھی جو اسے ڈھکی چھپی تھی جیسے تیسے چہرے پہ مسکراہٹ لاتے لڑکی کو آٹو گراف دیتی جانے لگی کیونکہ اچانک سے انکار غیر اخلاقی وصف میں آجاتا __” وہ آہستگی سے آٹو گراف دیے جانے لگی جب ایک بار پھراسکی آواز اُبھری ___”
میم پلیز ون سیلفی آر پکچر بٹ وڈ آؤٹ نقاب ____” نورحرم نے پٹ کے پلٹ کے دیکھا آنکھوں کی پتلیاں ایک منظر دیکھی مرینہ سرفراز اسٹیج کے کونے پہ کھڑی کی سے باتوں میں مگن تھی پل میں اسے ساری کارستانی سمجھ آگئی سیاہ کشش سسے بھرپور پراعتماد آنکھیں مسکرائی تھیں جیسے فاتح کو لمحوں میں ہار کے سپرد کردیا ہو ___”
فون پکڑتے لمحے میں وہ گھومتے ہوئے پلٹی اور مرینہ سرفراز کے ہاتھ تھامتے ہتھیلی چہرے کے سامنے لاتے فون رکھا تھا ___”
آزمائے ہوئے کو آزمانا بے وقوفی ہے یہ یاد رکھیں گا مرینہ سرفراز ___” پھر اس لڑکی کی طرف دیکھا جو اب نگاہیں جھکائی کھڑی تھی جیسے چوری پکڑے جانے پہ ہر چور کو ہوتا یے
دوسری طرف مرینہ سرفراز کی انا پہ تیسری دفعہ مسلسل چوٹ پڑی تھی وہ اسے توڑ کہ بھی توڑ نہ پارہی تھی آج اسکا باپ سر فیصل سے ملاقات کے سلسلے میں آیا ہوا تھا اس لی دل بے ارادہ نئے ایڈونچر کو سوچ رہا تھا کیونکہ آج تیر بھی اسکا تھا اور کمان بھی __”
امیری ہو یا غریبی لیکن دولت کے کشکول میں سب سے قمیتی چیز عزتِ نفس ہے اگروہ نہیں ہے تو آپ دنیا کے غریب ترین انسان ہے کیونکہ یہ قمیتی اثاثہ چند لمحوں کے عوض آپ بیچ دیتے ہیں ___” حالات چاہے جیسے بھی ہوں آئندہ اسے سلامت رکھیے گا ___” وہ یہ کہتی فائل اٹھائے لابی کی رائدری سے گزرتی پانچ منٹ کا فاصلہ طے کرتی آہستگی سے جا رہی تھی گروانڈ کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھی افتتاحی تقریب شروع ہوچکی تھی اور کچھ لیکچرار کے تقریب اناؤنس کرنے سے پہلے سر فیصل کو ابتدائی سیشن کو انوائٹ کرنے کی خواہاں تھی فائل میں کچھ پروفشنل کارڈز تھے__
قدم ہوسٹل کے کونے پہ مقیم پرنسپل آفس روم کی طرف بڑھ رہے تھے جب اندر سے آتی شناسا آواز پہ قدموں میں خود زنجیر پڑگئی ناک کرنے والی انگلیاں ہوا میں معلق رہ گئیں __”
دیکھو سرفراز میں نے معاملے کو پہلے بھی بمشکل ہینڈل کیا ہے تمھاری بیٹی کی ایک اور بے وقوفانہ حرکت میرے بیس سالہ محنت کو ایک پل میں داؤؤ پہ لگا سکتی ہے یہ بات تم بھی جانتے ہو میں اسی پل سمجھ گیا کہ ہو نہ ہو حرکت تمھاری بیٹی نے بدلے کی صورت میں لی ہے لیکن الزام اس پہ انڈیل دیاصرف اپنی تیس سالہ دوستی کی بناء پہ ورنہ اس لڑکی سے میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی ___” اندر سے آتے الفاظ نے اسکے قدموں سے جان نکال لی تھی یعنی عدالت اور جج ، وکیل، ملزم ، مدعا ، مدعی سبھی ایک تھے یہ شان ، یہ ادب و عزت محض دکھاوا تھا اصل رنگ تو پیسے کا تھا جو بہت گہرا تھا ___”
پردوں میں چھپے چہرے کرتوت بھی چھپا کہ رکھتے ہیں لیکن سچائی زیادہ دیر چھپتی نہیں ہے آپ ایسی نظر تو نہ آتی تھی (کچھ عرصے پہلے کا ایک منظر آنکھوں میں اتر آیا جب وہ بے قصور ہوکہ مجرم ٹھہری تھی آج بھی وہ منظر یاد آتا تو جیسے نگاہوں سے خون رس آتا ایسے محسوس ہوتا جیسے بیچ کٹہرے میں اسے سنگسار کیا گیا ہو )
دھیمی رفتار لیے سر وسیم اکنامکس کے لیکچرار اسی جانب آتے دکھائی دیے مگر وہ سب کچھ نظر انداز کرتی زور دار دھار سے دروازہ واہ کیے اندر داخل ہوگئی وہ سب کچھ بھول گئی آج کچھ خاص تھا __
داد دینی پڑے گی آپ کے اس کارنامے کی ___” تالیاں بجاتے اس نے اندر بیٹھے دو افراد پل بھر کےلیے ساکترہ گئے وہ بری طرح بوکھلا کہ رہ گئے سر وسیم بھی اندر داخل ہوگئےدر پہ در کہیں میل اور فی میل لیکچرار اندر چلے آئے __”
ماتھے پہ محراب بناکہ نیتوں کی اصلیتیں واضح ہونے میں بھی لمحہ نہیں لگتا ___” اتنے عرصے بعد گویا الفاظ پلٹا کہ اس نے اُن کے منہ پہ دے مارے میز پہ انگلی بجاتے اگلے پچھلے حساب برابر کر ڈالے___” آنکھیں لہو رنگ ہورہیں تگیں کھڑکی سے آتا ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی کمرے میں چھائی حبس کو ختم نہ کرسکا کسی کے دل کا غبار نکل رہا تھا اور کسی کے اندر گٹھن کا راج تھا__
لگتے تو آپ بھی نہیں ہیں ایسے مگر چند سالوں کی دوستی اور دنیا کی مادہ پرستی میں کھو کہ بھی انسانیت کے آخری درجے سے گرے انسان دیکھے ہیں میں نے یہاں ___” حیرت نہیں ہے مقامِ افسوس ہے کہ جاہ و حشمت کی خاطر جاہ و منصب کے رتبے سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہےانسان __”
دیکھو لڑکی بہت برداشت کرلیا ہم نے اس سے زیادہ اگر ایک لفظ بھی نکلا تو میں میں یہ نہیں دیکھوں گا تم ہو کون __؟ یہ آواز فیصل کی بجائے نشست پہ بیٹھے سرفراز کی تھی وہ رکی پلٹ کے دیکھا پل بھر میں چہرے استزائیہ مسکراہٹ پھیل گئی لیکن آنکھوں میں بے شمار آنسوؤں وقت کی جیت کے تھے __
جو بھی ہے کماز کم میں آپ سے مخاطب نہیں ہوں سرفراز صاحب لہذا خاموش رہیں کسی دوسرے تیسرے کا حق نہیں ہے کہ وہ بیج میں اپنی ٹانگ اڑائے___” فائل ان کے چہرے کے سامنے لہراتے نورِ حرم نے اپنی بات جاری رکھی جب اطمنیان سے بیٹھا شخص بلبلا کہ اٹھ کھڑا ہو___”
تم جانتی نہیں میں ہو میں ہوں کون ____؟؟؟ ایک پل میں مسل کہ رکھ سکتا ہوں تم جیسی چیونیٹوں کو ___” آواز بہت اونچی تھی جس بناء مزید خاموشی چھاگئی مگر وہ دم نہیں تھا فقط للکار تھی جس سے نورِ حرم۔ کی آنکھوں میں مزید معنی خیز مسکراہٹ چھاگئی جیسے سامنے والے کی حقیقت کچھ بھی نہ تھی __”
میزں تو بخوبی جانتی ہوں لیکن آپ بھی جان لیں جس شعبے کے آپ وزیر ہیں نہ سرفراز صاحب میرا شوہر باشادہ ہے وہاں کا __ اس لحاظ سے بخت بھی اُسکا ہے تخت بھی اسکا ہے سکہ بھی اسکا چلتا ہے اور حکومت بھی ___” تو یاد دہانی کر لیجئے گا کہ آپ کے سامنے جو لڑکی کھڑی ہے وہ صرف لیکچرار نہیں ہے تو لہذا لاوارث سمجھنے کی غلطی سے بھی غلطی مت کجئیے گا___” اسکی آنکھوں میں کچھ دن پہلے صالح کا عکس لہرایا پل میں تاثرات درست کرتے اس نے خود اعتمادی سے جواب دیاتو وہاں کھڑے سب افراد کو گویا سانپ سونگھ کہ رہ گیا __”
سر نیچے ای”نٹی ڈ*ر*گز فو”رس سرپرائز وزٹ کےلیے تشریف لائی ہے ___” یہ ملازم تھا جس نے مودب انداز میں اجازت طلب کرتے ہی اطلاع دی تھی ابھی وہ پہلے والے حملے سے سنبھل نہ پیایا جب ایک اور سانحہ آ وارداد ہوا __”
میم فرح پلیز ان کو کام ڈوان کریں ہماری ٹیم ایک ساتھ ہے ان کے کسی بھی ہنگامی اقدام سے ادارے کا بنا بنایا کام بگڑ جائے گا ٹیم کا ساتھی ہونے کے ناطے تھوڑا کوپریٹ ریں اور مس حرم میں تقریب کے اختتام پہ آپ کی مس انڈرسٹینڈنگ دور کردوں گا ___” سر فیصل نے چہرہ صاف کرتے اشارتا اور مس فرح کو کلام کرتے مشکل سے حالات کو سلجھانے کرنے کا کہا مگر نظریں وہ وہ ملا نہ سکے ___”
اورآپ __آپ جائیں یہاں سے تقریب میں شامل ہو سرفراز تم بھی ___” سرفیصل نے لباس کی سلوٹیں درست کرتے ماحول میں چھائی کثافت کو عام حالات میں تبدیل کرنا چاہا ___”
ان کو پانی پلائیں پھر کچھ دیر تک ساتھ لائیں ___” سٹاف کے رخصت ہوتے ہی انھوں نے ان کی طرف دیکھتے بال سیٹ کیے اور پھر اطمنیان حاصل ہوتے باہر چلیں گئے ___”




یار میری بات سمجھو میں مانتی ہوں تمھارے ساتھ بہت غلط ہوا انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے مگر اس وقت تمھارا ذرا سا ہنگامہ بہت سارے کرئیر کو داؤؤ پہ لگاسکتا ہے تمھارے پاس اس سے بڑی گولڈن اپرچونٹیز نہیں ہے تم بس آج کے دن صبر کرلو پھر اگر کچھ ہوا تو بھلے کچھ بھی کرلینا میں کچھ نہیں کہوں گی ___”
میدان شاید سج چکا تھا کیونکہ بلند آواز کی آواز کی گونج سنائی دی جاسکتی تجی وہ اسے سمجھانے میں مگن تھی جو صوفے پہلے کی نسبت اب خاموش تھی __
ٹھیک ہے مگر میں خاموش نہیں بیٹھوں گی تم اسے صرف وقتی انڈرسٹینڈنگ کہہ سکتی ہو مگر سمجھوتہ نہیں کیونکہ میں غلط کو درست ماننے والی نہیں ہوں اور نہ چپ بیٹھنے والوں میں سے ہوں __” بمشکل بہت ساری باتوں کو مدِنظر رکھتے وہ اثبات میں ہوگئی ___”
یہ بھی نوازش ہوگی آپ کی ___” چلو حلیہ تو بہتر کرلو ___” چلتے ہیں وقت نکل رہا ہے ___” میم فرح اس کی سرخ آنکھوں کو دیکھتے کہا تو وہ پرسکون سانس خارج کرتے حلیہ بہتر کرتی اس کے ساتھ اسٹیج کی جانب چلی آئیں تھیں
تقریب زورو شور سے اپنے عروج پہ تھی سر فیصل کی نظر پڑی وہ خوش اسلوبی سے سے معاملے کو نبھا رہے تھے نگاہ جب نور حرم اور فرح دونوں پہ پڑی تو سکون کی لہر اندر تک ڈور گئی __فورس کی ٹیم اردگرد پھیلیتی نظر آرہی تھی ماحول پرسکون مگر کافی تحقیقاتی نظر آرہا تھا گراونڈ میں کہیں گاڑیوں کا اضافہ نظر آرہا تھا __
نور حرم کی نگاہ اٹھی مگر سامنے آنے والے منظر اور اس شخص نے آنکھوں کو چندھیا کہ رکھ دیا بے شک اتنی بڑی تقریب اور لوگوں میں وہ اسے نہ دیکھ سکتا تھا مگر دو ویران آنکھوں کو وہ بھرے مجمعے میں نظر آتا ان آنکھوں میں ٹھہرے وفا کے رنگوں کو مزید کر دیا ___
یہ وہ شخص تھا جس کا اس لڑکی نے بغیر صلے کا سوچ کہ چار سال ___”پورے چار سال انتظار کیا ___”
اور پل میں بھری محفل میں نظروں کا تبادلہ ہوا وہ باتوں میں مگن تھا مگر نظر ایسی ملی کہ اٹھ نہ سکی وقت گویا رک گیا ان آنکھوں کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں اضافہ ہوا ___”
جامع المتفرقین یعنی دو بچھڑے ہوئے کو ملانے کا یہ لمحہ گویا خدائی معجزہ بن کہ زمین اترا تھا نگاہیں پھیر کہ بھی نگاہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوسکیں__” بے یقینی اور حیرت کے ملے جلے تاثر نگاہوں میں وقوع پذیر تھے__
صالح _” وجود میں جینش ہوئی آنکھوں میں پانی کی جھڑی تھی _
؎ راز وفا کو فاشِ سرےعام کردیا __”
اشکوں کو کہو برا ہمیں بدنام کردیا
جاری ہے ___