قسط: 3
ہائے کپٹن غنی ۔۔۔کیا میں اندر آسکتی ہوں۔۔۔۔؟ ایمن نے اس کے دلکش چہرے کو دیکھتی سج دھج سے قدم رکھتی اندر داخل ہوئی ۔۔۔”
محترمہ آپ آلریڈی کمرے میں آچکی ہیں۔۔۔۔”
اس کی آواز پہ ارمغان نے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھ کر کہتے پھر سے سنجیدگی سے خود کو کام میں مگن کرلیا۔۔
کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں ۔۔۔۔ ؟ایمن چئیر پہ بیٹھتے بولی تو ارمغان کو دیکھا جو خشمگیں نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔۔
یہ آپ مجھے دیکھ کر مصروف نظر آنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں ۔۔۔۔ ؟ جیسا سارا بوجھ آپ کے ناتواں کندھوں پہ رکھ دیا گیا ہو۔۔۔” وہ اس کے چہرے کو بے خودی کے عالم میں دیکھتی کافی معصیومیت سے بولی۔۔۔”
سوری ٹو سے مس ایمن فاروق آپ کی فضول باتوں کا مطلب کیا ہے ۔۔۔؟کپیٹن ارمغان جو لیپ ٹاپ کو فون سے کونیکٹ کیے پچھلے تین چار ماہ کی ہسٹری چیک کر رہا تھا اس کی بات سن کر لب چباتے اس ضدی لڑکی کو دیکھا ۔۔۔وہ جتنا بھی اسے مسترد کرتا وہ اتنا ہی اس کے قریب آتی ۔۔۔وہ اس کی آنکھوں میں اپنی پہچان کے واضح رنگ دیکھتا اور انجان بن جاتا ۔۔
مگر اس شخص کو کون بتاتا کہ اس کو سامنے دیکھتے ہی وہ دیوانی اپنے ہوش میں نہیں رہتی تھی۔۔۔؟ وہ کپٹن فاروق کی اکلوتی بیٹی تھی محض بیس سال کی اور پیاری بھی بہت تھی مگر ارمغان عالم اس سے اتنا خاص پسند نہیں کرتا تھا۔۔
کوئی کام تھا آپ کو مجھ سے مس ایمن ۔۔۔وہ اس کی طرف دیکھ کر جھنجھلاتے ہوئے بولا جو مسلسل جنون و دیوانگہ سے اسے دیکھے جا رہی تھی۔۔
کیوں کپٹن ۔۔۔آپ کو کیوں لگتا ہے میں آپ کے پاس کسی غرض سے ہی آؤں گی مجھے علم ہے میں آئس کریم کھاتی ہوں ۔۔۔اور میری یہ واحد چیز ہے جو بابا سے میری سیکرٹ ہے اور آپ بابا کو بتاتے بھی نہیں ہے ۔۔۔لیکن اب میں خود غرض نہیں ہوں وہ جتاتے ہوئے کافی مصعومیت سے بولی ۔۔۔۔”
دیکھیں مس ایمن میرا یہ ہرگز مطلب نہیں تھا وہ تو آپ بس مجھے دیکھ رہیں تھی تو تب پوچھ لیا۔۔۔۔” اس نے اپنی جانب سے صاف لہجے میں صفائی تھی ۔۔ “
میں تو بس یہ ہی دیکھ رہی تھی کہ کوئی اتنا پیارا کیسے ہوسکتے ہے اور پھر سارے کا سارا کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔” وہ اپنی آنکھیں اس کی غلافی آنکھوں پہ ٹکاتی جوش سے بولی جس نے ایک پل کیے نظریں اٹھائی تھیں ۔۔۔ “
مس ایمن۔۔۔۔اس نے وارننگ انداز میں اس کا نام پکارا ۔۔۔۔”
دراصل وہ اس کی نگاہوں سے چڑ جاتا تھا۔۔ “
صرف دیکھا ہے کپٹن غنی اور کچھ بھی تو نہیں کیا ۔۔۔۔آپ تو ایسے ہی پزل جاتے ہیں ۔۔۔۔”وہ خوبصورتی سے مسکراتی کافی پراعتمادی سے بولی ۔۔۔۔”
مگر وہ تو نگاہوں کی خیانت بھی جانتا ہے۔۔۔۔اس نے اوپر کی طرف انگلی اٹھا کر سمجھانے والے انداز میں کہا ۔۔۔۔”
توبہ ہے آپ سے بھی کپٹن غنی۔۔۔۔ ” ایمن فاروق تپ کر بولی۔۔۔
اچھا آپ کے پاس کچھ وقت ہوگا مجھے کچھ کام تھا۔۔۔وہ ہمیشہ کی طرح چالاکی اور معصومیت کے ملے جلے امتزاج میں اس سے مخاطب ہوئی۔۔۔”
جب کسی کا وقت آپ سے زیادہ قیمتی ہونا تو اسے بار بار تنگ نہیں مس ایمن فاروق۔۔۔کپٹن ارمغان کافی متانت سے بولتا جانے انجانے میں اس معصوم و شرارتی لڑکی کا دل توڑ گیا تھا۔۔۔
آپ سے یہ امید نہیں تھے مجھے کپٹن ۔۔۔۔! وہ پیر پیٹختی واک آؤٹ کرگئی تھی ۔۔”
جبکہ پیچھے ارمغان کی مسکراہٹ گہری ہوئی وہ مسکراہٹ یاسیت لیے ہوئی تھی۔۔دراصل وہ شخص کسی کا دل نہیں توڑتا تھا وہ دنیا کو ناکام کرنے والا شخص اس کے آگے ناکام ہوجاتا مگر آج وہ پہلی بار اپنے مقصد میں کامیاب ہوا ۔۔۔وہ بہت معصوم تھی اور کپٹن ارمغان نہیں چاہتا تھا کہ وہ برائی کی طرف قدم بھی رکھے چاہے وہ نگاہوں کا ہی کیوں نہ ہو۔۔ ” اس لیے ٹوک گیا تھا۔۔۔”
ہائے میرے کیوٹ شہزادے ۔۔۔یہ مسکراہٹ کیوں چھپا کہ رکھتے ہو مجھ سے ۔۔۔ ڈور مرر سے دیکھ کر اس کے دل میں گدگدی سی ہوئی ۔۔۔اس کی محبت یکطرفہ تھی مگر وہ ایمن فاروق تھی جو کسی کو بھی زیر کرنے کا فن رکھتی تھی۔۔۔” وہ زیرِ لب مسکراتی وہاں سے نکلتی چلی گئی ۔۔۔”
****
تمھارا لاڈلہ کدھر ہے ۔۔۔۔؟ وہ فجر کی نماز پڑھ کہ آئے
زارا بیگم کو صحن میں روٹیاں پکاتے دیکھاتو اپنے پورے جاہ و جلال سے ان سے پوچھا۔۔۔”
علیزے آپ کا انتظار کر رہی تھی ماسٹر جی ۔۔۔” اب نورحرم بھی آجائے گی علیزے کہہ رہی تھی آج انھوں نے جلدی جانا ہے ۔۔۔۔وہ مانی کی جگہ علیزے کا بتانے لگیں۔۔۔”
میں نے اس موالی کا پوچھا۔۔۔جس نے رات کو پھر سے میری جیب سے ڈاکہ مارا ہے۔۔۔” مجھے صاف صاف اس کا بتاؤ باقی باتوں کو چھوڑو۔۔۔۔اونچی آواز میں کہتے وہ ان کی طرف دیکھتے بولے وہ جانتے تھے وہ کیوں بات کو گول مول کر رہی ہیں ۔
بیٹھک میں سو رہا ہوگا۔۔۔۔” وہ جو چولہے میں منہ دیے منہ پھونکے مار کے آگ جلانے کی کوشش کر رہی تھیں کہ کس روٹیاں بن جائے تب ہی انھوں نے لا تعلقی سے جواب دیا۔۔۔ “
وہ زارا بیگم کی سنتے تن فن کرتے بیٹھک کی طرف نکل گئے انھیں پتہ تھا وہ ادھر ہی سو رہا ہوگا ۔۔” بیٹھک ان کے گھر کے اندر کا ہی حصہ تھی لیکن ایک دروازہ باہر گلی کی جانب کُھلتا تھا وہ یہ جانتے تھے وہ ان کی مار اور فرار بچنے کےلیے بیٹھک میں ہی راہِ فرار ڈھونڈھتا ہے۔۔
انھوں نے نے بیٹھک میں قدم رکھا تو اس کو پنکھے کے نیچے چارپائی پہ الٹا سویا ہوا پایا ۔۔۔وہ سرہانے پہ سر رکھے سویا ہوا واضح نشئی لگ رہا تھااسکے بے ڈھنگے خراٹوں کی آواز سے ماسٹر صاحب کو اور زیادہ غصہ آیا۔۔انھوں نے اس کے حلیے کو دیکھتے آؤ نہ دیکھا اور اسے چارپائی سمیٹ نیچے پلٹ دیا۔۔۔ “
زلزلہ ۔۔۔۔۔ز۔۔۔زلزلہ ۔۔۔آگیا۔۔ ۔ہڑ بڑا کہ اٹھتے اس کے منہ سے یہ ہی الفاظ نکلے وہ آنکھیں مسلتا باپ کو دیکھنے لگ پڑا۔۔”
زلزلہ نہیں تیرا باپ آیا ہے کھوتے کے پتر۔۔۔۔” یہ کہتے
پاؤں سے چپل اتاری گئی ۔۔۔۔ “
ا۔۔ااا۔۔۔اب کیا ہوا ۔۔۔وہ کمر اور بازوؤں کو سلاتا نشے سے چور لہجے میں بولا وہ درد اس لیے تھا چرپائی نیچے گرنے کے ساتھ اس کی ہڈیاں بھی چیٹخ کہ رہ گئی تھی۔۔
میرا یہ کُرتا تو پہن کہ گیا تھا نا رات کو۔۔۔۔؟ وہ اپنے سفید کرُتے کی طرف اشارہ کرتے اسے کینہ توُز نظروں دیکھتے ہوئے بولے۔۔۔۔!
جی بالکل رات کو پانی لگا کہ استری کیا اور ایسا رگڑ کہ استری کیا۔۔۔وہ فخر سے سفید میلی بنیان کے ناکردہ کالر پہ ہاتھ رکھتے اکڑ سے کہنے لگا۔۔۔!
ماسٹر جی ۔۔۔ماسٹر جی ۔۔۔۔کیا ہوا ہے باہر سے گبھراتی زارا بیگم اندر آئیں ۔۔۔۔” کہ آج پھر سے ان باپ بیٹے کا تماشہ محلے والے نہ دیکھیں ۔۔۔”
جس دن سو بغیرت مرے تھے نا اس دن تجھ جیسا مراسی میرے گھر پیدا ہوا تھا۔۔۔” پتہ ہے مجھے چودھری صداقت کے سامنے شرمندگی ہوئی ۔۔۔۔یہ ذلیل ہر بار مجھے شرمندہ کرواتا ہے۔۔۔وہ اب جیب میں ہاتھ ڈالتے زارا بیگم کی طرف متوجہ ہوئے۔۔۔”
اب اس میں میرا کیا قصور ہے ابا۔۔۔۔وہ روز کی طرح بالوں کو کھینچتے سر پہ خارش کرتے بے بسی سے بولا۔۔۔
یہ کیا ہے ۔۔۔” انھوں نے کرُتے کی جیب سے کچھ چیزیں نکال کی اس کی طرف پھینکی جو اس کے سینے کے ساتھ لگتے ہی نیچے گریں۔۔۔جس میں نسوار ، سگریٹ اور نشے نما چیزیں ، سُرمہ تیل کی چھوٹی سی ڈبی ، ایک چھوٹا سا بدرنگا شیشہ اور آدھی ٹوٹی کنگھی ۔۔۔۔ساتھ میں ایک دس روپے کا نوٹ جو تیل سے اٹا ہوا تھا۔۔
ابا اس طرح جوان اولاد کی پرسنل پراپرٹی کو دیکھنا اخلاقیات کے زمرے میں نہیں آتا۔۔۔” یہ بہت غیر قانونی حرکت کی آپ نے ابا۔۔۔۔” وہ منہ کے ٹیڑھے میڑھے زوایے نکالتا ۔۔۔اپنے پیلے پیلے دانتوں کی نمائش کرتا بولا۔۔۔ “
بڑی آئی تیری پرسنل پراپرٹی۔۔۔ذلیل اولاد ۔۔۔۔” اس کا حساب تو میں بعد تجھ سے لیتا ہوں پہلے یہ بتا کہ رات پھر سے میرے کرتے کی جیب سے پانچ سو روپے کیوں نکالے توُ نے؟۔۔۔” انھوں نے اب کی بار ڈنڈے کی تلاش میں نظریں ادھر ادھر گمھا کہ کافی سرد پن لہجے سے کہا۔۔۔۔” اسی ثناء میں اُن کی پھریتلی نظریں ہینگر پہ جا پہ پڑی۔۔۔”
مانی کے ابا۔۔۔مانی کے ابا ۔۔۔ آپ کو اللہ کا واسطہ ہے اس طرح نہ کریں ۔۔۔یہ پہلے ہی آپکی وجہ سے باغی ہوتا جا رہا ہے۔۔۔ ” زارا بیگم انھیں ہینگر اٹھاتے دیکھ کر پریشانی اور بے بسی سے پکارتی آگے آئیں ہوئی ۔۔۔مگر تب تک وہ انھیں پیچھے کرتے اس تک پہنچے ۔۔ “
کیا تیری ماں ٹھیک کہہ رہی ہے؟ ۔۔۔۔ کہ تو میری وجہ سے باغی بنا ہے ۔۔۔انھوں نے اس کی طرف بڑھتے ہوئے کرختگی سے سوال کیا جو اب تک سکون سے گردن مسل رہا تھا مگر اب ابا کہ خو”ن خوار تاثرات دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔”
کردار اگر باغی ہو جائے تو کہانیاں عظیم ہو جاتی ہیں ابا۔۔۔وہ اٹھ کر کافی ترنگ سے کہتے ہل ہل کر بولا نشے سے چور لہجے میں بولا۔۔۔”
ادھر آ تُو بغیرت ۔۔۔۔میں تیرے کردار کو عظمت کی بلندیوں پہ پہنچا کہ آؤں ۔۔۔۔آج تیرا سارا نشئہ اور بغاوت نکالوں گا میں ۔۔۔مانی کے لفظوں اور اس کے جھولتے پرسرار لہجہ ان کا دل جلا گئے ۔۔۔وہ اس کے گلے میں پڑے چین کو پکڑتے چرپائی پہ ہاتھ رکھتے بولے۔۔۔”
نہیں نہیں ابا۔۔۔۔نہیں ابا۔۔۔۔خدا کی قسم یہ میں نے نہیں مستنصر حسین تارڑ نے کہا ہے ۔۔۔” اُس نے ان کی ہلکی پکڑ دیکھ کر چارپائی کی دوسری سائیڈ پہ ہوتے باپ کے تیور دیکھتے ماں کے پیچھے جا چھپتے کمزور سی دلیل دی۔۔۔۔”
اماں ۔۔۔اماں قسم سے یقین کرو میرا ۔۔۔۔یہ میں نے نہیں کہا سچ میں یہ فرمان مستنصر حسین تارڑ صاحب کا تھا۔۔” وہ اب کی بار منہ کے عیجب و غریب زوایے بناتا ہوا بولا۔۔۔”
رک اُلو کے پٹھے ۔۔۔۔ اُس صاحب کا فرمان بڑا تجھے حفظ ہے ۔۔۔” اور جو سگا باپ ہر وقت بکتا رہتا ہے وہ تجھے سنائی بھی نہیں دیتا۔۔۔۔وہ اس کی گندی حرکتیں دیکھ کر آگے بڑھے اور بازؤں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا۔۔۔۔زور کا ہینگر اس کی کمر پہ پڑا تو وہ درد سے کربلاتے بغیر چپل پہنے باہر کی جانب بھاگا مین گیٹ کے دروازے کو کھولتا باہر نکلا اور نورِ حرم سے جا ٹکرایا ۔۔۔نور حرم کی کتاب اور پیپر سارے نیچے گرگئے۔۔۔” علیزے جو اندر اپنا پرس لینے گئی ہوئی تھی وہ ابھی تک نہ آئی تھی۔۔۔
وہ دونوں ماسٹر صاحب کے ساتھ جاتی تھیں نورِ حرم اور علیزے دونوں سکول میں ٹیچر تھیں اور دونوں ہی بہت سمجھ داری سے اپنے یشے سے وابستگی اپنا فرائض نبھا رہی تھیں ۔۔
بدتمیز انسان ۔۔وہ اس کے پاس سے آتی تیل کی بدبو سے ناک پہ ہاتھ رکھ گئی ۔۔۔”
اے لڑکی یہ کیا حرکت ہے ۔۔۔۔” صبح صبح باپ بیٹے کے پیار میں پُھوٹ تم نے ڈلوائی ہے نا۔۔۔” وہ ایک چور نظر سے ایک پیچھے کی جانب دیکھتا ہوا بولا ۔۔تاکہ باپ نہ آجائے۔۔۔”
ہاں پہلے تو تمھاری اور چاچو میں چائنہ اور پاکستان کی طرح کے تلقعات تھے نا جو میں انڈیا کی طرح پھوُ ٹیں ڈلوانے آگئی ۔۔۔” وہ اس کی بات سنتی دانت پیستی ہوئی بولی ۔۔
ہو بھی سکتا ہے اتنا مثالی پیار جو ہے ہم دونوں باپ بیٹے کا۔۔۔جلدی سے بول کر اس نے باہر نکلنا چاہا کہ کئی پھر سے ابا نہ آجائیں۔۔۔ “
ہاں اتنا مثالی کہ دل کرتا ہے اس پیار کو کسی کتابی شکل میں چھپوا دوں ۔۔۔” وہ یہ کہتے استزائیہ ہنسی اور کافی ناگواری سے بولی۔۔۔ “
جو چیزیں نیچے گرائی ہیں نہ یہ شرافت سے اٹھا کہ مجھے دو۔۔۔وہ اسے دیکھتے تیزی سے بولی ۔۔۔
اب کہاں جا رہے ہو۔۔۔۔۔؟ تم نے گرائی ہیں تم ہی اٹھاؤ گے اس نے آگے ہوکر دروازہ بند کرنے کی کوشش کرتے سنجیدگی سے کہا۔۔
شرافت کو بلانے جا رہا ہوں ۔۔۔۔کہ وہ تمھیں یہ پیر اور کتاب اٹھا کہ دے دے۔۔۔۔” میرے پاس وقت نہیں ہے بہت مصروف ہوں میں ۔۔۔۔ابھی وہ مزید زہر افشانی کرتا ہی جب ماسٹر صاحب کو بیٹھک سے نکلتا دیکھ کر وہ دروازہ پیچھے دکھیلتا جلدی سے باہر نکل گیا۔۔۔۔پیچھے اسے نورِ حرم کا قہقہ واضح سنائی دیا تھا۔۔
****
میرے خیالوں میں چھائی ہے
ایک صورت متوالی سی۔۔۔”
معصوم سی بھولی بھالی سی
رہتی ہے وہ یہیں کہیں اتاپتہ معلوم نہیں
تم کسی دن جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے تھرڈ کلاس انسان ۔۔۔۔ ” نور حرم جو شام کے وقت توُت کے درخت کے نیچے چارپائی پہ بیٹھی بچوں کے ٹیسٹ چیک کر رہی تھی جب اس کی بے ڈھنگی آواز سنائی دی۔۔۔”
تھرڈ کلاس نہیں مسز فرسٹ کلاس انسان کہو ۔۔۔ ” وہ ایک چوری نگاہ اپنے پیچھے ڈالتا کہ کہیں ابا گریبان سے پکڑ کہ گھیسٹ گلی میں نیلامی ہی نہ لگا دیں مگر اطمینان ہوا کہ ابا کی نظر میں تو وہ نیلامی کے قابل بھی نہیں تھا۔۔۔ “
میں کہہ رہی ہوں اترو یہاں ۔۔۔” وہ اتنا کہتے یہ سوچتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی کہ وہ فضول میں اس کے منہ نہ لگے ۔۔۔اماں بھی گھر نہیں تھیں وہ محلے میں صغریٰ خالہ کے گھر گئیں ہوئی تھیں اور وہ اس کی چیپ حرکتوں کے بارے میں خاموشی سے دیکھتی اٹھتی کمرے کی طرف جانے لگی۔۔۔ “
مسز ۔۔۔۔اے مسز۔۔۔۔اوہ مسز۔۔۔۔۔” ایک کپ چائے کا دے دو ۔۔۔” اللہ بھلا کرے گا ۔۔۔اللہ تمھیں اولاد نرینہ سے نوازے گا۔۔۔وہ پھر سے ایک نظر پیچھے ڈالتا ہوا فریادیں ڈالتا ہوا بولا ۔۔۔”
صبح تو مستنصر حیسن تارڑ کی وجہ سے چاچو سے پھینٹی پڑی تھی اب جو میں لگاؤں کی وہ تمھیں ساری زندگی نہیں بھولے گی اتنی چیپ گفتگو کرتے ہوئے تمھیں شرم نہیں آتی ۔۔۔” وہ جو صحن میں جھاڑوں لگانے کا سوچ رہی تھی اس کی باتوں کو سن کہ ضبط سے لال پڑتی وہ جھاڑوں اٹھاتی خطرناک تیور سے باہر آئی ۔۔”
قسم سے مسز ایک چائے کا کپ دے دو۔۔ ۔۔۔” میں پھر تنگ نہیں کروں گا ۔۔۔۔نہیں تو جھاڑوں سے مارو یا پوری گلی میں گھیسٹ لو۔۔۔۔میں یہاں سے ہلنے والا نہیں۔۔۔۔وہ مضبوط لہجے میں کہتا اب دیوار کہ اوپر بیٹھ کہ ٹانگیں گھر کی طرف لٹکالیں۔۔۔ ” نورِ حرم یہ کہتی گھر کی طرف گئی اور ایک کپ میں چائے ڈال کہ لے آئی ۔۔۔”
یہ لو پیو ۔اور آئندہ یہاں مت آنا نہیں کسی بھی چیز کا لحاظ نہیں کروں گی ۔۔۔” وہ اسے کپ تھماتی احسان کرتے ہوئے بولی ۔۔۔”
ہائے بیگم ۔۔۔۔ ویسے یہ ٹوٹے ہوئے کپ میں چائے پینے سے ثواب ملتا ہے کیا۔۔۔ ” وہ چائے کے کپ کو منہ سے لگاتا اسے دیکھتا معنی خیزی سے بولا۔۔۔”
ثواب کا تو نہیں پتا ۔۔۔۔لیکن سنا ضرور ہے اس ٹوٹی ہوئی چیزوں میں شیطان کھاتا پیتا ہے ۔۔۔۔وہ اس لیے بولی کہ وہ آئندہ اس سے چائے نہ مانگے ۔۔۔۔وہ ہر دو دن بعد اسے اتنا تنگ کرتا کہ اسے مجبوراً چائے دینی پڑتی ۔۔۔۔”اور نورِ حرم اس کے اس چائے والے کھیل سے بہت زیادہ تنگ تھی لیکن وہ پھر بھی تین یا چار چائے کے کپ بناتی تاکہ اس کےلیے اسے دوبارہ سے نہ بنانی پڑے ۔۔”
اور تو سب خیر ہے مسز لیکن یہ کپ بہت چھوٹا رکھا ہوا ہے ۔۔۔اُس نے کافی ڈھیٹائی سے کہتے چائے کا گھونٹ بھرا۔۔۔”
تو نہانے والا کپ بھر کہ دیتی تمھیں ۔۔۔۔” وہ اس کی فضول گوئی سے جنجھلاتی ہوئی بولی ۔۔۔۔”
کچھ دیر بعد طویل خاموشی کے بعد اس نے حیران نظروں سے پلٹ کہ دیکھا کہ کئی وہ چلا تو نہیں گیا جب نظریں اٹھا کہ اسے دیکھا تو اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسائٹ ہوئی کیونکہ وہ اسے دیکھ ہی ایسی نظروں سے تھا اس کی نگاہوں کی چمک اسے اپنے جسم کے اندر کئی کبُھتی ہوئی محسوس ہوئیں۔۔۔وہ چائے پیتا اسے دیکھ رہا تھا۔۔
لوفر انسان ۔۔۔۔بڑا بڑتی وہ اپنے ڈوپٹے کو ٹھیک کرتی صفائی کرنے لگ پڑی ۔۔۔۔جب پانچ منٹ گزرے تو غیر ارادی نظر اُس کی نظر دیوار پہ پڑی ۔۔۔وہ کئی نہیں تھا البتہ کپ وہاں پہ ہی رکھ گیا تھا اس نے گہری سانس لی ۔۔اور آنکھوں کب سے رکے آنسوؤں بہہ نکلے ۔۔۔جو اس نے کتنی دیر سے روکے ہوئے تھے ۔۔۔” یا اللہ یہ شخص میرے مقدر میں کیوں لکھا گیا۔۔۔؟ یا اللہ اسے اتنے پاکیزہ رشتے کا احساس کیوں نہیں ہے۔۔۔؟ اے اللہ ۔۔۔مرد کو تو عورت کےلیے تحفظ بنا کہ بھیجا گیا ۔۔اے اللہ ۔۔۔میں تجھ سے شکوہ نہیں کر رہی لیکن یا اے اللہ زندگی میں میری ایک خواہش تھی کہ میرا ہمسفر نیک ہو۔۔۔۔” پھر کیوں۔۔۔۔” نہ چاہتے ہوئے شکوہ کرگئی ۔۔۔۔” اور شاید اللہ نے اسکی سن لی تھی اور اس کی دعا قبول ہونے والی تھی ۔۔۔”
****
کیا ہوا ہے اب کیوں پریشان ہے توُ نورِ حرم۔۔۔۔؟ کیوں مجھے بھی پریشان کرتی ہے اور خود بھی ہوتی ہے۔۔۔۔”
امی آپ جانتی ہے مجھے ۔۔۔۔” وہ جو گہری سوچوں میں مستفسر تھی ماں کی آواز پہ باہر نکل آئی۔۔۔”
امی آپ جانتی ہے آپ کی بیٹی پریشانی کی ایک ہی وجہ ہے ۔۔۔پھر روز روز کرید کر میرے زخموں کو ادھیڑتی ہیں۔۔وہ جنجھلا کر کہتی اٹھ بیٹھی۔۔۔ “
لیکن نورِ حرم ۔۔۔۔تم کیوں اتنی بدگمان ہو چاچو سے۔۔۔اس لیے کہ انھوں نے تمھارا نکاح مانی سے کروایا ہے ۔۔۔۔یا اس لیے کہ انھوں نے تھارے سر پہ ہاتھ کہ تمھیں ذلیل و خوار ہونے سے بچایا ہے۔۔۔”
امی واقعی آپ بہت معصوم ہیں ۔۔۔آپ ابھی تک چاچو کی شفقت میں چھپی غرض کو نہیں نہیں سمجھ سکیں ۔۔۔”
انھوں نے صرف اور صرف اپنے بیٹے کو سدھارنے کےلیے یہ نکاح کروایا ہے ۔۔۔ان کا بڑا بیٹا بھی تو تھا پڑھا لکھا۔۔۔لائق فائق قابل ۔۔۔فرماں دار ، ۔۔ لیکن کیوں نہیں مانگا میرے لیے اسکا رشتہ ۔۔۔۔” یہ نہیں کہ میں میرے دل میں اُس شخص کے جذبات ہیں میں تو فقط اس لیے کہہ رہی ہوں۔۔۔اُنکابڑا بیٹا رشتوں کو عزت دینا جانتا ہے وہ بات بھی نظریں جُھکا کر کرتا ہے۔۔۔” اور میں تو بس عزت ہی تو چاہتی تھی اور کچھ بھی نہیں۔۔۔”
وہ تلخی سے کہتی ان کے چہرے کے بدلتے تاثرات کو دیکھنے لگ پڑی جو کہ کافی حد تک بدل گئے انھیں لگا کہ نور حرم واقعی ٹھیک کہہ رہی ہے۔۔۔وہ بھی اس کی طرح سوچوں میں گم ہوگئیں تھیں۔۔۔”
دیوار کی دوسری جانب ٹہلتے ماسٹر صاحب ان ماں بیٹی کی گفتگو سن کر سوچ میں پڑگئے ۔۔۔۔انھیں لگا کہ وہ واقعی اپنی بھیتجی کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کرچکے تھے لیکن ابھی دیر نہیں ہوئی تھی وہ اب بھی سب کچھ سدھار سکتے تھے۔۔