راز وفا

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 5

مجھے نہیں پتہ مجھے آئس کریم کھانی ہے۔۔۔۔” آپ ابھی میرے ساتھ چلیں ۔۔۔۔” وہ اس کے تیور دیکھتی ضدی انداز میں بولی۔۔۔”
گھر جائیں آپ ۔۔۔۔” میری ڈیوٹی ہے ابھی ۔۔۔” اس کے انداز میں اتنی سختی تھی کہ وہ ہونٹوں کو گول شیپ دیتی ایک آنکھ کھولتی اور ایک بند کرتی اس کھڑوس کپٹن کو دیکھنے لگی جو ایسے اجنبی بن جاتا ۔۔۔۔” جیسے اس کو جانتا تک نہیں تھا۔۔ “
نہیں کپٹن میں نے آئس کریم کھانی ہے ۔۔۔” اس نے جلدی سے اس کو بازؤں سے تھام کہ بچوں کی طرح ضدی انداز میں کہا۔۔۔”
مس ایمن ۔۔۔” بازؤں چھوڑیں ۔۔۔پھر میں سختی سے پیش آیا تو آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں نکل آئیں گے جو کہ دو دن نہیں رکنے ۔۔۔۔اس کا لہجہ آتشیں و سرد تھا وہ اس کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ چھڑا گیا۔۔۔”
اگر آپ کو میری فکر ہے ۔۔۔تو آپ مجھے لے کہ جائیں نہ۔۔۔”
اس کے خوبصورت چہرے کو دیکھتے وہ اپنے موقف پہ ڈٹی رہی۔۔۔”
میں آخری دفعہ پوچھ رہا ہوں آپ جا رہی ہیں کہ نہیں ۔۔۔؟ وہ اب بیڈ پہ بیٹھتا آرمی والے کالے رنگ کے بوٹ پہنتے بولا ۔۔۔”
نہیں ۔۔۔جب تک آپ میری بات نہیں مانیں گے تب تک میں نہیں جاؤں گی میں بھی آخری بتا رہی ہوں۔۔۔۔وہ بچوں کی طرح کہتی بیڈ کے دوسری سائیڈ پہ بیٹھ گئی ۔۔۔ “
ٹھیک ہے پھر مجھ سے کوئی گلہ مت کیجئیے گا۔ ۔” اس کی بات سنتے اس نے فون اٹھایا اور سکیورٹی گارڈ کو کال کی ۔۔۔”
انور کو کہو گاڑی سٹارٹ کریں اور ۔۔کپٹن فاروق کی صاحبزادی کو ان کے گھر بخیر و عافیت چھوڑ کہ آئے۔۔۔سیکورٹی گارڈ کو اطلاع دیتے سنجیدگی سے کہتے اس نے فون بند کردیا۔۔۔”
جائیں ایک منٹ کے اندر اندر ۔۔۔۔۔میں نے بھی دس منٹ بعد نکلنا ہے ” وہ درشتگی سے کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔”
اوکے کپٹن آج کے بعد مجھے بلائیے گا مت ۔۔۔” میں جا رہی ہوں ہوں ۔۔۔۔اب آپ منتیں کرکے روکے گے تو میں نہیں روکوں گی۔۔۔اب آپ میرے قدموں میں بیٹھ کہ کہے گئے کہ میرے ساتھ آئسکریم کھانے جائیگے تو بھی میں آپ کے ساتھ نہیں جاؤں گی۔۔۔ آنکھوں میں موٹے موٹے آنسوؤں لاتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی ٹخنوں تک آتے گھیرے دار فراک نے ماحول میں ایک سحر سا پیدا کیا۔۔۔۔مگر ارمغان عالم کو تو فرق بھی نہیں پڑا تھا ہاں البتہ اس کی باتوں پہ چونک کہ اسے دیکھا۔۔۔**
ہونسٹلی میرے پاس وقت نہیں ہے۔۔۔نہیں تو میں آپکی چھوٹی سی خواہش کا احترام ضرور کرتا مس ایمن بنتِ فاروق ۔۔۔انور کو کہوں گا کہ وہ آپ کو آئسکریم لا دیں گا۔۔۔”
اس کے بھرے بھرے لہجے کو سن کر وہ گھڑی پہنتے نرمی سے جواب دیا تو ایمن فاروق نے حیرت و بے یقینی اور استفامیہ انداز میں اسے دیکھنے لگی جتنا تمیز سے اس نے مخاطب کیا تو ایمن فاروق کا دل کیا کہ وہ اپنا آپ اس آرام رساں شخص سے پھینک اس کا بولنا ہی تو سے متوجہ کرتا تھا۔۔
اسے گھنٹوں سنا جا سکتا ہے وہ اتنا پیارا بولتا ہے۔۔۔۔” ایمن فاروق صرف دل میں ہی سوچ سکی وہ شخص تو چاہنے کےلیے ہی بنایا گیا تھا۔۔۔”
کچھ کہا آپ نے۔۔۔۔” اس کی مسکراہٹ سنتے اس نے گھڑی کو لاک کرتے کہا ۔ “
جی ۔۔۔ اس نے مسکرا کہ اس وطن کے محافظ شخص کو دیکھ کہ کہا ۔۔”
کیا ۔۔۔۔؟ وہ گھوم کہ پھرتا اپنی چیزیں اٹھاتے تیزی سے بولا۔۔۔”
یہ ہی کہ ۔۔۔ آپ بہت اچھے انسان ہیں میجر ۔۔۔۔” وہ یہ کہتی منہ پہ ہاتھ رکھے بولی ۔۔۔ “
آپ کو بہت جلدی خوش فہمیاں لاحق نہیں ہوتیں۔۔۔۔” وہ مطلوبہ چیزیں اٹھاتا سنجیدگی سے بولا ۔۔۔اسے حیرانگی ہوئی جو لڑکی اب ناراضگی کا اظہار بہت مختلف طریقے سے کر رہی تھی اب اس کا ذرا سا نرم لہجہ دیکھ کہ اچانک سے مان بھی گئی تھی ۔۔۔
آجائیں دیر ہو رہی ہے ۔۔۔آج دوسری اور آخری بار آپکو اس روم میں آنے پہ معاف کیا ہے ۔۔۔آئندہ یہ سب کچھ نہیں ہونا چاہیے انڈر سیٹنڈ ۔۔۔” وہ اس کے آگے چلتا ڈور تک پہنچا اور دروازہ کھولتے اسے آنکھوں سے اشارہ کیا کہ وہ باہر نکل جائے۔۔۔۔ ” وہ باہر نکلی تو اس نے روم بند کرکے ایک چھوٹی سی چیپ دروازے کے پیچھے لگاتے کہا اور
اپنے روم کو صیح طرح لاک کہ تسلی سے اس کے پیچھے چلتے اسے گاڑی میں بیٹھایا۔۔۔”
اور پھر پلٹ کہ انور کو کچھ ہدایت دی ۔۔۔۔پیچھے ایمن فاروق اس کی چوری پشت کو دیکھتے اُداسی سے مسکراتی سر ونڈو کے ساتھ ٹکا گئی تھی۔۔۔”
*****
علیزے مانی کو جگا دو۔۔۔۔ابھی ماسٹر صاحب آئیں گے تو پھر پورا محلہ تماشہ دیکھے گا۔۔۔” زارا بیگم نے کچن سے نکلتی اسے پکار کہ کہا جو پونچھا دھو رہی تھی۔۔”
امی وہ لوفر انسان بیٹھک میں نہیں ہے ۔۔۔پتہ نہیں کدھر آوارہ گردیاں کر رہا ہوگا آپ خومخوا میں پریشان ہو رہی ہیں ۔۔۔” وہ جواب دیتے پونچھے لگانے کی غرض سے بیٹھک میں گئی کہ جلدی جلدی سے کام کرکے نورِ حرم کے پاس چلی جائے گی۔۔۔”
اس نے جلدی جلدی سے چرپائیاں سیدھی کی اور پونچھا لگایا فین کو آن کرتے باہر نکلی کہ وہ تھوڑی دیر بعد سوکھ جائے گا تو بیٹھک کو بند کرکے وہ سکون سے پلٹی اور کمروں کی نسبت بیٹھک میں بہت زیادہ گند تھا اس نے تقربیاً گھنٹا لگا کہ بیٹھک صاف کی ۔۔۔اور بیٹھک گندی کیسے نہ ہوتی ۔۔۔اتنا گند ہوتا ، سیگریٹ جا بجا بکھرے پڑے تھے اس کے کپڑے چرپائی پہ بکھرے تھے لیکن علیزے نے پھر بھی بہت اچھے سے کمرے کی صفائی کی اب وہ مطمن تھی وہ اماں کی بات سنتی کچن میں گئی اور ان کو ان کی مطلوبہ چیزیں تھماتی بیٹھک کا پنکھا بند کرنے کی غرض سے واپس آئی تو اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا کچھ ہی پل میں اسکا چہرہ رونے والا ہوگیا ۔۔۔”
فرش پہ جابجا مٹی سے بھرے لمبے لمبے پاؤں کے نشان دیکھ کو اس کا دل کیا بین کرکے روئے ۔۔۔کمرے میں تو کوئی نہیں تھا چرپائی جو پہلے وہ ترتیب سے دیوار کے ساتھ لگا کہ گئی اب پنکھے کے نیچے بے ڈھنگی سے پڑی ہوئی تھی اس کی چادر سلوٹوں سے بھری ہوئی دیکھ کر اس کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوگئے غصہ اور رونا بیک وقت آیا ۔۔۔
مانی مجھے پتہ ہے تم یہ گندی حرکت کرکے اب فرعون کی ممی بن کے کئی چھپ گئے ہوں گے اس لیے نکل آؤ باہر۔۔۔” چھپنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔۔۔وہ یہ کہتے چیخ پڑی لال بھبھوکا چہرے لیے وہ جھاڑوں لے کر بیٹھک میں گھس گئی کہ حشر نشر کرنے والی ہستی کے حواس ٹھکانے لگا سکے۔۔۔” مگر بیھٹک میں کوئی نہیں تھی اس نے ایک دفعہ چرپائیوں کے نیچے دیکھا کہ شاید وہ کئی چھپا ہوا ہو ۔۔۔۔ ” مگر وہ کیا اس کی روح بھی کئی نہیں تھی ۔۔۔
وہ جانتی تھی وہ اسکی بہن تھی اس کی رگ رگ سے واقف تھی اور یہ آج پہلی بار نہیں ہوا وہ پہلے بھی کتنی دفعہ یہ حرکتیں کر چکا تھا اور وہ جانتی تھی کہ وہ کہاں چُھپا ہوگا۔۔۔”
اس لیے اچانک وہ پلٹی تو دروازے کے پیچھے اس کو دانت نکالے غلیظ ہنسی ہنستا ہوا پایا۔۔۔”علیزے غضب ناک تیور لیے اس کی طرف بڑھی ۔۔۔”
تم نے کیا ہے یہ سب بے غیرت انسان ۔۔۔” آج میں تمھیں چھوڑوں گی نہیں ۔۔وہ جھاڑوں لیے اس تک پہنچی ارادہ مرنے مارنے کا تھا۔۔۔۔”
سسٹر تم نے صفائی ہی غلط وقت پہ کی ہے ۔۔۔میں تو اپنے وقت پہ آیا ہوں ۔۔۔۔” وہ دانتوں کی نمائش کیے پرسکون سا دروازے کے پیچھے سے نکل آیا۔۔۔ “
کتا بھی جس جگہ بیٹھتا ہے دم ہلا کہ بیٹھاتا ہے مطلب اپنی جگہ صاف کرکے بیٹھتا ہے۔۔” اور تمھیں تو شکر ادا کرنا چاہیے کہ تمھیں ہلانی ہی نہیں پڑتی اور صفائی ہوجاتی ہے ۔۔۔۔وہ لفظوں کا زہر اس کے منہ پہ پھینکتی ہوئی بولی تا کہ آگے سے وہ غصہ ہوگا۔۔۔مگر وہ بھی آگے سے ڈھیٹ ابنِ ڈھیٹ تھا غصہ تو کیا ماتھے پہ شکن تک نہیں لاتا۔۔۔”
کیوں تم امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ہو جو تمھارا شکریہ ادا کروں بل بتھوڑی ۔۔۔وہ تو تم میرا شکر ادا کرو کہ میں اسے کمرے میں گند نہیں ڈالتا۔۔۔ اس نے عورتوں کی طرح جوابی کاروائی کرتے اس کے صبر کا پیمانہ لبریز کیا تو علیزے نے رکھ کہ جھاڑوں اس کے بازؤں مارا ۔۔۔”
اب خود کرلینا ہے آج تو مجھ سے غلطی ہوگئی ہے۔۔۔” وہ یہ کہتے جھاڑوں پھینک کہ باہر نکلنے لگی جب مانی نے اس کے بالوں سے پکڑ کہ پیچھے کیا۔۔۔۔”
جھاڑوں پہ تھوک کرو۔۔۔۔مانی نے اپنی گرفت اس کے بازؤں پہ مضبوط کرتے کہا۔۔۔”
نہیں کروں گی چھوڑوں مجھے کیا کر لو گے۔۔۔۔” اس نے اپنے ڈوپٹے پہ ہاتھ رکھتے گلہ پھاڑ کہ کہا۔۔۔وہ دونوں ایک دوسرے کو ضد میں اچھا خاصہ نقصان پہنچاتے۔۔۔مانی اس کے بال کھینچتا اور وہ اس کی کمر پہ مکوں سے وار کرتی ۔۔۔”
جھاڑو پہ تھوک کرو نہیں تو میں پتلا ہو جاؤں گا۔۔۔” اس نے قیاس آرائی کرتے نیا فتوہ جاری کیا۔۔۔۔”
نہیں کروں گی ہرگز نہیں کروں گی ۔۔۔” یہ جھاڑوں بھی تو کچھ حق ادا کرے اپنے ہونے کا۔۔۔ابو کی مفت کی روٹیاں کھاتے ہو بلڈزور کئی کے پتلے ہوگے سکون تو مجھے پہنچے گا نہ۔۔۔ “وہ اس کے ہاتھوں پہ دانت گاڑتی لفظوں کے وار سے اسے جلاتی ہوئی بولی ۔۔۔۔”
ٹھیک ہے میں دیکھتا ہوں کیسے نہیں کرتی تم ۔۔۔مانی نے یہ کہتے اس کے سر پہ تھپڑ مارکے اس کے بالوں کو پکڑ کہ کھنچا ۔۔۔”
ابو ابو ۔۔۔۔ابو ابو۔۔۔” وہ چیخی اور مڑ کہ اور مانی کے بال پکڑ لیے وہ دونوں ایک دوسرے کے بال کھینچتے آگے پیچھے ہوئے ۔۔۔جب مانی نے اس کو دھکا مارا ۔۔۔۔وہ شیلف کے ساتھ جا لگی ۔۔۔
جس بنا پہ شیلف کے کچھ برتن ٹوٹ گئے ان میں سے ایک سیٹ اماں کے جہیز کی پیالیاں تھی جنھیں اماں نے چائنی پیالی کا نام دیا تھا اور وہ اماں بہت شوق سے سنھبال کہ رکھا کرتیں ۔۔۔۔” برتنوں کو زمین بوس ہوتے دیکھ کر دونوں بہن بھائیوں کی حیرت سے آنکھیں پھٹ گئیں ۔۔۔”
تم نے کیا ہے یہ سب کچھ۔۔۔۔حیرت کی زیادتی سے مانی سے پہلے تو کچھ بولنے ہی نہیں ہوا ۔۔۔لیکن پھر سارا الزام علیزے پہ دھر دیا۔۔۔”
جھوٹ مت بولو۔۔۔۔کمینے انسان ۔۔۔۔تم نے دھکا مجھے دیا تھا اس لیے یہ سب کچھ ٹوٹا ہے ۔۔۔۔وہ جھاڑوں اس کے بازؤں پہ مارتی غصے سے کھولتی اپنی بھڑاس نکالتی ہوئی بول رہی تھی جب باہر سے تیز تیز قدموں کی آہٹ سنائی رہی تھی آنے والے شخصیت کے قدموں کچھ غلط ہونے کا اندیشہ دے رہی تھی ۔۔۔
قدموں کی آواز سنتا مانی جلدی سے چرپائی پہ الٹا لیٹا بازؤں کے اوپر سر رکھتا سوتا بن گیا۔۔۔دو سکینڈ کے اندر اندر اس کے بے ڈھنگے خراٹوں کی آواز بیٹھک گونجنے لگی ۔۔۔”
علیزے علیزے۔۔۔یہ کیا کیا توُ نے ۔۔۔” ہر چیز تم دونوں نے مل کہ توڑ دی ہے تم لوگوں کو ذرا رحم آتا ۔۔۔ زارا بیگم اندر داخل ہوتی سینے پہ ہاتھ مارتی برتنوں کو دیکھتی ہوئیں غم سے بولی۔۔۔”
یہ میں نے نہیں کیا۔۔۔۔یہ کرتوت آپ کے اس لاڈلے کہ ہیں تحقیق سے پہلے مجھ پہ الزام مت لگانا شروع کر دیا کریں امی ۔۔۔” وہ خفگی سے انھیں دیکھتے ہوئے بولی جن کی آنکھوں میں حزن کی کیفیت تھی شاید اپنا نقصان ہونے کا غم تھا ابا کی طرح انھیں بھی پرانی چیزوں سے انسیت تھی۔
جھوٹ مت بولو علیزے اگر غلطی ہوئی ہے تو بلاوجہ دوسرے پہ الزام لگانے سے بہتر ہے اسے مان لیا کرو ۔۔”وہ خفگی سے کہتی خراٹے لیتے ہوئے مانی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی جو بندر کی طرح منہ کھولے اونچے اونچے خراٹے لیتے سونے کی بھرپور ایکٹنگ کر رہا تھا۔۔۔”
امی قسم سے میں سچ کہہ رہی ہوں ۔۔۔یہ ابھی مجھے
دھکا دے کہ خود سوتا بن گیا ہے۔۔۔” اس نے کمزور سے لہجے میں صفائی دی۔۔۔”
بس علیزے ۔۔۔۔۔ایک لفظ اور نہیں۔۔۔۔” کچھ دیر جب میں نے تم سے پوچھا تو تمھارا کہنا یہ تھا کہ یہ ادھر نہیں ہے کئی آوارہ گر دیاں کر رہا ہوگا۔۔مانتی ہوں بہت بگڑا ہوا ہے لیکن ہر وقت الزام تراشیاں اس پہ مت لگایا کرو۔۔۔” کبھی کھبی میں دیکھتی ہوں کہ تم اسے بے عزت کرنے کےلیے جان بوجھ کہ سارے الزام اس پہ ڈال دیتی ہو۔۔۔” بہن بھائیوں کا پیار تو ماں باپ کے زندہ رہنے تک ہی رہتا ہے اس کے بعد تو وہ اپنی زندگیوں گم ہوجاتے ہیں شادی بیاہ کے موقع پہ وہ اکٹھے بیٹھنے کو ترس جاتے ہیں ۔۔۔مگر تم لوگوں کو قدر تب آئے گی جب ہم لوگ نہیں ہوں گے۔۔۔” انھوں نے نصحیت کرنے والے انداز میں ڈانٹتے ہوئے کہا۔۔۔”
اللہ کی قسم ۔۔۔اماں میں نے نہیں توڑے آپ کو مجھ سے زیادہ اپنے اس واحیات بیٹے پہ یقین ہے ۔۔۔۔” وہ دکھ سے بولتی رونے پہ آگئی ۔۔۔”
اچھا اب یوں منہ مت بناؤ اور سمیٹو اُن کو ۔۔۔ٹوٹنے کی چیز تھی ٹوٹ گئی ۔۔ضرور اس میں بہتری ہوگی یقنناً اللہ نے کوئی مصبیت ٹال دی ہوگی۔۔۔” وہ یہ کہتے باہر نکل گئیں تھی۔۔۔”
بل بتھوڑی یہ جو شیلف پہ کچھ برتن رہ گے ہیں ایسا کرو انھیں توڑ دو۔۔۔آنے والے سالوں کی ساری مصبتیں ٹل جائیں گی ۔۔۔ْ وہ جو غم سے برتن سمیٹنے لگی پیچھے اس کی خبثیانہ مسکراہٹ اور بے سُرے قہقے سمیٹ آواز سنائی دیا۔۔۔”
اللہ کرے مر جاؤ تم ذلیل انسان ۔۔۔۔” وہ پیروں سے چپل اتار کے اس کو مارتی بے بسی سے کانچ کو سمیٹنے لگی ۔۔۔
اور وہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی ۔۔۔”
مراسیوں کی بدعاؤں سے سید نہیں مرتے۔۔۔مکالمہ جھاڑتے
وہ اس کو آگ ہی لگا گیا۔۔۔علیزے نے دوسری چپل بھی اسے رکھ کہ ماری ۔۔۔۔” تو وہ اسکا قہقہ پھر سے فضا میں گونجا تھا۔۔
**
چاچی مانی کہاں ہے۔۔۔۔وہ ہاتھ میں کوئی چیز اٹھائے چاچو کے گھر میں مانی کا پوچھنے آئی تھی وہ جس نے قسم اٹھائی تھی کہ اب اس گھٹیا شخص کو ساری زندگی نہیں بلائے گی ۔۔۔” لیکن آج اسے اس شخص کچھ کام تھا۔۔۔۔بابا اس لیے وہ اسے پکارتی دھیمے دھیمے شام کے وقت آئی تھی۔۔۔”
اندر کئی سگیریٹ سے منہ لگاکہ ہوئے ہوگا۔۔۔سوٹے لگا رہا ہو۔۔۔۔ بر آمدے میں ماسٹر صاحب کے کمرے استری کرتی علیزے نے جواب دیا۔۔”
وہ بل جمانا کروانا ہے کل آخری تاریخ ہے اس کے بعد چارجز سمیٹ وصول کیا جائیگا۔۔۔”
وہ اس کمرے میں ہے جاؤ دے آؤ اسے ۔۔۔۔پھر تم سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔”
نہیں میں تمھیں دیتی ہوں تم اسے دے دینا اور یہ اسے کہنا ۔۔۔کہ وہ لازمی جمع کروا دیں ۔۔۔۔وہ اس کے پاس آتی بل اسے دیتی خود کرسی رکھ کہ وہیں بیٹھ گئی۔۔۔”
علیزے فون کس کا بج رہا ہے دیکھنا زرا ۔۔۔۔” زارا بیگم نے علیزے کو فون کی گھنٹی کو مسلسل بجتے سن کر علیزے کو پکارا۔۔۔۔”
نور ۔۔۔۔یہ ذرا استری کرو میں دومنٹ میں آئی دیکھنا تار آرتھ بھی ہے ۔۔۔علیزے یہ کہتی آخری والے کمرے کی جانب چلی گئی تو نورِ حرم نے استری کو اٹھا کہ کپڑے استری کرنے لگی اس نے دو کی جگہ پانچ منٹ لگائے مگر پھر بھی نہیں آئی
نور حرم جس نے مانی کو دیکھا جو اسی سامنے والے روم میں تھا سویا ہوا تھا یا پتہ نہیں فون پہ لگا ہوا تھا وہ سوچ رہی تھی کہ چھاپہ مار کہ چاچو کو اس کے کرتوت بتائے گی اسکا پرُ اسرار رہنا، خامیاں سن کہ بھی اپنی ذات کی صفائی نہ دینا نورِ حرم کو مزید اسکی کھوج کےلیے کوشاں رکھتا __” اس لیے کھڑکی میں سے جھانکنے کوشش کی انھی ہی سوچوں میں اسکا دھیان بٹ گیا۔۔
اور اسکا دھیان بٹنے کی دیر تھی جب اس کا ہاتھ نا چاہتے ہ اس زخمی تار پہ چلا گیا اور پھر نہ رکنے والی چیخیں شروع ہوگئیں۔۔۔۔”
مانی جو اندر فون پہ کچھ کر رہا تھا چیخیں سن کر وہ بغیر تاخیر کیے ننگے پاؤں باہر بھاگا۔۔۔استری ٹیبل اسی روم کے باہر کھڑکی کے ساتھ لگ ہوا تھا اس کو چیختا دیکھ کر مانی نے جلدی سے آگے بڑھتے کر بٹن بند کر دیا کرنٹ لگے اتنی دیر نہیں ہوئی اور مانی نے بٹن آف کر دیا وہ مرد تھا اس لیے معاملے کی نزاکت شاید جلدی سجھ گیا۔۔” اس کی جگہ اگر علیزے ہوتی تو شاید بوکھلا کہ نورِ حرم کو ہی پکڑلیتی ۔۔۔۔ ” مگر اس نے ہوش سے کام یے اور اس کو بہت کم وقت میں بچالیا۔۔ ” کرنٹ کا جھٹکا کا لگنے وہ گری نہیں تھی لیکن جھولنے لگ پڑی ۔۔۔”
استری اس کے ہاتھ میں جوں کی توں تھی علیزے جسے کچھ نہ کچھ سمجھ آئی وہ بیٹھک کی جانب بھاگی تاکہ مین سوئچ آف کردے ۔۔۔” مگر مانی نے اس سے پہلے ہی پلگ کھینچ لیا تھا
نورِ حرم ۔۔۔مانی نے آہستگی سے جھولتی نورِ حرم کو پکار کہ اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا جب وہ ڈھڑکتے دل اور کانپتے وجود سے اس کے ساتھ لگی اور دونوں ہاتھ اس کے گرد باندھ لے کہ کئی گر ہی نہ پڑے اور ادھر اس فضول شخص کی آنکھیں اس کے لمس پہ کھل ہی توگئی وہ اس کے کانپتے وجود کو اپنے ساتھ لگے دیکھ کر ساکت ہی تو رہ گیا گھٹیا شخص کے احساسات عجیب ہی تو ہوگئے ۔۔۔جس شخص کے پاس سے گزرتے ہوئے بھی اسے پسینے کی بد بوُ آتی تھی جس کا اظہار کتنی دفعہ وہ اپنے تلخ لفظوں سے اس کے سامنے کر چکی تھی۔۔۔
آج وہ اس کے سینے میں منہ دیے تحفظ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی جو اسے کچھ حد تک مل بھی گیا تھا اصل محافظ تو مرد ہی ہوتا ہے چاہے وہ گنڈا موالی ہو شرابی ہو گناہ گار ہو یا پھر نیک۔۔۔لیکن عورت کو زمانے کی سخیتوں سے تو مرد ہی بچاتا ہے۔۔۔ “
اس کی کلائی جلی ہوئی سامنے نظر آ رہی تھی جس پہ گرم استری کے نشان بن چکے تھے۔۔۔”
علیزے اور زارا بیگم ہانپتی ان تک پنچی وہ اس کے ساتھ ویسے ہی لگی رو رہی تھی۔۔
کچھ نہیں ہوا ۔۔۔زندہ ہو تم ۔۔۔” وہ شاید اپنے حوش و حواس میں نہیں تھی مانی اس کے سر پہ ہاتھ تسلی دیتا تھپک رہا تھا وہ کانپتے وجود کا حصر لیے اسے مضبوطی سے پکڑی کھڑی تھی
نور حرم ۔۔۔تم ٹھیک ہو بیٹے ۔۔۔۔” زارا بیگم نے اسے مانی کے ساتھ لگے دیکھ کر فکر سے پوچھا۔۔۔” جو ابھی تک اسے علحیدہ نہیں ہوئی شاید ایک خوف سا تھا مانی نے گہرا سانس بھرتے خود سے علحیدہ کرنا چاہا مگر اسکی گرفت مضبوط تھی اس نے اپنی شرٹ آہسگتی سے نورِ حرم کی مٹھیوں سے چھڑانا چاہی لیکن نور نفی میں سر ہلاگئی مانی نے اسے کرسی پہ بیٹھایا جس نے اس کی میلی شرٹ کو سختی سے پکڑ رکھا تھا علیزے جلدی سے پانی لے آئی مانی علیزے کے ہاتھوں سے لیتے نڈھال سی نورِِ حرم کو پانی پلایا۔۔۔جو ایک منٹ کے اندر کملا کہ رہ گئی ۔۔۔ “
نور حرم۔۔۔خدا کی قسم اگر مجھے پتہ ہوتا تو میں کبھی اسطرح تمھیں استری کرنے کا نہیں کہتی ۔۔۔وہ اس کے حواس تھوڑا سا نارمل ہوتے دیکھ کر وضاحت دیتے ہوئی بولی ۔۔۔”
علیزے سراسر بیوقوفی تمھاری ہے ۔۔۔بچی ایک منٹ کےلیے ہماری گھر آئی تو تم نے اسے اپنے کاموں پہ لگایا دیا ہے بھابھی کا ایک ہی ایک تو سہارا ہے اس طرح اسے کچھ ہوجاتا تو ہم بھابھی کو کیا منہ کو دکھانے قابل رہتے ۔۔۔ ” وہ تو اللہ کے وسیلے سے اس کی جان بچا لی اس کا لاکھ لاکھ شکر ہے ۔۔” کوئی اللہ کے راستے میں دیا کام آگیا ۔۔۔
امی ۔۔۔مجھے کیا پتہ تھا ایک منٹ میں یہ سب ہو جائے گا میں خود تو روز کرتی ہوں استری ۔۔وہ تو بس پتہ نہیں بل آنے کی وجہ سے تار میں خرابی آگئی تھی ۔۔۔” مجھے اس بات کا ذرا بھی گمان ہوتا تو میں نورِ حرم کو کبھی نہ کہتی ۔…”اس نے صفائی دی تو مانی کا خون کھول اٹھا اس نے آہستگی سے شرٹ نورِ حرم کے ہاتھوں اے چھڑائی۔۔۔”
آج نہ رہےگی استری اور نہ یہ کام ہوگا آئندہ ۔۔۔۔جب سے ہم نے ہوش سنھبالا ہے تب سے اس کو یہ ہی دیکھا ہے ۔۔۔۔۔” آج یہ ٹوٹے گی تب ہی کوئی نئی آئے گی ابا کو سب کی جان سے زیادہ یہ بے جان چیزیں پیاری ہیں ۔۔ ” اس نے غصے سے استری کو فرش پہ دے مارا۔۔۔۔ زمین پہ گرتے ہی استری کے ٹکڑے فرش پہ بکھر کہ رہ گئے اس کے پرزے پرزے زمین پہ پھیل گئے ۔۔۔” اس کے چہرے سے اس کے غصے کا صاف اندازہ لگایا جا سکتا تھا لب ہونٹوں میں بھینچے وہ ابھی غصہ ہی ضبط کرنے کی کوشش میں تھا استری توڑ کہ بھی شاید اسے سکون نہیں آیا تھا ۔
مانی پاگل ہو تم ۔۔۔۔یہ کیا کر دیا ہے آج سچ میں تمھیں تمھارے ابا نہیں چھوڑیں گے ۔۔۔یہ تو تمھارے ابا کو شادی سے پہلے ان کے دوست نے ان کو تحفے میں دی تھی اتنی اچھی تو اب اس دور میں چیزیں نہیں ملتی اس وقت میں اچھی کوالٹی کی بھی تھیں اور سستی دستیاب بھی تھی کیا ہوتا ۔۔۔۔تمھارے ابا کہہ رہے تھے کہ استری وہ الیکٹرونک شاپ پہ لے جا کہ ٹھیک کروا لیں گے۔۔”
وہ غصے سے کہتیں ٹوٹی استری کو فرش پہ پڑا دیکھ کہ افسوس سے بولیں۔۔۔”
کوالٹی گئیں بھاڑ میں۔۔۔۔” پچھلی دفعہ تو آپکا بھی یہ حال ہوا تھا تیسری دفعہ ابا اس میں تار ہی ڈلوا رہے ہیں صرف اس لیے کہ ان کو اپنی چیزیں عزیز ہیں ۔۔۔ ” مارتے تو وہ روز ہی ہیں آج مار لیں گے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔۔۔ “
وہ کچھ فاصلے پہ کھڑا اپنی منطق جھاڑ رہا تھا جب نورِ حرم نے کانپتے وجود کے ساتھ اسے دیکھا جس کے چہرے ہر وقت خباثت و شیطانیت دکھائی دیتی تھی آج بھی وہ چہرہ وہ ہی تھا پھر کیوں کچھ الگ سا لگا تھا آج کیوں پہلے سے مختلف اچھا لگا ۔۔۔وہ اسے غور سے دیکھنے لگی آج اس شخص نے اس کےلیے استری توڑی تھی وہ اس کےلیے چاچو سے مار کھانے کو تیارہوگیا۔۔۔ویسے تو وہ شخص آج بھی نورِ حرم کےلیے فضول شخص تھا لیکن وہ یہ سوچنے پہ مجبور ہوئی کہ کہ اس فضول شخص کو اس کی کتنی فکر تھی ۔۔۔؟
اندر ٹیوب پڑی ہے اس کے ہاتھ پہ لگا دینا جلن ختم ہوجائے گی ۔۔۔اور ساتھ ہلدی بھی ۔۔۔۔” دودھ میں ہلدی ڈال کے لازمی دینا ۔۔۔۔اور اس کی صحت ٹھیک ہونے تک گھر نہ بھیجنا ۔۔امی آپ جائیں تائی کے پاس ان کو پتہ نہیں لگنا چاہیے یہاں یہ سب کچھ ہوا ہے ۔۔۔” ورنہ وہ خو مخواہ میں اپنا بلڈ پریشر ہائی کرلیں گی۔۔۔۔۔”
وہ یہ کہتا بیھٹک سے سگریٹ کا پیکٹ لاتا بر آمدے سے باہر نکل گیا ۔۔پیچھے علیزے استری کے ٹکرے اٹھاتی وہیں میز پہ رکھتی نورِ حرم کے ڈول نواں ہوتے وجود کو اہنے کمرے میں لے گئی۔۔۔”
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial