قسط: 7
ہاتھ مت لگانا مجھے ناپاک انسان……..! وہ اسے ایک قدم دور ہٹ کہ پیچھے کھڑی ہوگئی تھی۔۔
اچھا اچھا۔۔۔ نہیں لگا رہا ۔۔۔۔اس کو چیختا دیکھ کر پیچھے ہٹا شاید و ڈر گیا تھا کہ کئی اس کی چیخوں سے اماں ابا نہ جاگ جائیں اس لیے کھڑکی میں جاکہ بیٹھ گیا۔۔۔۔”
نورِ حرم کے کچھ دیر بعد حواس بحال ہوئے تو اس نے ایک نظر اُسے دیکھا جو کہ آنکھوں میں چمک لیے اس ہی دیکھ رہا تھا اس کے تو پورے بدن میں ہی آگ لگ گئی ۔۔۔”
یہ ان کو اپنے قابو میں رکھو ورنہ میں کسی دن انھیں پھوڑ ڈالوں گی ۔۔۔” وہ اس کی آنکھوں کی طرف اشارہ کرتے تنک کہ بولی۔۔۔”
یار بہت درد ہو رہا ہے ڈیٹول اور پانی تو لے آؤ باہر سے ۔۔۔۔اس نے مسکین سا منہ بناتے ہوئے کہا نظروں کا سارا فوکس اس کے چہرے پہ ہی تھا ۔۔۔ “
ہاں میرے باپ نے فیکٹریاں کھولی ہوئی ہیں ڈیٹول کی۔۔۔نہ کیا کرو نہ ایسے کام اور نہ تمھیں ڈیٹول کی ضرورت پڑے ۔۔۔اس نے بیڈ پہ بیٹھتے نخوت سے سر جھٹکتے ہوئے کہا ۔۔۔”
ویسے جس نے بھی تمھارا یہ حال کیا ہے بہت اچھا کیا ہے ۔۔۔۔”
تم ہو ہی اسی قابل ۔۔۔۔ ” اور ویسے بھی مجھے بڑی حسرت تھی تمھیں اس حلیے میں دیکھنے کی وہ اس پہ طنز کا تیر پھینکتی غصے سے بولی ۔۔۔۔”
حال کی چھوڑو بیوی ۔۔۔۔شکر ہے اس گھتم گتُھا میں دو سیگریٹ مل گئے مجھے جیسے بیچارے کو وہ بھی غنیمت سمجھ رہا ہوں ۔۔۔” وہ سالے مجھے مار دیتے تو سگریٹ تو لے ہی کہ آنے تھے میں نے ۔۔۔ “
غیرت بھی کسی چڑیا کا نام ہے کوئی تمھیں اپنا آپ بھی بیچنے کا کہے گا تم تو اس نشے کی خاطر خود کو بھی بیچ دو گے ۔۔۔” وہ اس کی حلیے اور اس کی حرکتوں سے تپ کہ بہت سخت قسم کی سنا گئی لیکن اس میں اس کا قصور نہیں تھا اس کی حرکتیں جلتی پہ پٹرول کا کام کرتی تھیں ۔
ویسے مسسز معصوم سا بندہ ہوں ۔۔۔۔” اتنی نفرت کی وجہ جان سکتا ہوں ۔۔۔۔ “اپنی شیطانی آنکھیں اس پہ گاڑے اس نے بڑے اتاؤلے پن سے پوچھا۔۔۔”
خود کو ایک دفعہ آئینے میں دیکھ لو ۔۔۔۔” مجھ سے بہتر جواب مل جائے گا۔۔۔” نورِ حرم اس کے فضول جوابوں پہ چڑ کہ رہ گئی اس لیے اس کی طبعیت کے مطابق جواب دیا۔۔۔”
شکل میں کیا رکھا بس جذبات شاہانہ ہونے چاہیے ۔۔۔۔” اور ویسے بھی میرے ان سچے جذبوں کو تم ہر وقت شک کی نگاہ سے دیکھتی رہتی ہو ۔۔۔ ” اور ایک میں ہوں تمھارے ان ظلموں کے باوجود بھی تمھیں شاہ جہاں سے بڑھ کہ چاہتا ہوں ۔۔۔۔ سگریٹوں کی خالی ڈبی کو دیکھتا اس نے کافی ڈرامائی انداز میں کہا ۔۔۔”
جائل انسان شاہ جہاں نے تو اپنی مری بیوی کے لیے تاج محل بنوایا ہے تم میرے لیے اپنے آپ کو تو بدل نہیں سکتے تاج محل کیا خاک بنواؤ گے۔۔۔۔؟ وہ اس کی ایک ایک حرکت پہ نظر ثانی کیے ناک چڑھاتی ہوئی بولی …”
اس میں اتنی کونسی بڑی بات ہے ٹھیک ہے میں نور محل تو بنوا دوں گا مگر یہ بتاؤ تم نے نور محل اپنی زندگی میں بنوانا ہے یا مرنے کے بعد ۔۔۔؟
ویسے بھی کیا فائدہ ۔۔۔شاہ جہاں کی محبت کا جب اس کی محبت اپنی زندگی میں تاج محل کو نہ دیکھ سکی ۔۔۔”
وہ سگریٹ کی کو جلانے کی کوشش میں ناکام ہوتے بولا اصل میں اسے نشے کی لت ہی اتنی لگ چکی تھی پھر وہ دیکھتا نہیں تھا کہ کسی بھی جگہ پہ ایسا غلط کام سرانجام دینا گناہ ہے۔”نور حرم نے دل میں سوچا تھا
تم کچھ بھی نہیں کرسکتے فضول بکواس کرنے کے علاوہ ۔۔۔” ارے تمھارے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں ہوں گے کہ تم میری قبر پکی کروا سکو ۔۔۔۔ ” وہ اپنی بیڈ کی چادر جھاڑتے اس فضول شخص کی باتوں کے جواب دانت پیس کہ دے رہی تھی اس کی فضول باتوں میں یہ بھی علم نہ ہوسکا کہ وہ شخص رات کے اس پہر یہاں ہے ۔۔۔”
ویسے سچ میں تمھاری محبت کےلیے مجھے ڈاکہ بھی ڈالنا پڑا تو میں وہ بھی ڈال کہ تمھاری قبر پکی کروا دوں گا سچی محبت کا یقین دلانے کےلیے اتنا تو کرسکتا ہوں۔۔۔” ویسے مرنا لازمی ہے کیا۔۔۔؟
تم بس فضولیات ہی بکاکرو ۔۔۔وہی ہے جو تمھیں اچھے سے آتی ہے ۔۔۔۔۔” ایک اچٹنی نگاہ اس پہ ڈالتی وہ زہریلے لہجے میں بولی۔۔”
نہیں نہیں اور بھی چیزیں مجھے اچھے سے آتی ہیں بس کوئی دل کی بے قراریوں کو سمجھ ہی نہیں سکتا ۔۔۔” اس کے چہرے کو تکتا وہ شیطان نما شخص کافی معنی خیزی سے بولا۔۔۔”
ذلیل انسان۔۔۔۔نکل جاؤ یہاں سے ۔۔۔نہیں تو خدا کی قسم تمھارا سر پھاڑنے میں دیر ہرگز نہیں لگاؤں گی۔۔۔اس کی کمینی حرکتوں اور اس کی آنکھوں میں چمک کو دیکھتے نورِ حرم کا دماغ بھک سے اڑا ۔۔۔۔وہ چیل کی طرح اس کی جانب بڑھی تھی ۔۔”
کیا بیگم یار۔۔۔دو گھڑی تمھارے پاس چین لینے آیا ہوں ۔۔۔”
اور تم ہو ان حسین پلوں کو اپنے غصیلی طبعیت کی وجہ سے برباد کر رہی ہو۔۔۔کچھ پل ان حسین لمحوں کو خود بھی محسوس کرو اور مجھے بھی کرنے دو۔۔۔اور تو کچھ نہیں کر رہا بس تمھیں حفظ کر رہا ہوں ۔۔۔” اس کو لکڑی کی پتلی سی اسٹک اٹھاتے اپنی طرف دیکھ کر وہ ہڑ بڑا ہی تو گیا لیکن گلے کو تر کرتے خیبث مسکراہٹ چہرے پہ لیے صورتحال حال کو سنھبالتے کہا ۔۔”
پہلا سیپارہ تو تم حفظ کر نہیں سکے ۔۔۔۔بڑے آئے ہیرو صاحب جو مجھے حفظ کر رہے ہیں۔۔۔” طنز کا تیر پھینکتے اس کو دیکھا جو اپنے گندے ہاتھ جنیز کی میں ڈالے جیب سے سگریٹ نکال رہا تھا وہ اچٹنی نگاہ اس پہ ڈالتے یہ کہتی واپس بیڈ پہ جا بیٹھی ۔۔۔”
ویسے مسسز تمھارا بیڈ کتنا پیارا ہے لکڑی بھی اعلی قسم اس کےلیے استعمال کی گئی ہے ملٹی فوم کا گدا بھی کتنا نرم ہے آج رات کتنی میٹھی نیند آئے گی نا سوچ رہا ہوں تمھارے بیڈ پہ ہی سو جاؤں ۔۔۔۔اور تم ۔۔۔۔۔۔”
ابھی کہ ابھی نکلو ۔۔۔۔۔۔۔نہیں تو چیخ چیخ کہ سب کو اکھٹا کر لوں گی ۔۔۔وہ بیڈ سے اترتی اب کی بار خونخوار تاثرات لیے انگلیوں سے چٹکی بجاتی اس کے پاس آئی اس کی بات سنتے اس کے کانوں سے دھواں نکلا ۔۔۔”
اللہ کی قسم نورے ۔۔۔۔۔سچ میں میرا وہ مطلب ہرگز نہیں تھا جو تم سمجھ رہی ہو ۔۔۔۔۔اب کی بار اس کے تاثرات دیکھتا وہ سچ میں بوکھلا گیا اس لیے صفائی دی اس کے ارادے دیکھ کہ لگ رہا تھا اب وہ اسے بھی ایک منٹ بھی اپنے کمرے میں ٹکنے نہیں دیں گی ۔۔۔۔”
نور بچے ۔۔۔۔دروازہ کھولو ۔۔۔۔ اندر کوئی ہے تو دروازہ کھول دو ۔۔مجھے دیکھنے دو ۔۔۔۔” ماسٹر صاحب جو صحن میں ٹہل رہے تھے شور اور چیخوں کی آواز سے وہ چھت والے رستے سے پریشان سے آئے ۔۔۔ “
چاچو مانی ۔۔۔۔اچانک سے چچا کی آواز سن کر گھبرا کر اس کے منہ سے مانی کا نام نکل گیا مانی جو بھاگنے کے چکر میں تھا وہ بری طرح گبھرا گیا تھا اس لیے اٹھ کہ اپنی شیطانی طبعیت کے باوجود بھی صفائی دی تھی باپ کی مار کو جانتا تھا۔۔۔
نور پتر ڈرو مت۔۔۔۔کھولو دروازہ تمھارا چاچا تمھارے ساتھ ہے اس لیے اسے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔” وہ سمجھے وہ ڈر رہی ہے اسے لیے باہر سے تسلی دی ۔۔۔”
میں اس بغیرت شخص کے ہوش ایک منٹ میں ٹھکانے لگاتا ہوں ۔۔۔۔نور چاچا کی بات سن کر حقیقت میں گبھرا گئی اس لیے جلدی سے دروازے کی پاس گئی اور دروازہ کھولا۔۔۔۔” مگر ان کے تاثرات دیکھ کر اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تھا۔۔۔”
مانی جو بھاگنے کے کوشش میں تھے ابا کے تاثرات دیکھتا دل میں کھڑکی کی جانب بھاگنے کا سوچا۔۔ ” ابا نے وہ سوٹی اٹھائی جو نورِ حرم نے نیچے پھنیکی تھی اور تیز قدموں سے اسکی جانب بڑھے تھے ۔۔۔”
مانی بھاگنے کےلیے پر تول ہی رہا تھا مگر اس کا گریبان ابا کے ہاتھوں میں آچکا تھا۔۔جن سے بچ پانا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔۔
****
ارمغان عالم نے اپنے اثرو سورخ کی مدد سے اپنے ساتھیوں کو رہا کروالیا ۔۔۔۔یہ بہت مشکل ٹاسک تھا مگر اس شخص نے اپنی ذہانت کے بل بوتے مہینوں کا کام ہفتوں میں کرلیا تھا۔
اب آگے کا سفر بھی کٹھن شدہ تھا مگر اس نے طے کرلیا تھا کہ وہ جو کچھ کرے گا اپنی مدد آپ کے تحت کرے گا
وہ بہت بڑا نام رکھنے والا آئی ۔ایس۔آئی کا تحقیقاتی ایجنٹ تھا جو خود کی جان کو جوکھم میں ڈال کہ تن و تنہا رات کے اندھیرے میں منشیات کے رکھوالوں کو گریبان سے پکڑ کہ گرفتار کرواتا۔۔۔۔” پر وہ ہر کام ہمیشہ تن تنہا نہیں کرتا تھا عموماً اس کے پیچھے گروہ بھی تھے جو ایجنسی نے آسانیوں کےلیے تیار کر رکھے ہوتے ۔۔۔”
کہنے کو وہ عام سا آرمی آفیسر تھا مگر اس کا اصل روپ آج تک کوئی بھی نہ جان پایا تھا وہ ایک ماہر بہروپیہ تھا اسے خود ہر روپ بدلنے کا فن آتا تھا ۔۔
وہ ارمغان عالم تھا ماہر کھلاڑی مات پہ شہ مات دینے کا ہنر اسے اچھے سے آتا تھا وہ ایک خاموش پراسرار تحقیقاتی سیکرٹ ایجنٹ تھا وہ ہر قسم کے حالات کے مطابق خود کو ڈھالنا جانتا تھا اس نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا تھا اس لیے کوئی بھی مشکل سے مشکل کام اس کےکیے کرنا ناممکن نہیں تھا پاکستان کا کوئی اسمگلنگ و منشیات کا اڈہ نہیں تھا جس کے بارے میں علم اس نے نہیں رکھا ظاہر ہے ایجنیسی کا خفیہ بندہ تھا ہر چیز کا علم رکھنا تو خود پہ فرض سمجھتا تھا۔۔۔”
بڑے بڑے اعلیٰ رینک کے افسران کے ساتھ اسکا میل جول تھا وہ جب نیا نیا آئی ۔ایس ۔آئی میں بھرتی ہوا تو اسے یہاں کے ادراروں کا علم نہیں تھا لیکن آہستہ اپنے وجود کو فنا کرتا وہ اس پیشے میں گھس چکا تھا اور اس چیز کا جذبہ اس کی رگ رگ میں سرائیت کر چکا تھا پہلے تو ماحول ٹھیک تھا مگر اب دن بدن کرائم بڑھتے جارہے تھے پاکستان کے حالات بالکل بدل چکے تھے اس لیے اے ۔این ایف جب مجبور و بے بسی کی حالت میں آئی ۔۔ایس ۔آئی ۔آئی کا سہارا لینا پڑا ۔۔۔جس کی آئی ۔۔۔سی آئی نے بھرپور مہم جاری رکھی تھی ۔۔۔
کچھ ماہ پہلے اے ۔۔۔این ۔۔ایف نے اینٹی نار”یکٹیس فورس کی مدد سے بہت اونچے اور بڑے منشیات ڈیلر گروپ کو گرفتار کیا ۔۔۔جس بنا پہ منشیات کے بڑے گرہوں نے اپنے منصوبے کی ناکامی پہ ایسی چال چلی کہ۔این ۔۔ایف تک جیسے ادارے کو بے بس کر دیا ۔۔۔لیکن دو اداروں کو ایک بڑا ادارہ چلا رہا تھا اس لیے صورتحال اے ۔این ۔ایف تھی آئی ۔۔ایس ۔آئی نے ایک دفعہ پھر ایجنسی کو الرٹ کر دیا تھا ۔۔۔
اب ارمغان عالم نے ایک ساتھ دوسرا مشن جاری کر دیا۔۔۔” جس میں اسے اسمگلنگ کے ایک بڑے اڈے کی خبر ہوچکی تھی بس کچھ دنوں میں ہی کپٹن فاروق کو
خبر کرکے سفر کی روانگی پکڑنی تھی ۔۔
دوسری طرف وہ سوچ رہا تھا کہ آئی ۔۔۔ایس ۔آئی میں نئے بھرتی آفیسر کو ٹرینگ میں ٹریکٹس ۔۔۔وا”ر کا ڈیمو دے گا جس میں انھیں ایک پہے سے تربیت شدہ آرم آفیسر کا چناؤ کرنا تھا اس ساری سوچ کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ ملک کی صورتحال اعتدال میں رہے ۔۔۔اس لیے وہ اب ایک بھی پل فارغ بیٹھنا گناہ سمجھتا تھا ۔۔۔
آئی۔ ایس ۔آئی بے شک نام بہت بڑا اور اثر و رسوخ والا ہے اور اس سے منسلک شخص کو بہت عزت دی جاتی ہے رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور خود کو اس کی جگہ دیکھنے کی تمنا بھی کی جاتی ہے مگر یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ آئی ۔ایس ۔۔آئی آرمی والے مشن کے دوارن فقیروں سے بھی بدتر زندگی جی رہے ہوتے ہیں جو سالوں وطن کی محبت کےلیے اپنے گھروں کو خیر آباد کرکے آتے ہیں جو سالوں گھر جانے کو ترس جاتے ہیں بس وہ پھر اپنے پیشے کےلیے خود تک کو قربان کر دیتے ہیں۔۔۔”
***
ابا ابا ۔۔۔۔اللہ کی قسم میرا وہ مطلب نہیں تھا میری بات تو سنیں ابا۔۔۔۔”
بتا شرابی احسان ۔۔۔۔تیری ہمت کیسے ہوئے ۔۔۔۔یہاں قدم رکھنے کی ۔۔۔” انھوں نے گریباں سے جنجھوڑتے سوٹی کی ایک زور دار اسٹک اسکی کمر پہ ماری اور پھر لا تعداد مارتے چلے گئے ۔۔۔ “
چاچو ۔۔۔۔چاچو۔۔۔۔نورِ حرم بھاگ کہ ماسڑ صاحب کے پاس آئی تھی ۔۔۔” اس نے دو دفعہ آواز سے چاچو کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی ۔۔۔وہ سن نہیں رہے تھے یا شاید سننا ہی نہیں چاہتے تھے اس لیے وہ پیچچھے کھڑی خاموشی سے انھیں مارتا دیکھنے لگی۔۔۔
ابا وہ میری بیوی ہے حق ہے میرا اس پہ ۔۔۔۔جہاں جہاں ضرب لگتی ۔۔۔وہاں وہاں ہاتھ رکھ کہ خود کو بچاتے وہ منمایا۔۔۔”
بکواس بند کر اپنی حرام زادے ۔۔۔” اس وقت وہ بیوی نہیں ہوتی ۔۔۔۔جب سڑکوں پہ دھکے کھاتی ہے جب یہ نوجوان بچی گھر سے اپنی ضروریات پوری کرنے کےلیے اکیلی نکلتی ہے جب بجی کا بل گیس کا بل خود جمع کراوتی ہے پندرہ بیس ہزار کی خاطر سکولوں میں دھکے کھاتی ہے اس وقت تیرے فرائض کہاں مرگئے ہوتے ہیں ارے توُ چوڑیاں پہن کے گھر بیٹھا جا بس بیوی اور بہن سے کام کروا۔۔۔۔” وہ اونچا اونچا چلاتے اس کو دھڑا دھڑ مار رہے تھے انھیں کسی کی بھی پروا نہیں تھی ۔۔ “
بھائی صاحب۔۔۔بھائی صاحب ۔۔۔۔” صائمہ بیگم جو شور کی آواز پہ ادھر آئیں اور ان کی باتیں سن کہ وہ مانی کو بچانے کی غرض سے آگے بڑھی ۔۔۔وہ تماشہ نہیں چاہتی تھی مگر ان کو تو شاید کسی پرواہ نہیں رہتی تھی وہ مارتے وقت بالکل وحشی بن جاتے تھے ابھی بھی ان کا یہ ہی حال تھا وہ اسے ایسے مار رہے تھے جیسے ان کے سامنے جانور باندھا گیا ہو۔۔۔
اس کی حرکتوں کو دیکھ کر انھیں غصہ ہی اتنا آتا کہ وہ پھر وقت اور جگہ نہیں دیکھتے تھے بس جوتے ہی مارتے تھے ابھی بھی صائمہ بیگم ادنی سی کوشش کر کے پیچھے ہٹ گئیں تھیں ۔۔۔۔ ” اور دوسری جانب وہ صرف ابا ابا کی رٹ لگائے ہوئے تھے۔۔۔۔”
اب بتا… پھر یہاں قدم رکھے گا توُ ۔۔۔۔۔” وہ ان دونوں ماں بیٹی کو فراموش کیے اس سے تحقیق کر رہے تھے ۔۔۔”
جو کمر پہ ہاتھ رکھتا گردن کو ہلا کہ چیک کر رہا تھا کہ کئی ابا کے جھٹکوں کی وجہ سے ٹوٹ ہی تو نہیں گئی ۔۔۔”
میں کیا بکواس کر رہا ہو۔۔۔۔الوُ کے پھٹے ، مراسی کی اولاد ۔۔۔اس کے سر سے پکڑتے انھوں نے ڈھار کہ پوچھا ۔۔۔۔”
اب تو میرے باپ کی توبہ جو یہاں بارات کے دن بھی قدم رکھا ۔۔۔اب تو ابا آپ نے مجھے گھسیٹ کہ بھی لایا تو بھی میں یہاں قدم نہیں رکھوں گا۔۔۔۔۔وہ باپ کے لال چہرے کو دیکھتا دل میں بولا باپ کے منہ پہ تو کہنے کی ہمت ہی نہ ہوئی ۔۔۔۔” اس نے محض ناں میں سر ہلایا تھا ۔۔۔
اس کے نفی میں سر ہلانے کے بعد وہ تھک ہار کہ اب کی بار اسے گھیسٹنے لگے مگر وہ بھی ان کے گھیسٹنے سے ہلا تک نہ تھا اپنی جگہ سے۔۔۔۔” وہ اسے جانور سمجھ کہ مارتے اور واقعی ان کی سوچ پہ مہر پکی لگا دیتا۔۔”
وہ جتنے اصولوں پہ قائم رہنے والے شخص تھے ان کی یہ اولاد اتنا ہی ان کے اصولوں پہ پانی پھیر دیتی تھی وہ جس کام سے منع کرتے تھے وہ اسی کام میں ہاتھ دیتا تھا۔۔
ان کے مطابق اس کھوتے کو سدھارنا ان کے بس کی بات نہیں تھی مگر پھر بھی وہ اسے سدھارنے کی تک ودود کوشش میں تھے۔۔
ایک پھر انھوں نے پھر گھسیٹنے کی کوشش کی کہ جو کسر رہ گئی ہے وہ گھر جاکہ نکالیں گے ۔۔۔۔ ” مگر ان کی پھر سے کوشش نکام ہوئی تو وہ ایک زور دار گھونسہ مارتے گالی دیتے باہر نکل گئے ۔۔
صائمہ بیگم بھی اسے دیکھتی رہی جو اب لب بھینچے ان کو دیکھنے لگا وہ بھی نظریں چراتی باہر نکل رہیں تھی اور پیچھے نورِ حرم اس بات پہ شرمندہ تھی کہ وہ اگر نہ چیختی تو چاچو کبھی نہ آتے ۔۔۔” وہ سراسر قصور وار خود کو سمجھ رہی تھی ۔۔۔۔”
وہ اسے دیکھنے لگ پڑی جس کی شرٹ کے بٹن کھلے ہونے کے باوجود سرخ سرخ سوٹیوں کے نشان واضح نظر آرہے تھے اس کی یہ حالت دیکھ کر نورِ حرم کا احساسِ زیاں بڑھنے لگا اس کے سینے پہ واضح سوٹیوں کے نشان دیکھتے اسے اب خود پہ غصہ آنے لگا ۔۔۔۔”
رل تے گئے ہاں پر چس بڑی آئی اے۔۔۔۔وہ زمین سے اٹھتا دانتوں کی نمائش کرتا کمر پہ ہاتھ رکھ کہ لنگڑا کر چلتا اس کے پاس آکہ رک کہ آنکھ مارتا بولا ۔۔۔”
تمھارا علاج ہے تم ہو ہی اسی قابل ۔۔۔۔پہلے میں سوچ رہی تھی کہ چاچو نے تمھیں مار کہ غلط کیا مگر تم ہو ہی اسی قابل ۔۔۔۔۔۔” اس ڈھیٹ انسان کو یوں دانت نکالتا دیکھ کر دانت چبا کر اپنے غصہ کا اظہار کرتے چیخی ۔۔۔۔اب اسے اپنے افسوس پر بھی غصہ تھا ۔۔۔۔”
ہم وہ نہیں جو ڈر جائیں حالات کے خو”نی منظر سے
جس دور میں جینا مشکل ہو اس دور میں جینا لازم ہے
اس کی طرف جھک کہ مانی نے راز دانہ سرگوشی میں شعر پڑھا تو نورحرم کے تلوؤں بچھی ۔۔۔”
ابا ابا ابا ۔۔۔۔۔ابا ۔۔میری بات تو سنیں ابا ۔۔۔۔ کچھ دیر پہلے سیم اسی کے انداز میں نقل اتارتے ہوئے ہنس کر کہا۔۔۔
بڑا آیا۔۔۔۔۔خو”نی حالا ت میں جینے والا۔۔۔۔۔” اب تاریخ میں خود لکھ لینا کہ رانجھا اپنی ہیر سے ملنے کےلیے رات کے اندھیرے میں اپنے ابا سے ڈنڈے ، لاتیں ، مکے اور گھونسے کھا کہ گیا۔۔۔”
وہ اسے ہاتھ سے باہر کا اشارہ بڑی خوبصورت مسکراہٹ سے بولی ۔۔۔”
تیرے عشق کی انتہا چاہتا تھا۔۔۔میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا تھا۔۔۔۔اب کی بار وہ اسی منحوس مسکراہٹ سے اس نے فقرہ کسا ۔۔۔اور لنگڑا کہ چلتا جلدی باہر نکل گیا۔۔۔”
اس کے نکلنے کے بعد وہ دروازہ بند کرنے لگی جب اسے اپنے گھر بیرونی سیٹرھیوں سے وہ اپنے گھر کی جانب جاتے دیکھا وہ دیوار کا سہارا لیے بمشکل چل رہا تھا ۔۔۔”
نورِ حرم کے ضمیر نے پھر سے ملامت کی اسے ندامت ہوئی اس لیے اُسے ایک بار پھر دیکھا جو اب ہوائی کس اچھالتا آنکھ مارتا اوپر بڑھ گیا ۔۔۔
کمینہ ، نورِ حرم اس کی اس حرکت پہ تلملا کہ رہ گئی اور اس کا عکس دیکھا جو اب مکمل اندھیرے میں غائب ہوچکا تھا ۔۔۔
وہ جانتی تھی اب وہ ابا کے ڈر سے وہ نیچے نہیں جائے گا۔۔۔آج پھر وہ نشئی اپنی رات بالکونی میں گزارے گا۔۔۔” آخر کار سوچوں کو جھٹکتی لائٹ بند کرنی لگی جب اس کی نگاہ
نیچے گری انگوٹھی پہ پڑی ۔۔۔۔۔ نخوت سے اس ذلیل انسان کی انگوٹھی اٹھا کہ دارز میں رکھتی بتی گل کرتے سو گئی تھی ۔۔۔۔”
*****
ارمغان عالم آج پچیس دنوں بعد اپنے شاندار محل میں آیا تھا ڈیوٹی سے تھکا ہارا سیاہ بوٹ اتارتے اپنی وردی اتارتے صوفے پہ بیٹھ کہ پیچھے کو سر رکھتا آنکھیں موند گیا۔۔۔
وہ ابھی مشن کے متعلق ہی سوچ رہا تھا جب اس کا پاکٹ میں پڑا فون بج اٹھا ۔۔ ویسے دوارنِ ڈیوٹی فون پاس رکھنا آلاؤ نہیں تھا اور نہ ہی وہ رکھتا تھا۔۔۔۔آج واپس آیا وہ فون آفس سے اپنے ساتھ لے آیا۔۔۔
چونکنا ہوکر بیٹھ کہ اس نے فون نکالا تو انجان نمبر سے کال دیکھ کہ وہ کچھ پل موبائل کی جگمگاتی سکرین دیکھتا پھر اٹینڈ کرتا فون کان کے ساتھ لگا گیا۔۔”
ہیلو کپٹن ۔۔۔۔۔آپ کتنے بے وفا ہیں آ بھی گئے اور بتانا بھی گوارا نہیں کیا مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی۔۔۔
دوسری جانب فون پہ ایمن فاروق کے شکوے کو سنتے کہ اسے حیرت کا جھٹکا لگا یعنی ابھی تک اس نے سجون کی سانس بھی نہ لی اور پھر اسے کیسے پتہ چل گیا تھا۔۔۔”
آپ کو کیسے علم ہوا کہ میں واپس آگیا۔۔۔۔اپنی حیرت پہ وہ قابو نہ پاسکا اس لیے سختی سے اسے پوچھا۔۔۔۔”
میرے دل کی ڈھڑکنوں نے بغاوت کی ۔۔۔۔کہ کپٹن غنی آپ گھر تشریف لاچکے ہیں ۔۔۔اس خوشی میں کچھ دیر میں ہی شہنشاہی فوج کو لیے آپ کے گھر تشریف لا رہی ہوں۔۔۔۔”
بڑے سکون سے کہتی وہ ارمغان عالم کا سکون تباہ کر چکی تھی ۔۔