راز وفا

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 8

ایمن فاروقی کو یہاں آدھے گھنٹے سے زیادہ ٹائم ہوگیا تھا وہ اس دشمنِ جاں کو دیکھنے کےلیے ترس کے رہ گئی تھی
وہ محبت ہی کیا جس کےلیے ترسنا نہ پڑھے ۔۔۔۔” وہ تو اس کی شکل دیکھنے کےلیے بے تاب تھی مگر وہ تھا کے آنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔۔۔”
اس کا دل بہت کیا کہ ایک دفعہ اسکے کمرے میں ہی چلی جائے ۔۔۔۔” مگر اس کے رئیکشن کی سوچ کہ ہمت ہی نہ پڑی تھی جانے کی ۔۔۔۔۔” آخر مایوس ہوکر وہ اٹھنے لگی جب وہ ستمگر باہر نکلا تھا۔۔۔
السّلام علیکم ۔۔۔۔۔کیسی ہے آپ مس ایمن ۔۔۔۔” وائٹ جنیز کے اوپر سیاہ ٹی شرٹ پہنے گیلے بالوں کو ٹاول سے رگڑتا وہ لاونج میں آیا وہ جو کاؤچ سے مایوس سی اٹھنے لگی چہرے کی چمک کم پڑ چکی تھا ۔۔۔ “
دیدارِ یار نصیب ہوا تو چہرہ کوس و قزح کے رنگوں سے بھرگیا ۔۔”
ارمغان عالم نے ایک نظر اس کے چہرے کو تکتے سنجیدہ سے پوچھا ۔۔۔۔” وہ اس کی ایک ایک نظر خود پہ ٹکے دیکھ کہ ہواؤں میں اڑنے لگی تھی وہ کمبخت تھا ہی اتنا پیارا نظریں ایک دفعہ پڑیں تو ہٹنا ہی بھول جاتی ہیں ۔۔۔”
نہیں ہوں ٹھیک میں ۔۔۔” ویسے آپ کہاں تھے اتنے دن میجر ۔۔۔۔۔؟ میں نے آپ کو بہت مس کیا ہے ۔۔۔
دیکھیں نہ آپ کی یاد میں سوکھ سوکھ کہ بانس بن گئی ہوں ۔۔۔۔” ارمغان عالم کی ایک نظر کی عنایت تھی وہ سارے کے سارے شکوے کا ڈھیر اس کے سامنے لگائے بیٹھ گئی ۔۔۔ “
ویسے واقعی میں مجھے آپ کی طبعیت بہتر نہیں لگ رہی خیریت ۔۔۔۔؟ وہ یہ کہتے ٹاول سینڈز پینرکھتا اٹالین طرز کے بنے کچن کی جانب چلا آیا ۔۔۔”
یہ اسکی نفیسانہ انصاف پسندانہ کمال کا ہی سوچ ہے جو یہ ایک منٹ میں میری طبعیت خرابی کو بھانپ گیا ہے ۔۔”
وہ دل میں سوچتی سرشار ہوتی اس کے پیچھے کچن میں چلی آئی اور اس کو طلسم بھری نظروں سے دیکھنے لگی ۔۔۔۔”
کچن بہت زیادہ پیارا تھا ارمغان عالم کے گھر کی ہر چیز نفاست کا منہ بولتا ثبوت تھی
وہ اسے نظروں کے ذریعے دل میں اتارنے لگی اور اسے دیکھا جو بہت ماتھے پہ بل ڈالے کٹر بورڈ پہ فروٹ کاٹ رہا تھا اسکا ارادہ رشین سیلڈ بنانے کا تھا اس لیے اپنے کام میں مصروف تھا اور اس کی موجودگی کو بالکل فراموش کیے بیٹھا تھا ۔۔۔”
ایمن فاروقی اس کے تیز تیز چلتے ہاتھوں کو حیرانگی سے کھڑی دیکھ رہی تھی ۔۔۔
جو محبت کے مرض میں مبتلا ہوں نہ ۔۔۔۔ ” ان کی طبعیت کبھی ٹھیک نہیں ہوتی ۔۔۔مگر آپ کو کیا پتہ آپ نے محبت کی تو پتہ ہو نہ ۔۔۔۔” وہ اپنے زمین پہ پڑے ڈوپٹے کو بیزارگی سے سنھبالتی اسے احساس کروانے کی خاطر بولی ۔۔۔۔ “
محترمہ یہ دل کا روگ کہاں سے بیج میں آگیا ۔۔۔” میں تو آپ کے دماغ کی طبعیت خرابی کا پوچھ رہا تھا وہ اپنی جگہ سے کھسکا ہوا لگ تو اس لیے معلوم کرنا ضروری سمجھا۔۔۔
واٹ میرا دماغ آپکو کھسکا ہوا لگ رہا ہے ۔۔۔ ؟” حیرت و بے یقینی کی زیادتی سے چیخ ہی تو پڑی ۔۔۔ “
کھسکا تو وہ شاید شروع سے ہی تھا مگر آج بالکل ہی اختیار سے باہر لگ رہا ہے ۔۔” اس کی چیخوں کو نظر انداز کرتے اس نے مصروفیت سے جواب دیا۔۔۔۔”
میجر میں آپ کو اس گستاخی کےلیے گنجا کر دوں گی ۔۔۔یہ کہتے اس کے پاس آتے وہ اس کے بال کھینچنے لگی ۔۔۔”
اور دوسری جانب تو ارمغان اس لڑکی کی جرات پہ حیران رہ گیا تھا اس کے کشادہ چہرے پہ ناگواری چھا گئی ۔۔۔ “
مس ایمن فاروقی کیا ہے بدتمیزی ہے یہ ۔۔۔” وہ جلدی سے اپنے بال اسکی گرفت سے چھڑواتا پیچھے ہوگیا کشادہ پیشانی اس کی اس حرکت پہ تن گئی غلافی آنکھوں میں سرد مہری چھا گئی چہرہ سرخ پڑ گیا ۔۔۔۔ “
آپ کس حق سے میرے پاس آئی ہیں ایمن بنتِ فاروقی ۔۔۔۔” وہ کٹر بورڈ وہیں رکھتا سرد مہری اور گمبھیر لہجہ لیے ایک دم سے اجنبی بن گیا۔۔۔”
میں یہاں اپنے مشن پر آیا ہوں نا کہ رشتے داریاں پالنے ۔۔۔۔ ” اس کی اتنا کہنے کی دیر تھی کہ مقابل کی گرین آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں وہ اسکا اتنا سخت لہجہ برداشت نہیں کر پائی اس کے لہجے درشتگی ہی اتنی نمایاں تھی آنکھوں سے آنسؤ خود بخود نکل آئے اسےلگا کہ اس نے اس کے بالوں کو کھینچ کہ کوئی گناہ کر دیا ۔۔۔۔ “
اس کو کچھ فاصلے پہ کھڑا اپنے اوپر برہم ہوتے دیکھ کر کسرتی بازؤں کو دیکھتی خوف سے پہچھے ہوئی ۔۔” اس شخص کے لہجے میں وارننگ نظر آ رہی تھی ۔۔
آپ جتنے خوبصورت ہیں اتنا اچھا دل بھی توڑتے ہیں میجر ۔۔۔” آپ ایسا رویہ رکھ کہ ہربار مجھے دھتکارتے ہیں اور میں خوشی سے چلی بھی آتی ہوں۔۔۔۔” لیکن اب نہیں آؤں گی ۔۔۔۔”
وہ سبز آنکھوں میں نمی لیے اس کے قریب ہوتی درد کی شدت کو چھوتے ہوئے بولتی آنکھوں میں آنسؤ لیے بھاگ کہ کچن سے نکل گئی ۔۔۔
پیچھے ارمغان عالم انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے پیشانی کو مسلنے لگا اس کا روتا نگاہوں میں مقید ہوکہ رہ گیا تھا۔۔ “
پھر دو سکینڈ میں نارمل ہوتے پاکٹ سے فون ڈرائیور کے نمبر پہ ملایا کہ کچن سے نکلتا ٹیرس کی جانب بڑھتا ڈرائیور سے بات کی کہ اس خطبی لڑکی کو باحفاظت گھر چھوڑ آئے ۔۔ ” اور پھر فون بند کرتا وہی کھڑا ہوگیا ۔۔۔۔”
وہ سوچوں میں مستفسر ہوا کہ کیا ضرورت تھی اتنا اوور ہونے کی ۔۔۔۔ ” مگر یہاں وہ ٹھیک تھا وہ نیچے لان سفید پھولوں اور سرخ کلیوں سے سجے لان کو دیکھنے لگا جہاں وہ سوئمنگ پول سے کچھ فاصلے پہ بیٹھی بچوں کی طرح فراق کی آستین سے آنسو صاف کرتی تصویر بنوانے میں مصروف اس کے چہرے پہ مسکراہٹ لا گئی اگر ایمن فاروقی اسے ہنستا ہوا دیکھ لیتی تو یقینا دارِ فانی سے کوچ کر جاتی ۔۔۔۔” اسے دیکھتا وہ پرسکون سا ہوگیا کچھ ہی پل بعد انور سر جھکائے اسے مخاطب کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا مگر وہ تھی منہ کی عجیب عجیب زوایے بنائے سلیفیاں لینے میں مصروف تھی ۔۔۔۔ْ
انور اب کی بار اسے تھوڑا زور سے بلایا تو وہ منہ بناتی گاڑی میں جاکہ بیٹھ گئی وہ جان گیا تھا کہ انور نے یقنناً اس کا حوالہ دے کہ ڈرایا۔۔۔۔”
تقربیاً پانچ منٹ بعد گاڑی پورچ سے نکلتی گیٹ کو عبور کرگئی تو وہ کچھ سوچتے ہوئے پیچھے ہوگیا۔۔۔”
وہ انھی ہی سوچوں میں اتنا محو تھا جب ایک دفعہ پھر سے پاکٹ میں پڑے فون کی بیل بجی اور اس دفعہ سیل پہ جگمگ کرتےآفیسر مصطفیٰ کا نمبر دیکھ کہ آنکھوں پہ لا تعداد شکنیں در آئیں ۔۔۔۔۔ “
دوسری طرف سپیکر سے اُْبھرتی سنجیدہ آواز نے پل میں اس کے ماتھے کی شکنوں کو ختم کر دیا ارمغان عالم فتح کی چمک لیے چہرے سے کمرے کی جانب بڑھا ۔۔۔۔۔”
آفیسر مصطفی کی بات سن کہ وقت جیسے گھڑی میں تھم گیا تھا وقت جو بیت گیا اب دھیرے دھیرے سرکنے لگا وہ آنکھوں میں جیت کا احساس لیے پھر سے سر بلند دس منٹ میں آرمی وردی میں موجود تیار تھا۔۔۔۔”
سر آپ کہاں جا رہے ہیں ابھی تو آپ گھر آئے ہیں ۔۔۔۔۔؟ انعام حیرن و پریشانی سے پندرہ بیس دن بعد گھر میں موجود دیکھ کر پھر سے اسے یونیفارم میں تیار دیکھ کہ پوچھے بغیر نہ رہ سکا ۔۔۔”
ارمغان عالم کا کوئی گھر نہیں ہے انعام ۔۔۔وہ بس یہاں مسافر ہے۔۔۔۔ “
کچن میں فروٹ رکھا ہوا ہے وہ تم کھا لینا ۔۔۔” ضائع ہوگیا تو بے حرمتی ہوگی ۔۔۔”
وہ یہ کہتے آسودہ مسکراہٹ لیے اس کے کندھے پہ تھپکی دے گلاسسز آنکھوں پہ چڑھاتا باہر نکل گیا ۔۔۔”
اور پیچھے کھڑا انعام اتنا بڑے بنگلے نما سرائے کو حیرت و دکھ بھری نظروں سے دیکھتا کندھے اچکاتا کچن کی جانب بڑھ گیا۔۔۔”
*****
غدار انسان تم تو میرے ساتھ اس کھیل میں شامل تھے ہم نے تجھے اپنا جگری یار مانا تھا ۔۔۔۔” درد سے کراتے وہ شخص ابھی تک بے یقینی کی کیفت میں تھا۔۔۔ “
شطرنج کی بازی میں کبھی یاریاں نبھاتے دیکھا ہے ۔۔۔؟ابرو اچکاتے بڑے معنی خیز لہجے میں اسے سوال کیا گیا تھا ۔۔۔
منکر انسان تجھ پہ اعتبار کرکے شطرنج کی بازی میں ہم نے تجھے اتنے بڑے کھیل میں شامل کیا ۔۔۔۔” وہ تو جیسے بے یقینوں کی زد پہ کھڑا الٹا اسے پوچھنے لگا ۔۔۔
Trust is a danergeous games……”
بیسمنٹ میں موجود وہ شخص ایک آدمی کا گریباں پکڑے اس کے جبڑوں کو دبوچتے اس کے کان کے پاس ہلکی سرگوشی میں کرتا درشتگی و مسکراہٹ سے کہتا اسے مار دینے کے در پہ تھا۔۔۔”
رات کے اندھیرے میں یہ دونوں نفوس بہت پراسرار لگ رہے تھے عام سے حلیے میں وہ شخص اپنے گناہ کو سوچ رہا تا کہ کیوں اس نے ارمغان عالم کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا ۔۔۔”
وہ لمبے بالوں والا ہاتھوں سے بندھا شخص آج ہر جگہ سے شکست کھاچکا تھا ڈر جس کی رگ رگ میں سرایت کر رہا تھا وہ لمبے بال والا شخص ، کانوں پہ مندری پہنے ، چہرے پہ خبیث مسکراہٹ رکھے اس کو بڑی ڈھیٹ نظروں سے دیکھ رہا تھا جب ارمغان عالم کا الٹے ہاتھ کا تھپڑ اس کا منہ دیوار کے ساتھ لگاگیا۔۔۔اس تہہ خانے میں ان دونوں کو ایک دوسرے کی شکلیں بھی بمشکل نظر آ رہیں تھی ۔۔”
خبیث انسان تم دھوکے باز ہو تم نے دھوکہ دیا ہے ہم سب سے دوستی کی آڑ میں تم نے دشمنی نبھائی ہے ۔۔۔۔۔” لمبے بالوں والا شخص منہ پہ تھپڑ کی شدت برداشت نہ کرتے چلا اٹھا اتنی تکلیف کے باوجود بھی اسکی زبان نہ بند ہوئی ۔۔۔”
وہ ڈھیٹ شخص نہیں جانتا تھا کہ اس کے سامنے بھی ڈھیٹوں کا سرادر کھڑا ہوا ہے ۔۔۔۔ “
تو پھر تم نے اس بات سے تو سرے نا واقف ہوگے نا دوست کہ ۔۔۔”
Real friend have the same enemies …”
اس کے لمبے بالوں کو دبوچتے ارمغان عالم نے بڑی پراسرار مسکراہٹ میں پہلی تڑپ کا پتہ پھینکا ۔۔۔اس کے سنجیدہ و حسین پر اسرار چہرے پہ ہمیشہ کی طرح آج بھی فتح کا احساس غالب تھا اس کی آنکھوں میں مشن کی کامیابی کی چمک تھی ۔۔۔۔”
تم پچھتاؤگے ۔۔۔۔” اب کی بار زندگی کی جنگ لڑتے اس لمبے والے شخص کی مایوس سی آواز گونجی۔۔سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کہ اس کی امیدیں دم توڑ چکی تھی وہ خود کو مُردوں میں شمار کرنے لگا۔۔کیونکہ سامنے کھڑے شخص کو جان چکا تھا وہ اسے ظالموں کا سردار ماننے لگا اور اس میں شک بھی نہیں تھا۔۔۔”
پچھتانا لفظ ارمغان عالم نے اپنی ڈکشنری سے کب کا نکال دیا ۔۔۔ “
اپنی موت کی تیاری پکڑو کیونکہ ارمغان عالم کو دھوکہ دینے والوں سے شدید نفرت ہے ۔۔۔ “
پاؤں کے بوُْٹ سے تہہ شدہ چھوٹا سا بلیڈ نکالتے وہ پراسرار قدم اٹھاتا اس کی جانب بڑھا ۔۔۔۔۔”
دھوکہ ہم نے نہیں دیا بلکہ تم نے ہمیں دیا ہے کتے ۔۔۔۔” وہ اس بے ایمانی پہ چلا پڑا اس کی خبیث آنکھوں میں زندگی کی رمق کم پڑتی دے رہی تھی ۔۔ “
ٹھ۔۔۔ٹھیک ہے میں بتاتا ہوں پر تم کسی ایک بندے کو بھی نقصان نہیں پہنچاؤ گے وعدہ کرو مجھ سے ۔۔۔۔”
وہ جو موت سے ڈر گیا تھا اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھتا یہ کہہ کر گویا اس پہ احسان کرنا چاہا تھا۔۔
صیح کہتے ہیں موت کے سامنے تو بڑے بڑے سورما شکست کھا جاتے ہیں پھر وہ کس باغ کی مولی تھا وہ ساری زندگی دوسروں کو تنگ کرنے والا آج خود بےبس تھا ۔۔۔۔”
ارمغان عالم کی دوگھنٹے کی انتھک محنت کے بعد وہ کچھ اگلنے کےلیے تیار ہوا تھا آخر کار وہ اسے بتاتا اور ارمغان عالم کے چہرے کے تاثرات بدلنے لگے ۔۔۔” وہ بڑی دلچسپی سے پر اسرار مسکراہٹ لیے اسے سننے لگا تھا۔۔ “
❤️❤️❤️
مجھے نہیں پتا پہلا پراٹھا میں ہی کھاؤنگا ۔۔۔۔” مانی جو ساری رات گھر سے غائب رہا تھا ابھی کچھ دیر پہلے گھر میں آیا تھا اب اماں کو باہر چولہے پہ روٹیاں پکاتے دیکھا تو اندر سے موڑھا اٹھا کہ نیچے رکھتے علیزے سے کچھ فاصلے بیٹھا جہاں وہ پہلے ہی پراٹھے کے انتظار میں بیٹھی اماں کے ہاتھوں کی پھرتی کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔”
نہیں جی پہلا میرا۔۔۔۔اماں جلدی کریں مجھے دیں میں نے سکول کےلیے نکلنا ہے یہ ویلا انسان سارا دن روٹیاں ہی توڑتا رہتا ہے نا ۔۔۔۔” بعد میں کھالے گا ۔۔۔”
نہیں جی ۔۔۔۔” ہرگز نہیں ۔۔۔پہلے میں ہی کھاؤں گا اس نے علیزے کے منہ کے آگے سے پلیٹ کھسکا کہ ماں کے منہ کے آگے جب آگے بڑھتے اس نے اس کے بال پکڑ لیے اور زور زور سے جنجھوڑنے لگیں۔۔۔”
علیزے میں کہہ رہی ہوں چھوڑ میرے بچے کو ۔۔۔تیری وجہ سے میں نے پہلے بھی اسے زخمی کیا تھا۔۔
یہ نشان بھول گئے جو بچپن میں پہلے پراٹھے کی وجہ سے پڑے تھے ۔۔۔” وہ ماں کی خفگی کو اگنور کرتے پھر سے اس پہ جھپٹ پڑی۔۔۔۔” جب مانی نے موقع سے فائدہ اٹھاتے پلیٹ اٹھا کہ ماں کے آگے کی اور پراٹھا ہمیشہ کی طرح پراٹھا اس کے حصے میں آگیا۔۔۔”
میں خوش نصیب ہوں جو بچپن میں اتنا شاندار تحفہ مجھے میری ماں نے دیا تھا ۔۔۔۔” وہ ان نشانوں پہ ہاتھ رکھتا ماں کو دیکھتا متواتر مسکراہٹ سے بولا۔۔۔
مجھے نہیں پتہ ۔۔۔میں نے نہیں کھانا اس کو کھلا کہ ہی سانڈ بنائیں اماں۔۔۔۔ضد میں آتے علیزے پرشکوہ نظروں سے ماں کو دیکھتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔۔ “
میں کہتی ہوں سارے فتور کی جڑ ہی توُ ہے ۔۔۔۔زارا بیگم نے ایک نظر اس بیٹے کو دیکھا پھر علیزے کو کہا مانی جو بے ڈھنگے پن سے فتح کا احساس چہرے پہ سجائے آنکھوں میں شیطانی چمک لیے پہلا پراٹھا کھا رہا تھا اسے خوشی صرف بات کی تھی ہمیشہ کی طرح جیت ہوئی تھی پہلا پراٹھا اسی کے حصے میں آیا ہےوہ چائے کے گھونٹ کی سر کو بھرتا اسے مزید تپا رہا تھا ۔۔۔۔”
دوسری طرف انھوں نے کینہ توُز نظریں بیٹی پہ ڈالی جو کھا جانے والی نظروں سے مانی کو دیکھ رہی تھی اسے دکھ اس بات کا نہیں تھا کہ پراٹھا اسے نہیں ملا رونا اس بات کا تھا کہ وہ ہمیشہ کی طرح اس کے ہاتھوں بری طرح مات کھا چکی تھی اور یہ ہی مات اسے مانی سے نفرت پہ مجبور کرتی تھی ۔۔۔”
ہائے پہلا پراٹھا ۔۔۔۔۔امی خدا کی قسم ہمیشہ کی طرح چس آگئی ۔۔۔۔ ” وہ چائے کے سر زدہ گھونٹ بھرتا مسکے
لگا کہ بولا۔۔۔ “
یہ لو ۔۔۔۔پراٹھے کے دو تین ٹکڑے اسے پکڑاتے وہ احسان زدہ انداز میں لیے بولا۔۔۔۔”
تم ہی کھاؤ ۔۔۔مرو ۔۔۔۔وہ پیر پیٹختی ایک دفعہ پھر اس کے بال کھینچتی مڑگئی ۔۔۔”
خیر ہے اماں آج دوسرا پراٹھا بھی مجھے دے دیں ۔۔۔” ویسے دوسرا پراٹھا تو اور بھی بہت اچھا ہے ۔۔۔” وہ سر کو کندھے پہ رکھے آنکھوں کو پیچھے کی جانب موڑے ترچھی نگاہ سے اس کو کمرے کی طرف دیکھ کر مشکوک سا بولتا پھر سے اماں کی جانب دیکھ کر بولا۔۔۔۔”
خبر دار جو اس پہ نگاہ بھی ڈالی میں تمھارا قت”ل کر دوں گی ۔۔۔۔اس کی اتنا کہنے کی دیر تھی جب وہ چیل کی جانب پیچھے کی طرف آتی اس کے ہاتھ سے پلیٹ سمیٹ پراٹھا کھینچ چکی تھی کچھ بھی ہوجائے وہ اسے جتینے ہرگز نہیں دینا چاہتی تھی ۔۔۔”
تم نے میرے بال کیوں کھینچے تھے چوہیا ۔۔۔” دونوں منٹ گزرے تو مانی نے اسے سکون سے کھاتے دیکھ کہ اسکے سر پہ تھپڑ مارتے اس کی سلیقے سے ٹکی سر پہ چادر سے باہر اس کی بالوں کی چیٹیا کو کھینچتے حساب برابر کیا ۔۔
پر میں نے صرف بال کھینچے تھے تھپڑ نہیں مارا تھا کمینے انسان۔۔۔یہ کہتے اس نے مانی کی پشت پہ رکھ کہ دو تھپڑ مارے ۔۔”
پر میں نے صرف ایک مارا۔۔تمھاری ہمت کیسے ہوئی ایک اور فالتو مارنے کی ۔۔۔۔” مانی نے اس کے سر پہ تین چار تھپڑ مارتے سکون سے جوانی کاروائی کی ۔۔۔۔۔”
ماسٹر صاحب ۔۔۔۔” زارا بیگم نے زور دار ہانک لگائی تو دونوں نے گبھرا کہ ایک دوسرے کو چھوڑا ۔۔۔ زارا بیگم جو انھیں شروع سے بہت مارتی تھیں وہ انھیں مارنے سے ذرا بھی گریز نہیں کرتیں تھیں لیکن جس دن سے ان کی وجہ سے مانی کی پیشانی زخمی ہوئی اس دن سے وہ مارنے سے احتیاط برتا کرتی تھیں انھوں نے آج بھی مانی کی چوڑی پیشانی کو دیکھا جس پہ اسٹیجز کے واضح نشان تھے وہ تین واحد نشانات تھے جو بہت کم کبھی کبھار اس کے بہتر حلیے کی وجہ سے نظر آتے تھے پیشانی پہ پڑے نشانات ہی تھے جو بہتر حلیے میں اس کو خوبصورت بناتے تھے ۔۔۔” اب بھی وہ اس کی پیشانی پہ بکھرے بالوں کو دیکھ رہی تھیں اور انھیں افسوس بھی ہوتا کہ کیوں اسے مارا۔۔۔۔”
ماں کے ہاتھوں کا پہلا پراٹھا کھانا تو گویا ان دونوں کےکیے اعزاز ہی تھا۔۔۔
یہ بچپن کا ہی قصہ تھا جب وہ ہمیشہ وقت پہلے پراٹھے کےلیے ہاتھا پائی میں مصروف تھے جب اماں نے ان دونوں کو چھڑانے کی خاطر پہلے الگ کروانے کی کوشش کی ۔۔۔مگر وہ پھر بھی الگ نہ ہوئے وہ جو ماسٹر صاحب کے ناشتے کےلیے انڈا فرائی کر رہی تھی اور دوسرا آگ کی گرمی تیسرا ان کی لڑائی نے ان کے غصے کو ہوا دی ۔۔”
اور اماں نے خالص اسٹیل کا چمٹہ ان کی طرف پھینکا اس کی چونچ دار نوک کی وجہ سے وہ چمٹہ مانی کے ماتھے پہ لگا اور بھل بھل کرتا خو”ن فرش پہ گرنے لگا ایک منٹ کے اندر یہ ناگہانی آفات دیکھ کر زارا بیگم کے حواس سلب ہونے لگے جلدی سے انھوں نے اپنا ڈوپٹہ اتار کہ اسکی پیشانی پہ رکھا ۔۔۔۔” پندرہ سالہ مانی سر پہ ہاتھ رکھے ہکا بکا ماں کو دیکھ رہا تھا جو خود ہی مار کہ خود ہی اونچا اونچا روئے جا رہی تھیں وہ ڈھیٹ انسان خود کو چھوڑ کہ ماں کو چپ کروانے لگا۔۔۔۔” اس کے بعد اسے ٹانکے تو لگ گئے اور وہ ٹھیک بھی ہوگیا لیکن اس کے بعد وہ علیزے کو کوسنا نہیں بھولتی تھی کہ یہ سب اسکی وجہ سے ہوا ہے اور اسی وجہ سے انھوں نے اپنے لال کا یہ حال کیا تھا ۔۔۔۔” بس پھر اس کے بعد جو بھی ہو جائے انھوں نے مانی کو کبھی نہیں مارا تھا ۔۔۔”
اور اسی بات پہ تو مانی کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ۔۔
وہ ماں کے پیار کا ناجائز فائدہ اٹھا کے اسے بلاوجہ تنگ کرتا تھا لیکن اپنے بری حرکتوں اور کرتوتوں کی وجہ سے وہ باپ کے عتاب کا نشانہ بنا رہتا ۔۔۔” وہ ماں کے چمٹے سے دئیے گئے زخم کو آج تک گولڈ میڈل سے کم نہیں سمجھتا آیا تھا یہ ہی وہ خوش قسمت نشان تھے جب اسے واپس اماں سے پھینٹی نہیں پڑی تھی ۔۔۔”
ابھی بھی باپ کو باہر آتا دیکھ کہ کھیسانی بلی کی طرح اٹھتا وہ جلدی سے بیٹھک کی جانب بڑھ گیا تھا اس دن کی مار کے بعد وہ ابا سے فاصلے پہ رہنے لگا ۔۔۔جانتا تھا میٹر کسی بھی وقت شارٹ ہوسکتا ہے ۔۔۔۔”
*****
میں ڈھونڈتا ہوں کامیابی در بدر لیکن
میں ہوتا ہوں کہاں جب آتی ہے صدا
حی الفلاح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” حی الفلاح
بکھرے بال ، سفید لباس کی آستین بازؤں تک مڑی ہوئی ۔۔۔پیشانی پہ وضو کے قطرے اس کے پرنور چہرے پہ چمک رہے تھے
ننگے پاؤں وہ شخص مسجد کے صحن کے وسط میں لگی ٹوٹیوں کے نیچے وضو کر رہا تھا ماحول میں خنکی کا اثر بڑھ تھا سحر کا وقت تھا وہ ٹھنڈے ماربل کی فرش سے گزرتا اذان کےلیے کھڑا ہوا۔۔۔۔۔”
لا اله الا اللہ
(نہیں کوئی خدا سوائے ایک اللہ کے)
الله اكبر
اللہ سب سے بڑا ہے
اشهد ان لا اله الا الله
(میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی خدا نہیں سوائے ایک اللہ کے)
اشهد ان محمدا رسول الله
میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں
حي على الصلاح
آؤ نماز کی طرف
حي على الفلاح
کامیابی کی طرف جلدی آؤ
الصلوة خیر من النّوم
نماز نیند سے بہتر ہے
اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ اللہ محمد رسول ۔۔۔۔”
رات کے گہرے سکوت کو توڑتی فجر کی دلفریب اذان اس گاؤں اور ساتھ والے گاؤں کے کئی مکینوں کو گہری نیند سے بیدار کر گئی ۔۔۔ “
لوگ آہستہ آہستہ نماز ادا کرنے کےلیے آ رہے تھے مسجد کے مناروں سے پھوٹتی روشنیاں نور کا ایک روح پرور منظر کا تاثر دے رہی تھی۔
صالح خشوع و خضوع اذان دے کہ باہر کی جانب چلا آیا کیونکہ جب سب نماز کےلیے اکھٹے ہوتے تو تب صہیب شاہ نماز ادا کرواتے اور پھر وہ آدھا گھنٹہ اکیلے مسجد کے صحن میں ہی گزارتا تھا ۔۔۔
وہ مسجد کے صحن میں بیٹھتا آنکھیں بند کرتا ہلکی ہلکی آواز میں نعت کے اشعار پڑھنے لگے اس کا ایک ایک الفاظ اپنی ایک پرسکون سُر بجانے لگے۔۔۔”
اَلصُّبحٌَ بَدَامِنٌ طُلٌعَتِہ وَالَّلیٌلُ دَجا مِنٌ وَ فٌرتِہِ
ہے نورِ سحر چہرے سے تیرے اور شب کی
رونق زلفوں سے تیرے ۔۔۔۔اللہ ھو اللہ ھو۔۔۔”
جامع مسجد کے ٹھنڈے فرش پہ بیٹھے حرف حرف اتار چڑھاؤ کے ساتھ صالح محمد کے منہ سے ادا ہوتے الفاظ فضا میں پرُسوز سحر گھول رہے تھے ایسے لگ رہا تھا جیسے اس کے منہ سے الفاظ بے خودی کی کیفت میں نکلتے بلند ہوتے جا رہے تھے ایسے لگ رہا تھا وقت جیسے رک ہی گیا ہے آگے چلنا ہی نہیں ہے اس کی آواز میں دل میں کبھُتی کیفت ہی اتنی تھی کہ وہاں وضو کرتے افراد کے ہاتھ خود بخود رک گئے اس کی آواز سن کہ وضو کرتے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔۔
سب کے جسم میں ایک سنسی سی پیدا ہوئی اس کی آواز کانوں سے گزرتی سب کے دلوں پہ سر بکھیرنے لگی وہ سب اس کے نور سے چمکتے چہرے کو بغور دیکھنے لگے ۔۔۔وہ تو اذان بھی کمال کی ادا کرتا تھا کہ سوتے ہوئے لوگوں کی آنکھیں کھل جایا کرتی تھیں ۔۔”
اس کے پاس مصروفیت سے گزرتے نمازی بھی وہاں بیٹھ گئے جہاں تک حافظ صہیب بھی اس کے پاس آ ٹکے اس کی آواز کانوں کے راستے گزارتی دل کے نہا خانوں میں پہنچ رہی تھی ۔۔۔
نعت کے اور اشعار پڑھ کے اس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں مولوی صہیب شاہ سمیٹ چھ سات افراد کو اپنی جانب متوجہ دیکھ کہ نگاہیں جھکا گیا۔۔۔”
مولانا صاحب ۔۔۔۔” آج سے خصوصی اذان ہمارا نیک بچہ صالح محمد ادا کرے گا ۔۔۔۔” یہ ان ہی صاحب کے الفاظ تھے جنھوں نے پچھلے دنوں اس کے حلیے پہ چوٹ کی تھی ۔۔۔”
میں اس دن کےلیے اپنے رویے پہ بہت شرمندہ ہوں صالح محمد ۔۔۔۔۔” مجھے لگا کہ میں نے ایسی بات کرکے اپنے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ناراض کیا ہے ضروری نہیں ہے کہ ظاہر ہی اچھا ہو۔۔۔۔” اصل اہمیت کا حامل تو باطن ہوتا ہے باطن صاف نہ ہو ظاہری خوبصورتی بے معنی ہے ۔۔۔۔”
منصور صاحب نے پیشمانی سے کہتے اس کے چہرے پہ غورو فکر کیا ۔۔۔” منصور صاحب جب یہ بات کر رہے تھے تو نمازیوں کا تقربیاً ہجوم سا ہوگیا تھا سفید لباس سر پہ سیاہ رومال باندھے وہ بہت ہی جاذب نظر لگ رہا تھا
سب پچیس سالہ صالح محمد کے پرُنور چہرے کو یک ٹک متاثر و حیران کن نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔۔۔”
دوسری طرف صالح محمد ساکت سا کھڑا نمازیوں کے ہجوم کو ٹکٹکی بھری نظروں سے خود پہ دیکھ رہا تھا
اس کا ٹوٹا ہوئے دل کو ایک سکون سا ملا۔۔۔۔وہ تو دنیا کی نظر میں دھتکارا ہوا شخص تھا ۔۔۔پھر اتنی عزت ۔۔۔؟
اس نے بھلا کب سوچا تھی۔۔۔؟آنکھوں سے ٹوٹتا آنسؤ ہاتھ پہ جاگرا۔۔۔یہ آنسوؤں اللہ کی طرف سے دیا گیا تحفہ تھا وہ جو کبھی نہ رویا ۔۔۔۔آج پہلی دفعہ صالح محمد کی آنکھوں سے نکلا خوشی کا آنسو تھا۔۔
صالحِ محمد ٹوٹا شکستہ دھتکارا بکھرا ہوا ۔۔مکمل طور پہ اپنی ذات میں الجھا ہوا شخص تھا جسے اس کے خدا کہ علاوہ کسی ذی روح نے نہیں سمجھا تھا اور شاید اسے اس دنیا میں سمجھنے والا پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔۔۔۔”
.
منصور صاحب کی باتوں کا جواب اس کے لبوں نے نہیں بلکہ آنکھوں نے دیا تھا۔۔۔” پانچ منٹ گزرے تو آہستگی نماز ِ فجر کی ادائیگی کےلیے رخصت ہونے لگے ۔۔۔”
ان کے جانے کے بعد صالح محمد سجدے میں گرگیا تھا ۔۔۔۔آنکھوں سے آنسوؤں مسلسل گرنے لگے ۔۔۔” کچھ پل بعد وہ اٹھا۔۔۔۔ “
خدا ٹوٹی ہوئی چیزوں کو بڑی خوبصورتی سے استعمال کرتا ہے صالحِ محمد۔۔” حافظ صہیب شاہ جیسے اس کے اندر کی توڑ پھوڑ کو ایک پل میں جان گئے ۔ ۔”
بادل بارش برساتے ہیں ٹوٹی ہوئی مٹی کھیتوں کے سامنے
ٹوٹی ہوئی فصل کے بیج کے بیج نئے پیدا ہونے والے پودوں کو نئی زندگی ملتی ہے ۔۔۔ ” صالح محمد جب تم لگتا ہے کہ تم ٹوٹ چکے ہو تو یہ یقین کرکے کہ خود کو جوڑنے کی کوشش مت کرنا کہ خدا تمھیں کسی بڑی چیز کےلیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔۔۔۔”
حافظ صہیب شاہ کی آواز پہ وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔۔۔”
پر میں تو ایک دھتکارہ ہوں شخص ہوں نا ۔۔۔۔” پھر اتنی عزت ۔۔۔۔۔؟ وہ ابھی تک بے یقینوں کی کیفت میں گھرا ہوا تھا۔۔
کیوں صالح محمد محبت میں دھتکارے ہوئی ہے ۔۔۔۔۔غم جاناں کا روگ لگا ہے ۔۔۔۔” کھل کہ مسکراتے انھوں نے استفسار کیا ۔۔۔کیونکہ جانتے تھے اس عمر میں زیادہ تر نوجوانوں کو یہ لت لگ جایا کرتی ہے تب ہی وہ محبت کو پانے کےلیے نمازوں کی پابندی کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔۔۔ “
نہیں زمانے نے دھتکارہ ہے غم جاناں کا نہیں غم رواں کا روگ لگا ہے ۔۔۔ ” اور مجھے نہیں فرق نہیں پڑتا کہ کون کیسا سوچتا ہے میرے بارے میں ۔۔۔۔ ؟ لیکن اتنی عزت تو خوابوں میں بھی تصور نہیں کی تھی ۔۔۔
ہمیشہ کی طرح بچوں کی طرح بول رہا تھا اور صہیب عالم کو اس کے اس بچوں والے انداز کو دیکھتے آگے ہوتے اسے اپنی آغوش میں سمیٹا ۔۔۔” جب وہ بچوں کی طرح رونے لگا تو انھوں نے پہلی دفعہ اسے رونے دیا ۔۔۔۔” اور پھر اسے اٹھاتے نماز کی ادائیگی اندر لے گئے ۔۔۔”
****
اوئے اپنی باجی کو جاکہ بولو ۔۔۔۔۔کہ ان کے مجازی خدا کی چائے کا وقت ہوا چاہتا ہے ۔۔۔۔” دیوار سے جھانکتے ٹیوشین والے بچوں کو چٹائی پہ زور زور سے ہلتے رٹہ مارتے دیکھ کہ کچن سے برتنوں کی آواز سنتے اس نے حکمانہ انداز میں کہا ۔۔۔۔ “
نورِ حرم جو اب شام کے وقت بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی دس سے بارہ بچے اس کے پاس پڑھنے کےلیے آتے تھے
یہ بچے آج تقربیاً دس بعد اس نے دیکھے تھے وہ گھر ہوتا تو اسے کچھ خبر ہوتی نہ۔۔۔”
مانی بھائی آپ کو کسی نے تمیز نہیں سکھائی بات کرنے کی ۔۔۔۔مطلب کوئی سنیس ہوتی ہے بات کرنے کی ۔۔۔آپ کو ذرا بھی نہیں ہے اور دوسرا اپنے لچھن دیکھ لیں خود ۔۔۔۔”
اور تیسرا ہم یہاں لُگڑیاں مارنے کےلیے نہیں پڑھنے آتے ہیں ۔۔۔ جواب ایک دس سالہ بچے کی جانب سے آیا تھا
جو شکل سے ہی تیز لگ رہا تھا ۔۔۔”
اوئے بات سن توُ ۔۔۔۔۔۔مسٹر چپیس کی اولاد بات سن توُ میری ۔۔۔۔”
پاکستان کی تین مشہور ملیں ہیں
شوگر مل ، کاٹن مل ، اور سب سے مشہور مل توُ مجھے ذرا باہر مل ۔۔۔۔۔”
پتر توُ بھی ذرا باہر گلی میں مجھے مل ۔۔۔میں تیری ساری سینس ناک کے ذریعے نکالوں گا۔۔۔۔ ” وہ اس کے لفظوں سے تپتا سلگتا آنکھیں نکالتا بولا۔۔۔۔”
تم میرے بچوں کو ڈرا دھمکا نہیں سکتے نشئی انسان ۔۔۔۔”
نورِ حرم جو کب سے اسکی بکواس سن رہی تھی گیلے چہرے کو ڈوپٹے سے صاف کرتی کچن سے باہر نکلتی تڑاخ کر کے بولی ۔۔۔۔” وہ جو اس نشئی انسان کی غیر موجودگی پہ حیران تھی آج پھر کئی دنوں بعد اسکی بکواس سنتی بیزار ہوگئی ۔۔۔”
خبر دار مسسز ۔۔۔۔” جو تم نے ان فتنے نما کارٹونوں کو اپنے بچے کہا ۔۔۔۔ ” معزز مسسز اگر اپنے بچوں کا اتنا ہی شوق ہے نا تو شادی کےلیے مجھ سے رابطہ کریں اور پائیں ڈھیر سارے رنگ برنگے ہر کوالٹی کے بچے ۔۔۔۔ “
وہ یہ کہتا دیوار سے کودتا ان کے صحن میں قدم رکھ چکا تھا۔”
اس کی بات سن کہ نورِ حرم نے چٹائی پہ بیٹھے بچوں کو اپنی جانب متوجہ دیکھا تو خطرناک ارادے سے اسکی جانب بڑھتی چپل اتار چکی تھی ۔۔۔۔”
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial