قسط: 9
اس کی بات سن کہ نورِ حرم نے چٹائی پہ بیٹھے بچوں کو اپنی جانب متوجہ دیکھا تو خطرناک ارادے سے اسکی جانب بڑھتی چپل اتار چکی تھی ۔۔۔۔”
شرم آنی چاہیے تمھیں بدتمیز انسان ۔۔۔۔” وہ اس پہ گرجتے برستے ہوئے بولی اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ مانی کا سر پھاڑ دے
شرم ہم سے شرمائے ۔۔۔۔” وہ یہ کہتا قہقہ لگا کہ بے ڈھنگا سا ہنسا۔۔ “تو وہ پھر سے تپ گئی تھی ۔۔
ایک منٹ کے اندر اندر نکلو میرے گھر سے ۔۔۔۔” وہ چپل اتارتی اس کی طرف بڑی جو بڑی شان سے کسی حاتم طائی کی طرح ٹانگ پہ ٹانگ چرا کہ بیٹھ گی چہرے پہ ازل سے سجی مسکراہٹ تھی وہ ہی مسکراہٹ جس سے نورِ حرم کو نفرت تھی _____”
اس کا بس چلتا تو وہ اس کے چہرے سے مسکراہٹ تک چھین لیتی مگر وہ خبیث کہاں اپنی مسکراہٹ چھننے دیتا تھا…”
ادھر آؤ مسٹنڈے ۔۔۔۔” میں ذرا تم سے تمھاری ذہانت کا امتحان لوں۔۔۔۔ یہ کہتے جُھک کہ اس نے زین کے ہاتھوں سے کتاب چھین لی ۔۔۔ ” نورِ حرم کی موجودگی کو تو اس نے سرے سے نظر اندز کر دیا اب ٹیوشین والے بچے سہمے ہوئے بیٹھے تھے جانتے تھے اس شیطان کے سردار کے ہاتھوں ان کی شامت آچکی ہے مانی سبق سنتا جو بھول جاتا اسے پیچھے سے پشت پہ رکھ تھپڑ لگاتے وہ سارے اب سہمےہوئے بھیگے بلے کی طرح بیٹھے تھے ۔۔۔نورِ حرم جو ضبط کے پہرے بیٹھائے بیٹھی تھی اب اس کا ضبط جواب دے چکا تھا۔۔
تم ان کا امتحان نہ لو ۔۔بلکہ اپنے گریباں میں جھانک کہ دیکھو ۔۔۔” وہ غصے سے جلے پیر کاٹتی تلخی سے بولی ۔۔۔”
اور تم بھی ان کی ماں مت بنو ۔۔۔۔جاؤ میرے لیے چائے لے کہ آؤ۔۔۔وہ بھی ترنت اس کی بات کا جواب دیتا اسکا پارہ ہائی کرگیا ۔۔۔”
آج چائے صرف دو کپ ہی بنائے تھے ۔۔۔نورِ حرم نے یہ کہتے جان چھڑوانی چاہی ۔۔۔”
ٹھیک ہے یعنی پھر آج رات میرا پڑاؤ یہی پر ہے۔۔۔وہ سکون سے کہتا اس کا سکون برباد کر گیا تھا ۔۔۔ “
ڈیش انسان چائے تو میں تمھیں بنادوں گی کیونکہ مجھے تم یہاں بیٹھے ہوئے زہر لگ رہے ہو ۔۔۔ ” وہ تنک کہ اٹھ کہ یہ کہتی کچن کی جانب بڑھ گئی کہ روز کی طرح چائے دے کہ اسے جان چھڑوا لے گی اور اس کے جانے کے بعد سکون سے ان سب کو پڑھائے گی ۔۔۔۔”
اؤئے جاؤ سب چھٹی کرو اور موجیں مارو ۔۔۔۔وہ آہستگی سے جھک کر سرگوشی سے گیٹ کی طرف اشارہ کرتا انھیں آزادی کی نوید سناگیا ۔۔۔” خاموشی سے ایک ایک کو رخصت کرتے اس نے نورِ حرم کو ہوا تک نہ لگنے دی ان بغیرتیوں میں تو وہ شرع سے ماہر تھا ۔۔۔”
نورِ حرم کچن میں کھڑے ہو کہ نخوت سے سر جھٹکتے چائے بنا رہی تھی اس نے سلنڈر آن کیا تو گیس کی آواز کے ساتھ غیر معمولی سی آواز سنائی دی ۔۔۔اسے ڈر تھا کہ کئی کچھ گڑ بڑ ہی ہو ہی نہ جائے ویسے بھی کچھ دیر پہلے بھی اس نے ڈر ڈر کہ چائے بنائی تھی ۔۔”
وہ نیچے بیٹھ کہ ریگولیٹر کو سیٹ کرنے لگی کچھ دیر بعد وہ اس یقین سے اٹھی کہ ٹھیک ہوگیا ہے تو وہ جلدی سے چائے دے کہ اسے یہاں سے بھگائے ۔۔۔”
آئندہ چائے پینی ہو تو سامان ساتھ لے کہ آنا میرےمرحوم باپ کا اتنا بینک بیلنس نہیں ہے کہ میں روز نواب صاحب چائے کا انتظام کروں۔۔۔”
اس نےبلند آواز میں کہا صحن میں غیر معمولی سناٹا سا ہوتے دیکھ کہ اس کے ذہن میں کچھ کھٹکا ہوا تو کھڑکی سے جھانک کہ صحن کو خالی دیکھ کہ اس نے اپنا سر پیٹ لیا ۔۔۔۔”
مانی کی یہ حرکت دیکھ کہ اسے لگا کہ اس کا سر پھٹ جائے گا ۔۔۔اس سے پہلے وہ باہر نکلتی جب اس کو کچن کے دروازے پہ اس کو اپنی جانب تکتا پایا۔۔” اور اس کی نگاہوں میں ہمیشہ کی طرح بے غیرتی ہی دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔”
نورِ حرم بازیرک لڑکی تھی عقل و دانش مندی اور فراست تو اس میں کوٹ کوٹ کہ بھری تھی یہ الگ بات تھی کہ وہ اس شخص کے سامنے ہی خود پر سے قابو کھوئے بدتمیز بن جایا کرتی تھی ۔۔۔
ابھی بھی عقل مندی سے کام لیتے اس نے گیس آن کی اور چائے سلنڈر پہ رکھی۔۔۔ دل ہی دل میں وہ اس سے بہت خوفزدہ تھی مگر بظاہر بہادری دکھا کہ نڈر بن رہی تھی ۔۔۔”
مانی تیزی سے آگے بڑھتا اس کی جانب آیا نورِ حرم اس کے تیور دیکھ کہ پیچھے کو سرکی۔۔۔” اسے اپنی جانب بڑھتا دیکھ کہ اسے محسوس ہوا کہ وہ غلط ارادے سے اس کی جانب بڑھ رہا ہے اماں بھی گھر نہیں تھیں شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے وہ سودا سلف لینے شہر گئی تھیں اور ابھی تک ان کی واپس آنے کے چانسز بالکل نہیں لگ رہے تھے ۔۔”
وہ چائے کی پیتلی کو دیکھتی اس کے ارادوں کو دیکھ رہی تھی اسے اب اس شیطان کی ساری کار گردگی سمجھ آنے لگی اس کی نیت میں چھپے فتور کو سوچتی وہ مزید سہم گئی وہ چیخنا چاہتی تھی مگر زبان نے ساتھ ہی نہ دیا پیچھے سے شر شر کی ہلکی ہلکی آواز سن کہ اسکی ٹانگیں کام کرنا چھوڑ چکی تھیں۔”
اس سے پہلے وہ کچھ کرتی ہی جب اسے کسی بھی حرکت کا موقع دئیے بغیر اس نے جھپٹ وہ اسکا ڈوپٹہ اتارنے کی کوشش میں تھا اور آخر وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگیا تھا۔۔۔”
نورِ حرم کا مضبوط دل اس کی گھناونی حرکت پہ کانپ کے رہ گیا تھا اس کا دماغ کرنا چھوڑ گیا تھا اس سے پہلے کہ وہ اپنی عزت و نفوس کا سوچ کہ کوئی چیز اٹھاتی جب اس کو مڑ کہ دیکھا تو اسے گیس سلنڈر کے ساتھ گھلتے دیکھا ہپاں کچھ دیر پہلے ریگولیٹر والی جگہ سے آواز آرہی تھی اب وہاں سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے کاٹن کے ڈوپٹہ سے آگ نہیں بُجی الٹا س کا ڈوپٹہ جل گیا جس سے اس کے ہاتھ بھی ہلکے ہلکے جھلس گئے اس نے تیزی سے اسے کلائی سے پکڑ کہ باہر کی جانب دھکا دیا تو وہ نیچے گرتے گرتے بچی وہ سہمی ہوئی اس کی کاروئی دیکھ رہی تھی جو باہر بر آمدے کی چرپائی سے بڑی چادر اتارتے پھر سے کچن کی جانب بھاگا کانپتے وجود کے ساتھ وہ کچن کو آرزدہ نظروں سے دیکھنے لگی اسے لگا تھا اب موت یقینی ہے ۔۔۔”
وہ اس کو بر آمدے میں ہی کھڑی دیکھ رہی تھی اس نے اب چادر کو سلنڈر کہ اوپر رکھ کہ زور سے دباؤ ڈالا چادر کے بھاری پن اور اس کی اناڑی پن کی وجہ سے آگ کے شعلے یکدم ہی بجھ گئے۔۔”
وہ بظاہر اونچا لمبا مگر اسکی نظروں میں ٹھہرا فضول مرد سلنڈر کے پھٹنے سے پہلے ہی اس آفات پہ قابو پاچکا تھا نورِ حرم گرنے والے انداز پہ چرپائی پہ بیٹھی تھی ۔۔۔”
تمھاری چائے تو سے اچھا تھا کہ میں باہر ہی کوئی سوٹا لگا لیتا ۔۔۔۔” یہ کہتے کچھ دیر پہلے ماحول کا اثر زائل کرنے کی کوشش کرتا باہر نکلا تو اسے چارپائی پہ بیٹھے گہرے گہرے سانس لیتے دیکھ کہ ہنس کہ بولا ۔۔”
مسسز تمھارا ڈوپٹہ جل گیا ہے اس کے ہاتھ میں نورِ حرم کا گلابی رنگ کا جلا ہوا ڈوپٹہ تھا ۔۔۔” دوسری جانب اسے اپنی ہوش ہوتی تو کوئی جواب دیتی نہ ۔۔۔۔” یہ دوسری بار اس کے ساتھ ایسا کام ہوا تھا اور دوسری بار بچانے والا بھی وہ غلیظ انسان تھا ۔۔۔
مسسز ۔۔۔۔کیا اتنی ہی بہادر ہو تم ۔۔۔۔؟ مانی یہ کہتے اس کے پاس آ بیٹھا ۔۔” اس کی آنکھوں میں آنسؤ دیکھ کہ ہنس کہ کہتے چرپائی پہ بیٹھ گیا ۔۔۔”
یہ سب تمھاری وجہ سے ہوا ہے ۔۔۔ ” نہ تم مجھے چائے بنانے کا کہتا اور نہ یہ سب ہوتا۔۔۔ ” وہ اس کو اپنے سے کچھ فاصلے پہ بیٹھا دیکھ کہ اسے پیچھے دکھیلتے اپنے ازلی سرد رویے سے بولی ۔۔۔ “
ہوا کیا ہے مدھو مکھی ۔۔۔ ہر وقت مرنے مارنے کےلیے ہی تیار کیوں رہتی ہو کبھی پیار کے الفاظ ہی استعمال کرلیا کرو ۔۔۔؟ اپنے دانتوں کی نمائش کرتے اس نے کھی کھی کرتے پوچھا۔۔۔”
تم ۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔میں کسی دن تمھارا کام تمام کر دوں گی ۔۔۔” وہ ایک ہاتھ سے اس کا گریبان پکڑتے دوسرے ہاتھ سے اسکے بالوں کو کھینچتی بھپر کہ بولی ۔۔۔ “
کر تو دیا ہے مسسز۔۔۔۔۔” اسے بغیر ڈوپٹے کے اپنے قریب بیٹھا دیکھ کہ اس کے دلکش روپ کو اپنی غلیظ نظروں میں سماتے وہ چھچھور پن کی انتہا کرتے بولا۔۔۔ “
چیپ ڈفر ٹھرکی ۔۔۔۔وہ ہڑ بڑا کہ اسے دور ہوتے اس کی گہری بے باک نظروں کو اپنے اوپر جمے دیکھ ہڑ بڑا کہ چھوڑتی خود کو لعنت ملامت کرتی کمرے میں گھس کہ دروازہ اندر سے لاک کرلیا وہ جانتی تھی کہ مایوس ہوکہ خود بخود چلا جائے گا ۔۔”
اس کے جانے کے بعد پیچھے مانی پھر سے کچن میں جاتے جگاڑ لگا کہ سلنڈر کو ٹھیک کرنے لگا ۔۔۔” کچھ دیر بعد مکمل تحقیق کے بعد وہ اسے ٹھیک کرکے ہی اٹھا ۔۔۔”
تقربیاً آدھے گھنٹے بعد وہ مغرب کی نماز ادا کرکے کہ آئی تو وہ خالی چرپائی کو دیکھا وہ گہر ا سانس بھرتی کچن کی جانب بڑھ گئی ۔۔۔”
اور کچن پہ نگاہ پڑتے ہی سلنڈر پہ پرانے ریگولیٹر کی جگہ نئے ریگولٹر کو فٹ دیکھ کہ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی وہ اس کی جگاڑ کی دل ہی دل میں قائل ہوگئی گیس کی بو تو آرہی تھی وہ دل میں خدشات لیے اس نے گیس آن کی تو اب گیس بنا آواز کیے نارمل چل رہی تھی ۔




نورِ حرم آسماں کہ تاروں کو خالی نظروں سے دیکھ رہی تھی تین بجے کا وقت تھا وہ چاندنی رات کو غورو فکر سے دیکھنے کےلیے شروع سے ہی شیدائی تھی
چاندنی رات اور آسمان پہ جگممگاتے تارے دیکھنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔۔
تہجد ادا کرکے وہ چرپائی پہ لیٹی ہوئی تھی آج تو روح کے اندر تک گہری یاسیت کا ڈیرا تھا اس لیے خالی ذہن سے آسمان کو دیکھ رہی تھی دوسری طرف چارپائی پہ اماں دنیا جہاں سے بے خبر کوئی دوا لیے گہری نیند کی آغوش میں تھیں ۔۔
وہ کروٹ لیے ایک نظر ماں کے پرسکون چہرے کو دیکھتے پھر سے آسماں پہ نظریں جما گئی آج جیسے دل اندر سے خالی تھی ویسے بھی اسکی زندگی کے شب و روز ویران اجاڑ گزر تھے ہر روز مشین کی طرح کام انجام دینا ۔۔۔اماں صبح کی صحت کے سبب وہ سارے کام خود کر کے سکول پڑھانے جاتی ، واپسی پہ گھر کے چھوٹے موٹے کام بچوں کو ٹیوشین بس یہ ہی زندگی کا حصہ تھا۔۔
مانی تو بس اسکا کاغزی حد تک ہمسفر تھا اس سے زیادہ خیال و تسلی کا رشتہ نور حرم نے خود ہی نہیں رکھا ۔۔۔وہ جانتی تھی کہ مانی کس فطرت کا مالک ہے ۔۔ویسے تو ہر روز ہی وہ اپنی بے تکی باتوں کے سبب غصہ دلا دیتا ۔۔۔” اور وہ ہر روز اسکی فضول گوئیاں سن بھی لیتی تھی مگر اس شخص کےلیے اس کے دل میں احساس کا جذبہ تک نہ تھا اس سے نکاح سے پہلے وہ اتنی تلخ کبھی نہیں ہوا کرتی تھی وہ بہت گم گو تھی لہجے میں متانت صاف نظر آتی ۔۔” مانی سے نکاح کے بعد ہی یہ کڑاوہٹ اس کے لہجے میں گھل گئی حالات اور واقعات نے اسے بالکل ہی بدتمیز بنا دیا ۔۔۔۔”
تنہائی میں بس وہ یہ ہی سوچتی کہ وہ ابا کہ مرنے کے بعد حالات کی چکی میں پس کہ جبر کا شکار ہوگئی تھی اسے بس ایک ہی ہوتا کہ اگر باباحیات ہوتے تو اس کی زندگی تو کم از کم سہل ہوتی ۔۔۔” اب تو زندگی میں مشکلات ہی مشکلات تھیں بجلی کا بل ، اماں کی دوائیوں پہ اچھا بھلا خرچ ہوجاتا مگر پھر بھی وہ ہمت و صبر سے گھر کو چلا رہی تھی بغیر ماسٹر صاحب کی سپورٹ کے ۔۔۔”
وہ سوچتی تھی اگر بابا چرپائی پہ بھی ہوتے تو کم از کم اس کے پاس باپ کا سہارا ہوتا ۔۔۔اگر وہ تھک جاتی تو ان کی گود میں سر رکھ کہ اپنی زندگی کی مشکلات بتا دیا کرتی تو وہ اس کی ہمت باندھوا دیا کرتے ۔۔۔ ” اگر اس کے بابا ہوتے تو تایا ابا اس کی زندگی کا فیصلہ نہ کرتے ۔۔۔ اپنے نکمے بیٹے کا نام اس کے ساتھ ہرگز نہ لگاتے
بیٹیوں کی زندگی میں ماں باپ کا ہونا بہت ضروری ہے ماں باپ کا بیٹی کی زندگی میں ہونا ایسے ہی اہم ہے جیسے روح جسم میں ۔۔” روح کے بغیر تو جسم پھر قبر کےلیے ہی رہ جاتا ہے
بیمار ہی سہی مگر باپ کا نام اور تحفظ ہی سر پہ ہوتا
باپ تو زندگی کا ایک مضبوط درخت ہے جس کے سائے سے اولاد ٹھنڈک اور راحت بھری زندگی گزارتی لیکن اب تو زندگی جینے کےلیے صرف سوچیں ہی رہ گئیں تھی
وہ فرسٹ ائیر کی سٹوڈنٹ تھی اس کے ابا اچھا بھلے تھے وہ ریٹائر پنشر تھے گھر پہ آرام و سکون کی زندگی گزر رہی تھی ایک دن کھانا کھاتے ہوئے اچانک سے بائیں سائیڈ کو مسلنے لگے دل کالے در پہ جانبردار نہ رکھ سکے اور زندگی کی بازی ہار گئے بابا کے جانے کے بعد اس نے خود کو خود تک محدود کر لیا ہے بابا کے جانے بعد وہ حالت سے لڑنے والی مضبوط دل لڑکی بن چکی تھیں یہ نہیں تھا کہ چاچو اسے پیار نہیں کرتے تھے وہ جانتی تھی وہ ان کا محافظ بن کہ خیال رکھتے ۔۔۔مانی کی بری عادتوں کی وجہ سے اب تک اس کی عزت سلامت تھیں تو وہ صرف اس بات کی چاچو کی مشکور تھی جنھوں نے اسے صیح قابو کیا تھا ۔۔۔مگر پھر اس کا یہ ماننا تھا کہ کوئی دوسرا شخص اپنی اولاد سے زیادہ نہیں چاہ سکتا ۔۔۔” اور اس لیے اس نے کسی سے امیدیں وابستہ بھی نہیں کیں تھیں ۔۔۔”
وہ ان ہی سوچو میں محو تھی جب دوسرے گاؤں سے آتی پرسوز اذان کو سنتی ہمیشہ کی طرح سر پہ ڈوپٹہ کرتی چرپائی سے اٹھتی سیٹرھیوں پہ بیٹھ گئی اسے فجر کی اذان سکون دیتی تھی اذان کی آواز سننا تو اسکا معمول تھا اور اس انجان شخص کی آواز میں تاثیر ہی اتنی ہوتی کہ نور حرم کے جسم میں سنسی سی پھیل جاتی تھی اب یہ آواز اس کی پہچان بن چکی تھی اسکا معمول تھا کہ اذان مکمل ہوتے ہی وہ کلمہ پڑھ کہ کمرے میں جا کہ نماز ادا کرتی ۔۔۔اور آج تیسرے چوتھے دن سے نعت کے اشعار بھی پڑھے جاتے وہ جو بھی شخص تھا نور حرم نماز ادا کرکے قرآن پاک کو سینے سے لگائے سیٹرھیوں پہ بیٹھ جاتی اس شخص کی نعت سن بعد کہ وہ تلاوت کا آغاز کیا کرتی ۔۔۔”ابھی نماز ادا کرکے وہ واپس آئی تو مسجد سے مخصوص نعت پڑھنے کی مدھم مدھم آواز آئی ۔۔۔۔سحر کی جامد خاموشی میں آواز نورِ حرم کے دل میں سرور پیدا کر دیتی ۔۔۔۔”
مر کہ اپنی ہی اداؤں پہ امر ہو جاؤں
اُن کی دہلیز کے قابل میں اگر ہوجاؤں
اُن کی راہوں پہ مجھے اتنا چلانا یا رب
کہ سفر کرتے ہوئے گردِ سفر ہو جاؤں
زندگی نے تو سمندر میں مجھے پھینک دیا
اپنی مُٹھی میں لےلیں تو امر ہوجاؤں
ظفر وارثی کے کلام پڑھتے اُس بندے کی لفظوں میں پہنچتی انتہا کی تاثیر تھا اس کے ایک ایک بول میں رسول ﷺ کےلیے محبت و شدت تھی نور حرم آنکھیں بند کیے
ان لفظوں کو خود دل میں اتار رہی تھی سحر کا یہ وقت اسے انتہا کا سکون فراہم کرتا تھا۔۔۔”
*****
فضا میں دھیرے دھیرے سرمئی پن چھا رہا تھا لیکن ابھی بھی شام کا سنہری پن مکمل اپنے عروج پہ تھا افق پہ چمکتا آفتاب دھیرے دھیرے مغرب کی طرف راونگی کی میں تھا۔۔۔
ماسٹر جی احیتاط او ر آہستگی سے موٹر سائیکل چلاتے گھر کی جانب روانہ تھے یہ گاؤں کی حدود سے نکلتے ہی شہری آبادی پہ بنیں مختلف قسم کی ورکر شاپ تھیں
جہاں ایک ہی لائن پہ بنے مخلتف اشیا کی ریپئر کی دکانیں تھی یہ ہی گاڑیوں کا گیراج بھی وقوع پذیر تھا ساتھ میں ویلڈنگ کا کام بھی سستا معیاری اور تسلی بخش کیا جاتا تھا ۔۔
چھوٹی چھوٹی عمر کے بچے مجبوری کے ہاتھوں تنگ کئی گاڑی صاف کر رہے تھے تو کئی گاڑیوں کے ماسٹر کے پاس بیٹھے مسقبل اچھے ورکر بننے کےلیے ٹریننگ لے رہے تھے بچوں کے چہروں سے غربت کا صاف اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ وہ زندگی کہ ہاتھوں کتنے ستائے ہوئے ہوئے تھے شکل سولہ سترہ برس کے معلوم ہو رہے تھے مگر چہرے پہ وقت سے پہلے تھکن اور سمجھ داری کا عکس تھا جہاں کہیوں کے چہروں پہ دکھ کی اک گہری داستاں درج تھی ۔۔
اس کے بر عکس پلازہ کے عین سامنے رفیق چوان کا اڈہ تھا جہاں دکانوں کے چوکھٹ کے ساتھ بنے سمینٹ کے ٹھڑوں پہ نشئی اور موالیوں اور چھڑے چھانٹ جن کو غلط کاموں کی لات لگی ہوئی تھی دیگر برائیوں کے علاوہ معماشرتی برائیاں بھی ان میں رچ بس چکی تھیں ایسی برائیاں ان کو شب و روز گھن کی طرح کھا چکی تھیں ویسے تو وہ برائیاں سب کی نظر میں معمولی تھیں فارغ التحصیل گروہ یہاں موجود پایا جاتے تھا ماسٹر صاحب کےلیے یہ منظر کشی روز کا معمول تھی وہ روز یہاں سے گزرتے ہوئے یہ دیکھ کہ افسوس سے سر ہلاتے چلے جاتے ۔۔۔”
آج بھی ان کو قہقے لگاتے دیکھ کہ انھوں نے سر جھٹکا تو وہاں اپنے صاحبزادے کو ان سب کے ساتھ سگریٹ کے ساتھ سوٹے لگاتے دیکھ کہ دیکھنے لگے جو لمبا کش لگاتا منہ سے نکلتے فضا میں ابھرتے دھواں کو دیکھ کہ قہقے لگا رہا تھا
گھٹنوں تک شلوار کے پائنچے کو کیے بے غیرتی کیےوہ حدوں کو عبور کر رہا تھا۔ یہ منظر ماسٹر جی کےلیے روح فرسا سے تھا انھیں اپنی آنکھوں پہ یقین ہی نہیں آیا۔۔۔۔” انھوں نے موٹر سائیکل وہاں پہ ہی روک لی تھی
پہلے وہ ایسی حرکت نہیں کرتا تھا مگر آج دوسری بار اس کو یہ حرکت کرتے دیکھ کرتے دیکھ کہ ان کا دل کیا کہ اس کا وہ حال کریں کہ وہ ساری زندگی یاد رکھے ۔۔۔” وہ تو سمجھے تھے کہ وہ ان کی مار کھا کہ سدھر گیا پہلے انھیں کسی حد تک یقین تھا کہ وہ لیکن یہاں تو الٹا اثر دکھائی دے رہا تھا وہ سلجھنے کی بجائے الٹا بگڑا ہوا دکھائی تھا ۔۔
مگر اب اُن کا قد تو اس سے اونچا تھا دوسرا اپنی عزت کو بیچ چوک میں بدنام کرنے سے ڈرتے تھے اس کا ایک بار پھر سے قہقہ سن کہ ضبط کیا گیا آنسؤ ان کی آنکھوں سے نکلا آنسؤ کو صاف کرتے وہ گھر کی جانب روانہ ہوگئے ۔۔
گھر آئے تو کچھ تنے ہوئے چہرے کے ساتھ زارا بیگم کو سلام کا جواب دئیے بغیر مانی کے کمرے میں گھس گئے ۔۔۔”
ماسٹر جی ۔۔۔۔ماسٹر جی ۔۔۔کیا ہوا ہے آپ اتنے پریشان کیوں لگ رہے ہیں خیریت تو ہے ۔۔ ؟
ماسٹر جی ان کی کوئی بات کا جواب دئیے بغیر ۔۔ان کی پریشانی اور تشویش کو نظر انداز کیے مانی کے کمرے میں گھستے الماری کی جانب بڑھ گئے ۔۔۔”
بتائیں تو سہی ہوا کیا ہے ۔۔۔؟ وہ ان کے تاثرات دیکھ کہ آگے بڑھیں تھیں۔۔۔”
اس کی الماری کی تلاشی لیتے انھیں دراز سے کوئی چیز نہیں ملی پھر انھوں نے اس کے کپڑوں کو الٹ پلٹ کہ دیکھا تو ایک شرٹ میں انھیں تہہ شدہ پیکٹ ملا انھوں نے تشویش سے کھول کہ دیکھا تو جابجا سگریٹ انج”کیشن ، ہیر”وئن، افیو”ن ، چرس جیسی چیزیں اس میں شامل تھیں یہ دیکھ ان کے دل میں اک درد سا اٹھا مطلب جس اولاد کےلیے اپنی زندگی قربان کردی اس اولاد کو ان غلط کاموں کی لت لگ چکی تھی آج وہ جان چکے تھے کہ برائی ان کے بیٹے کی رگ رگ میں سرائیت کر چکی ہے ۔۔۔”آج انھیں اپنی عمر بھر کی ریاضیت خاک میں ملتی نظر آرہی تھی ۔۔
دیکھ لو اپنے بیٹے کے کرتوت ۔۔۔۔۔” میں نے سمجھا تھا وہ غلط کاموں سے باز آچکا ہے۔۔۔ ” وہ شکستہ سے انھیں چیزیں تمھا کہ یہ کہتے بجتے دل سے باہر چلے گئے ۔۔۔۔”
پیچھے زارا بیگم ان چیزوں کو دیکھنے لگ پڑیں جو ماسٹر صاحب انھیں تمھا کہ گئے ان کی آنکھوں سے آنسوسے نکل پڑیں ۔۔۔وہ تو سوچتی تھیں کہ ماسٹر صاحب کی مار کی وجہ سے وہ سدھر چکا ہے انھیں سب سے زیادہ پیار بھی مانی سے تھا جو ان کا لاڈلا اور جان سے پیارا بیٹا تھا انھیں لگتا تھا کہ جان بوجھ کہ اپنے ابا کو تنگ کرنے کےلیے ایسی حرکتیں کرتا ہے مگر آج یہ سب دیکھ کہ انھیں حقتقاً بہت دکھ ہوا وہ جان چکی تھیں کہ ان کا بیٹا ان کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے آج انھیں علم ہوچکا تھا کہ مانی کبھی نہیں بدل سکتا نشہ اسے غلط کاموں پہ لگاچکا ہے جس سےکوئی بھی پیچھا نہیں چھڑاسکتا__”
وہ پریشانی کے عالم میں سر ہاتھوں میں تھام چکی تھیں وہ سمجھتی تھیں کہ ماسٹر صاحبہ مانی پہ بے وجہ سختی کرتے ہیں لیکن آج انھیں لگا کہ ماسٹر صاحب سچ کہتے ہیں کہ اولاد اور دولت انسان کےلیے اصل آزمائش ہیں مانی کی یہ حرکت تنی ان کے دل میں لگیں کہ وہ سر پہ ڈوپٹے لپیٹیں چارپائی پہ جا لیٹیں تھیں اب وہ مانی کے آنے کا انتظار میں تھیں۔۔۔
علیزے نے ماں کو دیکھا تو مانی سے شدت سے نفرت ہوئی تھی




کپٹن آپ کو پتہ ہے مجھے آپ کے اس شاندار گھر میں سب سے زیادہ کیا چیز اچھی لگتی ہے ۔۔۔۔؟ کاؤچ پہ بیٹھے اس کو کتاب کا مطالعہ کرتے دیکھ کہ زندہ دلی سے بولی پچھلے دن پہلے والی تلخی کا اثر زائل تھا آج وہ کتاب لینے کے بہانے اس کی لائبریری دیکھنے آئی تھی اور شاید اس بنا پہ ہی وہ اب اس کے روم میں تھی ۔۔
ارمغان عالم جس کو تقربیاً ڈیڑھ مہنیے بعد آج سکون نصیب ہوا وہ بری طرح کتاب کی ورق گردانی میں مصروف تھا وہ جب بھی فارغ ہوتا تو دماغ کو سکون دینے کےلیے لائبریری میں بیٹھ کہ کتابیں پڑھنا اسکا پسندیدہ ترین آرٹ تھا وہ دوست رکھنے کے معاملے میں بہت کنجوس تھا اس کا یہ ماننا تھا کہ کتابوں سے دوستی رکھنے والے گمراہی سے بچے رہتے ہیں ۔۔
رفیق کنج تنہائی کتابِ است
فروغ صبح دانائی کتابِ است
کن خیالوں میں گم ہیں آپ کپٹن غنی ۔۔۔۔” وہ اسکو تخیل میں کھوتے ہوئے دیکھ کہ بولی ۔۔۔ “
جی کیا کہہ رہی تھیں آپ۔۔۔۔؟ اس کو نان سٹاپ بولتے دیکھ کہ اس کی جانب متوجہ ہوا جس کی موجودگی کو وہ سرے سے فراموش کر چکا تھا۔۔
میں آپ کو یہ بتانے والی تھی کہ مجھے آپکی یہ لائبریری بہت اچھی لگتی ہے ۔۔۔” وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے اسکا دماغ کھا رہی تھی اور یہ پہلی بار تھی جب وہ اس کے کمرے میں موجود تھی اور اس نے اپنی سخت اصولوں کے باوجود کچھ بھی نہیں کہا۔۔۔” اس لڑکی کو پٹر پٹر بولتا دیکھ رہا تھا اس نے سر اٹھائے ایک سنجیدہ سی نگاہ اٹھاکہ اسے دیکھا اور پھر سے مصروف ہوچکا تھا اس کو پھر سے کتاب میں غرق ہوتے دیکھ کہ وہ شیلف کی جانب مڑتی خواب کی کیفت میں سب کچھ دیکھنے لگ پڑی۔۔
اس کی لائبرئیری میں مووجود باذوق کتابوں کو دیکھ کہ ہواؤں میں اڑتی پھر رہی تھی ۔۔
کتابیں پڑھنا تو اس خطبی لڑکی کا جنون تھا وہ خواب کی کیفیت میں سب اس کے عظیم الشّان لائبرئیری کو دیکھ رہی تھی شیلف پہ پڑی وہ ہر موضوع کی کتابوں کو دیکھ کہ اسے لگا کہ اس کی بے جان جسم میں جاندار روح کا گزر ہوا ہو ۔۔۔”
تاریخی ، ادبی ، دینی ، اصلاحی ہر قسم کی کتابوں کا ذخیرہ تھا لٹریچر کی تو ویسے بھی دلدادہ تھا مشہور انگلش ناول ایک جانب سلیقے سے شیلف پہ موجود تھے وہ سب کو الٹ پلٹ کہ ان کی سوندھی مہک کو سانس میں سمارہی تھی ۔۔۔”
ویسے آپ یہ اپنا بک بیلنس مجھے کتنے میں میں سیل کریں گے ۔۔۔۔؟ اس نے جوش سے پوچھا تو اس کے چہرے پہ بل پڑگئے ۔۔۔ “
خبر دار آپ نے میرے کتب خانے کی طرح ٹیڑھی نگاہ سے بھی دیکھا بھی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔” اس کی طرف دیکھ کہ کہا جو اس کی بات سنتی جان بوجھ کہ الٹی سیدھی ٹیڑھی نگاہیں کیے دیکھنے لگ پڑی ۔۔۔۔جس سے کپٹن ارمغان کے عنابی لبوں تلے ناچاہتے ہوئے بھی مسکراہٹ پھیل گئی تھی
جاری ہے۔۔۔۔”