قسط 12
آپ دوسرے کمرے میں کیوں سوتے ہیں۔۔۔؟ اس نے پوچھا ۔کھانا کھاتے ہوئے وہ اچانک چونکا تھا پھر سمبھل کر بولا
میں تمہیں وقت دے رہا ہوں ۔اس رشتے کو سمجھنے کے لئے ایک انجان شخص کے ساتھ ساری زندگی گزارنا بہت مشکل ہے روح’میں نہیں چاہتا کہ تم میرے ساتھ کسی قسم کا کوئی سمجھوتا کرو۔ جہاں خوشیاں ہوں وہاں سمجھوتا نہیں ہوتا ۔
لیکن اس کے لیے پہلے محبت کا ہونا ضروری ہوتا ہے ۔کھانا تو کھلا دیا ایک کپ چائے ملے گی۔۔؟ یارم نے اسے موضوع سے ہٹایا ۔
میں پہلے نماز ادا کر لوں اس نے پوچھا
وائی ناٹ ۔وہ مسکرا کر بولا
وہ اٹھ کر وضو کرنے چلی گئی تو یارم نے اپنا لیپ ٹاپ اٹھا لیا۔ وہ تقریبا پانچ منٹ میں نماز پڑھ کے فارغ ہوئی اور اس کے لئے چائے بنا کر لائی۔
یہ کیا آج تمہاری نماز اتنی جلدی کیوں ختم ہوگئی۔۔۔۔! دعا نہیں مانگی کیا ۔۔؟ اس نے چائے کا کپ تھامتے ہوئے پوچھا
چائے بنانی تھی نا اس نے وجہ بتائی۔
دعا مانگتی رہا کرو دعاوں میں بہت اثر ہے ۔وہ مسکرایا تھا
آپ مسکراتے ہوئے بہت پیارے لگتے ہیں آپ کو پتہ ہے آپ کے دونوں گال پے ڈمپلز ہیں’ اس نے ایکسائٹڈ ہوکر اس کی معلومات میں اضافہ کیا تھا ۔
کیا بات کر رہی ہو مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا وہ کھل کر ہنسا ۔
آپ ایک ڈمپل مجھے دے دینا ۔وہ فرمائش کر رہی تھی
ہاہاہا تم دونوں رکھ لو ۔وہ کھلے دل سے بولا
آپ مسکراتے ہوئے بہت پیارے لگتے ہیں ماشاء اللہ اس نے کھل کر تعریف کی تھی ۔
بس تمہاری صدقہ جاریہ والی بات پر عمل کر رہا ہوں ۔وہ مسکراتے ہوئے بولا ۔
اچھا اچھی بات ہے عمل کرنا چاہے میں اب سونے جا رہی ہوں ۔روح نے اٹھتے ہوئے کہا اور اپنے کمرے کی طرف چل دی ۔
سنو ۔۔۔۔۔یارم نے اشانک پکارا ۔
جی۔۔۔۔!! وہ پلٹی تھی ۔
دعا مانگتی رہا کرو ۔وہ مسکرا کر بولا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہوگیا ۔
°°°°°°°
یارم سے کسی نے سوال پوچھنے کی ہمت نہ کی اور نہ ہی وہ کسی کو جواب دینا ضروری سمجھتا تھا ۔ہاں لیکن لیلیٰ اسے گھورے جا رہی تھی جس کا اس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا ۔
انسپکٹر صاحب نے نہیں کہا کچھ بھی میرے جانے کے بعد اس نے خود ہی بات شروع کی ۔
نہیں تمہارے جانے کے بعد وہ بھی نکل گیا تھا لیکن میں تم سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں تم نے صارم کے سامنے جھوٹ کیوں بولا !!
جانتے ہو جب وہ لڑکی چلی جائے گی تب ہمارے خلاف گواہی دے سکتی ہے اور اگر اس نے گواہی نہ بھی دی تب بھی بری پھنسے گی ۔
بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی فی الحال تو وہ یہی ہے ہمارے ساتھ ۔کل ہمارا ایک آدمی مارا گیا وہ پولیس کے ہتھکنڈے چڑھ چکا تھا ۔اس نے خودکشی کرلی ۔اس کے گھر والوں کو ایک موٹی رقم بھیج دو اور افسوس کے لیے بھی چلے جانا ۔
مجھے ضروری کام ہے ورنہ میں خود ہی چلا جاتا ۔وہ خضر سے کہہ رہا تھا۔
تب ہی شارف کمرے میں داخل ہوا’ میں کہیں نہیں جاؤں گا یار اس طرح سے کسی کے مرے ہوئے گھر والوں کو دیکھ کر مجھے بہت عجیب لگتا ہے افسوس ہوتا ہے۔
جب وہ لوگ اپنے بچھڑے ہوئے کو روتے ہیں ۔وہ بیچارہ تو ہمارے ساتھ کام کرتے کرتے ہی مارا شاید اب وہ لوگ ہمیں قصوروار سمجھ رہے ہونگے ۔شارف نے کہا۔
اسے چار سال پہلے سزائے موت سنائی گئی تھی یعنی کہ پھانسی تب اسے میں نے بچایا تھا اگر وہ تب مر جاتا نہ تو اس کے گھر والے چار سال سے رو رہے ہوتے ۔
لیکن اب وہ اسے اچھے الفاظ میں یاد کر کے رو رہے ہونگے اور اس نے اپنی فیملی کے لئے اتنا کچھ کیا ہے ۔وہ اپنی زندگی کی امید پہلے ہی کھو چکا تھا اس کے اندر جینے کی خواہش ویسے بھی نہیں تھی ۔لیکن وہ میرے ساتھ کام کرنا چاہتا تھا میرے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا ۔وہ اچھا تھا ۔لیکن ایک مشین سے کم نہ تھا ۔
میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے میری ٹیم میں زندہ دل لوگ چاہیے لیکن ایسے آدھ مردہ لوگوں کے لیے بھی میری ٹیم میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔
تم دونوں جاؤ اور اس نئی لڑکی کو بھی ساتھ لے جاؤ جب سے آئی ہے اس نے کام تو کچھ کیا نہیں ہے ۔یارم سے زیادہ خوش نہیں لگ رہا تھا ۔
وہ اپنا فیصلہ سنا چکی ہے کہ وہ یہاں سے واپس نہیں جانے والی خضر نے اس کی بات مکمل کی تھی۔
اچھی لڑکی ہے وہ ۔شارف مسکرایا تھا ۔
وہ صدیق کی بیٹی تھی شارف ۔خضر نے غصے سے کہا کیونکہ وہ اس کی رنگین طبیعت سے اچھے سے واقف تھا۔
لیکن پھر بھی وہ اتنا گرا ہوا تو ہرگز نہ تھا کہ صدیق کی بیٹی کے ساتھ کچھ ایسا ویسا کرتا
وہ تو ان لڑکیوں کے پاس جاتا تھا جو خود ہی اسے ویلکم کرتی تھی ۔
°°°°°°°
سارا دن روح بس ایک ہی بات سوچتی رہی وہ آدمی جو اس کے سامنے مرا تھا اس نے ڈیول کا نام لیا تھا ۔پولیس والے نے اس سے پوچھا تھا کیا ڈیول کا آدمی ہے کیا اور اس کے لیے کام کرتا ہے!!
تو اس نے انکار کر دیا تھا اس کا کہنا تھا کہ وہ کسی ڈیول کو نہیں جانتا اور پھر جب اس نے اس پولیس والے کے سامنے ڈیول کا نام لیا تھا ۔وہ کیسے عجیب نظروں سے اسے گھورنے لگا تھا
لیکن پھر یہ بھی تو کہا تھا کہ وہ نہ جانے کس ڈیول کے بات کر رہی ہے وہ تو ایک ہی ڈیول کو جانتا ہے ۔لیکن یہ بات تو تہہ تھی کہ وہ انسپیکٹر اس کے شوہر کو جانتا تھا ۔
اور اسے اس تک پہنچا دیا اسے اس انسپکٹر کو تھینک یو ضرور بولنا چاہیے لیکن یہ تہہ تھا کہ اب وہ گھر سے نکلنے کی غلطی کبھی نہیں کرے گی ۔
نہ جانے کتنے پریشان ہوئے ہوں گے یہ میرے پیچھے نہ جانے کہاں کہاں ڈھونڈا ہوگا مجھے ۔ میں بھی نہ بیوقوفوں کی طرح اٹھ کر چل دی ۔
خیر اب یہ فضول باتیں سوچنے سے بہتر ہے کہ ان کے لیے کھانا بناؤں لیکن آج کیا بناوں ان کے لئے ۔۔۔۔۔وہ فریج کھولے ہوئے سوچ رہی تھی جس کے اندر سب سامان موجود تھا
°°°°°°°°
سر یہاں سگریٹ پینا الاؤ نہیں ہے پٹرول پمپ کا ورکر اس کے قریب آکر بولا
کیوں ۔۔۔؟اس نے پوچھا تھا
پیٹرول پمپ ہے آگ لگ سکتی ہے اس نے بتایا
اور تم نے جو کسی کی زندگی میں آگ لگائی ہے اس کا کیا ۔۔۔۔۔!اس کے لہجے میں غصہ تھا ۔
کیا مطلب ہے آپ کی اس بات کا۔۔۔۔۔۔!! وہ آدمی غصے سے بولا تھا ۔
ایک تیرہ سال کی بچی کے ساتھ زیادتی کر کے تم نے اس کی زندگی کو آگ ہی تو لگائی ہے ۔
اس لڑکی کا میرے ساتھ افیئر چل رہا تھا روز گفٹ اور پیسے مانگی تھی مجھ سے ۔اتنی چھوٹی بچی نہیں تھی جتنا تم لوگ سمجھ رہے ہو میں نے بس اپنی دی ہوئی رقم وصول کی ہے اور ویسے بھی کورٹ سے باعزت بری ہو چکا ہوں ۔
وہ آدمی بولے ہی جا رہا تھا جب اس نے اپنے پیٹ پر کچھ محسوس کیا اور پھر درد سے بلبلا اٹھا ۔
کورٹ سے تم بری ہوچکے ہو لیکن ڈیول کی عدالت سے نہیں ۔اور کوئی بھی زنا کارڈیول کی عدالت سے اس طرح سے بری نہیں ہوگا ۔
ڈیول کی عدالت میں اس گناہ کی سزا صرف اور صرف سزائے موت ہے ۔اس نےپیٹرول ہولڈرز سے پیٹرول کا پائپ نکالا اور درد سے بلبلاتے ہوئے آدمی کے منہ میں ڈال دیا ۔
تم جانتے ہو وہ لڑکی خودکشی کر چکی ہے اس نے اپنی زندگی ختم کرلی تم جیسے انسان کے لیے ۔تم نے کہا اک تیرہ سال کی بچی تم سے تحفے اور رقم لیتی تھی لیکن میری نظر میں وہ ایک چھوٹی بچی تھی ۔پیٹرول اس آدمی کے اندر تک جا چکا تھا سانسس پھولنے لگی تھی لیکن یہاں سانس لینے کی اجازت دے کون رہا تھا ۔
یہ انصاف تھا ڈیول کا انصاف ہر زناکار کے لیے ۔
اس نے ایک جھٹکے سے زمین پر پھینکا ۔اور اپنی جیب سے سگریٹ نکالا ۔ماچس کی تلی سے اپنا سگریٹ جلایا اور وہی جلتی تیلی اس آدمی پر پھینک دی ۔
اور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر وہاں سے نکل گیا ۔
اسے نہ اس آدمی سے مطلب تھا اور نہ ہی اس پٹرول پمپ سے ۔اسے آج ہی پتہ چلا تھا کہ اس پیٹرول پمپ میں وہ اکیلا نائٹ ڈیوٹی کرتا ہے
ورنہ اس کام کے لیے اسے کسی اور جگہ کا انتخاب کرنا پڑتا ۔
°°°°°°°
وہ گھر آیا تو شرٹ پہ سرخ خون کے دھبے تھے شاید اس آدمی کے پیٹ پر بلیڈ چلاتے ہوئے لگے تھے ۔اس نے گھر جاتے ہی کپڑے چینج کرنے کے لئے اپنے کمرے کا رخ کیا لیکن روح اسے دیکھ چکی تھی وہ فورا دوڑکر اس کے پاس آئی
کیا ہوا ہے آپ کو یہ خون کہاں چوٹ لگی ہے آپ کو۔۔۔۔۔؟ ایک پل میں ہی اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے ۔
وہ مجھے چوٹ نہیں لگی ۔وہ ایک آدمی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا راستے میں اسے ہسپتال پہنچاکر آرہا تھا شاید کپڑوں پر یہ دھبے لگ گئے ۔
آپ ٹھیک ہیں نہ وہ روتے ہوئے پوچھ رہی تھی ۔
وہ مسکرایا۔
میں بالکل ٹھیک ہوں روح۔میں چینج کر کے آتا ہوں پھر اطمینان سے دیکھ لینا ۔اس کا گال تھپتھپا کر اپنے کمرے میں چلا گیا ۔
جبکہ روح ایک بار پھر سے جائے نماز پر بیٹھ گئی وہ کمرے سے باہر نکلا تو اسے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ۔
یہ لڑکی کیوں مجھے اتنا گناہگار کر رہی ہے ۔ وہ سوچتے ہوئے صوفے پر آبیٹھا