قسط 13
ڈیول نے اپنے آفس میں اعلان کیا تھا کہ اب یہاں پر روح کا ذکر بالکل بھی نہیں کیا جائے گا وہ جہاں ہے بالکل ٹھیک ہے جب اس کے گھر والوں کا پتہ چل جائے گا اسے بھیج دیا جائے گا ۔
اس بات سے لیلٰی کی پریشانی اور بڑھنے لگی لیکن اب آفس میں اس کا ذکر بھی منع کردیا گیا تھا ۔
جبکہ لیلیٰ کو اس کے گھر جانے کی بھی اجازت نہ تھی۔ڈیول کا کہنا تھا کہ سب اپنے اپنے کام پر دھیان دو ۔جبکہ خضرکو ایک ہی پریشانی کھائی جا رہی تھی کہ آخر وہ اس لڑکی کے گھر والوں کا پتا کیوں نہیں کر رہا یا کیوں نہیں کرنے دے رہا ۔۔۔؟
لیکن پھر بھی خضر چپ نہ رہا وہ یارم سے چھپ کر روح کے گھر والوں کو ڈھونڈنے لگا لیکن یہ بات بھی ڈیول سے چھپی نہ رہی ۔
آج نہیں تو کل اس لڑکی نے چلے جانا ہے ۔اس لڑکی کے گھر والوں کا پتا کرنا چاہیے وہ کسی کی بیوی ہے ۔حضر نے اپنی صفائی پیش کی تھی
اگر مجھے لگا کہ ایسا کرنا چاہیے تو میں خود کر لوں گا تم اپنے کام پر دھیان دو اس کے انداز میں غصہ دیکھ کر وہ بھی خاموش ہوگیا۔
°°°°°°°°
ایک مہینہ گزر چکا تھا۔ روح اس کا سارا کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھی یارم نے اپنا گھر بدلوانے کے بارے میں سوچا تو اس نے کہا کہ وہ یہی ٹھیک ہے ۔یارم نےاسے باہر پارک میں بیٹھنے کی اجازت دےدی ۔لیکن وہ ان عورتوں سے باتیں نہیں کر سکتی تھی ۔ پھر بھی اگر وہ سامنے آجائیں تو حال و خیریت پوچھ لیتی تھی لیکن یارم سے چھپ کر شارف اور خضر ہر دوسرے تیسرے دن اس کے ہاتھ کا بنایا ہوا کھانا کھانے آتے تھے جب کہ لیلٰی کو یہاں آنے کی اجازت نہ تھی۔
اس نے ڈیول والی بات کا ذکر بھی اس کے سامنے کیا تھا جب اس نے کہا کہ یہاں ہر کوئی اپنے آپ میں ایک ڈیول ہے ۔
ڈیول مطلب ۔۔۔۔؟ روح نے پوچھا
ڈیول مطلب شیطان ۔۔یارم نے بتایا ۔
استغفراللہ آپ کوئی شیطان تھوڑی ہیں اس کی بات پر چہرے پر ذرا سا ڈمپل نمایاں ہوا پھر غائب ہوگیا۔
میرا نام یارم ہے ۔یارم کاظمی ۔تم مجھے یارم کہا کرو ۔
میں کیسے آپ کو یارم کہوں وہ شرمائی تھی ۔
کیوں نہیں کہہ سکتی ۔۔۔؟ یہ میرا نام ہے ۔ وہ پوچھنے لگا ۔
آپ کے نام کا مطلب ۔۔۔” وہ کچھ بولتے ہوئے خاموش ہوگئی۔
ہاں بولو نام میرے نام کا مطلب دلبر ۔محبوب۔ صنم ۔ہے نہ۔۔۔۔؟۔وہ اس کے چہرے پر شرم و حیادیکھ کر محفوظ ہو رہا تھا۔
°°°°°°°°
آج وہ اس کیلئے فون لے کے آیا تھا ۔تاکہ دن میں اس سے بات کر سکے سارا دن اسکی بےچین نظریں اس کا انتظار کرتی تھی ۔
پھر کل تو اس نے کہہ دیا سارا دن مجھ سے بات کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔میرا دل کرتا ہے آپ سے باتیں کرنے کو آپ کام سے تھک کر آتے ہیں کھانا کھاتے ہیں سو جاتے ہیں صبح اٹھ کر چلے جاتے ہیں ۔سارا دن مجھے آپ کا چہرہ نظر نہیں آتا ۔اس نے معصومیت سے منہ بنا کر کہا تھا۔
اچھا میں کل تمہارے لیے موبائل لے آؤں گا پھر جب تمہارا دل کرے تم مجھے فون کر لینا۔اور اب وہ فون لےکر آیا تھا۔
کیا آپ میرے لئے فون لینگے پھر تو میں فاطمہ بی بی سے بھی بات کروں گی ۔وہ خوشی سے چہکتے ہوئے بولی تھی۔
نہیں ہرگز نہیں ۔تم سوائے میرے اور کسی سے بات نہیں کر سکتی اس فون پر ۔اس نے غصے سے کہا تھا
لیکن میں جب سے یہاں آئی ہوں ایک بار بھی پاکستان فون نہیں کیا امی سے بات نہیں کی مریم آپی تانیہ آپی ماریہ آپی کسی سے بھی نہیں آواز تک نہیں سنی کسی کی وہ اداسی سے بولی تھی ۔
ٹھیک ہے اگر ایسی بات ہے تمہیں فون لے کر نہیں دوں گا میں نہیں چاہتا کہ تم میرے علاوہ کسی سے بات کرو ۔اس نے اپنا فیصلہ سنایا اور اپنے کمرے میں چلا گیا ۔
جب تھوڑی دیر کے بعد وہ اس کے پیچھے آئی ۔
اچھا ٹھیک ہے میں کسی سے بات نہیں کروں گی صرف آپ سے کروں گی ۔لیکن آپ تو ان سے بات کر کے ان کی خیریت پوچھ سکتے ہیں نہ آپ کے پاس ہے نہ امی کا نمبر۔۔۔؟۔روح نے پوچھا
ہاں میں اکثر ان سے بات کرتا رہتا ہوں سب کچھ ٹھیک ہے ۔اس نے جھوٹ بولاتھا اور اس کے اپنے علاوہ اس فون میں سب نمبر بلاک تھے ۔ یہاں تک کہ وہ پولیس میں بھی فون نہیں کر سکتی تھی ۔
مگر اسے اتنی سمجھ ہوتی تو شاید وہ ضرور پوچھتی ۔
°°°°°°
کیا تم نے واقعی ہی شادی کر لی ہے صارم اب تک بے یقینی سے کافی شاپ میں بیٹھا تھا ۔
اس کے سامنے یارم بیٹھا آرام سے کافی پی رہا تھا ۔
میں تمہارا بچپن کا ساتھی ہوں یارم تو میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو تم نے مجھے بلایا تک نہیں ۔مجھے یقین نہیں آرہا تم جھوٹ بول رہے ہو یہ شادی نہیں ہوئی ۔ ۔صارم کب سے بولے جا رہا تھا لیکن یارم کب سے قریب بیٹھی اس کی بیٹی کے گالوں کو چھو رہا تھا۔
مائرہ اسکول کیوں نہیں گئی اس نے صارم کے بات کو اگنور کرتے ہوئے مائرہ سے پوچھا ۔
مایلا کی طبیعت کھراب تی تاچو (مائرہ کی طبیعت خراب تھی چاچو ) عربی طرزو لہجے کی وجہ سے وہ اردو نہیں بول پاتی تھی ۔اور پھر جب بولنے کی کوشش کرتی تو اکثر اس کی زبان توتلا جاتی۔
پہلے میری بات کا جواب دو صارم نے کہا ۔
میں ضروری نہیں سمجھتا۔ اس نے ایک ہی جملے میں سے جواب دیا اور پھر سے مائرہ کے ساتھ مصروف ہوگیا ۔
ہم دوست ہیں نہ یارم۔۔۔؟ صارم نے پوچھا
اچھا کیا ایساتھا کبھی ۔صدیق میرا دوست تھا ۔بہت پیارا دوست ۔لیکن تم نے کیا کیا ۔۔وہ دھیمی آواز میں غرایا تھا ۔
میں اپنا فرض نبھا رہا تھا یارم وہ اسی کے انداز میں بولا
اور میں اپنا فرض نبھا رہا ہوں ۔میرا فرض مجھے میرے فرض کے ساتھ غداری کرنے والوں سے دوستی کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔وہ پرسکون انداز میں بولا۔
یارم ہم ایک ساتھ دبئی آئے تھے ۔تم نے اور صدیق نے غلط راستہ پکڑا صدیق اپنی منزل تک پہنچ چکا ہے یارم میں تمہیں سزا نہیں ہونے دوں گا قانون و انصاف سے ہٹ کر ۔۔۔۔۔”
قانون اور انصاف۔۔؟ ۔ہمیں تمہارا قانون انصاف نہیں چاہیے صارمہم اپنا قانون خود بناتے ہیں ۔فلحال میں تم سے یہ ساری باتیں کرنے نہیں آیا میں صرف مائرہ سے ملنے آیا تھا ۔ وہ مائرہ کا گال چومتے ہوئے اٹھا تھا ۔
کیا تم اس لڑکی سے محبت کرتے ہو یارم ۔۔۔۔؟ صارم نے پوچھا
اس کا جواب میں تمہیں کچھ دن بعد دوں گا
ہو سکتا ہے کچھ دن بعد مجھے تمہاری ضرورت پڑے ۔بس اتنا کہہ کر وہ نکل گیا ۔
جب کے صارم اسے جاتا ہوا دیکھ رہا تھا پیار محبت فیملی ان سب چیزوں سے بہت دور تھا یہ انسان ۔بلکہ انسان تھا ہی کہاں صارم بچپن سے جانتا تھا اسے ۔
” یا اللہ یارم کو کبھی اس لڑکی سے محبت نہ ہو ورنہ اس بیچاری لڑکی کا کیا بنے گا”
کیونکہ یارم کا جو روپ میں نے دیکھا ہے وہ کسی نے نہیں دیکھا ۔اس کا پاگل پن اس لڑکی کو مار دے گا ۔
بچپن میں اس نے ایک کھلونے کے لئے یارم کا پاگل پن دیکھا تھا ۔ اور سچ تو یہ ہے کہ وہ بھی ایک کھلونے سے زیادہ اس کے لیے کچھ نہ ہو گی ۔ایک معصوم لڑکی کو اس کے ہاتھوں برباد مت ہونے دینا چاہتا تھا۔
°°°°°°°°
آج لیلیٰ کا برتھ ڈے ہے اور وہ چاہتی ہے کہ ہم اس کے ساتھ پارٹی کریں شارف نے آکر اسے بتایا ۔
ہاں تم لوگ جاؤ میں نے کہاں منع کیا ہے ۔یارم نے کہا
جبکہ دھیان سارا لیپ ٹاپ کی سکرین پر تھا جہاں ایک منی سکرین پر ہیکنگ سسٹم سے کسی کا موبائل فون کھلا تھا۔جیسے یارم بہت غور سے دیکھ رہا تھا
ڈیول جب سے یہ لڑکی روح آئی ہے تم تو اسی کے پیچھے پڑ گئے ہو تمہیں خیال ہی نہیں رہا لیلیٰ کا “اس نے سکرین پر نظریں جمائے دیکھا جہاں روح کا موبائل سسٹم کھلا ہوا تھا۔وہ روح کے ایک ایک موومنٹ پر نظر رکھتا تھا لیلیٰ کا روز روز رونا دھونا دیکھ کر آج شارف نے اس کے سامنے منہ کھولا تھا۔
روح سے پہلے بھی لیلٰی میرے لیے کام کرنے والی ایک ورکر تھی اور اب بھی ہے ۔ اس سے زیادہ نہ وہ پہلے کچھ بھی اور نہ ہی آگے کچھ ہوگی ۔
اب مزید کوئی بکواس کرنے کی ضرورت نہیں نکلو یہاں سے میں اپنا کام کر لوں۔
وہ پیار کرتی ہے تم سے ۔شارف نے کہا
تو میں کیا کروں۔۔۔۔؟ میں نے کہا ہے اسے مجھ سے پیار کرنے کے لیے دماغ خراب کر رکھا ہے اس لڑکی نے اور تم دونوں نے بھی میرا اگر اب تم نے یہ پیار کا ذکر میرے سامنے کیا تو گولی مار دوں گا اسے بھی اور تم لوگوں کو بھی وہ غصے سے دھارتے ہوئے بولا اور لیپ ٹاپ اٹھا کر پھینک دیا۔
میں پارٹی کا کہنے آیا تھا ہم صرف ورکر نہیں ہیں دوست بھی ہیں تم نے کہا تھا ایک دوسرے کی خوشیوں میں شامل ہونا کوئی احسان تو نہیں شارف نے گھبرآتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹائیں ۔
فائن ۔ میں آ جاؤں گا ۔اب جاؤ یہاں سے اس نے گھورتے ہوئے کہا تو شارف باہر نکل گیا ۔
پھر دروازے پہ منتظر معصومہ اور لیلیٰ کو دیکھا وہ ذرا سا مسکرایا
مشن ڈن ۔ اس نے لیلی کے ہاتھ پر تالی بجاتے ہوئے کہا ۔
بس اب میرا کام ہو جائے ۔ لیلیٰ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
سر گولی مار دیں گے ۔میں تم لوگوں کے ساتھ شامل نہیں ہوں معصومہ نے کہا ۔
تمہارا نام کہیں نہیں آئے گا لڑکی ۔شارف نے اسے بےفکر کیا۔
لیکن ڈیول کو ایک دو پیگز سے نشہ نہیں چڑھتا ہمیں کچھ بڑا کرنا ہوگا ۔کیوں نا ہم ڈبل ڈوز پلز یوز کریں ۔شارف نے مشورہ دیا ۔
آہستہ بولو بےوقوف اگر اس رائٹ ہینڈ نے سن لیا تو پلان شروع ہونے سے پہلے ہی وہ ہمیں گولی مار دے گا ۔تم لوگوں کو تو پھر گولی مار کے آسان موت دے گا مجھے بلیڈ سے مارے گا ۔
اور اتنا کرو جتنا میں نے کہا ہے ویسے بھی میں تم سب کی ہونے والی مالکن ہوں تو میرا آرڈر فولو کا نہ تم پر فرض ہے لیلیٰ نے ادا سے کہا ۔
°°°°°°°°
وہ جلدی گھر جانا چاہتا تھا لیکن لیلی کے برتھ ڈے کی وجہ سے اسے یہاں آنا پڑا ۔یہ کلب لیلیٰ چلاتی تھی ۔
دنیا کے سامنے اسے کوئی کام تو کرنا ہی تھا ویسے پولیس کی نظر میں وہ ڈیول یعنی یارم کاظمی کے ساتھ کام کرتی تھی جس کی دبئی میں ایک میڈیسن کمپنی تھی ۔
یہ کام صرف وہ دنیا کو دکھانے کے لئے کرتے تھے ۔ ورنہ اصل کام اور اصل مشن ان کے کچھ اور تھے ۔کرائم کی دنیا میں انہیں ہر کوئی جانتا تھا ۔دبئی ان کا اصل ٹھکانہ تھا ۔ صدیق اسکا بہت وفادار آدمی تھا وہ بیس سال پہلے اس کے ساتھ پاکستان سے یہاں آیا تھا ۔
تب اس کا جان و عزیز دوست صارم اسکے ساتھ تھا لیکن وقت کے ساتھ صارم نے اپنی راہ بدل لیں ۔اور اب صارم کوڈان دا ڈیول کو پکڑنے کا کام دیا گیا تھا پچھلے چھ سال سے وہ اس کے پیچھے پڑا تھا لیکن کوئی بھی ایسا ثبوت جو اسے سلاخوں کے پیچھے پہنچا دے صارم کے ہاتھ نہیں لگا تھا ۔
صارم کا کہنا تھا کہ وہ یہ راستہ چھوڑ دے ۔اس میں سوائے نقصان کی اور کچھ نہیں ۔جبکہ یارم کا جنون اسے یہ کام چھوڑنے نہیں دے رہا تھا ۔
وہ جس آدمی کے آگے کام کرتا تھا اسے مار کر اس نے اس کی کرسی سنبھالی تھی ۔اور پھر ایسے کہی لوگوں کو مار کر سیڑھیاں چڑھتاوہ ڈیول بنا تھا ۔
شارف نے اس کے ڈرنک میں ڈبل ڈوز پلز ملائی تھا ۔جس کا پہلا سیپ لیتے ہی اس نے لیلی کی طرف دیکھا تھا ۔لیلیٰ نے گھبرا کے نظریں چرائی اسے پتہ چل چکا تھا کہ وہ سمجھ چکا ہے کہ اس کی ڈرنک میں کچھ ملایا گیا ہے ۔
ایم سوری ۔اسے مسلسل اپنی طرف دیکھتا پا کر لیلی منمنائی تھی ۔
اگر آج تمہارا جنم دن نہیں ہوتا تو میں برسی ضرور بناتا ۔ڈرنک ایک ہی سیپ میں ختم کرتا گلاس وہی پھینکتا وہ نکل گیا ۔
خضراسے روکو ۔اس کی ڈرنک میں ڈبل ڈوز پلز ہیں وہ ڈرائیونگ نہیں کرسکے گا ۔لیلیٰ نے فکر مندی سے کہا ۔
وہ یارم کاظمی ہے لیلیٰ ۔ایسی چھوٹی موٹی پلز اس کا کچھ بھگار نہیں سکتی وہ نشہ کبھی اپنے آپ پرحاوی نہیں ہونے دیتا ۔ڈونٹ وری ۔خضر بے فکر سا بولا تھا۔
°°°°°°°°
وہ گھر آیا تو روح روز کی طرح اس کا انتظار کر رہی تھی جب کہ وہ پہلے ہی اسے فون کرکے بتا چکا تھا کہ آج وہ جلدی نہیں آئے گا کیونکہ اس کے ساتھ کام کرنے والے ورکر کا برتھ ڈے ہے ۔
میں نے کہا تھا نہ کھانا کھا کے سو جانا تم ابھی تک میرا انتظار کر رہی ہو۔وہ اس کے قریب آ کر پوچھنے لگا۔
مجھے نیند نہیں آرہی تھی اس لیے ۔ وہ اس کے پاس آ گئی ۔
بہت وقت ہوچکا ہے روح “یارم نے اسے کھینچ کر اپنے قریب کرتے ہوئے کہا ۔
آپ شراب پی کےآئیں ہیں اس نے بے یقینی سے پوچھا شاید وہ نوٹ نہ کر پاتی ۔ لیکن اس سے پہلے وہ کبھی اس کے اس طرح سے قریب نہیں آیا تھا اور اس کی آواز میں خمار تھا۔
ہاں بالکل تھوڑا سی اپنے ہونٹوں سے اس کا ماتھا چھوتے ہوئے بولا ۔
آپ جائیں آرام کریں ۔