قسط 15
مولوی صاحب میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔اگر لڑکی پہلے سے شادی شدہ ہو لیکن اس کا خاوند مر چکا ہو۔ اور وہ کسی اور کے نکاح میں آجائے تو کیا یہ نکاح جائز ہے ۔یارم نے مولوی صاحب کو چھوڑنے کے لیے کہا تھا لیکن اس سے پہلے خضر نے مولوی صاحب کے سامنے سوال رکھ دیا۔یارم بھی اس کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا ۔
تم نے ادھوری بات بتائی مولوی صاحب کو خضر رکومیں پوری بتاتا ہوں ۔
اگر لڑکی کو دھوکے میں رکھ کر اس سے جھوٹا نکاح کرلیا جائے میرا مطلب ہے ۔کہ فون پر نکاح کیا جائے بس ایک طرف کی کارروائی مکمل کی جائے ۔
فون پر لڑکی کو ریکارڈنگ سنائی جائے ۔ نکاح نامے پر جعلی نام سے دستخط کیے جائیں ولدیت بھی غلط بتائی جائے ۔نکاح میرا مطلب ہے جھوٹا نکاح ہونے سے پہلے ہی وہ آدمی مر جائے تو کیا یہ نکاح جائز ہے “خضر تمہیں اس طرح سے یہ سوال پوچھنا چاہیے تھا ۔
اس نے خضر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا جب کے وہ حیرانگی سےاسے دیکھ رہا تھا ۔
نہیں ہر گز نہیں یہ تو نکاح ہی نہیں ہے ۔نکاح میں سب سے زیادہ ضروری ولدیت کا ٹھیک ہونا ہے ۔دونوں طرف سے مکمل کاروائی گواہوں کے بنا پر کی جاتی ہے ۔
لوگ فون پر نکاح کرتے ہیں لیکن مردہ انسان نکاح کیسے کر سکتا ہے۔اگر صرف اس کی آواز تھی لیکن وہ مر چکا ہے تو یہ نکاح تو ہوا ہی نہیں ۔مولوی صاحب حیرانگی پریشانی سے نکاح کی یہ وردات سن رہے تھے۔
جبکہ خضر کو وہ۔پوری بات سمجھا چکا تھا
آپ کا بہت شکریہ مولوی صاحب ۔آپ چلیں گاڑی میں تشریف رکھیں خضر ابھی آپ کو آپ کے گھر چھوڑ آئے گا۔
°°°°°°°
یہ سب کچھ کیا تھا ۔تم نے یہ سب کچھ مجھے کیوں نہیں بتایا اور یہ سب کچھ تم نے کب جانا ۔۔۔۔؟وہ آدمی کیسے مرا ۔۔۔!خضر نے پوچھا۔
جس دن روح یہاں پہ آئی تھی تمہیں یاد ہے میں شمس سے بات کرنے گیا تھا اسے سمجھانے گیا تھا کہ جو کام وہ کر رہا ہے وہ غلط ہے تم جانتے ہو وہ کام کیا تھا خضر ۔۔؟ شمس شیخ وہاں پاکستانی لڑکیوں سے جعلی نکاح کرکے انہیں یہاں بلاتا تھا جتنی خوبصورت لڑکی اس کی اتنی زیادہ قیمت ۔اور پھر انہیں یہاں لاکر بیچ دیتا تھا ۔میں نے اسے سمجھایا کہ اسے یہ کام نہیں کرنا چاہیے اس نے میری بات نہیں مانی ۔اور میرے ہاتھوں مارا گیا ۔شمس اس جعلی نکاح کے لیے رمیز شیخ کا نام استعمال کرتا تھا ۔
جس دن میں نے پہلی دفعہ روح کو دیکھا ۔وہ معصوم چہرہ میری دنیا ہلا گیا خضر ۔میں اسے اپنی زندگی میں شامل نہیں کرنا چاہتا تھا میں جانتا ہوں میرے مستقبل میں اندھیرے کے سوا اور کچھ نہیں لیکن روح نے مجھے مجبور کر دیا ۔
اس نے مجھے خود سے محبت کرنے پر مجبور کردیا ۔ اب اس کے بغیر رہنا بہت مشکل ہو گیا ہے ۔وہ ہمیشہ سے اپنی ہر بات اس سے شیئر کر دیتا تھا صارم کے علاوہ خضر اس کے لیے بہت خاص تھا ۔
ٹھیک ہے میں مولوی صاحب کو چھوڑ کے آتا ہوں تم بھابھی کے پاس جاؤ باقی باتیں ہم کل صبح کریں گے بہت وقت ہوگیا ہے ۔ خضر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
بھابھی ۔۔۔؟آج آخر کار وہ لڑکی سے بھابھی بن ہی گئی تھی
ہاں اب اسے لڑکی کہتے ہوئے اچھا نہیں لگے گا وہ مسکراتے ہوئے بولا
لیکن لیلیٰ کا کیا ہوگا؟ خضر نے پوچھا
مہربانی فرما کے اس وقت لیلیٰ کا نام لے کر میرا موڈ مت خراب کریں ۔آپ یہاں سے تشریف لے کے جا سکتے ہیں ۔یارم ناک سے مکھی اڑتا ہوا نکل گیا ۔
°°°°°°°°°
سب کو بھیج کر اس نے دروازہ بند کیا اور اپنے کمرے میں آیا لیکن یہاں روح نہیں تھی ۔یقیناً وہ دوسرے کمرے میں تھی ۔
میرے دل کی دنیا ہلا کر آپ دوسرے کمرے میں منہ چھپائے بیٹھی ہیں یہ تو بری ناانصافی ہے ۔وہ مسکراتا ہوا ہے اس کے کمرے میں آیا ۔
وہ بیڈ پے بیٹھی تھی ۔تمہارے پاس 2 منٹ ہیں جلدی سے دوسرے کمرے میں آؤ ۔وہ دروازے سے حکم جاری کرتا واپس پلٹ گیا۔
ابھی کچھ گھنٹے پہلے بھی وہ اس کی باہوں میں تھی ۔لیکن اس کے ہاتھ چھڑوانے کی وجہ سے وہ برامنا گیا پراب توروح اس کو ناراض کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔
وہ اپنا دل مضبوط کرتی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اس کے کمرے تک آئی۔
اسےاپنے پیچھے سے دروازہ بند کرنے کی آواز آئی اس نے فورا پلٹ کر دیکھا تو وہ دروازہ بند کیے اس کے سامنے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا ۔وہ آہستہ آہستہ بالکل اس کے قریب آ کر رکا اور اس کے کان کے قریب جھکا ۔
” تم جو آ رہے ہو پہلوں میں اب ہوش کسے آئے گا۔۔۔”
اے عشق زرارک تو سہی یہ عشق فنا ہو جائے گا۔۔”
WellCome to my life۔۔”
میرا بننے کے لئے شکریہ ۔
روح ِنور سے روحِ یارم بننے کے لئے شکریہ ۔
آج سے تم یارم کی روح ہواور اگر روح یارم سے دور ہوئی تو یارم بے جان ہو جائے گا ۔اور میں جانتا ہوں تم اپنے یارم کو کبھی بھی بے جان نہیں ہونے دو گی ۔
مجھے کبھی چھوڑ کر تو نہیں جاؤ گی نہ وعدہ کرو مجھ سے روح چاہے کچھ بھی ہو جائے کبھی مجھ سے دور نہیں جاؤگی کرو وعدہ اس کے بلکل قریب کھڑا،اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیے وہ اس سے وعدہ مانگ رہا تھا۔
روح نے بس اپنی نظریں جھکائیں۔ جب یارم کی گرفت اپنےچہرے پر ذرا سخت ہوتی محسوس ہوئی ۔اس نے یارم کے ہاتھوں پے اپنے ہاتھ رکھے ۔
کرو وعدہ کے مجھ سے کبھی دور نہیں جاؤ گی چاہے کچھ بھی ہو جائے ۔
وعدہ ۔۔۔۔”وہ با مشکل اس کی نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے بولی ۔
تھیک یو سو مچ روح میں تمہیں اتنا پیار دونگا کہ تمہیں میرے علاوہ کسی کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔اس کے کان میں سرگوشی کرتے ایک جھٹکے سے اپنے قریب ترکیا۔
“۔آج میری روح کو میری روح قرار دے گی
آج تو تیرا یارم اپنی جان سے جائے گا ۔۔”
یارم نے پورے استقحاق سے اس کے لبوں پر اپنے لب رکھ دیے۔اور اس کا نازک سراپا اپنی باہوں میں بھرتے ہوئے بیڈ پے اٹھا لایا ۔
تمہیں پتا ہے روح تم سے پہلے میری زندگی میں کوئی خواہش نہ تھی ۔لیکن جب سے تم میری زندگی میں آئی تمہیں چاہنا تمہیں پیار کرنا۔ بس تمہیں ہی سوچنا تمہارا بن جانا ۔اف کتنی خواہشیں دل میں جاگ آئی ہے ۔ پتا نہیں تم سے پہلے یہ ساری خواہشات کہاں سوئی تھیں ۔ اس کے چہرے پر جابجا اپنے محبت کی مہر ثبت کرتا وہ اسے اپنی محبت کا یقین دلانے لگا ۔ اسے اپنی زندگی میں کبھی کسی عورت کی کمی محسوس نہ ہوئی تھی ۔ لیکن روح کے زندگی میں آنے کے بعد اسے ہمیشہ اپنی زندگی میں روح کی کمی محسوس ہوئی ۔ یہ نازک سی لڑکی کب اس کے لیے اتنی خاص ہوگی وہ خود بھی نہیں جانتا تھا ۔
وہ تو یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ جب روح کو پتہ چلے گا کہ یار م وہ شخص ہے ہی نہیں جس کے لیے وہ اتنی دور یہاں آئی ہے ۔
وہ تو بس اس کے عشق میں گرفتار ہو چکا تھا اسے روح چاہیے تھی کسی بھی قیمت پر ۔ چاہے اس کے لیے اسے اپنی جان سے ہی کیوں نہ جانا پڑے ۔ مگر یہ تہہ تھا کہ وہ روح کا نام اپنے نام سے کبھی الگ نہیں ہونے دے گا ۔
روح صرف اس کی ہے صرف اسی کا حق تھا اب اس پر کوئی روح کو سوچنے کے لیے اسے دیکھنے کے لیے اس سے بات کرنے کے لیے یارم کی اجازت لےگا ۔
یارم کی شدتوں اور جسارتوں سے گھبرتی اسی کے باہوں میں پناہ لیتی لڑکی اسے دیوانہ کر گئی یارم کے ہر انداز میں روح کے لیے بے پناہ محبت تھی ۔وہ اس کے عشق میں ڈوبا اس پر اپنے محبتوں کی برسات کرتا رہا ۔رات دھیرے دھیرے گزر رہی تھی ۔اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ روح کو اپنا آپ اور بھی خاص لگنے لگا ۔ وہ اپنے آپ کو کبھی منہوس سمجھتی تھی ۔ یارم کی پناہوں میں متاعِ جاں سے کم نہ تھی ۔
°°°°°°°°°
وہ اس کے باہوں میں پرسکون نیند سو رہی تھی جب اذانوں کی آواز گونجنے لگی ۔”اٹھو میری جان نماز کا وقت ہوگیا ۔اس نے آہستہ سے اس کے کان میں سرگوشی کی۔یارم اسے اپنی زندگی میں شامل کرکے ایک پل نہ سو سکا۔
روح کی سونے کے بعد بھی اس کے ذہن میں بس ایک ہی بات چلتی رہی ۔کیا سچ جاننے کے بعد وہ اس سے نفرت کرنے لگے گی۔۔۔؟
جس طرح سے اس کے اپنے اس سے دور ہوئے وہ بھی سے دور چلی جائے گی ۔اس کے ذہن میں اٹھتے ہر سوال کا جواب “نہیں” تھا وہ کبھی اسے خود سے دور نہیں جانے دے گا ۔ اسے کچھ بھی پتا ہی نہیں چلنے دے گا ۔ وہ اسے کبھی ان لوگوں کے پاس واپس نہیں جانے دے گا جہاں سے وہ آئی تھی ۔ اگر وہ ان لوگوں سے کبھی ملے گی نہیں تو اسے پتہ کیسے چلے گا ۔یارم اسے ان سے دور کر دے گا ۔جن کی وجہ سے روح اس سے دور ہو سکتی ہے۔اور یہ فیصلہ کرکے وہ کچھ حد تک پرسکون ہو چکا تھا۔
اٹھ جاؤ جان یہ نہ ہو کہ تمہاری نیند کی وجہ سے تمہاری نماز قضا ہو جائے۔پھر کہو گی کہ میری وجہ سے ایسا ہوا ہے ۔ جب کہ میں نے تو تمہیں تنگ بھی نہیں کیا زیادہ ،اس کے کانوں میں سرگوشی کرتے اس کے کان کی لوح چومتا وہ مسلسل اسے جگانے کی کوشش کر رہا تھا ۔
مجھے نہیں پتا تھا اتنی خطرناک نیند ہے تمہاری ورنہ تو تمہاری نیند سے بہت سارے فائدے اٹھائے جا سکتے ہیں ۔تو پھر کیا خیال ہے ۔۔؟وہ جو مزے سے نیند میں اس کی باتیں سن رہی تھی اسے واپس رات والی ٹون میں آتا دیکھ کر فورا اٹھ کر بیٹھ گئی
مجھے نماز پڑھنی ہے ۔۔۔” اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ اس کے ہوش ٹھکانے لگاتا وہ بھاگ کر واش روم میں بند ہوگئی ۔اب تو تمہیں بھاگ کر بھی میرے ہی قریب آنا ہے ۔
وہ اٹھ کر بیٹھا اور بیڈ کی کراون سے ٹیک لگاتا ہوا واش روم کے دروازے کو دیکھنےلگا لبوں پردلکش مسکراہٹ تھی۔
°°°°°°°°
روح فریش ہو کر باہر آئی ۔تو وہ اسے دیکھ رہا تھا ایک شرمیلی سی مسکراہٹ نے اس کے لبوں کو چھوا ۔
“آپ اگر مجھے ایسے ہی دیکھتے رہیں گے تو میں باہر جاکے نماز ادا کرونگی ۔وہ ہلکا سا منمنائی۔
نوٹ کر رہا ہوں ۔ کل رات سے تمہاری بولتی بند ہوگئی ہے ایسا بھی کیا ہوگیا رات میں ۔ وہ شرارتی انداز اپنائے اسے نظروں کے حصار میں لے لیتا ہوا پوچھ رہا تھا۔
میں باہر جارہی ہوں ۔ وہ شرماتی ہوئی جانماز اٹھا کر باہر جانے لگی۔
ارے یار میں نے کیا کہا بس پوچھ ہی تو رہا ہوں کہ ایسا کیا ہوگیا رات میں اچھا ٹھیک ہے اب میں کچھ نہیں کہوں گا۔تم آرام سے نماز پڑھو ۔ وہ مسکراتے ہوئے نظر پورے کمرے میں گھمانے لگا ۔وہ کافی دیر کھڑی اسے دیکھتی رہی ۔ لیکن وہ اس سے بالکل بے نیاز ظاہر ہونے کی کوشش کر رہا تھا ۔روح نے وہی جائے نماز بچھائی اور نیت باندھی ۔اسے مکمل نماز میں مصروف دیکھ کر ایک بار پھر سے اسے جان لٹاتی نظروں سے دیکھنے لگا ۔
اسے لگا تھا کہ وہ پانچ سات منٹ میں نماز سے فارغ ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ نماز تو فورا ختم ہوگئی لیکن یہ دعا تھی جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
پھر تقریبا پندرہ منٹ کے بعد وہ دعا مانگ کر جائےنماز اٹھانے لگی۔
میں تو مل گیا تمہیں اب کیا مانگ رہی تھی اللہ سے اس نے شرارت سے پوچھا ۔
مانگ نہیں رہی تھینک یو بول رہی تھی ۔ انہوں نے میری سن لی تو تھینک یو تو بنتا ہے نہ ۔۔۔” مسکرا کر اسے جواب دیتی وہ اس کے لئے ناشتہ بنانے باہر نکل گئی ۔