روح یارم

Areej shah

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 20

یارم مجھے شارف بھائی سے بات کرنی ہے آپ مجھے ان کا نمبر ملا کر دیں اس نے اپنا فون یارم کے حوالے کرتے ہوئے کہا ۔
کیا بات کرنی ہے میرے فون سے کرلو وہ اسے بتانا نہیں چاہتا تھا کہ اس کے فون میں اس کے علاوہ سب نمبر بلاک ہیں۔
مجھے انہیں چیلنج دینا ہے روح نے سوچتے ہوئے کہا ۔
روح یہ کوئی وقت ہے چیلنج دینے کا تم صبح اس سے بات کرنا ۔یارم نے فون واپس رکھتے ہوئے کہا
نہیں نا آپ مجھے ابھی فون ملا کردیں ابھی میں ان سے بات کروں گی ۔اس نے ضدی انداز میں کہا تو یارم شارف کو فون کرنے لگا ۔
وہ خود بھی نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ آخر وہ اس کی ہر بات کو کیوں مانتا ہے ۔اس نے فون ملاکر فون اس کے حوالے کردیا ۔
ہاں ڈیول بولو شارف نے کہا
ارے میں ہوں روح میں نے آپ کے لئے چیلنج سوچ لیا ہے روح نے کہاتویارم بھی دلچسپی سے دیکھنے لگا ۔
بولو پیاری بہنا کونسا چیلنج ہے ۔۔۔؟شارف بھی ایکسائٹڈ ہو کر پوچھنے لگا ۔
آپ کو پتا ہے ہمارے گھر کے راستے میں ایک ہوٹل آتا ہے ۔
پیاری بہنا تمہارے گھر کے راستے میں ایک نہیں بلکہ بہت سے ہوٹل آتے ہیں کون سے ہوٹل کی بات کر رہی ہو تم ۔شارف نے پوچھا
ایک منٹ میں پوچھ کر بتاتی ہوں ۔یارم ہم اس رات کہاں گئے تھے کھانا کھانے کے لئے وہ اسے انتظار کرنے کا بول کر یارم سے پوچھنے لگی ۔
الخنتہ الفندق۔یارم نے مختصر ہوٹل کا نام بتایا
الخنتہ الفندق۔آپ کو ابھی اسی وقت وہاں جانا ہوگا
لیکن اس سے پہلے نہ آپ کو آپ کے روم میں جتنے بھی بندے ہیں نہ مطلب خضر بھائی اور باقی سب ان سب کے کمبل چوری کرنے ہوں گے
چوری ۔۔۔۔۔۔”لڑکی تم مجھ سے چوری کروا رہی ہو وہ بھی خزانے نہیں بلکہ کمبل وہ اچھا خاصہ بدمزا ہوا۔
مگراس طرف یارم کے ڈمپلز نمایاں ہونے لگے تھے وہ جانتا تھا وہ کیا کرنے والی ہے
چیلنج قبول کر رہے ہیں یا نہیں ۔۔۔؟ وہ اسے چیلنج کی ٹوپی پہنا کر نجانے کیا کرنے والی تھی
ٹھیک ہے پیاری بہن اگر یہ چیلنج ہے تو میں اسے قبول کرتا ہوں ۔شارف نے یہ کہہ کر فون بند کیا ۔
اس فلیٹ میں بہت سارے لڑکے رہتے تھے جو تقریبا سب ہی ان کے ساتھ کام کرتے تھے
شارف چوری سے باری باری سب کے بستر کے قریب گیا اور بری صفائی سے سب کے اوپر سے کمبل نکالنے لگا ۔
ہیٹرز چلنے کی وجہ سے کسی نے محسوس بھی نہ کیاآٹھ کمبل اس کے قبضے میں آ چکے تھے اس نے جلدی سے اپنی گاڑی میں ڈالے اور ہوٹل کے راستے چل دیا ۔پھر وہاں پہنچ کر یارم کے فون پر روح کو فون کیا ۔
وہ تو کب سے انتظار میں بیٹھی تھی فورا فون اٹھایا ۔
اب کیا کروں پیاری بہنا ہوٹل کے اندر چلا جاؤں میں ۔
نہیں ہوٹل کے سامنے پارآپ کو جگہ نظر آ رہی ہے ۔جو خالی ہے وہاں اندھیرا ہے اس پر ایک بورڈ لگا ہے شاید بلب وغیرہ کا اشتہار ہے ۔روح نے پورا نقشہ کھینچتے ہوئے بتایا
ہاں بالکل ہے لائٹس کا ایڈ ہے شارف نے جگہ پہچان لی تھی
اوپر بورڈ پر نہیں وہاں نیچے دیکھیں ۔روح نے کہا ۔
نیچے کیا ہے شارف نے پوچھا دوری اور اندھیرا ہونے کی وجہ سے اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا
مگر وہ فون بند کر چکی تھی شارف نے فون جیب میں ڈالا اور آگے بھر گیا۔
لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر ۔وہ پریشان ہو گیا اسے یقین نہیں تھا کہ روح اسے ایسا چیلنج دے گی۔وہ فورا گاڑی کے پاس آیا اور وہاں سے کمبل نکالنے لگاجلدی سے وہ کمبل نکالے اور دوڑ کر اس بورڈ کے نیچے آیا ۔
یہاں چھوٹے چھوٹے یتیم بے سہارا بچے زمین پر سردی سے کانپ رہے تھے ۔
اس نے جلدی سے بچوں کے اوپر کمبل ڈالنا شروع کیا ایک بچہ جاگ رہا تھا ۔
هل تعاني من نزلة برد؟۔کیا تمہیں سردی لگ رہی ہے شارف نے پوچھا ۔۔۔۔؟
البردو نحن جائعون۔سردی بھی اور وہ بھوک بھی بچے نے روتے ہوئے کہا شاید اسے بھی پہلی دفعہ کوئی ہمدرد ملا تھا ۔
شارف سے مزید بولانا گیا وہ فورا اٹھ کر اس پار ہوٹل میں گیا ۔
اور وہاں سے ان سب بچوں کے لیے کھانا لیا ۔اور پھر جلدی سے واپس آ کر انہیں کھانا کھلانے لگا ۔
اس کی آنکھ سے ایک آنسو گرا شاید ہمدردی کا ۔
وہ روح کا شکر گزار تھا آج اس کی وجہ سے پہلی بار کوئی نیکی کی تھی ۔
ورنہ اسے تو ہمیشہ سے ایسے چیلنجز ملے تھے جینے پورا کرنے کے بعد اسے یا تو بہت برا محسوس ہوتا یا خود پر غصہ آتا ۔لیکن آج وہ دل سے خوش تھا ۔اس نے روح کو فون کیا
روح نے فورا فون اٹھا لیا
تھینک یو مجھے ورلڈکی بیسٹ بہن دینے کے لیے ۔
بس اتنا کہہ کے اس نے فون بند کر دیا ۔
وہ ہنستے ہوئے یارم کو دیکھنے لگی ۔
تم مجھے بھی تو کہہ سکتی تھی اس کام کیلئے یارم نے کہا ۔
ہاں لیکن آپ یہ کام میرے لئے کرتے شارف بھائی نے یہ اپنے لئے کیا ہے ۔وہ ہنستے ہوئے بولی تو یارم نے اسے اپنے قریب کرنا چاہا۔
ابھی میرا آخری ڈرامہ ختم نہیں ہوا ۔وہ فورا اس کے قریب سے اٹھ کر باہر جانے لگی ۔
ایک یہ لڑکی اور دوسرے اس کے ڈرامے وہ اٹھا اور اس کے پیچھے آکر صوفے پر بیٹھا جبکہ روح پوری طرح ڈرامے میں ڈوبی ہوئی تھی
وہ کبھی ٹی وی سکرین کی طرف دیکھتا تو کبھی اپنی پیاری بیوی کے ایکسپریشن جو صرف ڈرامہ دیکھتی نہیں تھی بلکہ فیل کرتی تھی
°°°°°°°°
یارم آپ کے فون کا پاسورڈ کیا ہے ۔ اس کے سینے پر سر رکھے اس کے فون کو ہاتھوں میں لیے پوچھ رہی تھی یارم آنکھیں موندے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا
گیس کرو یارم نے آنکھیں موندے ہوئے کہا
ڈیول ہوگا ۔روح اسے دیکھتے ہوئے بولی
اور لکھنے لگی۔یہ تو غلط ہے روح نے منہ بنا کر کہا ۔
اس انسان کا نام ہے جس سے میں سب سے زیادہ پیار کرتا ہوں یارم نے اس کی مدد کرنی چاہی
روح نے پہلے سوچا بھی شرماتے ہوئے اپنا نام لکھنے لگی۔
ارے اس کا پاسواڈ تو میرا نام ہے روح نے شرماتے ہوئے کہا
کیا بات کر رہی ہو مجھے تو پتا ہی نہیں تھا یارم نے حیران ہوتے ہوئے کہا تو روح ہنسنے لگی
آپ بہت اچھے ہیں ۔ وہ خوشی سے چہکتے ہوئے بولی ۔وہ اس سے اتنا پیار کرتا تھا کہ اپنا پاسورڈ بھی اس کے نام پر رکھا تھا
ایسے مت کہو اب تم پھر سے شرماؤ گی مجھے تم پر پھر سے پیار آئے گا اور پھر تمہیں میں بالکل بھی اچھا نہیں لگنے لگاوں گا۔یارم شرارت سے کہتا ہوا اس پر جھکا ۔
اس سے پہلے کہ وہ اس کی بات کا مطلب سمجھ کر وہ بھاگتی پکڑی گئی
°°°°°°°°°
وہ صبح اٹھا تو روح اس کے قریب ہی سو رہی تھی جب سے اس نے روح کو اپنی زندگی میں شامل کیا تھا وہ کام پر بھی دیر سے جاتا تھا یہی وجہ تھی کہ صبح نماز پڑھ کے روح دوبارہ سو جاتی ۔وہ اسے ایسے ہی سوتا چھوڑ کر فریش ہو کر باہر آیا ۔
مسزیارم کاظمی آپ روز میرے لئے ناشتہ بناتی ہیں آج آپ کا شوہر آپ کو اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کروائے گا ۔وہ کچھ سوچتے ہوئے اس کے لئے ناشتہ بنانے لگا ۔
تب ہی دروازے پر دستک ہوئی اس نے جا کر دروازہ کھولا تو سامنے ہی خضر کھڑا تھا ۔
میں یہاں سے جا رہا تو سوچا ساتھ چلتے ہیں وہ مسکراتے ہوئے بولا
یارم نے دروازہ کھول کر اسے اندر آنے کا اشارہ کیا
رات کو ایک عجیب واقعہ ہوا ڈیول ہم سب لڑکوں کے کمبل چوری ہو گئے مطلب حد ہے اب ڈان کے گینگ میں چوریاں ہونے لگی ہیں ۔مجھے تو لگتا ہے اپنے ہی کسی لڑکے کی شرارت ہے
خضر نے کہا تو یارم کے گال پر ذرا سا ڈمپل نمایاں ہوا ۔
تم کیا کر رہے ہو وہ اسے کچن میں کچھ کرتا دیکھ کر پوچھنے لگا ۔
تمہاری بھابھی کے لیے ناشتہ بنا رہا ہوں یارم نے کہا
مطلب جوڑو کا غلام خضر حیران اور پریشان ہو کر اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
وہ روز میرے لئے ناشتہ بناتی ہے میرے کپڑے دھوتی ہے میرا گھر سنبھالتی ہے ۔ میری ہر ضرورت کا خیال رکھتی ہے اور اگر ایک دن میں اس کے لیے ناشتہ بناؤں گا تو کیا میں جوڑو کا غلام ہو جاؤں گا ۔یارم نے اس کی طرف دیکھ کر کہا
ارے میرا وہ مطلب نہیں تھا ۔اس سے پہلے کے خضر کچھ اور کہتا روح کمرے سے باہر نکلتی نظر آئی ۔
اسلام علیکم بھائی کیسے ہیں آپ ۔۔۔؟
وعلیکم سلام میں ٹھیک ہوں۔یہاں آئیں بھابھی آج آپ کے خاوند محترم نے اپنے ہاتھوں سے آپ کے لئے ناشتہ بنایا ہے ۔خضر مسکراتے ہوئے بولا
آپ نے کیوں بنایا میں بنا دیتی نہ روح کو شرمندگی ہوئی ۔
تم روز بناتی ہو سوچا آج میں تمہیں اپنے ہاتھوں کا ذائقہ چکاوں ۔یارم نے اس کے لیے کرسی گھسٹی ۔
خضر بھائی آپ کے گھر میں کون کون ہے ۔ناجانے روح کے دل میں کیا سمائی کہ پوچھنے لگی ۔
کوئی نہیں ۔خضر کی جگہ جواب یارم نے دیا تھا
آپ مجھے چھوڑیں آپ بتائیں آپ کے گھر میں کون کون ہے خضر نے مسکرا کر پوچھا ۔شاید وہ اپنے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا تھا ۔
میرے گھر میں امی اور تین بہنیں ۔اور پڑوس میں فاطمہ بی بی وہ بھی بالکل میری ماں جیسی ہیں جب میں پیدا ہوئی تب میری سگی امی اور ابو فوت ہوگئے تھے مجھے میری دوسری امی نے پالا ہے ۔
دوسری امی مطلب سوتیلی ماں خضر نے پوچھا ۔
جی ۔روح بس اتنا ہی بولی
یارم پلیز مجھے آج گھر فون کرنے دیں ۔وہ اتنی محبت اور منت بھرے انداز میں بولی کہ یارم اسے دیکھ کر رہ گیا اگر وہ اس کے منہ پر انکار کرتا تو آج وہ بہت ہرٹ ہوتی ۔اسی لیے بہانہ بنانے لگا۔
وہ دراصل میرے پاس اب نمبر نہیں ہے روح ورنہ میں تمہاری بات کروا دیتا تمہارے گھر والوں سے ۔یارم نے بات بنانے کی کوشش کی ۔
ہاں بھابھی وہ ڈیول کا فون خراب ہوگیا تھا اور نمبر سارے ڈیلیٹ ہوگئے تھے ۔ خضر نے بھی ساتھ دینے کی کوشش کی۔
میرے پاس فاطمہ بی بی کا نمبر ہے میری شادی والے دن انھوں نے مجھے دیا تھا میں لاتی ہوں روح جلدی سے اٹھی اور کمرے میں چلی گئی ۔
ڈیول اب کیا ہوگا ۔خضر نے پریشانی سے پوچھا ۔
میں اسے خود سے دور نہیں جانے دوں گا چاہے جو بھی ہو جائے اگر آج سچ پتہ چل بھی گیا تو بھی میں اسے خود سے دور نہیں جانے دوں گا ۔وہ میری ہے اور میں جانتا ہوں میرا خدا اسے مجھ سے نہیں چیننے گا ۔یارم نے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جہاں ابھی روح گئی تھی ۔
وہ ہاتھ میں کاغذ کا ایک ٹکڑا لیے ہوئے ان کی طرف آئی ۔
یہ نمبر ہے ۔وہ یارم کے آگے سے فون اٹھاکر نمبر ملانے لگی ۔
بیل جارہی ہے ۔۔وہ ایکسائٹڈ ہوتے ہوئے بولی ۔
جبکہ خضر یارم کو دیکھ رہا تھا جو ٹیبل پر ہاتھ کی انگلی سے لائنیں بنانے میں مصروف تھا ۔
یارم جب ٹینشن میں ہوتا تھا تو ایسے کرتا تھا ۔اور پھر ایسے ہی اس ٹینشن کی وجہ کو جڑ سے اکھاڑ دیتا ۔
اسلام علیکم کیسی ہیں آپ فاطمہ بی بی وہ چہکتے ہوئے بولی ۔اور یارم کو لگا کہ کوئی اس کی سانسوں کی ڈوری کو آہستہ آہستہ کھینچ رہا ہے۔
خضر کو اندازہ تھا آج نہیں تو کل تو روح کو سب کچھ پتہ چل ہی جائے گا لیکن اتنا جلدی ۔ اسے تو یہی لگ رہا تھا کہ روح کے پاس پاکستان کا کوئی رابطہ نہیں ہے ۔
میں بالکل ٹھیک ہوں ۔جی وہ بھی بالکل ٹھیک ہیں
نہیں وہ بہت اچھے ہیں میرا بہت خیال رکھتے ہیں ۔ہاں میں بہت خوش ہوں ۔ روح کی باتوں سے یہی اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ دوسری طرف جو عورت ہے اسے یارم کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتا ۔جبکہ یہ بات یارم پہلے ہی کلیئر کر چکا تھا ۔کہ شمس اور روح کے جھوٹے نکاح کے بارے میں کون کون جانتا ہے اور کون کون نہیں ۔
شمس کا پاکستان میں روح کے گھر میں کسی سے بھی کوئی رابطہ نہ تھا ۔وہ تو صرف ایک عورت کے تھرو یہ سب کچھ کر رہا تھا یارم اس کی ساری انفارمیشن نکال چکا تھا اسے یقین تھا ۔
اگر روح اپنے گھر فون کرے گی تو اس بارے میں کوئی بھی نہیں جانتا ہوگا لیکن پھر بھی وہ روح پر کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا ۔
پاکستان میں موجود لوگ یہی سمجھتے تھے کہ شمس زندہ ہے اور وہ اس کے پاس ہے ۔شمس کی موت کی خبر کو اس نے بالکل بھی پھیلنے نہ دیا تھا۔
وہ اسے خود سے دور کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔اگر وہ سب کچھ پہلے ہی پلان نہ کر چکا ہوتا تو روح کو اتنی آسانی سے پاکستان میں کسی سے بات نہیں کرنے دیتا ۔
لیکن پھر بھی اس کے اندر ایک ڈر تھا کہیں روح اس سے دور نہ ہو جائے کہیں اسے سب کچھ پتہ نہ چل جائے۔وہ کتنی ہی دیر اس کے فون پر فاطمہ بی بی سے باتیں کرتی رہی ۔
جب کہ یارم بھی اب بے فکری سے ناشتہ کر رہا تھا ۔
میں نے تمہیں روح کے پاسپورٹ اورکارڈ کا کہا تھا ۔
ہاں میں دو دنوں میں انتظام کر دیتا ہوں میں سب کچھ کروا چکا ہوں خضر بھی پرسکون ہو گیا

Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial