قسط 22
روح کا فون بند ہوتے ہی اس نے صارم کو فون کیاتھا۔اس کا نمبر دیکھتے ہی صارم نے فون اٹھا لیا۔
بھابھی کے ہاتھ کا تھپڑ کیسا لگا ۔۔۔؟پہلا سوال ہی بے ڈنگا سا تھا۔
یارم تو بہت غلط کر رہا ہے اس لڑکی کو دھوکہ دے کر آج نہیں تو کل اسے سب کچھ پتہ چل جائے گا پھر کیا کرے گا تو۔۔۔۔۔؟آج ثبوت نہیں تھا میرے پاس کل ضرور ہوگا ۔
اور تجھے لگتا ہے کہ وہ تیرے ثبوتوں پر یقین کرے گی یارم زرا سا مسکرایا تھا۔سوچنا بھی مت صارم وہ کبھی تجھ پر یقین نہیں کرے گی ۔لیکن میری پیٹھ پیچھے میرے گھر آ کر بہت بڑی غلطی کی ہے تو نے ۔ آج کے بعد ایسی غلطی مت کرنا ۔ورنہ تو جانتا ہے میرے ساتھ غداری کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے ۔یقین کر میں ابھی تک تیری اس دوستی کی خاطر تجھے چھوڑ رہا ہوں ۔جو کبھی ہمارے درمیان تھی ۔آج کے بعد روح سے دور رہنا ۔اتنا دور کہ ڈھونڈنے پر بھی نظر نہ آو۔ورنہ اپنی بیوی اور بچی کو دیکھنے کے لئے ترس جائے گا ۔ یارم نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔
او تواب تم اپنے معیار سےگرکر مجھےمیری بیوی اور بچی کی دھمکیاں دے رہے ہو صارم غصے سے چلایا ۔
اگر تم میری پرسنل لائف میں انٹر فیر کروگے تو مجھے بھی تو کرنا پڑے گا نہ صارم ۔جس طرح سے تجھے بھابھی اور مائرہ عزیز ہیں اسی طرح سے مجھے روح عزیز ہے دور رہنا اس سے ۔یارم نے فون کاٹ کر شارف کو فون کیا ۔
ہاں ڈیول بولو ۔۔۔،
نظر رکھو انسپکٹر پر ،آج میرے گھر پہنچ گیا تھا وہ ،وہ۔غصے سے بولا
ڈونٹ وری میں نظر رکھتا ہوں۔ اس پر شارف کا جواب سن کر اس نے فون کاٹ کر ٹیبل رکھا اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔یہ تم نے اچھا نہیں کیا صارم،اگر وہ مجھ سے دور ہوئی تو میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔آنکھیں بند کئے وہ اپنا غصہ کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا
°°°°°°°°°°
آج یارم اور روح کی آئس لینڈ کی فلائٹ تھی روح تو جانے کے لیے بہت ایکسائٹڈ تھی لیکن جہاز میں بیٹھنے میں اسے ڈر بھی لگ رہا تھا ۔پہلے پاکستان سے دوبئی آتے ہوئے بھی وہ کتنا ڈررہی تھی لیکن تب وہ اکیلی تھی، اب یارم اس کے ساتھ تھا۔وہ اس وقت ایئرپورٹ پر بیٹھے اپنی فلائٹ کی اناؤنسمنٹ کا انتظار کر رہے تھے۔
روح تویہ سوچ سوچ کر خوش ہو رہی تھی کہ وہ پہاڑوں سمندروں اور برف کے بیچ جارہی ہے وہ تو اپنے گھر سے بھی کبھی باہر نہ نکلی تھی اور ابھی اتنے دور دوسرے ملک میں، وہ ہمیشہ سے برف گرتے دیکھنا چاہتی تھی لیکن ملتان جیسے شہر میں برف گرنا اک خواب جیسا تھا۔
یارم کا سارا دھیان اس کے چہرے کے ایکسپریشنز پرتھا ۔جہاں ایک رنگ آرہا تھا اور ایک رنگ جا رہا تھا وہ اپنے چہرے سے اپنے دل کا حال چھپا نہیں سکتی تھی۔صارم کے بارے میں اس نے روح کو دوبارہ یہی بتایا کہ وہ اسے پھنسانا چاہتا ہے وہ اس کے دشمنوں کے ساتھ ملا ہوا ہے۔
روح کا اس کی ایک ایک بات پر ایمان لانا یارم کو گلٹ میں مبتلا کر گیا تھا ۔لیکن پھر بھی وہ اسے کچھ نہیں بتا پایا اور نہ ہی اسے کچھ بھی بتانے کا ارادہ رکھتا تھا ۔تھوڑی دیر میں فلائٹ کی اناؤنسمنٹ ہوگئی۔
یارم میرا ہاتھ پکڑ کے رکھیے گا مجھ سے ایک سیکنڈ کے لیے بھی دور مت جائیے گا ۔ سارا وقت میرے ساتھ رہئیے گا ۔اگر میں سو گئی تو بھی مجھے اکیلا چھوڑ کے کہیں مت جائیے گا ۔ مجھے بہت ڈر لگے گا ۔روح اس کے ساتھ تقریبا چپکی ہوئی تیز تیز بول رہی تھی ۔
میری جان میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا ۔وہ اسے اپنے ساتھ لئے اپنی سیٹ پے آ بیٹھا تھا،تھوڑی دیر کے بعد جہاز نے اڑان بھرنی تھی جبکہ روح آنکھیں بند کیے اس کا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے تھامے نجانے کیا زیر لب بڑبڑا رہی تھی ،یارم نے ذرا غور کیا اور اس کے لبوں کے پاس اپنا کان رکھا تو پتہ چلا وہ قرآنی آیات پڑھ رہی تھی۔
اف۔۔۔!! ڈرپوک لڑکی، یارم اس کے ڈر پر ذرا سا مسکرایا اور اس کا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھام کر اسے سیٹ بیلٹ پہنانے لگا۔اور پھر جب فلائٹ اڑان بھرنے لگی تو وہ چیخ مار کے اس کے سینے میں منہ چھپا گئی۔
شاید لوگوں کے لئے یہ کوئی نئی بات نہ تھی اس لیے کسی نے بھی مڑکر نہ دیکھا۔اور اگر کوئی دیکھتا بھی تو کونسا یارم کو پروا تھی ۔وہ تو اسے اپنے سینے سے لگائے بالکل پر سکون تھا۔
°°°°°°°°°
روح اس طرف دیکھو یارم نے اسے کھڑکی کی طرف متوجہ کیا۔جہاں سے برج خلیفہ کی بلڈنگ بالکل ان کے ساتھ ساتھ نظر آ رہی تھی ۔
یارم یہ تو اس ہوٹل سے بھی نظر آتا ہے نہ جہاں ہم کھانا کھانے جاتے ہیں۔روح نے ذرا سااس کے سینے سے منہ نکال کر پوچھا ۔
ہاں روح کیوں کہ یہ دنیا کی سب سے اونچی ترین بلڈنگ ہے۔دیکھو اسے یہ کتنی خوبصورت لگ رہی ہے۔تم تو بے کار میں اونچائی سے ڈرتی ہو لوگ یہاں پہ آ کر سیلفی بناتے ہیں۔
مجھے نہیں بنانی کوئی سیلفی میں یہیں پر ٹھیک ہوں۔وہ مزید اس کے سینے میں گھستے ہوئے بولی ۔
یہاں پر تو میں بھی ضرورت سے زیادہ ٹھیک ہوں وہ اس کے گرد بازو کا گھیرا مضبوط کرتے ہوئے بولا۔
یارم یہ ہمارا بیڈروم نہیں ہے آپ میرے اوپر سے ہاتھ ہٹائیں وہ منہ بنا کر بولی۔
مگر سچ تو یہ تھا کہ وہ یہ سوچ کر کہ لوگ انہیں دیکھ رہے ہوں گے اسے شرم آرہی تھی لیکن وہ اپنے معصوم سے ڈر کا کیا کرتی ۔پاکستان سے دوبئی آتے وقت اس کے ذہن میں یہ بات تھی کہ نہ جانے یارم کیسا ہوگا ۔وہ بھی انہی لوگوں جیسا ہوگا جن کے ساتھ وہ آج تک رہتی آئی ہے۔
اگر وہ ایسا ہوتا تو شاید وہ صبر اور شکر سے زندگی گزار لیتی لیکن یارم تو اس سے بے انتہا محبت کرتا تھا ۔ اور روح کی نظر میں وہ بگڑ چکی تھی یارم کی محبتوں نے اسے بگاڑ دیا تھا۔اب وہ یارم کی سختی برداشت نہیں کرسکتی تھی۔اسے اب صرف یارم کی محبت ہی چاہیے تھی۔یارم کا اس کی پرواہ کرنا اس کا خیال رکھنا اسے محبت دینا کوئی بھی بات اسے پیار سے سمجھانا ۔اگر یہ سب کچھ بدل جائے ۔تو شاید روح زندہ بھی نہ رہ پائے ۔
تو ٹھیک ہے تم بھی ذرا اپنے (بل) میرا مطلب ہے میرے سینے سے باہر نکلو۔آخر یہ ہمارا بیڈروم تھوڑی ہے ۔اس نے روح کے سر کو ذرا سا اپنے آپ سے الگ کیا مگر روح نے دوبارہ اس کے سینے پر اپنا سر رکھ دیا۔
نہیں میں یہی ٹھیک ہوں بس آپ اپنے آپ پر کنٹرول کریں۔
تو پھر میں بھی ایسے ہی ٹھیک ہوں ۔یارم نے پھر سے اس کے گرد اپنے بازو رکھے۔
پلیز نہیں نہ ۔۔۔روح نے معصوم سی شکل بنا کر اس کی طرف دیکھا تو یارم نے اس کے گرد سے ہاتھ ہٹا لیے ۔اور تھوڑی ہی دیر بعد وہ گہری نیند سو گئی ۔تویارم نے اپنے ہاتھ دوبارہ سے اس کے گرد رکھ لیے تاکہ اس کی نیند خراب نہ ہو ۔
°°°°°°°°
آنکھ کھلی تویارم اب بھی اس کے گرد اپنے بازوں کا گھیرا بنائے اسے اپنے سینے سے لگائے محبت سے دیکھ رہا تھا ۔
یارم ہم ابھی تک نہیں پہنچے ۔روح نےآنکھیں ملتے ہوئے پوچھا وہ گہری نیند سے جاگی تھی ۔
نہیں میری جان ابھی تو بمشکل آدھا سفر ہوا ہے ۔یارم نے بتایا۔
یہ تو بہت دور ہے ۔روح معصومیت سے کہتی ایک بار پھر سے اس کے سینے پر اپنا سر رکھ گئی ۔
یارم آئس لینڈ کیا گوروں کا ملک ہے ۔۔۔؟نیند تو وہ پوری کرچکی تھی تو اس کا سوالنامہ ایک بار پھر سے شروع ہوگیا ۔
ہاں یہ انگریزوں کا ملک ہے۔یارم روح سے پہلے کبھی کسی سے اتنی بات نہیں کرتا تھا وہ یہ سوچتا تھا کہ وہ اتنے سوال کہاں سے لاتی ہے اور وہ بنا اکتائے اس کے ہر سوال کا جواب اتنی محبت سے دیتا ہے ۔
میں نے تو خبروں میں کبھی اس ملک کے بارے میں کچھ خاص نہیں سنا ۔
ہاں کیوں کے اس ملک میں کچھ خاض ہوتا ہی نہیں ہر ملک اپنی لڑائیوں اور فوج کی وجہ سے مشہور ہوتا ہے جبکہ آئسلینڈ میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔آئس لینڈ کے چاروں طرف سمندر ہے تمہیں پتا ہے روح آئس لینڈ دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس میں کوئی فوج سرے سے ہے ہی نہیں ۔ یارم نے اس کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا۔
کیا مطلب فوج کے بغیر ملک کیسے چلتا ہے کیا ان پر حملےنہیں ہوتے روح حیران اور پریشان اس سے پوچھنے لگی۔
نہیں روح اس ملک میں ایسا کچھ نہیں ہوتا یہ دنیا کا سب سے امن پسند ملک ہے یہاں پر کوئی فوج نہیں یہاں تک کہ یہاں کی پولیس بھی اپنے پاس پستول بندوق یا اس طرح کی کوئی چیز نہیں رکھتی ۔یہاں کی پولیس میں صرف نام کی پولیس ہے اس ملک کو پولیس کی بھی ضرورت نہیں ۔یہاں کے لوگ ایک دوسرے سے بے وجہ نہیں لڑتے ۔یہاں کی عورتیں اپنے شوہر کے ساتھ بے وفائی نہیں کرتی۔یہاں کے مرد ایک ہی شادی کرتے ہیں اور شادی سے پہلے کسی کے ساتھ بھی کوئی تعلقات قائم نہیں رکھتے اور سب سے خاص بات اس ملک میں جانور نہیں ہیں ۔اور جو ہیں وہ نظر نہیں آتے ۔میرا مطلب ہے اس ملک میں جانوروں کی تعداد صرف ڈیڑھ ہزار ہے ۔اورانسانوں کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ ۔اب تین لاکھ لوگوں میں صرف ڈیڑھ ہزار جانوروں کو ڈھونڈنا تو ناممکن ہے۔
یہاں کے لوگ جانور نہیں پالتے۔اس ملک کی کرنسی کی قیمت بہت کم ہے لیکن سب سے اہم بات یہ دنیا کے سب سے امیر ترین ملکوں میں نویں نمبر پر ہے۔اور کوئی سوال ۔۔۔؟
یارم کے ذہن میں جو بہت سارے سوال آرہے تھے ۔ ان سب کے جواب دے چکا تھا لیکن پھر بھی شرارت سے اس سے پوچھنے لگا ۔تو وہ نفی میں سرہلا کر بیٹھ گئی ۔
ایک سوال اور ہے ۔پھر اچانک اٹھ کر بولی
اسے آئس لینڈ کیوں کہتے ہیں۔۔۔۔؟
کیوں کہ یہ دنیا کا سرد ترین علاقہ ہے جہاں سب سے زیادہ برف گرتی ہے ۔یارم نے ٹھہرٹھہر کا جواب دیا۔
یارم یہ خوبصورت تو ہے نا ۔میرا مطلب ہے جو کچھ آپ بتا رہے ہیں اس کے بعد مجھے نہیں لگتا کہ یہ جگہ کچھ خاص خوبصورت ہوگی روح نے منہ بنا کر کہا تویارم مسکرایا ۔
یہ دنیا کےخوبصورت ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔آپ کو تو اس ملک کے بارے میں بہت کچھ بتا ہے ۔ آپ یہاں پہلے بھی آئے ہیں ۔
ہاں میں جب بھی سکون چاہتا ہوں میں یہاں آتا ہوں ۔ابھی تو میں نے تمہیں ٹھیک سے کچھ بتایا بھی نہیں ۔تمہیں پتا ہے اس ملک میں اتنی سردی ہونے کے باوجود بھی لوگ زیادہ کپڑے پہننا پسند نہیں کرتے ۔یارم نے مسکراتے ہوئے بتایا ۔
کیا مطلب یہاں کے لوگ کپڑے نہیں پہنتے ۔۔۔۔۔؟روح کے کہتے ہوئے گال سرخ ہو رہے تھے ۔
پہنتے ہیں میری جان لیکن زیادہ نہیں پہنتے کم کم پہنتے ہیں۔یارم کے ڈمپل گہرے ہوئے ۔اس کے علاوہ ایک اہم ملامات جو میں وہاں پہنچ کر بتاؤں گا تمہارے لیے سرپرائز سے کم نہیں ہوگی ۔یارم نے مسکرا کر بتایا ۔یارم نے اسے اور بھی کچھ بتانا چاہا لیکن روح تو ابھی تک کپڑوں والی بات پے اٹکی ہوئی تھی ۔