قسط 24
یارم یہ دیکھیں کیا ہوگیا وہ ابھی اپنے کپڑے نکالنےرہی تھی جب اسی طرح بیگ اٹھا کر باہر آگئی کیا ہوگیا۔۔۔۔؟
یارم بھی پریشانی سے اسے دیکھنے لگا۔
یارم یہ سب میرے کپڑے تو نہیں ہیں۔دیکھیں یہ پتا نہیں کس کے کپڑے ہیں یہ جینز یہ چھوٹی سی شرٹس۔اور میں نے تو کبھی ایسے کپڑے نہیں پہننے یہ میرے نہیں ہیں ۔وہ حیران اور پریشان ایک ایک کپڑا اٹھا کر اسے دکھا رہی تھی جو واقع ہی اس کے نہیں تھے یارم بھی پریشان ہو کر کھڑا ہو گیا۔
لگتا ہے تمہارا بیگ کسی کے ساتھ چینج ہوگیا رکو میں مینیجر سے پوچھ کے آتا ہوں۔وہ سارے کپڑے بیگ میں ڈالتے ہوئے بولا ۔
ایسے کیسے میرا بیگ چینج ہوگیا یہ مینیجر دیکھ نہیں سکتا تھا روح منہ بنا کر بولی ۔روح منہ بنائے اتنی کیوٹ لگ رہی تھی کہ یارم مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔
بےبی غصہ مت کرو ۔میں ابھی پوچھ کے آتا ہوں اسے تب تک تم یہ سارے کپڑے واپس پیک کر دو جس کے ہیں اسے واپس بھی دینے پڑیں گے نہ ۔وہ مسکراتا ہوا روم سے باہر نکل آیا ۔
°°°°°°°°°°°°
Virkilega því miður herra Taska konan þín hefur breyst og þeir sem hafa skipt um töskur með sér hafa kíkt á hótelið
(ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں سر آپ کی وائف کا بیگ جن لوگوں کے ساتھ بدلا ہے وہ یہاں سے چیک آؤٹ کر چکے ہیں)
ہوٹل کے منیجر نے اپنی مخصوص زبان میں جواب دیا
lagiSkiptir engu að það sé í lagi
(کوئی بات نہیں اٹس اوکے ۔)
یارم ائسلینڈک زبان میں جواب دیتا ہوں واپس کمرے میں آگیا۔
°°°°°°°°°
بےبی کچھ بھی پہن لوان میں سے کیونکہ تمہارے لئے ایک بہت بری خبر لایا ہوں میں یارم کمرے میں آتے ہی بیڈ پر لیٹ گیا ۔
جن لوگوں کے ساتھ تمہارا بیگ چینج ہوا ہے نہ وہ اس ہوٹل کو چھوڑ کر جا چکے ہیں ۔اور اس ملک میں تمہیں پاکستانی کپڑے نہیں ملیں گے ۔
دعا کرو کہ اس لڑکی کو وقت پر پتہ چل جائے ۔کہ اس کا بیگ چینج ہوا ہے اسی کنڈیشن میں تمہیں تمہارا بیگ واپس مل سکتا ہے ۔ورنہ تمہیں یہاں پہ انہی کپڑوں کے ساتھ گزارہ کرنا ہوگا اگر تم چاہو تو ہم شوپنگ پے بھی جا سکتے ہیں لیکن تمہیں یہاں پر ایسے ہی کپڑے ملیں گے ۔
یارم میں تو اسے کپڑے نہیں پہنتی، آپ کو تو پتا ہے نہ میں یہ عجیب کپڑے نہیں پہن سکتی ۔وہ پریشانی سے ایک ایک کپڑا اٹھا کر اسے دکھا رہی تھی ۔
دیکھو روح جلدی فیصلہ کرو میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ اب ہم باہر جانے والے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ کپڑوں کی ضد کی وجہ سے میرا سرپرائز خراب ہو ۔اسی لیے جلدی سے ان میں سے پہننے کے لائق کپڑے دیکھو اور پہن لو ۔
اور فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم کل ہی شاپنگ کریں گے اور تمہارے لیے کچھ پہننے کے لائق کپڑے خرید لیں گے ۔لیکن وقتی گزارا تو کرنا پڑے گا نا ۔پلیز اب جلدی کرو ۔
آپ نےمجھے حجاب بھی نہیں لانے دیا ۔اگر وہ میرے پاس ہوتا تو میں نیچے یہی کپڑے پہن لیتی ۔لیکن اب بنا عبایا کے آپ مجھے یہ بے فضول ناقابل قبول کپڑے پہننے کے لئے کہہ رہے ہیں ۔آپ نے ایسا جان بوجھ کر تو نہیں کیا روح نے انگلی اٹھا کر اس کی طرف شک کی نظروں سے دیکھا ۔
روح میں ان مردوں میں سے نہیں ہوں جو اپنی بیوی کو کسی اور کی توجہ کا مرکز بنائے۔اگر میں تمہیں ایسے کپڑے پہنانا چاہوں تو مجھے اس طرح کے بہانے کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔یہ میری مجبوری ہے کہ میں تمہیں یہ کپڑے پہننے دے رہا ہوں ۔ورنہ کب کا باہر رکھ کے آگ لگا چکا ہوتا ۔
اب جلدی کرو کچھ دیکھ کر پہن لو یارم خود ہی بیگ سے کوئی قابل کپڑے ڈھونڈنے لگا اور پھر جینز کے ساتھ ایک لانگ شرٹ نظر آہی گئی لیکن افسوس سلیوزلیس یہ لو یہ پہن لو ۔
ہائے یارم یہ کیسے پہنوں میں ۔ان کپڑوں کے ساتھ بازو کا کپڑا ہی نہیں ہے میں نہیں پہن سکتی ۔روح کپڑے بیڈ پر پھینک کر وہی منہ بنا کر بیٹھ گئی لیکن یارم کی گھوری پرنظریں پڑتے ہی خاموش ہوگئی۔
کیا چاہتی ہو تم میں خود اپنے ہاتھوں سے پہناوں۔۔!! یارم نے گھورکر کہا۔
نہیں میں خود پہن لوں گی وہ منہ بناتے ہوئے اٹھی اور واش روم میں گھس گئی ۔
ایسے منہ بنائے ہوئے وہ اسے اتنی پیاری لگ رہی تھی کی یارم کا اس پر غصہ کرنے کا بالکل دل نہیں کر رہا تھا لیکن ہائے یہ مجبوری ۔۔ ”
وہ چینج کرکے باہر آئی کپڑے بلکل اس کے ناپ کے تھے ۔لیکن بازو پہ بالکل بھی کپڑا نہ تھا ۔ وہ اپنے ایک ہاتھ سے دوسرے بازو کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی اب بھی وہ یارم سے بہت زیادہ شرماتی تھی۔ اور پھر کبھی اس کے سامنے ایسے کپڑے نہیں پہنے تھے سو بہت شرم آ رہی تھی۔
یارم اس کی شرم و حیا دیکھ کر بہت محظوظ ہو رہا تھا۔اسے مزید شرمندگی سے بچانے کے لیے یارم نے اپنا جیکٹ اتارا اور اسے پہنانے لگا ۔اس نے بھی فوراًجیکٹ پہن لی۔
یارم بازو کا تو ہوگیا لیکن دوپٹہ نہیں ہے۔رعح نے کہا۔
دوپٹہ تو مسئلہ ہے ۔لیکن تمہارے پاس شال ہے نہ ۔یارم نے بتایا تو خوش ہوگئی ۔
شکر ہے اس کے پاس شال تو تھی ورنہ ایسے بےڈھنگے کپڑے وہ پہن کر باہر کیسے جاتی ویسے یہ کپڑے صرف اسی کو بے ڈھنگے لگ رہے تھے ۔یارم نے اس کے لئے ایسے کپڑے ڈھونڈے تھے جینے وہ آسانی سے پہن سکے ۔ان کپڑوں میں کہیں سے بھی وہ بے لباس نہیں ہو رہی تھی اور بہت خوبصورت بھی لگ رہی تھی ۔
°°°°°°°°°°°°
وہ باہر نکلنے تو باہر کافی اندھیرا چھا چکا تھا۔ یارم یہ کیااتنا اندھیرا کیوں ہے یہاں ۔۔۔۔؟
تمہیں بتایا تو تھا کہ یہاں پردودو ہفتے سورج طلوع نہیں ہوتا ۔تمہیں کہا بھی تھا اٹھ جاؤ جلدی چلتے ہیں لیکن تم نے تب میری بات نہیں مانی اب اندھیرے میں ہی چلنا ہوگا۔ اور ویسے بھی اتنا زیادہ ٹائم نہیں ہوا ابھی تو صرف تین ہی بجے ہیں ۔
ہاں صرف تین ہی بجے ہیں لیکن ایسا لگ رہا ہے شام کے سات بج رہے ہیں ۔روح اس کے ساتھ چلتے ہوئے بول رہی تھی جبکہ اپنے آپ کو مکمل طور پر شال ٹوپی دستانوں اور جیکٹ سے ڈھکا ہوا تھا ۔یہاں آتے ہی یارم کو ایک بات بتا چلی تھی کہ اسے سردی بہت لگتی ہے یا وہ سردی کو بہت زیادہ محسوس کرتی ہے یہ بات الگ تھی کہ اگر برف گر رہی ہو تو سردی اتنی زیادہ محسوس نہیں ہوتی ۔
یہ یہاں کے لوگوں کا کہنا تھا اور یارم بھی اس بات سے اتفاق کرتا تھا۔
یارم ہم جا کہاں رہے ہیں وہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے بولی۔
ہوٹل کی پچھلی جانب یارم اس کا ہاتھ تھامے اپنے ساتھ چلائے جا رہا تھا ۔پھر ایک جگہ جہاں پر ہوٹل کے ہی کچھ لوگ کھڑے کچھ کر رہے تھے ان کے قریب چلا گیا۔
Allt gert,!!
(سب کام ہو گیا )۔۔۔؟یارم نے پوچھا
Já, báðir eruð þið með áætlun
(جی سب ہو چکا ہےآپ دونوں انجوائے کریں ۔)
آدمی کہہ کر چلے گئے ۔
یارم یہ لوگ آپ سے کیا کہہ رہے تھے یہ کون سی زبان بولتے ہیں مجھے تو یہ عربی نہیں لگتی ۔ان لوگوں کے جانے کے بعد روح یارم سے پوچھنے لگی.
ہر ملک کی اپنی زبان ہوتی ہے روح ہر کوئی اپنی زبان بولتا ہے جیسے ہم اردو میں بات کرتے ہیں دوبئی والے عربی میں بات کرتے ہیں یہاں کے لوگوں کی اپنی ایک زبان ہے ۔
اب تم ان سب کو چھوڑو یہاں اندر آؤ ۔اگلے دو منٹ پچاس سیکنڈ میں تمہاری خواہش پوری ہونے والی ہے ۔
وہ اسے کھینچ کر اس جگہ پر لانے لگا جہاں کچھ دیر پہلے وہ آدمی کچھ کر رہے تھے یہاں ایک گول سی شکل میں ایک گریل نما کوئی چیز بنائی گئی تھی جس کے آگے پیچھے ہر طرف لال گلاب لگے تھے۔یارم نے گریل کا دروازہ کھولا اور اسے اندر لایا۔
یارم یہ کتنا پیارا لگ رہا ہے ۔ روح دل سے تعریف کرتی ہوئی مسکرائی۔
ہاں لیکن تم سے پیارا نہیں۔یارم نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا ۔آج تک میں کہتا آیا ہوں آج تم کہو گی تم نے خدا سے مجھے تو مانگ لیا اب مجھے یہ بتاؤ کہ تم بھی میری ہو کہ نہیں ۔
روح میں تمہاری زبان سے سننا چاہتا ہوں کیا تم مجھ سے پیار کرتی ہو ۔۔۔۔؟
وہ اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھامے پوچھنے لگا۔روح نے شرماتے ہوئے ہاں میں گردن ہلائی۔
ایسے نہیں زبان سے بولو ۔ہاں ۔۔۔” رؤح شرماتے ہوئے اس کے سینے سے لگی ۔
اوہو پورا بولو بےبی یارم نے اسے خودسے قریب کرتے ہوئے مزید باہوں میں بھرا ۔
مجھے ان گوروں کی زبان میں بولنا ہے ۔اپنا بچنامشکل دیکھ کر روح نے بہانہ بنایا ۔
اچھا جی ۔۔یہ بھی اچھی بات ہے ۔تو پھر کہو مجھ سے کہ
ég elska þig…..”
یارم نے مسکراتے ہوئے اس کا چہرہ تھاما ۔
یہ کیا ہے روح نے ٹھیڑا میڑا منہ بنا کر اس ائسلینڈک زبان کا اظہار محبت سنا ۔
اس کا مطلب ہے کہ میں تم سے پیار کرتا ہوں ۔اب تم بھی بولو جلدی۔۔۔۔۔۔”
میں کیا بولوں ۔۔۔روح نے شرارتی انداز میں کہا تو یارم اسے گھورکے رہ گیا ۔
اچھا اچھا کہتی ہوں یہ بڑی بڑی آنکھوں سے ڈرانا بند کریں مجھے ۔روح نے احسان کرنے والے انداز میں کہا ۔یارم کے ڈمپلز نمایاں ہوئے ۔
ہاں کیا تھا وہ میں بھول گئی ۔وہ آئگو میگو۔۔۔۔۔۔”
روح وہ آئگو میگو نہیں.
ég elska þig”
ہے, یارم نے صدمے سے ائسلینڈک کا بیرا غرق ہوتے ہوئے سنا
ہاں ہاں وہی۔۔۔۔۔
ég elska þig۔۔۔۔۔”
روح نے دانت دکھاتے ہوئے کہا ۔
اور اس کے اظہار کرتے ہی آسمان سے برف گرنے لگی ۔یارم نے پورا انتظام کیا تھا کہ وہ اس سے اظہار محبت کرے گی تب ہی برف گرنا شروع ہو گی ۔اسی لئے تو وہ اتنی جلدی مچا رہا تھا اس سے پہلےاس نے ہر ایک سیکنڈ کے ٹائم کا حساب کیا تھا ۔
یہاں کے لوگوں کو پہلے ہی اندازہ ہو جاتا تھا کہ برف کب گرنا شروع ہوگی ۔لیکن یارم کو اس بات کا اندازہ ہرگز نہ تھا کہ اس کا اظہار محبت اس طرح سے ہوگا ۔
وہ اسے موسٹ رومینٹک بنانا چاہتا تھا ۔ لیکن روح کا آئیسلینڈک زبان سیکھنے کا شوق اس کے اظہار محبت کا بیڑہ غرق کر گیا تھا۔