قسط 26
یارم اٹھیں، دیکھیں باہر پولیس آئی ہے مجھے لگتا ہے یہاں کچھ گڑبڑ ہوئی ہے ایمولیس بھی آئی ہے۔کچھ لوگوں کو لے کر گئے ہیں یہاں سے وہ اس کے قریب آ کر اس کو جگانے لگی ۔لیکن شاید یارم کے اٹھنے کا کوئی ارادہ نہ تھا وہ کروٹ لے کر دوسری طرف مڑ گیا ۔
یارم اٹھیں نا دیکھیں نہ ۔روح نے ہمت نہ ہاری ایک بار پھر سے اسے جگانے لگی ۔جب اچانک یارم نے اسے پکڑ کر ایک جھٹکے سے بیڈ پرگرایااوراس کے اوپر جھکا ۔
تمہیں کیا ہے وہ جو بھی کریں دوسروں کی فکر کرتی ہو کبھی میرے بارے میں سوچا ہے ۔اس کے ارادے جان کر روح نے فورا بیڈ سے اٹھنے کی کوشش کی ۔مگر یارم کی گرفت اتنی بھی ہلکی نہ تھی ۔وہ اس کا دوپٹا ایک طرف پھینکتا ایک بار پھر سے اس کے چہرے پر جھکا تھا ۔
یارم میری بات تو سنیں باہر وہاں۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کے روح کچھ اور کہتی یارم نے اس کے لبوں پر اپنی انگلی رکھ دی ۔
میری بات سنو، “آئی لو یو” بھول جاؤ سب کچھ صرف میرے بارے میں سوچو ۔ صرف مجھے سنو ۔ اس کے بالوں میں منہ چھپاتا وہ دھیرے دھیرے سرگوشیاں کر رہا تھا ۔کچھ دیر میں روح بھول ہی گئی کہ وہ اسے کیا کہنے والی تھی ۔اگر یاد رہا تو بس اتنا کہ وہ اس وقت یارم کی باہوں میں ہے ۔دھیرے دھیرے اس کے کان میں سرگوشیاں کرتے یارم اسے کسی اور دنیا میں لے گیا ۔جہاں صرف روح اور یارم تھے جہاں کسی تیسرے وجود کی کوئی جگہ نہ تھی ۔اپنے چہرے پر اپنے ہونٹوں پر اپنی گردن پر یارم کے لبوں کا لمس محسوس کرتی وہ اس وقت صرف یارم کو ہی سوچ رہی تھی ۔جبکہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا یارم مکمل طور پر اپنی روح میں کھو چکا تھا ۔
°°°°°°°°°°°
روح کی آنکھ کھلی تو ساڑھے دس بج رہے تھے یارم کمرے میں نہیں تھا ۔وہ اٹھ کر فریش ہوئی اور یارم کا انتظار کرنے لگی یارم کے پاس اس کا فون نہیں تھا ۔ وہ اپنا فون لایا ہی نہیں تھا جبکہ وہ اپنا فون ساتھ لائی تھی ۔
لیکن اس فون پر سوائے یارم کے اور کوئی فون نہیں کر سکتا تھا ۔اور یہ بات روح کو پتا ہی نہیں تھی۔کافی دیر انتظار کرنے کے بعد بھی یارم واپس نہیں آیا ۔
نہ جانے کہاں چلے گئے بتا کر تو جاتے ۔وہ کافی دیر کمرے میں ٹہلتی رہی ۔ویٹر اس کے لئے ناشتہ لے کر آیا ۔لیکن وہ اس سے بھی یارم کے بارے میں کچھ نہیں پوچھ سکتی تھی کیونکہ اس بچارے کو اردو آتی نہیں تھی ۔
اور روح اس کی زبان سمجھ جائے یہ تقریبا ناممکن تھا ۔خود تو کمرے سے باہر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔اسے یارم کے وہ تھپڑ آج بھی یاد تھے ۔جب کچھ بھی نہ بچا تووہ ٹی وی آن کرکے بیٹھ گئی
°°°°°°°°
یارم تقریبا بارہ بجے واپس آیا ۔اس کے کمرے میں آتے ہی روح منہ پھیر کر بیٹھ گئی اس کے اس طرح سے بیٹھنے پر یارم بےساختہ مسکراتے ہوئے اس کے قریب آیا ۔
تو میرا بےبی ناراض ہے مجھ سے ۔میرا بچہ بات بھی نہیں کرے گا مجھ سے، وہ اس کے قریب آیا اور اسے اپنی باہوں میں لیا ۔
مجھے لگا ابھی تمہارے جاگنے کا کوئی چانس نہیں ہے اس لیے گیا تھا۔
ہاں تو بتا کے بھی تو جاسکتے تھے میں کتنی دیر سے انتظار کررہی ہوں ۔ جائیں مجھے نہیں بات کرنی ہے آپ سے،ایسے کیسے مجھے اکیلے چھوڑ کر چلے گئے۔وہ اب بھی غصے سے منہ پھیرے ہوئے تھی۔
بےبی بولانا آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی وہ دونوں ہاتھوں سےاپنے کان پکڑ کر بولا ۔
اٹس اوکے لیکن آپ گئے کہاں تھے۔ روح نے اس کے ہاتھ کانوں سے ہٹاتے ہوئے پوچھا ۔
ایسے نہیں بتاؤں گا پہلے اپنی آنکھیں بند کرو۔
آپ میرے لیے گفٹ لائیں ہیں ۔روح آنکھیں چمکا کے بولی۔
ہاں لایا ہوں بابا گفٹ لایا ہوں تمہارے لیے اب آنکھیں بند کرو یارم نے اسے پیار سے پچکارتے ہوئے کہا۔روح نے فوراً آنکھیں بند کر لیں ۔
جب یارم اپنی جیب سے کچھ نکالنے لگا تب روح نے ذرا سی آنکھ کھولی ۔
ایوہہم ۔ نو چیٹنگ یارم نے سختی سے کہا ۔اوکے سوری سوری اب نہیں کرتی روح نے زورسے اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا ۔
جب یارم نے اس کے گلے سے دوپٹہ نکالتے ہوئے کچھ پہنایا ۔
دنیا کی سب سے خاص لڑکی کے لئے ایک خاص تحفہ۔۔۔”
آنکھیں کھولوں ۔ روح نے ایکسائٹڈ ہو کر پوچھا۔
ہاں اب کھولو۔یارم کا آرڈر ملتے ہی روح نے فوراًآنکھیں کھولی اور اپنے گلے میں پہنا لاکٹ دیکھنے لگی۔جس میں ایک نیلے رنگ کا ہیرا تھا ۔ اس ہیرے کو اس چین میں کس طرح سے جوڑا گیا تھا سمجھنا بہت مشکل تھا۔
جبکہ ہیرے کے اندر ایک تحریر لکھی تھی ۔یارم یہ کیا لکھا ہے اس کے اندر ۔۔۔؟
سمجھنا مشکل تھا لیکن اس کے اندر روحِ یارم پڑھنا اتنا مشکل نہ تھا
Yaram elskar rooh۔۔۔”
یعنی کہ یارم اپنی روح سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔یارم نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ہیرے پر لکھی تحریر اسے سنائی۔روح نے شرما کے نظریں جھکا لیں ۔
ویسے تم آئی لو یو ٹو بول سکتی ہو ۔یارم نے شرارت سے کہا ۔
اف لڑکی کتنا شرماتی ہو ۔ چلو ادھرآو اور بدلے میں مجھے اس کے کوئی گفٹ دو ۔یارم نے کھینچ کر اسے اپنے قریب کرتے ہوئے کہا۔
میں کیا دوں۔۔۔؟وہ اتنی ہلکی آواز میں منمنائی کے یارم بمشکل سن پایا۔
وہ جو کل دینے والی تھی ۔یارم نے اس کےہونٹوں کو انگلی سے سہلاتے ہوئے کہا
میں تو نہیں دوں گی ۔روح شرارت سے کہتی اسے دھکا دے کر دور ہوئی ۔جب کہ یارم نے ایک ہی جھٹکے میں اسے پکڑ کر واپس اپنے قریب تر کر لیا ۔
لیکن تم مجھے جانتی ہو میں تو لے ہی لوں گا ۔اس نے اس کے ہونٹوں پر پورے استقحاق سے مہر ثبت کرتے ہوئے کہا۔ تم نے مجھے پاگل کر دیا ہے ۔
سوچتا ہوں تم مجھ سے دور چلی گئی تو میرا کیا ہوگا۔ آئی لو یو ۔ اس کے چہرے پر جابجا اپنی محبت کی نشانی چھوڑتا ۔وہ ایک بار پھر سے اس کے ہوش ٹھکانے لگا رہا تھا ۔
جب اچانک روح کو صبح والا قصہ یاد آگیا ۔
یارم صبح ہوٹل میں کیا ہوا تھا آپ تو باہر گئے تھے نہ کچھ تو پتا چلا ہوگا پولیس کیوں آئی تھی ۔ روح پوچھنے لگی ۔
ہاں وہ دو لڑکے تھے کسی نے ان کی زبان کاٹ دی۔ اور ان کے جسم پر چھوٹے چھوٹے زخموں کے نشان تھے ۔جیسے کسی نے بلیڈ سے ان کے جسم کے چھوٹے چھوٹے حصے کاٹے ہوں ۔ویسے خبر ملی ہے کہ وہ ریپ کر کے اس ہوٹل میں چھپے ہوئے تھے ۔پولیس ویسے بھی ان کی تلاش میں تھی ۔اچھا ہی ہوا کسی نے پولیس کی ہیلپ کردی۔ یارم نے مسکراتے ہوئے بتایا ۔
یارم لیکن وہ پولیس کو گرفتار بھی تو کروا سکتا تھا اس طرح سے ان پر ظلم کرنے کی کیاضرورت تھی یہ تو بے حسی کی انتہا ہے ۔پجارے کتنی تکلیف میں ہوں گے اور کسی نے ان کی زبان کاٹ دی ۔ جسم پر کٹ لگا دیے۔ جانے کتنا بے حس آدمی ہے ۔جسے ان پر ترس نہیں آیا ۔ انسان تو ہو ہی نہیں سکتا ۔کتنا بے رحم تھا وہ اس نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
بس بہت ہو گیا کیا بیکار باتیں لے کر بیٹھ گئی ہو ۔کب سے بکواس کیے جا رہی ہو۔کوئی اور بات نہیں ہے کہ تمہارے پاس کرنے کی وہ اتنے زور سے چلایا کہ روح گھبرا کر اس سے دور ہوئی۔ میں تو بس ۔۔۔۔وہ منمنائی ۔
جب یارم نے کھینچ کر قریب کیا ۔دور مت جایا کرو مجھ سے۔کبھی نہیں ۔وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بولا ۔اس کے ہاتھ کی گرفت اتنی سخت تھی ۔کہ روح کو اپنے بازو میں اس کی انگلیاں دستی ہوئی محسوس ہوئی۔
یارم مجھے درد ہو رہا ہے ۔۔۔اس نے یارم کے ہاتھوں پہ اپنے ہاتھ رکھنے کی کوشش کی ۔
مجھ سے دور نہیں جاؤ گی نا ۔۔۔؟ایک عجیب جنون سے وہ پوچھ رہا تھا ۔
کہاں جاؤں گی آپ کے بغیر کیا ہوگیا ہے آپ کو چھوڑیں مجھے۔ وہ اپنے آپ چھڑوانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی ۔
اگر مجھ سے دور جانے کی کوشش کی نہ تو میں جان لے لوں گا ۔وہ اس کے بازو چھوڑ کر اسے اپنے سینے میں بھیجتے ہوئے بولا ۔جبکہ روح حیران اور پریشان اس کا یہ روپ دیکھ رہی تھی