قسط 28
یارم آپ نے گاڑی کب لی ۔۔۔؟روح اس کے ساتھ آکر گاڑی میں بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگی ۔
یہی تو مسئلہ ہے جانےمن آپ ہمارے ساتھ باہر نکیں تو آپ کو پتہ چلے کہ ہم کیا کر رہے ہیں ۔وہ محبت سے اس کا ہاتھ چومتے ہوئے بولا ۔
ہاں تو آپ اگر مجھے پہلے بتا دیتے کہ گاڑی ہے تو نامجھے سردی کا ڈر ہوتا اور نہ ہی میں کمرے میں رہتی۔وہ منہ بنا کر بولی ۔
ہاں تو میرا بےبی تم نے پوچھا ہی کب! ویسے بھی تم نے تو وہیں سے مجھے کہا تھا کہ خبردار جو بستر میں گھسے ہم ساری جگہیں گھومنے کے لیے جائیں گے اور یہاں آکر الٹا ہی ہوگیا تم بستر میں گھسی ہو اور میں تمہاری منتیں کر رہا ہوں ۔ہاں تو مجھے تھوڑی نہ پتا تھا کہ یہاں اتنی سردی ہوگی ۔وہ بھی ہارنے کے موڈ میں بالکل نہ تھی ۔
ویسے یارم آپ خضر بھائی سے کیا بات کر رہے تھے فون پے۔۔۔؟روح کو اچانک ہی اس کی فون کال یاد آگئی ۔
تمہارے بور ہونے کے بارے میں ۔وہ شرارتی انداز میں پوچھنے لگا ۔
نہیں آپ کے دادا کے بارے میں ۔آپ فون پر اپنے دادا کے بارے میں بات کر رہے تھے نا میں نے سنا تھا آپ نے دادا کہا تھا۔روح جتنے سیریز انداز میں بولی تھی۔ یارم کا قہقہ اتنا ہی بلند تھا یہ پہلی بار ہوا تھا جب یارم نے اس کے سامنے قہقہ لگایا ۔
او میری جان تم بہت معصوم ہو۔اس لئے تو پیار کرتا ہوں تم سے لو یو۔ وہ گاڑی کی پرواہ کیے بغیر روح پر جھکا تھا ۔
یارم گاڑی چلائیں ایکسیڈنٹ ہو جائے گا وہ اپنا حیا سے دمکتا چہرہ چھپاتے ہوئے بولی ۔
کچھ نہیں تمہارا یارم تمہیں کچھ نہیں ہونے دے گا ۔تمہیں پتا ہے یہ میری زندگی کے سب سے حسین دن ہیں ۔ہم ہر سال یہاں آئیں گے ۔اور ایسے ہی رہیں گے ۔
ہاں ہم اپنے بچوں کو بھی لے کے آئیں گے آگلے سال روح بنا سوچے سمجھے بولی تھی ۔اور پھر جب اپنی بات سمجھ میں آئی تو یارم کو دیکھے بغیر باہر دیکھنے لگی۔
اچھا تو ایک سال میں تمہارا کتنے بچے پیدا کرنے کا ارادہ ہے وہ بالکل سیریز انداز میں پوچھ رہا تھا ۔
یارم دیکھ کر گاڑی چلائیں اور میرے ساتھ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔
ہاں بالکل اگر تمہارے ساتھ فری ہو جاؤں تو تم بالکل ہی فری ہو جاتی ہو ۔ہیں نا وہ شرارت سے آنکھ دباتے ہوئے بولا ۔
یارم آپ بلکل اچھے نہیں ہیں مجھے نہیں کرنی آپ سے بات وہ اپنا لال اناڑی چہرا لئے منہ پھیر گئی۔
°°°°°°°°°
وہ لوگ اس وقت”Reykjavík”کی خوبصورت سڑک پر تھےجہاں پر بہت بڑا بازار تھا ۔
یارم ہم یہاں کیوں آئے ہیں ۔سارا بازار ہی بند تھا تقریبا کوئی کوئی دکان کھلی ہوئی تھی”Reykjavík”آئس لینڈ کے ان شہروں میں سے تھا جہاں پر پلازے اور بلڈنگ نہیں بنائی جاتی اور اگر بنائی بھی جائیں تو ان کی لمبائی اتنی زیادہ نہیں ہوتی جتنے کے باقی شہروں میں یارم اسے اپنے ساتھ ایک بوتیک کے اندر لایا تھا ۔اس نے وہاں کاؤنٹر پر کھڑے آدمی سے کچھ پوچھا ۔اور اس آدمی نے مسکراتے ہوئے اسے جواب دیا اور کہیں کا راستہ بتایا ۔
یارم ایک بار پھر سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے جانے لگاوہ بھی بنا اس سے کچھ پوچھے اس کے ساتھ چلتی گئی۔
سنو اس روم کے اندر جاؤ یہ لڑکی تمہیں ڈریس دکھائے گی تمہیں وہ ڈریس پہن کر باہر آنا ہے ۔اس نے اس کے پیچھے کھڑی لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
اس لڑکی کو اپنے انتظار میں کھڑا دیکھ کر روح بنا کچھ پوچھے اس لڑکی کے ساتھ اندر جانے لگی
°°°°°°°°
لڑکی نے اسے ایک خوبصورت سرخ رنگ کا فراک نماڈریس دکھایا ۔دیکھنے والا باآسانی اس کی قیمت کا اندازہ لگا سکتا تھا ۔وہ لڑکی کی کوئی بات نہیں سمجھتی تھی شاید وہ لڑکی بھی یہ بات جانتی ہے اس لیے صرف اسے دیکھ کر مسکرائے جا رہی تھی۔
ہائے اللہ اس کے بھی بازو نہیں ہیں۔ مجھے یارم سے بات کرنی ہے روح نے اس لڑکی سے اردو میں کہا ۔
جبکہ وہ لڑکی بنا اس کی بات سمجھے آگے سے مسکرائے جا رہی تھی ۔
دیکھیے مسکرانا بند کریں مجھے میرے شوہر سے بات کرنی ہے پلیز انہیں بھلا دیں اس بار روح نے تفصیل سے کہا لیکن وہ لڑکی پھر بھی پاس کھڑی مسکراتی رہی ۔جیسے اسے صرف مسکرانے کے ہی پیسے ملتے تھے۔وہ لڑکی کو ایسے ہی چھوڑ کر باہر نکل آئی ۔لیکن اب وہاں یارم نہیں تھا۔
یہ کہاں چلے گئے ۔۔۔؟وہ خود سے سوال کرتی واپس اندر آ گئی ۔جہاں وہ لڑکی ابھی بھی مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھی ۔ایک پل کے لئے روح کا دل چاہا کہ اس کی مسکراہٹ نوچ کر کہیں پھینک دے۔ کیسی عجیب لڑکی ہے
اب کیا کروں اگر یارم واپس آگئے تو مجھ پر غصہ ہوں گے ۔
پہن لوں ہاں تو وہ شرٹ بھی تو پہنی تھی ۔اس کے اوپر بھی توشال کی تھی اس کے اوپر بھی کر لونگی ۔اور ویسے بھی یارم نے بتایا تھا کہ یہاں پر مجھے اچھے کپڑے نہیں ملیں گے ۔
ویسے بھی یہ فراک کتنی خوبصورت ہے صرف بازو ہی نہیں ہیں نا ۔اور یارم نےدیکھ کر ہی خریدا ہوگا ۔اس نے سوچتے ہوئے ڈریس کو اپنے ہاتھوں میں لیا ۔اور پہننے چلی گئی ۔ڈریس پہن کر واپس نکلی تو ہاتھ میں یارم کے کپڑے اور اپنی شال تھی ۔
لڑکی نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے وہ کپڑے لینے چاہے جب روح نے فورا ہی شال کو اپنے ہاتھ میں سختی سے پکڑ لیا ۔اور اپنے بے لباس بازوؤں کو ڈکنے لگی ۔روح نے اپنے آپ کو شال سے اس طرح سے کور کیا کہ وہ کہیں سے بھی بے لباس نہ ہو ۔اور پھر اسے وہ لڑکی باہر آنے کا راستہ دکھانے لگی۔
°°°°°°°°°°°
وہ کمرے سے باہر نکلی تو یارم تیار فور پیس سوٹ میں کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا ۔کالے رنگ کے سوٹ جس میں اس نے وائٹ کلر کی شرٹ پہنی تھی وہ بے حد ہینڈسم رہا تھا ۔
مجھے پتہ تھا تم کور کر لو گی ۔اس نے روح کی شال ٹھیک کرتے ہوئے کہا ۔
کیسا لگا ڈریس ۔۔؟ اس نے اس کا بھرپور جائزہ لیا ہے ریڈ کلر کی پرنسز ڈریس میں وہ کسی باربی ڈول سے کم نہ لگ رہی تھی ۔
اچھا ہے لیکن سلیوزلیس روح نے منہ بنا کر جواب دیا تو یارم کے ڈمپل نمایاں ہوگئے۔
کوئی بات نہیں بے بی وہاں میرے علاوہ اور کوئی نہیں ہوگا تمہیں دیکھنے والا ۔وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامتے ہوئے بولا ۔
یارم ہم کہاں جا رہے ہیں روح ایکسائٹڈ سی اس کے ساتھ چلتے ہوئے پوچھنے لگی۔یارم میں ان ہائی ہیلز میں ٹھیک سے چل نہیں پا رہی ۔اس نے اپنے جوتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔جو کہ اس لڑکی نے اس کی ڈریس کے ساتھ میچنگ اس کے پیروں کے قریب رکھے تھے ۔وہ اسے یہ نہیں پتا پائی کہ اس نے کبھی ہائی ہیلز نہیں پہنی ۔
میں اٹھا کے لے چلوں۔ وہ شرارت سے رکا تھا۔
نہیں میں چل سکتی ہوں ۔اس سے پہلے کہ یارم سچ میں اسے اپنی باہوں میں اٹھا لیتا وہ تیزی سے آگے کی طرف بڑھی اور بری طرح سے لڑکھرائی ۔اس سے پہلے کہ وہ گرتی یارم اسے اپنی باہوں میں بھر چکا تھا ۔
شرم کے مارے روح اپنی نگاہیں تک نہ اٹھا پا رہی تھی۔یارم لوگ دیکھ رہے ہیں پلیز مجھے نیچے اتاریں۔
نہیں روح یہاں کے لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ان سب باتوں سے اور دوسری بات تم میری بیوی ہو میں جو چاہے کروں۔ وہ کہتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھا اور آکر واپس اسے گاڑی میں بٹھایا ۔روح نے شکر کا کلمہ پڑھتے ہوئے جلدی سے اپنی سائڈ کا دروازہ بند کیا ۔
یارم ہم جا کہاں رہے ہیں آپ بتاتے کیوں نہیں مجھےوہ پھر سے پوچھنے لگی ۔
وہاں جہاں میرے اور تمہارے علاوہ کوئی تیسرا نہ ہو ۔اب ایک دم چپ ہو کر بیٹھ جاؤ تمہیں پتا ہے مجھے ڈرائیونگ کے دوران بات کرنا بالکل پسند نہیں ۔وہ سختی سے کہتا ہوا اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔
جبکہ روح سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا کر آنکھیں موندھنے لگی۔
خبردار روح سونامت۔تمہاری نیندوں کاکچھ کرنا پڑے گا ۔وہ اسے وارن کرتے ہوئے بولا ۔
°°°°°°°°°
اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد یارم نے اندھیرے میں گاڑی روک دی۔
چلو آو روح ،وہ اسے گاڑی سے نیچے اترنے کے لئے کہہ رہا تھا لیکن اس اندھیری سڑک پر وہ دونوں کہاں جاتے یہاں تو صرف ایک جنگل تھا وہ بھی برف سے ڈھکا ہوا ۔یاجنگل سے نکلتی شاید ایک سڑک۔
یارم ہم یہاں کیوں لائے ہیں اندھیرے میں کچھ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ پوچھنے لگی ۔کیونکہ آج میں تم سے کچھ سوال پوچھنا چاہتا ہوں اور اگر تم نے ان کے بالکل ٹھیک جواب دیے تو میں تمہیں اپنے ساتھ واپس لے چلوں گا اور نہیں تو تمہیں یہی جنگل میں چھوڑ دوں گا ۔وہ بالکل سیزیر موڈ میں بول رہا تھا ۔
اگر ہمت ہے تو چھوڑ کر دکھائیں ۔ مجھے پتہ ہے آپ میرے بغیر نہیں رہ سکتے ۔میں آپ سے دور چلی گئی تو یہاں کی سڑکوں پر پاگلوں کی طرح گھومے گے آپ ۔”کیا دعویٰ تھا” وہ کچھ ہی دنوں میں سمجھ چکی تھی کہ یارم اسے چھوڑ نہیں سکتا ۔
روح۔۔۔ اس نے جذبات کی شدت سے اس کا نام پکارا تھا روح سوالیہ انداز سے اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی
آئی لو یو ۔آئی لو یو سو مچ ۔بالکل ٹھیک کہتی ہو تم اگر تم مجھ سے دور ہوئی نہ تو میں واقع ہی ان سڑکوں پر پاگلوں کی طرح گھوموں گا ۔
فی الحال تو تم نے میرا پاگل پن دیکھا ہی نہیں میں سچ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا ۔مجھ سے کبھی دور تو نہیں جاؤ گی نہ ۔۔۔؟وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ سوال وہ بار بار اس سے کیوں پوچھ رہا ہے جبکہ وہ یہ بات اچھے سے جانتا تھا کہ اگر وہ سے دور جانے کی کوشش کرے تو وہ اسے دوسری دنیا سے بھی ڈھونڈ نکالے گا۔
یارم میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی ۔اوراگر جاونگی بھی تو کہاں جاؤں گی آپ کے علاوہ ہے ہی کون میرا ۔وہ گاڑی سے نکل کر اس کے ساتھ چلتے ہوئے کہنے لگی ۔اچھا بتاؤ کتنا پیار کرتی ہو مجھ سے ۔کرتی بھی ہو کہ نہیں وہ اس کا ہاتھ تھامے ساتھ چلتے ہوئے کہنے لگا ۔
یارم آپ میری ہر بات میں شامل ہیں ۔آپ میری ہر سانس میں شامل ہیں ۔ہر نماز کے بعد کی دعا ہیں آپ ۔میں خود بھی نہیں جانتی کہ آپ میرے لئے کیا ہیں۔یارم آپ میرے لئے میرا سب کچھ ہیں ۔اب آپ اسے میری محبت کہہ لیں یا کچھ اور لیکن آپ سے زیادہ عزیز مجھے اس دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔
جب آپ صبح کام پر جاتے ہیں تو میں سارا دن آپ کا انتظار کرتی ہوں۔ اور پھر جب آپ واپس آکر وہ شرمائی تھی ۔یارم کے ڈمپل نمایاں ہوئے ۔
وہ اپنے شوہر کے سامنے اپنے ہی شوہر کے سارے دن کی بے تابیاں بیان نہیں کر پاتی تھی ۔
جانتی ہو رؤح میری ماں کہا کرتی تھیں ۔اگر کسی شخص کی محبت آپ کی ہر نماز کی دعا بن جائے تو سمجھ لو وہ محبت عشق بن کر آپ کی روح میں اتر چکی ہے ۔میں تمہاری روح میں اترنا چاہتا ہوں روح۔ اندھیرے میں آہستہ آہستہ چلتے ہوئےوہ کہہ رہا تھا ۔
جبکہ روح کے وجود کو اس نے اپنے آپ میں چھپایا ہوا تھا ۔
آپ کتنی محبت کرتے ہیں مجھ سے بتائیں مجھے روح نے پوچھا ۔
محبت ہاہاہا۔ وہ قہقہ لگا کر ہنسا تھا “تم میرا عین ہو تم میرا شین ہو تم میرا کاف ہو ،روح یارم کے دل سے روح میں اترا ہوا عشق ہے۔ روح کی آنکھوں سے بے تاب آنسو چھلکے۔
روح تم میری زندگی میں آئی پہلی خوشی ہو میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں اتنا خوش قسمت انسان ہوں کہ مجھے تم جیسی لڑکی ملے گی ۔وہ محبت سے اسے اپنے ساتھ لگائے اس کے آنسو صاف کر رہا تھا جبکہ آہستہ آہستہ یہ سفر ابھی جاری تھا یارم آہستہ آہستہ کہتا اسے اپنے ساتھ لیے کہیں جا رہا تھا ۔ کچھ فاصلے پر اسے تھوڑی سی روشنی نظرآئی ۔
ان کی گاڑی کہیں پیچھے چھوٹ چکی تھی ۔
دیکھا تو سامنے ایک چھوٹا سا گھر تھا ۔جس کے اندر کی لائٹس جل رہی تھی ۔
یارم یہ۔۔۔۔۔” روح نے سامنےچھوٹے سے گھر کی طرف اشارہ کیا ۔
ہاں میری جان اب تم نے اگلے سال ہمارے بچوں کے ساتھ یہ آنے کا پلان بنایا ہے تو میں نے سوچا ان کے لیے گھر بھی تو ہونا چاہیے ۔
بہت چھوٹا گھر ہے وہ اصل میں یہاں پر بڑے گھر نہیں ملتے ۔یہاں سب لوگ ایسے ہی چھوٹے چھوٹے مکانوں میں رہتے ہیں ۔میں نے آبادی سے الگ تھلگ ایک چھوٹا سا گھر لیا ہے ۔میں نے بہت سوچا تمہیں کیا کیا گفٹ دوں ۔پھر میرے ذہن میں یہی ایک چیزآئی ۔
کیسا لگا ۔۔؟ یارم نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔
بہت پیارا ہے ۔۔۔یارم نے دیکھا کہ روح رونے کی مکمل تیاری پکڑ چکی ہے۔
بالکل میرے جیسا ۔۔۔۔؟ ۔یارم نے شرارت سے کہا ۔آپ کب سے پیارے ہو گئے ۔پیاری صرف لڑکیاں ہوتی ہیں روح نے اس کی غلط فہمی دور کرنی چاہی ۔
ہاں یار لڑکے تو ہاٹ ہوتے ہیں میرے جیسے یا لڑکیاں ہاٹ بھی ہوتی ہیں۔ وہ شرارت سے آنکھ دبا کر بولا ۔
یارم آپ بالکل بھی اچھے نہیں ہیں چھوڑیں مجھے میرے گھر کے اندر جانا ہے۔وہ اپنا آپ چھڑا کر اپنا گلابی چہرہ لیے اندر جانے لگی ۔سوری بےبی آج تو نہیں چھوڑوں گا آج آخر ہمارے نئے گھر میں ہمارا پہلا دن ہے ۔اس نے روح کو اپنی باہوں میں اٹھاتے ہوئے شرارت سے کہا۔باقی گھر صبح دیکھ لینا فی الحال صرف بیڈروم ہی دیکھو ۔وہ اس پر جھکتے ہوئے بولا۔ اور اسے لیے سیڑھیاں چڑھنے لگا ۔