قسط 29
صبح جب روح کی آنکھ کھلی تو صبح کے 10 بج رہے تھے ۔اس نے اپنے آپ کو یارم کی باہوں میں پوری طرح سے قید پایا ۔شرمیلی سی مسکان مسکراتے ہوئے یارم کا ہاتھ اپنے اوپر سے ہٹانے لگی ۔جب یارم نے اسے اور کس کے اپنی باہوں میں بھرا۔
یارم پلیز چھوڑیں صبح کے 10 بج رہے ہیں کتنا وقت ہو چکا ہے ۔وہ اس کی باہوں سے اپنا آپ چھڑواتے ہوئے بولی ۔
تم نے کیا کرنا ہے اتنی جلدی جاگ کر۔ لیٹی رہو ایسے ہی میں تمہیں محسوس کرنا چاہتا ہوں وہ اس کے بالوں میں منہ چھپاتے ہوئے بولا ۔
یارم مجھے بھوک لگی ہے ۔یارم کو رات والی ٹون میں واپس آتے دیکھ کرروح نے جلدی سے کہا ۔
نہ تمہاری نیند ختم ہوتی ہے نہ تمہاری بھوک ختم ہوتی ہے پہلے بتاؤ تمہارا کھانا جاتا کہاں ہے ۔تمہیں لگتا کیوں نہیں ہے ۔اپنی حالت دیکھو ۔کچھ کھایا پیا کرو ۔
ہاں تا کہ آپ کی طرح موٹی ہو جاؤں ۔بازو دیکھیں ہیں آپ نے اپنے کتنے موٹے ہیں۔وہ منہ بنا کر بولی۔
لڑکی لوگ ایسی بوڈی لانے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں دو سال کا کورس کرکے ایسے مسلز بناتے ہیں ۔اور جسے تم موٹاپا کہہ رہی ہو نا لڑکیاں مرتی ہیں ایسی لکس پے ۔یارم نے اسے ان مسلز کی اہمیت سمجھانا ضروری سمجھی ۔
پتا نہیں کون سی لڑکیاں ہیں جو ایسی لکس پر مرتی ہیں ۔روح نے ناک سے مکھی اڑائی ۔
مطلب تم نہیں مرتی ہو میری لکس پے ۔یارم نے اپنی توپوں کا رخ سیدھا اسی کی طرف کیا۔
ہیلو منہ دھو کر رکھے ۔مجھے آپ کی لکس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے مجھے تو بس آپ کے یہ ڈمپل تھوڑے سے اچھے لگتے ہیں ۔روح نے اس کے گال پر انگلی رکھتے ہوئے کہا
تھوڑے سے۔۔۔۔یارم نے اس کی نقل اتاری ۔
ہاں بالکل تھوڑے سے باقی آپ بالکل بھی اچھے نہیں ہیں۔
چلو جی کچھ تو اچھا ہے ۔یارم نے بھرپور اپنے ڈمپلز کی نمائش کرتے ہوئے کہا ۔اور لگے ہاتھ اک پیاری سی گستاخی بھی کردی۔
یارم آپ بالکل بھی اچھے نہیں ہیں روح نے سرخ ہوتے چہرے سے کہا ۔
ہاں پتا ہے میں بالکل بھی اچھا نہیں ہوں لیکن میرے ڈمپلز تھوڑے سے اچھے ہیں ۔ یارم آنکھ دباتے ہوئے بولا ۔
چھوڑیں مجھے۔ مجھے میرا گھر بھی دیکھنا ہے وہ اس سے اپنا آپ چھڑاتے ہوئے جلدی سے اٹھی ۔جبکہ وہ مسکراتا رہا
°°°°°°°°°
یارم باہر برف گر رہی ہے ۔لیکن یہاں تو بالکل بھی سردی نہیں ہے ۔وہ سیڑھیاں اتر کے نیچے آئی تھی جہاں شیشے کی بڑی سی دیوار کے باہر برف گر رہی تھی وہ جلدی سے سیڑھیاں چڑھ کے واپس بیڈ روم میں آئی اور یارم کو بتانے لگی ۔یارم نے مسکرا کر اس کی ایکسائٹمنٹ دیکھی۔
میں تو پہلے ہی کہتا تھا جب برف گرتی ہے تب زیادہ سردی نہیں ہوتی ہاں لیکن برف گرنے کے بعد بہت سردی ہوتی ہے ۔اس لئے احتیاط ضروری ہے ۔یارم نے اس کی شال ٹھیک سے اس کے کندھوں پر پھیلاتے ہوئے کہا ۔اس نے ابھی تک رات والی ہی ڈریس پہن رکھی تھی ۔
میں ابھی تھوڑی دیر میں ہوٹل جاؤں گا ۔اور وہاں سے آتے ہوئے تمہارے لئے کچھ ڈریسیز لاؤں گا۔اور یہاں پر تم کسی بھی قسم کے ڈریس پہن سکتی ہو ۔کیونکہ یہاں میرے علاوہ اور کوئی نہیں ہوگا ۔
ہم اگلے پانچ دن یہاں رکیں گے پھر واپس دوبئی جائیں گے۔یارم نے اسے اپنے قریب کرتے ہوئے بتایا۔یارم اگر ہم واپس ہی جانے والے تھے تو آپ نے گھر یہاں کیوں ہے خریدا ۔۔۔۔؟۔روح نے حیرانگی سے پوچھا ۔
کیونکہ ہم ہر سال یہاں چھٹیاں منانے آئیں گے میری جان ۔اب ہر سال ہم ہوٹل میں تو نہیں رہ سکتے نہ ۔یارم نے پیار سے اس کے بالوں کو چھیڑتے ہوئے کہا ۔
یارم آپ کے پاس کیا بہت پیسے ہیں ۔وہ تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے پوچھنے لگی ۔
ہاں بہت۔کیوں تمہیں کچھ چاہیے کیا ۔وہ مسکرایا۔مجھے لپسٹک لینی ہے ۔روح نے جلدی سے فرمائش کردی ۔یارم قہقہ لگا کر ہنسا ۔
روح تم لپسٹک کے لئے مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ میرے پاس کتنے پیسے ہیں ۔
اس میں ہنسنےوالی کون سی بات ہے ۔میری آپی کے پاس بہت ساری لپسٹک تھی ۔وہ کبھی کبھی مجھے بھی لگاتی تھی ۔روح ایکسائٹمنٹ میں بتاتے ہوئے کب اس کے اتنے قریب بیٹھ گئی اسے خود بھی پتا نہ چلا ۔احساس تب ہوا جب یارم اسے پوری طرح سے گھیر چکا تھا ۔
یارم پلیز چھوڑیں۔روح کا دل زور سے دھڑکنے لگا ۔ یارم کی قربت میں اس کا یہی حال ہوتا تھااس نے اپنا آپ چھڑوانے کی ناکام سی کوشش کی ۔
جب یارم نے اس کے لبوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر اس کی مزاحمت کو ناکام بنا دیا ۔
°°°°°°°°°°
نہیں مجھے کہیں نہیں جانا یہیں رہنا ہے ۔مجھے ابھی آرام کرنا ہے روح نے اسے فیصلہ سنایا۔
لیکن روح تم یہاں کیسے رہو گی ۔میں تمہیں اکیلے چھوڑ کر نہیں جا سکتا ۔
میں اپنے گھر میں بھی اکیلے نہیں رہ سکتی ۔۔۔؟یارم کچھ نہیں ہوگا مجھے۔ کیا ہوگیا ہے آپ کو میں اوپر رہوں گی پلیز میں اس وقت بالکل سفر نہیں کرنا چاہتی ۔
نہیں روح یہاں خطرہ ہے یہاں جنگلی جانور ہیں۔ میں تمہیں اکیلے نہیں چھوڑ سکتا نہ جانے مجھے کتنا وقت لگ جائے ۔یارم کسی حال میں سے اکیلا چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔
اوہو میں باہر نکلوں گی تو جنگلی جانور آئیں گے نہ اور ویسے بھی جنگلی جانور رات کو آتے ہیں آج تو اتنی روشنی ہے یہاں۔ اب پلیز آپ جائیں اگر آپ لیٹ جائیں گے تو پھر لیٹ واپس آئیں گے ۔
اور پھر آتے ہی میری نیند کی دشمن بن جائیں گے ۔روح جلدی جلدی بولتی اپنی زبان دانتوں کے نیچے دبا گئی۔اس کے بات سن کر یارم کے ڈمپلز نمایاں ہوئے ۔
ٹھیک کہہ رہی ہو تم ۔جلدی جاؤں گا تو جلدی آؤں گا کیونکہ واپس آ کے مجھے تمہاری نیند کا دشمن بھی بننا ہے۔وہ شرارت سے کہتا ہوا اٹھا
آو دروازہ اندر سے ٹھیک سے لاک کرو ۔اور جب تک میں نہ آؤں باہر مت نکلنا ۔ یہاں دور دور تک کوئی نہیں آتا جاتا خیال رکھنا اپنا میرے لئے ۔۔محبت سے اس کا ماتھا چومتے ہوئے بولا اور باہر نکل گیا ۔
°°°°°°°°
اس کے جانے کے بعد روح نے پورا گھر دیکھا جو کہ وہ صبح ہی دیکھ چکی تھی ۔گھر کی سیٹنگ ٹھیک نہیں تھی جو کہ اس نے خود اپنی مرضی سے کرنی تھی ۔تھوڑی دیر کے گھومنے پھرنے کے بعد اسے پتہ چلا گھر میں ہر جگہ ہیٹنگ سسٹم لگا ہے ۔
جس کی وجہ سے گھر کے اندر سردی نہیں لگتی ۔وہ اب سمجھی تھی ۔ یارم کے پچھے دروازہ بند کرنے کے لیے جاتے ہوئے سے اتنی سردی لگ رہی تھی ۔تو اندر آتے ہی اسے سردی کیوں نہیں لگی ۔یہ سچ تھا کہ برف گرتے ہوئے اتنی سردی نہیں محسوس ہوتی تھی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انسان جتنی سردی محسوس کریں اسے اتنی سردی لگتی ہے ۔اور روح سے زیادہ اچھی طرح سے سردی کون محسوس کر سکتا تھا یہ بات یارم بہت زیادہ اچھے طرح سے سمجھ چکا تھا اسی لیے اس نے اس گھرمیں اسپیشلی ہیٹنگ سسٹم لگوایا تھا ۔
اور اب گھومنے کے بعد وہ ٹی وی کے سامنے آ بیٹھی ۔
اور پھر تھوڑی ہی دیرمیں بور ہو کے وہ اپنے بیڈ روم میں آئی ۔یارم کی پرفیوم اور سگریٹ کی ملی جلی مہک ابھی تک کمرے میں موجود تھی ۔یارم سگریٹ بہت پیتا تھا ۔اور اس چیز سے روح کو کوئی اعتراض نہ تھا ۔
کیوں کہ اس کی بہن تانیہ بی امی اور بہنوں سےچھپ چھپا کر سگریٹ پیتی تھی ۔اس کو پتہ ہونے کےباوجود اس نے یہ بات کبھی کسی کو نہ بتائی۔خیروہ بتا دیتی تو ویسے بھی کون اس کی سنتا ۔وہ یہی سب سوچتے ہوئے آکر بیڈ پر لیٹ گئی ۔
وہ اب بھی اپنی آج کی اور کل کی زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی کتنا کچھ بدل چکا تھا یہاں آکے۔کتنی الگ ہو چکی تھی اس کی زندگی ۔پاکستان میں تو اسے خود کے لیے سوچنے کو بھی وقت نہ ملتا تھا ۔وہاں کون تھا اس کی پرواہ کرنے والا ۔ اس کو پوچھنے والا ۔وہ دن رات کام کرتی تھی کوئی نہیں تھا جو اس کے بیمار ہونے پر اسے ڈاکٹر کے پاس لے کے جاتا ڈاکٹر کے پاس لے کے جانا تو دور کوئی اسے دوائی تک نہیں لاکے دیتا تھا ۔
سب کے کھانے کے بعد اگر کھانا ختم ہو جاتا اور اس کے لیے کچھ نہ بچتا تو کوئی اس سے یہ نہیں پوچھتا تھا کہ تم نے رات میں کھانا کھایایا نہیں ۔
اور یہاں کوئی تھا ۔جو اس کی ذرا سی بات بھی کتنے غور سے سنتا تھا ۔اس کی پرواہ کرتا تھا ۔اس کے کھانا نہ کھانے پر سو بار پوچھتا تھا ۔کتنی بدل چکی تھی اس کی زندگی ۔یارم اس سے محبت نہیں عشق کرتا تھا اور اس عشق پر وہ ایمان لے آئی تھی ۔
سوچتے سوچتے نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔
°°°°°°°°
آنکھ کھلی تو باہر تھوڑا تھوڑا اندھیرا چھا چکا تھاآج صبع یہاں سورج نکلا تھاجس کی وجہ سے روشنی تھی۔ وقت دیکھا تو شام کے تین بج رہے تھے ۔یارم ابھی تک نہیں آئے ۔یہ کہاں رہ گئے وہ سوچتے ہوئے اٹھی اور کھڑکی کا پردہ ہٹایا ۔دور سڑک پر ایک آدمی چلتے ہوا جارہا تھا ۔اس نے کمبل نما شال سے خود کو ڈھکا ہوا تھا ۔یا شاید اس نے کوئی جیکٹ پہن رکھا تھا ہڈی والا دور سے سمجھ نہیں آرہا تھا ۔
یارم نے تو کہا تھا یہاں کوئی بھی آتا جاتا نہیں ۔یارم نے بتایا تھا کہ یہاں دور دور تک نہ کوئی بازار ہے اور نہ ہی کوئی گھر ۔تو پھر یہ آدمی کون تھا ۔کہیں کوئی رستہ تو نہیں بھول گیا ۔سوچتے ہوئے پردہ برابر کیا اور واپس بیڈ پر بیٹھ گئی ۔تھوڑی دن میں آدمی کو بھلاکر واپس نیچے آگئی ۔
یارم اب تک نہیں آئے ۔فون بھی نہیں لائے اپنا ورنہ پوچھ لیتی ۔چلو ٹی وی دیکھتی ہوں ۔ اس نےسوچااور ایک بار پھر سے ٹی وی آن کرکے بیٹھ گئی ۔یارم کو گئے ہوئے تقریبا ڈھائی گھنٹے ہو چکے تھے ۔ہوٹل یہاں سے بہت فاصلے پر تھا ۔
اس سے تو بہتر تھا ساتھ ہی چلی جاتی ۔وہ سوچتے ہوئے ایک پر پھر سے ٹی وی بند کر کے کمرے میں آگئی ۔یہاں کھانا بنانے کا کوئی سامان موجود نہ تھا ۔
ورنہ وہی بنا لیتی ۔یارم نے جانے سے پہلے اسے بریڈ کھلا کر چائے پلائی تھی اور اب اسے ہلکی ہلکی بھوک بھی محسوس ہو رہی تھی۔
کمرے میں آنے کے بعد اس نے ایک بار پھر سے یارم کے انتظار میں سڑک دیکھنے کے لئے پردہ ہٹایا ۔تو دیکھا وہ آدمی ابھی بھی وہیں اسی جگہ کھڑا ہے ۔
باہر برف گرنا شروع ہو چکی تھی ۔اور وہ آدمی ابھی تک وہی کھڑا تھا ۔
یا اللہ یہ کیسا آدمی ہے اس طرح سے برف میں کھڑا ہے ۔یقیناً یہ آدمی راستہ بھول کے اس طرف آگیا ہے ۔
شاید اب کسی گاڑی یا لفٹ کا انتظار کر رہا ہوگا ۔
مجھے اس کی مدد کرنی چاہیے لیکن یہ تو میری زبان سمجھتا ہی نہیں میں اسے کیسے بتاؤں گی کہ وہ غلط جگہ آیا ہے ۔اف جیسے بھی بتاؤں لیکن میرا فرض بنتا ہے کہ میں اسے صحیح راستہ دکھاؤں۔روح نے سوچتے ہوئے اپنی شال کو ٹھیک سے سر پر لیا ۔
اور گھر سے باہر نکل آئی ۔وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اس آدمی کی طرف بڑھنے لگی ۔لیکن پاس آنے پر اسے عجیب سا احساس ہونے لگا ۔اسے لگا جس کے پاس وہ جا رہی ہے وہ انسان نہیں بلکہ کوئی اور چیز ہے ۔
لیکن اب وہ اس کے بہت قریب آ چکی تھی ۔اور اس کی سوچ بالکل ٹھیک تھی ۔وہ انسان نہیں بلکہ کوئی اور مخلوق تھی ۔
وہ چیز روح کی موجودگی کو محسوس کر چکی تھی ۔
روح نے اپنے قدموں روک لیے ۔وہ چیز پلٹ کر کی طرف دیکھنے لگی ۔اور اسے دیکھتے ہی روح کی چیخ نکلی۔ یارم نے بالکل ٹھیک کہا تھا یہاں پے خوفناک اور خطرناک ترین جانور ہیں
نہ جانے انسان نما دکھنے والی یہ کونسی چیز تھی ۔جس کے ہاتھ میں کسی جانور کا ایک چھوٹا سا بچہ اور منہ خون سے لت پت تھا ۔اور اب اس کا اگلا شکار روح تھی۔