روح یارم

Areej shah

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 3

رات کے تقریبا تین بجے کا وقت تھا تعظیم نہ جانے کب سے نگاہیں روح کے سوئے ہوئے وجود پر ڈالے اسے اپنی نظروں میں لیے ہوئے تھیں ۔جب کے دماغ میں بار بار اقصی کی باتیں گونج رہی تھیں۔
ذرا سوچو تعظیم تمہاری بیٹیوں کی زندگی سمبھل جائیگی اور ساتھ میں اس مصیبت سے بھی چھٹکارہ مل جائے گا ۔بھولو مت یہ تمہارے شوہر کے دھوکے کا نتیجہ ہے وہ تم سے محبت کے دعوے کرتا تھا اور تم سے چھپ چھپا کر کسی اور لڑکی سے نہ صرف شادی کر رکھی تھی بلکہ اس میں سے ایک اولاد بھی پیدا کی ہوئی تھی۔
ارے سوتیلی مائیں کہاں پوچھتی ہیں مگر تم نے نہ صرف اسے گھر میں رکھا بلکہ اس کی پرورش بھی کی ۔کب تک اسی کے بارے میں سوچتی رہو گی تمہاری بیٹیاں اس کی وجہ سے کنواری بیٹھی ہیں مریم کا دوباررشتہ اس کی وجہ سے ٹوٹ چکا ہے ۔تعظیم بیگم کے دماغ میں اقصی خالہ کی باتیں چل رہی تھیں۔ جبکہ آنکھیں اب تک روح کے معصوم سے چہرے کو دیکھ رہی تھیں ۔
ویسے تو وہ ہر لڑکی کے بیس لاکھ روپے دیتا ہے لیکن اس کے پورے تیس لاکھ مانگوں گی.ارے زرا سوچو تیس لاکھ روپے دے گا شیخ اور کوئی ایسے ہی نہیں اٹھا لے جائے گا پہلے نکاح پڑھوائے گا جائز رشتے میں باندھ کر پھر بلائے گا اسے وہاں ۔اور دبئی جائے گی ذرا سوچ باہرے ملک جا کر بھی کبھی کسی کی زندگی برباد ہوئی ہے ۔اور یہ تو اتنی تیز طراز ہے خود ہی سب سنبھال لے گی ۔اقصی کی اس بات پر تعظیم نے ایک بار پھر سے اس کے معصوم چہرے کو دیکھا کیا واقعی وہ اتنی تیز ہے کہ اپنا آپ خود سنبھال لے ۔
نہیں نہیں ۔میں اس لڑکی کے ساتھ ایسا نہیں کروں گی اتنا بڑا گناہ میں سوچ بھی کیسے سکتی ہوں نہیں میں نہیں کروں گی اس کے ساتھ ایسا ناجانے وہ شیخ اس کا کیا حال کردے۔
وہ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئیں.
تین تین بیٹیاں ہیں تیری عمریں نکلتی جا رہی ہیں کل کون بہائے گاانہیں پہلے اس مصیبت سے جان چھڑا ۔ایک بار پھر سے اقصی کی باتوں نے ان کادھیان اپنی طرف کھینچا ۔
ایک طرف ان کی تین بیٹیاں تھیں جن سے وہ بے تحاشہ محبت کرتی تھیں اور ان کی زندگی میں بے انتہا خوشیاں دیکھنا چاہتی تھیں ہر ماں کی طرح ان کا بھی خواب تھا کہ اس کی بیٹیاں خوشحال زندگی گزارے ۔
جبکہ دوسری طرف معصوم سی روحِ نور جو صرف ان کے سہارے پر بیٹھی تھی جو صرف ان کو جانتی تھی صرف ان پر بھروسہ کرتی تھی جو انہیں امی کہہ کر بلاتی تھی وہ بھی تو ان کی بیٹی تھی ہاں مگر سوتیلی ۔۔۔۔”
°°°°°°°°°°
وہ آج شارف سے ملنے جیل میں آیا تھا
نہیں بھائی میں بالکل ٹھیک ہوں یہاں مجھے ہر چیز مہیا کی گئی ہے لیکن پھر بھی ایسا لگتا ہے جیسے اپنا فرض نہیں نبھا رہا موت کبھی بھی آ سکتی ہے چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے انسان کبھی بھی مر سکتا ہے مجھے ڈر ہے بھائی میں اس طرح سے نہ مر جاؤں.صرف شارف ہی اسےبھائی کہہ کر بلاسکتا تھا کیونکہ وہ بچپن سے ہی اس کے ساتھ تھا زیادہ تر وہ بھی اسے ڈیول کہتا تھا اس کی ٹیم میں کام کرنے والے باقی سب لوگ اسے سر یا ڈیول کہہ کر پکارتے تھے جب کہ خضراسے کبھی ڈیول یا اس کے نام سے بلاتا تھا.
میں چاہتا ہوں مجھے موت آئے تو میں آپ کے لئے کچھ نہ کچھ کر رہا ہوں بھائی میں آپ کے لئے جان دینا چاہتا ہوں ۔اور دیکھیے گا میں ایک نا ایک دن آپ کے لیے جان ضرور دوں گا ۔
ہو گئی تمہاری تقریر اب بند کرو یہ ڈرامہ میں تمہیں یہ بتانے آیا تھا کہ کچھ دنوں میں پاکستان سے ایک لڑکی آنے والی ہے اس کے پاس ایک فائل ہوگی جس میں ان سب لوگوں کے نام لکھے ہیں جن کے پاس وہ فحاش ویڈیو ہے ۔اور ان سب کے بھی جن کے پاس کبھی وہ ویڈیو تھی ۔اگر چاہتا تو میں اس فائل کو کسی اور طریقے سے بھی یہاں منگوا سکتا تھا ۔لیکن صدیق کی بیٹی بھروسے کے قابل ہے اسی لئے میں نے یہ کام اسے دیا ہے ۔اور آگے یہ کام تم کرو گے میں کچھ ہی دنوں میں تمہیں یہاں سے نکلوا لوں گا تمہاری بے گناہی کا ثبوت میرے پاس ہے اگلے کچھ دنوں میں کورٹ میں پیشی ہوگی اور تمہیں باعزت بری کر دیا جائے گا۔
اور اگر یہاں پر مسئلہ ہو تو خود سنبھال لینا ہر وقت میری طرف مت دیکھا کرو چھوٹے موٹے جھگڑے کر کے تمہیں کیا لگتا ہے میں سارے کام کاج چھوڑ کر تمہاری صلح کروانے یہاں آؤنگا ۔
تو تمہاری غلط فہمی ہے کوئی چھوٹے سکول کے بچے نہیں ہو جو دوسرے بچے سے لڑو گے تو والدین تمہیں بچانے آئیں گے ۔اس لیے بہتر ہوگا کہ آئندہ مجھے یہاں تمہاری کوئی شکایت نہ ملے ۔
وہ بہت دنوں سے آپ کو دیکھا نہیں تھا اس لئے میں آپ کو مس کر رہا تھا بھائی ۔آپ کو تو پتہ ہے آپ کے علاوہ میرا ہے ہی کون بات کرتے کرتےوہ ایموشنل ہوگیا۔
وہ جب اسے بھائی کہتا تو آپ کہہ کر پکارتا اور جب ڈیول کہتا تو تم کہہ کر بلاتا۔
تمہاری گرل فرینڈ ہوں میں جو تم مجھے مس کر رہے تھے ۔اور اب تم مجھے دیکھو گے تو تمہیں چین آ جائے اور سکون سے بیٹھ جاؤ گے کسی لوفر عاشق کی طرح ۔وہ کب سے خاموش بیٹھا اسے سن رہا تھا لیکن اب بولا تو پاس کھڑے خضر اور سامنے بیٹھے شارف دونوں کی ہنسی چھوٹ گئیلیکن وہ نہیں ہنسا وہ ہنستا نہیں تھا ۔
اب تمہاری کوئی شکایت نہ ملے مجھے ایک ہی ہفتے میں تمہیں یہاں سے نکلوا لوں گا ۔
وہ اٹھتے ہوئے سخت نظروں سے ان دونوں کو گھورتے ہوئے بولا تو دونوں کی بتیسی خاموش ہو کر اندر بیٹھ گئی
°°°°°°°°°
ڈان اٹھ کر باہر چلا گیا تو خضراس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
لیلیٰ کیا ٹھیک سے ان کو تنگ نہیں کر رہی جو اس طرح سے مرچیں چھپائے ہوئے ہیں شارف نے غصے کی وجہ پوچھی۔
ارے وہ کیا تنگ کرے گی جب سے اسے پتہ چلا ہے کہ ہماری ٹیم میں کوئی اور لڑکی آنے والی ہے بچاری جل جل کر دھواں ہو رہی ہے ۔ہزار بار توکل کا یہ کہہ چکی ہے کہ اگر وہ لڑکی معصومہ اس سے زیادہ خوبصورت ہوئی تو اس کا کیا ہوگا ۔جبکہ یہ بات وہ اچھے طریقے سے جانتی ہے کہ ڈان کو اس میں بالکل بھی کوئی انٹریسٹ نہیں ہے ۔پھر بھی ڈیول کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہے مجھے تو لگتا ہے کسی دن تنگ آکر ڈیول اس سے شادی کر ہی لے گا ۔
مجھے بھی یقین ہے کہ بھائی کی شادی لیلیٰ بھابھی سے ہوگی اسی لیے تو میں نے اسے ابھی سے بھابھی بلانا شروع کر دیا ہے ۔
ہاں بیٹا ایک بار ڈیول کے سامنے بھی بلانا اسے بھابھی میں بھی تو دیکھوں تیرے منہ میں زبان رہتی ہے کہ نہیںخضر نے گویا اسے چیلنج کیا ۔
ایم سوری میں ابھی تیرا یہ چیلنج قبول نہیں کرسکتا کیونکہ میری یہ زبان ابھی بہت سارے کارنامے سرانجام دینے والی ہے اس لیے مجھے اس کی ضرورت ہے ۔جیسے میں رسک میں نہیں ڈال سکتا ۔آخر اسی زبان سے ہی تو میں نے اللہ کے سامنے بھائی کے لیے دعائیں کرنی ہیں کہ جلدی سے انہیں لیلیٰ سے محبت ہو جائے اور پھر اس سے شادی ہو جائے ۔لیکن پھر یہ محبت والی بات سوچ کے نہ میں تھوڑا کنفیوز ہو جاتا ہوں ۔کیونکہ محبت تو ان لوگوں کو ہوتی جن کے اندر کوئی جذبات ہوں ۔بھائی کے اندر تو کوئی جذبات ہی نہیں ہیں۔
لیکن پھر میں یہ سوچتا ہوں کے سارے دل اللہ پاک نے بنائے ہیں سب کے اندر جذبات بھی وہی پیدا کرتے ہیں ۔ایک نا ایک دن بھائی کے دل میں بھی محبت جیسا جذبہ ضرور پیدا ہوگا ۔شارف نے کہا ۔
اور تمہیں کیا لگتا ہے کہ اللہ وہ جذبات لیلی کے لیے پیدا کرے گا ۔خضر نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا ۔
لیلیٰ کی محبت میں سچائی ہے لیلیٰ سے زیادہ پیار انہیں اورکوئی نہیں کر سکتا اور اللہ کسی کے دل میں محبت اسی انسان کے لئے ڈالتا ہے جو اس سے سچی محبت کرتا ہو۔
اور تمہیں یہ بھی لگتا ہے کہ ڈیول کو لیلیٰ سے زیادہ اور کوئی پیار نہیں کر سکتا.
ہاں بالکل ۔۔۔۔ تم نے شاید دیکھا نہیں لیلیٰ نے دو بار بھائی کے لئے گولی کھائی ہے جہاں بھی بھائی کی جان خطرے میں ہوتی ہے وہ سب سے آگے ہوتی ہے ۔لیلیٰ بھائی سے بہت پیار کرتی ہے اس کے پیار کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا اور مجھے یقین ہے کہ لیلیٰ بھائی کو خود سے پیار کرنے پر مجبور کردے گی.
اور اگر ڈیول کو کسی اور سے پیار ہوگیا میرا مطلب ہے کسی تیسرے سے تو ۔ خضر نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
ہاہاہاہا تمہیں کیا لگتا ہے ایسا کبھی ہو سکتا ہے بھائی کو پیار ہاہاہا(جوک آف دا ڈے ) بھائی کو کبھی کسی سے محبت نہیں ہوسکتی ۔اور اگر ہو بھی گئی تو تمہیں کیا لگتا ہے لیلی کسی تیسرے کو برداشت کرے گی اپنے اور بھائی کے بیچ میں۔۔۔؟
اسی لیے تو میں معصومہ کو لے کر پریشان ہوں ۔
سمجھ میں نہیں آ رہا کہ بیچاری کیسے کہوں ۔۔۔۔!!
معصومہ کو۔۔۔۔؟ یا لیلیٰ کو۔۔۔۔۔؟
°°°°°°°°
تمہیں کیا لگتا ہے ڈیول میں اتنی آسانی سے تمہارے آدمی کو جیل سے باہر آنے دوں گا ۔نہیں ایسا نہیں ہوگا نہیں ہونے دوں گا شارف کو اب پھانسی کے پھندے تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔
اب تم بھی اپنے وفادار آدمی کو بھول جاؤ انسپیکٹر صارم نے اس کے سامنے آتے ہوئے کہا ۔
ارے انسپیکٹر صارم آپ یہاں یہ وقت تو آپ کی بچی کے سکول سے چھٹی کا ہے نہ اب یہ مت کہیے گا کہ میرا دیدار کرنے کے لئے آپ اپنی بچی کو اسکول سے لینے نہیں گئے ۔اتنی لاپروائی اچھی نہیں ہوتی وہ بھی تب جب آپ نے شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالا ہو ۔مجھے اس طرح سے مت دیکھیں انسپکٹر صاحب ارے میں آپ کی بچی کو کچھ نہیں کروں گا ڈیول اپنے دشمنوں کی کمزوریوں کو استعمال نہیں کرتا یہ ڈیول کے کام کرنے کا انداز نہیں ہے ۔مگر آپ کی بیٹی بہت پیاری ہے ۔میں اور کچھ نہیں چاہتا بس اتنا چاہتا ہوں کہ آئندہ مجھ سے مخاطب ہونے سے پہلے آپ یاد رکھیں کہ آپ کی بیٹی بہت پیاری ہے ۔بات کرتے ہوئے اس کے گال پر ڈمپل نمایاں ہو رہا تھا ۔
جبکہ سامنے کھڑے انسپکٹر صارم کا دل چاہا کہ اس کے خوبصورت چہرے کو بگاڑ کر رکھ دے جو اس کے چارسالہ بیٹی کے بارے میں بات کر رہا تھا ۔
لیکن وہ مجبور تھا دوبئی کی پولیس کسی عام باشندے پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتی تھی اور دبئی کی عوام کی نظروں میں یارم کاظمی ایک عام آدمی تھا جسے بہت کم لوگوں نے دیکھ رکھا تھا ۔
°°°°°°°°
ارے میں نے صرف تصویر بھیجی تھی ان لوگوں نے ایڈوانس میں پانچ لاکھ بھیج دیے میں نے تو ابھی کہا بھی نہیں تھا کہ لڑکی کو بیچیں گے بھی کے نہیں۔اقصیٰ نے اس کے سامنے پانچ لاکھ کی گڈی رکھتے ہوئے کہا ۔
اقصی میں ایسا کوئی کام نہیں کروں گی میں نے تمہیں پہلے بھی بتایا تھا میں روح کو نہیں بیچوں گی کہیں نہیں جائے گی وہ یہی رہے گی ۔
اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری اجازت کے بغیر تم نے ان لوگوں کو تصویر بھیجی کیوں۔۔۔۔؟تعظیم بیگم کو غصہ آگیا تھا۔
اوہو اس وقت میری منتیں کر رہی تھی کہ اس لڑکی نے میری زندگی تباہ کردی ہے اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہوں میں نے تمہاری ہمدردی ہی کی تھی ۔مگر مجھے کیا پتا تھا کہ یہ ہمدردی میرے ہی گلے پر جائے گی ۔
ان لوگوں کو لڑکی پسند آئی اور وہ لوگ تیس لاکھ دینے کو بھی تیار ہیں ۔لیکن تمہیں کیا ضرورت ہے ان پیسوں کی تمہیں تو اپنی بیٹیوں کی زندگی برباد کرنی ہے ۔ایسے ہی ساری زندگی بیٹھی کنواری رہ جاینگی میرا کیا ہے میں تو یہ پیسے واپس بھیجوا دوں گی۔
صرف تصویر دیکھ کر پانچ لاکھ بھیج ڈالے 30 لاکھ زرا سوچ کہاں سے کہاں پہنچ جائیں گی تیری بیٹیاں ۔خیر تیری مرضی ابھی میں ذرا بھائی کے گھر جا رہی ہوں یہ پیسے تم اپنے پاس رکھو واپسی پر لے جاؤں گی۔اقصی نے شاطرانہ انداز میں کہتے ہوئے بیگ اٹھایا اور باہر نکل گئی ۔
جبکہ تعظیم نے کپکپاتے ہاتھوں سے وہ گڈی پکڑی اور اندر جا کر اپنے کمرے میں رکھنے لگیں اس کا سارا دھیان ان پیسوں پرتھا.
اس کی تینوں بیٹیوں کی زندگی سیٹ ہو سکتی تھی اور ساتھ میں روح سے جان بھی چھوٹ سکتی تھی لیکن ان کا ضمیر انہیں بار بار ایسا کرنے سے روک رہا تھا ان کا ضمیر ایک معصوم لڑکی کی زندگی برباد ہونے نہیں دے رہا تھا لیکن کب تک ۔۔۔۔؟

Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial