قسط 7
ایک ہی دن میں زندگی کتنی حسین لگنے لگی تھی ۔اس کا شوہر نہ صرف دیکھنے میں اچھا تھا بلکہ بات بھی کتنی محبت سے کرتا تھا ۔
یہاں تو سب ہی لوگ عربی میں بات کرتے ہیں ۔لیکن وہ اس سے اردو میں ہی بات کر رہا تھا ۔
امی اتنی اچھی کیسے ہوگئیں۔ کہ اس کی شادی اتنے حسین آدمی سے کردی تو کیا انہیں تب اپنی بیٹیوں کا خیال نہ آیا تھا ۔؟
یا سچ میں وہ اس کی بھلائی چاہتی تھیں ۔
وہ اپنی سوچوں میں الجھی پورا حال دیکھ چکی تھی ۔
اسے تو گھر ہی لگ رہا تھا ۔لیکن کھانا رکھ کے جانے والے آدمی نے اسے بتایا تھا کہ یہ گھر نہیں ہے بلکہ کام کی جگہ ہے ۔ کمرے میں آرام کرنے کے لیے بھی کوئی چیز نہ تھی سوائے کرسی کےوہ اسے جس کمرے میں چھوڑ کر گیا تھا روح وہیں بیٹھی گئی ۔
آگے پیچھے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اگر وہ اپنے شوہر کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرتی اور وہ اس سے روٹھ جاتا تو ۔۔۔۔؟
ابھی تو وہ ٹھیک سے جانتی بھی نہیں تو کیسے مناتی وہ اسے!!
اس نے کہا تھا تم کھانا کھا کر یہی آرام کرو واپس آ کے باتیں کریں گے ۔
میں کیا بات کروں گی ان سے ۔وہ شرماتی گھبراتی بیٹھ کے سوچتی رہی ۔
کیا پہلے بھی بے وقوفوں کی طرح بولنا شروع ہوگئی اب نہیں بولوں گی ایسے ۔سوچ سمجھ کر بات کروں گی وہ یہ نہ سمجھے کہ میں پاگل ہوں ۔
°°°°°°°°°°
میں آپ کی کچھ مدد کر دوں ۔ اس نے یہاں ایک چیز جو بہت زیادہ نوٹ کی وہ یہ تھی ایک آدمی ہال صاف کرنے کی چیزیں لے کے کھڑاتھا ۔
اور ہر پانچ دس منٹ کے بعد صفائی کرنا شروع کر دیتا ۔جب کہ روح کو تو ہال بہت صاف ستھرا لگ رہا تھا شاید ایسی آدمی کی محنت کا کمال تھا ۔
نومیم ہم کر لینگے آپ آرام کریں ۔آدمی کا لہجہ عربی لیکن بات وہ اردو میں کر رہا تھا ۔
یہاں پہ سب لوگ اردو میں بات کرتے ہیں۔۔۔؟ اس سے رہا نہ گیا تو پوچھنے لگی ۔
جی میم یہاں سب ہی لوگ اردو میں بات کرتے ہیں جس کو اردو نہیں آتی وہ سیکھ لیتا ہےجیسے میں نے سیکھی ۔ ڈیول اپنے سارے کام اردو میں کرواتے ہیں ۔تاکہ محالف پارٹی ہمیں نہ سمجھ سکے ۔سامنے کھڑے آدمی نے اسے تفصیل سے سمجھایا ۔شاید اسے ابھی تک یہ بات پتا نہیں تھی کہ وہ معصومہ نہیں بلکہ کوئی اور ہے
حسن تم جاؤ میں ان سے بات کرتی ہوں ۔روح نے مڑ کر دیکھا تو صبح دروازے والی لڑکی کھڑی تھی لیکن اب اس کے کپڑے کچھ اور تھے اسے دیکھ کر ذرا مسکرائی اور اشارے سے اسے اندر کمرے میں بلایا روح بھی اس کے پیچھے چل دی
نام کیا ہے تمہارا ۔۔۔۔!!اسنے مسکرا کر پوچھا تو روح بھی ذرا سا مسکرائی
روحِ نور !!
میں لیلیٰ ہوں یہاں کام کرتی ہوں تمہارا نکاح کیسے ہوا میرا مطلب ہے تم اپنے شوہر کو پہچان نہیں پائی۔لیلیٰ کو اس لڑکی کے بارے میں پوچھنے کے لئے کہا گیا تھا سو وہ نورملی اپنا کام کرنے لگی ۔
یارم نے اس پر سختی کرنے سے منع کیا تھا ۔
کیونکہ اس کا ارادہ اس لڑکی کو صحیح سلامت اس کے گھر تک پہنچانا تھا ۔
جی وہ دراصل فون پر نکاح ہوا تھا میں نے دیکھا نہیں ان کو اس لئے پہچان نہیں پائی۔
مطلب تم نے اس کی کوئی تصویر بھی نہیں دیکھی تھی آئی مین پہلے لڑکی سے پوچھا جاتا ہے کہ تم شادی کرنے کے لیے تیار ہو تصویر دکھائی جاتی ہے بات وغیرہ ہوتی ہے فون پر ۔وہ کنفیوز تھی
نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا تھا ۔مجھے تو نکاح سے ایک دن پہلے پتہ چلا تھا کہ میرا نکاح ہے روح نے مسکراتے ہوئے بتایا جیسے اپنا ہی مزاق بنا رہی ہو ۔
او اچھا یعنی ارینج میرج ہے لیلیٰ نے اس کے احساس کمتری دور کرنے کی کوشش کی
جی ۔۔۔۔۔۔وہ بس اتنا ہی بولی
اوکے دین۔۔۔۔۔ مجھے تمہارا پاسپورٹ اور آئی ڈی کارڈ مل سکتا ہے ۔لیلی مطلب کی بات پر آ چکی تھی .
جی میں دیتی ہوں لیکن وہ اصل نہیں ہے یہ تو آپ جانتی ہی ہوں گی وہ کچھ کنفیوز ہو کر بولی
اصل نہیں ہے ۔۔۔؟ تم یہاں کیسے آئی پھر لیلیٰ کو جھٹکا لگا ۔
وہ سب کچھ تو مجھے نہیں پتا یہ سب کچھ تو میرے شوہر ہی جانتے ہوں آپ ان سے پوچھیں اس نے اپنا پاسپورٹ آئی ڈی کارڈ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔
جبکہ لیلی اپنا گھومتا ہوا سر لے کر باہر نکل گئ ۔
°°°°°°°
اس کا مطلب وہ لڑکی غیر قانونی طریقے سے یہاں آئی ہے ۔اور اس کا یہ شوہر رمیزشیخ اس نام کا کوئی آدمی نہیں یے اس شہر میں اور میں نے ایئرپورٹ سے بھی پتہ کیا ہے اس نام کی کوئی بھی لڑکی دبئی آئی ہی نہیں اور نہ ہی اسے لینے کوئی ایئرپورٹ آیا تھا ورنہ انتظامیہ میں کوئی رپورٹ درج ہوتی
آئی ڈی کارڈ پر کیا نام لکھا ہے اور پاسپورٹ کہاں ہے اس لڑکی کا لیلیٰ ۔۔؟خضر نے پوچھا .
ہاں میں نے لے لیا تھا یہ ہےلیلیٰ نے اپنے ہاتھ میں پکڑا پاسپورٹ اور آئی ڈی کارڈ اس کے حوالے کیا جس پر تصویر تو اسی کی لگی تھی لیکن نام کسی اور کا درج تھا۔
مجھے تو یہ کوئی گیم لگ رہا ہے شارف نے کہا جو ابھی کچھ دیر پہلے ہی جیل سے چھوٹ کر آیا تھا ۔
گیم تو ہے یہ لیکن ہمارے ساتھ نہیں اس لڑکی کے ساتھ اس لڑکی کے گھر والوں کے بارے میں پتہ کرواؤ ۔اس گیم میں اس کے گھر والے بھی شامل ہیں اس نے تحمل سے سمجھاتے ہوئے کہا ۔
مطلب تمہیں لگتا ہے کہ اس لڑکی کے گھر والوں نے ہی اسے یہاں بیھجا ہے ۔خضر نے بات میں حصہ لیا ۔
مجھے تو ایسا ہی لگ رہا ہے خیر لیلیٰ آج کی رات اسے اپنے ساتھ لے جاو اس نے لیلیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔
نہیں ڈیول میں تو کلب جانے والی ہوں اور میرا تو کافی دیر تک وہاں رہنے کا ارادہ ہے یہ اکیلی میرے گھر میں کیا کرے گی اور اسے دیکھ کر لگتا نہیں ہے کہ یہ میرے ساتھ کلب آنا چاہے گی ۔لیلیٰ نے پریشانی سے کہا جو بہن جی ٹائپ کو اپنے ساتھ کلب تو نہیں لے جا سکتی تھی .
۔ میرے ساتھ بھیج دو شارف نے ذرا شرارتی مگر کم آواز میں کہا ۔
جس پر خضر نے اسے گھور کر دیکھا یقیناً ڈیول نے نہیں سنا تھا اگر سن لیتا تو اس کا قورمہ بنا دیتا
معصومہ کا کیا انتظام کیا ہے آج کی رات۔۔۔؟ ڈیول نے پوچھا
نئی لڑکی ہے اس طرح اسے چھوڑ تو نہیں سکتے اس لیے میں نے گودام میں اس کا انتظام کروایا تھا اس کے بابا بھی وہیں رہتے تھے اس کا کہنا ہے کہ جہاں اس کے بابا رہتے تھے یہ وہی رہنا چاہتی ہے خضر نےتفصیل سے بتایا .
وہاں پر بھی اس لڑکی کو نہیں رکھ سکتے وہاں اسلحہ ہے اسلحہ دیکھ کر کہیں کچھ گڑبڑ ہی نہ ہوجائے لیلیٰ نے کہا
اور کسی ہوٹل میں بھی نہیں رکھ سکتے اگر پولیس کو شک ہو گیا تو مزید مصیبت شارف نے کہا
ٹھیک ہے یہ میرے ساتھ رہے گی ڈیول نے کچھ سوچتے ہوئے تینوں کے سر پر دھماکہ کیا .
تمہارے ساتھ کیوں رہے گی وہ لیلیٰ نےاپنا غصہ دباتے ہوئے کہا
لیلیٰ میں تمہارے آگے جواب دہ نہیں ہوں اور یہ بات آخری بار بتا رہا ہوں ۔
اسے لگتا ہے کہ میں اس کا شوہر ہوں اگر میرے ہوتے ہوئے وہ کہیں بھی اور گئی تو مزید مسئلہ بن جائے گا .میں گناہ گار بندہ ہوں اس لڑکی کے ساتھ کچھ بھی برا نہیں ہونے دے سکتا اور اس کی مدد نہ کر کے مزید گناہگار نہیں ہو سکتا میں اسے صحیح سلامت اس کے گھر پہنچاوں گا ۔تب تک اس لڑکی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے کہ ہم کیا کرتے ہیں اور کون ہیں ۔
نورمل انسانوں کی طرح اس کے ساتھ رہو خاص کرکے تم اس نے لیلی کو گھورتے ہوئے کہا ۔
لیکن وہ تمہیں اپنا ہزبنڈ سمجھتی ہے ڈیول اس نے ہزبنڈ پر زور دیتے ہوئے کہا .
ہاں لیکن میں اسے اپنی بیوی نہیں سمجھوں گا میری نظر میں وہ کسی اور کی بیوی ہے اور تب تک اس کی غلط فہمی ہم دور نہیں کرسکتے جب تک یہاں سے چلی نہیں جاتی ۔
اگر کسی کو پتا چل گیا کہ یہاں کوئی انجان لڑکی ہمارے ساتھ ہے سب سے پہلے انسپیکٹر صارم الرٹ ہوگا ۔وہ تو پہلے ہی ہمارے پیچھے پڑا ہے ۔صرف ایک موقع کی تلاش میں ہے وہ صرف ایک ”
وہ بھی تم میں سے کسی کی نہیں بلکہ میری ایک غلطی پر نظر رکھے ہوئے ہے اور میں اسے موقع نہیں دے سکتا ۔اور اگر اس لڑکی کو پتہ چل گیا کہ ہم کون ہیں تو سب سے پہلے یہ پولیس میں جائے گی ۔
مجھے سمجھ میں نہیں آتا انسپیکٹر صارم تمہارے پیچھے کیوں پڑا ہے ہم سب بھی تو ہیں میں کتنی بار اس کادھیان تمہارے اوپر سے ہٹا کر اپنے طرف دلانے کی کوشش کی لیکن پھر سے وہ تمہارے خلاف ثبوت کیوں ڈھونڈنے لگتا ہے انسپکٹر صارم ہمیں کیوں کچھ نہیں کہتا۔۔۔۔۔؟
کیونکہ اگر درخت سے سارے پتے اتار کر پھینک بھی دیے جائیں تو بھی درخت نئے پتے اگا لیتا ہے ۔لیکن اگر اسی درخت کو زمین سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے تو وہ بنجر ہو جائے گا اور اس کے سب پتے سوکھ جائیں گے انسپیکٹر صارم کی نظر درخت پہ ہے پتوں پر نہیں
°°°°°°
وہ صبح دس بجے سے لے کر اب تک اسی کمرے میں بیٹھی تھی ۔وہ سفر کی وجہ سے اتنی تھکی ہوئی تھی لیکن پھر بھی یہاں پر کوئی آرام کرنے کے لئے جگہ نہ تھی اسے آرام کرنے کی عادت بھی نہ تھی سارا دن تو وہ کسی نہ کسی کام پر لگی رہتی اور اب بھی کمرے میں گھوم رہی تھی جب آہستہ سے دروازہ کھٹکھٹا کر وہ اندر آیا .
گھر چلیں۔۔۔؟ لہجے میں اب بھی وہی نرماہٹ تھی وہ مسکرائی ۔
جی چلیں۔۔۔۔”اس نے صبح سے وہی برقہ پہن رکھا تھا ۔وہ اپنا سامان اٹھانے لگی تو یارم نے اسے منع کردیا ۔
تم رہنے دو میرا آدمی لے آئے گا اسے چلنے کا اشارہ کرکے وہ آگے چل دیا وہ بھی جلدی سے اس کے پیچھے آئی ۔
وہاں کھڑے آدمی نے اس کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا ۔
ٹی وی ڈراموں میں اسی طرح سے نوکروں کو دروازہ کھولتے دیکھتی تھی آج اپنے لیے ایسی خاطر تواضوع دیکھ کر اس کی ہنسی نکل گئی
پھر دھیرے سے تھینک یو بول دیا
گاڑی میں ان دونوں میں کوئی بات نہ ہوئی
پھر ایک جگہ یارم نے گاڑی رو کی اور گاڑی سے نکل کر نہ جانے کہاں چلا گیا .
آگے پیچھے نظردوڑاتی جب روح کی نظر سڑک پر گئی اس نے چھوٹے چھوٹے بچوں کو سڑک پر لیٹے ہوئے دیکھا تو سوچنے لگی
یا اللہ یہ سب ضرور میری طرح یتیم ہوں گے بچوں کی بےبسی دیکھ کر اسے اپنا بچپن یاد آنے لگا اسے پتہ بھی نہ چلا کہ کب یارم گاڑی میں آکر بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ ھوگئی خاموشی طویل تھی ۔
لگتا ہے ہوا پانی بدلنے کی وجہ سے تمہاری طبیعت خراب ہو رہی ہے کب سے اس کی سوں سوں کی آواز سنتا وہ بولا
نہیں میں تو بالکل ٹھیک ہوں اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا
اوّ اچھا تم رو رہی ہو ۔۔یارم نے اب اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا
کیوں رو رہی ہو تم ۔۔۔۔۔۔؟یارم خود بھی سمجھ نہ پایا کہ یہ سوال اس نے کیوں پوچھا ہے شاید اس نے اس طرح سے کسی کو کبھی روتے ہوئے نہیں دیکھا تھا
وہاں چھوٹے بچے ۔۔۔ اس نے بات ادھوری چھوڑ دی
کیا پاکستان میں بیکاری نہیں ہیں ۔۔ ؟ اس نے آرام سے پوچھا
ہیں لیکن سڑک پے نہیں سوتے ۔وہ اس سے یہ نہیں کہہ پائی کہ وہ کبھی گھر سے باہر نکل کر سڑکوں پر ایسے سوتے کسی بیکاری کو دیکھ نہیں پائی ۔
ہممم.خاموشی ایک پر پھر سے چھا گئی
°°°°°°
گاڑی ایک بلڈنگ کے قریب آکر رکی ۔یہاں سے اندر چلی جاو یہ چابی پکڑو فلیٹ نمبر 8 اور یہ کھانا بھی لے جاؤ ۔میں گاڑی پارک کر کے آتا ہوں ۔یارم نے اسے چابی اور کھانا پکڑاتے ہوئے کہا ۔وہ فورا گاڑی سے باہر نکل گئی ۔
لیکن اندر نہیں گئی بلکہ وہیں کھڑے ہوکر اس کا انتظار کرنے لگی ۔
وہ اسے یہ کیسے کہتی کہ اسے اکیلے جانے میں ڈر لگتا ہے کیا سوچے گئے وہ کہ یہ ہر چیز سے ڈرتی ہے ۔اسی لئے وہیں رک کر اس کا انتظار کرنے لگی
تقریبا چار پانچ منٹ میں وہ اس کے ساتھ آ کر رکا وہ میں آپ کا انتظار کر رہی تھی اس نے پوچھا نہیں لیکن پھر بھی روح بتانے لگی
ٹھیک ہے چلو ۔ اس کے ہاتھ سے چابی لے کر وہ آگے کی طرف چلنے لگا ۔ایک نیا سفر تھا اس کے لیے وہ اس کی قدم سے قدم ملا کر چلنے لگی ۔
اس نے لفٹ کا بٹن پریس کیا ۔لفٹ نے انہیں ان کی منزل تک پہنچایا ۔وہ اس کی ہر حرکت کو غور سے دیکھ رہی تھی ۔اس کے چہرے کو دیکھ کر بار بار ایک عجیب سی شرم اسے آگھیرتی تھی ۔۔ کبھی وہ شرماتے ہوئے اپنی انگلیاں چٹکتی ۔ کبھی اپنی آنے والی زندگی کا سوچ کر مسکراتی ۔لیکن وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بنا رہا ۔
°°°°°°°
اس نے آکر فلیٹ کا دروازہ کھولا فلیٹ بہت بڑا نہ تھا دروازے پر رک کر ایک ہی نظر میں اس نے سارا فلیٹ دیکھ لیا ۔دو بیڈروم ایک کچن باتھ روم کا دروازہ کہیں نہیں تھا ضرور بیڈ روم کے ساتھ تھے۔ لیکن فلیٹ بالکل صاف ستھرا تھا
تم یہاں بیٹھو میں کھانا نکل کے لاتا ہوں اس نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا .
آپ کیوں کریں گے میں کرتی ہوں نا یہ تو عورتوں کے کام ہیں اس نے جلدی سے اس کے ہاتھ سے کھانے کے شاپر لئے اور اوپن کیچن کی طرف آگئی .یارم کچھ نہیں بولا کیونکہ وہ کسی بھی طرح اسے شک میں نہیں ڈال سکتا تھا جبکہ اس کی نظریں کچن کی طرف تھی .
پورے گھر کی طرح یہ بھی صاف ستھرا تھا اس کا مطلب تھا کہ اس کا شوہر صفائی پسند ہے روح نے اچھی بیویوں کے طرح جلدی سے یہ بات اپنے دماغ میں بٹھا لی۔پھر کھانا برتنوں میں نکال کر لائی۔
دونوں نے آرام سے کھانا کھایا ۔نہ جانے اس ڈش کا کیا نام تھا مگر تھی بہت مزے کی ۔وہ یہ تو نہیں جانتا تھا کہ اسے کیا پسند ہے اور کیا نہیں لیکن پھر بھی وہ اپنی طرف سے ایسی چیز لے کے آیا تھا جسے وہ سکون سے کھالے اور ایسا ہی ہوا تھا اس نے سکون سے کھانا کھایا اور پھر برتن نہ صرف وہاں سے اٹھ کے لے گئی بلکہ اچھے سے دھو کر واپس اسی جگہ پر رکھ کر باہر آئی
آپ چائے پیتے ہیں ۔۔۔؟ یارم کھانا کھا کر آرام سے آنکھیں بند کرکے صوفے سے ٹیک لگا کر بیٹھا تھا جب پیچھے سے نرم سی آواز سنی .
ہاں۔اسے سوال عجیب لگا لیکن پھر جواب دیاشاید وہ اس سے بات کرنا چاہتی تھی تبھی بے تکے سوال پوچھ رہی تھی
میں بناؤں آپ کے لیے۔۔۔۔؟ اس نے پیار سے پوچھا ۔
ہاں بناؤ وہ اس وقت تنہائی چاہتا تھا اب وہ اسے کسی بھی بہانے سے میسر ہو کیا فرق پڑتا ہے ۔لیکن اس کی بات سن کر روح خوشی سے اٹھی اور چائے بنانے چلی گئی .اور پھر اگلے پانچ منٹ بعد وہ چائے کے ساتھ حاضر تھی ۔
وہ ویسے بھی رات کو چائے پینے کا عادی تھا لیکن ہمیشہ وہ خود بناتا تھا آج پہلی بار کسی دوسرے کے ہاتھ کی چائے پینے جا رہا تھا .
تم اس کمرے میں سوجانا میں اس کمرے میں سوؤں گا اسنے چائے پیتے ہوئے کہا
کیا مطلب میں کچھ سمجھی نہیں چہرے کی رونق غائب ہوئی تھی ۔
میرا مطلب ہے مجھے کچھ کام کرنا ہے تم بیکار میں ڈسٹرب ہوگی ویسے بھی سفر سے تھکی ہوئی ہو تم اس کمرے میں جا کر آرام کرو میں اپنا کام ختم کر لوں۔
جی اچھا ۔وہ کہہ کر چائے کے کپ اٹھانے لگی ۔
یہ رہنے دو میں اٹھا لوں گا تم جاؤ آرام کرو وہ ہمیشہ سے اپنے کام خود کرتا تھا ۔
میرے ہوتے ہوئے آپ کام کیوں کریں گے ۔۔!!۔وہ مسکراتے ہوئے بولی اور کپ اٹھا کر کچن میں چلی گئی ۔تقریبا پانچ منٹ کے بعد گیلے ہاتھ اسکارف سے صاف کرتی باہر نکلی ۔اس نے اپنا برقہ اب تک نہ اتارا تھا
ایک بات کہوں آپ سے؟ کمرے میں جاتی ہوئی واپس پلٹی ۔
کہو ۔یارم نے اس تھوڑی دیر میں یہ اندازہ لگایا تھا یہ لڑکی بہت شرمیلی اور بہت باتونی ہے۔
مسکرانا صدقہ جاریہ ہے ۔وہ بنا پلٹے فوراً اپنے کمرے کی میں چلی گئی۔
جبکہ یارم نے اپنے گال پے ابھرنے والے بےساختہ ڈمپل کو بڑی مشکل سے روکا تھا۔