روح یارم

Areej shah

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 8

صبح یارم کی آنکھ کھلی تو پورے گھر میں خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔وہ آرام و سکون سے اٹھا فریش ہو کر باہر آیا تو اس کے اندازے کے عین مطابق روح کچن میں گھسی کچھ کر رہی تھی ۔
اپنے اس فلیٹ میں اس نے آج تک اپنے علاوہ کسی دوسرے وجود کو اتنی صبح نہ دیکھا تھا ۔
وہ شروع سے ہی اس طرح سے رہتا تھا کہ کوئی اسے پہچان نہ پائے یہ فلیٹ جس بلڈنگ میں تھا وہاں پر بہت ساری فیملیز رہتی تھیں۔ جن میں زیادہ تر انڈین اور پاکستانی تھی ۔ ان سب کو یارم کے بارے میں کچھ بھی پتہ نا تھا اگر کسی کو کچھ پتا تھا توبس اتنا کے ایک لڑکا ہے جو یہاں رہتا ہے ۔ اور چھوٹی موٹی جاب کرتا ہے ۔یارم کا ریکارڈ اتنا صاف تھا کہ آج تک پولیس اس تک نہ پہنچ پائی۔مگر انسپکٹر صارم کی محنت اور لگن ہی تھی جس نے اسے اس تک پہنچنے میں اس کی مدد کی ۔وہ خود بھی انسپکٹر صارم کواس کی ہمت اورقابلیت کی داد دیتا تھا ۔
ارے آپ اٹھ گئے آپ بیٹھے میں ناشتہ لگاتی ہوں ۔وہ کچن سے باہر ٹیبل تک آئی تو اسے دروازے پر کھڑا دیکھ کر بولی۔
ویسے مجھے پتہ نہیں ہے کہ آپ صبح ناشتے میں کیا پسند کرتے ہیں لیکن پھر بھی میں نے پراٹھے بنائے ہیں ۔لیکن آپ کہیں گے تو کچھ اور بھی بنا دوں گی ۔ اس وقت وہ بنا عبایا کے کالا چوڑی دار پاجامہ اور سرخ قمیض پر کالا دوپٹہ سلیقے سے سر پہ جمائی کھڑی تھی ۔ہاں مگر کپڑے اس کے لحاظ سے تھوڑے لوز تھے ۔
سفید رنگت کالی آنکھیں ۔لمبے بال جو دوپٹے سے باہر کمر سے نیچے جھول رہے تھے ۔وہ بہت خوبصورت تھی لیکن یارم جتنی نہیں ہاں لیکن اس کے چہرے کی معصومیت خوبصورت سے خوبصورت انسان کو مات دینے کے لیے کافی تھی ۔
نہیں ۔میں یہ کھا لوں گا ۔تھنکیو میرے لئے ناشتہ بنانے کے لیے اور سوری تمہیں میرے لیے اتنی زحمت کرنی پڑی وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ اتنا کیوں بولنے لگا ہے وہ تو ضرورت سے زیادہ کبھی نہیں بولتا تھا ۔
ارے زحمت کیسی اب یہ سب کچھ مجھے ہی تو کرنا ہے ۔صفائی کے لیے کون آتا ہے میرا مطلب ہے گھر کی صفائی کون کرتا ہے ۔وہ کھانے کے لئے بیٹھا تھا جب روح نے پاس بیٹھ کر سوال پوچھا ۔
میں خود میں اپنے گھر کے سارے کام خود کرتا ہوں مجھے دوسروں لوگوں کے کیے گئے کام پسند نہیں آتے اور دوبئی میں آسانی سے نوکر ملنا بھی بہت مشکل ہے ۔یہاں تقریباً سب ہی لوگ اپنے کام خود کرتے ہیں ۔
اور کھانا بھی خود بناتے ہیں ۔۔۔؟روح نے حیران ہو کر پوچھا ۔
زیادہ تر خود ہی بناتا ہوں اور اگر دیر ہو جائے تو باہر سے لے آتا ہوں ۔بس اتنا کہہ کر وہ ناشتہ کرنے لگا ۔مگر اسے یہ نہیں کہہ پایا کہ اسے خاموشی میں کھانا کھانا پسند ہے ۔ وہ بس اس لڑکی کو یہ نہیں بتانا چاہتا تھا کہ وہ ایک ڈان ہے اور یہ لڑکی غلط ایڈریس پر پہنچی ہے ۔لیکن اس کے لیے اس لڑکی سے باتیں کرنے ضروری تو نہ تھی ۔ وہ کیوں اسے اپنی پرسنل باتیں بتا رہا تھا رات میں اس نے جب کہا کہ وہ دوسرے کمرے میں سو جائے تو اس کی اداسی کیوں اسے پریشان کر گئی تھی ۔
خوبصورت سے خوبصورت لڑکی اس کی زندگی میں آئی تھی اس نے پلٹ کر کبھی ان کی طرف دیکھا بھی نہیں ۔لیلیٰ اس کی ایک نظر پہ بیٹھی تھی لیکن اس نے لیلیٰ کو کبھی اتنی اہمیت نہ دی۔لیکن اس لڑکی کی صرف اداسی اسے پریشان کر رہی تھی وہ چاہتا تھا کہ جس طرح سے یہ لڑکی ہنستی کھیلتی یہاں آئی ہے اسی طرح سے اپنے گھر پہنچ جائے ہاں وہ بس اس کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہونے دینا چاہتا تھا اس کی معصومیت کو برباد نہیں ہونے دینا چاہتا تھا
بس یہی تو وجہ تھی ۔
کیسا بنا ہے ۔۔۔؟اپنی سوچوں میں وہ بیٹھا آرام سے ناشتہ کر رہا تھا جب اچانک سے روح کی آواز بہت قریب سے محسوس ہوئی ۔وہ ایکسائٹڈ سی کھڑی اس سے پوچھ رہی تھی ۔
اچھا بہت اچھا۔۔۔۔۔ بس اتنا سا بول کر وہ پھر سے ناشتہ کرنے میں مگن ہو گیا ۔
میں آپ کے لیے روز بناؤں ایک بار پھر سے وہ ایکسائیڈ سی اس سے پوچھنے لگی ۔
روز ۔۔۔؟ ہاں روز بناؤ ۔ وہ کیوں اسے بتا نہیں پا رہا تھا کہ وہ صرف ایک یا دو دن اس کے ساتھ رہے گی پھر تو اسے جانا ہے اپنے گھر جہاں اس کا اصل شوہر ہے ۔
میں کام پر جارہا ہوں تم یہیں رہو میں جلدی واپس آنے کی کوشش کروں گا ۔ناشتہ کر کے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا ۔اس کا ارادہ جب تک اس لڑکی کے گھر والوں کا ملنا تھا اس کو یہی رکھنے کا تھا ۔
بالکل عام روزمرہ کی جاب کرنے والے آدمی کی طرح وہ تیار ہوا۔جینز کے اوپر وائٹ شرٹ اور گلے میں ٹائی اور ہاتھ میں بریف کیس پکڑ کر گھر سے نکلا اور جانے سے پہلے سے دروازہ بند کرنے کا بول گیا۔
°°°°°°°°°
کچھ پتہ چلا اس لڑکی کے بارے میں۔۔۔؟ اس نےخضر سے پوچھا
نہیں میں کل سے لگا ہوں لیکن اس لڑکی کے بارے میں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔
اب فیک آئی ڈی کارڈ پر ہم کیسے اس کے گھر والوں کو ڈھونڈیں ۔
ہممم ۔ اور اس لسٹ کا کیا ہوا شارف اپنا کام کر رہا ہے ۔۔۔؟
نہیں اس نے ابھی شروع نہیں کیا وہ میرے ساتھ اس لڑکی کے گھر والوں کو ۔۔۔۔۔۔۔”
کیا لڑکی لڑکی لگا رکھا ہے تم لوگوں نے اپنے کام پر دھیان دو وہ لڑکی ہمارا کام نہیں ہے ۔اس نے غصے سے خضرکی بات کاٹی ۔
ہاں لیکن میں چاہتا تھا کہ اس لڑکی کے گھر والوں کا پتہ چل جائے تو ہم صحیح سلامت اسے واپس پہنچا دیں پھر اپنے کام پر دھیان دیں اسے غصے میں دیکھ کر خضر نے وضاحت پیش کی .
اس لڑکی سے زیادہ ضروری کام ہیں ہمہیں فی الحال اپنے کام پر دھیان دو اس لڑکی پر نہیں ۔
ہاں لیکن ڈیول ایک دو دن میں ہی ہم اس لڑکی کے بارے میں سب انفارمیشن ڈھونڈ لیں گے اور۔۔۔۔۔۔. ”
خضر تم وہ کروجو میں کرنے کے لئے کہہ رہا ہوں فلحال اس لڑکی کو ایک سائیڈ پر رکھو اور ضروری کام کرو اس نے پھر سے خضر کی بات کاٹی۔
اوکے جیسا تم کہو ۔خضر ہار مان کر بولا
°°°°°°°°
مجھے ہال چیکنگ کرنی ہے یہ سرچ وارنٹ ہے آپ چیک کرسکتے ہیں ۔یہ اس مہینے میں تسیری چیکنگ وارنٹ تھی۔ وہ جب بھی فارغ ہوتا تو ایسا ہی سرچ وارنٹ نکلوا کر یہاں آ جاتا ۔
ضرور انسپکٹر صارم کیوں نہیں آپ کا اپنا ہی ہال ہے جب دل چاہے آئیں چیکنگ کریں ۔شارف نے پورا دروازہ کھولتے ہوئے کہا ۔
کل ہی تو وہ جیل سے چھوٹ کے آیا تھا اور پچھلے 10 دن سے اس نے سب سے زیادہ اسی شخص کی شکل دیکھی تھی اورانسپیکٹر صارم وہ پہلا اور آخری شخص تھا جسے وہ آج کی تاریخ میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا ۔
بہت شکریہ اتنی مہمان نوازی تو مجھے ہضم نہیں ہوگی صارم نے مسکرا کر کہا ۔
ہضم تو کرنی پڑے گی انسپیکٹر صارم آخر آپ کی مہمان نوازی کا قرض چکانا ہے ۔جیل میں اس پر کسی بھی قسم کا تشدد نہ کیے جانے کا آرڈر تھا لیکن صارم پھر بھی وقت بے وقت ہاتھ صاف کرتا رہا ۔
اکرم انسپکٹر صاحب کے لیے کچھ کھانے پینے کو منگاؤ یہ تو گھر کے جمائی راجہ ہوگئے ہیں جو کبھی بھی آ ٹپکتے ہیں ۔شارف نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے اس کے ہر دوسرے تیسرے دن آنے پر چوٹ کی ۔لیکن وہ کہتے ہیں نہ پولیس والے ڈھیٹ مٹی کے بنے ہوتے ہیں صارم بھی اُسی مٹی کا بنا تھا ۔
چیکنگ شروع ہوچکی تھی صارم کے ساتھ آئے پولیس والوں نے ہال کا ستیاناس کر دیا تھا ۔
یہ تو شکر تھا کہ ڈیول یہاں نہیں تھا ورنہ گندگی اور بے ترتیبی سے اسے نفرت تھی ۔
مجھے اندازہ نہیں تھا کہ دوبئی کے پولیس والے اتنے ظلم ہوتے ہیں ۔صارم نے اپنے پیچھے سے نرم سی آواز سنی ۔مڑکے دیکھا تو پیچھے خوبصورت لیکن نازک سی لڑکی کھڑی تھی ۔
یہ لڑکی کون ہے پہلے تو اسے تم لوگوں کے ساتھ نہیں دیکھا اس نے شارف سے پوچھا۔
اس سے کیا پوچھ رہے ہیں مجھ سے پوچھیں انسپکٹر صاحب جتنے اچھے طریقے سے میں آپ کو بتاؤں گی کوئی نہیں بتا پائے گا وہ صارم کے قریب اس کے بازو میں اپنا بازو ڈالتے ہوئے بولی ۔
حد میں رہو لڑکی یہ نہ ہو کہ اسی ہاتھ میں ہتھکڑی پہنا کے اندر کردوں۔ اس نے ایک جھٹکے سے اپنا بازو چھڑوایا ۔
ہائے ظالم کیا دھمکیاں دیتے ہو ۔دل کرتا ہے خود ہی تمہاری جیب سے ہتھکڑی نکال کر پہن لوں ایک ادا سے بولتی ہوئی وہ اس کی گردن میں ہاتھ ڈالنے لگی۔
انسپکٹر صاحب معصوم لوگوں کو نہیں تڑپاتے
پلیز پہنا دیں نہ ہماری معصومہ کو ہتھکڑی دیکھیں نہ کیسے منتیں کر رہی ہے آپ کی ۔شارف نے جیسے اس کی سفارش کی تھی ۔
معصومہ ۔۔۔۔ضرورت سے زیادہ معصوم ہے یہ ۔ اور ہتھکڑی تو میں ضرور پہنوں گا اسے ۔لیکن فی الحال میں اپنا کام کرنے آیا ہوں اگلی بار ان کے لئے ہتھکڑی ضرور لے کر آوں گا اس کا ہاتھ اپنی گردن سے جھٹکتے ہوئے کہا ۔
پنک کلرکی پہنوں گی۔۔۔” معصومہ نے معصومیت سے آنکھیں پپٹائی جبکہ معصومہ کی بات سن کر آگے پیچھے ڈیول کے سبھی آدمی دبی دبی ہنسی ہنس رہے تھے ۔یہ تو شکر تھا کہ دوبئی کی پولیس کو اردو نہیں آتی تھی جبکہ معصومہ ابھی بھی محبت پاش نظروں سے اسے گھورے جا رہی تھی۔اس کی نظروں سے تنگ آکر صارم نے پولیس والوں کو چلنے کا آرڈر دیا
کیا دوبئی کے پولیس والے اتنے پیارے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔؟۔معصومہ ابھی تک اس دروازے کو گھور رہی تھی جہاں سے صارم نکلا تھا ۔
یہ بندہ شادی شدہ ہے ایک بچی کا باپ ہے معصومہ کی بڑبڑاہٹ سن کر شارف تیزی سے بولا ۔
مگر پھر بھی بہت ہنڈسم ہے ۔لائن مارنے میں کوئی برائی بھی نہیں ۔مجھے تو بہت پیارا لگا
معصومہ نے اس کے شادی شدہ ہونے کا کوئی اثر نہ لیا
ڈیول سے زیادہ ۔۔۔؟۔شارف نے پوچھا کیوں کہ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کوئی لڑکی یارم کو چھوڑ کر کسی دوسرے آدمی کے بارے میں بات کرے۔
ارے ڈیول سر کے ساتھ وہ چڑیل ہمیشہ چپکی رہتی ہے ۔ان دونوں میں کچھ چل رہا ہے کیا معصومہ نے پوچھا ۔
ہاں چل رہا ہے چھ سال سےتو یکطرفہ ہی چل رہا ہے لیلیٰ ڈیول سے محبت کرتی ہے ۔لیکن ڈیول کی نظر میں اس کے جذبات کی کوئی اہمیت نہیں ۔ شارف نے بتایا ۔
اور اکڑتی تو ایسے ہے جیسے ڈیول سر اس کے بوائے فرینڈ ہوں ۔معصومہ کولیلیٰ کچھ خاص پسند نہیں آئی تھی ۔شارف نے اندازہ لگا لیا تھا
°°°°°°°
یارم کے جانے کے بعد اس نے سارا گھر شیشے کی طرح چمکایا ۔ایک ایک چیز کو رگڑرگڑ کر صاف کیا ۔چھوٹا سا گھر تھا فٹافٹ صاف ہوگیا ۔اس کے بعد کچن میں آئی ۔اور وہی عمل کچن میں دہرایا ۔کچن میں کھانے پینے کی ہر چیز موجود تھی ۔لیکن وہ جانتی تھی اس کے شوہر کا راستہ پیٹ سے نہیں بلکہ صاف صفائی سے نکلتا ہے ۔
لیکن وہ اسے بھوکا بھی تو نہیں مار سکتی تھی کھانے کے لئے بھی کچھ نہ کچھ تو بنانا ہی تھا ۔
بہت سوچ بچار کر کے اسے دال چاول ہی نظر آئے ۔
حد ہے مطلب اب میں اپنے شوہر کے لئے زندگی میں پہلی بار کچھ بنانے جارہی ہوں تو کیا دال چاول بنا کے دؤں گی ۔کیا سوچیں گے وہ میرے بارے میں مجھے کچھ اور بنانا نہیں آتا ۔ہاں تو ان کے سوچنے سے پہلے ہی میں بتا دوں گی کہ میں سب کچھ بنا لیتی ہوں لیکن گھر میں یہی تھا تو میں نے یہی بنا دیا ۔ہاں یہی ٹھیک ہے میں بھی نا پتا نہیں کیا کیا سوچتی رہتی ہوں ۔اپنی تمام تر سوچوں کو ایک طرف رکھ کر وہ کھانا بنانے میں جھٹ گئی ۔ابھی اس نے دال چاول صاف کر کے ہی رکھے تھے جو کہ پہلے سے ہی صاف تھے ۔کی دروازے کی بیل بجی ۔
ہائے یہ کون آ گیا ہے جو بھی آیاہو وہ عربی میں بات نہ کرتا ہو اسے تو میری کوئی بات سمجھ میں نہیں آئے گی ۔چلو میں تو پھر اشاروں سے سمجھا لوں گی وہ کیسے سمجھائے گا ۔یہی سب سوچتے ہوئے وہ دروازے تک آئی .
دروازہ کھولا تو سامنے تین خواتین کھڑی تھیں
اسلام علیکم ہم آپ کے پڑوسی ہیں یہ ساتھ والے فلیٹ میں رہتی ہیں ۔ایک عورت نے میٹھے لہجے میں کہا
وعلیکم سلام آئیں اندر آئیں اسے امید نہ کہ دوبئی میں اردو میں بات کرنے والی کوئی عورت اسے ملے گی ۔
بیٹا آپ کو پہلے کبھی یہاں نہیں دیکھا ۔وہ لڑکا جو اس فلیٹ میں رہتا ہے اس کو ہم اکثر آتے جاتے دیکھتے رہتے ہیں ۔ آپ آج ہی آئی ہیں کیا دوسری عورت نے اس سے سوال کیا .
نہیں آنٹی میں کل آئی تھی میں ان کی بیوی ہوں ۔شادی کے بعد میں پہلی بار یہاں آئی ہوں ۔اس نے فون پر نکاح والی بات گل کر کے بتایا ۔
اچھا اچھا بہت اچھی بات ہے ۔بیچارہ ویسے بھی اکیلا رہتا تھا ۔اب تم آگئی ہو تو بچارے کی تنہائی بٹ جائے گی ۔وہ عورتیں اسے باتوں میں لگا کے ادھر ادھر کی باتیں بتانے لگیں ۔
اور کچھ ہی دیر میں اسے یہ بھی بتا دیا کہ بلڈنگ کے کون کون سے گھروں میں نہیں جانا کونسی عورتیں اچھی ہیں اور کونسی عورتیں اچھی نہیں۔وہ بھی سب کی باتوں کو ایسے ذہن نشین کر رہی تھی جیسے وہ ہر کسی کے گھر میں جانے والی ہو۔
بلکہ تم ایسا کرنا کہ کل ہم ایک کٹی پارٹی رکھیں گے ۔اس میں ہم بلڈنگ کی ان سب عورتوں کو بلائیں گے جن کے ساتھ تم اٹھ بیٹھ سکتی ہو۔تمہاری عمر کی بھی لڑکیاں ہوں گی وہاں ۔
جی انٹی میرے شوہر آجائیں میں ان سے پوچھ کر آؤں گی ۔اس نے کہا
ہماری بلڈنگ میں بھی شوہر کی اجازت سے آیا جایا کرو گی۔خیر وہ منع تو نہیں کرے گا لیکن پھر بھی تم پوچھ لینا مگر آنا ضرور ہم تمہارا انتظار کریں گے ۔اور تھوڑی دیر مزید بیٹھ کر چلی گئیں۔
یااللہ اب کیا امی اور آپی کی طرح میری بھی سہیلیاں ہوں گی جو گھر آیا کریں گی۔ ہائے کتنا مزا آئے گا کیا خاک مزہ آئے گا یہ سب تو مجھ سے اتنی بڑی ہیں ۔ہاں لیکن انہوں نے یہ بھی تو کہا کہ وہاں میری عمر کی بھی لڑکیاں ہوں گی ۔
تیز تیز پیاز کاٹتی وہ خود ہی بڑبڑا رہی تھی ۔
°°°°°°°°°°
آج صبح سے ہی یارم لیلیٰ کے ہاتھ نہیں لگا وہ اپنے کام نپٹاتا رہا اور لیلیٰ بن پانی کی مچھلی بنی رہی ۔اسے ساری رات یہ سوچ کر نیند نہیں آئی کہ وہ دونوں ایک ساتھ ایک فلیٹ میں ہیں .
جبکہ یہ بات لیلٰی سے چھپی ہوئی نہیں تھی کہ کسی قسم لڑکی یارم کو ایکٹریکٹ نہیں کرتی ۔
لیکن پھر بھی یارم تھا تو مرد ۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اتنی خوبصورت معصوم لڑکی اس کے پاس ہو اور وہ بالکل بھی اس میں دلچسپی نہ لے ۔
لیکن وہ مجھ سے زیادہ خوبصورت تو نہیں۔ میں کیوں اتنی خوفزدہ ہو رہی ہو وہ بھی اس لڑکی کے لیے ۔جسے صرف ڈیول بچانا چاہتا ہے ۔شاید میں کچھ زیادہ ہی سوچ رہی ہوں۔ وہ لڑکی تو ویسے بھی کچھ ہی دنوں میں چلی جائے گی ۔
بس اس کے گھر والوں کے بارے میں پتہ لگنے کی دیر ہے اور ویسے بھی وہ لڑکی شادی شدہ ہے ڈیول کسی شادی شدہ لڑکی میں کبھی بھی دلچسپی نہیں لے گا ۔لیکن وہ لڑکی سارا دن اس کے گھر پہ کر کیا رہی ہوگی ۔
وہ ساتھ ساتھ تیز تیز چلتی ہال کے چکر کاٹ رہی تھی اور ساتھ ساتھ بڑبڑا رہی تھی ۔
چل کے دیکھ لیتے ہیں ۔شارف نے کہا ۔
تمہارا مطلب ہے ڈیول کے گھر چلتے ہیں ۔لیلٰی نے پوچھا۔
ہاں میرا مطلب ہے ڈیول کے گھر چلتے ہیں ہم ڈیول کو کہتے ہیں کہ آج ہم چاروں ساتھ ڈنر کریں گے اور ساتھ اس لڑکی کو بھی لے لیتے ہیں ۔یقین کرو ڈیول کا اس لڑکی کو بھوکا مارنے کا کوئی ارادہ نہیں ہوگا ۔
°°°°°°°°°
تم تینوں گاڑی میں بیٹھو میں تب تک اس کو لے کے آتا ہوں یارم کہہ کر جانے لگا لیکن لیلیٰ بھی جلدی سے گاڑی سے باہر نکلی.
ڈیول نہ جانے وہ لڑکی تیار ہونے میں کتنا ٹائم لگا ہے میرا خیال ہے ہمیں بھی اوپر ہی انتظار کرنا چاہیے ایسے گاڑی میں بیٹھے رہنا اچھا نہیں لگتا۔اپنی بات ختم کرکے اس نے فورا شارف کو اشارہ کیا جو اس کی ہاں میں ہاں ملانے لگا ۔
یارم ان کی بحث سنے بغیر ہی آگے نکل گیا وہ تینوں بھی اس کے پیچھے بھی آئے اس نے دروازہ کھٹکھٹایا جو اندر سے لاکڈ تھا .
روح تو جیسے اسی کے انتظار میں کھڑی تھی فورا دروازہ کھل گیا ۔
بنا پوچھے دروازہ کیوں کھولا تم نے؟ ہماری جگہ کوئی اور بھی ہو سکتا تھا آئندہ احتیاط کرنا یارم کا لہجہ ذرا سخت تھا ۔
جی مجھے لگا اب کون آئے گا آپ کے علاوہ اس لیے بنا پوچھے دروازہ کھول دیا وہ اپنی انگلیاں مروڑتے ہوئے بولی
ہاں ٹھیک ہے لیکن آئندہ احتیاط کرنا جلدی سے تیار ہو جاؤ ہم باہر جا رہے ہیں ڈنر کرنے۔یارم نے اپنے پیچھے کھڑے بندوں کو اتنی بھی اہمیت نہ دی کہ گھر کے اندر بلائے لیکن وہ اتنی بے مروت نہ تھی
کھانا تو میں نے بنا دیا تھا ۔میرا مطلب ہے آپ نے بتایا نہیں تھا کہ ہم شام میں کہیں باہر جانے والے ہیں اس لیے میں نے کھانا بنا دیا ۔وہ پریشانی سے بولی ۔
کوئی بات نہیں لڑکی وہ کھانا تم فریج میں رکھ دو ۔اور ہمارے ساتھ چلو خضر جلدی سے بولا
لیکن اس کی بات پر یارم نے گھور کر اسے دیکھا ۔
پہلی بات اس کا نام لڑکی نہیں روح نور ہے ۔دوسری بات اس نے کھانا بہت محنت سے بنایا ہےاور اب تم لوگ ڈنر یہی کرو گے ۔اور تیسری بات میں اپنی بات دہرانے کا عادی نہیں ہوں بس اتنا کہہ کر اندر چلا گیا اور وہ تینوں شرافت سے اس کے قدم کے ساتھ قدم ملاتے اندر آئے اور آ کر بیٹھ گئے ۔لیلیٰ کا تو مانو بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کچھ کر بیٹھے جب تک یہ تینوں یہی رہے یارم کمرے سے باہر نہ نکلا ۔
لیکن خضر اور شارف نے کے کھانے کی اتنی تعریف کی کہ شاید ہی کبھی زندگی میں کسی نے کی ہو ۔جبکہ لیلیٰ نے اپنا منہ بند ہی رکھا
پھر وہ تینوں چلے گئے توروح نے یارم کے کمرے کا دروازہ بجایا ۔
وہ تینوں چلے گئے۔۔۔۔؟؟ اس نے پوچھا
جی چلے گئے۔۔۔۔۔۔۔”
اچھا تم کھانا لگاؤ میں آرہا ہوں ۔یہ کہہ کر اسے یاد آیا تھا کہ وہ اس کی اصلی بیوی نہیں ہے ۔
جی وہ میں یہی تو بتانے آئی تھی ۔وہ کمرے کے اندر آگئی ۔
وہ لیپ ٹاپ پرکام کرنے میں مصروف تھا اسے ایک نظر دیکھا ۔وہ صبح والے لباس میں ہی تھی
کیا بتانے آئی تھی ۔۔۔؟یارم نے اسے نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے پوچھا ۔
وہ مجھے پتا نہیں تھا آپ کے دوست بھی کھانے پر آئیں گے تو جتنا کھانا میں نے بنایا تھا وہ ختم ہوگیا اب ہم دونوں کو بھوکا سونا پڑے گا ۔اس نے معصومیت سے کہا
دونوں کو مطلب تم نے بھی کھانا نہیں کھایا اس نے نفی میں سر ہلایا ۔
لڑکی تم کیا پاگل ہو کم ازکم خود تو کھا لیتی
وہ دن میں مجھے لگا شاید آپ واپس آئیں گے لیکن آپ نہیں آئے تو مجھے بھی خیال نہیں آیا کھانا کھانے کا لیکن ابھی بہت بھوک لگی ہے ۔معصومیت سی معصومیت تھی ۔
اور آپ اپنے دوست کے سامنے کہہ رہے تھے کہ میرا نام روح نور ہے اور خود مجھے لڑکی کہہ کے بلا رہے ہیں ۔اس نے مزید منہ پھلایا ۔
جاو تیار ہو جاؤ باہر چلتے ہیں کچھ کھاتے ہیں ۔اگر بات صرف اس کی اپنی ہوتی تو وہ رات بنا کھائے رہ لیتا لیکن یہ لڑکی اس کے گھر کی مہمان تھی آج نہیں تو کل اسے چلے جانا تھا اور سچ تھا وہ اسے بھوکا نہیں مار سکتا تھا اور دوپہر میں بھی اس نے کچھ نہیں کھایا تھا ۔
ارے تیار کیا ہونا ہے صرف عبایا ہی تو ڈالنا ہے ابھی دو منٹ میں ہوجائے گا ۔اپنے کہیں کہ مطابق وہ جلدی سے دوسرے کمرے میں گئی اور دو منٹ میں واپس آگئی ۔
چلیں۔ اس نے دروازے سے ذرا سا جھنک کر پوچھا ۔
چلیں۔ وہ اسی کے انداز میں بول کر باہر نکلا
ویسے میری کل والی بات پر عمل نہیں کیا آپ نے وہ اس کے ساتھ لفٹ کے اندر جاتی بولی ۔
کون سی بات۔۔۔؟ یارم نے پوچھا
ارے وہ صدقہ جاریہ والی بات ۔اس نے فوراً کہا ڈمپل ایک بار پھر سے ابھرا تھا لیکن اس بار اس نے چھپانے کی کوشش نہیں کی ۔

Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial