قسط 9
گاڑی میں وہ مسلسل اس سے کچھ نہ کچھ بات کر رہی تھی کبھی اس سے پوچھتی کہ اس کا پسند یدہ کلر کونسا ہے تو کبھی پوچھتی سے کھانے میں کیا پسند ہے ۔پہلے تو وہ اگنور کرتا رہا پھر کہا یہ سب کچھ تمہارے جاننے کے لئے نہیں ہے ۔
ارے ایسے کیسے میرے جاننے کے لئے نہیں ہے اگر مجھے آپ کی پسند نہ پسند معلوم ہی نہیں ہوگی تو کیسے آپ کی پسند پر چلوں گی ۔آپ مجھے بتا دیں آپ کو کھانے میں کیا پسند ہے میں آپ کی پسند کی ساری ڈشز بناؤں گی اور جو نہیں آتی وہ بھی سیکھ لوں گی .پر آپ کو ایک اور بات تو بتائی ہی نہیں آج نہ دوپہر میں تین عورتیں آئی تھیں۔ ہمارے گھر میں وہ کہہ رہی تھیں۔ کہ وہ ہمارے پڑوس سے ہیں ۔انہوں نے مجھے پارٹی پر بلایا ہے میں جاؤں کیا ۔۔۔؟ وہ تیز تیز بولتی اس سے پوچھنے لگی.
نہیں کہیں بھی جانے کی ضرورت نہیں ہے گھر پہ رہا کرو کوئی بھی ہو دروازہ مت کھولاکرو ۔یارم نے ایک ہی جملے میں جواب دیا ۔
کوئی نہیں نہ وہ اتنے پیار سے بلا رہی تھیں۔میرے خیال میں مجھے جاننا چاہیے اس طرح تو انہیں برا لگ سکتا ہے نہ ۔”
میں نے کہا تم کہیں نہیں جاؤگی اس بار یارم کے لہجے میں تھوڑی سی سختی تھی ۔وہی سختی جو گھرآنے پر بنا پوچھے دروازہ کھولنے پر کی تھی ۔
ٹھیک ہے میں نہیں جاؤں گی لیکن وہ آنٹیاں کہہ رہی تھیں وہاں میری عمر کے بھی لڑکیاں آئے گی ۔اور بتا رہی تھی کہ ہماری بلڈنگ میں کون کون سے لوگ اچھے نہیں ہیں اور ان سے بات مت کرنا ۔یارم کو جو لگا تھا اس پر سختی کرنے سے وہ بولنا بند کر دے گی اس کی غلط فہمی آگے دو منٹ میں ہی دور ہو چکی تھی ۔
تم کتنا بولتی ہولڑکی اتنا کیسے بول لیتی ہو یہ بھی نہیں پوچھ سکتا کہ تم کیا کھاتی ہو چونٹی جتنا تو کھاتی ہو تم ہڈیوں کا ڈھانچہ بھی تم سے زیادہ وزنی ہوتا ہوگا ۔اب تھوڑی دیر خاموش ہو کر بیٹھ جاؤ تاکہ میں سکون سے ڈرائیونگ کر سکوں ۔
ٹھیک ہے اب میں کچھ نہیں بولوں گی آپ سکون سے گاڑی چلائیں میں تو ویسے بھی کچھ نہیں بولتی ہوں ۔ گھرمیں مجھے کوئی نہیں بولنے دیتا تھا ماریا آپی مریم آپی تانیہ آپی وہ تو مجھے بات ہی نہیں کرنے دیتی تھی ۔ اور جب کوئی مہمان آتا تھا تو امی کہتی تھیں کہ یہ تو گونگی ہے ۔
لیکن فاطمہ بی بی کہتی تھیں تم اپنے شوہر سے باتیں کرنا بہت ساری ۔بولتے بولتے وہ ایک بار پھر سے شروع ہوگئی جب یارم نے اسے سخت نگاہوں سے گھورا
اچھا میں ابھی کچھ نہیں بولوں گی پکا وعدہ ۔اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے سیدھی بیٹھ گئی ۔
گڈ گرل ۔گھرجا کے جتنا مرضی بول لینا ۔ڈرائیونگ کے دوران مجھے بالکل بات سننا پسند نہیں ۔
اس کا اس طرح سے اداس ہو کر بیٹھنا اسے پسند نہیں آیا تھا اس لئے صفائی دینے لگا ۔
اس کے بات پر اس نے صرف گردن ہلائی بولی کچھ نہیں اور پھر سارے راستے خاموشی رہی
°°°°°°°°
لیلیٰ کا کلب آنے کا ارادہ تھا جو کینسل ہو گیا وہ سیدھی اپنے گھر میں آئی تھی اور اب دائیں سے بائیں گھوم رہی تھی وہ لڑکی یارم کے گھر پر اس طرح سے رہ رہی تھی جیسے اس کی اصلی بیوی ہو کیسے اپنی مرضی سے ہر طرف گھوم پھر رہی تھی اس کی ہمت کیسے ہوئی کھانا بنانے کی ۔یہ تو شکر تھا کہ یارم اسے کوئی اہمیت نہیں دے رہا تھا ان لوگوں کے آتے ہی یارم کمرے میں چلا گیا .
جبکہ خضر کے پوچھنے پر یارم نے اسے بتایا تھا کہ وہ دوسرے کمرے میں سوتی ہے یہ بات جان کر لیلیٰ کو بہت سکون ملا
تم میری جگہ کسی کو نہیں دوگے میں جانتی ہوں ڈیول تمہاری آخری منزل میں ہوں تمہیں مجھ تک ہی آنا ہوگا ۔وسکی کے گھونٹ برتی نشے کو اپنے اندر اتار رہی تھی
اس لڑکی کو جلد سے جلد یہاں سے ہٹانا ہوگا ۔
میں تو اس معصومہ سے ڈر رہی تھی ۔جس کو ڈیول نے دوسری بار دیکھنا بھی گوارا نہ کیا ۔
لیکن یہ لڑکی اس کا مجھے کچھ کرنا ہوگا ۔
مجھے اس لڑکی کے گھر والوں کے بارے میں جلدی سے جلدی پتہ کرنا ہوگا جتنا جلدی ہو سکے اسے ڈیول کی گھر سے نکالنا ہوگا ۔
°°°°°°°°
گاڑی آکر بلڈنگ کے باہر رکی ۔ساری ڈرائیونگ کے دوران وہ ایک لفظ بھی نہ بولی۔
تم چلو اوپر میں گاڑی پارک کر کے آتا ہوں اس نے روح کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
جبکہ روح دوسری طرف منہ پھیرے سیٹ سے سر ٹکائے بیٹھی تھی.
لڑکی میں تم سے بات کر رہا ہوں گاڑی سے نیچے اترو اور اوپر جاؤ ۔سنو میں تم سے۔۔۔” اس نے روح کا کندھا ہلا کر دیکھا تو وہ سو رہی تھی.
یا اللہ میں نے کیسے سوچ لیا یہ لڑکی میرے ایک بار کہنے کے بعد بات نہیں کرے گی ۔یہ سو رہی ہے اگر سو نہ رہی ہوئی ہوتی تو اب تک میرا دماغ کھا چکی ہوتی ۔
روح اٹھؤ اوپر جاؤ ۔اس نے ایک بار پھر سے اس کا کندھا ہلایا ۔۔لیکن وہ نہیں اٹھی۔
ایک پل کے لئے یارم کو اس کی نیند پر رشک آیا ایک دن بھی اگر یارم ایسی نیند لے لے تو اگلے دن صبح اس کی ڈیڈ بوڈی ملے ۔
گاڑی پارک کرنے کے لیے وہ اسے اپنے ساتھ ہی لے گیا ۔واپسی پر دوسری طرف سے آکر اسے اٹھانا چاہا لیکن پھر بھی وہ نہ اٹھی۔
اسے اس طرح بے خبر نیند سوتے ہوئے بے ساختہ اس کے گال پر ڈمپل نمایاں ہوا وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ صدقہ جاریہ والی بات یاد کرکے آج یہ ڈمپل اس نے کتنے لوگوں سے چھپایا تھا ۔
اسے یاد بھی نہیں تھا کہ روح کے آنے سے پہلے وہ کب آخری بار مسکرایا تھا ۔اس نے آہستہ سے روح کو اپنے بازوں میں اٹھایا اور ریموٹ سے گاڑی لاک کی ۔اسے لے کر لفٹ میں آیا ۔اور اپنے فلیٹ کا بٹن پریس کیا ۔
لیکن اگلے ہی پل نظر روح کے چہرے پر پڑی جہاں شرارتی سے مسکان کھلی تھی ۔
اس نے غور سے اس کے چہرے پر دیکھا جہاں وہ بار بار ایک آنکھ کھول کر اسے دیکھ رہی تھی لیکن پھر اسے بھی اندازہ ہوگیا کہ روح کی شرارت کو پکڑ چکا ہے ۔
میں تو ہڈیوں کے ڈھانچے سے بھی گئی گزری ہوں اس سے بھی کم وزن ہے میرا اب مزا آیا ۔۔۔؟ اور شرارت سے چہرے چمکا کے بولی
اس کے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر ایک بار پھر سے اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔لیکن اسے نیچے نہیں اتارا
آپ کا نام کیا ہے ۔۔؟ اچانک سوال پر یارم نے اس کا چہرا دیکھا ۔
کیوں نکاح نامے پر نام نہیں دیکھا تھا وہ یہ سوال پوچھنا نہیں چاہتا تھا پھر نہ جانے کیا سوچ کر پوچھ لیا ۔
ہائے تب تو مجھے ہوش ہی نہیں تھا نام دیکھنے کا ۔تب تو یہی سوچ سوچ کے میں پریشان ہو رہی تھی کہ مجھے اپنا گھر چھوڑ دینا پڑے گا ۔
آپ کے دوست آپ کو وہ کیا بولتے ہیں ہاں ڈیول یہ کیسا عجیب سا نام ہے ۔۔۔؟ پہلے تو میں نے سوچا پھر سوچا ہو سکتا ہے آپ کا نک نیم ہو ۔ایسا عجیب سانام تو کوئی والدین نہیں رکھتے ۔بتائیں نا یہی نام ہے آپ کا ڈیول ۔۔۔؟
ہاں یہی نام ہے میرا ۔ اب بالکل خاموش ہو جاؤ نہیں تو یہی پھینک دوں گا
نہیں پھینکنے کی ضرورت نہیں ہے آپ مجھے نیچے اتار دیں ۔وہ جلدی سے بولی ۔
کیونکہ اپنی شرارت کے وقت اسے یاد نہیں آیا تھا کہ وہ اس کی باہوں میں کتنا شرمندہ ہوگی وہ تو بس اپنا بدلہ لینا چاہتی تھی بس اسے بتانا چاہتی تھی کہ وہ ہڈیوں کا ڈھانچا نہیں ہے ۔
لیکن تب اس بات کا احساس نہیں تھا کہ وہ اس کے اتنا قریب ہوگا ۔
اس شخص کی کچھ پل کی قربت اسے ہوش حواس سے بیگانہ کر رہی تھی ۔ یقیناً یہ شخص اس کا ہوگیا تو وہ تو مر ہی جائے گی ۔
یارم نے نہ تو اسے نیچے اتارا ۔نہ ہی اس کی شرمانے کا کوئی اثر لیا ۔اس نے گھر کا دروازہ کھولا اور اسے آکے صوفے پر بٹھا دیا
یہاں بیٹھو آرام سے اور میری بات سنو وہ اس کے سامنے آ بیٹھا ۔کچھ کھایا پیا کرو ورنہ جتنا تمہارا وزن ہے نا ہوا سے اڑ جاؤ گی تم اس طرح سے اکیلی باہر مت نکلنا ۔یہ نہ ہو کے ہوا تمہیں اڑا کے کہیں لے جائے اور میں تمہیں ڈھونڈ بھی نہ پاؤں گا اپنا ڈمپل چھپاتا وہ اٹھااورکچن میں آیا ۔
دو کپ چائے بنائی اور ایک کپ لا کر اس کے سامنے رکھا وہ جو حیران اور پریشان سوچ رہی تھی کہ وہ اس سے اپنا بدلہ لے چکی ہے ۔سب دھرا کا دھرا رہ گیا وہ تو ابھی بھی اسے ہڈیوں کا ڈھانچہ کہہ رہا تھا بلکہ اب تو ہوا میں اکیلے نکلنے سے بھی منع کر رہا تھا ۔
اللہ کرے میں اتنی موٹی ہوجاؤں کہ آپ میری ایک پھونک سے اڑ جائیں۔
کیا میں اسے بددعا سمجھوں وہ جو آرام سے ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھا اسے دیکھ رہا تھاپرسکون انداز میں بولا ۔
نہیں میں تو کسی کو بددعا نہیں دیتی ”
بہت اچھا کرتی ہو۔ اب جاؤ تم روم میں آرام کرو۔ اسے حکم دے کر اس نے اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا ۔ وہ اس زندگی سے باہر آیا تھا جس میں وہ جینا نہیں چاہتا تھا ۔
وہ جانتا تھا ایک سیدھی سادی زندگی اس کی منتظر نہیں ہے ۔وہ ایک ڈان ہے گناہوں کا بادشاہ ۔ایک ڈیول شیطان ۔یہی ہے اس کی حقیقت ۔وہ عام لوگوں کی طرح ایک عام زندگی نہیں گزار سکتا ۔
یہ لڑکی جو اتنے سالوں کے بعد اسے یہ بتانے آئی تھی کہ وہ انسان ہے ہنس بول سکتا ہے کسی اور کی امانت تھی کسی اور کی بیوی ۔ وہ کیوں اس کی طرف کھینچتا جا رہا تھا ۔
کیوں وہ اس سے دور نہیں جا پا رہا تھا وہ اس سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا ۔اس کی کوئی بات سننا نہیں چاہتا تھا ۔
لیکن پھر بھی وہ یہ سب کچھ کر رہا تھا ۔
آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں ۔۔۔؟ وہ اپنے لیپ ٹاپ پے نظریں جمائے سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا جب اسے روح کی آواز سنائی دی ۔
نہیں ۔۔اس نے بڑی صفائی سے انکار کیا ۔پھر اس کے چہرے کے تاثرات دیکھنے لگا ۔
اب میں ہر نماز کے بعد دعا کروں گی کہ آپ کو مجھ سے محبت ہو جائے وہ اداسی سے بولی شاید اس کے رویے سے بھی اسےاندازہ ہو چکا تھا کہ وہ سے محبت نہیں کرتا
مت کرنا روح ایسا غلطی سے بھی مت کرنا ۔کیونکہ اگر مجھے تم سے محبت ہو گئی نہ تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں مجھ سے الگ نہیں کر پائے گی تم خود بھی نہیں ۔ اگر مجھے تم سے محبت ہو گئی نہ تمہاری زندگی میں سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں رہے گا ۔تم ہر روز پچھتاوگی مجھ سے محبت کرنے پر لیکن تمہارے پاس رائے فرار نہیں ہوگا ۔ وہ بولتے بولتے صوفے سے اٹھا اور دوسرے کمرے میں چلا گیا ۔اندر سے زور سے دروازہ بند کرنے کی آواز آئی تھی ۔
جبکہ کمرے کے باہر روح ساکت کھڑی اس کے لفظوں کو معنی دے رہی تھی