قسط 4
ہم نے جس آدمی کو گرفتار کیا ہے وہ اُسی گروپ سے تعلق رکھتا ہے اُس سے پوچھ تاچھ چل رہی ہے لیکن اتنا تو طے ہے کے وہ لوگ جانتے ہے روحی یہاں ہے۔۔۔۔۔۔
زار باہر کھڑا كہنی جیپ کے گیٹ پر رکھے بات کر رہا تھا
لیکن تم نے اُسے لاکپ میں کیوں رکھا ہے زار۔۔۔۔۔۔
کمشنر نے فون اسپیکر پے رکھا تھا عزیز اُن کی بات پر حیرت سے اُنھیں دیکھنے لگے
کیا ۔۔۔اُس نے میری بیٹی کو لوکپ میں رکھا ہے
اُن کے ہاتھ سے موبائل لیا
آفیسر تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بیٹی کو مجرموں کے طرح جیل میں بند کرنے کی۔۔۔۔۔
سر اُسےسیف رکھنے کے لیے مجھے جو صحیح لگا میں نے وہیں کیا کیوں کے اگر میں اُسے بتا دیتا کے میں اُسے سیکیور کرنے کے لیے آیا ہوں تو وہ دوبارہ بھاگنے کی کوشش کرتی جس سے پروبلم ہو سکتی تھی۔۔۔۔۔۔
زار نے صفائی دیتے ہوئے کہا
سر میں نے ہی اُسے کہا تھا روحی سے یہ بات چھپانے کے لیے۔۔۔۔۔
کمشنر نے زار کی سائڈ لیتے ہوئے کہا
جو بھی ہو ابھی کے ابھی میری بیٹی کو اُس جگہ سے نکالو وہ وہاں نہیں رہے گی سمجھے
عزیز صاحب غصے سے بولے اور وہ لب بھینچ کر رہ گیا
زار اُسے کسی ریزوٹ یا اور کوئی سیف جگہ لے جاؤ ۔۔۔۔۔کچھ بھی بہانہ کرکے ۔۔۔۔ٹھیک ہے
کمشنر نے صلاح دی
اوکے سر۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے فون بند کر دیا اور جیپ کے ٹائر پر لات ماری
ان لوگوں کی یہی پروبلم۔۔۔۔۔۔کسی بھی جگہ شان مارنے سے باز نہیں آتے۔۔۔۔۔۔بیٹی کی جان سے زیادہ اس آدمی کے لیے اُس کا کنفرٹ ضروری ہے ۔۔۔
وہ غصے سے بڑبڑاتا ہوا اندر آیا روحی کے سیل کا دروازہ کھولا وہ بینچ اور پیر سمیٹے گہری نیند میں سو رہی تھی
اے۔۔۔۔۔۔اٹھو۔۔۔۔۔۔
زار نے اُسے زور سے آواز دی لیکن وہ ہلی بھی نہیں
Get up I said۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کی دفعہ وہ اور زور سے بولا تھا لیکن وہ نیند کی بڑی پکی تھی زار نے اُس کے آگے ہاتھ بڑھا کر چہرے کو چھونا چاہا لیکن رک گیا اور سیدھا ہو کر باہر نکل گیا
اُسے جگا کر باہر لے آؤ
باہر بیٹھی لیڈی کانسٹیبل کو کہتا ہوا وہ خود باہر نکل گیا دو منٹ بعد کانسٹیبل اُسے لے کر وہاں چلی آئی لیکن وہ اب بھی نیند میں تھی آنکھیں بند کئے چل رہی تھی اُسے لا کر زار کے سامنے کھڑا کیا اور اُسے چھوڑا تو وہ زار کے اوپر گرنے لگی زار نے اُسے پکڑ کے سیدھا کیا اور جھنجھوڑا
سیدھی کھڑی رہو۔۔۔۔۔۔
اُس نے آنکھیں جھپکتے ہوئے کھولنے کی کوشش کی اور اُنھیں رگڑتے ہوئے آس پاس دیکھا خود کو جیل سے باہر دیکھ کے نیند اُڑ گئی اور مسکراہٹ آگئی
تم نے مجھے چھوڑ دیا۔۔۔۔
وہ خوش ہوئے بولی زار نے اُس کا موبائل اُس کی جانب بڑھایا
۔پتہ چل گیا نا میں چور نہیں ہوں۔۔۔۔میں نے تو پہلے ہی کہا تھا۔۔۔۔۔۔۔بہت غصّہ آرہا تھا مجھے تم پر لیکن چلو معاف کے دیا کیا یاد کروگے
اُس نے احسان کرنے والے انداز کہا زار نے اُس کی کسی بھی بات پر غور نہیں کیا آکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور اُسے بیٹھنے کا اشارہ کیا
پر آئندہ کسی کو گرفتار کرنے سے پہلے تفتیش ضرور کر لینا کے وہ مجرم ہے بھی یا نہیں۔۔۔۔کیوں کےسب میری طرح نہیں ہوتے
وہ آکر سیٹ پر بیٹھ گئی
ہاتھ دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زار نے کہا تو اُس نے حیرت سے کندھے اچکا کر ہاتھ آگے بڑھایا زار نے اُس کے ہاتھ میں ہتکڑی ڈال کر دوسرا سرا جیپ کے دروازے سے اٹکا دیا
یہ کیا کر رہے ہو تم ۔۔۔۔ ہینڈ کف کیوں لگا رہے ہو میرے ہاتھ میں۔۔۔۔۔۔
تاکہ تم دوبارہ بھاگنے کی کوشش نہ کرو
زار نے سیدھے ہوتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی
مطلب تم مجھے ریلیز نہیں کر رہے ہو۔۔۔۔۔
روحی بے یقینی سے اُسے دیکھنے لگی
نہیں۔۔۔۔۔۔یہ محض تمہاری خوش فہمی ہے۔۔۔۔
وہ سامنے دیکھتے ہوئے بولا اور روحی نے رونی شکل بنائیے سامنے دیکھا
کہاں لے جارہے ہو مجھے۔۔۔۔۔
صبح کے پانچ بج رہے تھے اُجالا پھیلنا ابھی شروع ہی ہوا تھا سنسان سڑک پر گاڑی تیزی سے دوڑ رہی تھی
سپیشل سیل میں۔۔۔۔۔۔۔
اب ایسا بھی کونسا میں نے ڈاکہ ڈال دیا ہے جو یہ سب کر رہے ہو۔۔۔۔میں نے تو وہ چوری بھی نہیں کی
روحی نے بیزاری سے کہا اور سیٹ سے سر ٹکا دیا
زار کا دھیان سامنے لگے شیشے میں تھا جہاں وہ پچھلے موڈ سے ایک گاڑی کو اپنے پیچھے آتے دیکھ رہا تھا ۔۔۔صبح کے پانچ بج رہے تھے اور اُس گاڑی کا اپنے پیچھے پیچھے آنا زار کو چوکنا کر گیا اُس نے جیپ کی سپیڈ بڑھا دی۔۔۔اُس کا شک یقین میں بدلہ جب اُس کے جنگل کی جانب رخ موڑنے پر وہ گاڑی بھی اسی سمت مڑی وہ بغیر سوچے گاڑی کو آگے بڑھاتا رہا اُس گاڑی کی جانب سے گولی چلی جو کے جیپ کے ٹائر کو پنکچر کر گئی روحی نے گھبرا کر زار کو دیکھا جیب کا توازن بگڑا تھا اور وہ بری طرح ڈگمگاتی رخ موڑ گئی شاید پیڑ سے ٹکرائی لیکن زار نے سنبھال کر رخ بدلہ۔۔۔۔۔روحی خوفزدہ ہو کر کبھی پیچھے نقاب پوشوں کو کبھی زار کو دیکھتی
یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے گھبرا کے زار سے پوچھا
بے وقوف لڑکی تمہیں اب بھی سمجھ نہیں آرہا کے کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔یہ لوگ تمہارے پیچھے ہے۔۔۔ ۔اسی ایڈونچر کے لیے گھر سے بھاگی تھی نا تم ۔۔۔۔۔۔۔
زار نے دھاڑتے ہوئے کہا دوبارہ گولیاں چلنے لگی ایک کے بعد ایک
نیچے جھکو۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے روحی کو خود نیچے دھکیلتے ہوئے کہا دوسری جانب سے وقفے وقفے سے گولیاں چل رہی تھی۔۔۔زار نے اپنی گن نکالتے ہوئے ایک ہاتھ سے اسٹیرنگ سنبھال کر نشانہ لگایا سامنے والی گاڑی کے ٹائر پر گولی لگتی ہی گاڑی ڈگمگا کر دوسری جانب پلٹی زار نے گاڑی کو بریک لگایا اور روحی کی جانب آیا
باہر آؤ۔۔۔۔۔۔
اُس نے دروازہ کھول کر کہا اور جیپ میں رکھی دوسری گن بھی اٹھا کر پاس رکھ لی روحی گاڑی سے اتر گئی لیکن اُس کا ہاتھ گاڑی کے دروازے سے باندھا تھا زار نے شرٹ کی جیب کو ہاتھ لگایا جس میں اُس کی چابی تھی وہ جیب خالی تھی شاید چابی گر چکی تھی زار نے پوری طاقت سے اُسے کھینچا لیکن وہ توڑ پانا نا ممکن تھا
آنکھیں بند کرو۔۔۔۔۔۔
زار کے کہتے ہی اُس نے جھٹ سے آنکھیں بند کر لی زار نے چین پر نشانہ لگا کر گولی چلائی اور اُسے بیچ سے توڑ دیا روحی کا ہاتھ پکڑ کر کر اُسے لیے اندر کی جانب بھاگنے لگا نقاب پوش بھی اُن دونوں کو ڈھونڈھتے آرہے تھے زار ایک بڑا سا پیڑ دیکھ کر روحی کو لیے اُس کے پیچھے ہو گیا نقاب پوش اُن کی جیپ کو دیکھ کر وہیں آس پاس اُنھیں ڈھونڈھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔زار روحی کو پیڑ سے لگائے خود سامنے کھڑا وقفے وقفے سے اُن پر نظر ڈال رہا تھا اُن کی جانب بڑھتا ایک شخص کافی قریب پہنچ گیا تھا جب زار نے اُسکے سامنے آکر اُس پر گولی چلائی جو اُس کے پیٹ میں لگی آواز سن کر اُس کے ساتھی اُس جانب دوڑے زار روحی کا ہاتھ پکڑے بھاگتے ہوئے تھوڑے فاصلے پر ایک اور پیڑ دیکھ کر وہاں ہو گیا
وہ دونوں یہیں ہے ڈھونڈھو اُنھیں۔۔۔۔۔
اب وہ بہت ہوشیار ہو کر قدم رکھتے ہوئے اُنھیں ڈھونڈھ رہے تھے ایک شخص اُس پیڑ کے بہت قریب اچکا تھا اور اُس کے قدموں کی چاپ سن کر روحی نے زار کے شولڈر پر ہاتھ رکھتے ہوئی کچھ کہنا چاہا لیکن زار نے اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر سختی سے دبایا اور گن ہونٹوں سے لگا کر چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔۔جیسے ہی وہ شخص اُس پیڑ کے برابر میں آیا اُسے کوئی بھی موقع دیے بغیر زار نے اُس کے سر پر گولی چلائی وہ زمین پر گرا اور روحی چینخ پڑی زار اُس کا ہاتھ پکڑے اوپر ڈھلان کی جانب دوڑنے لگا اُن لوگوں نے اُنھیں دیکھا اور خود بھی پیچھے بھاگے روحی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ دوڑتا رہا کافی دور تک ایک میدان میں پہنچ کے وہ رک گئے دوسری طرف ندی تھی آگے جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا وہ سوچ رہا تھا کے کیا کی روحی نے اسکا بازو پکڑا
مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ رونے لگی تھی
Relax۔۔۔relax
زار کی سانسیں بہت تیزی سے چل رہی تھی وہ اِدھر ادھر دیکھتے ہوئے اُس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا ایک طرف پہاڑ کی جانب بڑے بڑے پتھر تھے دوسری طرف ندی تیسری طرف جنگل اور چوتھی جانب میدان سے آگے بڑھتے دشمن وہ روحی کا ہاتھ پکڑے پہاڑ کی جانب پتھر کے پیچھے ہو کے چھپ گیا
نیچے بیٹھ جاؤ۔۔۔۔۔۔
اُس نے روحی سے کہا اور اوپر سے اُن لوگوں کو آتے ہوئے دیکھا وہ لوگ سات تھے اُن سے مقابلے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا اُس نے دوسری گن نکال کر اُسے لوڈ کیا اور روحی کے سامنے پنجوں پر بیٹھتے ہوئے اُسے مخاطب کیا
یہیں رہنا۔۔۔۔۔۔چاہے کچھ بھی ہو۔۔۔۔باہر مت نکلنا جب تک میں نا کہو اوکے۔۔۔۔۔
روحی کو سمجھاتے ہوئے بولا اُس نے سر اثبات میں ہلا دیا زار نے کھڑے ہو کر اُنھیں دیکھا جو کافی قریب آگئے تھے اور اُنھیں تلاش رہے تھا زار ایک دم سے باہر آیا اور ایک کے بعد بنا رکے فائر کرتا رہا چار لوگ ہی ختم ہوئے تھے کے گولیاں ختم ہو گئی وہ جھنجھلا کر واپس پتھر کے پیچھے ہوا
شٹ۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے جھنجھلا کر پتھر پر ہاتھ مارا تین گولیاں اور ہوتی تو اچھا ہوتا
اب کیا کریگا تو۔۔۔۔چل سیدھی طرح باہر آ
ایک شخص آگے بڑھتا ہوا بولا زار نے روحی کا ہاتھ پکڑا اور سامنے آیا وہ دونوں اُس شخص کے نشان پر تھے
لڑکی کو ہمارے حوالے کردے
وہ اُس کے سر پر بندوق تانے بولا زار نے روحی کا ہاتھ انگلیوں میں اُنگلیاں پھنساتے ہوئے مضبوطی سے پکڑا اور آگے بڑھا لیکن دو قدم آگے بڑھتے ہی پلٹ کر تیزی سے پیچھے کی طرف دوڑتے ہوئے اُسے لیے ندی میں چھلانگ لگا دی وہ لوگ سمجھ پاتے اُس کے پہلے یہ ہو چکا تھا اور ہزاروں فٹ وہ نیچے ندی میں گرنے لگے تھے روحی کی چینخ اُس سنسان جگہ میں گونج رہی تھی