ست رنگی عشق میرا

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 5

اُن دونوں کے گرتے ہی ایک نقاب پوش نے گولی چلانے کی کوشش کی لیکن دوسرے نے اُسے روک دیا
باس کو وہ لڑکی زندہ چاہیے۔۔۔۔۔۔ چلو یہاں سے
وہ لوگ جانے کے لیے پلٹے تب ایک اور گاڑی آکر وہاں رکی
کیا ہوا کہاں ہے وہ دونوں۔۔۔۔۔۔
اُس میں سے اُن کا باس شیرا اُتر کر باہر آیا اور ساتھ اُس کے چھ سات ساتھی
وہ دونوں یھاں سے نیچے کود گئے باس۔۔۔۔۔
شاید مر گئے ہونگے اب تک۔۔۔۔۔
دوسرے والے نے کہا تو شیرا نے اُس کا کالر پکڑ کے کھینچا
چپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لڑکی نہیں مر سکتی۔۔۔۔۔وہ میرے بھائی کی آزادی کی سیڑھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔جا کر ڈھونڈھو اُسے۔۔۔۔۔۔
اُس کا ملنا بہت ضروری ہے۔۔۔۔۔
وہ دھاڑا تھا ۔۔۔۔
ندی کے آس پاس کے سارے علاقے چھان مارو جب تک وہ دونوں مل نہیں جاتے۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے ایک ایک کو دیکھتے ہوئے کہا اور واپس گاڑی میں بیٹھ گیا
💜💜💜💜💜💜💜
پانی کی رفتار اُنھیں تقریبا ایک گھنٹے تک ساتھ بہاتی رہی روحی بیہوش تھی اور زار نے اُسے خود سے لگائے رکھا تھا لیکن پانی کی رفتار اتنی تیز تھی کے وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا نا اُس سے نکل سکتا تھا نہ مخالف سمت تیر سکتا تھا طوفان کی طرح بہتے پانی میں بس خود کو اور روحی کو ڈوبنے سے بچا رہا تھا اور سانس لینے کی کوشش کر رہا تھا ایک گھنٹے بعد اُس نے ندی کی رفتار کو دھیمے محسوس کیا شاید وہ ڈھلان تھی جہاں ندی کا پانی گر کر دھیما ہو رہا تھا اُس نے ہاتھ چلاتے ہوئے خود کو اور روحی کو کنارے تک پہنچایا کنارے پر پہنچتے ہی اُس کے قریب بے سود ہو کے زمین پر گر گیا اور تیز تیز سانسیں لینے لگا ہاتھ پیر بے جان محسوس ہو رہے تھے لیکن روحی کا خیال آتے ہے اُن میں جان آئی اور فوراً اٹھا روحی کا سفید پڑتا چہرہ تھپتھپایا
روحی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھیں کھولو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کرتے ہوئے اپنی سانسوں کو ہموار کرنے کی کوشش کی
اُس کے گلے پر دو اُنگلیاں رکھ کر اُس کی شہ رگ کو محسوس کرنے کی کوشش کی جو بہت ہی مدھم چل رہی تھی دونوں ہاتھوں کو ملاکر روحی کے پیٹ پر رکھتے ہوئے ہلکے ہلکے سے دبایا لیکن کوئی اثر نہیں ہوا جھک کر اُس کے گلے کے نیچے سر رکھتے ہوئے دھڑکن سننے کی کوشش کی جو بہت ہی دھیرے دھیرے چل رہی تھی سیدھا ہو کر پریشانی سے ادھر اُدھر دیکھا شاید پانی اندر جانے کی وجہ سے وہ سانس نہیں لے پا رہی تھی اُسے آکسیجن کی ضرورت تھی زار نے اطراف میں نظر ڈالی گھنا جنگل تھا کسی بھی طرح کی مدد ملنا نا ممکن تھا اس نے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک گہری سانس لی اور مصنوعی سانس فراہم کرنے کے ارادے سے اس کے اوپر جھکا لیکن ایک جھجھک نے اُسے رکنے پر مجبور کیا تھا وہ قریب سے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کے کرے یا نا کرے لیکن پھر اس خیال کو یہ سوچ کر جھٹکا کے اس کی جان بچانا زیادہ ضروری ہے وہ اپنی سوچ پر عمل کرنے ہی والا ہی تھا کے اچانک روحی کے کھانسنے سے اس کے منہ سے پانی نکل کر زار کے چہرے پر اُڑا اس نے آنکھیں بند کرکے گندی سے شکل بنائی اور پیچھے ہوا چہرے کو آستین کے کف سے رگڑتے ہوئے روحی کو پلٹ کر اوندھا کیا اور اس کی بیک کو دبانے لگا جس سے روحی کے منہ سے پانی نکلنے لگا تقریباً پانچ منٹ تک پھر پیچھے ہوا روحی بے ترتیب سانسیں لیتے ہوئے سیدھی ہوئی اور آنکھیں کھول کر اُسے دیکھا زار کی جان میں جان آئی اور اس نے زمین پر گرتے ہوئے گہری سانس لی
تم ٹھیک ہو۔۔۔۔
وہ اُسے طرح اوپر دیکھتے ہوئے لیٹی رہی زار نے اس کی جانب دیکھ کے کہا
میں جنت میں ہوں یا جہنم میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دھیمی آواز میں بولی زار بھی آسمان کی جانب دیکھنے لگا
ابھی تک دنیا میں ہو مری نہیں تم۔۔۔۔۔۔
تھینک گاڑ جان بچ گئی
وہاں سے تو بچ گئی لیکن یہاں سے بچنا ذرا مشکل ہے
وہ اٹھ کر دونوں ہاتھ پیچھے ٹکائے بیٹھتے ہوئے بولا روحی جھٹ سے اٹھ کر بیٹھ گئی اور نظریں گھما کر دیکھا جنگل اور ندی صرف دو ہے چیزیں سمجھ آئی اُسے
یہ کونسی جگہ ہے۔۔۔۔۔
ہے تو جنگل پر کونسا یہ نہیں پتہ۔۔۔۔شاید افریقہ کا جنگل ہے کیوں کہ اتنے گھنے تو وہیں کے جنگل ہوتے ہیں
وہ ہاتھ جھٹکتے ہوئے اٹھ گیا اور ندی کے صاف پانی سے چہرہ دھو کر بالوں پر ہاتھ پھیرا
اب ہم کیسے نکلے گے یہاں سے
وہ اٹھ کے کھڑی اب بھی ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی جہاں اُسے کوئی جاندار نظر نہیں آرہا تھا
پتہ نہیں۔۔۔۔۔۔
زار نے کندھے اچکا کر کہا تو وہ اُسے حیرت سے دیکھنے لگی
تو پھر کودے کیوں تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر نہیں کودتا تو تمہارے بھیا لوگ ہماری بارات نکال دیتے۔۔۔۔
اُس نے جھک کر اپنے جینز کے پائنچوں کو ایک بالش اوپر تک فولڈ کیا روحی پریشان سے شکل بنائے کبھی اُسے اور کبھی اُس جنگل کو دیکھ رہی تھی زار نے اپنی شرٹ اُتار کر اُسے زور زور سے جھٹکتے ہوئے پانی نکالتے ہوئے آگے بڑھتا رہا اچانک اُس کا پیر وہاں کی چکنی زمین پر پھسلا اور وہ پیٹھ کے بل زمین پر گرا روحی اُس کی حالت پر کھل کر ہنسنے لگی اور وہ اُسے گھورتا ہوا اٹھ کر کھڑا ہوا مگر روحی کی ہنسی تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی زار نے اُسے اتنا غصے سے دیکھا کے وہ منہ زبردستی بند کرنے پر مجبور ہوئی
پتہ ہے یہ سب تمہاری وجہ سے ہو رہا ہے۔۔۔تمہاری ایک چھوٹی سی بے وقوفی کی وجہ سے ۔۔۔۔نا تم گھر سے بھاگتی نا ہم یہاں پھنستے
وہ شرٹ دوبارہ پہنتے ہوئے غصے سے بولا
تم اتنا اوور ری ایکٹ کیوں کر رہے ہو اتنی سی بات پر
روحی نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا
اتنی سی بات۔۔۔۔۔۔
وہ اُس کی بات دوہراتے ہوئے اُس کے سامنے آئی
سریسلی۔۔۔۔یہ اتنی سی بات لگ رہی ہے تمہیں
اُس کی آنکھیں میں سنجیدگی اور چہرے غصّہ تھا
اور نہیں تو کیا۔۔۔۔وہاں تو اتنے سارے آدمیوں کا اکیلا ہی سامنا کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔ تب تو نہیں ڈرے تم ۔۔۔اور اب ذرا رستہ بھٹکنے پر اتنا پریشان ہو رہے ہو
کیوں کے وہ میرا روز کا کام ہے میں ایسے لوگوں سے ہر دوسرے دن نپٹتا رہتا ہوں۔۔۔۔۔
لیکن میں انیک-سیمنڈر نہیں ہوں جو دنیا کے کسی بھی کونے سے باہر نکلنے کا راستہ بنا لوں
زار نے اُس کو دیکھتے ہوئے کہا اور پلٹ کر ایک گہری سانس لی
ویسے بھی میں یہاں بھٹکنے ہ سے زیادہ اپنی ماں کے بارے میں سوچ کر پریشان ہوں اگر اُنہیں میری گمشدگی کا پتہ چلا تو وہ رو رو کر پورا محلہ جمع کر لیگی
وہ خود کلامی کرتے ہوئے بولا
تمہاری ماں بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روحی نے حیرت سے آنکھیں کھول کر پوچھا اُس نے روحی کو ایسے دیکھا جیسے اُس کی دماغی حالت پر شبہ ہو
نہیں میری ماں کیسے ہو سکتی ہے میں تو دھرتی پُتر ہوں نا دھرتی پھاڑ کر نکلا ہوں۔۔۔۔۔اسٹوپڈ
وہ جل کر بولا
اچھا ٹھیک ہے نا اتنا بھڑک کیا رہے ہو ۔۔۔۔کونسا ہم کسی اور پلانیٹ پر آگئے ہیں جنگل میں ہی تو ہے ۔۔۔۔نکل جائیںگے یہاں سے
روحی نے اُس کے انداز پر خوفزدہ ہوتے ہوئے کہا
actually ۔۔ you are right
وہ اُس کے قریب آیا
تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تم یہاں بیٹھ کر اس جنگل لائف کو انجوائے کرو۔۔۔۔۔اور جب تمہارا ایڈونچر ختم ہو جائے تو اپنے دادا جی کو فون کر دینا وہ تمہارے لیے پلین بھیج دے گے
پریشان ہونے کی ضرورت تو مجھے ہے میں تو ایک نارمل انسان ہوں نا مجھے یھاں سے نکلنے کے لیے محنت تو کرنی ہی پڑےگی
اسلئے میں جا کر باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈھتا ہوں اور تم یہاں اپنے دادا جی کے پلین کا ویٹ کرو اوکے۔۔۔۔۔۔بائے
وہ اُس کی بات پر دانت پیستے ہوئے کہتا جانے والے راستے پر پلٹا
رکو۔۔۔۔۔۔۔۔
روحی نے آگے بڑھ کر اُس کا بازو پکڑ لیا زار نے پہلے اپنے بازو کو پھر اُسے دیکھا تو اُس نے فوراً ہاتھ ہٹایا
میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی۔۔۔۔۔
وہ بے چاری سے شکل بنائیے بولی زار نے بنا کچھ بولے رخ جنگل کی جانب کر لیا
افف ۔۔۔۔۔۔۔
زار نے اُس کی آواز پر پلٹ کر دیکھا وہ اپنے پیروں کو دیکھ رہی تھی بنا جوتوں کے چلنے میں اُسے تکلیف ہو رہی تھی
مجھ سے چلا نہیں جا رہا بہت چبھ رہا ہے پیر میں
وہ پریشانی سے بولی زار نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے جوتے اتار کر اُس کے آگے رکھے اور خود ننگے پیر چلنے لگا روحی مسکراتے ہوئے اُس کے جوتے پھن لیے اور اُس کے پیچھے چل دی
💜💜💜💜
جواب دو کہاں گیا وہ لڑکا میری بیٹی کو لے کر
عزیز مرزا روحی کو لے کر بہت پریشان تھے اور کمشنر پر غصّہ نکال رہے تھے
سر۔۔۔ اُس کی جیپ ہمیں جہاں ملی ہے ہم لوگ اُس جگہ کی چھان بین کر رہے ہیں وہاں کچھ ڈیڈ باڈیز ملی ہے ہو سکتا ہے شاید زار روحی کو کسی سیف جگہ لے گیا ہوگا آپ پریشان نا ہو
ایسی کونسی جگہ لے گیا ہے وہ کے خبر بھی نہیں دے سکتا۔۔۔۔۔۔ چار گھنٹے ہو گئے میری بیٹی کا کوئی پتہ نہیں اور تم کہہ رہے ہو کے میں پریشان نا ہوں
سر زار بہت قابل اور ایماندار افسر ہے مجھے پورا یقین ہے اُس پر۔۔۔۔۔۔
کمشنر تم اُس لڑکے کی تعریفیں کرنے کی بجائے اگر میری بیٹی کو ڈھونڈھو گے تو مجھے زیادہ خوشی ہوگی
اُنہوں نے بات کاٹ کر کوفت زدہ لہجے میں کہا
يس سر
کمشنر جواب دے کے وہاں سے نکل گئے
💜💜💜💜💜💜💜💜
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial