قسط 7
جب وہ واپس آیا اُس کے ہاتھ میں دو چھوٹے چھوٹے تربوز تھے
واؤ تم واٹر میلن خرید کر لائے ہو۔۔۔۔
روحی خوش ہوتے ہوئے بولی زار نے اُسے سنجیدگی سے دیکھا
خرید کر۔۔۔۔۔۔۔
اُس کے الفاظ کو دہرایا
ارے ہاں۔۔۔۔۔۔خرید کر کیسے لا سکتے ہو ۔۔۔۔۔۔مطلب پیڑ سے توڑ کے لائے ہو
وہ گھبرا کر بولی
پیڑ سے کیوں پودے سے کہہ لو نا ۔۔۔۔۔۔منسٹر کی بیٹی ہو اس لیے جو منہ میں آیا بکتی جاؤ۔۔۔۔کون روک سکتا ہے تمہیں
وہ نائف نکال کے زمین پر بیٹھتے ہوئے بولا اور تربوز کے دو حصے کرکے بیچ میں بہت سارے کٹس لگا دیئے اور روحی کے ہاتھ میں دیا روحی نے ایک ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہی برا سا منہ بنایا بلکل پھیکا سا تھا جس سے اُس کی بھوک مر گئی
یہ جنگلی پھل ہے اس لیے شاید اتنا بے سواد ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اُس کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولا
تو کچھ اچھا نہیں لا سکتے تھے۔۔۔۔۔
روحی نے تربوز زمین پر رکھ دیا مطلب اب اور وہ نہیں کھا سکتی تھی
ہاں تمہارے رشتے داروں نے منڈی کھول کر رکھی ہے نا یہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو دل چاہے لے جاؤ کر کے۔۔۔۔۔
زار نے وہاں سے اٹھتے ہوئے بھڑک کر کہا روحی نے اٹھ کر اُس کی کالر کو پکڑ کر کھینچا
تمہیں سیدھے منہ بات کرنا نہیں آتا۔۔۔۔۔۔
ہاتھ ہٹاؤ۔۔۔۔۔۔مجھے نفرت ہے اس چیز سے۔۔۔۔۔
اُس کی حرکت پر وہ اُس کے ہاتھ سے نظریں چہرے تک لے جا کر سنجیدگی سے بولا تو روحی نے فوراً کالر چھوڑ دی وہ اُداس سی شکل بنائے واپس زمین پر بیٹھ گئی زار نے اطراف میں دیکھا اور پھر اُسے
فش کھاؤ گی۔۔۔۔۔۔
ہاں۔۔۔۔۔۔۔
وہ فوراً اٹھی
چلو پھر فشنگ کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے کچھ لکڑیوں اور پیڑ سے لٹکتی شاخاؤں کی مدد سے ایسا کانٹا تیار کیا تھا جس سے وہ فش پکڑ سکے اُس میں تربوز کا ٹکڑا پھنسا کر وہ ندی کی جانب بڑھا تھا اُس جگہ جہاں ندی کا پانی بہت گہرا تھا
فش واٹر میلن بھی کھاتی ہے ۔۔۔۔۔۔
وہ اندازہ لگا رہا تھا کے کہاں کانٹا ڈال سکتا ہے اور روحی اُس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی
ہاں سب کھاتی ہے بس تمہاری طرح دماغ نہیں کھاتی۔۔۔۔۔۔
وہ مصروف سے انداز میں بولا وہ اُس کے ہر عمل کو بہت اشتیاق سے دیکھ رہی تھی اُس نے آج سے پہلے یہ سب کبھی نہیں دیکھا تھا






کیا بات ہے یار تم تو پرفیکٹ شیف ہو ۔۔۔۔۔۔
زار نے ایک پتے کو صاف کرکے اُس پر فش رکھ کر اُس کے سامنے رکھی تھی وہ اُسے دیکھ کر بولی اور فش کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن بیچ میں ہی روک دیا اور اپنے ہاتھ کو دیکھا
فوک اسپون نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کی بات پر دوسری فش پر نائف چلاتا ہت رک گیا اور زار نے اُسے نگل جانے والے انداز میں دیکھا
ہاتھ۔۔۔۔۔۔۔ہاتھ سے کھانا ہے نا۔۔۔میں بھول گئی۔۔۔سوری
وہ جلدی سے بولی اس سے پہلے کے وہ اُسے اٹھا کے ندی میں پھینک دیتا لیکن مچھلی کو ہاتھ لگانے میں اُسے ڈر لگ رہا تھا زار نے اُس کا چہرہ دیکھ کر سر نفی میں ہلا دیا
منہ کھولو۔۔۔۔۔۔۔
اپنے ہاتھ میں کٹا ہوا ایک حصہ اٹھا کے اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا روحی نے اُس کے ہاتھ کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے منہ کھولا اس وقت اُس کے بھوکے پیٹ کو بھرنے کے لیے یہ فش ہر پکوان سے زیادہ لذیذ تھی اُس نے ہاتھ سے او بناتے ہوئے زار کی تعریف کی
بس سالٹ اور بلیک پیپر کی کمی ہے اگر۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ افسوس سے بولی لیکن پھر ایکدم رکی زار کی جانب دیکھ کے زبردستی کا مسکرائی اُس نے اپنا لفٹ والا ہاتھ چہرے پر پھیرتے ہوئے سینے پے رکھا اور اوپر دیکھا
یا اللہ مجھے صبر دے۔۔۔۔۔۔۔
اُس کا جی چاہے ہاتھ میں موجود نائف سے روحی کی زبان کاٹ دے۔۔۔۔لیکن وہ اپنا غصّہ کنٹرول کرتے ہوئے اُس کے آگے اگلا نوالہ بڑھانے لگا






اچھا ہوا تم نے آگ جلا لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ اس ٹھنڈ میں تو ہماری کلفی ہی جم جاتی
جنگل میں گہرا اندھیرا پھیل گیا تھا لیکن اُن کے اس پاس آگ کی وجہ سے اُجالا تھا اور سردی سے بھی بچے ہوئے تھے روحی نے پیر سے جوتے اتارتے ہوئے پیڑ کے قریب رکھ دیے زمین پر بیٹھتے ہوئے ہاتھ نیچے رکھا تو کچھ اُس کی ہتھیلی میں زور سے چبھا تھا اور اُس کے منہ سے درد بھری چینخ نکلی تھی
کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔
زار اپنی جینس کے پائنچوں کو نیچے کر رہا تھا اُس کی چینخ پر پریشان ہوتے ہوئے اُس کے پاس آیا روحی نے اپنی ہتھیلی آگے کی جس کے درمیان میں ہی کانٹا چبھا ہوا تھا خون نکلنے لگا تھا اور روحی کی آنکھوں میں انسوں آگئے تھے
اوہ نو۔۔۔۔۔۔دکھاؤ اِدھر۔۔۔۔۔
زار نے اُس کے آگے پنجوں پر بیٹھتے ہوئے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا کانٹا نکالنے کے ارادے سے دوسرا ہاتھ بڑھایا جسے روحی نے پکڑ کر روک دیا
نہیں پلیز۔۔۔۔۔۔۔بہت درد ہوگا۔۔۔۔۔
زار نے اُس کے چہرے کو دیکھا انسوں اُس کے گال پر اترنے لگے تھے
ریلیکس کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ابھی نکل جائے گا
اُس نے سمجھاتے ہوئے کہا لیکن روحی نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے ہاتھ اُس کے ہاتھ سے کھینچ لیا
مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا نا کچھ نہیں ہوگا ۔۔ادھر دیکھو میری طرف
زار کے کہنے پر روحی نے ہاتھ سے ہٹا کر نظریں اُس کی جانب کی
تمہیں بھروسہ ہے نا مجھ پر۔۔۔۔
روحی کو صرف ایک سیکنڈ لگا تھا سر اثبات میں ہلانے کے لیے
تو ریلکس ہو جاؤ کچھ نہیں ہوگا اوکے۔۔۔۔۔اپنا ہاتھ دو
زار نے ہتھیلی آگے کرتے ہوئے کہا روحی نے ہاتھ اُس کے ہاتھ پر رکھ دیا زار نے کانٹا نکالنے کے لیے دوسرا ہاتھ آگے بڑھایا تو روحی نے ایک بار پھر اُسے پکڑ کر روک دیا زار اُس کے ڈر کو۔محسوس کر رہا تھا اس لیے اُس نے اب کے ہاتھ چھڑانے کی بجائے اُسی طرح رہنے دیا اور زخمی ہتھیلی کو اوپر کرتے ہوئے جھک کر اپنے ہونٹوں سے لگایا اور دھیرے سے اُس کانٹے کو ہونٹوں میں دبا کر پیچھے ہوا اور سائڈ میں پھینکا روحی درد بھول کر اُسے دیکھتی گئی زار نے اپنی کلائی سے اُس کا اسکارف نکال کر اُس کی ہتھیلی پر لپیٹ دیا اور جب اُس کی جانب دیکھا تو روحی نے جلدی سے نظریں نیچے کر لی
ٹھیک ہو۔۔۔۔۔۔
زار نے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا تو روحی نے سر ہلا دیا
اٹھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زار نے اٹھ کر اُس کا ہاتھ پکڑے اٹھایا وہ پیڑ سے ٹیک لگائے کھڑی ہو گئی اور زار ہاتھ سے زمین کو صاف کرنے لگا تا کہ دوبارہ اُسے کچھ چبھے نا روحی نے اپنا ہاتھ سامنے کرکے دیکھتے ہوئے اُس کے ہونٹوں کے لمس کو اُن پر محسوس کیا اور آنکھیں بند کرکے مسکرا دی آنکھیں کھول کو زار کی جانب دیکھتے ہوئے ہاتھ کو ہونٹوں سے لگا لیا






وہ زمین پر سیدھا لیٹا ایک پیر لمبا کیے ہاتھ سینے پر رکھے آنکھیں بند کرکے سونے کی کوشش کے رہا تھا لیکن اُسے نیند نہیں آرہی تھی اُس نے آنکھیں کھول کر آگ کی دوسری طرف روحی کی جانب دیکھا وہ دونوں پیر پیٹ میں دیے لیٹی تھی لیکن سوئی نہیں تھی ایک ہاتھ سے بازو کو سہلا رہی تھی زار کو لگا شاید اُسے ٹھنڈ لگ رہی ہے اُس کے بغیر آستین والے کپڑوں کی وجہ سے۔۔۔۔۔ وہ اپنی جگہ اٹھ کر اُس کی طرف آیا
Are you okay
روحی نے اُس کی آواز پر آنکھیں کھولیں اور اٹھ کر بیٹھ گئی شکل پر بارہ بجے ہوئے تھے زار نے اُس کے کچھ نہ کہنے پر شرٹ اُتار کر اُس کی طرف بڑھائی
یہ پہن لو ٹھنڈ نہیں لگے گی۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے نہیں چاہیے۔۔۔۔۔۔
روحی نے سے نفی میں ہلاتے ہوئے کہا اور اُسے خفگی سے دیکھا
تم ایک بار میں کوئی بات کیوں نہیں مانتی ۔۔۔۔۔پکڑو اسے
زار نے زچ ہو کر اُس کے منہ پر شرٹ پھینکی روحی نے شرٹ اٹھاتے ہوئے منہ ٹیڑھا کرکے اُس کی جانب دیکھا
کیا تکلیف ہے کیوں منہ بنا رہی ہوں اب۔۔۔سو کیوں نہیں جاتی
زار نے چڑ کر کہا وہ کچھ نہیں بولی اسی طرح شکل بنائے بیٹھی رہی اور زار کو اُس کی وجہ سمجھ نہیں آرہی تھی
کھلا دیا پلا دیا سونے کا انتظام کر دیا اب کیا لوری سناؤں تمہیں
انسان ہوں میں ۔۔۔۔۔
روحی نے اُس کی جانب دیکھ کر کہا
ارے۔۔۔۔۔۔
وہ حیرت سے دیکھنے لگا کے آخر کیا چیز ہے یہ
تو میں نے کب کہا کے نہیں ہو۔۔۔۔۔
وہ اُسے حیرت سے بولا روحی نے منہ موڑ لیا زار غصّہ کنٹرول کرتے ہوئے اُس کی جانب جھکا
بتاؤ کیا ہوا ۔۔۔۔۔کیا پروبلم ہے
اب کے بہت دھیرے سے پوچھا
مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جانا ہے
روحی نے جھجھکتے ہوئے اپنی چھوٹی انگلی دکھاتے ہوئے کہا وہ سیدھا ہوا
اچھا۔۔۔۔۔۔
یہاں وہاں نظریں دوڑا تے ہوئے دور ایک طرف اشارہ کیا
وہاں چلی جاؤ
کھلے میں۔۔۔۔۔۔
روحی ن اُس کی انگلی کی سمت دیکھا پھر اُسے زار نے بھنویں اٹھائیں
Never۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ انکار کرتے ہوئے بولی زار نے ایک گہری سانس لی
میں تو بھول ہی گیا تھا تم تو ملکہِ ہندوستان ہو تم کھلے میں کیسے جا سکتی ہو۔۔۔۔تو کیا ہوا اگر ہم اس جنگل میں پھنسے ہوئے ہے ۔۔۔۔۔پریشان مت ہو ملکہ عالیہ تمہارا شاہجہاں ہے نا ادھر تاج محل نا صحیح ایک واشروم تو تعمیر کروا ہی سکتا ہوں اپنی جان کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔بس ایک بار مجھے یہاں سے نکلنے دو تم۔۔۔۔ اُس کے بعد دیوانگی کے سارے ریکارڈ نہیں توڑ دیے تو میرا نام بھی زار نہیں۔۔۔۔۔۔
وہ جھنجھلا کر اُس پر اپنا غصّہ نکالتے ہوئے بولا
تم ہر بات بھڑک کیوں جاتے ہو۔۔۔۔۔
اور نہیں تو کیا کروں۔۔۔۔۔۔۔یہاں جان پر بنی ہوئی ہے اور تمہیں نخرے سوجھ رہے ہیں۔۔۔۔۔اٹھو ۔۔۔۔۔اٹھو ابھی کے ابھی۔۔۔۔۔۔۔ ۔
وہ غصے سے بولا اور روحی جھٹ سے اٹھ گئی شرٹ ہاتھ سے نیچے گر گئی
جاؤ وہاں ۔۔۔۔۔۔اور ایک بھی آواز مت نکالنا منہ سے آئی سمجھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اُسے وارن کرتا ہوا بولا اور وہ سہم کے اُس کے بتائے پر عمل کرتی آگے بڑھی