قسط 4
وہ چلاتے ہوئے انہیں اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی جب حارث نے چلاتے ہوئے اسے پیچھے رہنے کے لیے کہا
پیچھے ہٹ جاؤ لڑکی نیچے کھائی ہے حارث اونچی آواز میں بتا رہا تھا جب کہ قلب اس کی بات پر دھیان دیئے بغیر تیزی سے آگے بڑھا کیوں کہ وہ لڑکی تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی
یقینا لڑکی امید کی کرن ملتے ہی اپنے دماغ کا کام لینا چھوڑ چکی تھی ۔وہ چلاتے ہوئے آگے کی طرف بڑھ رہی تھی جب اچانک قلب نے اسے تھام لیا اس کے ساتھ ہی اس کی چیخ بلند ہوئی جو قلب نے اس کے منہ پر سختی سے اپنا ہاتھ دباتے ہوئے بند کی
چپ ہو جاؤ لڑکی ہم تہمیں بچانے کے لیے آئے ہیں نیچے کھائی ہے اگر یہاں سے گری تو ایک ہڈی بھی سلامت نہیں بچے گی وہ اسے پیچھے کرتے ہوئے بتانے لگا تو وہ جیسے ہوش میں آئی
یا اللہ میں تو مرنے والی تھی وہ کھائی کو دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹی
پلیز میری مدد کریں میری سہیلی بے ہوش ہو گئی ہے پلیز ہمیں یہاں سے نکالیں ہم سے یہاں پھنسے ہوئے ہیں ہم ٹرپ کے ساتھ یہاں آئے تھے لیکن ہم لوگ کھو گئے ہیں وہ ایک ہی سپیڈ میں بتانے لگی
چپ ہو جاؤ میں جانتا ہوں اسمارہ کہاں ہے یہ بتاؤ ۔۔وہ اس کے نون سٹاپ بولنے پر اسے چھوڑ کر پیچھے ہٹتے ہوئے پوچھنے لگا
آپ جانتے ہیں آپ کو یقینا ہمارے گروپ والوں نے بھیجا ہوگا اسمارہ یہاں ہے بس ہمیں بچائیں میری سہیلی کی طبیعت بہت خراب ہے وہ ڈر سے بے ہوش ہو گئی ہے اسے ٹھنڈے پسینے آ رہے ہیں اسے کچھ ہوگا تو نہیں نہ ۔۔۔۔؟
وہ تیزی سے اس کے پیچھے آتے ہوئے اسمارہ تک آئی جو اسے چیک کرنے لگا تھا اپنی بہن کی یہ حالت دیکھ کر قلب کو اپنی غیر ذمہ داری کا احساس ہوا
اسے یہاں اس کی ذمہ داری پر بھیجا گیا تھا اور وہ ایک دن بھی اپنی بہن کا خیال نہ رکھ سکا
وہ آہستہ سے اسے اپنی باہوں میں اٹھاتا ٹارچ شیزرہ کے حوالے کر چکا تھا اسے پکڑو اور راستے کی طرف کرو ۔اس کے کہنے پر شیزرہ نے فورا اس کی ٹارچ راستے کی جانب کی کریں اس کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتی اس کی گاڑی تک آئی۔
قلب نے اسے احتیاط سے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھتے ہوئے اس کے منہ پر پانی پھینکا ۔
اسمارہ نے آہستہ آہستہ اپنی آنکھیں کھولی تو قلب کو آپ نے بے حد قریب پایا
بھائی آپ یہاں اسے اپنے سامنے دیکھ کر اسے رونا آنے لگا وہ آج کتنی بڑی مصیبت میں پھنس گئی تھی یہ تو وہی جانتی تھی اس کے گلے سے لگ کر وہ بری طرح سے رونے لگی تو قلب جو اسے ڈانٹنے والا تھا بالکل چپ ہوگیا
تھینک یو سو مچ بھیا یہاں آنے کیلئے آپ کو پتا ہے ہم بہت بڑی مصیبت میں پھنس گئے تھے میری فرینڈ کہاں ہے ۔۔۔؟وہ اسے بتاتے ہوئے اچانک الگ ہوکر شیزرہ کو ڈھونڈنے لگی جو اس کے قریب ہی کھڑی تھی
میں یہی ہوں اسمارا ۔۔۔۔میں بالکل ٹھیک ہوں ۔۔۔
وہ بے حد آہستہ آواز میں بولی جبکہ اسمارہ کو اس کے گلے سے لگے دیکھ کر وہ یہ اندازہ لگا چکی تھی کہ یقینا یہ آدمی اس کا بھائی ہے
اور یہ بھی یاد کر چکی تھی کہ اس کی ملاقات اس سے کب اور کن حالات میں ہوئی تھی
ریلیکس ہو جاؤ پانی پیو اور آپ اندر گاڑی میں بیٹھیں۔ ہم تھوڑی دیر میں واپس کشمیر کے لئے نکلیں گے ۔
آپ لوگوں کا سامان اور باقی ساری چیزیں واپس بھیج دی جائیں گی ٹرپ کینسل ہو چکا ہے اب سب لوگ واپس جا رہے ہیں اور تم لوگوں کو میں خود لے کر جاؤں گا انیہں کو دیکھتے ہوئے بولا
کیا ۔۔۔ لیکن کیوں ۔۔۔؟وہ پریشانی سے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگی جبکہ قلب گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا
آپ لوگوں کی وجہ سے آپ کو کس نے مشورہ دیا تھا پہاڑی سے نیچے اترنے کے لئے آپ جانتی ہیں آپ کی جان کو کتنا خطرہ تھا یہ جنگل خطرناک جانوروں سے بھرا پڑا ہے
اور آپ لوگوں کو ذرا احساس نہیں ہے کہ یہاں کیا ہو سکتا تھا اپنی مستی میں یہ تک بھول چکی ہیں کہ آپ ایک انجان جگہ پر آئی ہوئی ہے
مجھے بتائیں کس کا آئیڈیا تھا پہاڑی سے نیچے اترنے کا وہ ایک نظر اسمارہ کو دیکھتا اس سے پوچھنے لگا
شیزرہ نے کسی چھوٹی بچی کی طرح نیچے سر جھکا لیا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے بولی
یہ میرا آئیڈیا تھا میں نے ہی اسمارہ کو کہا تھا کہ نیچے چلو ہم تصویریں بنائیں گے اور ہمیں بالکل احساس نہ ہوا کہ ہم کتنے نیچے جا چکے ہیں
ہم تو بس خوبصورت جگہوں پر اپنی تصویریں لینا چاہتے تھے لیکن ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ہم اتنے زیادہ نیچے چلے گئے ہم تو بس ٹیچر سے چھپنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ لوگ ہمیں نہ دیکھیں ۔
اور ٹیچر سے چھپ چھپ کر تصویریں لیتے ہوئے ہم پہاڑی کے بالکل آخر تک آگئے لیکن ہمیں پتہ بھی نہیں چلا کہ کب اندھیرا ہونا شروع ہو گیا میرے موبائل کی بیٹری بھی پوری طرح ڈاؤن ہو چکی تھی ۔
میں نے اور اسمارہ نے واپس اوپر جانے کی بہت کوشش کی لیکن ہمیں راستہ ہی نہیں مل رہا تھا ہم کون سے راستے سے نیچے آئے تھے وہ راستہ تو کہیں گم ہو گیا تھا
وہ سر جھکائے اپنی غلطی کا اعتراف کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ بری طرح سے رو بھی رہی تھی قلب کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس لڑکی کی بے وقوفی پر اسے چپ کروائے یا رکھ کر دو تین تھپڑ لگائے اس کی عقلمندی پر
سر دس بجنے والے ہیں حارث نے بتایا ۔
ٹھیک ہے تم گاڑی اسی لوکیشن پر لے چلو اب ہم اپنا کام کر کے ہی واپس جائیں گےقلب کچھ سوچتے ہوئے بولا تو حارث نے لڑکیوں کی جانب اشارہ کیا ۔
تم دونوں کان کھول کر میری بات سنو پہلے ہی تم لوگ بہت غلطیاں کر چکی ہوں اب تم لوگوں سے غلطی ہرگز نہیں ہونی چاہیے ہم اس جگہ ایک مقصد کے لیے جا رہے ہیں
ہمیں باہر آنے میں کتنا وقت لگے گا بالکل بھی اندازہ نہیں ہے تم لوگ گاڑی کی سیٹ کے نیچے چھپی رہو گی ۔جب تک ہم واپس نہیں آجاتے تم لوگوں پر کسی کا بھی دھیان نہیں جانا چاہیے
یاد رکھنا کہ مقصد ہمارے لئے بہت اہم ہے ہم کشمیر سے یہاں صرف اسی کام کے لئے آئے ہیں کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے تم لوگوں کی طرف سے تو ہرگز بھی نہیں وہ ان دونوں کو دیکھتے ہوئے بولا جس پر آسمارہ نے فورا ہاں میں سر ہلایا
آپ لوگ ہمیں یہاں اپنے ساتھ کیوں لے کر آئے ہیں آپ ہمیں ہمارے کیمپس میں چھوڑ دیں ہمیں نہیں جانا آپ کے ساتھ ایسی خطرے والی جگہ پر شیزرہ نے گبھراتے ہوئے کہا
ڈونٹ وری شیزرہ کچھ نہیں ہوگا بھیا ہمارے ساتھ ہیں نا اور ویسے بھی بھیا بتا چکے ہیں کہ وہاں کیمپس نہیں ہیں وہ لوگ جا چکے ہیں
اب ہمیں یہیں پر رہنا ہوگا اسمارہ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی
کسی کو بھی کچھ نہیں ہوگا ہم تھوڑی ہی دیر میں واپس آجائیں گے ۔
جب تک تم لوگ گاڑی سے باہر مت نکلنا اور کوشش کرنا کہ کسی کی بھی نظر تم لوگوں پر نہ پڑے ویسے بھی یہاں دور دور تک کوئی نہیں ہے ۔
ڈر نے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے وہ ایک نظر اسمارہ کو دیکھتے ہوئے بولا تو اسمارا نے ہاں میں سر ہلایا
آپ کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی ڈر نہیں ہے ۔
لیکن ٹیچرز کو فون کرکے بتا دیں کہ ہم لوگ بالکل ٹھیک ہیں اور واپس جا رہے ہیں اسے اچانک سے اپنے ٹیچرز کا خیال آیا تو قلب ہاں میں سر ہلاتا باہر نکل گیا جبکہ جانے سے پہلے اس نے حارث کا فون لے کر ان کے حوالے کر دیا تھا کہ اگر کوئی بھی مسئلہ ہو تو وہ انہیں فون کرے ۔
°°°°°°°
°°°°°
راستہ صاف تھا وہ دونوں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے اپنا آپ چھپاتے ہوئے اس کھنڈر نما جگہ میں داخل ہوئے ۔
یہ جگہ کافی ویران اور بُری حالت میں تھی یقیناً یہ جگہ ایسے کاموں کے لیے کافی زیادہ محفوظ تھی یقینا یہ لوگ کافی عرصے سے یہاں پر یہ کام کر رہے تھے ۔
اس جگہ کے بارے میں مشہور تھا کہ یہاں پر بھوت وغیرہ رہتے ہیں اسی لیے شہر کے لوگ زیادہ اس طرف نہیں آتے تھے الٹے سیدھے قصے کہانیوں کی وجہ سے اس طرف لوگوں کا آنا جانا تقریب ختم ہو چکا تھا اس طرف ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک تھی جو کہاں جاتی تھی بہت کم لوگ جانتے تھے ۔
یہی وجہ تھی کہ یہاں کیا ہوتا تھا کسی کو کوئی لینا دینا نہیں تھا یہ لوگ کافی عرصے سے نہ صرف یہاں کام کر رہے تھے بلکہ یہی سے وہ دوسرے ملکوں میں لڑکیوں اور منشیات کی کامیاب سمگلنگ کرتے تھے اور ان کے اس کام کی خبر کسی کو کانوں کان نہیں ہوتی تھی
لیکن اب اور نہیں اب قلب شاہ کی نظر ان پر پڑ چکی تھی اور اب قلب شاہ نے ان لوگوں کو ایسا کام نہیں کرنے دینا تھا برائی کا برا ہی انجام ہونے جا رہا تھا ۔آج یہ لوگ بھی یقینا اپنے انجام تک پہنچنے جارہے تھے
ڈی ایس پی سرکافی عرصے پہلے اس کے ساتھ شریک ہوئے تھے وہ اپنی ایک الگ ٹیم تیار کر رہے تھے اور اس ٹیم کا لیڈر قلب شاہ تھا جو پوری ایمانداری سے اپنا کام سرانجام دے رہا تھا ۔
قلب کو ٹیم کے طور پر کام کرنا پسند نہیں تھا اس کو پتہ تھا کہ یہ کام اتنے زیادہ لوگوں کے درمیان نہیں ہو سکتا اسی لئے وہ اس خفیہ جگہ پر حارث کے علاوہ اور کسی کو نہیں لانا چاہتا تھا ویسے بھی اس کیس میں سب سے اہم کردار حارث ہی نبھا رہا تھا
اس نے اندر کی طرف جھانک کر دیکھا سامنے زمین پر اسے کچھ لوگ بیٹھے نظر آئے تھوڑے ہی فاصلے پر زمین پر کچھ لڑکیاں نیچے بندھی ہوئی تھی ۔جو بری طرح سے رو رہی تھی قلب ان کی کنڈیشن کو اچھے طریقے سے سمجھ گیا تھا
حارث میں اندر جاوں گا ا اگر مجھے کوئی بھی گڑبڑ لگی تو میں تمہیں اشارہ دوں گا تم مجھ پر نظر رکھنا اور میرا اشارہ ملتے ہیں تم اندر داخل ہوجانا ۔کوئی غلطی نہیں ھونی چاہیے ۔
ہمہیں غلط انفارمیشن ملی تھی کہ اندر صرف دو تین لڑکیاں ہے میرے حساب سے اندر پندرہ سے زیادہ لڑکیاں موجود ہیں جنہیں ہمیں بازیاب کروانا ہے ہمیں یہ کام بہت احتیاط سے کرنا ہوگا لڑکیوں کی زندگی اور عزت کا سوال ہے
وہ اپنی گن لوڈ کرتا اندر داخل ہوا اور حارث اس کا آرڈر فالو کرتے ہوئے وہیں پیچھے کی جانب چھپ گیا ۔
°°°°°
اس نے اندر قدم رکھا تو سامنے زمین پر تین سے چار لوگ بیٹھے جوا کھیل رہے تھے ۔اسے دیکھتے ہی وہ الرٹ ہو کر اس پر بندوقیں تان چکے تھے ۔
قلب صرف ایک نظر میں ہی دیکھ چکا تھا کہ اس کھنڈر میں اس وقت پندرہ لوگ موجود ہیں جبکہ یہاں پر تقریبا گیارہ بارہ لڑکیاں ہیں جو اپنی عزت اور زندگی کے لئے رو رہی ہیں ۔قلب کو دیکھتے ہی جیسے ان سب کی امید روشن ہوگئی ۔
فل یونیفارم ہاتھ میں گن اور چہرے پر غصہ لئے یقینا یہ شخص ان کو بچانے کے لیے ہی یہاں آیا تھا میں پورے کھنڈر کو دیکھ رہا تھا جب ایک شخص آگے بڑھتا ہوا غصے سے بندوق اس پر تانے ہوئے بولا
ابے کون ہے تو اور یہاں اندر کیسے آیا چل دفعہ ہو جا یہاں سے اگر اپنی زندگی چاہتا ہے اس کی یونیفارم دیکھ کر وہ اندازہ لگا چکے تھے کہ وہ کون ہو سکتا ہے
میں کون ہوں یہ تو میں تجھے بتاؤں گا۔پہلے تو بتا تیرا باس کون ہے کیونکہ تجھے اکیلے اندر کرتے ہوئے مجھے اچھا نہیں لگے گا تیرے باس کو بھی ساتھ ہی جیل کی ہوا کھانی پڑے گی قلب نے اس پر حملہ کیا ساتھ ہی باقی لوگوں نے گولیاں چلانا شروع کر دی حارث کو اشارہ ملتے ہی وہ اندر داخل ہو چکا تھا ۔
وہ لوگ سمجھ چکے تھے کہ پولیس نے ان پر حملہ کر دیا ہے اب وہ لوگ پکڑے جا سکتے تھے کچھ لوگوں نے وہاں سے بھاگنے میں ہی اپنی بہتری سمجھی کچھ لوگ قلب سے مقابلے کے لئے آچکے تھے ۔
قلب نے ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے آنے والے ہر آدمی کے پیر پر گولی مارتے ہوئے انہیں چلنے پھرنے سے معذور کر دیا ۔اور ان سے مقابلے کے لیے آگے بڑھتے ہوئے آدمیوں کو زمین پر ڈیڑھ کرتا چلا گیا ۔کچھ ہی دیر میں وہ سب لوگ زمین پر پڑے اپنی قسمت پر رو رہے تھے
قلب کی تلاش یہ لوگ نہیں بلکہ ان کا باس تھا کہوں کہ اصل مجرم ان کا باس تھا یہ چند لوگ تو بس اس کے مہرے تھے
°°°°°
وہ دونوں کافی دیر سے گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی ۔انہیں باہر کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا کیونکہ وہ دونوں ہی ڈر کے مارے سیٹ کے نیچے چھپی ہوئی تھی باہر کچھ بھی دیکھنے کی ہمت ان دونوں میں نہیں تھی
اگر وہ دونوں ذرا سی ہمت کر کے اوپر کے جانب دیکھتی تو سامنے ایک ویران کھنڈر نظر آتا جو دیکھنے میں اتنا خطرناک تھا کہ وہ سہم کر رہ جاتی اندر جانے کے بارے میں تو وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔
ورنہ شاید انتظار سے تھک کر وہ قلب کے پیچھے ہی اندر چلی جاتی کیونکہ وہ یہاں باہر بھی بہت زیادہ خوفزدہ ہو چکی تھی ۔
اسمارہ تمہارے بھیا کب تک واپس آئیں گے مجھے یہاں بہت زیادہ ڈر لگ رہا ہے شیزرہ سہمے ہوئے لہجے میں بولی ۔
گھبراو نہیں کچھ نہیں ہوگا بھیا ہیں نا وہ سب سنبھال لیں گے
یہ تو کچھ بھی نہیں میرے بھیا نے اور بھی بہت سارے خطرناک خطرناک کیس حل کیے ہیں ۔دیکھنا تھوڑی ہی دیر میں وہ باہر آجائیں گے اور ہمیں یہاں سے گھر واپس پہنچا دیں گے ۔وہ اس کی ہمت بڑھاتے ہوئے بولی اپنے بھائی پر اسے پورا یقین تھا ۔
اور اس کے یقین پر شیزرہ کو یقین تھا
تمہارے بھیا بہت بہادر ہیں اسمارہ اتنی خطرناک جگہ پر کیسے بے خوف ہو کر چلے گے اور ہمیں بھی وہاں اس وادی سے واپس آئے تمہیں پتا ہے میں گرنے والی تھی پہاڑی سے انہوں مجھے بچایا میں بہت ڈر گئی تھی تم بھی بے ہوش ہو گئی تھی
تمہیں ٹھنڈ ے پسینے آ رہے تھے میں بہت پریشان تھی اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو ۔۔میں کبھی اپنے آپ کو معاف نہ کر پاتی میری ضد پر تم میرے ساتھ نیچے گئی تم نے منع بھی کیا تھا
مگر میں نے تمہاری بات نہیں مانی میں آئیندہ ایسی ضد نہیں کروں گی ایم سوری میری وجہ سے تم بھی پھنس گئی وہ شرمندہ سی سر جھکائے اپنی غلطی قبول کرتی بہت پیاری لگ رہی تھی۔
بالکل کسی چھوٹے معصوم بچے کی طرح جس سے کوئی غلطی ہو گئی ہو اور اب وہ معافی مانگ رہا ہو
کوئی بات نہیں شازی سارا الزام خود پر مت لو ساری غلطی تمہاری نہیں ہے میں بھی تو تمہیں سمجھا سکتی تھی نہ تم پر غصہ کر کے تمہیں کہہ سکتی تھی کہ میں نے وہاں نہیں جانا ہے لیکن میرا اپنا دل بھی بے ایمان تھا
تمہارے دو بار کہنے پر ہی فوراً سے راضی ہو کر نیچے چلی گئی غلطی میری بھی ہے صرف تمہاری نہیں ۔
میں سمجھا سکتی تھی کہ نیچے خطرہ ہو سکتا ہے لیکن میں خود بھی وہاں جانا چاہتی تھی اب سارا الزام خود پر مت لو اس میں غلطی ہم دونوں کی تھی اور اب سب کچھ ٹھیک ہے
بھیا باہر آتے ہی ہم دونوں کوگھر واپس پہنچا دیں گے ۔
یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ بھیا وہاں پہنچ گئے ورنہ میں تو اتنی زیادہ خوفزدہ ہوگئی تھی کہ مجھے کسی بات کا ہوش ہی نہیں رہا ۔
شاید ڈر کی وجہ سے بے ہوش ہو گئی تھی ۔اب کوئی ڈر نہیں ہے کیونکہ اب ہم بھیا کے پاس ہیں وہ بے فکر ہو کر بولی شیزرہ نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا
ابھی وہ دونوں ہی چھپ کر بیٹھی تھی جب اچانک کسی نے باھر سے دروازہ کھولا وہ دونوں چیخ پڑی کیونکہ سامنے کھڑا شخص بندوق ان دونوں پر تانے کھڑا تھا ۔
°°°°°°
وہ شخص ان دونوں کو ہتھکڑی پہنا کر زبردستی گھسیٹتے ہوئے اس خطرناک کھنڈر میں لے آیا موت کے ڈر سے وہ دونوں کانپ رہی تھی جب کہ وہ شخص انہیں دھکے مارتے ہوئے اندر کی طرف لے آیا ۔
سامنے قلب ان سب لوگوں کو زمین پر ڈھیر کئے ان سے ان کے بوس کا پتہ پوچھ رہا تھا جب اس آدمی نے فضا میں ایک گولی چلا کر قلب اور حارث کو اپنی جانب متوجہ کیا
روک جاو انسپکٹر ان دونوں کی موت کے ذمہ دار تم ہو گے۔
اس نے اچانک شیزرہ کا سر پکڑ کر اس کے سر پر بندوق تان کر اسے مخاطب کیا ۔شیزرہ کا سارا وجود خوف سے کانپ رہا تھا
اگر ان دونوں لڑکیوں کی زندگی چاہتے ہو توہمیں ہمارا کام کرنے دواور یہاں سے چلے جاؤ ورنہ جو لڑکیاں تم یہاں سے لینے آئے ہو وہ تو تمہارے ساتھ جائے گی نہیں لیکن جن کو لے کر آئے ہو ان کے ساتھ بھی ہم وہی کریں گے جو ہم ان لڑکیوں کے ساتھ کرنے والے تھے اور ویسے بھی یہ لڑکیاں تو ان سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں۔
ان دونوں کے تو پیسے بھی زیادہ ملے ۔۔۔۔۔۔۔
ٹھاہ ۔۔۔۔۔وہ آدمی شیزرہ کے سر پر بندوق رکھ نہ جانے کیا کیا بول رہا تھا جب ہوا میں ایک آواز گونجی اور اس کے ساتھ ہی خاموشی چھا گئی ۔سب لوگوں میں قلب کی دہشت پھیل چکی تھی قلب ان کے باس کو اپنا نشانہ بنا چکا تھا ۔
حارث تھانےفون کرو اور ان سب لوگوں کو گرفتار کرو اور لڑکیوں کو بازیاب کروا کر اپنے ساتھ لے کر جاؤ میں اسمارہ اور اس کی دوست کو کشمیر چھوڑ کر آتا ہوں ۔تب تک لوگوں کی اتنی مرمت کرنا کہ یہ لوگ اپنی زبانیں کھول دے
قلب نے جلدی سے شیزرہ اور اسمارہ کو اس خطرناک جگہ سے نکالا اور ساتھ ہی ان لڑکیوں کو باہر آنے کا اشارہ کیا جو اس کا اشارہ ملتے ہی فوراً باہر کی جانب آ گئیں۔
تھیکویو سو مچ بھیا آپ نے ہماری جان بچائی ہماری عزت کے محافظ بنے
ہم آپ کا شکریہ کن الفاظ میں کریں ہم نہیں جانتے ہم آپ کے بہت شکر گزار ہے آپ نے ایک نئی زندگی دی ہے ۔
شکریہ میرا نہیں اس پاک ذات کا کریں اور انسان اپنا محافظ خود ہوتا ہے ایک لڑکی کو اپنا ایک ایک قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا پڑتا ہے یہ صرف آپ کی نہیں بلکہ آپ کے پورے خاندان کی عزت کا سوال ہوتا ہے آپ کی چادر پر لگا ایک داغ آپ کے خاندان کی عزت کو روندھ سکتا ہے
اللہ ہر بیٹی کی عزت کو سلامت رکھے وہ اس لڑکی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسمارا کو شیزرہ کو لے آنے کا اشارہ کرنے لگا کیونکہ شیزرہ اس کنڈیشن میں نہیں تھی کہ وہ اس وقت کچھ بھی سوچ سمجھ پاتی ۔
اسمارا اپنی سہیلی سے پوچھ کر مجھے اس کے گھر کے نمبر کے بارے میں بتاؤ اس کے گھر والے بہت زیادہ پریشان ہوں گے یقیناً یہ بات ان تک پہنچ چکی ہوگی مجھے اس کے گھر والوں سے بات کرنی ہوگی ا نہیں بتانا ہوگا کہ میں اسے لے کر واپس کشمیر آ رہا ہوں
قلب نے اسمارہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تو وہ شیزرہ سے اس کے کسی بھی گھر والے کا نمبر پوچھنے لگی
°°°°°
حارث ان لڑکیوں کو بازیاب کروا کر وہاں سے سیدھا تھانے لے کر جا رہا تھا اسی لیے اس نے گاڑی بدل دی جبکہ قلب اسمارہ اور شیزرہ کو گھر واپس چھوڑنے کشمیر جا رہا تھا ۔
شیرزہ بہت زیادہ خوفزدہ تھی یقیناً گولی اسے بھی لگ سکتی تھی وہ بھی موت کے بے حد قریب تھی لیکن یہ الگ بات تھی کہ قلب کا نشانہ کبھی بھی چُکا نہیں تھا
وہ اس وقت بھی خوف سے کانپ رہی تھی اس کی حالت کو وہ بہت اچھے سے سمجھ سکتا تھا جبکہ اسمارہ بار بار اسے حوصلہ دے رہی تھی کہ وہ بالکل ٹھیک ہے کچھ بھی برا نہیں ہوا ۔
لیکن یقیناًاس لڑکی کو یہ بات سمجانا بے حد مشکل تھی اسی لیے وہ اب کچھ بھی نہیں بول رہا تھا بلکہ خاموشی سے اسے کانپتے دیکھ رہا تھا ۔
تھوڑا سفر کرنے کےبعد اس نے گاڑی ایک ڈابے کے باہر روکتے ہوئے پیچھے مڑ کر ان دونوں کو دیکھا
اسمارا اس کا حلیہ درست کروا کے اسے باہر لے آنا تب تک میں کھانے کا آرڈر دیتا ہوں یقینا تم لوگوں کو بھوک لگی ہو گی
وہ اسمارہ کو کہتا باہر نکل گیا
اسمارہ نے اس کا دوپٹہ ٹھیک سے اس کے شانوں پر پھیلا کر اس کو چہرہ صاف کیا وہ اب پہلے سے کافی بہتر تھی نہ تو رو رہی تھی اور نہ ہی ڈر سے کانپ رہی تھی ہاں لیکن موت کے اتنے قریب جانے کا ڈر اس کے دل میں بس گیا تھا
°°°°°
اس وقت وہ اتنی زیادہ پریشان تھی کہ اس سے کچھ کھایا نہیں جا رہا تھا قلب اس کی کنڈیشن کو بہت اچھے سے سمجھ رہا تھا ۔
اس نے ہمدردی کے لئے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا
تم بالکل ٹھیک ہو ۔۔۔۔
بس آئندہ اس طرح کی نادانی مت کرنا دیکھو ایک ذرا سی غلطی نے تم لوگوں کو موت کے کتنے قریب پہنچادیا
مجھے یقین ہے کہ تم آئندہ اس طرح کی بیوقوفی نہیں کرو گی ۔تم لوگ زندگی کو بہت آسان لے رہی ہو لیکن زندگی آسان نہیں ہے یہ بہت مشکل ہے انسان جینے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتا اور تم لوگ ایڈونچرز کیلئے موت کے منہ تک چلی جاتی ہو ۔
آئندہ تم پر تمہاری بیوقوفی کی وجہ سے ایسی کوئی مصیبت نہ آئے تمہیں اس واقعے سے سبق حاصل کرنا چاہے وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا ۔
زندگی میں اگر میں دوبارہ کبھی اس طرح پھنسی تو کیا آپ ہیلپ کرو گے اس کی نظروں میں کچھ اور تھا جو قلب کو سمجھ نہیں آیا ۔
ہاں ضرور تمہاری مدد کروں گا لیکن مجھے یقین ہے کہ تم آیندہ خود ایسی کوئی غلطی نہیں کروں گی جس کے لیے تمہیں یہاں تک پہنچنا پڑے۔ وہ کہہ کر کھانے کی جانب متوجہ ہوا
آپ ہیرو ہو ۔۔فلموں میں تو میں نے بہت ہیرو دیکھے ہیں لیکن اصلی لائف میں پہلی بار دیکھا ہے ۔
بہت بہادر ہو آپ کی وجہ سے پولیس فورس پر اعتبار کیا جا سکتا ہے ۔آپ نے جس طرح ان لوگوں کا مقابلہ کیا وہ قابل تعریف تھا ۔تھینک یو سو مچ آپ نے میری جان بچائی ۔
آپ اگر وہاں نہ آتے تو پتہ نہیں کیا ہوتا ۔
آپ سچ میں ہیرو ہو۔ ۔۔
اس کے اچانک کمنٹ کرنے پر اسمارہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی جب کہ قلب کچھ بھی نہ بول سکا ۔صرف مسکرا کر کھانا کھانے لگا جبکہ شیزرہ کی نگاہیں خود پر محسوس کر چکاتھا
وہ اپنے سامنے بیٹھے اس شخص کو دیکھ رہی تھی دیکھنے میں ایک کافی مچیور اور قابل تعریف انسان لگتا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں ایک درد چھپا تھا ایک اداسی تھی اس کی آنکھیں اس کی مسکراہٹ کا ساتھ نہیں دیتی تھی
°°°°°
وہ ڈبے میں رک کر ہی شہریار کو فون کرکے بتا چکا تھا کہ وہ اس کی بہن کو لے کر گھر آ رہا ہے وہ اپنے گھر جائے ویسے تو وہ کافی سارا راستہ طے کر چکا تھا لیکن اس کا فون آنے کے بعد گھر لوٹ آیا تھا کیونکہ اب آگے جانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ شیزرہ خود ہی آ رہی تھی
صبع تقریباً چار بجے وہ شہریار کے پاس پہنچے تھے ۔اسے دیکھتے ہی وہ بھاگ کر اس کے سینے سے آ لگی ۔اسے سینے سے لگا کر شہریار کو سکون ملا ۔
قلب کو دیکھ کر وہ اس کے پاس آیا۔جبکہ گاڑی میں بیٹھی اسمارہ کو بھی وہ دیکھ چکا تھا۔جو پچھلی سیٹ سے آگے آئی تھی
تھینک یو سو مچ قلب صاحب آپ نے میری بہن کو بچایا اسے سیو گھر پہنچایا میں آپ کا بے حد شکر گزار ہوں وہ اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے بولا ۔
یہ تو میرا فرض ہے اگر آپ کی بہن کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو میں اسے بھی ضرور بچاتا اور ویسے بھی آپ کی بہن اکیلی ہرگز نہیں تھی ان کے ساتھ میری بھی بہن تھی ۔
اس نے گاڑی میں بیٹھی اسمارہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تو شہریار نے ایک نظر اسے دیکھا یہ اسمارہ کا بھائی تھا ۔اسے جان کر خوشی ہوئی تھی ۔
اسمارا کے بارے میں اپنے جذبات وہ اپنے ماں سے شیئر کرنے والا تھا وہ بتانے والا تھا کہ ان کے لیے بہو وہ ڈھونڈ چکا ہے اور بہت جلد اس کے ساتھ گھر بسانے کا بھی مکمل ارادہ رکھتا ہے
قلب جیسے قابل آفیسر کو دیکھ کر وہ یہ اندازہ لگا چکا تھا کہ اسمارہ ایک بہت اچھی فیملی سے تعلق رکھتی ہے کی اس کے بارے میں ساری معلومات تو اس نے ویسے بھی صبح تک حاصل کر لینی تھی
اور دوسری سب سے اہم بات اس کی بہن ٹھیک تھی قلب نے اسے موت کے منہ سے بچایا تھا قلب کا ایک احسان تھا اس پر جسے وہ چکانا چاہتا تھا لیکن قلب جیسا خودار آفیسر کبھی بھی اس سے اس احسان کا بدلہ نہیں مانگے گا ۔
اسے قلب سے مل کر بے حد خوشی ہوئی تھی اس کی بہن ٹھیک تھی آسمارہ ٹھیک تھی اسے اور کچھ نہیں چاہئے تھا لیکن آئندہ وہ کبھی بھی اپنی بہن کے معاملے میں ذرا سی بھی لاپرواہی نہیں کر سکتا تھا اس نے سوچ لیا تھا کہ آئندہ اسے اکیلے کہیں نہیں بھیجے گا ۔
وہ صرف اس کی بہن نہیں بلکہ اس کے لئے اس کی بیٹی تھی اس کی جان تھی وہ اپنی جان کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا تھا
وہ ا سے کہیں بھی اکیلے بھیجنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اپنی بہن کی خوشی کیلئے اسے خود ہی کہیں گمانے لے جائے گا
وہ اس کی خود ہی یہ خواہش پوری کردے گا تو یقیناً وہ کسی بھی ٹرپ کے ساتھ جانے کی ضد کبھی بھی نہیں کرے گی ماما تو اسے ٹرپ پر بیجھنا بھی نہیں چاہتی تھی بس اسی نے اس کی ضد دیکھتے ہوئے ماما کو بھی منا لیا ۔
لیکن اب اسے اپنی یہ چیز بھی غلط ہی لگی تھی اسے ماما کو منانا ہی نہیں چاہیے تھا بلکہ ماں کی بات مان لینی چاہیے تھی ورنہ آج شیزرہ کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا تھا
اس نے بہت بڑی غلطی کی تھی اگر آج اسے کچھ ہوجاتا تو وہ اپنے باپ کو کیا منہ دیکھتا جس کے مرتے وقت اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ شیزرہ کو اپنی بہن نہیں بلکہ بیٹی بنا کر پائے گا ۔
اسے آج بھی وہ وقت یاد تھا کتنی مشکل سے اس نے سب کچھ ٹھیک کیا تھا اتنی مشکل سے اس نے کو وقت گزارا تھا کسی سہارے کے بغیر رہنا کتنا مشکل تھا آج بھی وہ وقت بھول نہیں سکتا تھا
ان کے اپنوں نے ہی ان کے ساتھ غداری کی تھی ۔انہیں دھوکہ دیا تھا ان کے اپنے ہی ان سے سب کچھ چھین لینا چاہتے تھے ۔
لیکن شہریار نے ہمت نہ ہاری وہ سب سے لڑا ۔بالکل اکیلا تنہا اس نے اپنے باپ کا سارا بزنس سنبھال لیا تھا
کل جو لوگ اسے بچہ سمجھ کر بے وقوف بنا کر ساری جائیداد اپنے نام کروا لینا چاہتے تھے ان کے سامنے ہی اس نے اپنا آپ منوایا تھا ۔
اس نے انہیں بتایا تھا وہ چھوٹا ضرور تھا لیکن نادان ہرگز نہیں تھا ۔وہ اپنی ماں اور بہن کا سہارا بنا تھا اس نے اپنی ماں کو در در بھٹکنے نہیں دیا تھا اس نے کبھی اپنی ماں کو سر نہیں جھکا نے دیا تھا ۔
اس کی ماں فخر سے سر اٹھا کر اس کے ساتھ چلتی تھی اس نے کوئی بری روش نہ اختیار کی ۔اس نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ایک ایک قدم سنبھال کر اٹھایا وہ اس وقت سے انجان نہیں تھا وہ جانتا تھا اگر اس کے قدم ایک بار ڈگمگا گئے تو وہ کچھ نہیں کر پائے گا ۔
لیکن ان سب میں وہ اپنی ماں اور بہن کو زیادہ وقت نہیں دے پا رہا تھا اس کے دل میں ان لوگوں کے لیے بے پناہ محبت تھی وہ ان ہی کے لیے دن رات ایک کرتا تھا لیکن وہ جانتا تھا اس کی بہن ساری خواہشیں اپنے دل میں دبا کے رکھتی ہے
کھل کر اس کے سامنے اپنی مرضی کا اظہار نہیں کرتی ابھی پچھلے سال اس نے کہا تھا بائیو کہیں گھوم پھر کر آتے ہیں میں بہت بور ہو رہی ہوں لیکن شہریار نے اسے جواب دیا تھا تمہارے کالج میں ٹرپ جانے والا ہے نہ تو اس میں چلی جاؤ تھوڑا انجوائے کر کے واپس آ جانا
ماما نے تب بھی اس کی بہت خلاف ورزی کی تھی ۔جوان بیٹی کو اس طرح کے بھیجنا ان کے لئے بالکل بھی مناسب نہیں تھا مگر شہریار نے انہیں سمجھایا کہ اس کی مرضی ہے تو اسے جانے دیں وہ بالکل چھوٹی بچی نہیں ہے اپنا آپ سنبھال سکتی ہے
اور میں کالج کے پرنسپل سے خود بات کروں گا اس نے ایسا ہی کرکے اسے پچھلے ٹرپ پر بھی بھیج دیا تھا شاید اس لیے وہ اس بار بھی جانے کے لیے تیار تھی اس کی خوشی دیکھتے ہوئے شہریار نے اسے اس بار بھی منع نہ کیا لیکن ماما اس بار بھی خلاف تھی اب شہریار کو لگ رہا تھا کہ وہ ان کی بات مان لیتا
اس نے ماما کو منایا کہ اسے گھومنے پھرنے جانے دیں تھوڑا بہت انجوائے کر کے واپس آجائے گی پچھلے سال بھی تو گئی تھی
وہ اسے بھی کہہ چکی تھی لیکن اپنے کام میں مصروف ہونے کی وجہ سے وہ اسے کہیں بھی لے کر نہیں جا سکا تو اس نے سوچا کہ ٹرپ پر بھیج دینے سے اس کا دل بہل جائے گا
اسکی سوچ اس حد تک غلط ثابت ہوگی یہ اس وہم و گمان میں بھی نہ تھا ماما ٹھیک کہتی تھی بیٹیوں کے معاملے میں لاپروائی ہمیشہ نقصان دہ ہوتی ہے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہاں قلب تھا اس نے اپنی بہن کے ساتھ ساتھ اس کی بہن کی بھی حفاظت کی تھی
لیکن وہ ماما کو اس بارے میں کچھ نہیں بتانا چاہتا تھا مما کی طبیعت پہلے ہی خراب رہتی تھی وہ انہیں مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اس نے شیزرہ کو بھی منع کر دیا تھا ماما کو کچھ بھی نہ بتائے بلکہ ماما کے سامنے کوئی بہانہ کر دے
یقیناً ماما اس کے جلدی واپس آنے پر سوال تو ضرور کریں گی۔اور ماما کے سامنے تو وہ جھوٹ بول بھی نہیں پاتاتھا وہ ان کے جھوٹ کو بہت آسانی سے پکڑ لیتی تھیں۔
کالج کا پرنسپل بھی کافی زیادہ پریشان تھا اس نے اس چیز پر کسی قسم کا ایکشن نہ لینے کی درخواست کی تھی لیکن شہریار ان کی لاپرواہی پر بے حد غصہ تھا ۔
لیکن کہیں نہ کہیں وہ یہ بھی جانتا تھا کہ غلطی اس کی بہن کی ہے شیزرہ اس معاملے میں بالکل اسی پر تھی ایک بولنے کے بعد کبھی اپنے الفاظ سے پیچھے نہیں ہٹتی تھی اگر اسے کہیں جانا تھا یہ کوئی چیز دیکھنی تھی تو پھر اسے کوئی روک نہیں سکتا تھا
اور قلب نے بھی یہی کہا تھا کہ غلطی بچیوں کی تھی کالج اسٹاف کی کسی بھی قسم کی کوئی غلطی نہیں تھی اس لیے وہ کسی بھی قسم کا ایکشن لینے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا اور نہ ہی یہ بات اپنے والدین تک پہنچانا چاہتا تھا
یہی وجہ تھی کہ شہریار نے بھی اس کے اس پر خاموشی اختیار کرلی تھی وہ بھی یہ بات آگے نہیں پہنچانا چاہتا تھا خاص کر اپنی ماں کو وہ اس بارے میں کچھ بھی بتا کر انہیں ٹینشن نہیں دے سکتا تھا
لیکن اسے اپنی بہن کا بھی بہت خیال رکھنا تھا ۔وہ اس کی ساری خواہشیں خود پوری کرنا چاہتا تھا اس کے دل میں ایسی کوئی خواہش نہیں پال سکتا تھا جو بعد میں اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہو ۔
°°°°°
صبح آفس جاتے ہوئے وہ ماں کے کمرے میں آیا تھا جو اسے دیکھ کر مسکرائی روز جانے سے پہلے ان کے کمرے میں ضرور آتا تھا
مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے اس نے دروازہ بند کرتے ہوئے انہیں دیکھا ماں نے ایک نظر ٹائم کی طرف دیکھا جہاں آٹھ بج رہے تھے شہریار آٹھ بجے گھر سے نکل جایا کرتا تھا
ایسی کونسی ضروری بات ہے بیٹا جب تم آفس سے واپس آ کر نہیں کرسکتے ابھی تو تم لیٹ ہو رہے ہو انہوں نے گھڑی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ شہریار مسکرا کر ان کے قریب بیٹھ گیا
ضرور کوئی تو بات ہے اسی لئے تو آیا ہوں ویسے آپ کی ایک ٹینشن بھی ختم کرنے والا ہوں اس نے بیڈ پر ایک کونی کے سہارے لیتے ہوئے اس انداز میں کہا کہ ماما نے مسکرا کر اپنی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھا ۔
میرے بیٹے کے انداز بتا رہے ہیں کہ اس میں میرے لئے بہو ڈھونڈ لی ہے اور اسے دیکھتے ہوئے بولی تو شہریار جو کونی کے بل لیٹا تھا اٹھ کر بیٹھا اور حیرانی سے انہیں دیکھنے لگا
ماما آپ کو کیسے پتہ چلا میرا مطلب ہے آپ کو کیسے پتہ چلا میں اس بارے میں بات کرنے والا ہوں اسے دیکھتے ہوئے ان کا شک یقین میں بدل گیا تو وہ مسکرا دی
بتاؤ مجھے کون سی لڑکی ہے ابھی رشتہ لے کر اس کے گھر پہنچ جووں گئی ماما تو اس سے بھی زیادہ جلدی میں تھیں
کیا بات ہے ماما اتنی تیزسروس ۔ویسے مجھے پتا نہیں کہ وہ لڑکی کون ہے اور اس کے گھر والے کون ہے میں نے اپنے سیکٹری کو لگایا ہے پتا کرنے
لیکن آپ کو بتا دیتا ہوں شیزرہ کی سہیلی ہے ۔اس کی کلاس فیلو ہے آپ نے نام بھی کہیں بار سنا ہوگا اس کے منہ سے اسمارہ اسے کالج میں دیکھا تھا ۔
شیزرہ کے ساتھ ٹرپ پر جا رہی تھی بس ایک نظر دیکھا اسے اور لگا جیسے میری زندگی بدل گئی ہو جسے کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا مجھے چھو کر گزرا ہوں ایسا لگا جیسے محبت کا احساس
ایسا لگا اسے دیکھتے ہی مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے ماما پتہ نہیں ایسا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
میں نہیں جانتا کہ محبت کیسے ہوتی ہے آہستہ آہستہ کہ ایک دم ہی لیکن اس دن اسے ایک ہی بار دیکھ کر مجھے لگا کہ میرا سب کچھ بدل گیا ہو۔
مجھے لگا میرے دل کی دنیا بدل گئی ہو ماما یہ محبت ہے کیا مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے
میرا دل چاہتا ہے کہ وہ میرے پاس ہو میرے نام سے پہچانی جائےاس کے نام کے ساتھ میرا نام ہو آپ بتائیں نا کیا مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے
وہ سوال پر سوال کیا جا رہا تھا جب کہ ماما اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی اس کی آنکھوں میں بے چینی تھی ایسا لگا جیسے ساری رات وہ سویا نہ ہو یا نہ جانے کتنی ہی راتوں سے اس کی آنکھوں میں وہ چہرہ سما گیا ہو
تقریبا چار ماہ پہلے ملی تھی وہ اپنی بیٹی کی سہیلی سے اسے دیکھتے ہی انہوں نے اسے اپنی بہو بنانے کا سوچا تھا لیکن اس کی کم عمری اور معصومیت دیکھتے ہوئے انہوں نے اپنے قدم روک لئے
ان کے مطابق شہریار کو ایک سمجھدار لڑکی چاہیے تھی جو اس کے ساتھ اس کی سوسائٹی میں موو کر سکے لیکن شہریار کی سوچ بہت الگ تھی وہ تو ان کی پسند کو اپنی پسند بنا چکا تھا بلکہ اسے اپنی محبت کہہ چکا تھا
کیا خدا اس طرح سے بھی آپ کے دل کی مراد پوری کرتا ہے اس لڑکی کو دیکھتے ہی ان کے دل میں خواہش جاگی تھی کہ وہ ان کے خاندان کی بہو بنے اورآج شہریار بھی وہی خواہش لے کر ان کے سامنے آ بیٹھا تھا
انہوں نے بے حد محبت سے اس کی پیشانی چوم لی
ہاں میری جان اللہ جب چاہے جس کے دل میں چاہے محبت کا جذبہ جگا سکتا ہے ۔یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کا نصیب کس کے ساتھ لکھا ہے ۔اللہ کرے جس کی محبت اس نے تمہارے دل میں ڈالی ہے وہ تمہارے نصیب کا ستارہ ہو انہوں نے بے حد محبت سے کہا
آمین ۔شہریار نے اپنی ماں کے ہاتھ چومتے ہوئے انہیں اپنے گلے سے لگایا
میں تمہاری لاڈلی سے اس لڑکی کی ساری انفارمیشن نکالتی ہو اور پھر فورا سے اس کے گھر رشتہ لے کر جاتی ہو تم بھی اپنے سیکٹری کو کام پر لگا دو ہم جلد سے جلد اپنی بہو کو لے آئیں گے شہریار اللہ کی طرف سے خیر ہوئی تو سب کچھ خیریت سے ہوگا ۔
ٹھیک ہے آپ اس سے جو پوچھنا چاہتی ہیں پوچھ لیں ویسے تو میرا اپنا بھی دل کر رہا تھا اس سے اس بارے میں بات کرنے کا لیکن اپنی بہن سے اس طرح کی بات کرنا مجھے بہت عجیب سالگ رہا تھا ۔
اسی لئے آپ سنبھالیں سب کچھ اس سے بھی خود ہی بات کر لیں ۔
ویسے مجھے یقین ہے یہ بات جان کر اسے بہت خوشی ہوگی کیونکہ ہر وقت ویسے بھی تو ہمارے گھر میں صرف اسمارااسمارہ ہی ہوتا رہتا ہے صحیح ہے نا نام والی بھی ہمارے ہی گھر آجائے ۔
وہ ان کے قریب سے اٹھتا کمرے سے باہر نکلتے ہوئے کہنے لگا تو ماما مسکرائیں
انہیں بھی یقین تھا اور کوئی اسے اپنے بھائی کے لیے پسند آئے یا نہ آئے لیکن اسمارا کی طرف سے اس کی بھی ہاں ہی ہوگی ۔
یقینا اسمارہ کے بارے میں وہ سب کچھ جانتی تھی انہوں نے ملازمہ سے کہا تھا کہ جسے وہ جاگے اسے ان کے روم میں بھیجا جائے
°°°°°°
‘شہریار شیزرہ کے سامنے تو کافی ریلکس اور نارمل انداز میں رہا تھا لیکن کمرے میں آنے کے بعد اس کی بے چینی حددرجہ بڑھ چکی تھی
وہ اپنی پہلی محبت کو اس طرح سے کھو نہیں سکتا تھا چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ اسمارہ کو یوں کسی اور کا ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا ابھی تو اس نے محبت کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تھا ابھی تو اسے اسمارہ کے ساتھ پورا سفر طے کر کے منزل پانی تھی
وہ ایک کامیاب بزنس مین تھا محبت کے معاملے میں اس طرح سے ہار کر پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا یہ اس کی پوری زندگی کا سوال تھا وہ اپنی چاہت اپنی اولین محبت کو اس طرح سے نہیں چھوڑ سکتا تھا
اگر وہ اس کے نصیب میں نہیں تھی تو اور بات تھی لیکن وہ بنا کوشش کی ہمت کیوں ہارے
صرف یہ گمان کرکے اس کا رشتہ طےہونے والا ہے وہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہے نہیں یہ اس کی محبت کی توہین تھی
وہ اپنی پہلی محبت اس طرح سے ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتا تھا چاہے اس کی زندگی میں کتنی ہی لڑکیاں کیوں نہ آئیں لیکن اس کی پہلی نظر کی محبت اسماراہی تھی جو اس کے دل کے ساتھ ساتھ اس کی ہر سوچ پر سوار ہو چکی تھی
وہ اپنی پہلی چاہت کو اس طرح سے خود سے دور نہیں جانے دے سکتا تھا اور بنا کوشش کیے ہمت نہیں ہار سکتا تھا اس نے فیصلہ کر لیا تھا چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ پیچھے نہیں ہٹے گا وہ کل ہی اپنی امی کے ساتھ ان لوگوں کے گھر رشتہ لے جانے کا فیصلہ کر چکا تھا
اس کے سیکرٹری نے اسے ساری انفارمیشن دے دی تھی اسے جان کر حیرانگی ہوئی تھی کہ اسمارہ کوئی انجان نہیں بلکہ غالب شاہ کے بیٹی تھی غالب شاہ بزنس کی دنیا میں ایک چمکتا ہوا ستارہ تھے
جینے وہ بہت ہی اچھے طریقے سے جانتا تھا اور بزنس کے حوالے سے وہ اس سے کافی اچھے تعلقات بھی رکھتے تھے ۔
اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ صبح ہی اسمارہ کا رشتہ لے کر غالب صاحب سے ملنے ان کی حویلی میں جائے گا وہ ہاں کریں یا انکار کردیں لیکن وہ کوشش ضرور کرے گا
اپنے دل کو راحت پہنچانے کے لیے وہ فی الحال کچھ بھی کر سکتا تھا اور اس کا چین اس کی راحت اس کا سکون صرف اور صرف اسمارا تھی
جو اس کی زندگی میں آنے سے پہلے ہی اس کے لیے ایک مشکل امتحان بنتی جا رہی تھی لیکن شہریار کو یقین تھا وہ محبت کا ہر امتحان پاس کر جائے گا
°°°°°
کیا مطلب آپ مجھے اپنے ساتھ لے کر نہیں جائیں گے وہ اداسی سے کہنے لگی
نہیں شازی اس بار تمہیں اپنے ساتھ لے کر جانا ممکن نہیں انشااللہ اگر رشتہ ہو گیا تو پھر تو آنا جانا لگا ہی رہے گا پھر جب چاہے اپنی سہیلی سے ملنا اور پھر تمہاری سہیلی ہمیشہ کے لئے یہی آجائے گی تمہارے بھائی کی دلہن بن کر ماما اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہنے لگی
اگر اللہ نے چاہا تو ایسا ہی ہوگا آپ لوگ جائے میں دعا کروں گا انشاءاللہ سب کچھ اچھا ہوگا میرے بھائی نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا ان کے ساتھ بھی کچھ برا نہیں ہوگا
مجھے یقین ہے اللہ کسی کے دل کی پہلی مراد کبھی بھی رد نہیں کرتا اور اسمارہ میرے بھائی کی پہلی پسند ہے اللہ کبھی ان کا دل نہیں ٹوٹنے دے گا انشاءاللہ سب کچھ اچھا ہوگا
ماما نے مسکرا کر اس کی پیشانی چوم کر آمین کہا ان کی بھی تو یہی خواہش تھی کہ ان کے بیٹے کی پہلی مراد رد نہ ہو ۔
وہ گھر سے باہر نکلی تو شہریار گاڑی میں ان کا انتظار کر رہا تھا
تم ان لوگوں کے بارے میں کیا خود جانتے ہو میرا مطلب ہے کچھ پتہ بھی ہے یا بس ہم رشتہ لے کر جا رہے ہیں ماما پریشانی سے کہنے لیوہ کافی پریشان تھی کیوں کہ وہ اسمارہ کی فیملی کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی تھی
اس طرح کسی کے گھر میں جانا ا نہیں خود بھی بہت عجیب لگ رہا تھا
زیادہ تو کچھ نہیں پتا بس اتنا ہی پتا ہے کہ وہ غالب شاہ کے بیٹی اور غالب صاحب بہت اچھے انسان ہیں میری کافی بار ان سے ملاقات ہوئی ہے وہ بہت اچھے انسان ہیں خاندان بھی بہت اچھا ہے اور باقی آپ خود چل کے دیکھ لیجئے گا
اس نے ساری بات آنے والی ملاقات پر چھوڑ دی ماما نے صرف ہاں میں سر ہلایا وہ بیٹے کی بے چینی کو بہت اچھے طریقے سے سمجھ چکی تھی
گھر سے نکلتے ہوئے بھی وہ کتنی ہی دعائیں مانگ چکی تھیں انہوں نے اپنے بیٹے کی ہر جائز خواہش پوری کی تھی اور ناجائز اور بے بنیاد خواہش تو یہ بھی نہیں تھی
وہ اپنے بیٹے کی اس خواہش کو پورا کرنا چاہتی تھی پہلی محبت دل میں وہ مقام حاصل کر لیتی ہے جسے بھلانا ناممکن ہو جاتا ہے وہ اپنے بیٹے کی پہلی محبت کو ادھورا نہیں چھوڑ سکتی تھی
°°°°°°
ماما حویلی کو دیکھ کر وہ یہ اندازہ لگا چکی تھیں کہ یہ لوگ بہت زیادہ امیر ہیں لیکن انہیں اپنےبیٹے کی قابلیت پر بھی پورا یقین تھا
شہریار نے جب ان کے بارے میں انفرمیشن نکالی تو اسے پتہ چلا کہ یہ لوگ اس کے لیے انجان ہرگز نہیں ہے وہ کہیں دفعہ ان کے ساتھ میٹنگ اور پارٹیز میں مل چکا ہے
آج اتوار کا دن تھا ۔تقریبا سب ہی لوگ اس وقت گھر پر موجود تھے ۔
غالب صاحب کو جب یہ بتایا گیا کہ ان سے اور ان کی بیگم شہریار قادرشاہ اپنی والدہ کے ساتھ ملاقات کرنے آیا ہے تو وہ فورا ہی اسے مہمان خانے میں ٹھہرا کر اس سے ملنے چلے آئے تھے
وہ شہریار سے کافی زیادہ متاثر تھے اتنی کم عمر میں قادر صاحب کے بعد جس طرح سے اس نے ان کا بزنس سنبھالا تھا یہ اس کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت تھا
آئیں شہریار صاحب آج آپ یہاں آپ نے تو ہمیں سرپرائزڈ کر دیا وہ اندر داخل ہوتے خوش اخلاقی سے کہنے لگے ان کی خوش اخلاقی پر شہریار بھی اپنی سیٹ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا انہوں نے کافی گرمجوشی سے اسے اپنے سینے سے لگایا تھا شاید وہ مہمان نوازی کر رہے تھے
جبکہ سعدیہ بیگم ان کے ساتھ ندر آتے ہوئے رخشندہ بیگم سے ملنے لگیں
دراصل سرپرائز تو میں ابھی آپ کو دینے آیا ہوں بلکہ میری والدہ اور میں یہاں ایک مقصد کے لیے آئے ہیں
بات ہی کچھ ایسی تھی کہ میں اکیلے نہیں آ پایا مجھے لگا یہاں پر میری والدہ کا ہونا بہت ضروری ہے اس نے اپنی ماں کا تعارف کرواتے ہوئے کہا
دراصل غالب صاحب میں ایک سیدھا سادہ انسان ہوں ہرانسان کی طرح اپنے دل میں خواہشات رکھنا اور ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا میرا بھی شوق میں اپنی زندگی جینا چاہتا ہوں اپنے من پسند ہمسفر کےسا تھ
بات گھمانے پھرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہمارے تو پیغمبر بھی کہہ کر گئے ہیں کہ جولڑکی تمہیں پسند ہو اسے اس کی مرضی سے اپنے نکاح میں شامل کر لو ۔
میری زندگی بہت خالص ہے میں اپنی زندگی میں آئی پہلے لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ آپ کی بیٹی ہوگی مجھے یقین ہے کہ آپ کو ہمارا یہاں آنا اور یہاں آنے کا مقصد برا نہیں لگا ہوگا وہ بے حد صاف الفاظ میں اپنی بات کلیئر کر چکا تھا جس کا مطلب بھی وہ سمجھ چکے تھے
غالب صاحب نے ایک نظر سعدیہ بیگم کی جانب دیکھا جو یہ سب کچھ دیکھ کر کافی پریشان لگ رہی تھی
بھائی صاحب آپ کی بیٹی اسمارہ میری بیٹی کی دوست ہے کالج میں کیا بتاؤں میری بیٹی تو بس اسی کے گن گاتی رہتی ہے گھر میں صرف اسی کے بارے میں بات کرتی ہے میری بیٹی شازی کا تو کالج میں اور کوئی دوست نہیں ہے ۔
میں اپنی بیٹی سے ملنے جب کالج میں گئی میری ملاقات اسمارہ سے ہوئی تھی وہ سیدھی سادی معصوم سی لڑکی دل کو بھا گئی میں نے اسی وقت اسے اپنے بیٹے شہریار کے لئے پسند کر لیا تھا اور میرے بیٹے کو بھی میری پسند پر کوئی اعتراض نہیں ہے
جس دن وہ ٹرپ پر جا رہی تھی اس دن شہریار نے ایک سرسری سی نظر اس کو دیکھا تھا اور آج اس کا دعوی ہے کہ وہ اس سے محبت کر بیٹھا ہے پہلی نظر کی محبت بڑی ظالم ہوتی ہے انسان کو ایک ہی جگہ قید کر لیتی ہے انسان آسانی سے اس سے پیچھا چھڑا کر آگے نہیں بھر پاتا میں جانتی ہوں آپ میری بات کا مطلب بہت اچھے طریقے سے سمجھ رہے ہوں گے
وہ بے حد مدہم لہجے میں بات کر رہی تھی ان کے انداز نے غالب صاحب کو متاثر کیا تھا
لیکن وہ اس بات کو نظر انداز بھی نہیں کر سکتے تھے کہ وہ اپنی بیٹی کی بات کہیں اور طے کر رہے ہیں تھے انہوں نے زبان نہیں دی تھی لیکن پھر بھی وہ لڑکا انہیں بےحد پسند تھا اپنی بیٹی کے لحاظ سے
میری بیٹی اس بارے میں کچھ جانتی ہے کافی دیر سوچنے کے بعد وہ بولے
شہریار نے فورن نہ میں سر ہلایا اپنی محبت کی خاطر اسمارہ کی ذات پر کسی قسم کا کوئی الزام برداشت نہیں کر سکتا تھا
آپ کی بیٹی نے تو شاید میرے بیٹے کو دیکھا تک نہیں یہ تو یکطرفہ محبت ہے جسے آپ بہت خوبصورت رشتے میں بدل سکتے ہیں
بھائی میں جانتی ہوں آپ کی بیٹی کے لئے بہت اچھے رشتے آئے ہوں گے لیکن میرا دعوی ہے میرے بیٹے سے زیادہ محبت اسے اور کوئی نہیں دے سکے گا اللہ کے فضل و کرم سے دولت کی ہمیں بھی کوئی کمی نہیں ہے آپ کی بیٹی کی ہر خواہش پوری ہوگی
میرا بیٹا اس کی خواہشوں کی قدر خود سے بڑھ کر کرے گا
بے شک محبت تو ہر کوئی دے سکتا ہے لیکن میرا بیٹا آپ کی بیٹی کو تحفظ کے ساتھ ساتھ عزت بھی دے گا جس کی خواہش ہر لڑکی کرتی ہے
آپ کی بیٹی کا معاملہ ہے آپ سوچ سمجھ کر جواب دیں ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے ہم آپ کے جواب کے منتظر رہیں گے
وہ مسکرا کر کہنے لگی غالب صاحب نے صرف ہاں میں سر ہلایا اور ان کے ساتھ ہی اٹھ کھڑے ہوئے
انہوں نے ایک نظر شہریار کو دیکھا پچھلے سات سال سے یہ لڑکا اپنا نام بنائے ہوئے تھا
قادر صاحب کی شخصیت بھی ان سے چھپی ہوئی ہرگز نہیں تھی ان کے ساتھ ان کے بزنس کے حوالے سے کافی اچھے تعلقات تھے
اور ان کے جانے کے بعد جس طرح سے شہریار نے سب کچھ سنبھال لیا تھا وہ قابل تعریف تھا انہیں شہریار بہت پسند تھا لیکن اپنی بیٹی کے حوالے سے انہوں نے کبھی بھی شہریار کو نہیں سوچا تھا
انہیں بالکل بھی اندازہ نہ تھا کہ شہریار اور اس کی والدہ ان کے گھر اس مقصد سے آئیں گے ۔بلکہ شہریار کا یوں اچانک ان کے گھر میں آنا ان کے لئے کافی حیران کن تھا ۔
لیکن شہریار کا اسمارہ کا رشتہ لے کر ان کے گھر میں آنا انہیں سوچ میں مبتلا کر گیا تھا ایک طرف وہ لڑکا تھا جو ابھی ابھی بزنس سٹارٹ کر کے اپنا نام کمانا شروع کر رہا تھا جبکہ دوسری طرف شہریار تھا ایک کامیاب بزنس مین
ایک کامیاب انسان اگر وہ ایک دوست بن کر سوچتے ہیں تو دوست کے ساتھ ناانصافی کر دیتے اور اگر وہ ایک باپ بن کر سوچتے ہیں تو شہریار کے لیے ایک بہترین آپشن تھا اب تک آئے اسمارہ کے تمام رشتوں میں سے انہیں شہریار سب سے زیادہ پسند آیا تھا
لیکن وہ پھر بھی خود سے فیصلہ نہیں کر سکتے تھے وہ اس رشتے کے بارے میں فی الحال دادا جان سردار شاہ اور قلب سے بات کرنا چاہتے تھے ان کے مشورے کے بغیر وہ ویسے بھی اپنی بیٹی کا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے تھے اور سعدیہ بیگم کو بھی ان کی بات بالکل ٹھیک لگی تھی
ویسے بھی اب تک آئے اسمارہ کے تمام رشتوں میں شہریار کا رشتہ ہی سب سے بہترین لگ رہا تھا
°°°°°
ماما ان لوگوں نے کیا کہا کیا وہ لوگ اسمارا کی شادی بھیا کے ساتھ کرنے کو تیار ہے وہ جب آئی تو شیزرہ کافی بے چینی سے ان کے پاس آئی تھی جب کہ شہریار گاڑی کھڑی کرنے جا چکا تھا
ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا بیٹا ان کی بیٹی کا معاملہ ہے وہ اس طرح سے جواب تو نہیں دے سکتے نا انہوں نے وقت مانگا ہے
انشاءاللہ سوچ سمجھ کر اچھا فیصلہ ہی کریں گے تم بھی دعا کرو کہ ان کا فیصلہ تمہارے بھائی کے حق میں ہو
اس کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے ماما سمجھاتے ہوئے بولیں وہ نہیں جانتی تھی کہ اس رشتے سے انکار کرنے پر شہریار کو کوئی فرق پڑے گا یا نہیں لیکن ان کی بیٹی اداس ہو جائے گی اس بات کا اندازہ تھا
انشاء اللہ ہاں جواب ہوگا میرے بھائی میں کوئی کمی ہے کیا دیکھ لیجئے آپ وہ لوگ ہرگز انکار نہیں کریں گے اگر آپ کہیں تو میں اس بارے میں اسمارا سے بات کروں وہ اس معاملے کو ایک مسئلہ کے طور پر لیتی ہوئی ان سے پوچھنے لگی
نہیں بیٹا ہرگز نہیں تم اس بارے میں کچھ نہیں بتاؤں گی یہ تو اس کے والدین اس سے پوچھیں گے کہ وہ کیا فیصلہ کرتی ہے ہمارا کام رشتہ لے کر ان کے گھر جانا تھا اور ہم اپنا کام کر چکے ہیں اب آگے اس کے والدین نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس کے لئے کون سا رشتہ بہتر ہے
اور پھر اسی حساب سے وہ اسمارہ سے بھی سوال پوچھیں گے یہاں بات بیٹی کے رشتے کی ہو رہی ہے یقیناوالدین بہتر فیصلہ کریں گے اب ہمیں اور کچھ نہیں کرنا صرف ان کے جواب کا انتظار کرنا ہے اور تمہیں اس بارے میں اس طرح سے کوئی بھی بات کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے
اسمارہ کے والدین ہمیں جواب دے دیں پھر آگے کے مراحل طے ہوں گے ہم نے خاموش ہی رہنا ہے چلو جاؤ کیا شکل بنائی ہوئی ہے صبح سے بالوں میں کنگی تک نہیں کی ہے تم نے چلو جلدی سے جا کر اپنی حالت ٹھیک کرو کیا حال بنا رکھا ہے تم نے اپنا تمہارا بھائی تمہیں دیکھ کر کیا سوچے گا کہ اس کی شادی کو سر پر سوار کر لیا ہے ۔
وہ اسے زبردستی کمرے میں بھیجتے ہوئے کہنے لگی تو اس نے صرف ہاں میں سر ہلایا اور اپنے کمرے میں چلی گئی ۔