عشقِ دلبرم

Areej shah novel

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 5

سمجھ نہیں آرہا دونوں رشتے ہی بہترین ہیں لیکن شہریار کی شخصیت میں زیادہ وزن ہے عاصم ابھی کامیابی کی طرف جا رہا ہے جبکہ شہریار ایک کامیاب انسان ہے اگر سچ کہوں تو مجھے شہریار بے حد پسند ہے
عاصم بھی بہت اچھا انسان ہے ۔لیکن شہریار کی کامیابی نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے سردار شاہ بات کرتے ہوئے شہریار کی سائیڈ لے رہے تھے
جی بابا میں بھی ایک بار شہریار سے ملا ہوں بلکہ ابھی تین دن پہلے ہی ملا ہوں ۔مجھے بھی شہریار ہی زیادہ اچھا لگا اگر آپ عاصم اور شہریار کا موازنہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو مجھے شہریار ایک بہترین انسان لگا ۔
لیکن فیصلہ تو آپ دونوں نے کرنا ہے آپ ایک بار آنٹی سے کنفرم کر لیں اگر انہیں کوئی اعتراض ہو تو پھر سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں
کیونکہ مجھے تو یہی لگتا ہے کہ دادا اور چچا سب ہی شہریار کے حق میں ہیں اور اگر آپ مجھ سے پوچھتے ہیں تو میں بھی شہریار کو ہی چنوں گا۔
کیوں کہ بیٹیوں کے معاملے میں ہمیشہ تھوڑا سا خود غرض ہو کر سوچنا پڑتا ہے ۔ہم بھی اپنی بیٹی کے معاملے میں تھوڑا خود غرض ہو کر سوچتے ہیں اس میں کچھ غلط نہیں ہے یہ تو حکم ہے کہ بیٹیوں کے نصیب کا فیصلہ بہترین کیا جائے
عاصم بہتر ہے لیکن شہریار بہترین ہے
اگر ہمارے پاس بہترین کا آپشن ہے توہم بہتر کی جانب کیوں جائیں لیکن میں یہ بھی کہوں گا کہ پلیز آپ ایک بار اسمارہ سے بھی اس بارے میں ضرور بات کریں ۔اس نے بات ختم کرتے ہوئے کہا
جی بھائی صاحب قلب ٹھیک کہہ رہا ہے اس طرح کے فیصلوں میں بیٹیوں کی مرضی شامل ہونا بے حد ضروری ہے میں نہیں چاہتا کہ جو اس گھر میں پہلے ہوا وہ دوبارہ ہو۔
چار سال پہلے جو کچھ ہوا اس کے بعد میں آج سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہیں میرے سینے پہ خنجر چلانے والی کوئی غیر نہیں بلکہ میری اپنی بیٹی تھی ۔
کچھ زخم کبھی بھرے نہیں جا سکتے اسمارہ سے ایک بار آپ ضرور پوچھ لیجئے گا تاکہ کل کو کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہ ہو ۔میں نہیں چاہتا جو غلطی میں نے کی ہے وہ غلطی اس گھر میں کوئی بھی دوبارہ کرے سردرد شاہ نظر جھکائے اپنی بات مکمل کرتے اٹھ کھڑے ہوئے تھے
غالب صاحب کہنا چاہتے تھے ان کی بیٹی اور کرن میں بہت فرق ہے لیکن وہ اپنے بھائی کو مزید شرمندہ نہیں کرنا چاہتے تھے اسی لئے خاموش رہے ۔
انہوں نے ایک نظر اپنے باپ کے جانب دیکھا ۔
ہم سب کا فیصلہ شہریار کے حق میں ہے غالب ہمیں عاصم کے رشتے پر بھی کوئی اعتراض نہیں بیشک وہ بھی بہترین رشتہ ہے
عاصم امریکہ میں رہتا ہے وہ کامیاب ہوگا ہماری بیٹی خوش رہے گی یہ سوچ کر اپنی بیٹی کو خود سے دور کر دینا عقلمندی نہیں امریکا میں وہ خوش رہے گی اس بات کی کیا گارنٹی ہے کون سا ہم اسے وہاں دیکھ رہے ہوں گے پاکستان میں ہمارے گھر کے پاس ایک ہی شہر میں وہ ہر وقت ہمارے سامنے رہے گی
اس کے صحیح غلط ہر فیصلے میں ہم اس کو ایک اچھا سپورٹ دے سکتے ہیں میرے خیال میں ہمیں شہریار کے رشتے پر غور کرنا چاہیے ناکہ عاصم کے رشتے پر انہوں نے سمجھاتے ہوئے کہا تو غالب شاہ نے ہاں میں سر ہلایا وہ مزید کچھ نہیں سوچنا چاہتے تھے
°°°°
شیزرہ کالج آئیں تو اسے پتہ چلا کہ آج اسمارا نہیں آئی ہے ۔ان نے ویسے بھی اسے بتا دیا تھا کہ وہ آج نہیں آئے گی لیکن اس کے پیچھے تو وجہ وہ رشتہ تھا جو آج اس کے لئے آنے والا تھا
لیکن کل تو اس کے بھائی کا رشتہ گیا تھا تو کیا ان لوگوں کو انکار تھا اس رشتے سے تبھی تو وہ آج نہیں آئی تھی ورنہ ضرور آتی
اسے پریشانی ہونے لگی تھی یقیناًان لوگوں کو رشتے سے انکار کرنا تھا اور اگر وہ لوگ انکار کرتے تو اس کے بھائی کا کیا ہوتا
اس کے بھائی نے کہہ دیا تھا کہ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن شیرزہ کوفرق پڑتا تھا کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ اسمارا اس کی بھابھی بنے۔
اس کا سارا دن یوں ہی پریشانی میں گزر گیا کالج میں بھی اس نے کسی سے کوئی بات نہیں کی آج کا سارا دن اس کا موڈ آف ہی رہا ۔
گھر واپس آئی تو ماما گھر پر نہیں تھیں جبکہ شہریار اپنے آفس میں تھا کمرے میں آ کر اس کا دل چاہا کہ وہ اسمارہ کو فون کرے لیکن ماما نے اسے منع کر رکھا تھا اسی لئے خود کو ریلیکس کرتی ٹی وی کی جانب متوجہ ہونے کی کوشش کرنے لگی
۔۔
جو اس کے لئے کافی مشکل تھا ٹی وی بند کر کے وہ بیڈ پر لیٹی اپنا موبائل یوز کرنے لگی جب اچانک ہی سوچ کے دھاگے قلب کی ذات سے الجھنے لگے ۔
اس کے ذہن میں ایک بار پھر سے اس کی اداس آنکھیں روشن ہونے لگی ۔وہ اس کے بارے میں کیوں سوچتی تھی وہ خود بھی نہیں جانتی تھی لیکن وہ اس کی زندگی میں اس کے ذہن پر سوار ہو چکا تھا ۔
وہ اس کی ذات کو سلجھانا چاہتی تھی ایک سوچ ہمیشہ اس کے سر پر سوار رہتی۔ لیکن ایسا کیوں ہوتا تھا وہ تو قلب کو ٹھیک سے جانتی تک نہیں تھی اس کے بارے میں اسے صرف اتنا ہی پتہ تھا کہ وہ اسمارہ کا بھائی ہے
اس کی اداسی سے اس کا کیا لینا دینا تھا وہ کیوں اسے نظر انداز نہیں کر پا رہی تھی۔جب وہ اس کے ذہن پر سوار ہوتا ہر سوچ اس کے دماغ سے نکل جاتی اسے کچھ یاد رہتا تو صرف اس کی آنکھیں اس کی اداس آنکھیں وہ اسے اداس نہیں دیکھنا چاہتی تھی
اس کے دل میں ایک خواہش جاگی تھی اس کی اداس آنکھوں میں خوشی لانے کی ۔۔۔لیکن کیوں ۔۔۔۔۔؟وہ کیوں اسے خوش دیکھنا چاہتی تھی اس سوال کا جواب وہ خود بھی نہیں جانتی تھی
°°°°°
ارے اسمارہ تم کالج نہیں گئی سعدیہ بیگم اس کے کمرے میں آئی تو وہ الماری سے اپنے نئے کپڑے نکال رہی تھی
ماما آپ نے ہی تو دو دن پہلے منع کیا تھا کہ مجھے منڈے کو کالج نہیں جانا کیوں کہ کچھ لوگ آ رہے ہیں مجھے دیکھنے کے لیے اس نے یاد کرواتے ہوئے کہا ۔
اوہ مجھے یاد آیا میں نے ہی تمہیں منع کیا تھا لیکن تمہاری چھٹی ویسٹ ہوگئی کیونکہ اب وہ لوگ نہیں آ رہے سعدیہ بیگم اسے دیکھتے ہوئے بولی ۔
لیکن ماما آپ نے تو کہا تھا کہ وہ لوگ آرہے ہیں اب اچانک وہ لوگ کیوں نہیں آ رہے کیا کوئی بات ہو گئی ہے وہ یہ سب کچھ نہیں پوچھنا چاہتی تھی لیکن یہ الگ بات تھی کہ اپنے رشتے کے بارے میں وہ سب کچھ جاننا چاہتی تھی۔
ہاں بیٹا دراصل تمہارے ابو نے اس رشتے کے لئے انکار کر دیا ہے وہ تمہاری شادی وہاں نہیں کرنا چاہتے بلکہ انہیں کوئی اور لڑکا پسند آ گیا ہے وہ تمہیں خود سے اتنے دور دوسرے ملک میں نہیں بھیجنا چاہتے تھے اسی لیے وہ تمہاری شادی پاکستان میں ہی کرنا چاہتے ہیں ۔
پاکستان سے بھی تمہارے لئے بہت اچھے اچھے اور قابل غور رشتے آئے ہیں لیکن تمہارے بابا کو شہریار قادر کا رشتہ پسند ہے فی الحال انہوں نے کلیئر تو نہیں کیا لیکن سب گھر والے شہریار قادر کے حق میں ہیں ۔
بلکہ تمہارے ابو تو جلد ہی نکاح چاہتے ہیں دراصل تمہیں تو پتا ہے کہ اگلے مہینے تمہارے ابو حج کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ وہ پہلے تمہاری ذمہ داری نبھا لینا چاہتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ قلب کی زندگی پھر سے روشن ہو جائے لیکن قلب شادی کے لئے راضی نہیں وہ اپنی زندگی دوبارہ مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا ۔ اس کا پہلا تجربہ بھی کافی زیادہ تلخ رہا ہے لیکن تمہارے لیے وہ بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے
انہوں نے بے حد محبت سے اس کے گال کو چومتے ہوئے کہا تو اسمارا مسکرائی
یقیناماما بابا میرے بارے میں جو بھی فیصلہ کریں گے وہ بہت اچھا ہوگا ۔مجھے بابا کے کسی فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔وہ چاہے میری شادی پاکستان میں کریں یا پاکستان سے باہر میں ان کے فیصلے پر سر جھکا لوں گی
آپ میری طرف سے کسی بھی قسم کی ٹنشن نہ لیں انشاءاللہ میں آپ کی تربیت کو کبھی شرمندہ نہیں ہونے دوں گی ۔
اب آپ بالکل بے فکر ہو جائیں اور جا کر آرام کریں آج شام کا ڈنر میں خود ریڈی کروا لوں گی ویسے بھی آج تو فری ہوں کالج سے بھی چھٹی ہو گئی سارا دن بور ہو جاؤں گی ۔ویسے آج میری سہیلی مجھے بہت گالیاں دے رہی ہو گی کالج نہ آنے پر اس نے مسکرا کر کہا۔
کون سی سہیلی شیزرہ ۔۔۔؟ماما نے سرسری سے انداز میں پوچھا
ارے واہ آپ کو میری دوست کا نام یاد ہے بس وہی تو ہے ۔وہ تو کہہ رہی تھی کہ میں آج کالج نہیں آرہی تو وہ بھی نہیں آئے گی کیونکہ سارا دن میرے بغیر بور ہو جائے گی لیکن آج سر احمد کی بہت اہم کلاس تھی کسی ایک کا ہونا بہت لازمی تھا وہ یقینا میرے نوٹس بھی بنا دے گی۔اس نےیقین سے کہا
کیا تم اپنی اس دوست کو بہت چاہتی ہو۔سعدیہ بیگم آج ایسے ہی اس سے سوال جواب کرنے لگیں۔
جی بالکل وہ ہے ہی اتنی پیاری اور معصوم سی کون اس سے پیار نہیں کرے گا آپ ایک بار اس کی باتیں سنیں نا تو آپ ہنس ہنس کے پاگل ہو جائیں ۔شیزرہ کو یاد کر کے اس کے اپنے لبوں پر بھی پیاری سی مسکراہٹ آ گئی تھی ۔
اگر تمہیں تمہاری اس سہیلی کا ساتھ ہمیشہ کے لیے مل جائے تو ۔ماما کا انداز اب بھی ویسا ہی تھا ۔وہ بس یہاں غالب شاہ کے کہنے پر اس رشتے میں اسمارہ کی جانب سے دلچسپی دیکھنا چاہتی تھی ۔
لڑکیوں کی دوستی کا ساتھ ہمیشہ کا تو نہیں ہوتا نا ۔چند سالوں کا ساتھ ہوتا ہے جو چند سالوں میں گزر جاتا ہے بس اچھی یادیں ہمیشہ وابستہ رہتی ہیں ۔
دوست دنیا میں تو نہ سہی لیکن آخرت میں ضرور ملتا ہے مجھے اپنی اس دوستی پر اتنا یقین ہے کہ میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ قیامت کے دن شیزرہ سے ملاقات ضرور نصیب ہوگی ۔
اور اگر تمہیں دنیا میں ہی اس کا ساتھ مل جائے تو ۔۔۔ماما نے پھر سے پوچھا
تومیں اپنے آپ کو اس دنیا کی سب سے خوش قسمت دوست تصور کروں گی اس نے مسکرا کر کہا
ذریعہ کوئی بھی ہو تمہیں تمہاری دوستی چاہیے ہے نا ماما سوال کر رہی تھیں
کیا مطلب ۔۔۔؟میں کچھ سمجھی نہیں ماما اسے سچ میں ان کی بات سمجھ میں نہیں آئی تھی ۔
مطلب یہ پوچھ رہی ہوں کہ کیا تم اپنی اس دوست کے ساتھ کے لیے کچھ کرنے کو تیار ہو۔۔ماما کا انداز اب اسے پریشان کر رہا تھا ۔
جی بالکل اگر ہماری دوستی ہمیشہ کے لیے ہو جائے تو کیا ہی کہنے کیسے اچھا نہیں لگے گا کہ اس کا بیسٹ فرینڈ ہمیشہ اس کے ساتھ رہے ۔
مطلب میں اس رشتے کے لیے ہاں کر دوں تمہاری طرف سے ماما کے اچانک سوال نے اسے حیران کر دیا تھا
تمہارے بابا چاہتے ہیں کہ میں ایک بار تمہاری مرضی پوچھ لوں میں جانتی ہوں تہمیں اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن میں نے سوچا کیوں نہ تمہیں اس رشتے کا ایک اہم فائدہ بھی بتا دوں جیسے جان کر تمہیں یقیناخوشی ہوگی ۔انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا لیکن اسمارا کیلئے یہ سب کچھ ہینڈل کرنا بے حد مشکل تھا
ماما میں اب بھی نہیں سمجھی آپ کیا کہنا چاہتی ہیں اس نے صاف گوئی سے کہا
اف نادان لڑکی جو رشتہ تمہارے لیے آیا ہے شہریار قادر کا وہ کوئی اور نہیں بلکہ تمہاری بیسٹ فرینڈ شیزرہ کا سگا بڑا بھائی ہے ۔
تمہارے بابا کو یہ رشتہ بے حد پسند آیا ہے وہ شہریار کو بہت اچھے طریقے سے جانتے ہیں ۔اس کی امی نے تمہیں کالج میں پسند کرکے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ تمہیں اپنے بیٹے کے لئے مانگ کر گی ہیں
اور اسی سلسلے میں کل وہ یہاں ہمارے گھر آئی تھیں تمہارا ہاتھ مانگنے کے لیے تمہارے بابا کو اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں ہے یہاں تک کہ تمہارے چچا اور دادا نے بھی اس رشتے کے لیے حامی بھر دی ہے
قلب شہریار سے مل چکا ہے اسے بھی شہریار بہت پسند آیا ہے ۔اور اب تمہارے بابا تمہاری رضامندی چاہتے ہیں ۔
تمہیں خود سے دور امریکہ بھیجنے سے کہیں بہتر انہیں پاکستان کا یہ رشتہ لگا ۔اسی لیے تم سے یہ تمام سوال جواب کر رہی تھی اب تم مجھے جلدی سے اپنا جواب بتاو تاکہ میں تمہارے بابا کو مطمئن کر سکوں
ہم ان لوگوں کو جلد سے جلد جواب دینا چاہتے ہیں ماما سے سمجھاتے ہوئے بتانے لگیں
آپ لوگوں کو جو بہتر لگے وہی ٹھیک ہو گا ماما مجھے کوئی اعتراض نہیں اس نے سر جھکاتے ہوئے کہا تو ماما نے مسکرا کر اس کی پیشانی کو چوم لیا
جیتی رہو خوش رہو اللہ تمہیں ہر بری نظر سے بچائے تمہارے بابا تمہارا فیصلہ جان کر بے حد خوش ہوں گے ۔
ہم جلد ہی ان لوگوں کو ہاں میں جواب دے دیں گے ماما اٹھ کر کھڑی ہوئی تو اسمارہ بھی ان کے ساتھ ہی اٹھی۔
اسمارہ نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس کا رشتہ اس کی بیسٹ فرینڈ کے گھر سے آئے گا
اسے یاد تھا شہریار کو اس نے ایک دفعہ دیکھا تھا جس دن وہ ٹرپ پر جا رہی تھی اس دن وہ بے حد زبردست پرسنیلٹی کا مالک تھا اور دیکھنے میں بے حد خوبصورت تھا ۔
لیکن اس کے لیے اس کا رشتہ آجائے گا یہ تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس وقت وہ کس طرح سے ری ایکٹ کرے کیا اسے شیزرہ کو فون کرنا چاہیے اس بارے میں اس سے کچھ پوچھنا چاہیے لیکن وہ اس سے کیا پوچھے گی ۔۔
کتنا عجیب لگے گا یہ کہتے ہوئے کہ میرے لئے تمہارے بھائی کا رشتہ آیا ہے
اور میرے تمام گھر والوں کو وہ رشتہ اتنا پسند ہے کہ وہ فوراً ہی اس کی شادی اس سے کر دینے کو تیار ہیں ۔
شیزرہ نے خود بھی تو اس بارے میں اس سے کوئی بات نہیں کی تھی ۔
شیزرہ نے اسے بتایا تک نہ تھا کہ اس کے گھر میں اس کا بھائی اور اس کی امی آئی ہیں یہ سب کچھ کب اور کس وقت ہوا تھا اسے بالکل بھی پتا نہیں تھا ۔
ہاں لیکن ایک بہت بڑا بوجھ اس کے کندھوں سے اتر چکا تھا وہ جو یہ سوچ رہی تھی کہ شادی کے بعد اس کی زندگی کیسی ہوگی وہ ساری سوچیں کہیں دور جا سوئی تھی
امریکہ میں ماں باپ سے دور پڑھائی چھوڑ کر اپنے خوابوں کو چھوڑ کر زندگی گزارنا اسے یہ سوچ ہی گھبراھٹ میں مبتلا کر دیتی تھی لیکن اب وہ ہر بری سوچ سے آزاد ہو چکی تھی۔
اسے نہیں پتہ تھا کہ شہریار کے ساتھ اس کی زندگی کیسی ہوگی وہ جانتی تھی کہ شادی کے بعد ہر لڑکی کی زندگی بدل جاتی ہے اس پر ذمہ داریاں آ جاتی ہیں زندگی مشکل ہو جاتی ہے لیکن اسے یقین تھا کہ اب اس کی زندگی اتنی مشکل ہرگز نہیں ہوگی جتنی امریکا میں اس کی زندگی ہوتی۔۔۔
°°°
تم آج کالج کیوں نہیں جا رہی شیزرہ تمہارے پیپر سر پر ہیں اور تمہیں بالکل ہوش نہیں ہے اپنی پڑھائی کا ماما کمرے میں داخل ہوئی
تھوڑی دیر پہلے ہی ملازمہ نے انہیں آکر بتایا تھا کہ بی بی جی آج کالج نہیں جا رہی اس کے پیپر ہونے میں تقریبا دو مہینے ہی باقی تھے اور ایسے میں شیزرہ بہت لاپروائی سے کام لے رہی تھی
ماما کو اس کی لاپروائی ایک آنکھ نہ بھائی تھی اسی لئے تو صبح صبح اس کی کلاس لینے اس کے کمرے میں آ پہنچی
ماما میرا بالکل دل نہیں چاہ رہا کہیں پر بھی جانے کا اور ویسے بھی وہ اسمارہ کی بچی تو کل بھی نہیں آئی مجھے یقین ہے اس امریکا والے جس کا رشتہ آیا تھا اس کے لیے یقینا ہاں ہو گئی ہو گی اسی لیے نہیں آئی وہ
وہ پریشانی سے بیڈ پر بیٹھی ابھی رو دینے کو تھی
تو کیا ہوگیا بیٹا میری جان میں نے تمہیں سمجھایا تو تھا نصیبوں کے کھیل میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا اللہ نے جس کا نصیب جس طرح لکھا ہے اسی طرح سے ہونا ہے
اس میں تمہاری سہیلی یا پھر تمہارے بھائی کا کوئی قصور نہیں ہے اور نہ ہی اس شخص کا ہے جو اس کے لیے رشتہ آیا ہے
کس کے نصیب میں کیا لکھا ہے یہ اللہ سے بہتر اور کوئی نہیں جانتا ہم دنیا میں کچھ بھی بدل سکتے ہیں لیکن اپنی نصیب کو ہرگز نہیں کیونکہ یہ اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے ۔
تم بالکل اداس مت ہو جو ہونا تھا سو ہو گیا
اور ان لوگوں نے ابھی تک ہمیں جواب نہیں دیا اگر وہ لوگ اس امریکن کے رشتے کے لئے ہاں کریں گے تب بھی پہلے ہمیں انکار کریں گے
ہو سکتا ہے فی الحال وہ دونوں رشتوں پر غور کر رہے ہوں یہ لمحات بہت نازک ہوتے ہیں بیٹیوں کی زندگی کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے یوں ہی لمحے میں ہاں نہیں کی جاتی
ان لوگوں کو پورا حق ہے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کا ۔جیسے چاہے فیصلہ کریں ان کی بیٹی ہے وہ بہتر جانتے ہیں اور اب اس بات کو تم اپنے سر پر سوار مت کرو جلدی سے تیار ہوجاؤ ڈرائیور تہمیں کالج چھوڑ کے آئے گا اور تم کالج ضرور جاؤں گی ماما نے ذرا سختی سے کہا
نہیں ماما پلیز آج میرا بلکل دل نہیں چاہ رہا کہیں پر بھی جانے کا میں آج چھٹی کروں گی کل جاؤں گی پکا وعدہ آج میرا بالکل دل نہیں کر رہا گھر سے نکلنے کا وہ منہ بنا کر بیڈ پر بیٹھی بولی
اچھا ٹھیک ہے کیا یاد کروں گی آج چھٹی کر لو ماما نے مسکرا کر اسے اجازت دی تو وہ بھی مسکرا دی
زیادہ دانت نکالنے کی ضرورت نہیں ہے نیچے آو لان کی صفائی کریں گے کتنا گندہ ہے ملازموں کو تو ذرا ہوش نہیں ہے ہم تو اس گھر میں رہتے ہیں ہمیں ہی غور کرنی ہوگی
فرض کرو اگر وہ لوگ ہاں کر دیں تو اس حال میں شادی کریں گے ذرا حالت دیکھو گھر کی پتہ نہیں ملازم سارا دن کرتے کیا رہتے ہیں ماما برابڑاتے ہوئے باہر جانے لگی
اس سے تو اچھا ہے کہ میں کالج ہی چلی جاؤں شیزرہ فورا سے بولی
یہ تو اور بھی اچھی بات ہے چلو جلدی سے ریڈی ہو جاؤ ماما پلٹ کر کہنے لگی تو اس نے فورا کانوں کو ہاتھ لگایا
ارے میری پیاری ماما میں تو مذاق کر رہی تھی آپ تو سیریس ہی ہوگئی اس کے انداز نے ان کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دی
تمہارے مذاق کی تو ۔۔۔۔۔۔جلدی سے باہر آؤ بہت سارا کام کرنا ہے مامانےجاتےجاتے اسے پھر سے یاد کروایا
°°°°°°°
بیگم صاحبہ شاہ حویلی سے فون آیا ہے کوئی میڈم ہیں آپ سے بات کرنا چاہتی ہیں ملازمہ نے آکر انہیں انفارم کیا وہ جو کچن میں آج شیزرہ کو کوئی نئی ڈش بنانا سکھا رہی تھی ملازمہ کے بتانے پر فورا باہر آئی ۔
جبکہ شیزرہ شاہ حویلی سے فون کا سن کر پریشان ہو چکی تھی اس نے جلدی سے سب سے پہلے تو دعا مانگی کہ جو بھی ہو اچھا ہو۔اور پھر ماما کی واپسی کا انتظار کرنےلگی۔
اسے کھانا بنانا نہیں آتا تھا لیکن پھر بھی ماما اسے آہستہ آہستہ کھانا بنانا سکھا رہی تھیں وہ اکثر ہی شام میں اسے اپنے ساتھ کے کچن میں ہی رکھتی تھیں۔
زیادہ انٹرسٹ نہ ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے بھائی کے لیے کبھی کبھار کھانا بنایا کرتی تھی کیونکہ وہ اس کی بہت تعریف کرتا تھا چاہے کھانا کیسا بھی کیوں نہ ہو ۔
پہلے ایک دو بار تو اس نے خود ہی کھانا چکھا بھی تھا جو اسے بالکل پسند نہیں آیا تھا لیکن اس کے بھائی نے اس کے کھانے کی اتنی تعریف کی تھی کہ پھر اس نے خوش ہو کر بار بار کوشش جاری رکھی۔
اب وہ ٹھیک ٹھاک کھانا بنانے لگی تھی لیکن بہت اچھا پھر بھی نہیں ۔
اس کا سارا دھیان باہر آئے فون کی جانب تھا جب ماما کال سن کر مسکراتے ہوئے کچن میں آئی۔
ماما ان لوگوں نے فون کیوں کیا تھا سب کچھ ٹھیک تو ہے نہ کیا بات کرنی تھی انہوں نے ان کے آتے ہی اس نے سوال شروع کر دیے ۔
شیزرہ بیٹا سانس تو لے لو خوشخبری ہے ان لوگوں نے رشتے کیلئے ہاں کر دی ہے ۔اب تم بھی ٹینشن لینا بند کرو اور جا کر اپنے بھائی کو کہو کہ آتے ہوئے مٹھائی لے کر آئے۔ ماما نے بے حد خوشی سے کہا تو وہ چختے ہوئے ان کے گلے سے لگ گئی ۔
اوو ہوو پیاری ماما اب مٹھائی نہیں کیک کا رواج ہے اب آپ یہ اولڈ فیشن چیزیں چھوڑیں اب آپ کی بہو آنے والی ہے اب تھوڑی ماڈرن ہو جائیں وہ ۔بے حد شرارت سے کہتی شہریار کو فون کرنے بھاگ چکی تھی ماما صرف مسکراتی اپنے کام میں مصروف ہو گئی
°°°°°°
شہریار بےحد خوش تھا اس کی پہلی خوشی اسے ملنے جا رہی تھی اس کی پہلی محبت اس کے نصیب میں لکھ دی گئی تھی
شیزرہ فون پر بے حد خوش لگ رہی تھی اس نے یہ خوشخبری اتنی خوش دلی سے سنائی تھی شہریار کا موڈ اپنے آپ خوشگوار ہوگیا ۔
اس نے آتے ہوئے مٹھائی لانے کا کہہ کر فون بند کر دیا وہ اپنی خوشی شیزرہ کے سامنے بیان نہیں کر پا رہا تھا
اس نے تھوڑی دیر بعد ہونے والی میٹنگ بھی کینسل کردی اس وقت وہ کسی بھی میٹنگ کا حصہ نہیں رہنا چاہتا تھا اس وقت وہ اپنی خوشی اکیلے منانا چاہتا تھا ۔
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کس طرح اپنی خوشی کا اظہار کرے اس وقت وہ اتنا خوش تھا کہ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ چیخ چیخ کر پوری دنیا کو بتا دےکہ اس کی محبت اس کی ہونے جا رہی ہے ۔
کل تک وہ یہی سوچ رہا تھا کہ اگر اسمارہ اس کی نہ ہوئی تو بھی کوئی بات نہیں وہ صرف ایک عام سی لڑکی ہے جو اسے دیکھنے میں اچھی لگی اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اس کے لئے اپنی زندگی ایک ہی جگہ روک دےگا ۔
اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ آگے بڑھ جائے گا اسمارا کو بھلا کر اپنی نئی زندگی ایک نئے طریقے سے جئے گا
لیکن پھر اس کے دل نے اس سے کہا تھا کہ ایسا ممکن نہیں ہے وہ لڑکی اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر چکی ہے اب اسے بھلا کر آگے بڑنا اس کے لئے ممکن نہیں ۔
آپنی زندگی خوشحال طریقے سے گزارنے کے لئے اسے اس لڑکی کا ساتھ ہر قیمت پر چاہیے تھا ۔اسے یقین تھا کہ اسمارہ کے بنا اس کی زندگی ویران ہو جائے گی ۔
اپنی پہلی محبت کو بھلا کر وہ کبھی آگے نہیں بڑھ سکے گا آگے بھرنے کے لیے اسمارہ کا ساتھ درکار تھا ہر قیمت پر اسے لگ رہا تھا کہ اسمارہ کے بغیر وہ کبھی خوش نہیں رہ پائے گا وہ عام سی لڑکی اس کی خوشیوں کی وجہ بن گئی تھی ۔
اور شاید یہی وجہ تھی کہ اس وقت اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی ۔وہ اس وقت کتنا خوش تھا وہ اپنی خوشی اسمارا کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا تھا شاید وہی اس کی خوشی کا اندازہ لگا سکتی تھی
وہی تو تھی جس نے اس کے دل کی دنیا بدل دی تھی ۔اس کا دل چاہ رہا تھا کہ کہیں اسمارااس کے سامنے آ جائے اور وہ اسے اپنے سینے سے لگا کر اپنے دل کی ہر بات کہہ دے ۔اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اسے محسوس کرے۔
اسے اپنی باہوں میں بھرے اس کی پیشانی پر اپنے لب رکھ کر راحت کے ایک نئے احساس کو محسوس کرے۔
اس کے نازک لبوں کو چوم کر محبت کی پہلی مہر ثبت کرے ۔اس کا دل اسمارہ کی قربت کا خواہشمند تھا۔ اس کا دل اس کے لیے مچلنے لگا تھا۔
تو آخرکار تم میری ہو نے جا رہی ہو۔۔آخر تمہیں میرے نصیب میں لکھ ہی دیا گیا میری دنیا میں خوش آمدید میری جان ۔
میں تمہیں اتنی خوشیاں دوں گا کہ تمہیں مجھ سے زیادہ کسی سے محبت نہیں ہوگی ۔تمہیں شہریار شاہ سے زیادہ اور کوئی عزیز نہیں ہوگا ۔
میں آ رہا ہوں اسمارہ غالب تمہیں اسمارہ شہریار بنانے تمہیں اپنی دنیا میں لانے وہ شیشے کی بڑی سی کھڑکی کے سامنے کھڑا باہیں پھیلائے اونچی آواز میں بولا ۔
°°°°°
اسمارہ دیکھو کسی چیز میں کوئی کمی نہیں دیکھنی چاہیے آج وہ لوگ باقاعدہ صرف تم سے ملنے کے لیے آرہے ہیں ۔
شہریار بھی ساتھ ہوگا اور تمہاری سہیلی بھی ہر چیز بہت اچھے طریقے سے ہونی چاہیے تمہارے ہر انداز سے پتہ چلنا چاہیے کہ تم کتنی سلیقہ مند ہو ۔
ماما صبح سے بار بار اسے یہی سب باتیں بتائے جا رہی تھی جب کہ وہ اپنے ہنر کا مظاہرہ کرتے بہت ساری اچھی اچھی ڈیشز بنا چکی تھی ۔
اس کی ماں نے اسے بتایا تھا کہ آج تمہارا اصل ٹیسٹ ہے جسے تم نے ہر حال میں پاس کرنا ہے وہ یہ سب کچھ کرتے ہوئے بہت زیادہ نروس تھی۔ دو بار کام کرتے کرتے تو اس کا ہاتھ بھی جل گیا
اور اس وقت سب کچھ تیار کرنے کے بعد ماما نے اسے اچھے سے تیار ہونے کے لیے بھیجا تھا کیوں کہ ان لوگوں نے شام پانچ بجے کا وقت دیا تھا اور اس وقت ساڑھے چار بج رہے تھے ۔
شیزرہ اس کی سہیلی تھی جسے لے کر وہ بہت زیادہ پرسکون تھی لیکن شہریار کی امی سے تو صرف ایک بار ہی ملی تھی وہ بھی ان کی بیٹی کی سہیلی کے طور پر اور پھرشہریار بھی تو پہلی بار ہی آ رہا تھا ۔
ویسے تو وہ پہلے تصویر بھی بھیج چکے تھے لیکن غالب صاحب نے کہا تھا ایک بار لڑکا لڑکی روبرو ایک دوسرے کو دیکھ لیں تو بہتر ہے ۔
کیونکہ یہ لوگ اگلے ہفتے ہی نکاح کرناچاہتے تھے غالب صاحب سعدیہ بیگم کے ساتھ حج کے لیے جانے والے تھے اور اس سے پہلے وہ اپنی ذمہ داری نبھانا چاہتے تھےاسمارہ کی ذمہ داری اچھے سے نبھا کر ہی وہ یہ سعادت حاصل کر سکتے تھے
ان کے فیصلے رخشندہ بیگم یاشہریار کو کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں تھا وہ ان کے فیصلے پر پوری طرح رضامندی ظاہر کر چکے تھے ۔جس کے بعد غالب صاحب بھی ریلیکس ہو گئے
°°°°°°°°°°
لیکن اسمارہ کی ماما نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ شادی کو لے کر وہ بہت زیادہ ٹینشن لے رہی تھیں اور اسے دے بھی رہی تھیں
اس وقت وہ ریلیکس ہو کر فریش ہوئی تو ماماکا لایا ہوا نیا سوٹ پہنا جو وہ سپیشلی آج کے لیے لائی تھیں۔
اس سے زیادہ پریشانی تو اس کی ماں کو تھی شاید یہ معاملات ہی ایسے ہوتے ہیں جو ماں کو پریشان کر دیتے ہیں ۔اپنی ماں کی ساری ہدایات ذہن میں رکھتے ہوئے اس نے اپنی تیاری مکمل کی ملازمہ نے اسے مہمانوں کے آنے کی خبر دی
°°°°°
وہ مہمان خانے میں جانے کی بجائے پہلے کچن میں آ کر چائے بنانے لگی جیسے اس کی ماں نے اسے سمجھایا تھا۔ اچھی سی چائے بنا کر اس نے اپنا حلیہ درست کرکے ملازمہ سے رائے جاننی چاہی جس نے بے ساختہ ماشااللہ کہا تھا
لیکن اسے ملازمہ پر بالکل یقین نہیں تھا کیونکہ وہ سب تو اٹھتےبیٹھے اسے ماشاءاللہ کہتی سعدیہ بیگم کو اس کی نظر اتارنے کا کہتی رہتی تھی
اسمارہ نے آہستہ سے چائے کا ٹرے اٹھایا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی مہمان خانے میں داخل ہوتے ہوئے سب کو سلام کیا ۔
اس کے سلام کا جواب کس نے دیا تھا کس نے نہیں اسے بالکل اندازہ نہیں تھا اس نے تو بس اپنی سہیلی دیکھی تھی جو اس کے قریب آتے ہوئے اس سے ملنے لگی تھی
اسے شیزرہ ہمیشہ سے بے حد عزیز تھی اور اب تو رشتہ بدلنے جا رہا تھا تو یقینا اور بھی زیادہ عزیز ہو جانے والی تھی
اسے کبھی بھی نہیں لگا تھا کہ اس کے اور شیزرہ میں رشتہ ایسا بن جائے گا کہ وہ ہمیشہ کے لئے ایک ساتھ ہو جائیں گے لیکن اس کی سہیلی نے اس کے ساتھ ایسا رشتہ بنا لیا تھا ہمیشہ اسے اپنے پاس رکھنے کے لئے ہمیشہ اپنی دوستی کو قائم رکھنے کے لیے ۔
او بیٹا یہاں آؤ میرے پاس بیٹھو رخشندہ بیگم نے بے حد محبت سے اسے اپنے پاس بٹھایا
جبکہ شہریار سامنے پارصوفے پر بیٹھا غالب اور سردارشاہ کے سوالوں کا جواب دے رہا تھا اس نے ایک نظر بھی اٹھا کر اس کی جانب نہ دیکھا تھا جبکہ اسمارہ نے ایک نظر اسے دیکھ لیا تھا ۔
بھائی صاحب اب بتائیے آپ کب تک نکاح چاہتے ہیں ہمیں اگلے ہفتے یا پھر اگلے سال نکاح پر کوئی اعتراض نہیں ہے ہمیں تو بس بات پکی کرنی ہے
لیکن ہمیں یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی ہے کہ آپ اپنی بیٹی کی ذمہ داری نبھا کر حج کے لئے جانا چاہتے ہیں ہم آپ کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں ہم نکاح سادگی سے کرنے کو تیار ہیں لیکن میرا ایک ہی بیٹا ہے میں اس کی شادی دھوم دھام سے کرنا چاہتی ہوں اسی لئے فی الحال ہم نکاح کریں گے
لیکن رخصتی کے لیے ہمیں تھوڑا وقت چاہیے کم ازکم پندرہ سے بیس دن کا وقت میں نہیں چاہتی کہ میرے بیٹے کی شادی میں کسی بھی قسم کی کوئی کمی رہ جائے کہنے کو تو یہ دن بھی بہت کم ہے تیاریوں میں کیسے چلے جائیں گے پتا بھی نہیں چلے گا
باقی جیسے آپ لوگ مناسب سمجھیں رخشندہ بیگم نے فیصلہ ان کے چھوڑتے ہوئے اپنے دل کی بات بھی کہہ دی
جی بہن جی ہم بھی زیادہ وقت نہیں لیں گے ہم بھی اپنی بیٹی کی ذمہ داری جلد سے جلد نبھانا چاہتے ہیں دراصل اگلے مہینے کے پہلے ہفتے ہی ہم حج کے لیے جا رہے ہیں
اور اللہ کے حکم کے مطابق حج سے پہلے ہی ہم اپنی بیٹی کی ذمہ داری نبھائیں گے ۔غالب صاحب نے بے حد محبت سے اسمارا کی جانب دیکھتے ہوئے کہا
بس ٹھیک ہے ہو گیا فیصلہ آپ بھی شادی کی تیاریاں کریں اور ہم بھی تیاریاں شروع کرتے ہیں کیونکہ وقت بے حد کم ہے رخشندہ بیگم نے سعدیہ بیگم کے ہاتھوں مٹھائی کا ٹکڑا اٹھاتے ہوئے کہا تو سب کے چہروں پر مسکراہٹ آ گئی
اس سب کے دوران کنیز بیگم خاموشی سے ایک سائیڈ ہو کر بیٹھی رہی ایک وقت تھا جب اسمارہ کی جگہ ان کی بیٹی کرن بٹھی ہوئی تھی اور سامنے شہریار کی بجائے قلب تھا کتنی خوشیوں بھرا تھا وہ دن
انہیں آج بھی وہ دن اچھے سے یاد تھا جب ان کی 13 سالہ بیٹی کرن 17سالہ قلب کے نکاح میں شامل ہوئی تھی ۔پوری حویلی میں خوشیوں کا سماں تھا اس کے بعد تو جیسے قلب نے کرن کی ذمہ داری ہی اٹھا لی تھی اس کا چھوٹے سے چھوٹا کام اپنے ہاتھوں سے کرتا تھا ۔
اس کی ہر خواہش پوری کرتاہر ممکن طریقے سے خوش رکھناکیا کچھ کرتا تھا وہ کرن کے لیے۔
وہ سارا دن آفس سے میں گزار کر تھکا ہارا گھر آتا مگر کرن کی ایک آواز پر اسے کبھی ایس کریم پالر تو کبھی کسی پارک میں گھمانے لے جاتا
اپنے آرام سے زیادہ عزیز تھی اس کے لیے کرن کی مسکراہٹ جو وہ صرف اس کے لئے رکھتی تھی۔
وہ دن کبھی بھلائے نہیں جا سکتے تھے ان کی بیٹی کرن قلب کے ساتھ ایک خوشگوار زندگی گزارنے جارہی تھیں پھر نہ جانے کس کی نظر لگ گئی
سب کچھ تباہ ہوگیا ۔
قلب کا وہ لزا دینے والے الفاظ ۔طلاق” قیامت ہی تو لے آیا تھا اور کرن کا وہ باغی لہجہ اس کا چیخ چیخ کر کہنا کہ مجھے قلب کے ساتھ نہیں رہنا مجھے یہ حویلی یہ گھر چھوڑ کر جانا ہے میں ان پابندیوں سے تنگ آ چکی ہوں مجھے نہیں چاہیے کوئی محافظ میں اپنی زندگی اپنے طریقے سے آزادی سے گزارنا چاہتی ہوں ۔
چیخ چیخ کر کہا تھا اس نے قلب سے شادی نہیں کرنی وہ قلب سے طلاق چاہتی ہے وہ اس نکاح کو سرے سے ختم کردینا چاہتی ہے وہ قلب سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتی۔
اور قلب ہار گیا اس کی ضد کے سامنے جب اس نے اپنے سر پر بندوق رکھ کر شادی کی رات اس سے طلاق کی ڈیمانڈ کی وہ ہار گیا
وہ ٹوٹ گیا ۔
چار سال گزر گئے سردار شاہ نے کرن سے ہر رشتہ ختم کرکے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امریکا بھیجوا دیا ۔اپنی بیٹی کی بغاوت پر وہ آج تک کسی کے سامنے سر اٹھا کر بات نہیں کر پائے تھے
سارے خاندان میں یہ بات پھیل چکی تھی کہ سردار شاہ کی بیٹی کرن نے شادی کی پہلی رات ہی طلاق لےکر اپنے خاندان سے بغاوت کی ہے ۔
سردار شاہ میں محفلوں میں اٹھنا بیٹھنا چھوڑ دیا کنیز بیگم پل خاموش ہوگئی ان کی اکلوتی اولاد نے انہیں سر اٹھا کر جینے کے قابل نہیں چھوڑا تھا ۔
وہ اسمارہ کے چہرے کی جانب دیکھتی مسلسل یہی سب کچھ سوچ رہی تھی لیکن اسمارا اور کرن میں زمین آسمان کا فرق تھا اسمارا کو دیکھ کر وہ اکثر اپنی پرورش پر شرمندہ ہو جاتی
اگر کرن کی ہر جائز ناجائز خواہش پوری کرنے کی بجائے وہ اسے صحیح اور غلط کی پہچان سکھاتی تو آج شاید وہ بھی قلب کے ساتھ ایک خوشگوار زندگی گزار رہی ہوتی لیکن انہیں افسوس تھا اپنی پرورش پر اپنی تربیت پر کہ انہوں نے کیوں کرن کو ایک اچھی ماں بن کر تربیت نہیں دی ۔
وہ اپنی ہی سوچ میں گم تھی جب سعدیہ بیگم نے مٹھائی کی پلیٹ ان کے سامنے رکھتے ہوئے اپنی خوشی کا اظہار کیا تو انہوں نے مسکرا کر ایک ٹکڑا اٹھایا ۔
ان کی آنکھوں میں ایک فخر تھا ۔آج ان کے ہر انداز سے ان کی خوشی ظاہر ہو رہی تھی ۔یہ خوشی وہ بھی منا چکی تھی لیکن ان کی خوشی ہمیشہ کے لئے نہیں تھی وہ عارضی خوشی چند دنوں میں ہی ان سے روٹھ کر چلی گئی ۔جو کبھی واپس نہ آئی۔
لیکن انہیں افسوس کرن کے جانے کا نہیں بلکہ قلب کا تھا ۔کرن تو باغی تھی بغاوت کرکے اپنی بات منوا کر چلی گئی ۔لیکن
جس نے والدین کے فیصلے پر سر جھکا لیا۔اس کا کیا۔۔۔۔۔۔!
۔ایک بار ماں باپ کے کہنے پر خاموشی سے نکاح نامے پر سائن کر دیے اس کا کیا ۔۔۔۔۔!
جو اس رشتے کو نبھانے کی خاطر کرن کی ہر جائز ناجائز بات مانتا رہا ۔
اپنے باپ کی خوشی کی خاطر کرن کی ساری غلطیوں کو نظر انداز کرتا رہا ۔
اسے دنیا کے سرد و گرم سے بچاتا رہا اس کا محافظ بنا رہا ۔
برباد تو اس کی زندگی ہوئی تھی برباد تو قلب ہوا تھا۔
کرن کا کیا گیا تھا اسے آزادی چاہیے تھی جو اسے مل گئی تھی امریکہ میں کوئی نہیں تھا اس پر روک ٹوک کرنے والا اسے صحیح غلط کی پہچان بتانے والا اسے سمجھانے والا وہ تو خوش تھی اپنی مرضی سے اپنے مطابق اپنی زندگی گزار رہی تھی۔
وہ زندگی جس کی وہ خواہش مند تھی اس کا تو کچھ بھی نہ گیا تھا
لیکن قلب خاموش ہو گیا تھا جس لڑکی پر اس نے اپنی زندگی کے آٹھ سال ضائع کر دیے ۔اس نے اس کے ساتھ کیا کیا ۔۔۔۔!.
اور انہیں بھی یہی غم تھا کہ قلب کے چہرے کی مسکان ان کی بیٹی نے چھنی تھی۔کاش وہ سب کچھ ٹھیک کر پاتی اگر انہیں ایک اور موقع ملتا کرن کی پرورش کرنے کا تو وہ اپنی ساری غلطیاں سدھار لیتی لیکن یہ قدرت کا نظام تھا ماں باپ کو اپنی اولاد کو پالنے کا صرف ایک ہی موقع ملتا ہے ۔
اس مواقعے میں چاہے وہ اس کی زندگی سنوار دیں چاہے بگاڑ دیں اور حقیقت تھی کہ کوئی غلطی نہ ہونے کے باوجود بھی کنیز بیگم اور سردار صاحب اپنی اولاد کی وجہ سے سر نہیں اٹھا پاتے تھے
°°°°°°
شادی کی تیاریاں شروع ہوچکی تھی ۔
شہریار کے پورے گھر کو خوبصورتی سے سجا دیا گیا تھا جس میں سب سے بڑاہاتھ شیزرہ کا تھا
بےشک نکاح سادگی سے ہونا تھا لیکن اس کے باوجود بھی شیزرہ نے اپنے گھر میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہونے دی تھی اس کی خوشی کی کوئی انتہا ہی نہ تھی کہ اس کی سہیلی اس کے بھائی کی دلہن بن کر ہمیشہ کے لئے ان کے گھر میں آنے والی ہے
شہریار نے سب کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ شادی کے بعد اسمارہ کے پڑھائی روکی نہیں جائے گی اسمارہ کی اس خواہش کو شہریار تک پہنچانے والی شیزرہ ہی تھی
شہریار کے اس فیصلے نے شیزرہ کو بے حد خوش کر دیا تھا جبکہ اسمارہ کے خوشی کی تو کوئی انتہا ہی نہ تھی ابھی تک وہ اس کے نکاح میں شامل بھی نہ ہوئی تھی کہ وہ اس کی ہر خواہش کو پورا کر رہا تھا ۔
ایسا سمجھنے والا ہم سفر پا کر تو کوئی بھی لڑکی اپنے آپ کو خوش قسمت محسوس کرتی ہے اس وقت اسمارہ کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی وہ شہریار کے ساتھ اپنے آنے والی زندگی کو سوچ کر بے حد خوش تھی ۔
سب کچھ یوں اچانک ہو جائے گا اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ شادی کے لیے دل سے رضامندی دے چکی تھی دو مہینے کے بعد اس کے ایگزامز ہونے والے تھے
اور شہریار کے کہنے کے مطابق وہ ان ایگزامز کو دینے والی تھی اگر اس کی شادی اس امریکن سے ہوجاتی اور وہ ایسا ہرگزنہیں کر پاتی۔
لیکن اللہ نے اس کے نصیب میں ایک خوبصورت سوچ رکھنے والا انسان لکھا تھا ۔شہریار کو اپنی زندگی میں سوچ کر وہ ابھی سے اس کے خواب دیکھنے لگی تھی محبت کیا ہے کس بلا کا نام ہے وہ نہیں جانتی تھی
ہاں لیکن شہریار کے لیے جو احساس اس کے دل میں جاگ رہے تھے وہ بہت انمول تھے اپنی آنے والی زندگی کو سوچ کر وہ بے حد خوش تھی
شاید اسے ہی ہمسفر کا ذکر فلموں ڈراموں ناولوں میں ہوتا ہے چاہنے والا سمجھنے والا ہمسفر شاید شہریار جیسے انسان کو ہی کہتے ہیں ۔
ابھی تک وہ اس کی زندگی میں شامل نہ ہوا تھا لیکن اس کے باوجود بھی آسمارہ اسے اپنے دل میں ویلکم کر چکی تھی صرف چند دن میں وہ اس کے نکاح میں شامل ہونے والی تھی ۔
وہاں اس کی سہیلی بھی تھی جو ہر قدم پر اس کے ساتھ تھی ۔اسے یقین تھا شیزرہ اس کا بہت ساتھ دے گی آخر جو لڑکی اپنے بھائی کو اپنی سہیلی سے شادی پر منا سکتی ہے وہ کیا نہیں کر سکتی اسے یقین تھا اسمارہ کے گھر رشتہ لانے کے لیے شیزرہ نے ہی مجبور کیا ہوگا
شاید شیزرہ کو اپنے بھائی کے لئے سب سے بہتراسمارہ ہی لگی ہوگی یا شاید اس نے اپنے بھائی کے لیے اسے پسند کر لیا ہوگا جو بھی تھا لیکن وہ اس شادی سے بہت خوش تھی
°°°°°
دنوں کو توجیسے پتنگے لگے تھے ۔جہاں شہریار کے لیے یہ دن صدیوں کی طرح گزر رہے تھے وہی اس کی امی اور بہن کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی تیاریاں ختم ہونے میں نہیں آرہی تھی دن بچے ہی نہیں تھے کل ان کا نکاح تھا ۔
ایک طرف غالب صاحب اس نکاح پر بے حد خوش تھے
وہی دوسری طرف یہ غم بھی ستائے جا رہا تھا کہ ان کے گھر کی رحمت کسی اور کے گھر جا رہی ہے لیکن یہ تو دنیا کا دستور ہے ہر باپ کو اپنی بیٹی اپنے جگر کا ٹکڑا کسی دوسرے کے حوالے کرنا پڑتا ہے
غالب صاحب بھی اپنے جگر کا ٹکڑا کسی اور کے حوالے کرنے جا رہے تھے ۔ان کے لیے یہ وقت مشکل تھا لیکن اپنی بیٹی کو رخصت تو کرنا ہی تھا یہ تو اللہ پاک کا احسان تھا جس نے اپنی رحمتوں کے سائے ان پر بنائے رکھے تھے شہریار ایک قابل تعریف انسان تھا
اس کی قابلیت کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے انہیں شہریار کے معاملے میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں تھا ۔اور اس سے زیادہ وہ اس بات کو لے کر خوش تھے کہ شہریار کا تعلق پاکستان سے تھا اور ان کی بیٹی کبھی بھی انہیں چھوڑ کر کہیں دوسرے ملک نہیں جا رہی تھی
وہ ان کے پاس ہی رہنے والی تھی جب بھی اس کا دل چاہتا ہے وہ ان سے ملنے آ جاتی کوئی بھی مسئلہ ہوتا تو وہ کھل کر اظہار کر سکتی تھی انہیں خوشی تھی کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا فیصلہ بالکل صحیح کیا تھا
اس وقت ان کے گھر میں بھی رونق لگی ہوئی تھی پوری حویلی کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا یہ نکاح صرف نام کا ہی سادگی سے ہو رہا تھا ۔
اصل میں تو اس سادگی میں بھی کوئی نہ کوئی خواہش اور آرزو چھپی ہوئی تھی وہ اپنی بیٹی کو لے کر کسی حسرت کو دل میں دبا نہیں سکتے تھے یہ ان کا سلسلہ تھا کہ وہ سب کچھ سادگی سے کریں گے لیکن آہستہ آہستہ سب کچھ بہت دھوم دھام سے ہو رہا تھا
حویلی کی رونقوں نے نکاح کی اس رسم کو چار چاند لگا دیے تھے
دور پار کے سبھی رشتے دار حویلی پہنچ چکے تھے آج کے یہاں ایک بڑی محفل لگنے والی تھی ۔
شاہ حویلی میں چار سال کے بعد خوشیاں لوٹ آئی تھیں ۔وہ خوشیاں جو چار سال پہلے کرن کی بغاوت کی وجہ سے ان سے روٹھ گئ تھی آج اسمارہ کی فرمانبرداری کی وجہ سے لوٹ آئی تھی
اسمارہ نے بیٹی ہونے کا حق ادا کر دیا تھا کتنے خوبصورت الفاظ تھے اس کے بابا آپ جو فیصلہ کریں مجھے منظور ہے میں جانتی ہوں صیحح اور غلط آپ سے بہتر اور کوئی نہیں پہچان سکتا غالب صاحب کا سینہ چوڑا ہو گیا وہ سر اٹھا کر اپنی معصوم سی بیٹی کا جھکا سر دیکھ رہے تھے انہوں نے بے احتیار باہیں پھیلا کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا
اور کل وہ فخر سے اپنی بیٹی کا نکاح کرنے جا رہے تھے اس کی زندگی کا صحیح فیصلہ کرنے جا رہے تھے جسے لے کر وہ بے حد مطمئن تھے ۔
°°°°
اسمارہ غالب ولد غالب شاہ آپ نکاح شہریار قادر شاہ ولد قادر شاہ کے ساتھ پچاس لاکھ روپے سیکہ رائج الوقت قرار پایا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے قاضی صاحب کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے
بابا نے آہستہ سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا جبکہ دوسری طرف بیٹھا قلب اس کے گرد اپنے بازو پھیلائے ہوئے تھا ایک تحفظ کا احساس اسے ہر طرف سے گھیر گیا ۔
قبول ہے اس میں بے حد مدد ہم آواز میں کہا
مولوی صاحب کی دوباہ آواز گونجی
قبول ہے
قبول ہے
اس کے الفاظ کے ساتھ ہی اس نے اپنا قلم اٹھا کر نکاح نامے پر سائن کیے تو آنکھوں سے آنسو بہنے لگے بابا نے اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے اس کا ماتھا چوما اور سب سے مبارکباد وصول کرنے لگے اس کے ساتھ ہی قلب نے بھی اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے محبت سے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا
اور اس کے ساتھ ہی مبارکباد کا سلسلہ شروع ہوا سب مرد حضرات کمرے سے اٹھ کر باہر نکل گئے جب امی اور چاچی اس کے قریب آ بیٹھی ۔
تھوڑی ہی دیر میں دوسری طرف سے بھی شور کی آواز گونجنے لگی اس طرف بھی مبارکباد کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا ۔نکاح مکمل ہوچکا تھا اسمارا غالب شاہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسمارا شہریار شاہ بن گئی
وہ انجان شخص اس کا سائبان بن گیا کل تک جس کا نام بھی نہیں جانتی تھی آج وہ اس کا ہمسفر بن گیا تھا اس کی زندگی بھر کا ساتھی ۔
نکاح سے پہلے ہی اس کے دل میں شہریار کے لیے نرم جذبے جنم لینے لگے تھے لیکن وہ ڈرتی تھی اسے سوچتے ہوئے شاید نہ محرم ہونے کا احساس گناہ گار بناتا تھا لیکن اب یہ احساس جیسے مٹ چکا تھا
وہ اس کا شوہر تھا اس کا محرم تھا اس کا سب کچھ تھا اس کی آنے والی زندگی کا ساتھی تھا اس کا مستقبل تھا ۔ابھی تک تو وہ ٹھیک سے اسے دیکھ تک نہیں پائی تھی لیکن وہ ایک ہی نظر اس کے لئے کافی تھی ۔جس میں وہ اسے اپنا سب کچھ ماننے لگی تھی۔
محبت تھی یا نہیں یہ وہ نہیں جانتی تھی مگر یہ جانتی تھی کہ اس سے محبت کرنا اس پر فرض ہے ۔اسے چاہنا اس کا خیال رکھنا اس سے جڑی ہر ذمہ داری کو نبھانا اس کا فرض ہے ۔اور اسے یقین تھا وہ اپنا فرض پوری ایمانداری سے نبھائےگی ۔اپنے شوہر کو کسی قسم کی شکایت کا موقع نہیں دے گی ۔
ایک اچھی بیٹی کی طرح وہ ایک اچھی بیوی ہونے کا حق ادا کرے گی
°°°°°
اسلام علیکم آنٹی جی کیسی ہیں
سعدیہ بیگم نے جیسے ہی گیسٹ روم میں قدم رکھا شیزرہ کھڑے ہوتے ہوئے بولی جبکہ اسے پہلی بار یہاں دیکھ کر سعدیہ بیگم بے حد خوش تھی
وعلیکم السلام میری جان میں بالکل ٹھیک ٹھاک تم یہاں تم نے تو مجھے سرپرائز دے دیا وہ خوشی سے اس سے ملتے ہوئے بولیں
دیکھا جی بالکل میں یہاں سرپرائز دینے ہی تو آئی ہوں میرا مطلب ہے میں اسمارہ کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آئی ہوں
آج ہم اس کی چوائس کا لہنگا لینے والے ہیں بھیانے تو سارے کام میرے سر پہ ڈال دیے ہیں تو میں سب سے پہلے یہاں آئی کیونکہ سب سے امپورٹنٹ تو دلہن ہوتی ہے نا دلہن کے بغیر تو شادی نہیں ہوسکتی اور لہنگے کے بغیر میری سہیلی دلہن کیسے بنے گی ۔
وہ انہیں لوجک دیتی اتنی معصوم لگی کہ وہ بے اختیار مسکرا دی
ہاں بیٹا یہ بات تو تم نے بالکل ٹھیک کہی تمہاری سہیلی اپنے روم میں ہے یہاں سے سیڑھیاں چڑھتے ہی دوسرا کمرہ میں نے اسے کل رات ہی بتا دیا تھا کہ آج تمہارے گھر سے کوئی نہ کوئی آنے والا ہے اسے اپنے ساتھ شاپنگ پر لے جانے کے لیے اسی لئے وہ بھی مکمل تیاری کر کے بیٹھی ہوئی تھی
مجھے تو لگا تھا کہ رخشندہ بیگم ہی آئیں گی لیکن تم نے آ کر بہت خوش کردیا تم جاواس کے روم میں بیٹھو میں تمہارے لئے کچھ کھانے کو بھیجتی ہوں
انہوں نے اسے کمرے کا رستہ بتاتے ہوئے کہا تو وہ فورا ہاں میں سر ہلاتی گیسٹ روم سے نکلتی سیڑھیاں چھڑتی اوپر کی جانب جانے لگی جہاں آنٹی نے اسمارہ کا کمرا بتایا تھا لیکن اوپر بہت سارے ایک جیسے کمرے دیکھ کر وہ کچھ کنفیوز ہوئی ۔
اس نے واپس نیچے کی جانب دیکھا تو نیچے کوئی بھی نہیں تھا نہ کوئی ملازم اور نہ ہی گھر کا کوئی فرد
چلی جاشیزرہ کسی بھی کمرے میں کون سا یہاں کے لوگ انجان ہیں اگر غلطی سے کسی غلط کمرے میں چلی بھی گئی تو سوری بول کر باہر آ جانا
وہ سوچتے ہوئے ایک کمرے کی جانب بڑھی ایک کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر آگئی ۔کمرہ بالکل خالی تھا جیسے یہاں کوئی رہتا ہی نہ ہو صاف ستھرا بیڈ خوبصورت قالین لیکن اس کمرے کو دیکھ کر وہ اندازہ لگا چکی تھی کہ اس کمرے میں کسی کی بھی رہائش نہیں ہے
وہ الٹے قدم اس کمرے سے نکلتی دوسرے کمرے کی جانب بڑھی ۔لیکن اس سے پہلے کہ وہ پوری طرح کمرے کو دیکھتی کوئی دیوار بنا اس سے ٹکرایا تھا اس چٹان جیسے موجود سے ٹکرا کر پہلے شیزرہ کا دماغ گھوم گیا
لیکن پھر اپنے سامنے شرٹ لیس انسان کو کھڑے دیکھ کر اسے دن میں تارے نظر آنے لگے ۔
اس نے بڑی مشکل سے سر اٹھا کر اوپر کی جانب دیکھا جو گہری نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا
سوری قلب میں دراصل اسمارہ کا روم ڈھونڈ رہی تھی غلطی سے آپ کے کمرے میں آگئی وہ کچھ گھبرائے ہوئے لہجے میں بولی ۔
تم مجھے بھائی کہہ سکتی ہو وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا تو شیزرہ نے آنکھیں اٹھا کر اس کی جانب دیکھا اس کی آنکھوں میں انجانا سا احساس تھا جسے نہ تو وہ خود سمجھ پا رہی تھی اور نہ ہی کسی دوسرے کے سامنے بول پا رہی تھی ۔
لیکن آپ میرے بھائی نہیں ہیں میرا بس ایک ہی بھائی ہے ۔اس کے لہجے میں کچھ تو ایسا تھا جو قلب کو ٹھٹکنے پر مجبور کر گیا۔
میں نے صرف کہنے کے لیے کہا ہے میں تم سے عمر میں بہت بڑا ہوں تمہیں میرا نام لیتے ہوئے عجیب نہیں لگتا اسمارہ کا بڑا بھائی ہوں میں تم بھی مجھے بھائی بلا سکتی ہو مجھے کوئی ایشو نہیں ہے۔وہ سمجھاتے ہوئے کہنے لگا
مگر مجھے ایشو ہے آپ میرے بھائی نہیں ہیں اور نہ ہی میں آپ کو کبھی بھائی کہوں گی وہ اسے دیکھتے ہوئے بولی ۔ توقلب نے بنا کچھ کہے ہاں میں سر ہلا دیا وہ اس چھوٹی سی لڑکی سے بحث ہرگز نہیں کرنا چاہتا تھا ۔
ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی وہ پیچھے ہٹتے ہوئے اپنی شرٹ اٹھا کر پہننے لگا کیونکہ وہ کب سے اس کی جھکی ہوئی نظر محسوس کر رہا تھا ۔
وہ جب گھر میں ہوتا تھا تب زیادہ تر اپنے کمرے میں ہی رہتا تھا ۔اور اپنے کمرے میں وہ پوری آزادی سے رہتا تھا اس کی اجازت کے بغیر اس کے کمرے میں کم ہی لوگ آتے تھے اسی لیے اس نے شرٹ پہننے کی ضرورت محسوس نہ کی جو اس وقت اسے اپنی غلطی لگ رہا تھا ۔
یہاں سے ایک کمرہ چھوڑ کے آگے اسمارہ کا کمرہ ہے ۔وہ اسے اسی طرح دروازے پر کھڑے دیکھ کر بتانے لگا ۔
جبکہ وہ ہاں میں سر ہلاتی کمرے سے باہر نکل گئی ۔
قلب کو بہت عرصے کے بعد کچھ عجیب سا محسوس ہورہا تھا اس لڑکی کا لب و لہجہ اس کے لہجے سے چھلکتا ضدی پن کچھ تو تھا جو اسے سوچنے پر مجبور کر رہا تھا ۔
اس لڑکی کے دماغ میں کیا چل رہا تھا اس کا دیکھنے کا انداز بات کرنے کا انداز کچھ تو عجیب تھا ۔
اس لڑکی کی نظریں دیکھ کر ہی تو قلب نے اسے کہا تھا کہ وہ اسے بھائی بلا سکتی ہے ۔وہ اسمارہ کا بھائی ہے تو اسمارہ کے بھائی ہونے کے ناطے ایک سہیلی کے طور پر اب وہ اسے بھائی کے ناطے عزت دے سکتی تھی ۔
لیکن اس نے کہا کہ وہ اسے بھائی نہیں بولے گی صرف بھائی بولنے سے کیا فرق پڑ جاتا ۔قلب نہیں جانتا تھا کہ اس کی سوچ کس حد تک صحیح ہے لیکن اس لڑکی کی آنکھوں سے چھلکتا ضدی پن ا سے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا تھا ۔
اسے لگ رہا تھا کہ یہ لڑکی بہت جلد کوئی جذباتی قدم اٹھانے والی ہے کوئی جذبہ ہے جو اسے کنفیوز کر رہا ہے وہ غلط راستے پر جانے والی ہے قلب کی چھٹی حس اسے بتا رہی تھی کہ بہت جلد یہ لڑکی اس کے لئے بہت بڑی مشکل ثابت ہونے والی ہے
°°°°
میں نے ان سے اس طرح سے بات کیوں کی مجھے ان سے بات نہیں کرنی چاہیے تھی وہ کیا سوچ رہے ہوں گے میرے بارے میں کس قسم کی لڑکی ہوں
کمرے سے باہر نکل کر وہ مسلسل یہی سب سوچ رہی تھی اسمارا کے کمرے میں جانے کے بجائے اس کے سوچیں کسی اور ہی طرف سفر کر رہی تھی۔
پتہ نہیں کبھی کبھی مجھے کیا ہو جاتا ہے میں اس طرح کی الٹی سیدھی باتیں کر دیتی ہوں اور پھر خود پریشان ہو جاتی ہوں
کتنے لوگوں کو بھائی بولتی ہوں میں اگر انہیں بھی بول دوں گی تو کیا ہو جائے گا ۔اب کیا میں ساری زندگی انہیں ان کے نام سے پکاروں گی کتنا برا لگے گا کیا سوچ رہے ہوں گے کہ میرے ماں باپ نے مجھے کچھ سیکھا یا نہیں ۔
ان کی نظر میں تو میں ایک انتہائی بدتمیز قسم کی لڑکی ہوں کیسے منہ پھاڑ کے بول دیا کہ وہ میرے بھائی نہیں
ہاں تو اس میں غلط کیا تھا وہ میرے بھائی نہیں ہیں۔ اب کیا جو بھی مجھ سے بڑا سامنے آئے گا اسے میں بھائی کہہ کر پکاروں گی ۔
ہر کوئی بھائی تو نہیں ہو سکتا اور قلب تو بھائی نہیں ہیں ۔۔۔ہاں نہیں ہیں بھائی ۔اس نے اپنی سوچ کو صحیح کیا۔
لیکن اگر بھائی نہیں ہے تو پھر کیا ہیں ۔۔۔؟
اس کے دل کے ساتھ اس کے دماغ نے بھی یہی سوال کیا
جو بھی ہیں بس بھائی نہیں ہیں اس نے اپنے دل و دماغ کو جھٹکا ۔اور پھر بنا کوئی الٹی سیدھی سوچ سوچے وہ اسمارا کے کمرے میں چلی آئی
وہ اس بارے میں مزید کچھ بھی نہیں سوچنا چاہتی تھی جتنا سوچ لیا تھا اسی نے ا سے اچھا خاصا مشکل میں ڈال دیا تھا
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial