قسط 4
تیار ہوکر اس نے ائینے میں اپنا جائزہ لیا فل وھائٹ ڈریس جس پر سفید ہی دھاگے سے کام کیا ہوا تھااور اورینج پرنٹڈ دوپٹہ لمبے گھنے بالوں کو سامنے سے خوبصورت سٹائل دے کر کھلا چھوڑا ہو تھا انکھوں میں گہرا کاجل ہلکا ہلکا سا میک اپ اور کان میں سادے سے ایئر رنگ جو اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہے تھے
اپنا پرس اٹھا کر وہ باہر چلی ائی جہاں رضیہ بیگم صوفے پر بیٹھی تھی
بڑی امی…… ہم کیسے لگ رہے ہیں
اس نے ان کے سامنے کھڑے ہوکر پوچھا رضیہ بیگم نے اسے دیکھا اور مسکرائی
ماشاء اللہ….. ہماری بیٹی تو ہمیشہ ہی بہت پیاری لگتی ہے
مذاق نہیں بڑی امی……………… سچ بتائیے کوئی کمی بیشی تو نہیں ہے نا…….
اس نے ان کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا
نہیں بیٹا کوئی کمی بیشی نہیں ہے تم بہت پیاری لگ رہی ہو اللہ بری نظر سے بچائے
انھوں نے اس کے کان کے پیچھے ٹیکا لگاتے ہوئے کہا وہ ہنس دی
اچھا تو ہم جائیں پھر
ہاں بیٹا… اور دھیان سے جانا ٹھیک ہے
رضیہ بیگم نے پیار سے اس کے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا دانش نے اسے صبح ہی کہا تھا کے وہ اسے چھوڈ آئیگا لیکن ماہی نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ خود اپنی گاڈی سے چلی جائگی کیونکہ جس ریسٹورانٹ میں انھیں ملنا تھا وہ گھر سے زیادہ دوری پر نہیں تھا
وہ جانے کے لیۓ اس پلٹی لیکن پھر واپس مڑ کر رضیہ بیگم کے گلے لگ گئ
بڑی امی ہمیں بہت ڈر لگ رہا ہے
اس نے سنجیدگی سے کہا رضیہ بیگم نے اسے خود سے الگ کیا اوربغور دیکھا
کس بات کا ڈر….. ڈرنے کی کوئی بات نہیں بیٹا بلا جھجھک ان سے ملو بات کرو جو جاننا ہے وہ پوچھو اپنے بارے میں بتاو ڈرنے والی تو کوئی بات نہیں ہے تم تو بہت سٹرانگ لڑکی ہو ہے نا
رضیہ بیگم نے اسے سمجھاتے ہوئےکہا اس نے اثبات میں سر ہلا دیا اس نے باہر نکلنے کے دروازہ کھولنا ہی تھا کہ اس کہ پہلے ڈور بیل بجی اس نے دروازہ کھولا تو سامنے شیخ صاحب کے دوست تھے اس نے انھیں سلام کیا اور اندر انے کو کہا
اندر آیے نا انکل
نہیں بیٹا میں زرا جلدی میں ہوں…… شیخ صاحب کو یہ کاغذات دینے تھے
انھونے اپنے ہاتھ میں کی فائل اگے بڑھاتے ہوئے کہا
لیکن بڑے پاپا تو گھر پر نہیں ہے
جانتا ہوں لیکن یہ کاغذات یاد سے انھیں دے دینا
اس نے فائل ان کے ہاتھ سے لے لی
جی ٹھیک ہے …..ہم دے دینگے
وکیل انکل وہاں سے چلے گیے اس نے وہ کاغذات کھول کر دیکھے شیخ صاحب اکثر اس سے ہی پڑھواتے تھےاپنے سب ضروری کاغذات….. پڑھ کر اس کی آنکھیں پھٹی رہ گئی اس نے پریشانی سے ادھر ادھر دیکھا
ماہی بیٹا تم گئی نہیں.….. کون آیا تھا اور یہ کاغذات کیسے .…..
انھونے حیرت سے پوچھا
کچھ……کچھ نہیں بڑی امی وہ ہمارے کالج اسائمنٹ کے لیے ایک دوست سے نوٹ مانگے تھے وہی ہے….
اس نے فائل بند کرکے کہا
اچھا یہ سب بعد میں دیکھنا……… فی الحال تمہیں دیر ہو رہی ہے تم جاؤ
ماہی نے اثبات میں سر ہلا دیا
جی…..
…………………..
………………………………….
وہ ریستوران میں داخل ہوئی تو سارا ریستوران لگ بھگ خالی تھا ایک دو ٹیبل پر کچھ لوگ موجود تھے.. ایک کونے والی ٹیبل پر آہل دوسری جانب رخ کیے بیٹھا تھا بلیک شرٹ اور سکائے بلیو جینس میں ہاتھ میں کافی کا مگ لئے وہ اپنی گھبراہٹ کو کنٹرول کرتی آگے بڑھی
اسلام علیکم…..
دھیمی اواز میں سلام کرکے اس نے آہل کو متوجہ کیا اس نے پلٹ کر دیکھا تو ایک پل کے لیے اسے دیکھتا رہ گیا وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی کہ وہ اس سے نظر نہیں ہٹا سکا پھر سنبھل کر اسے سر کے اشارے سے سلام کا جواب دیا اور سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ماہی وہاں بیٹھ گئ بڑی نظریں مسلسل جھکی ہوئی تھی
تو کیا لو گی تم تو ٹی…… کوفی….
کچھ نہیں ….شکریہ
اس نے آہل کی جانب دیکھ کر جواب دیا وہ اور کیا کہتی بھلا آہل نے اس کے جواب پر کاندھے اچکائے اور ٹیبل پر رکھے کاغذات اس کی طرف بڑھائے
یہ لو
کیا ہے یہ
اس نے کاغذات ہاتھ میں لیتے ہوئے پوچھا
یہ کانٹریکٹ پیپرس ہے
ماہی نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا
ہماری شادی کا کانٹریکٹ
اہل نے کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا
شادی کا کانٹریکٹ
ماہی نے زیرِ لب دہرایا اس کی سمجھ میں کچھ نہیں ارہا تھا لیکن اسے عجیب سی گھبراہٹ ہو رہی تھی
اس کانٹریکٹ کے مطابق تم مجھ سے شادی کروگی اور چھ مہینے کے لیۓ میرے گھر میری بیوی بن کر رہوگی صرف چھ مہینے کے لیے اس کے بعد تم اپنے راستے میں اپنے راستے اور اس کے لیۓ میں تمہیں منہ مانگی رقم دینے کے لیۓ تیار ہوں
ماہی کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں ارہا تھا
اپ مذاق کر رہے ہیں
وہ بمشکل اتنا بول پائی
میں مذاق نہیں کرتا
اس نے غصے سے دانت پیسس کر کہا
ماہی کو لگا جیسے وہ کسی اور دنیا میں ہے یہ کوئی خواب ہے یا کوئی وہم وہ خاموش بیٹھی رہی جیسے وہان موجود تھی ہی نہیں
تم اتنی شاکڈ کیوں ہو تمہیں تو خوش ہونا چاہئے اتنا اچھا موقع ملا ہے تمہیں اور کیا چاہیے
ماہی بے یقینی سے اسے دیکھنے لگی
آپ…… آپ……. ایسا کیسے………. کیوں کر رہے ہیں یہ سب اگر آپ کو ہم سے شادی نہیں کرنی تو آپ انکار کیوں نہیں کر دیتے یہ سب کیوں
میں نے انکار کیا لیکن میرے ڈیڈ کے لیۓ اس میری مرضی معنی نہیں رکھتی ان کی ضد ہے کہ. میری شادی تم سے ہی ہو
میں جتنی مخالفت کر سکتا تھا میں نے کی لیکن میں نہیں چاہتا اس وجہ سے ہمارے بیچ اور پرابلمس ہو گھر کا ماحول خراب ہو اس لیے مجھے یہ فیصلہ کرنا پڑا میری دادی کی طبیعت ٹھیک نہیں میں نہیں چاہتا ان سب باتوں کی وجہ سے ان کی صحت زیادہ خراب ہو
اور چھ مہینے بعد……..
اس نے بڑی ہمت کرکے پوچھا
تب تک انہیں خود اندازہ ہو جائے گا سہی غلط کا اور نا بھی ہو تو میں انھیں صاف کہہ دونگا کہ میں نے ان کی خوشی کے لیے شادی تو کر لی لیکن تمہارے ساتھ مزید نہیں رہ سکتا
وہ خاموش بیٹھی رہی اسے اہل کی سوچ پر بہت افسوس ہو رہا تھا
مجھے نہیں لگتا تمہیں اتنا سوچنے کی ضرورت ہے
دس از آ گولڈن اپارچنٹی فور یو
ہمیں اپکا یہ سودا منظور نہیں آہل جی آپ فکر نہ کریں ہم خود اس رشتے سے انکار کر دینگے خدا حافظ
وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی
انکار کرنے کو تو میں بھی کہہ سکتا تھالیکن پھر میرے ڈیڈ تم جیسی کوئی اور لڑکی کو لاکر میرے سامنے کھڑے کردینگے جو میں نہیں چاہتا
تو آپ ان سے سودا کرلیجیے گا ہم چلتے ہیں
الرائٹ……. اس بارے میں سوچنا ضرور کل شام تک کا وقت ہے تمہارے پاس کل شام میری مام تمہارے گھر آیئنگی انہیں ہاں کہنا ہے یا نا یہ فیصلہ تمہیں کرنا ہے
ماہی نے اسے بغور دیکھا اور وہاں سے چل دی