عشق محرم

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 2

“دل پے پتھر رکھ کے منہ پے میک اپ کرلیا”
“دل پے پتھر رکھ کے منہ پے میک اپ کرلیا”
“میرے سائیاں جی سے آج میں نے بریک اپ کرلیا”
“میرے سائیاں جی سے آج میں نے بریک اپ کرلیا”
“صبح سویرے اُٹھ کے میں نے یہ سب کرلیا”
آج وہ بےانتہا خوش تھی اور گانا گانے کے ساتھ ساتھ ناچ بھی رہی تھی
اسکی خوشی کی وجہ یہ تھی کہ آج اسکی ٹیوشن ٹیچر کی بات پکی تھی اسی وجہ سے اب وہ اسے پڑھانے نہیں آئیں گی اور وہ سدا کی پڑھائی چور اسی بات کی خوشی منا رہی تھی
اسے پڑھنے کا کبھی بھی شوق نہیں تھا بابا سائیں کی خواہش تھی کہ وہ خوب پڑھے لکھے لیکن اسکا پڑھائی کی طرف لگاؤ نہ دیکھ کر انہوں نے یہی درخواست کردی تھی کہ وہ اپنا انٹر مکمل کرلے کیونکہ میٹرک جو اسنے بمشکل پاسنگ نمبر لے کر پاس کی تھی اسکے بعد اسکا مزید پڑھائی کا کوئی ارادہ نہ تھا
لیکن بابا سائیں کے کہنے پر اسنے زبردستی خود کو مزید دو سال کی پڑھائی کے لیے تیار کرلیا
اسے جو بھی ٹیوشن پڑھانے آتا وہ اسے اتنا تنگ کرتی کہ وہ خود ہی بھاگ جاتا اور اگر وہ نہیں بھی بھاگتا تو وہ خود یہ کہہ کر بھاگا دیتی کہ اسے اسکے پڑھانے کا طریقہ سمجھ نہیں آرہا
آج تک وہ ایسا ہی کرتی آئی تھی لیکن اس بار جو اسکی ٹیوشن ٹیچر تھیں وہ کافی سخت تھیں جنہیں اماں سائیں یہ حکم بھی دے چکی تھیں کہ اگر یہ نہ پڑے تو اسے مارنے سے بھی گریز نہ کرنا اور وہ بلکل ایسا ہی کرتی تھی
لیکن اب وہ نہیں آنے والی تھی کیونکہ انکی شادی جو ہونے والی تھی اور وہ جانتی تھی کہ اتنی خوشی تو استانی جی کو بھی اپنی شادی کی نہیں ہورہی ہوگی جتنی اسے ہورہی تھی
دو دن بعد اسکا پہلا پیپر تھا لیکن اسے پرواہ نہیں تھی کیونکہ اسکی تیاری مکمل تھی اسنے ہر سوال کے چھوٹے چھوٹے پرچے بنا لیے تھے
اس وقت تو بس وہ اپنی خوشی میں مگن تھی جب اسے کسی کی دھاڑتی آواز سنائی دی
“یہ کیا بےہودگی ہے” اسکی آواز سن کر کسوا نے ہڑبڑا کر اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑے اس شخص کو دیکھا
چہرے پر موجود گھنی سیاہ مونچھوں کو اسنے تاؤ دیا ہوا تھا گندمی رنگت اور سیاہ کمیز شلوار پر اسنے کریم کلر کی شال ڈالی ہوئی تھی
اور اس وقت وہ خوبرو مرد اپنی لال سرخ ہوتی آنکھوں سے کسوا شاہ کو گھور رہا تھا
“کیا ہے یہ سب”
“و-وہ عصیم ل-لالا میں تو بس وہ میں تو” اسے دیکھ کر وہ الفاظ بھی ٹھیک سے ادا نہیں کرپارہی تھی
“کیا وہ وہ کس بات کے لیے اتنا ناچ گانا ہورہا ہے”
اسکے پوچھنے پر اپنا سارا ڈر خوف بھلا کر کسوا نے اسے بھی اپنی خوشی بتادی
“ارے آپ کو پتہ ہے استانی جی کی بات پکی ہوگئی ہے میں تو بس اسی لیے خوش ہورہی تھی”
“اچھا ہوگئیں تم خوش دو دن بعد پیپر ہیں تمہارے بتاؤ پہلا کونسا ہے”
“ا-اردو” اسنے تکا مارا تھا ویسے بھی سامنے کھڑے شخص کو کیا پتہ کہ اسکا کونسا پیپر ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ عصیم شاہ تھا جو کسوا شاہ کی ہر بات کی خبر رکھتا تھا
“اردو نہیں انگلش ہے” اسکے کہنے پر اسنے گڑبڑا کر اسے دیکھا
“ہاں م مطلب وہی تھا”
“اپنی کتابیں لے کر ڈرائینگ روم میں آؤ” وہ کہہ کر جا چکا تھا اور کسوا اسے منع بھی نہ کرسکی ویسے بھی منع کرتی بھی تو کونسی اسکی سننی تھی
“کسی کو میری خوشی برادشت نہیں ہے” اپنے پیر پٹھخ کر وہ اپنا بیگ اٹھا کر اپنے کمرے سے نکل گئی
°°°°°
“جی بابا سائیں آپ نے بلایا تھا” عفان شاہ نے دادا سائیں کے کمرے میں داخل ہوکر کہا جس پر انہوں نے اپنا سر ہلا کر انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا
“تمہیں یاد دلانا تھا”
“کیا یاد دلانا تھا بابا سائیں”
“آج کی تاریخ”
“بابا سائیں میں جانتا ہوں آج کیا تاریخ ہے”عفان شاہ نے ناسمجھی سے کہا تو کیا اسلیے انہوں نے اسے اپنے کمرے میں بلایا تھا
“اگر یہ یاد ہے تو پھر تو یہ بھی یاد ہوگا کہ دو دن بعد تمہاری بیٹی اکیس سال کی ہوجاے گی اور تمہارے کہے کے مطابق تم اسکے اکیس سال کا ہوتے ہی اسے حویلی لے آؤ گے” دادا سائیں کی بات سن کر عفان شاہ خاموش ہوچکے تھے
“بابا سائیں معذرت چاہتا ہوں لیکن میں اسے یہاں نہیں لاسکتا تھا”
“تم اپنی بات سے مکر رہے ہو عفان شاہ”دادا سائیں نے انتہائی غصے میں کہا
“جی بابا سائیں میں مکر رہا ہوں” انہوں نے اقرار کیا
“کیا تم بھول گئے ہو کہ تم نے خود کہا تھا جب تمہاری بیوی ہماری پوتی کو لے کر یہاں سے گئی تھی تم نے کہا تھا کہ جب وہ اکیس سال کی ہوجاے گی تو تم اسے واپس حویلی لے آؤ گے اور عالم شاہ اور اسے رشتے میں باندھ دیا جاے گا”
“مجھے سب یاد ہے بابا سائیں لیکن اب حالات بدل چکے ہیں آپ اس بچپن کی منگنی کی بات کررہے ہیں جو کسی کو یاد نہیں یہاں تک کہ عالم کو بھی نہیں میں جانتا ہوں کہ میری بیٹی کبھی بھی اس ماحول میں گزارا نہیں کرسکتی اور عالم کے ساتھ تو بلکل بھی نہیں”
“تم کیا کہنا چاہتے ہو ہمارا عالم شاہ تمہاری بیٹی کے لائق نہیں” وہ غصے سے دھاڑے تھے
“بابا سائیں میرے کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا میں بس یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک بےجوڑ رشتہ ہے میں معذرت چاہتا ہوں لیکن آپ اب اس رشتے کو بھول جائیں” وہ تو اپنی کہہ کر جاچکے تھے لیکن دادا سائیں کا غصے سے خون کھول رہا تھا
انکا بیٹا تو اپنی بات سے مکر چکا تھا اور وہ جانتے تھے کہ اب صرف عالم شاہ ہی ہے جو انکی پوتی کو انکے پاس لے کر آے گا یہی سب سوچتے ہوے انہوں نے ملازم کو آواز دی
“کرم دین” انکی غصیکی آواز سن کر کرم دین بھاگتا ہوا انکے پاس آیا
“حکم شاہ سائیں”
“عالم شاہ کو بلاؤ”
“وہ تو شہر گئے ہوے ہیں” کرم دین نے نظریں جھکا کر ادب سے کہا
“وہ جیسے ہی آے اسے میرے پاس بھیجنا”انکا غصے سے برا حال تھا اور یہ سب ایسے ہی رہنا تھا جب تک عالم شاہ انکے پاس نہیں آجاتا
°°°°°
بالوں کی اونچی پونی بناے ہر طرف نظریں دوڑا کر وہ تیز تیز سائیکل چلاتی ہوئی اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی
فلاور شوپ پر رک کر اسنے پھول خریدے اور سائیکل کے آگے لگی باسکٹ میں ڈال دیے
نظریں سامنے بنے کیفے کی طرف گئیں جہاں سے اگر چھوٹو اسے دیکھ لیتا تو بھاگ کر اسکے پاس آجاتا
شعیب کیفے کی مالکن روزینہ کا بیٹا تھا جسے وہ چھوٹو کہتی تھی گھر پر کسی کے نہ ہونے کی وجہ سے روزینہ اسے اپنے ساتھ لاتی تھیں اور وہ اپنا کام کرتی رہتیں اور چھوٹو کیفے کے باہر کھیلتا رہتا تھا اور ایک دن اسی طرح کھیلتے کھیلتے وہ کافی دور نکل آیا تھا
اور اس بات کا احساس ہوتے ہی وہ رونا شروع ہوچکا تھا کیونکہ اسے کیفے کا رستہ نہیں پتہ تھا ایسے میں اسے روتا دیکھ کر وہ ہی اسکے کیفے کا نام بتانے پر اسے کیفے چھوڑ کر آئی تھی جس کے بعد سے وہ روز اس راستے سے گزرتی تھی اسکی روزینہ کے ساتھ اچھی دوستی ہوچکی تھی اور چھوٹو کے ساتھ بھی
جہاں چھوٹو اسکا دوست تھا وہیں چھوٹو کے لیے آئرہ شاہ بھی اسکی موسٹ فیورٹ پرسن تھی
وہ جانے ہی والی تھی جب اسے دیکھ کر چھوٹو کیفے سے نکلتا ہوا خوشی خوشی اسکی جانب بڑھا
“آئرہ”
وہ بھاگتا ہوا اسکی طرف آرہا تھا جب اچانک ایک بلیک پراڈو نے اسے ٹکر ماردی اور وہ دوسری طرف جاگرا
اسے دیکھتے ہوے آئرہ بھاگتی ہوئی اسکی جانب لپکی اور اسکا سر اپنی گود میں رکھ لیا وہ بےہوش ہو چکا تھا
شعیب کے اور اسکے کپڑے خون میں ہوچکے تھے اسنے اپنا مفلر اتار کر اسکی خون والی جگہ پر رکھ دیا اور مڑ کر خونخوار نظروں سے بلیک پراڈو میں موجود اس شخص کو دیکھا جو اپنی گاڑی سے اتر کر اسی طرف آرہا تھا
°°°°°
وہ خوبرو چوڑا مرد اسی طرف آرہا تھا اسنے سفید کمیز شلوار پر بھورے رنگ کی شال اوڑھی ہوئی تھی چہرے پر گھنی گھنی داڑھی مونچھیں تھیں اور سفید پیشانی پر کئیں بل نمودار تھے
“تم گاڑی میں بیٹھنے والے زمین پر چلنے والوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہو کچھ نہیں دیکھتے بس انہیں روند کر چلے جاتے ہو” اسکے قریب آتے ہی آئرہ نے سخت لہجے میں کہا جس سے عالم شاہ کی سفید پیشانی پر موجود بل میں اضافہ ہوچکا تھا
“دیکھو لڑکی مجھ سے زیادہ زبان درازی کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں نے کچھ جان بوجھ کر نہیں کیا ہے اور ویسے بھی غلطی اس بچے کی ہے”
“اس بچے کی غلطی نہیں ہے غلطی تمہاری ہے اور اب تم اسے ہاسپٹل لے کر جاؤ گے”آئرہ کے کہنے پر عالم شاہ نے غصے سے اسے گھور کر دیکھا
ہاسپٹل تو وہ اس بچے کو ویسے بھی لے کر ہی جاتا لیکن مردوں کے سامنے اس طرح بات کرنے والی لڑکیاں اسے ہرگز پسند نہیں تھیں اسکا بس چلتا تو ایسی لڑکیوں کی زبان کھینچ لیتا
آئرہ کے کہنے پر اب سب اسکے سر پر کھڑے ہوکر اسے بچے کو ہاسپٹل لے کے جانے کا کہہ رہے تھے روزینہ بھی گھبرائی ہوئی باہر آئی شاید کسی نے اسے شعیب کی حالت بتادی تھی اسنے روتے ہوے اپنے بیٹے کو اپنے سینے سے لگایا
عالم شاہ نے ان دونوں کو اپنی گاڑی میں بٹھایا روزینہ خاموشی سے اسکی گاڑی میں بیٹھ گئی اسے اس وقت بس جلد از جلد اپنے بیٹے کو ہاسپٹل پہنچانا تھا
انکے جاتے ہی آئرہ نے گہرا سانس لیا نظر اپنے کپڑوں پر گئی جن پر خون لگا ہوا تھا سوچا گھر جاکر بدل لے لیکن پھر اپنا ارادہ ترک کرکے واپس سائیکل اس جانب چلانے لگی جہاں اسے جانا تھا
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial