عشق محرم

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 3

“نرس ڈاکٹر پریشے کہاں ہیں” ہاسپٹل میں داخل ہوکر اسنے پریشے کے بارے میں پوچھا
“وہ تو آج نہیں آئیں ہیں”
“کیوں”
“یہ مجھے نہیں پتہ” نرس اپنے شانے آچکا کر وہاں سے چلی گئی
جبکہ آئرہ اس سوچ میں گم ہوچکی تھی کہ آج پریشے ہاسپٹل کیوں نہیں آئی ہوسکتا ہے شاید اسکی طبیعت خراب ہو یہ سوچ آتے ہی اسنے اپنا فون نکالا اسکا ارادہ پریشے کو فون کرنے کا تھا
لیکن موبائل پر پہلے سے ہی اسکا میسیج آیا ہوا تھا جس میں لکھا تھا
کہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ جارہی ہوں فری ہوکر تم سے فون پر بات کروں گی وہ جانتی تھی کہ اسکی ہاسپٹل میں غیر موجودگی دیکھ کر آئرہ ضرور اسکے گھر جاے گی اسلیے اسنے اسے پہلے ہی میسیج کردیا تھا جو اسنے ابھی دیکھا تھا
گہرا سانس لے کر وہ وہاں سے جانے لگی جب مڑتے ہی اسکی ٹکر چٹانی وجود سے ہوئی اپنا ماتھا سہلا کر اسنے گھور کر اس شخص کو دیکھا جو خود غصے سے اسے ہی دیکھ رہا تھا
“تم” اسے پھر سے سامنے دیکھ کر آئرہ نے حیرت سے کہا
“ہاں میں” عالم نے دانت پیستے ہوے کہا جیسے اسکا بس چلتا تو آئرہ کو ہی چبا جاتا
“تم پیچھا کررہے ہو میرا”
“لڑکی تم پر مجھے پہلے ہی غصہ آرہا ہے تو بہتر ہے کہ میرے سامنے سے چلی جاؤ”
آئرہ نے جو ایک بات اس میں دیکھی تھی وہ تھا اسکا ڈمپل جو اسکے بائیں گال پر پڑھ رہا تھا اسکی داڑھی مونچھیں بےانتہا گھنی تھیں جس میں اسکا گہرا ڈمپل صاف دکھ رہا تھا اور وہ اتنا گہرا تھا کہ اسکے ہلکے سے کچھ کہنے پر بھی نمودار ہورہا تھا
“تمہیں لڑکیوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے”
“مجھے بدتمیزی دکھانے پر مجبور مت کرو”
“پتہ ہے کیا تم دکھنے میں کافی سلجھے ہوئے انسان لگ رہے ہو لیکن جب تمہارا منہ کھلتا ہے نہ اور اس میں سے لفظ نکلتے ہیں تب حقیقت سامنے آتی ہے تمہارے لہجے سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ تم بمشکل پانچویں پاس ہو”
“تم ہوتی کون ہو مجھے بتانے والی کہ میں کتنا پڑھا ہوں بہتر ہوگا کہ آیندہ میرے سامنے نہ آؤ ورنہ تم جانتی نہیں ہو کہ عالم شاہ کس مصیبت کا نام ہے” اسکے کہنے پر آئرہ نے ایک طرفہ مسکراہٹ لیے اسے دیکھا
“میں جاننا بھی نہیں چاہتی ہوں مسٹر پانچ جماعت” دل جلا دینے والی مسکراہٹ لیے وہ وہاں سے جانے لگی
لیکن پھر اپنے قدم روک کر اسنے مڑ کر عالم کو دیکھا جو غصے سے گھورتے ہوے اسے ہی دیکھ رہا تھا آئرہ نے اپنا ہاتھ ہلا کر اسے باے کیا جس سے وہ مزید تپ چکا تھا اسلیے اپنا غصہ ضبط کرکے وہاں سے چلا گیا جس پر آئرہ بھی مسکراتے ہوئی وہاں سے چلی گئی
°°°°°
“کتابیں کھولو” اسکے بیٹھتے ہی عصیم نے حکم دیا جس پر منہ بناتی ہوئی وہ اسکا کہا گیا سبجیکٹ نکال کر بیٹھ گئی
“زیادہ نہیں کم از کم اتنی تیاری تو کروا ہی سکتا ہوں کہ تم پیپرز میں پاسنگ نمبر لے لو میں تمہیں امپورٹینڈ سوال یاد کرادوں گا اور اب جب تک تمہارے پیپر نہیں ہوتے تب تک تم روز میرے پاس بیٹھ کر تین گھنٹے پڑھو گی”
اسکی باتیں کسوا کا سر گھما رہی تھیں
“نہیں نہیں آپ کیوں میرے اوپر وقت ضائع کررہے ہیں میں اپنی تیاری خود کرونگی”
“مجھے کوئی شوق نہیں ہے تمہارے ساتھ بیٹھ کر اپنا سر کھپانے کا چاچا سائیں نے کہا ہے کہ اب تمہاری ٹیوشن ٹیچر نہیں آئینگی اسلیے تمہارے پیپرز تک میں روز تین گھنٹے تک تمہاری یہ شکل دیکھوں یہ والا سوال میں سمجھا رہا ہوں پھر مجھے یاد کرکے سناؤ”
عصیم نے جرنل اسکے سامنے رکھ کر اسے وہ سوال سمجھایا اسکا چہرہ دیکھ کر ہی لگ رہا تھا کہ اسکے کچھ پلے نہیں پڑھا جس کی وجہ سے اسنے اسے دوبارہ وہ سوال سمجھایا جو اس بار اسے سمجھ آگیا تھا
لیکن اسنے پھر بھی یہی کہا کہ اسے سمجھ نہیں آیا اسے یہی لگا کہ شاید اس چیز سے وہ تنگ آکر اٹھ کر چلا جاے گا لیکن اسکے چار بار پوچھنے پر بھی وہ اسے اچھے طریقے سے سمجھا چکا تھا جس کے بعد اسنے غصے سے اس جرنل کو اٹھا کر اپنے سامنے کیا
“اگر اب بھی سمجھ نہیں آیا تو بتادو”
“نہیں شکریہ بہت اچھے سے سمجھ آگیا ہے” اسنے منہ بناکر کہا پہلے ہی چار بار سن کر وہ اچھی خاصی بیزار ہوچکی تھی
“ٹھیک ہے پندرہ منٹ بعد مجھے اس کا جواب سناؤ”
اسکی بات جیسے اسنے ہوا میں اڑائی تھی اور جلدی جلدی ٹائم ختم ہونے کا انتظارکرنے لگی تاکہ اسکی یہاں سے جان چھوٹ جائے پندرہ منٹ تک وہ بس اپنے سامنے لکھے سوال اور اسکے جواب کو گھورتی رہی جب پندرہ منٹ مکمل ہوتے ہی عصیم نے جرنل اسکے ہاتھ سے لے لیا
“سناؤ”
“و-وہ یاد نہیں ہوا عصیم لالا یہ سوال بہت بڑا ہے”
“سیریسلی کسوا تمہیں یہ ایک بیچ کا سوال بڑا لگ رہا ہے پرائمری کی سٹوڈنٹ نہیں ہو تم”
“پلیز اسے تھوڑا چھوٹا کردیں” اسنے منت بھرے انداز میں کہا جس پر عصیم نے سوال کے مین پوائنٹس نکال کر اسے دے دیا
اور اسکے دیتے ہی وہ ہل ہل کر رٹے لگانے لگی کیونکہ اسے پتہ تھا بنا یہ سوال سنے تو وہ اسے یہاں سے جانے نہیں دے گا اسلیے یہاں بیٹھنے سے بہتر تھا وہ جلدی سے رٹے لگا کر اسے سوال سنا کر چلی جاتی
“ہوگیا” اسنے خوشی خوشی اسے جرنل دیا لیکن اسکے پوچھتے ہی وہ سب کچھ بھول گئی زہہن میں چند لفظ یاد تھے وہی سنا دیے جس پر اسنے جرنل واپس اسکے پاس رکھ دیا
“ٹھیک سے یاد کرو”
اور پھر پانچویں مرتبہ سنانے پر اس سات لائن کے سوال میں اسکی صرف بارہ غلطیاں نکلیں تھیں جو کسوا کے لیے بہت بڑی بات تھی
“ایک اور بار یاد کرو”
“نہیں پلیز نہیں اتنا اچھا تو سنایا ہے”
“سات لائن کا سوال تم نے مجھے پانچ بار سنایا ہے اور وہ بھی غلطیوں سمیت چالیس منٹ میں”
“نہیں آپ کوئی دوسرا سوال یاد کروالیں یہ ہوگیا” اسکے کہنے پر عصیم نے دوسرا سوال اسکے سامنے کیا اور اسے سمجھانے لگا جبکہ واقعی میں اسے اپنے سامنے دوسرا سوال لگاتے دیکھ کر اسنے خود کو قوصہ
“امی سائیں ٹھیک کہتی ہیں کسوا کب کہاں کیا بات بولنی چاہیے تمہیں پتہ ہی نہیں ہے” وہ اسے سوال سمجھا رہا تھا جو اسکے سر کے اوپر سے جارہا تھا لیکن پھر بھی وہ اپنا سر ہاں میں ہلا رہی تھی
عصیم کے سمجھانے کے بعد اسنے جلدی جلدی وہ سوال یاد کرنا شروع کردیا اور پھر اسکی پچیس منٹ کی محنت کے بعد بالآخر اسنے جواب یاد کرکے اسے سنا ہی دیا تھا
وہ تیسرا سوال کھولنے والا تھا لیکن کسوا کی حالت دیکھ کر رک گیا ایسا لگ رہا تھا ابھی وہ اسکے سامنے ایک اور سوال یاد کرنے کی بات کرے گا اور وہ بےہوش ہوجاے گی
“چلو جاؤ اٹھاؤ سامان اور کل ہم پورے تین گھنٹے پڑھیں گے اور یہ سوال میں تم سے پھر سے سنوں گا”اسکے کہنے پر وہ اپنا سارا سامان خوشی خوشی بیگ میں ڈالتی اسکی بات پر اپنا سر ہلا کر وہاں سے بھاگ گئی جبکہ عصیم نے دلکشی سے مسکراتے ہوے اسکی پشت کو دیکھا
°°°°°
“جی دادا سائیں کرم دین نے کہا تھا آپ نے مجھے یاد کیا ہے” اجازت ملتے ہی اسنے دادا سائیں کے کمرے میں داخل ہوکر کہا
لیکن انکے ہاتھ میں موجود کتاب دیکھ کر اسکا منہ بن چکا تھا جبکہ اسکے اس طرح سے منہ بنانے پر داد سائیں نے مسکرا کر اسے دیکھا انہیں معلوم تھا کہ عالم شاہ کو پڑھائی سے کتنی چڑ ہے
حویلی کے باقی لڑکوں نے اپنی پڑھائی شہر سے مکمل کی تھی لیکن عالم شاہ نے نہیں اسنے چیٹنگ کر کے میٹرک پاس کی تھی بلکہ ہر کلاس ہی چیٹنگ سے پاس کی تھی اسلیے اسے انگلش کے چند لفظوں کے علاؤہ انگلش میں اور کچھ نہیں آتا تھا اسے پڑھائی کا شوق نہیں تھا اسلیے سب کے لاکھ بار کہنے پر بھی اسنے میٹرک کے بعد کچھ نہیں کیا بقول دادا سائیں کے وہ دونوں بہن بھائی ایک جیسے ہیں پڑھائی سے دور بھاگنے والے
“ہاں بیٹھو یہاں پر” انہوں نے اسے اپنے سامنے رکھے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا
“عالم مجھے تمہیں ایک ضروری بات بتانی ہے تمہاری منگنی تمہارے بچپن میں ہوچکی ہے کیا تمہیں یاد ہے”
“نہیں دادا سائیں مجھے ایسا کچھ نہیں یاد”یہ بات اسکے لیے کافی حیران کن تھی
“مجھے معلوم تھا تمہیں یاد بھی کیسے ہوگا وہ تمہارے بچپن کی بات تھی اور اس بات کا زکر آج تک کسی نے نہیں کیا تھا”
“عالم تمہاری منگنی ہم نے بچپن میں ہی عفان شاہ کی بیٹی سے کردی تھی”
“عفان چاچو کی بیٹی ہے” اسے حیرت ہوئی تھی اسے تو بس یہی پتہ تھا کہ انکی بیوی انہیں چھوڑ کر چلی گئی تھی
“ہاں اسنے اپنی پسند سے شادی کی تھی جب وہ پڑھائی کے لیے شہر گیا تھا ہم سب نے بھی اسکی پسند کو قبول کرلیا لیکن شاید اسکی بیوی مبشرہ نے ہمیں قبول نہیں کیا تھا وہ شہر کی لڑکی تھی یہاں اس حویلی میں اور حویلی والوں کے ساتھ وہ نہیں رہ پاہ رہی تھی وہ اکثر عفان سے یہی کہتی تھی کہ اسے علیحدہ گھر چاہیے وہ یہاں نہیں رہنا چاہتی تھی اسلیے ہمارا بیٹا ہم سے دور نہ ہوجاے اس ڈر سے ہم نے اپنی ایک سال کی پوتی اور دس سال کے پوتے عالم شاہ کو منگنی کے رشتے میں باندھ دیا لیکن اسکے بعد وہ ہماری پوتی کو لے کر چلی گئی وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکی بیٹی بھی اس خاندان میں رہے”
“ہم اسے واپس بلانا چاہتے تھے لیکن عفان شاہ نے ہمیں روک دیا اسنے اس وقت وعدہ کیا تھا کہ جب اسکی بیٹی اکیس سال کی ہوجاے گی تو وہ اسے اور اپنی بیوی کو خود حویلی لے آے گا لیکن اب وہ اپنی بات سے مکر رہا ہے وہ کہتا ہے کہ اسکی بیٹی یہاں نہیں رہ سکتی اور نہ ہی تم دونوں کا کوئی جوڑ ہے اسنے ہم سب کو منع کیا تھا کہ جب تک صحیح وقت نہیں آجاتا ہے تمہارے سامنے اس رشتے کا زکر نہیں کیا جاے اور شاید یہی وہ صحیح وقت ہے ہم نہیں جانتے کہ اسنے اپنی بیوی اور بیٹی کو کہاں رکھا ہےہم چاہتے ہیں کہ تم اسے ڈھونڈو عالم شاہ کیونکہ تمہارے علاؤہ یہ کام اور کوئی نہیں کرسکتا”
اسنے آگے بڑھ کر دادا سائیں کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے
“آپ فکر مت کریں دادا سائیں میں ڈھونڈ کر لاونگا آپ کی بہو کو بھی اور پوتی کو بھی جو آپ کے عالم کی ہی دلہن بنے گی منگ ہے وہ عالم شاہ کی اور بھلا ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ عالم شاہ اپنی منگ چھوڑ دے دو دن میں وہ دونوں آپ کے سامنے موجود ہوں گے”اپنے پوتے کی بات سن کر دادا سائیں نے سکون بھری سانس لی انہیں پتہ تھا اگر عالم شاہ نے دو دن بولا ہے تو دو دن میں ہی وہ ان لوگوں کو لے کر آجاے گا
°°°°°
“کیوں کہ میں پہلے ہی کسی کے نکاح میں ہوں”
اسکی یہ بات جہاں سب کو سکتے میں ڈال گئی تھی وہیں وصی کی تو جیسے دنیا ہی لوٹ چکی تھی
“یہ کیا بکواس ہے” ظفر صاحب نے صدمے کی کیفیت میں کہا
“بابا یہ سچ ہے میں وصی سے اسی لیے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ میں پہلے ہی کسی کے نکاح میں تھی”
“کب ہوا تمہارا نکاح اور کس کے ساتھ ہوا ہے” یہ سوال مظفر صاحب نے کیا تھا لیکن وہ انکا جواب دینے کی کیفیت میں بھی نہیں تھی وہ تو بس روے جارہی تھی
“بتاؤ پری کون ہے وہ”یہ سوال حفصہ نے کیا تھا اور اس بار جواب بھی ملا تھا لیکن اسنے نہیں دیا تھا بلکہ آواز پیچھے سے آئی تھی جسے سنتے ہی سب لوگوں نے مڑ کر دیکھا
“معتصم شاہ”
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial