عشق محرم

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 5

“تو تم نے میری بیٹی کی زندگی برباد کی ہے”ظفر صاحب غصے سے اپنی جگہ سے اٹھے
“ظفر صاحب ایسے مت بات کیجیے تھوڑی تو میری عزت کیجیے داماد ہوں آپ کا”
“بند کرو اپنی یہ بکواس نہیں مانتا میں اس سب کو ابھی کے ابھی میری بیٹی کو طلاق”
“یہ بات تو کبھی سوچیے گا بھی مت کہ میں آپ کی بیٹی کو چھوڑوں گا”
“یہ فیصلہ پری کا ہوگا تم کون ہوتے ہو یہ بات کہنے والے” وصی بھی غصے سے انکے قریب آکر کہنے لگا جس پر معتصم نے بھنویں اچکا کر اسے دیکھا
اسکے تاثرات دیکھ کر اسے یہ جاننے میں دیر نہیں لگی تھی کہ سامنے کھڑا شخص وہی ہے جس نے اسکی ملکیت کو اپنا بنانا چاہا تھا
“جانتا ہوں تمہیں بہن کی پرواہ ہورہی ہوگی لیکن جب دو بندے بات کررہے ہیں تو بہتر ہے کہ تم اپنی چونچ بند رکھو”
“وہ کچھ غلط نہیں کہہ رہا ہے میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی میں پہلے ہی یہ بات سب کو بتا دینا چاہتی تھی لیکن ڈرتی تھی کوئی مجھے غلط نہ سمجھے اسلیے میں خاموش رہی تھی لیکن اب میں خاموش نہیں رہوں گی” پریشے نے چیختے ہوے کہا جسے سن کر مظفر شاہ بھی اسکے پاس آگئے
“سن لیا کیا چاہتی ہے ہماری بچی اب بہتر ہے اس معاملے کو یہیں ختم کر دو”
“بھول ہے آپ کی کہ میں اسے خود سے دور کر دوں گا بہتر ہوگا کہ اس نکاح کو قبول کرلیں ورنہ اگر آپ لوگ نہیں بھی مانتے تو بھی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ میرے نکاح میں ہے اور میں اسے زبردستی بھی اپنے ساتھ لے جاسکتا ہوں”
“بند کرو اس تماشے کو” اماں جان کی تیز آواز سنتے ہی ماحول میں سناٹا چھا چکا تھا وہ چلتی ہوئی معتصم کے قریب آئیں
“دیکھو لڑکے یہ معاملے ایسے نہیں ہوتے اگر واقعی میں ہماری بچی کو بیاہنا چاہتے ہو تو اسی طرح اپنے بڑوں کو رشتے کے لیے بھیجو جو طریقہ ہوتا ہے”
“اماں جان یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں” صائمہ بیگم نے انکے قریب آکر انہیں سمجھانا چاہا جب انہوں نے اپنا ہاتھ اٹھا کر انہیں مزید کچھ کہنے سے روک دیا
“میں کچھ غلط نہیں کہہ رہی نکاح وہ کرچکا ہے اسنے راستہ غلط اختیار کیا تھا لیکن نیت غلط نہیں تھی ویسے بھی میں نہیں چاہتی طلاق جیسا لفظ میری بچی کے اوپر لگے”صائمہ بیگم سے کہہ کر انہوں نے معتصم کی طرف دیکھا
“یقینا تم میری بات سمجھ گئے ہوگے”
“بہت اچھے سے سمجھ گیا آپ فکر مت کیجیے میں اپنے بڑوں کو لاؤں گا اور آپ کی پوتی کو ویسے ہی لے کر جاؤں گا جیسے ہر لڑکی اپنے گھر سے رخصت ہوتی ہے”
“اماں جان آپ ایسا کیسے کرسکتی ہیں” اماں جان کا مان جانا یعنی اس رشتے کو قبول کرنا تھا لیکن وہ ایسا نہیں چاہتا تھا اسلیے اسنے پھر سے کچھ کہنا چاہا جس پر معتصم نے گھور کر اسے دیکھا لیکن وصی کو اسکے گھورنے سے کوئی فرق نہیں پڑا
“آپ ایسا نہیں کرسکتی ہیں اسکی وجہ سے پری نے کتنا کچھ سہا ہے آپ بھلا کیسے اسے ہاں کہہ سکتی ہیں اور اگر یہ اتنا ہی سچا ہے تو پوچھیے اس سے اتنے وقت سے یہ کہاں تھا”
“میں کوما میں تھا چند دن پہلے ہی وہاں سے آیا ہوں تم بھی وہاں جانا بہت مزہ آتا ہے”وہ اسے اپنے کوما میں جانے کی بات ایسے بتا رہا تھا جیسے وہ بات ورلڈ ٹوئر گھومنے کی ہو
جبکہ اسکے یہ بات کہتے ہی پریشے نے اپنا جھکا سر اٹھا کر اسے دیکھا وہ تو سمجھتی تھی کہ وہ اسے بھول گیا ہوگا اسکی باتیں سن کر اس سے نفرت کررہا ہوگا لیکن ایسا نہیں تھا بلکہ وہ تو اپنی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا
“تمہی کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے وصی میں ابھی زندہ ہوں اور اپنی بچی کے لیے میں بہتر فیصلہ کرسکتی ہوں” انہوں نے وصی کو دیکھتے ہوے سختی سے کہا اور معتصم کے سر پر ہاتھ پھیرا
اسکا قد لمبا تھا اسلیے انکے ایسا کرتے ہی اسنے اپنا سر تھوڑا جھکا لیا اور ایک آخری نظر اس دشمن جان پر ڈال کر وہاں سے چلا گیا
°°°°°
“چھوٹے سائیں آپ نے بلایا تھا” دانش نے ادب سے نظریں جھکا کر کہا جس پر اسنے اپنا سر ہلا دیا
“ہاں میں نے تمہیں ایک کام دیا تھا”
“جی ہو گیا چھوٹے سائیں یہ رہا انکا ایڈریس وہ اس وقت کراچی میں موجود ہیں” دانش نے ایک پرچہ عالم شاہ کی طرف بڑھاتے ہوے کہا جس پر ایڈریس لکھا ہوا تھا
“بہت خوب کیسے معلوم کیا”
“آپ نے کہا تھا کہ شاہ سائیں(عفان شاہ)کا خاص آدمی ہر روز انکے گھر کا چکر لگاتا ہے تاکہ انکی ہر خبر شاہ سائیں تک پہنچاتا رہے تو بس میں نے اسکا پیچھا کیا اور پتہ معلوم کرلیا” دانش نے دانت نکال کر اپنا کیا ہوا کارنامہ بتایا
“تو پھر دیر کس بات کی چلتے ہیں اپنی امانت لینے” کرسی پر رکھی شال اٹھا کر اسنے اپنے کندھوں پر ڈالی اور کمرے سے باہر نکل گیا
°°°°°
دھم دھم کرتی وہ سیڑھیاں اتر رہی تھی جب اچانک سامنے وہ آکر کھڑا ہوگیا
“اف عصیم لالا آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا” اسنے اپنا نازک ہاتھ دل پر رکھ کر سامنے کھڑے عصیم سے کہا جو فرصت سے اسے دیکھ رہا تھا
کندھوں پر مردانہ شال ڈلی ہوئی تھی جبکہ اسنے ڈارک براؤن کلر کا کمیز شلوار پہنا ہوا تھا اور گھنی مونچھوں کو ہمیشہ کی طرح تاؤ دیا ہوا تھا
“پیپر کیسا ہوا تمہارا”
“پیپر زبردست ہوا تھا ایسا لگ رہا تھا میں نے پہلی بار کوئی پیپر اچھا دیا ہے اور آپ کو ایک خاص بات بتاؤں سارے سوال وہی آے تھے جو آپ نے مجھے یاد کروانے تھے”
“بہت خوب چلو اب جلدی سے آجاؤ کل کے پیپر کی تیاری کرتے ہیں”اسکی بات سن کر اسکا خوشی سے ٹمٹماتا چہرہ بجھ چکا تھا
“نہیں نہیں اسکی کیا ضرورت ہے مجھے کل کا پیپر یاد ہے”
“یہ تو اور بھی اچھی بات ہے تمہاری تیاری میں اور آسانی ہوجاے گی چلو جلدی سے آؤ”
“اس سے اچھا تو یہ کہہ دیتی کہ اچھا نہیں ہوا” یہ بات اسنے دل میں ہی کہی تھی جب عصیم جو وہاں سے جارہا تھا اسنے رک کر کسوا کو دیکھا
“یہ ہرگز مت سوچنا کہ اگر تم یہ کہتی کہ تمہارا پیپر اچھا نہیں ہوا تو میں چھوڑ دیتا جب میں تمہارا ٹائم مزید بڑھا دیتا” وہ کہہ کر چلا گیا لیکن کسوا یہ سوچ کر پریشانی ہورہی تھی کہ اسے کیسے پتہ چلا کہ وہ کیا سوچ رہی تھی
وہ اور معتصم زیادہ تر شہر میں ہی رہتے تھے اور معتصم کی بیماری کی وجہ سے تو وہ بہت کم ہی گاؤں آتا تھا لیکن آج کل وہ یہیں موجود تھا صرف اسکی پڑھائی کی وجہ سے
“پانی کے بہانے سے آؤنگی اور چھپ جاؤنگی اور ایسی جگہ چھپوں گی کہ یہ مجھے ڈھونڈ ہی نہیں پائینگے”
“کسوا جلدی آؤ مجھے اور بھی کام ہیں” عصیم ی سخت پر وہ منہ بناتی ہوئی اپنے کمرے میں بیگ لینے چلی گئی اس وقت اسے ایک ایک مٹ ایک گھنٹے کے برابر لگ رہا تھا
°°°°°
“رک جاؤ آرہی ہوں”دو منٹ میں ہی باہر موجود شخص ناجانے کتنی بار دستک دے چکا تھا جسے سن کر مبشرہ بیگم نے تنگ آکر کہا اور اپنا دوپٹہ اوڑھتی ہوئی دروازے کی جانب بڑھ گئیں
جہاں دروازے کھولتے ہی انہیں ایک اجنبی چہرہ نظر آیا جس نے گرے کلر کے کمیز شلوار پر شال ڈالی ہوئی تھی چہرے پر گھنی داڑھی مونچھیں تھیں
“آپ کون “مبشرہ بیگم کے کہنے پر اسکے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی جس کی وجہ سے بائیں گال پر موجود گہرا ڈمپل دکھائی دیا
“مجھے پہچانا نہیں چاچی سائیں” کہتے ہوے وہ خود ہی گھر کے اندر داخل ہوگیا جبکہ ہاتھ کے اشارے سے گارڈز جو باہر رکنے کا اشارہ کیا
“تم ھو کون اور ایسے کیسے اندر آرہے ہو”
“لگتا ہے تعارف کروانا پڑے گا میں ہوں عالم شاہ عفان شاہ کا بھتیجا اور بہروز شاہ کا بیٹا” اسکے کہنے پر مبشرہ کا بیگم کا جیسے سانس رک چکا تھا
“ت-تم یہاں کیا کررہے ہو” انہوں نے اپنے لہجے لڑکڑاہٹ پر قابو پاتے ہوے کہا
“میں یہاں اپنی امانت لینے آیا ہوں اپنی منگ کو لینے آیا ہوں”
“کوئی امانت نہیں ہے تمہاری کوئی منگ نہیں ہے تمہاری یہاں ہر یہاں پر”انہوں نے غصے سے چلاتے ہوے کہا انکا لہجہ کپکپا رہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ڈر رہی ہوں
اور ہاں وہ ڈر رہی تھیں اسی دن سے اسی دن کا تو انہیں ڈر تھا وہ جانتی تھیں کہ کبھی نہ کبھی یہ دن ضرور آے گا
“کیا ہورہا ہے یہاں پر” نرم آواز پر جہاں عالم نے مڑ کر دیکھا وہیں مبشرہ بیگم کے جیسے اوسان خطا ہوچکے تھے
اسے عالم شاہ کے سامنے نہیں آنا تھا کیونکہ وہ جانتی تھیں اگر عالم کی نظر اس پر پڑی تو وہ اسے لیے بنا نہیں جاے گا وہ اپنی منگ کو اپنے ساتھ لے کر جاے گا اور عالم شاہ اسے نہ صرف دیکھ چکا تھا بلکہ کافی حیرت میں بھی تھا
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial