عشق محرم

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 6

“تم یہاں کیا کررہے ہو”اسکی نظر جیسے ہی عالم شاہ پر پڑی اسنے غصے سے کہا جو حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا
“یہ آپ کی بیٹی ہے” اسے جواب دینے کے بجاے اسنے مبشرہ بیگم سے پوچھا
“ہاں میں ہی انکی بیٹی ہوں اور تم میرے گھر میں کیا کررہے ہو” انکے کچھ کہنے سے پہلے ہی آئرہ نے سختی سے اسکے قریب آکر کہا
“ٹیھڑھی ہے لیکن مجھے بھی سیدھا کرنا آتا ہے” اسنے خود سے بڑبڑاتے ہوے کہا
“کیا کہہ رہے ہو تیز آواز میں بات کرو”
“لڑکی تمیز سے بات کرو اور آپ” اسے گھور کر اسنے مبشرہ بیگم کو دیکھا
“آپ جاکر گاڑی میں بیٹھ جائیں اور تم بھی”
“ہم کہیں نہیں جارہے” اس سے پہلے آئرہ کچھ کہتی مبشرہ بیگم نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پیچھے کرلیا جیسے اسے عالم شاہ سے چھپانا چاہ رہی ہوں
“میں کسی ایک کو بھی زبردستی لے جاؤنگا تو دوسرا خود ہی آجاے گا لیکن میں زبردستی کا قائل نہیں ہوں تو بہتر ہوگا کہ آپ لوگ میری بات مان لیں”
“تم ہو کون اور کیا بک بک کیے جارہے ہو میری بات تمہیں سمجھ نہیں آرہی ہے نکلو ابھی میرے گھر سے” مبشرہ بیگم کے پیچھے سے نکل کر اسنے دروازے کی طرف اشارہ کیا
“تم میرے لیے ابھی غیر ہو میں تمہیں چھونا نہیں چاہتا تھا لیکن لگ رہا ہے آسانی سے تم مانو گی بھی نہیں” اپنی بات کہہ کر اسنے جھٹکے سے آئرہ کی نازک کلائی اپنے مظبوط ہاتھ میں لی اور اسے لے کر باہر کی طرف جانے لگا اسے اس طرح کرتے دیکھ کر مبشرہ بیگم بھی گھبرا کر انکے پیچھے بھاگیں
“عالم شاہ چھوڑ دو اسے”
“چھوڑو میرا ہاتھ جاہل انسان” وہ اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کررہی تھی لیکن یہ اسکے بس کی بات نہیں تھ
گاڑی کا دروازے کھول کر عالم نے اسے زبردستی بٹھایا اور اپنے برابر کھڑی مبشرہ بیگم کو دیکھا
“عالم شاہ مت کرو ایسا ہم نے کیا بگاڑا ہے تمہارا چھوڑ دو میری بیٹی کو “انہوں نے نم آنکھوں سے اپنی بیٹی کو دیکھا جو گاڑی سے نکلنا چاہ رہی تھی لیکن گاڑی کے چاروں طرف اب اسکے گارڑز کھڑے ہوچکے تھے جو اسے باہر بھی نہیں نکلنے دے رہے تھے
“بہتر ہوگا کہ آپ گاڑی میں بیٹھ جائیں کیونکہ اسے لیے بنا تو میں یہاں سے جاؤں گا” اسنے سخت لہجے میں اپنی بات کہی جسے سن کر انہوں نے اپنی آنکھیں ضبط سے میچ کیں اور پھر خود بھی اسکی گاڑی میں بیٹھ گئیں کیونکہ اپنی بیٹی کو وہ وہاں اکیلے نہیں جانے دے سکتیں تھیں
°°°°°
عفان شاہ گھر کے سب سے چھوٹے اور لاڈلے بیٹے تھے اسی وجہ سے انکی ہر خواہش کو پورا کیا جاتا تھا
اور اسی وجہ سے انکے شہر جاکر پڑھنے کی خواہش بھی پوری کردی تھی جبکہ انکے باقی تین بھائی نے اپنی پڑھائی گاؤں میں ہی کی تھی جہاں اس وقت دسویں تک کی سہولت موجود تھی جبکہ اب اس وقت وہاں پر بی اے اور بی اے سی بھی ہوتا تھا
وہ لاہور کی ایک بڑی یونیورسٹی میں پڑھنے گئے تھے جہاں انکی ملاقات اپنی کلاس فیلو مبشرہ سے ہوئی اور انہوں نے دوستی کا پہلا قدم اٹھایا
جس کہ بعد پسندیدگی اور پھر محبت درمیان میں آگئی جسے جلد ہی دونوں نے اپنے گھر والوں کو بتا دیا
اور بغیر کسی بحث کے دونوں طرف رشتے کی بات شروع ہوگئی جہاں عفان شاہ گھر کے لاڈلے تھے اور انکی ہر بات مانی جاتی تھی اسی طرح مبشرہ بھی اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی جو بہت نازوں میں پلی بڑھی تھی
“ایک بار پھر سوچ لو مبشرہ تمہیں شادی کے بعد اسی حویلی میں سب کے ساتھ رہنا ہوگا اور تم اس سب کی عادی نہیں ہو جذبات میں آکر کوئی قدم مت اٹھاؤ ابھی بھی وقت ہے تم انکار کرسکتی ہو”عفان شاہ نے فون کی دوسری طرف موجود مبشرہ سے کہا
“تم میرے ساتھ ہو تو سب ٹھیک ہے بس تم ہر حال میں میرا ساتھ دینا اگر کہیں غلط ہوں تو غصہ مت کرنا بس پیار سے سمجھا دینا
تمہں یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں ہے میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا”
اور پھر رخصت ہوکر مبشرہ اپنے شہر کو چھوڑ کر گاؤں میں آگئی
°°°°°
اسنے جیسی زندگی سوچی تھی ایسا کچھ نہیں تھا اسے لگتا تھا یہاں کہ لوگ تنگ زہہن کے ہوں گے اسے شاید ہر بات پر روکا ٹوکا جاے گا اور گاؤں کا ماحول شہر سے بہت الگ ہوگا
لیکن اسکی سوچ غلط تھی ہاں یہاں کا ماحول شہر سے مختلف تھا سوتے جلدی تھے اور اٹھتے بھی جلدی تھے وہ سب فجر کے وقت ہی اٹھ جاتے تھے
ناشتے اور کھانے میں اسے ہر چیز گھی اور تیل میں بھری ہوئی ملتی تھیں جو کہ بہت مزے کی ہوتی تھیں وہ اپنے گھر اس طرح کی چیزیں نہیں کھاتیں تھی اور کوئی بناتا بھی نہیں تھا کیونکہ وہاں اسکے ساتھ ساتھ اسکے والدین بھی ہلکی پھلکی غزائیں ہی کھاتے تھے
ہر روز وہ عفان کے ساتھ گھر میں بنے جم میں جاتی اور پھر گھر میں بنائی گئی وہ مزے دار ڈشز کھاتی جسے بنانا وہ خود بھی سیکھ رہی تھی کیونکہ اسے پتہ تھا عفان کو ایسے کھانے بہت پسند ہیں
اسکی ساس نہیں تھی لیکن بڑی تینوں جیٹھانی اسکے لیے ساس جیسی ہی تھیں جو اسکا بہت خیال رکھتی تھیں
گھر کے ساری بچے جن میں سب سے بڑا معتصم شاہ اس سے دو ماہ چھوٹا عالم شاہ اور اس سے دس ماہ چھوٹا عصیم شاہ ہر وقت اسکے پاس ہوتے تھے
انہیں اپنی چچی بہت پسند تھیں جو انہیں روزانہ انگلش سکھاتی تھی کبھی عالم اسے مل جاتا تو اسے بھی بٹھا لیتی ورنہ اس وقت وہ گھر کے کسی کونے میں چھپا بیٹھا ہوتا تاکہ اسے انگلش نہ سیکھنی پڑے
پورے گھر میں دادا سائیں عفان شاہ اور وہ ہی سب سے زیادہ پڑھے لکھے تھے اسکے تینوں جیٹھ نے میٹرک تک پڑھا تھا اور جیٹھانیوں نے پانچویں یا چھٹی تک
جب ان سب کو اسکے امید سے ہونے کی خبر ہوئی تو جیسے پوری حویلی میں شور مچ چکا تھا ہر طرف مٹھائی باٹی جارہی تھی صدقہ دیا جارہا تھا اور یہاں جو اسکی یہ سوچ تھی کہ گھر والے باقی تین لڑکوں کی طرح اس سے بھی بیٹے کی فرمائش کرینگے یہاں بھی وہ غلط ہوگئی
“بھئ الحمدللہ لڑکے تو ہیں اب تو ہمیں ننھی گڑیا چاہیے کیوں ثمرین میں ٹیھک کہہ رہی ہوں نہ” اسکی سب سے بڑی جٹھانی صدف نے اپنے سے چھوٹی ثمرین کو دیکھتے ہوے کہا جس نے بھی انکی بات پر زور و شور سے اپنا سر ہلا دیا اور شاید یہ انکا قبولیت کا وقت تھا جو واقعی خدا نے انکے گھر ایک ننھی پری بھیج دی تھی
خوشیوں کی مہلت چند دن کی ہوتی ہے ایسا اسے لگ رہا تھا اسکے انداز میں عجیب سا چڑچڑاپن آچکا تھا وہ اب کسی سے بات نہیں کرتی تھی
“مبشرہ اگر کچھ ہوا ہے تو مجھے بتاؤ کیوں اتنے غصے میں ہو بھابھی بتا رہی تھیں تم نے آج کھانا بھی نہیں کھایا”عفان شاہ جو ابھی زمینوں سے لوٹے تھے اسے غصے میں دیکھ کر پیار سے پوچھنے لگے
“یہ دیکھ رہے ہو” انہوں نے اپنی دس ماہ کی بیٹی آئرہ کا چھوٹا سا ہاتھ اٹھا کر انہیں دکھایا
وہ اس وقت نیند میں تھی اور اس کے ہاتھ کی چھوٹی سی انگلی میں چھوٹی سی سونے کی انگھوٹھی تھی
“یہ کیا ہے”
“یہ انگھوٹھی ہے”
“مبشرہ مجھے بھی دکھ رہا ہے یہ انگھوٹھی ہے لیکن تم مجھے کیوں دکھا رہی ہو”
“کیونکہ یہ انگھوٹھی تمہارے باپ نے اسے پہنائی ہے یہ کہہ کر کہ یہ اب عالم کی ہوئی انکا کہنا ہے کہ انکے یہاں رشتے بچپن میں ہی طے ہوجاتے ہیں اور تمہارا بھی طے تھا لیکن میری وجہ سے انہیں تمہارے بچپن کے رشتے کو انکار کرنا پڑا”
“مبشرہ وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں میری منگنی بلکہ ہم سب بھائیوں کی منگنی بچپن میں ہی ہوچکی تھی ان تینوں نے شادی کرلی لیکن میں نہیں کرسکا ایک میں اسے کبھی پسند نہیں کرتا تھا اور نہ وہ مجھے اور دوسرا میری زندگی میں تم آگیئں تھیں” لہجہ اب بھی نرم تھا
“لیکن میں آئرہ کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہتی عفان میں نہیں چاہتی یہ اس قید میں بندھ جاے میں نہیں چاہتی کہ جس ماحول میں میں رہ رہی ہوں یہ بھی اسی ماحول میں رہے” انکے کہنے پر عفان شاہ کے ماتھے پر بل پڑے
“کہنا کیا چاہتی ہو میں نے تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ جو فیصلہ کرو سوچ سمجھ کر کرنا اور اب تم کہہ رہی ہو کہ جس ماحول میں تم رہ رہی ہو اس میں یہ نہ رہے”
“عفان تمہارے بابا سائیں دو دن بعد اسکا اور عالم کا نکاح کروارہے ہیں اور میں ایسا نہیں چاہتی پلیز مجھے یہاں سے کے چلو میں یہاں نہیں رہ سکتی” انہوں نے عفان شاہ کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ رکھتے ہوے کہا جسے انہوں نے چھڑوالیا
“عفان پلیز میں نہیں رہ سکتی یہاں میرا دم گھٹتا ہے یہاں پر”
“میں تمہیں یہاں سے دور لے جاؤنگا لیکن خود یہاں سے کہیں نہیں جاؤنگا”
“تم یہیں رہو میں تمہیں تمہارے گھر والوں سے جدا نہیں کررہی بس مجھے اور میری بیٹی کو کہیں اور چھوڑ آؤ”
“آئرہ کہیں نہیں جاے گی”
“آئرہ میرے ساتھ جاے گی عفان ہم سے دور ہوجانے سے تم سے ہمارا رشتہ تو ختم نہیں ہوجاے گا نہ تم اسکے باپ ہو اور یہ تمہاری ہی بیٹی رہے گی لیکن میں اسے یہاں ہر نہیں چھوڑ سکتی”
“تم اسے سب سے دور لے کر جس وجہ سے جارہی ہو نہ اسکا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ بابا سائیں فیصلہ کر چکے ہیں آج نہیں تو کل وہ اسے عالم کے ہی نام کرینگے”
“میں کل کا کچھ نہیں جانتی بس تم ہمیں یہاں سے لے جاؤ” وہ رو رہی تھیں انداز منت بھرا تھا
°°°°°
“تم یہیں رہو گی یہاں سے کہیں مت نکلنا میں تم سے جب بھی وقت ملا ملنے کے لیے آونگا” ایک گھر کے سامنے گاڑی روک کر انہوں نے مبشرہ بیگم سے کہا
“عفان گھر میں کسی کو مت بتانا میں کہاں ہوں” انکی بات ہر انہوں نے فقط اپنا سر ہولے سے ہلادیا اور انکی گود میں موجود آئرہ کو اپنی گود میں لے کر پیار کرنے لگے پتہ تھا کہ مبشرہ یہ سب باتیں صرف ابھی کے لیے کررہی ہے بھلا وہ کیسے اس سے دور رہ سکتی تھی
وہ اپنے باپ سے کہہ دے گا کہ آئرہ کا کوئی نکاح نہیں ہوگا اور پھر سب سیٹ ہوتے ہی مبشرہ واپس حویلی آجاے گی
لیکن ایسا نہیں ہوا یہ بات پتہ چلتے ہی اسکا باپ ایک تماشہ کھڑا کر چکا تھا وہ اپنی بات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھا اگر مبشرہ یہاں پر موجود ہوتی تو شاید یہ بات اتنی نہ بگڑتی لیکن اسکے گھر چھوڑنے کی وجہ سے اب یہ انکی ضد بن چکی تھی کہ آئرہ شاہ انکے عالم شاد کی ہی ہوگی
انہوں نے ہر طرف اپنے آدمیوں کو لگا دیا تھا اور عفان شاہ جانتے تھے کہ وہ اسے ڈھونڈ بھی لینگے اسلیے انہیں ٹھنڈا کرنے کے لیے انہوں نے یہ کہہ دیا کہ اسکے اکیس سال کا ہوتے ہی وہ خود اسے لے آئینگے اور وہ عالم شاہ کی ہی ہوگی
وہ ہر ہفتے اپنی بیٹی اور بیوی سے ملنے جاتے تھے لیکن حویلی میں کسی کو اس بات کی خبر نہیں تھی
اسے یہی لگا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ سب اس بات جثو بھوک جائینگے مبشرہ واپس اپنے گھر آجاے گی لیکن ایسا نہیں ہوا تھا نہ وہ اس ڈر سے واپس آئی تھی کہ اسکی بیٹی کو زبردستی کسی رشتے میں باندھ دیا جاے گا اور نہ ہی دادا سائیں اپنی بات سے پیچھے ہٹے تھے
ماضی کی یاد سے انہیں دروازے پر ہوتی دستک نے نکالا
“آجاؤ”اپنے آنکھ کے بھیگے کنارے کو صاف کرکے انہوں نے اسے اندر آنے کے لیے کہا جہاں سے ملازم نے تھوڑا سا دروازہ کھول کر انہیں دیکھا
“آپ کو شاہ سائیں بلارہے ہیں” اسکی بات سن کر انہوں نے اپنا سر ہلایا
“تم جاؤ میں آتا ہوں”
انکے ایسا کہتے ہی وہ وہاں سے چلا گیا
°°°°°
“جی بابا سائیں بلایا آپ نے”
“ہاں عفان تم سے کوئی ملنے آنے والا” دادا سائیں کی مسکراہٹ دیکھ کر انہوں نے اچھنبے سے انہیں دیکھا وہ پوچھنا چاہتے تھے کون لیکن پوچھنے کی ضرورت نہ پڑی
“چھوڑو مجھے”عالم نے اسکا ہاتھ مظبوطی سے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا جسے چھڑوانے کے لیے وہ اسکے مظبوط ہاتھ پر مکے برسا رہی تھی لیکن سامنے والا بنا کوئی تاثر دیے اسے کھینچتا ہوا اندر لے گیا
“لیجیے دادا سائیں آپکی پوتی اور بہو “اسنے فاتحانہ مسکراہٹ سے کہا
“مجھے پتہ تھا میرا شیر دو دن کہہ کر گیا ہے تو دو دن میں ہی لے آے گا” دادا سائیں نے اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکا کندھا تھپتھپایا اور مڑ کر اپنی پوتی اور بہو کو دیکھا
جہاں ڈوپٹہ سر پر اوڑھے مبشرہ بیگم سہمی ہوئی نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھیں وہیں بلیو جینز گرین کرتی اور کلرفل مفلر ڈالے آئرہ انہیں گھور رہی تھی
“بابا سائیں کیا ہے یہ سب”
“عفان شاہ یہ وہ سب ہے جو تمہیں کرنا چاہیے تھا لیکن عالم شاہ نے کیا ہے”عالم شاہ کا نام لیتے ہی انکے لہجے میں فخر محسوس ہورہا تھا
انہوں نے آگے بڑھ کر آئرہ کے سر پر اپنا ہاتھ رکھنا چاہا لیکن وہ پیچھے ہو کر اپنے باپ کے پاس چلی گئی اسکی اس حرکت پر عالم غصے سے اسکی طرف بڑھا جس پر دادا سائیں نے اسے روک کر اپنا سر نفی میں ہلادیا مطلب اسے کچھ نہیں کرنا تھا جس پر وہ ضبط سے مٹھیاں بھینچ کر وہاں سے چلا گیا
“آپ دونوں میرے کمرے میں جاؤ ہم بعد میں بات کرینگے” انہوں نے نرمی سے آئرہ کے ماتھے پر لب رکھ کر پیار سے کہا جس پر اسنے اپنا سر ہلا دیا
“مبشرہ جاؤ کمرے میں” اب کی بار انہوں نے اپنی بیوی سے کہا جو انکی بات سنتے ہی آئرہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگیں
°°°°°
“کیا ہوا میری گڑیا یہاں کیوں بیٹھی ہے”اسنے سیڑھیوں پر بیٹھی کسوا سے کہا اور خود بھی اسکے ساتھ ہی بیٹھ گیا
اپنے ہاتھ میں چپس کا پیکٹ پکڑے وہ ادھر ادھر نظریں دوڑا رہی تھی جیسے یا تو کسی کو ڈھونڈ رہی ہو یا پھر کسی سے چھپ رہی ہو
“میں چھپ رہی ہوں”
“اور کس سے چھپ رہی ہو”
“آپ کے دوست سے قسم سے عصیم لالا نے میرا دماغ خراب کردیا ہے میں یہاں پر بیٹھی ہوں جیسے ہی وہ مجھے دیکھینگے میں یہاں سے بھاگ جاؤں گی”
“میری بیچاری بہن کتنا ظلم ہورہا ہے اس نازک جان پر” اسنے کسوا کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوے کہا جبکہ کسی کی ہمدردی پاکر اس مظلوم نے معصومیت سے اپنا سر ہلاکر اسکے کندھے پر رکھا اور چپس کا پیکٹ اسکے سامنے کردیا جس میں سے اسنے بھی دو تین لے لیں
“قسم سے لالا پتہ نہیں وہ کوسنے گھر والے ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کیا کرنا ہے لڑکی کو اتنا پڑھ لکھ کر کرنی تو اسنے گھر داری ہے”
“بس میرا بچہ کیا کرسکتے ہیں یہ دنیا ہے ہی ایسی ظالم میں نے تمہارے لیے کتنی آواز اٹھائی کہ اسے نہیں پڑھنا تو مت پڑھاؤ لیکن کسی نے میری نہیں سنی”
“واہ کمال ہے ویسے” معتصم کے آتے ہی کسوا نے گھبرا کر دل پر ہاتھ رکھا
“اف لالا آپ نے تو ڈرا ہی دیا تھا میں سمجھی عصیم لالا ہیں”
“کتنی کمال کی بات کی ہے نہ تم عالم بجاے اس کے اسے سہی راستہ بتاؤ اپنی لائن پر لگا رہے ہو”
“میری کیا غلطی ہے جب وہ پڑھنا نہیں چاہتی ہے تو کیوں اسکے ساتھ تم سب زبردستی کررہے ہو”
“تم سے تو میں بعد میں بات کرتا ہوں عالم پہلے بتاؤ دادا سائیں کہاں ہیں”
“وہ تو شاید لاونج میں ہیں” جواب کسوا نے دیا تھا جس پر معتصم نے گھور کر اسے دیکھا
“کتنے مزے سے یہاں بیٹھی تم چپس کھارہی ہو اور وہاں عصیم تمہیں ہر جگہ ڈھونڈ رہا ہے”
“ہاں وہ مجھے ڈھونڈ رہے ہیں میں جانتی ہوں بلکل ویسے ہی جیسے دادا سائیں آپ کو صبح سے ڈھونڈ رہے تھے کتنا غصہ کررہے تھے وہ کہ ابھی آپکی طبیعت ٹھیک نہیں ہوئی ہے اور آپ باہر چلے گئے وہ بھی بنا بتانے”
“میں ان سے خود بات کروں گا فلحال تم اپنا سوچو ، عصیم”اسنے مسکرا کر اس سے کہا اور عصیم کو پکارا جبکہ اسکے پکارنے پر کسوا نے وہاں سے بھاگنا چاہا لیکن معتصم نے اسکی کلائی پکڑ لی
“لالا چھوڑ دیں جو آپ بولیں گے وہ کروں گی بس ابھی چھوڑ دیں” وہ جلد سے جلد یہاں سے بھاگنا چاہتی تھی لیکن معتصم کا اسے چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اسلیے دوبارہ عصیم کو پکارا
“عصیم”
“کیا ہو” وہ جو اسکی آواز سن کر وہاں پر آیا تھا کسوا کو دیکھ کر الفاظ رک گئے
“تم یہاں ہو اور میں تمہیں پوری حویلی میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں”
“پوری حویلی دیکھ لی بس یہ جگہ نہیں دیکھی پکڑو اپنا شاگرد” اسنے کسوا کی کلائی چھوڑی
“اب چلو بھی کیا یہیں رہنا ہے اور آج سزا کے طور پر تم مزید دو گھنٹے پڑھو گی”
“بس کردے وہ بےہوش ہوجاے گی” عالم نے اپنی بہن کی حالت دیکھتے ہوے کہا جسے دیکھ کر لگ رہا تھا کسی بھی پل رو دے گی
“تو منہ بند رکھ” عصیم کے کہنے پر وہ گہرا سانس کے کر اپنی جگہ سے اٹھ گیا
“معتصم لالا میں آپ سے کبھی بات نہیں کروں گی” غصے سے کہتی ہوئی وہ دھم دھم کرتی چلی گئی جس پر معتصم نے مسکرا کر اسکی پشت کو دیکھا وہ ناراض ہوگئی تھی لیکن اسے منانے کے لیے معتصم کو صرف دو چپس اور آئسکریم کی ضرورت تھی
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial