قسط: 9
ہاتھ تھوڑی تلے رکھے وہ سامنے محویت سے فوٹ بال کھیلتی سدرہ کو دیکھ رہی تھی….سدرہ کو کھیل میں مگن دیکھتے وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اج اُس نے لال گھنٹوں تک کی ریشمی فروک سفید چوڑی دار پاجامہ اور لال ہی دوپٹہ گردن سے لپٹا ہوا تھا ملبوس تھی یہ سوٹ اُسکی والدہ نے اُسکی سالگرہ پر اُسے گفٹ دیا تھا۔۔۔
سرخ و سفید رنگت چاندنی کی طرح دمک رہی تھی گولڈن بالوں کو پشت پر کھلا چھوڑے وہ لال لباس میں لال گلاب لگ رہی تھی ۔۔۔۔
اُسے ذرقان سے مل کر اپنے سوالوں کے جواب چایئے تھے زرقان سے ملنے کا ارادہ کیے وہ اسٹیڈیم سے باہر نکلی۔۔۔
کالی ٹی شرٹ اور پینٹ میں بالوں کی اونچی پونی بنائے وہ پسینے سے تر ہوئی فٹ بال کھیلنے میں مگن تھی۔۔۔۔سفید رنگت اس وقت لال ہو رہی تھی ۔۔۔
وہ پوری یونی میں اُسے ڈھونڈتا آخر میں اسٹیڈیم میں ایا تھا ۔۔۔اسٹیڈیم میں پہلا قدم رکھتے ہی اُسکی نظر سامنے اُٹھی جہاں وہ اپنی تمام تر رعنائیوں سمیت پسینے سے بھیگی ہوئی فٹ بال کھیل رہی تھی ۔۔۔اُسکے بال جو اونچی پونی ٹیل میں بندھے بار بار اُسکی پشت سے ٹکڑا کر اِدھر سے اُدھر بل کھا رہے تھے۔۔۔۔
جنید (جون) کی نظر اُس پر ٹھہر سی گئی نظر اُسکے سفید سرخ چہرے سے ہوتے ہوئے اُسکی گردن تک ائی جہاں چپکی لٹوں اور صراحی دار گردن پر موجود پسینے کو دیکھتے اُس کے حلق میں گلٹی اُبھری۔۔۔نظریں وہاں سے اُسکے نشیب و فراز میں جا الجھی جو تیز سانسیں بھرنے کی وجہ سے مزید اجاگر ہو گئے تھے۔۔۔
جنید کو اپنی سانسیں تیز ہوتی ہوئی محسوس ہوئی سدرہ کو دیکھتے ہی اُسکے پُر جوش جذبات اجاگر ہوئے۔۔۔یکدم اُسکے ہاتھ کی مٹھی بندھی ۔۔۔
براؤن آنکھوں میں غضب کی لال چھائی۔۔۔جبڑے بھینچے اب وہ قہر برساتی نگاہوں سے سدرہ کو دیکھ رہا تھا جو اپنے ایک ٹیم ممبر کے ہاتھ پر تالی مارتی ہوئی دوبارہ گیم کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔۔۔۔
جون نے پورے اسٹیڈیم میں دیکھا جہاں صرف سدرہ کے علاوہ تین ہی لڑکیاں تھی باقی سارے لڑکے تھے جب اُسکا یہ حلیہ جون پر بجلی کی طرح گرا تھا تو کیسے نہ باقی سب اُسکی طرف متوجہ ہوتے۔۔۔۔۔
یہاں موجود لڑکوں کی نظر سدرہ پر محسوس کرتے اُسکے وجود میں جیسے اشتعال کے بھانپر جلتے ہوئے محسوس ہوئے اب وہ جلتی نگاہوں سے سدرہ کے وجود کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ضبط کی ایک حد تھی جو ختم ہو گئی تھی وہ اُسکی بیوی تھی اُسکا ایسا حلیہ وہ صرف اپنے سامنے برداشت کر سکتا تھا ۔۔لیکن اس وقت اُسکی بیوی اتنے مردوں کی موجودگی میں اپنی ظاہر ہوتی خوبصورتی اور رعنائیوں سمیت بہت سکون سے کھڑی اُسکا سکون چھین گئی تھی۔۔۔
ایوری ون لیو دی اسٹیڈیم رائیٹ ناؤ۔۔۔۔۔تیز سخت آواز پر فٹ بال کھیلتی سدرہ تھمی ۔۔۔۔
جون نے سخت و سرد آواز میں کہتے اُسکی طرف دیکھا جو اب رکتے اُسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
جون کی بات پر سب اسٹوڈنٹ اپنے اپنے سامان کی طرف بڑھے۔۔۔
سدرہ نے ایک نظر جنید کو دیکھا اور پھر خود بھی نظریں پھیر گئی۔۔۔۔جون کی شرٹ پر لگے کوچ کے بیچ کو وہ سمجھ گئی کہ جون فٹ بال کوچ ہے۔۔۔
اس نے ضبط سے اپنی آنکھیں بند کی فٹ بال کھیلنا اُسکا جنون تھا وہ اس انسان کی وجہ سے اپنے جنون سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی تھی۔۔۔سب کو اپنے اپنے سامان پیک کرتے دیکھتے وہ بھی اپنے سامان کی طرف بڑھی جنید کو بلکل ایسے نظرانداز کیا جیسے وہ یہاں تھا ہی نہیں۔۔۔
جنید جو اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالے لال ہوتی آنکھوں سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا اپنی نظراندازی پر اپنے جبڑے اور سختی سے بھینچ گیا۔۔۔
سب کو اسٹیڈیم سے باہر نکلتے دیکھ اُس نے اسٹیڈیم کا دروازہ بند کیا اور اپنے قدم سدرہ کی طرف بڑھائے۔۔۔
سدرہ جو اپنے آپکو کنٹرول کیے اپنا سامان پیک کر رہی تھی اسٹیڈیم کے خالی ہونے پر جلدی جلدی اپنا بیگ پیک کر رہی تھی دروازہ بند ہونے کی آواز پر اُسکے ہاتھ رکے۔۔۔دل کی دھڑکن بڑھی۔۔۔
لیکن نظر انداز کرتے ہوئے اپنا بیگ اٹھا کر اپنے کندھے پر ڈالا۔۔سانس ابھی تک پھولا ہوا تھا۔۔۔
سدرہ نے جون کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ اپنے تاثرات کو سخت کرتے اپنے قدم دروازے کی طرف بڑھائے۔۔۔۔
اس شخص کو نظرانداز کرنا انتہائی مشکل تھا لیکن اُسے کرنا تھا۔۔۔
جنید نے اپنے انتہائی پاس سے گزرتی سدرہ کا بازو پکڑتے اُسے پل میں اپنے انتہائی قریب کیا۔۔۔
سدرہ نے دھک دھک کرتے دل کے ساتھ جنید کی براؤن آنکھوں میں دیکھا جو اس وقت لال ہو رہی تھی دونوں کا چہرہ ایک دوسرے سے ایک انچ کی دوری پر تھا دونوں کی گرم سانسیں ایک دوسرے کے چہرے پر پڑتی دونوں کے چہرے جھلسا رہی تھی۔۔۔
دونوں کی براؤن آنکھیں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی ایک کی آنکھوں میں غصّہ جنون محبت تھی تو دوسرے کی آنکھوں میں صرف و صرف سرد پن۔۔۔۔
کس طرح کا لباس پہنا ہے تم نے۔۔۔سدرہ کے بازؤں پر اپنی گرفت سخت کرتے بیچ میں موجود ایک انچ کے فاصلے کو بھی مٹاتے جون نے اُسے اپنے مزید نزدیک کرتے ہوئے سرد آواز میں کہا۔۔۔
سدرہ نے جنید کے سینے پر ہاتھ رکھتے فاصلہ بنانا چاہا لیکن جون نے اُسکی قمر کو اپنے دونوں ہاتھوں سے تھامتے اُسکی یہ کوشش بری طرح ناکام کی۔۔۔۔
یہ شرٹ ہے اور پینٹ ہے جو میں نے پہنی ہے اور یہ ایک ویسٹرن لباس ہے۔۔۔سدرہ نے دانت پیستے ہوئے جنید کی براؤن آنکھوں میں دیکھتے دوبدو جواب دیا جبکہ مقابل کے قمر پر رکھے ہاتھوں کے لمس سے دل کی دھڑکن بڑھی۔۔۔
سدرہ کے جواب پر جون نے اپنی آنکھیں ضبط سے بند کی۔۔۔
آئندہ اُس طرح کا لباس مجھے تمھارے وجود پر نظر نہ آئے جس وجود کو تم یہاں نمائش کا سامان بنائے پُر سکون کھڑی تھی وہ وجود میری ملکیت ہے ۔۔۔اور میں اپنی ملکیت پر کسی کی بھی نظر برداشت نہیں کرونگا مجھے بلکل گوارا نہیں تمہیں کوئی دیکھے بھی۔۔۔سرد آواز میں سدرہ کے ہونٹوں کو فوکس میں رکھتے جون شدت سے گویا ہوا۔۔۔
ہوش میں آجائے کوچ صاحب یہ وجود میرا ہے اور میری مرضی میں جو بھی پہنو ۔۔۔۔جس وجود کو آپ اپنی ملکیت بول رہے ہیں اسی وجود کو بہت بیدردی سے آپ پانچ سال پہلے نام نہاد دولت حاصل کرنے کے لیے چھوڑ گئے تھے۔۔۔سدرہ نے تلخ لہجہ میں جوابی کاروائی کی۔۔۔
اب چھوڑے مجھے۔۔۔سدرہ نے اپنی قمر پر رکھے جون کے ہاتھوں کو ہٹانے کی کوشش کرتے کہا۔۔۔
چھوڑنے کے لیے پکڑا نہیں ہے۔۔۔جب تمہارا یہ پسینے سے بھیگا وجود مجھ پر بجلی بن کر گرا ہے تو کیسے یہاں موجود اُن مردوں کی نظر تم پر نہ گئی ہوگی ۔۔۔جون نے سدرہ کی قمر پر گرفت سخت کرتے اُسکی گردن پر انگلی سختی سے پھیرتے ہوئے سرد آواز میں کہا۔۔۔اب بھی یہاں موجود اُن لڑکوں کی نظریں اُس کے ذہن میں گردشِ کر رہی تھی۔۔۔
سدرہ نے اپنی گردن پر اٹھتے درد کو برداشت کرتے اپنی آنکھیں بند کی۔۔۔۔جبکہ جون کے منہ سے نکلتے لفظوں کو سنتے اُسکا غصّہ عود ایا۔۔۔
تمہیں کوئی فرق نہیں پڑنا چایئے۔۔۔پانچ سال سے تھے یہاں نہیں نہ اور اس عرصے میں نہ جانے کتنے مردوں نے مجھے دیکھا اور چھوا ۔۔۔۔سدرہ کے الفاظ ابھی حلق میں ہی تھے جب جون نے اُسکی بات پر اشتعال میں اتے اُسکے لبوں کو اپنی سخت گرفت میں لیا ۔۔۔
وہ جو شدید غصے میں زہریلے لفظ اپنی زبان سے ادا کر رہی تھی یکدم اپنے لبوں پر جلتے سلگتے لمس کو محسوس کرتے جی جان سے تڑپی۔۔۔جنید کی اپنے لبوں پر شدت محسوس کرتے اُسکے وجود میں برقی رو سی دور گئی۔۔۔۔
اپنی سانسیں بند ہونے پر اُس نے جنید کے کندھوں پر اپنے نازک ہاتھ کے مکے برسائے۔۔۔۔۔
سدرہ کی بند ہوتی سانسوں کو محسوس کرتے اُس نے سدرہ کے نچلے ہونٹ کو اپنے دانتوں تلے دبایا ۔۔۔۔
سدرہ نے تڑپ سے سسکی بھری۔۔۔۔جنید نے سدرہ سے دور ہوتے اُسکے لال چہرے کو دیکھا سدرہ کے ہونٹ پر لگی خون کی بوند کو اپنی انگلی کی پوروں سے چنا ۔۔۔
سدرہ نے گہرے سانس بھرتے بھیگی نِگاہوں سے اس ظالم کو دیکھا جو اب آنکھوں میں شوخی لیے اُسکی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔اُسکی نظر جنید کی انگلی کی پور پر لگی خون کی بوند پر گئی۔۔۔۔
یکدم جنید کا کولر پکڑتے اُسے اپنے نزدیک کرتے اُس نے شدت سے اپنے دانت جنید کی گردن پر گاڑھے۔۔۔۔جنید نے سدرہ کے اس جارحانہ حملے پر درد سے اپنی آنکھیں بند کی۔۔۔۔
جون کی گردن پر اپنے دانتوں کا نشان چھوڑتے وہ پیچھے ہوئی۔۔۔۔
اب اگر زخم دو گے تو سود سمیت واپس بھی پاؤ گے۔۔۔۔سدرہ نے اُس سے دور ہوتے ایک جھٹکے میں اپنے گرد بندھی اُسکی گرفت توڑتے سخت لہجے میں جنید کی براؤن آنکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔
اگر زخم اس صورت واپس ملنے ہے تو ہر بار ،بار بار تیار ہو میں ایسے زخم کھانے کو۔۔۔۔جنید نے اپنی ایک آنکھ ونک کرتے بیباکی سے کہا۔۔۔
سدرہ کی رنگت سرخ ہوئی جنید کی بات پر ۔۔اُسکے وجود میں غصّہ بڑھتا چلا گیا یہ انسان پانچ سال بعد آکر اُس سے ایسے مخاطب تھا جیسے ان دونوں کے بیچ سب صحیح ہو۔۔۔
آخر پانچ سال بعد تمہیں میرا خیال کیوں ایا ہے کیا تمہیں ذرا سی بھی شرمندگی نہیں جو تم کر چکے ہو اُس پر ،تم نے لالچ میں آکر مجھے چھوڑا تو چھوڑا تم نے تایا ابو کو بھی تنہا کر دیا۔۔۔کبھی سوچا ہے وہ کیسے اپنی ایک لوتی اولاد کے بغیر رہتے ہونگے۔۔۔کبھی ان پانچ سالوں میں تمہیں میرا خیال ایا ہے کہ وہ لڑکی جو جب تک تمھاری شکل نہ دیکھ لے جب تک تمھاری خوشبو میں سانس نہ لے لیں جب تک تمہارا چہرہ نہ دیکھ لے تب تک بے سکوں رہتی ہے۔۔۔جانتے تھے نہ تم اچھی طرح جانتے تھے تمھاری آواز تمھاری مسکراہٹ میری کمزوری ہے میں ترس جاؤنگی مر جاؤنگی اگر ایک دن بھی تمھاری آواز میری سماعت کا حصہ نہ بنے ۔۔۔لیکن پھر بھی چھوڑ گئے۔۔۔بولوں نہ اب جواب دو۔۔۔۔۔۔
سدرہ جنید کا گریبان اپنی دونوں مٹھیوں میں جکڑے ہذیانی انداز میں چیخی۔۔۔۔
دو حساب میری اُن راتوں کا جب نیند میری انکھوں سے کوسوں دور تھی جب پرانی یادیں یاد کرتے میرا دماغ پٹھنے لگتا تھا حساب دو میرے اُس وقت کا جو میں نے تمھاری یاد میں برباد کيا دو نہ حساب اب اُن آنسوؤں کا جو تمھاری وجہ سے میری انکھوں سے بہہ نکلے۔۔۔صرف میرا ہی حساب نہیں تایا ابو کا حساب بھی دو جو آج تک دروازہ تکتے تمہارا انتظار کرتے ہیں جن کی آنکھیں اپنے اولاد کو دیکھنے کے لیے ترس گئی ہے میرے بھائی کا حساب بھی دو جو روز اپنی بہن کو مرتے دیکھتے خود مرتا تھا۔۔۔۔جنید کے سینے پر ہاتھ مارتی اُسے پیچھے کی طرف دھکا دیتی وہ پھولی سانسوں کے درمیان کہتی جنید کو اذیت سے روشناس کروا گئی تھی۔۔۔۔
میں سب کا خمیازہ بھگتنے کو تیار ہو سدرہ جو سزا دو گی قبول ہوگئی مجھے۔۔۔یکدم سدرہ کے ہاتھ پکڑے جنید نے نرم آواز میں کہا۔۔۔
صحیح خمیازہ بھگتنا ہے نہ ۔۔۔تیار ہو سزا کے لیے۔۔۔سدرہ نے اپنے ہاتھ جنید کی گرفت سے نکالتے زور سے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ۔
طلاق دو مجھے ۔۔۔آزاد کرو اس رشتے سے اور قبول کرو اپنی یہ سزا۔۔۔سخت و سرد آواز میں کی گئی سدرہ کی بات پر جنید کی آنکھیں حیرت سے پھیلی۔۔۔وہ سدرہ کی طرف سے ایسے جملے کی توقع نہیں کرتا تھا۔۔۔
سدرہ یہ لفظ تم زبان سے ادا بھی کیسے کر سکتی ہو ۔۔جنید اپنی پوری قوت سے چیخا تھا۔۔۔اُسکی دل کی دھڑکن رک سی گئی تھی سدرہ کی زبان سے طلاق کا لفظ سنتے۔۔۔۔
کیوں سزا چایئے تھی نہ تمہیں تو بھگتو اب۔۔۔سدرہ نے اسپاٹ چہرے سے جنید کی طرف دیکھتے کہا ۔۔۔۔۔۔
مجھ سے آزادی تمہیں کبھی نہیں ملے گی کبھی نہیں ۔۔یہ بات اپنے اُس دماغ میں بٹھا لو۔۔۔۔اور آئندہ یہ لفظ تمھاری زبان پر بلکل نہیں انا چایئے بلکہ تیار ہو جاؤ جلد ہی میری پناہوں میں انے والی ہو میرے قریب رہ کر جو سزا دو گی منظور ہوگی لیکن دوری نہیں ۔۔۔۔۔جنید نے یکدم سدرہ کی قمر میں ہاتھ ڈالتے اُسے اپنے نزدیک کرتے سخت لہجے میں کہا۔۔۔
سدرہ کچھ بھی نہیں بولی بس سخت نگاہوں سے جنید کی براؤن آنکھوں میں دیکھے گئی۔۔۔۔۔
اور آئندہ ایسا لباس مجھے تمھارے اُس حسین وجود پر نظر نہ آئے جس میں تم دعوت نظارہ بنی ہوئی ہو ۔۔۔ورنہ با خدا اج میرے قہر سے بچ گئی ہو ہر بار ایسا نہیں ہوگا۔۔بہت جلد ملاقات ہوگی ۔۔۔اور وہ بھی کافی طویل ۔۔۔۔جنید نے اپنا کورٹ اُتار کر سدرہ کو زبردستی پہناتے ہوئے سرد آواز میں کہا ۔۔۔۔
سدرہ بلکل بت بنی اُسکی حرکات دیکھ رہی تھی جو اب اپنے رومال سے اُسکی گردن پر جمع پسینہ صاف کر رہا تھا۔۔۔۔
اُسکی آنکھیں آنسو سے بھرنے لگی تھی اتنے دن جس کی یاد کو دل میں سلا کر رکھا وہ اج سامنے تھا۔۔۔دل کے سارے جذبات دوبارہ جاگ اٹھے تھے۔۔۔
میں تمہارے پاس کبھی نہیں اونگی کبھی نہیں۔۔۔جنید کو خود سے دور دھکا دیتے وہ اپنے بیگ کو اٹھائے وہاں سے بھاگتی چلی گئی ۔۔۔۔
تم میرے پاس ہی اؤںگی کیونکہ میں ہی تمھاری منزل ہو۔۔۔دھیمی آواز میں بڑبڑاتے جنید نے اپنا رومال واپس اپنی جیب میں رکھتے اپنی ٹی شرٹ صحیح کی۔۔۔۔۔اور خود بھی باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔۔




وہ زرقان کی تلاش میں نظر ڈورا رہی تھی جب وہ اُسے اپنی مخصوص جگہ پر نظر ایا صوفیہ کے ساتھ بیٹھا ہوا۔۔۔۔
امنہ کو سوال کا جواب چایئے تھا کہ وہ کیوں اُس دن اتنا بے اختیار ہوا تھا ۔۔۔کیا وہ اُسے پسند کرتا ہے یہ پیار کرتا ہے اس کے جواب اُسے زرقان سے چایئے تھے۔۔۔
وہ دھیمے قدم بڑھاتے زرقان سے ابھی پانچ قدم کی دوری پر تھی جب ایک لمبے بالوں والے لڑکے نے اُسکے راستے میں اپنا پاؤ اتکایا ۔۔۔۔۔
صوفیہ کی نظر بھی امنہ پر پڑ گئی تھی ۔۔
امنہ ایک چیخ کے ساتھ نیچے گرنے لگی تھی جب اُسی لڑکے نے اُسکے پیٹ کے گرد اپنا ہاتھ رکھتے اُسے گرنے سے بچایا۔۔۔
امنہ جو گرنے کے ڈر سے اپنی آنکھیں بند کرتی تقریبا زمین پر سیدھے منہ آدھی جھکی ہوئی تھی اپنے پیٹ پر کسی کا لمس محسوس کرتے تڑپ اُٹھی۔۔۔۔۔
زرقان جو چیخ کی آواز پر اُسکی طرف متوجہ ہوا تھا سامنے امنہ کو آدھا جھکا دیکھتے اُسکے پیٹ پر رکھے لڑکے کے ہاتھ کو دیکھتے اُسکی آبرو تن گئی ۔۔۔لمحے میں وہ اپنی جگہ سے اٹھا۔۔۔۔
نہ جانے کیسی اذیت تکلیف اور غصّہ اُسے اپنے وجود میں سرائیت کرتا محسوس ہوا امنہ کے پیٹ پر رکھے اُس لڑکے کے ہاتھ کو دیکھتے اُسے اپنی شریانیں پٹھتھی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔ایسا لگا جیسے اُسکا روا روا جل اٹھا ہو ۔۔۔۔
ایک ہی جست میں وہ امنہ تک پہنچا تھا۔۔۔امنہ جو حیرت سے واپس کھڑی ہوتی اپنے پیٹ سے اُس لڑکے کا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی جو جان بوجھ کر اپنا ہاتھ نہیں ہٹا رہا تھا رو پری آس پاس کھڑے اسٹوڈنٹ اُسکی طرف دیکھتے ہنس رہے تھے جب کوئی تیزی سے امنہ کی طرف ایا اور ایک جھٹکے میں اُسے اس لڑکے سے دور کر گیا۔۔۔
زرقان کا ضبط ٹوٹا تھا اُس نے امنہ کے پاس اتے اُسے اپنے پیچھے کرتے اُس لڑکے کے منہ پر پوری قوت سے مکا رسید کیا۔۔۔۔دل کیا تھا اس لڑکے کا وہ ہاتھ جڑ سے اُکھار پھینکے جس ہاتھ سے اُس نے امنہ کو چھوا تھا۔۔۔
ہاؤ دئیر یو تو ٹچ ہر۔ ۔۔(تمھاری ہمت کیسے ہوئی اُسے ہاتھ لگانے کی) وہ حلق کے بل اُس لڑکے پر وار کرتا ڈھاڑا ۔۔۔
امنہ اپنا رونا بھولتے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھے حیرت سے زرقان کو دیکھ رہی تھی جو ڈر پر ڈر اُس لڑکے پر وّار کر رہا تھا۔۔۔۔
زرقان کے دوستوں نے آکر بہت مشکل سے اُسے اُس لڑکے سے دور کیا جس کی حالت وہ حد سے زیادہ خراب کر چکا تھا۔۔۔۔
ستے اوۓ فروم ہر ۔۔۔۔اپنی انگلی اٹھاتے اُس نے وہاں موجود ہر لڑکے کو سرد آواز میں کہا۔۔
امنہ کی طرف پلٹتے سن ہوئی امنہ کا ہاتھ پکڑے وہ پھولتی سانسوں کے ساتھ وہاں سے نکلا۔۔۔۔
صوفیہ نے غصے سے لال ہوتی آنکھوں سے زرقان کا جنوں دیکھا۔۔۔وہاں موجود لڑکوں نے جلدی سے اُس لڑکے کو اٹھایا جو پورا خون خون ہوا تھا۔۔۔




آمنہ بت بنی زرقان کے ساتھ کھینچی جا رہی تھی اُسکی کتابیں وہی پر گر گئی تھی اُسکا دماغ ماؤف تھا کوئی اتنا جنونی کیسے ہوسکتا تھا۔ ۔
زرقان نے ایک جھٹکے سے اُسے کھینچ کر دیوار سے لگایا۔۔۔
اندھی تھی تم دیکھ کر نہیں چل سکتی تھی آنکھیں کہاں تھی رونے کے بجائے اُسے تھپڑ مار کر اُسکا وہ ہاتھ توڑ پھینکتی جس ہاتھ سے اُس نے تمہیں چھوا۔۔۔۔۔
دیوار پر شدت سے اپنا ہاتھ مارے زرقان چیخا تھا۔۔۔امنہ نے ڈر سے اپنی آنکھیں بند کی آنسو نکلتے اُسکے سرخ عارض کو بھگوتے چلے گئے تھے ۔۔۔۔
بولو جواب دو۔۔۔زرقان اُسکے آنسو دیکھتے اور غصّہ ہوا ۔۔۔اُسکی سفید رنگت اشتعال سے سرخ تھی۔۔۔۔
جب امنہ نے ہچکی بھرتے اپنی بھیگی ہیزل بلیو آنکھوں سے زرقان کی طرف دیکھا ۔۔۔
ہچکی بھرتے اپنے ہونٹوں کی طرف اشارہ کرتے نفی میں سر ہلایا اور زرقان چپ چاپ اُسے دیکھتا گیا۔۔۔
لب بھنچے امنہ کی ہیزل بلیو انکھوں اور ہچکیاں بھرتے وجود کو دیکھتے وہ سمجھ گیا تھا وہ بری طرح خوفزدہ ہے ۔۔۔۔
اس نے نرمی سے امنہ کی قمر میں ہاتھ ڈالے اُسے اپنے سینے سے لگایا۔۔۔امنہ کے سر پر اپنی تھوڑی رکھے وہ اپنی آنکھیں بند کر گیا تھوڑی دیر پہلے جو بدن میں غم وغصہ کا طوفان اٹھا وہ جیسے تھم سا گیا تھا رگ و پے پر سکون سا دوڑتا محسوس ہوا۔۔۔۔امنہ کے وجود سے اٹھتی بھینی بھینی مہک اُسکے روم روم میں سرور سا بھر گئی۔۔۔۔اپنے سینے سے لگے اس نازک وجود کے لمس میں وہ کھو سا گیا تھا۔۔۔
امنہ دھک سی رہ گئی زرقان کی اس حرکت پر اُسکے سینے پر دل کے مقام پر اپنا سر رکھے اُسکی دھڑکنیں سنتے وہ بلکل ساکن سی تھی ۔۔۔بس ہیزل بلیو انکھوں سے آنسو نکلتے زرقان کی شرٹ کو بگھو رہے تھے۔۔۔
دونوں کے لیے جیسے یہ لمحہ تھم سا گیا تھا نہ جانے کیسا سکون تھا جو دونوں کو محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ہواؤں کا رخ بدلتا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔
اب کچھ کہنے کچھ پوچھنے کو باقی تھا ہی نہیں زرقان کی آنکھوں میں نظر اتی اپنے لیے جنونیت دیکھتے امنہ کو سب جواب مل گئے تھے۔۔۔۔اور زرقان وہ کچھ بھی نہیں سوچنا چاہتا تھا اس وقت وہ صرف ان لمحوں کو محسوس کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔
امنہ۔۔۔سدرہ کی آواز پر امنہ جو سن سی زرقان کی دل کی دھڑکن سن رہی تھی ایک جھٹکے سے ہوش میں اتے زرقان سے دور ہوئی۔۔۔۔
چہرہ لال گلابی ہوتے بھانپ چھوڑنے لگا۔۔۔زرقان بھی ہوش میں ایا اچانک سے ایک نازک سے وجود کے دور ہونے پر اُسکا سارا فسوں ٹوٹا تھا۔۔۔۔
امنہ نے ایک نظر زرقان کو دیکھا لیکن اُس کی نظر اپنے اوپر ہی دیکھتے وہ اپنی نظریں جھکاتی جلدی سے سدرہ کی طرف بڑھی۔۔۔۔۔
سدرہ کا ہاتھ تھامے وہ بغیر زرقان کو کچھ بولے تیزی سے اپنے قدم آگے بڑھا گئی لیکن اس بیچ وہ سدرہ کی روئ روئ آنکھیں دیکھ چکی تھی۔۔۔۔۔
زرقان نے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتے امنہ کی پشت کو تکا۔۔۔۔جب اسی وقت امنہ پلٹی۔۔۔
زرقان کے لبوں پر مسکراہٹ ائی امنہ نے گڑبڑا کر اپنا رخ موڑا اپنے لبوں کو کاٹتی وہ سدرہ کی تفتیش کرتی نگاہوں سے بچتی اُسکا ہاتھ پکڑے آگے بڑھتی گئی۔۔۔۔
زرقان کے لبوں پر اب بھی مسکراہٹ تھی جو کچھ یاد اتے ہی سمٹی جلدی سے فون نکالتے اُس نے ایک نمبر پر کال کی اب چہرے پر صرف و صرف سنجیدگی تھی۔۔۔۔