قسط: 2
ایڈیلیڈ کی سر زمین پر قدم رکھتے ہی اُس نے گہری سانس بھرتے آس پاس دیکھا ۔۔۔۔آسٹریلیا کے شہروں میں سے سب سے پہلے نہ جانے کیوں اُس نے ایڈیلیڈ کو چنا تھا۔ ۔۔
یہاں کی ہوا تازگی بخش تھی ۔۔۔لوگوں کی بھیڑ میں وہ تنہا سا اپنی کالی سنجیدہ آنکھوں سے ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا ۔۔۔وہ ماضی میں نہ جانے کتنی بار اس جگہ اچکا تھا۔۔کوئی ایسا ملک نہیں تھا جہاں لیپرڈ نہ گیا ہو اُسے ہر ملک کے بارے میں جانکاری تھی تبھی تو وہ یہ کام کر رہا تھا۔۔
لیکن آج یہ شہر الگ سا لگا اُسکا ساکت دل دھڑکا۔۔۔۔
ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی ٹھندی ہواؤں نے اُسکا استقبال کیا۔۔۔۔
براؤن لیڈر جیکٹ وائٹ شرٹ اور براؤن ہی پینٹ پہنے ۔۔وہ سنجیدگی میں ڈوبا نہایت خوبرو لگ رہا تھا ۔۔۔
“بس یہاں پر موجود ہے پہلے ہم ہوٹل جائے گے اُسکے بعد ہماری پہلی دیستینیشن پر جو یہاں کا زو ہے “سنجیدگی سے اپنے ساتھ آئے ٹوریسٹ کو کہتا وہ چپ چاپ بس کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
اسکے ساتھ ائی ٹیم میں موجود لڑکیاں ستائش سے اس خوبرو گائیڈ کو دیکھ رہی تھی جو کام کی بات کے علاوہ کوئی بات کرتا ہی نہیں تھا۔۔۔۔
بس میں بیٹھتے شیشے کے پار اس حسین شہر کو دیکھتے وہ اپنی بڑھتی ہوئی دھڑکنوں سے پریشان تھا جو اس شہر میں قدم رکھتے ہی بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
وہ نہیں جانتا یہ دل کی دھڑکنیں بڑھتی اُسے اشارہ دے رہی ہے کہ تمھارے دل کا مکین تمہارے پاس ہے اسی شہر میں ہے جسے تم سے ملنا ہے اور جلد ملنا ہے ۔۔۔



آمنہ بچے اٹھ جاؤ اج تمہیں یونی جانا ہے”..
اپنی والدہ کی آواز پر اُس نے لحاف میں سے اپنا منہ نکالا ۔۔۔۔
یونی کا نام سنتے ہی اُسکے گلابی لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ اُبھری۔۔۔۔
گولڈن سلکی بالوں نے اُسکے چہرے کو ڈھانپا ہوا تھا ۔۔
اٹھتے اپنے گولڈن بالوں کو جوڑے میں باندھا مسکان ہنوز لبوں پر تھی۔۔۔۔کھڑی ناک گلابی لب سفید رنگت اور ہیزل بلیو آنکھیں اور نازک سا سراپا، چہرے پر پھیلی معصومیت
خدا نے اُسے حسن کی مورت بنایا تھا بس اُس میں ایک کمی تھی۔۔۔
والدہ کے اندر اتے ہی اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے مخصوص اشارہ کیا۔۔۔
مجھے پتہ ہے گڑیا بہت خوش ہے کیونکہ اج اُسکا یونی میں پہلا دن ہے جلدی سے تیار ہو جاؤ پھر تمہارا ریڈیو بھی اتا ہوگا۔۔۔والدہ نے آمنہ کے پاس اتے اُسکے چہرے پر پیار سے ہاتھ رکھتے کہا۔۔۔۔
بابا کہاں ہے۔۔۔اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے اُس نے اپنے بابا کا پوچھا۔۔۔
بابا بیکری گئے ہوئے ہے۔۔۔والدہ نے اُسکی الماری سے اُسکا ڈریس نکالتے اُسکو جواب دیا۔۔۔۔۔
آمنہ کے چہرے پر اُداسی چھا گئی اُسکا پھول سا کھلا چہرہ ایک دم مرجھایا۔۔۔۔۔۔
نجمہ بیگم اپنی بیٹی کے اُداس چہرے کی طرف دیکھتے مسکرا دی۔۔۔۔
اُنکی بیٹی انتہا کی خوبصورت تھی لیکن اس میں خامی تھی وہ بول نہیں سکتی تھی لیکن اُسکی بلیو ہیزل آنکھیں بات کرتی تھی۔۔۔اُسکے چہرے پر جو معصومیت تھی سب اُسکی طرف کھینچتے چلے جاتے تھے۔۔۔اور جب وہ اپنے ہاتھوں سے اشارے کرتے اُنھیں بات سمجھاتی اُسکے ہاتھ میں موجود وہ بریسلیٹ جس میں چھوٹے چھوٹے سے گھنگھرو ہوا میں اٹکھیلیاں کرتے اُسکی آواز بن جاتے تھے۔۔۔۔۔۔
میری حسینہ کہاں ہے۔۔۔ابھی وہ اپنی بیٹی کو کوئی جواب دیتی جب باہر سے ایک شوخ چنچل سی آواز ابھری اور اسی کے ساتھ دروازے پر کالی شرٹ اور وائٹ پینٹ میں بالوں کو اونچی پونی ٹیل بنائے سدرہ نظر ائی ۔۔۔۔
آئے میری حسینہ اُداس ہے اُسے تو اج خوش ہونا چائیے اج وہ یونی جا رہی ہے ۔۔۔۔آمنہ کا اُداس چہرہ دیکھتے اُس نے آنکھوں سے نجمہ بیگم سے اُسکی اُداسی کی وجہ جاننا چاہئ اور بولتے ہوئے اُسکے پاس آکر بیٹھی۔۔۔۔
بابا اج بھی بیکری چلے گئے مجھ سے ملے بنا اب تم بتاؤ میں کیسے جاؤنگی اُنھیں دیکھے بنا۔۔۔۔فوراً سے بیڈ پر گھٹنوں کے بال بیٹھتے اُس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی کمر پر رکھتے پیچھا۔۔۔۔
تو اس میں کون سی بری بات ہے ہم یونی سے واپسی میں انکل سے مل لیں گے بیکری جاکر اور وہاں جاکر مزیدار سے کیک بھی بنائے گئے۔۔۔۔سدرہ نے چٹکی بجاتے حل نکالا۔۔۔۔
اور اسکی بات سنتے آمنہ مسکرا دی۔۔۔۔جھکتے سدرہ کے گال پر اپنے نرم و نازک لب رکھے اور تیزی سے بیڈ سے اتری۔۔۔۔
سدرہ اُسکی حرکت پر مسکرا دی۔۔۔
اینٹی ذرا میری حسینہ کی نظر بھی اتار دی جئے گا باہر جاتے ہی لڑکوں نے اسکو دیکھ کر نظر لگا دینی ہے۔۔۔سدرہ کے شوشے پر آمنہ کا رنگ سرعت سے سرخ ہوا۔۔۔۔۔اُس نے گھور کر سدرہ کو دیکھا اور اپنے کپڑے لیتے واشروم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔
آمنہ بیگم اور سدرہ دونوں اُسکے اتنی سی بات پر شرمانے پر ہنس پڑی ۔۔۔۔
ایڈیلیڈ کے ایک درمیانے طبقے کے علاقے میں آمنہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتی تھی ۔۔۔۔بچپن سے ہی وہ بول نہیں سکتی تھی۔۔۔لیکن تھی انتہا کی معصوم اور پیاری ۔۔۔۔نجمہ بیگم اور ماجد صاحب نے کبھی اپنی بیٹی کی اس کمی پر اسے کچھ نہیں کہا۔ نہ اللہ کی ناشکری کی ۔۔لیکن لوگ بعض نہیں اتے نہ جانے کتنے لوگ اج بھی اُسکی اس خامي کا مذاق اڑاتے ہیں ۔۔۔بچپن سے اُسکی صرف ایک ہی دوست تھی سدرہ جو اُسکے ساتھ والے گھر میں رہتی تھی جسے آمنہ اتنی پسند ائی کہ اس نے آمنہ کی باتوں کو سمجھنے کے لیے اُسکی زبان سیکھی۔۔۔۔
نجمہ بیگم اور ماجد صاحب سدرہ کے بہت شکر گزار تھے جنہوں نے اُنکی بیٹی کا ہر جگہ ساتھ دیا ۔۔۔۔اج آمنہ اور سدرہ کا یونی میں پہلا دن تھا بہت مشکل سے ماجد صاحب آمنہ کے باہر جانے پر راضی ہوئے تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ آمنہ باہر جائے اور لوگ اُسے اُسکی کمی کا احساس دلائے لیکن سدرہ کے ساتھ ہونے پر انہوں نے اُسے اجازت دے دی تھی۔۔۔۔۔




آج ہم زو جا رہے ہیں یونی نہیں۔۔۔لیزا کی بات پر انابیہ نے حیرت سے اُسے دیکھا۔۔۔
وہ عروہ کو اسکول چھوڑ کر لیزا کے ساتھ یونی جا رہی تھی جب لیزا نے یہ بات کی ۔۔۔
اور ہم کیوں جائے گے ۔۔۔انابیہ نے ونڈو سے باہر شہر کی مصروف سڑکوں کو دیکھتے پوچھا۔۔۔
کیونکہ اج میرا دل چاہ رہا ہے اور تمہارا بھی کیونکہ جانوروں کی مجھ سے زیادہ تم شوقین ہو۔ اور میں کیمرہ بھی لے کرائی ہو۔۔۔۔۔لیزا نے اپنی آبرو آپس میں ملاتے کہا۔۔۔
چلو پھر چلتے ہے ویسے بھی یونی میں کوئی اہم لیکچر نہیں ہے۔۔انابیہ نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا کیونکہ لیزا کہہ تو صحیح رہی تھی اُسکا موڈ وہاں موجود معصوم اور پیارے جانوروں کو دیکھتے ٹھیک ہوجاتا تھا۔۔۔




آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ کے چڑیا گھر میں اس وقت سیاحوں کی ریل پیل تھی ۔۔۔۔مختلف ممالک سے آئے سیاح وہاں پر موجود جانوروں کی تصویریں اپنے موبائل میں قید کرتے ایک خوشگوار موسم کا مزہ لے رہے تھے۔۔۔۔
ایسے میں وائٹ شرٹ ،بلیو جینز،اور بلیو ہی جیکٹ پہنے ۔۔۔۔کالے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے وہ اپنے ساتھ آئے لوگوں کو یہاں کی معلومات فراہم کر رہا تھا۔۔۔
سفید رنگت ہلکی دھوپ میں چمک رہی تھی چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی کھڑی ناک ۔۔۔عنابی لب ۔۔۔اور اُسکی ائی برو پر لگا وہ کٹ ۔۔۔۔۔۔۔اور سنجیدگی اسے جاذب بنا رہی تھی ۔۔۔کالی آنکھوں کو براؤن چشمہ کے پیچھے چھپا رکھا تھا۔۔۔۔۔
اُسکے ساتھ موجود سیاح بہت غور سے اسکو دیکھ رہے تھے ۔۔جبکہ اُن میں موجود لڑکیاں تو اُس پر فدا ہوگئی تھی۔۔۔
“یہ اُس شہر کا سب سے بڑا زو ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں جانور ہے ۔۔۔۔اُمید کرتا ہوں آپ سب کو یہاں آکر اچھا لگا ہوگا آپ لوگ انجواۓ کرے میں باہر بس میں ہوں ٹھیک آدھے گھنٹے بعد ہمیں ہوٹل کے لیے نکلنا ہے”
سنیجدگی سے ایک نظر اپنے ہاتھ میں پہنی گھڑی کو دیکھتے کہا۔۔۔
سب سیاح کے اثبات میں سر ہلانے پر اُس نے اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے۔۔۔یہ حسین موسم ،اور خوبصورت جگہ بھی اُسکے دل کی ویرانی کو ختم نہیں کر پڑی تھی۔۔۔
تیز تیز قدم بڑھاتا وہ بس یہاں سے نکلنا چاہتا تھا۔۔۔نہ جانے کتنی نظریں پلٹ کر اس خوبصورت اور مغرور شہزادے کو دیکھ رہی تھی جس نے ایک نگاہ اٹھا کر بھی کسی کی طرف نہ دیکھا تھا۔۔۔۔
ایک ہنستی کھلکھلاتی آواز پر اُسکے قدم رکے۔۔۔۔
یہ ہنسنے کی آواز یہ جانی پہچانی تھی بے اختیار وہ پلٹا اور ساکت ہوا۔۔۔
اُسکا پورا وجود پتھر ہوا۔۔۔کیا ایسا ہوسکتا تھا۔۔۔۔یہ سچ نہیں تھا سراب تھا ۔۔لیکن اگر یہ سچ تھا تو اُسے اُسکے جینے کی وجہ مل گئی تھی۔۔۔
لال فروک میں بالوں کو کھلا چھوڑے ۔۔۔گلابی لبوں پر مسکراہٹ سجائے ہاتھ میں کیمرہ تھامے وہ وہاں موجود جانوروں کی تصاویر لے رہی تھی۔۔۔
ہوبہو چہرہ ہوبہو بال۔۔۔وہ وہی تو تھی۔۔اُسکی بیہ۔۔۔انابیہ۔۔۔
حسام کا وجود سٹل تھا۔۔۔وہ جنبش تک نہ کر پا رہا تھا۔۔۔۔وہ جانا چاہتا تھا اُسکے پاس لیکن ایسا لگتا تھا جیسے اُسکے قدم زمین نے جکڑے ہوئے ہے۔۔۔۔
اُسکی کالی آنکھوں میں نمی اُبھری۔۔۔اور دیکھتے دیکھتے آنسو اُسکے گال سے گرتا اُسکی داڑھی میں جذب ہوا۔۔۔۔
اُسے آگے بڑھتا دیکھ وہ اپنی پوری طاقت لگا کر چیخا۔۔۔
بیہ ،،،،،، اُسکی چیخ اتنے لوگوں کی بھیڑ میں بیہ تک پہنچ جاتی نہ ممکن تھا۔۔۔۔
وہ پہلے تو اس سے دور ہو گئی تھی وہ اب اُسے خود سے دور نہیں جانے دے سکتا تھا۔۔
اپنے قدموں کو حرکت دیتے وہ تیزی سے آگے بڑھا۔۔۔۔
وہ اپنی دوست کے ساتھ بات کرتی بیرونی دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی اور حسام تیز قدموں سے اُس تک پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔
چہرے پر بیقراری ،تڑپ ، کیا کچھ نہ تھا۔۔۔۔
بیہ،،،،وہ دوبارہ چیخا۔۔۔
جب سیاحوں کا ایک مجمع اُسکے آگے ایا۔۔۔وہ بیقراری سے لوگوں کو سائڈ پر کرتا اُس تک پہنچنا چاہتا تھا۔۔۔
لیکن پل کا کھیل تھا وہ اُسکی نگاہوں سے اوجھل ہوئی۔۔۔۔
وہ اُسکی نگاہوں سے اوجھل ہوئی تو اُسے اپنے قدموں سے جان نکلتی محسوس ہوئی۔۔۔
تیزی سے بیرونی دروازے تک بھاگا لیکن وہ وہاں نہ تھی۔۔۔
پھولی سانسوں کے ساتھ وہ حسین نوجوان وہی پر گھٹنوں کے بل بیٹھتا چلا گیا۔۔۔۔
کالی سرخ دروں والی آنکھوں کو جسے چشمہ سے چھپایا تھا ۔۔۔وہ تو کب کا گرتے اُسکی آنکھوں کو بیپردہ کر گیا تھا۔۔۔جّن میں ایک اذیت رقم تھی۔۔۔
اپنے گٹھنوں پر ہاتھ رکھے سر کو جھکائے وہ نفی میں سر ہلا گیا۔۔۔آنکھوں سے آنسو نکلتے زمین پر گر رہے تھے۔۔۔
“یہ ۔۔یہ سچ نہیں ہوسکتا ۔۔انہی ہاتھوں میں تو اُس نے دم تو ۔۔۔توڑا تھا۔۔۔یہ سچ نہیں ہے۔۔۔سراب ہے میرا وہم ہے”
اپنے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے لاتے حسام نے یہ لفظ ادا کیے۔۔۔
روز ایسے ہی تو وہم ہوتے تھے اُسے کبھی وہ اُسے خود کی طرف دیکھتا پاتا تھا۔۔ پہروں وہ اُسے تصور میں لاتے اُس سے باتیں کرتا۔۔۔وہ اُسے ہر پل اپنے اس پاس محسوس ہوتی تھی۔۔۔ہر جگہ اُسے وہی تو نظر آتی تھی۔۔۔۔
اور اسی وہم کی وجہ سے تو وہ زندہ تھا۔۔۔وہ جانتا تھا اُسکا وہم ہے انابیہ نہیں ہے زندہ ۔۔۔وہ کیسے اُسکے اس پاس ہوسکتی ہے۔۔۔لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا اسی وہم نے اُسے زندہ رکھا ہوا ہے۔۔۔۔
“ہے مین کیا تم ٹھیک ہو”۔۔۔ایک لڑکے کی آواز پر اُس نے اپنا جھکا سر اٹھایا۔۔۔۔
اثبات میں سر ہلاتے اپنے چہرے پر اپنا ہاتھ پھیرتے اپنی بھیگی پلکیں صاف کی۔۔۔
اُسے یہی لگ رہا تھا کہ ابھی بھی اُسے وہم ہوا ہے وہ انابیہ نہیں تھی۔ وہ کیسے اس بات پر یقین کر لیتا کہ انابیہ زندہ ہے جب اُس نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی محبت کی ماراتھا۔۔۔۔۔۔زمین سے اٹھتے اُس نے ایک گہرا سانس بھرا۔۔۔۔
پانچ سال پہلے جو ہوا وہ منظر پوری آب و تاب سے اُسکے ذہن کے پردے پر لہرائے اور رگ رگ میں اذیت بھرتے چلے گئے۔۔۔۔۔



کہاں رہ گئی یہ لیزا۔۔۔انابیہ نے گاڑی کے پاس کھڑے ہوتے کہا۔۔۔وہ زو سے باہر آئے تو لیزا میڈم کو یاد ایا کہ وہ تو اپنا بیگ اندر ہی بھول گئی ہے۔۔۔۔۔
میں خود جاکر دیکھتی ہو۔۔۔انابیہ نے اپنے ہاتھ میں تھامے کیمرے کو دیکھا اور خود اندر کی طرف بڑھ گئی۔۔۔




وہ سر جھکائے اپنا شکست خوردہ وجود لیے بس کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔جب جھٹکے سے اُسکے سینے سے کوئی ٹکرایا اور جانی پہچانی خوشبو اُسکے نتھنوں سے ٹکرائی۔۔۔
اللہ جی کس پہاڑ سے ٹکڑا گئی میں اور میرا کیمرہ ۔۔۔۔انابیہ نے جھٹکے سے دور ہوتے اپنا سر سہلایا اور نیچے پڑے اپنے کیمرے کی طرف دیکھا۔۔۔
جبکہ مقابل وجود اپنی تیز دھڑکتی دھڑکنوں کے ساتھ بنا پلک جھپکائے اُسکے چہرے کو تک رہا تھا۔۔۔۔
یہ وہم تھا یہ خدا کا کرم کے وہ اُسکے سامنے تھی حسام کو اپنے ہاتھ پاؤں سن ہوتے محسوس ہوئے سیاہ پوشیدہ آنکھوں میں نمی چمکی۔۔۔۔
وہی نین نقش وہی خوشبو وہی آواز ۔۔۔۔وہ اُسکی بیہ تھی جسے ابھی کچھ دیر پہلے وہ اپنا وہم سمجھ رہا تھا وہ حقیقت بنتے اُسکے سامنے تھی۔۔۔
اپنا ہاتھ بڑھاتے اُس نے انابیہ کے گال کو چھوا ۔۔۔اور اُسکے پورے وجود میں زندگی سی بھر گئی۔۔۔
انابیہ جو اپنے کیمرے کو دیکھتے اُسے اٹھانے کے لیے ابھی جھکنے لگی تھی اپنے گال پر ایک کھردہ۔ لمس محسوس کرتے تھمی۔۔۔آنکھیں تحیر سے پھیلی ۔۔۔۔۔۔
اس نے اپنی سیاہ حیران کن آنکھوں سے حسام کی طرف دیکھا جو آنکھوں میں محبت کا جہاں لیے اُسکی طرف دیکھ رہا تھا جبکہ اُسکا ہاتھ بیا کے گال پر رکھا تھا۔۔۔۔۔
افف حسام کو لگا اسکو زندگی مل گئی ہے وہی سیاہ آنکھیں ۔۔۔۔۔وہ ایک جھٹکے سے اُسے اپنے سینے میں بھینچ گیا۔۔۔۔۔
شدت سے اُسے اپنے سینے میں بھینچے وہ اُسکے ہونے کا یقین کر رہا تھا اور بیا بلکل ساکت تھی اُسے سمجھ نہیں آیا کہ اُسکے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔۔۔
بیہ میری بیہ ۔۔۔تم زندہ ہو حسام کی بیہ زندہ ہے مجھے معاف کردو زندگی ۔۔اپنے حسام کو معاف کردو یہ اللہ میں کیسے تیرا شکر ادا کرو۔۔۔میری بیہ زندہ ہے۔۔۔اُسے سینے میں بھینچے وہ زیرِ لب بڑبڑایا اور بیہ اُسکے الفاظ سنتے حیرت میں ڈوبی۔۔۔۔۔
چھوڑو مجھے۔۔۔یکدم اُس نے مزاحمت شروع کی اطراف میں گزرتے لوگوں کی شوخ نظریں اپنے اوپر محسوس کرتے وہ سمجھ گئی کہ سب اُسکے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں ۔۔۔۔
نہیں چھوڑو گا تم زندہ ہو میں جانتا ہوں مجھ سے غلطی ۔۔۔نہیں نہیں گناہ ہوا تھا۔۔جانتا ہو میں کوئی بھی سزا دوگی منظور ہوگی لیکن دوری نہیں بیہ۔۔۔میں نہیں رہ سکتا تمھارے بنا مجھے میری زندگی ایک بوجھ لگتی ہے پلیز نہیں۔۔۔۔۔بیہ کے مزاحمت کرنے پر اُس نے اپنی گرفت میں مزید سختی کی تھی اور بیہ کا سانس لینا دشوار ہوا۔۔۔۔
میں نے کہا چھوڑو مجھے نہیں ہوں بیہ میں تمھاری ۔۔۔بیہ نے اپنا پورا زور لگا کر حسام کو خود سے دور کیا اور چیخی ۔۔۔
نہ جانے کیوں سامنے کھڑے انسان کے لمس اسکی خوشبو اور اُسکے الفاظوں پر اُسکا۔دل تیز دھڑک رہا تھا۔۔۔
تم میری ہو بیہ ہو میں یقین نہیں کرتا کیونکہ انہی ہاتھوں پر خون ۔۔۔نہیں تم بیہ ہو میری یہ چہرہ یہ آواز یہ بال یہ خوشبو یہ آنکھیں۔۔۔۔اُسکے ہر نقش کو بیقراری سے چھوتے وہ اُسکی سیاہ انکھوں کو دیکھتے تھما ۔۔۔
یہ سیاہ آنکھیں تو اس سیاہ انکھوں سے الگ تھی زمین آسمان کا فرق تھا ان آنکھوں میں ۔۔۔۔وہ سیاہ آنکھیں جن پر وہ مرتا تھا اُس میں اُسکے لیے محبت تھی ۔۔۔۔لیکن اس میں ۔۔ان سیاہ انکھوں میں اجنبیت تھی۔۔۔۔۔
تم بیہ ہو بولوں تمہارا نام انابیہ ہے ۔۔۔بولوں میں حسام تمہارا حسام بیہ پہچانو مجھے۔۔۔ان آنکھوں میں تو محبت تھی ۔۔۔مجھے اس طرح اجنبیت سے مت دیکھو۔۔۔۔حسام تڑپ کر اُسکے بازو جھنجھوڑتے ہوئے گویا ہوا۔۔۔
اُسکی سیاہ انکھوں میں آنسو بھر گئے تھے اُسکے چہرے پر اذیت رقم تھی وہ بیہ کو ایک پاگل لگ رہا تھا۔۔۔۔جس کا ذہنی توازن صحیح نہ ہو۔۔۔۔
پر وہ نہیں جانتی تھی اُسکی جدائی میں ہی تو وہ پاگل ہوا تھا۔۔
پلیز چھوڑو مجھے کوئی ہے مدد کرو میری پلیز۔۔۔بیہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔۔اُسکے دل کی دھڑکن حد سے تیز تھی اُسکا پورا جسم کانپ رہا تھا۔۔۔وہ انتہائی بےبسی سے چیخی ۔۔۔۔
حسام نہ بےبس نگاہوں سے اُسکی طرف دیکھا وہ اُسکی بیہ تھی جو اُس سے دور جانے کے لیے مچل رہی تھی جو اُسے پہنچان نہیں رہی تھی۔۔۔۔۔
بیہ کی چیخ پر وہاں سے گزرتا گا رڈ رکا تھا اور جلدی سے وہاں موجود پولیس کو بلا کر لیا ۔۔۔پولیس نے اتے حسام کو ایک جھٹکے سے بیہ سے دور کیا۔۔۔۔
بیہ پلیز مجھے پہچانو میں حسام ہو مجھے یہ سزا مت دو بیہ۔۔۔پولیس حسام کو بیہ سے دور کر رہی تھی اور وہ خود کو چھوروانے کی کوشش کرتا چیخ رہا تھا۔۔۔۔
حسام بیہ سے دور ہوتے تڑپ اٹھا سفید رنگت لال تھی وہ رو رہا تھا ۔۔۔وہ سیاہ انکھوں میں اذیت اور بےبسی لیے اُسکی طرف دیکھ رہا رہا۔۔۔
بیہ نے بہتی انکھوں سے اس شاندار مرد کو دیکھا جو اُس سے دور ہو رہا تھا۔۔۔اُسکی زبان سے نکلتے لفظ سنتے اُسکا دل نہ جانے کیوں پٹھنے والا تھا۔۔۔
حسام کی زبان پر صرف ایک لفظ تھا اور وہ تھا بیہ دیکھتے دیکھتے پولیس نے اُسے اپنی وین میں بیٹھایا تھا اور اُسے اُسکی بیہ سے دور لے گئے تھے۔۔۔۔
پولیس وین میں بیٹھا وہ اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں گرائے سسک پڑا۔۔۔۔ایک بار پھر وہ اُس سے دور ہوگئی تھی اور پانچ سال پہلے کی طرح اج بھی وہ بےبس تھا کچھ نہیں کر پایا تھا۔۔۔۔
بیہ نے دور جاتی وین کو دیکھا اور پھر اپنے چہرے سے آنسو صاف کرتے اپنے بھیگے ہاتھ کو دیکھا۔۔۔
یہ آنسو اُس شاندار مرد کے لیے اُسکی آنکھوں سے بہہ نکلے تھے یہ آنسو ڈر کے نہیں تھے یہ اُس انسان کے لیے تھے جس کی سیاہ انکھوں میں بنجر پن تھا۔۔۔وہ تو اُسے جانتی نہیں تھی پھر اُسکی تکلیف پر اُسے کیوں درد ہو رہا تھا اُسے روتا دیکھ اُسکا دل کیوں پٹھ رہا تھا۔۔۔اُسے سمجھ نہ آیا۔۔۔۔
کئی سوال اُسکے دماغ میں گردش کر رہے تھے۔۔۔سن ہوتے سر کے ساتھ اُس نے زمین پر سے اپنا کیمرہ اٹھایا ۔۔۔۔اس پاس دیکھا تو سب لوگ حیرت سے اُسکی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔یکدم اُسے شرمندگی کا احساس ہوا وہ فوراً سے تیز قدموں سے وہاں سے نکلی۔۔۔۔۔





کہاں تھی تم انابیہ۔۔۔لیزا نے انابیہ کے اتے ہی اُس سے پوچھا۔۔۔جس کا سفید چہرہ اس وقت لال ہو رہا تھا۔۔۔
میں وہ۔ ۔۔کچھ نہیں چلو گھر چلے ۔۔۔انابیہ کا سارا دہان تو حسام پر تھا اسی لیے گھبراہٹ میں جلدی سے کہتی گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔۔۔
لیزا نے اُسکے اس طرح کہنے پر کندھے اچکائے اور جاکر گاڑی میں بیٹھی۔۔۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی اُسکے ذہن میں چھن سے حسام کی سیاہ اذیت سے چور آنکھیں لہرائی ۔۔۔اور ایک تیز لہر درد کی اُسکے سر میں اٹھی ۔۔۔
سر کا درد اب شدت اختیار کر رہا تھا وہ اپنی آنکھیں بند کئے درد برداشت کرتی سیٹ کی پشت سے سر ٹکا گئی۔۔۔۔۔
پر آنکھیں بند کرتے ہی اُسے حسام نظر آرہا تھا اُسکے الفاظ اُسکے دماغ میں گونج رہے تھے۔۔۔۔۔
اُس نے اپنی آنکھیں کھولی سر گھومتا ہوا محسوس ہوا یکدم آنکھوں کے سامنے اندھیرا آیا اور وہ برابر میں بیٹھی لیزا کے کندھے پر اپنا سر ٹکا گئی ۔۔۔۔
بیہ۔۔۔لیزا نے بوکھلا کر انابیہ کی طرف دیکھا۔۔۔۔
ڈرائیور جلدی گاڑی چلاؤ ۔۔۔لیزا چیخی انابیہ کے گال کو تھپتھپاتے وہ اُسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔
انابیہ کی بند آنکھوں کو دیکھتے وہ ڈر گئی تھی نہ جانے اُسے کیا ہوا تھا جو وہ بیہوش ہوئی تھی۔۔۔۔