قسط: 5
کمرے میں اس وقت خاموشی تھی شجیہ نے ایک نظر سامنے بیٹھی بچی کو دیکھا جس کے ہاتھ کی ڈاکٹر پٹی کر رہی تھی اور پھر گردن موڑ کر خضر کو جو دیوار سے ٹھیک لگائے سنجیدہ چہرے سے اُسی بچی کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
یہ پٹی میں نے کردی ہے دیہان رکھے بچی کا۔۔۔ڈاکٹر شفقت بھری مسکراہٹ سے کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔
شجیہ نے اثبات میں سر ہلایا وہ گھر اتے ہی اس بچی کے لیے نئے کپڑے منگوا کر اُسے پہنا چکی تھی۔۔۔اُس کا بکھرا حال بھی بہتر کیا تھا۔۔۔
بہت شکریہ ڈاکٹر۔۔۔خضر ہے ڈاکٹر کا شکریہ کہا اور ملازم کو اشارہ کیا جو ڈاکٹر کو لیتے باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔۔
بیٹا آپکو ڈرنے کی ضرورت نہیں بلکل ریلیکس رہے آپ محفوظ ہے اور مجھے بتائے آپکا نام کیا ہے آپکے امی ابو کہاں ہے کیا ہوا تھا آپکے ساتھ۔۔۔خضر کے اشارہ کرنے پر شجیہ نے بچی کا ہاتھ پکڑ کر نرم آواز میں پوچھا۔۔۔۔
شجیہ کی بات پر سامنے بیٹھی بچی کی کالی آنکھوں میں پھر سے نمی چمکی۔۔۔
میں ،،،میرا نام خوشبو ہے،،،میرے امی ابو نہیں ہے،،،،میرے چاچا نے مجھ سے تنگ آکر،،،مجھے ایک دارلامان میں دال دیا تھا،،،امی ابو کی ایک حادثے میں موت ہوگئی تھی۔۔۔۔خُوشبو نم آواز میں کہتی رکی۔۔۔۔
شجیہ کی آنکھوں میں نمی چمکی سامنے بیٹھی بچی کے سر سے اُسکے ماں باپ کا سایہ ہمیشہ کے لیے اٹھا لیا گیا تھا اور کیسی دنیا تھی یہ کیسا دور آگیا تھا جو سگے رشتے بھی ہر حد سے گر جاتے ہیں۔
پھر! ،،،شجیہ نے خوشبو کے چہرے سے آنسو صاف کرتے پوچھا۔ خضر بھی سنجیدگی سے اُس بچی کی بات سن رہا تھا۔۔۔
وہ دارلامان والی باجی نے ایک دن سب بچیوں کو تیار کیا اور ایک بڑی سی کالی گاڑی میں ہم سب کو لے کر ایک بڑے سے بنگلے میں لے کر گئی ۔ خوشبو کے کہنے پر شجیہ نے خضر کی طرف دیکھا۔۔۔
وہاں ڈھیر ساری عورتیں تھی آپی سب نئے کپڑے پہنے ہوئی تھی۔۔۔وہاں تیز آواز میں گانے بھی بج رہے تھے ہم سب کو ایک لائن میں کھڑا کرتے اُنہوں نے ہم سب کی ویڈیو بنائی اور کہا کہ یہ سب اتوار کی رات کو باہر کے ملک میں ایک آدمی کے پاس جائے گی۔۔۔۔خوشبو شجیہ کے چہرے پر اپنی نظریں ٹکائے ایک ایک لفظ ادا کر رہی تھی۔۔۔۔
مجھے نہیں سمجھ ایا تھا وہ کیا کہہ رہی ہے لیکن وہاں جو آدمی تھے وہ بہت گندے تھے وہ ہم سب کو بہت گندے طرح سے ہاتھ لگا رہے تھے مجھے یہی رہنا تھا یہاں امی ابو ہے مجھے یہاں سے کہیں نہیں جانا تھا آپی میں بہت مشکلوں سے وہاں سے بھاگی اور پھر آپ مجھے مل گئی۔۔۔خوشبو کہتے رو پڑی شجیہ نے فوراً سے اُسے اپنے گلے لگایا۔۔۔
اُسکی نیلی حسین آنکھیں اس وقت ضبط سے لال ہو رہی تھی …
جبکہ خضر بھی اپنے ہاتھ کی مٹھیاں بھینچے اپنا ضبط سے تنا چہرہ جھکا گیا تھا۔۔۔۔
چپ ہو جاؤ بیٹا اج سے آپ یہاں رہو گی میرے ساتھ ٹھیک ہے ۔۔۔آپ نے پریشان نہیں ہونا آپکی حفاظت اب میری ذمےداری ہے ٹھیک ہے۔۔۔شجیہ نے اُسے یقین دلایا۔۔۔
خوشبو نے اثبات میں سر ہلایا خضر ایک نظر اس بچی کو دیکھتے اُس کے پاس اتے اُسکے سر پر ہاتھ رکھتے باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔۔
میں آپکے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں پریشان نہیں ہونا آپ نے۔۔۔شجیہ نے خضر کو جاتے دیکھ خوشبو سے کہا اور کمرے سے نکلتی چلی گئی۔۔۔۔
پیچھے خوشبو نے ایک نظر اس عالیشان کمرے کو دیکھا ۔۔۔اس کمرے کے جتنا تو انکا گھر تھا جس میں وہ اپنے امی ابو کے ساتھ خوشی خوشی رہتی تھی لیکن وہ بھی اُسکے چچا نے اُس سے چھین لیا تھا۔۔۔
اپنے امی ابو کی یاد پھر سے ستائی تو آنکھوں میں نمی اُبھری۔۔۔
اُسے اُسکی عمر کے حساب سے صرف اتنا ہی اندازہ ہوسکا تھا کہ اُسے غلط طریقہ سے ہاتھ لگایا جا رہا ہے جو گندہ ہے اور اُسے اُس ملک اس جگہ سے دور لے جائے گے وہ انتہا کی ڈر گئی تھی جانے کیسے وہ اُس زنداں سے باہر نکلی تھی اور شجیہ کے ہاتھ لگ گئی ۔۔۔۔۔
یہ اللہ اُسے ایک دوزخ بھری زندگی سے بچانا چاہتا تھا۔۔۔




خضر ۔۔۔شجیہ نے کمرے میں اتے خضر سے کہا جو لیپ ٹاپ پر مصروف تھا۔۔۔
جو یہ بچی بتا رہی ہے میں اسی کیس پر کام کر رہا تھا لیکن کوئی کلو نہیں مل رہا تھا۔۔۔خضر نے اپنا ہاتھ شجیہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔
شجیہ خضر کا ہاتھ تھامے اُس تک ائی جب خضر نے اُسے اپنے برابر میں بیٹھایا۔۔۔۔
مطلب پھر ہمارے ملک کی بچیاں خطرے میں ہے۔۔۔شجیہ نے خضر کی بھوری آنکھوں میں دیکھتے پوچھا۔۔۔
خضر نے اپنے ہاتھ کی مٹھی اپنے لبوں پر جمائے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔
لیکن پہلے تو لیپرڈ تھا نہ اب تو وہ نہیں ہے پھر کیسے ۔۔۔۔شجیہ نے الجھ کر پوچھا۔۔۔
انڈر ورلڈ میں صرف وہی نہیں ہے اور بھی لوگ ہے۔۔۔جو اب دوبارہ اپنا کالا دھندا شروع کرنے لگے ہے۔۔۔خضر نے سنجیدگی سے شجیہ کی الجھن دور کی ۔۔۔۔۔
میں بھی اس کیس میں کام کرونگی خضر۔۔۔شجیہ کی بات پر وہ جو دوبارہ لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہوا تھا چونکا اور سنجیدگی بھری نظروں سے شجیہ کی طرف دیکھا۔۔۔
آپ ایسا کوئی کیس نہیں ہینڈل کرے گی شجیہ ۔۔۔خضر نے سخت لہجے میں شجیہ کا حسین چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
پر کیوں خضر یہ میرا فرض ہے ۔۔۔۔شجیہ نے منمناتی آواز میں کہا۔۔
آپکا ایک اور فرض بھی ہے آپ میری بیوی ہے میرے بچے کی ماں ۔۔۔ہم آپکے بنا ادھورے ہے آکوئی اور نارمل کیس ہوتا تو میں آپکو نہیں روکتا ،اور نہ کبھی میں نے آپکو روکا ہے لیکن یہ کیس بہت پیچیدہ ہے اس سے بہت سی جانو کو خطرہ ہوسکتا ہے اور میں آپکو خطرے میں نہیں ڈال سکتا شجیہ ۔۔۔خضر نے شجیہ کے کہنے پر اُسکے گال پر نرمی سے اپنا ہاتھ رکھتے اپنے انگھوٹے سے اُسکا گال سہلاتے سنجیدگی سے کہا
لیکن۔۔۔شجیہ نے کچھ کہنا چاہا ۔۔۔
لیکن ویکن کچھ نہیں میں آپکے شوہر کی حثیت سے آپکو اجازت نہیں دیتا اس کام کی اور اُمید کرتا ہوں آپ میری بات کی نافرمانی نہیں کرے گی۔۔۔خضر نے اُسکے ہلتے لبوں پر انگلی رکھتے اُسے چپ کروایا۔۔۔۔
اور شجیہ اُسکی بات پر صرف اثبات میں سر ہلا گئی کیونکہ بات کو وہ ختم کرچکا تھا اب کچھ بھی بولنا فضول تھا۔۔۔
شجیہ نے ایک نظر خضر کو دیکھا جو اُسکی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔اور پھر مسکرا دی۔۔۔خضر نے پل میں جھکتے اُسکے لبوں سے وہ مسکراہٹ اپنے لبوں میں ضبط کی۔۔۔۔
نرمی سے شجیہ کے لبوں کو چومتے وہ پیچھے ہوا۔۔۔
نظر اُسکے لال گلابی چہرے پر گئی ۔۔۔۔
میں جا رہی ہوں کھانا دینا ہے نہ خوشبو کو ۔۔بوکھلاہٹ میں کہتی وہ اپنا سرخ چہرہ لیے کمرے سے نکلتی چلی گئی۔۔۔۔
پیچھے خضر مسکرا کر لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔جبکہ خوشبو کی باتیں سوچتے اُسکی مسکراہٹ سمٹی ۔۔۔۔۔



آسٹریلیا کا موسم اج ابر آلود تھا ایک دن کی چھٹی کے بعد وہ اج فریش سی لیزا کے ساتھ یونی ائی تھی۔۔۔
کالے رنگ کی فروک میں دوپٹے کو گردن سے لگائے کالے بال پشت پر کھلے چہرے میکپ سے پاک چہرہ لیے وہ سینے سے کتاب لگائے ہونٹوں پر نرم مسکراہٹ لیے لیزا کے ساتھ یونی میں داخل۔ہوئی ۔۔
قدرے سانولی رنگت کالے لباس میں نکھر رہی تھی تیکھے نین نقش وہ کالی غزالی آنکھیں تیکھی سی ناک اور گلابی لب وہ پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔
آج موسم کتنا اچھا ہے نہ۔۔۔بیہ نے مسکراتے ہوئے لیزا کی طرف دیکھا۔ ۔
اس موسم کو چھوڑو مجھے سی ار نے بتایا ہے کوئی نیو پروفیسر آرہے ہیں ہمارے۔۔لیزا کی بات پر انابیہ چونکی ۔۔۔
لیکن کیوں ۔۔۔بیہ نے پوچھا۔۔
یہ تو مجھے نہیں پتہ شاید انگلش ہسٹری کے سر کو کچھ پرسنل بیس پر چھوڑنا پر گیا تھا اسی لیے اب نیو آئے ہیں اور لاسٹ لیکچر ہی نیو پروفیسر کا ہے چلو اب چلے کلاس میں ۔۔۔لیزا نے اُسے بتایا جس پر وہ اثبات میں سر ہلاتی کلاس روم کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔۔
ان دو دونوں میں وہ کافی حد تک اپنے ذہن کو فریش کر چکی تھی ایسا نہیں تھا کا حسام مکمل طور پر اُسکے ذہن سے نکل گیا تھا اُس کے ذہن میں اب بھی پوری شان سے وہ براجمان تھا
لیکن وہ بس اب حسام یہ اُس واقعہ کو سوچنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔




وہ کوریڈور میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا جبکہ اطراف میں نہایت چھوٹی ڈریس جو گھٹنوں سے بھی اوپر تھی پہنی اسٹائلش سی لڑکی اُسکے کندھے سے چپکی ہوئی تھی۔۔۔۔۔
آمنہ جو سدرہ کے ساتھ یونی ائی تھی کوریڈور میں پھر اس عجیب پلس ہینڈسم لڑکے کو دیکھتے اپنی آنکھیں مینچ گئی۔۔۔۔۔
کچھ پل بعد اس نے اپنی آنکھیں کھولی تو ان میں ذرقان کے لیے واضح ناگواری تھی۔۔۔
جبکہ ایک نظر زرقان اور اُسکے ساتھ بیٹھی لڑکی کو دیکھتے اُسکی رنگت سرخ ہوئی تھی کیونکہ زرقاں کے ساتھ موجود لڑکی اب ذرقاں کے ہونٹوں پر جھکنے لگی تھی۔۔۔۔
اپنی آنکھیں جھکاتے وہ سدرہ کا ہاتھ پکڑے زرقان کو نذرانداز کرتے تیزی سے وہاں سے آگے بڑھی ۔۔۔
زرقان جو اپنی گرل فرینڈ کے انتہائی قریب تھا اُسکی نظر خود سے کچھ فاصلے پر تیزی سے اتی آمنہ پر پڑی تو ٹھہر گئی۔۔۔
اج وہ کل کی مناسبت زیادہ پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔۔
وہ ایک جھٹکے سے اپنی گرل فرینڈ سے دور ہوا اور آمنہ کی طرف بڑھا۔۔۔
پیچھے اُسکے دوست معنی خیز انداز سے اُسکی اس حرکت پر مسکرا دئیے ۔۔۔۔
صوفیہ نے چھبتی نِگاہوں سے خود سے دور ہوتے زرقان کو دیکھا۔۔۔۔
وہ جو نیچی نِگاہوں اور تیز قدموں سے چلتی زرقاں کی نظروں سے بچ کر نکلنا چاہتی تھی یکدم اپنے قریب سفید جوگرز میں مقید پیروں کو دیکھتے تھمی۔۔۔
اُس کے رُکنے پر سدرہ بھی رکی اور اب تنی آبرو سے سامنے کھڑے اس اول جلول حلیے والے انسان کو دیکھنے لگی۔۔۔
ہیلو ڈارلنگ۔۔۔زرقا ن نے آمنہ کے جھکے سر کو دیکھتے اپنی ازلی آواز میں کہا۔۔۔
آمنہ کا رنگ ڈارلنگ لفظ پر سرخ ہوا اور اُسے غصّہ بھی آیا لیکن اپنی نگاہیں جھکائے ہی رکھی۔۔۔۔۔
جبکہ زرقا ن جو اُسکی ہیزل بلو آنکھیں دیکھنا چاہتا تھا اُسکے سر جھکائے رہنے پر جھنیجھلایا۔۔۔۔
کون ہو تم اور یہ کس طرح بات کر رہے ہو ۔۔۔سدرہ سامنے کھڑے زرقا ن کے لہجے کو محسوس کر چکی تھی جس سے صاف واضح تھا کہ زرقا ن کو اردو بھی آئی ہے کیونکہ اس کا لہجہ خالص انگریزی اسینٹ نہیں تھا اسی لیے اردو میں تیز آواز میں اُس سے پوچھا۔۔۔
اُسے لگا شاید وہ ان دونوں کی ریگنگ کرنے آیا ہے۔۔۔
میں آپ سے نہیں مخاطب اینگری ینگ ویمن ۔۔۔۔زرقان نے سدرہ کے تنے ہوئے چہرے کی طرف دیکھتے دانت پیستے ہوئے کہا اور واپس اپنی نظروں کا ارتکاز کیا۔۔۔۔
آمنہ نے سدرہ کی آواز پر اپنی جھکی نظریں اٹھائی ۔۔جبکہ اپنا چہرے پر پڑتی تپش بھری نظروں کو محسوس کرتے وہ اچھی خاصی نروس ہوئی۔۔۔
بیس سال کی عمر تک کبھی صنف مخالف کے روبرو وہ نہیں ائی تھی نہ کبھی کسی کی نظریں اس طرح خود کے چہرے پر پڑتی محسوس کی تھی دل کی دھڑکن حد سے زیادہ تیز تھی اس وقت۔۔۔۔
مجھے تمہیں سوری بولنا تھا کیوٹی مجھے نہیں پتہ تھا تم بول نہیں سکتی اور وہ بال بھی میں نے جان بوجھ کر تمہیں ھٹ کی تھی۔۔۔زرقا ن نے آمنہ کے چہرے پر نظر ٹکائے ہی کہا جانے کیا تھا آمنہ کے چہرے پر جو وہ لاکھ چاہنے کے بعد بھی اپنی نظریں اُسکے حسین چہرے سے ہٹا نہیں پا رہا تھا۔۔۔
زرقا ن کے اس طرح معافی مانگنے پر آمنہ نے اس سارے وقت میں پہلی مرتبہ زرقا ن کی آنکھوں میں دیکھا تھا اور یہ لمحہ جیسے رک گیا تھا ۔۔۔
ہیزل بلو آنکھیں شہد رنگ آنکھوں میں جیسے جم گئی تھی۔۔۔۔دونوں بنا پلک جھپکائے ایک دوسرے کی آنکھوں میں محویت سے دیکھے جا رہے تھے۔۔۔۔
ہیزل بلو آنکھوں میں جہاں معصومیت ڈیرے جمائے ہوئی تھی وہی دوسری طرف شہد رنگ آنکھوں میں شوخی تھی ایک۔چمک تھی۔۔
اوہ تو تم تھے وہ گھٹیا انسان جس نے میری دوست کو پریشان کیا میں تو کل سے بھری بیٹھی تھی اور اچھا ہی ہوا جو تم مجھے مل گئ۔۔۔۔ےےےےے۔۔۔سدرہ ابھی غصّہ سے لال پیلی ہوتی ہوئی امنہ کے سامنے اتے زرقّان کی نظروں سے امنہ کو بچاتے ہوئے کہہ ہی رہی تھی جبکہ ذرقّان جو آمنہ کی آنکھوں میں ڈوبا ہوا تھا خلل پڑنے پر سدرہ کے گال پر ہاتھ رکھے اُسے بیچ میں سے ہٹا گیا۔۔۔
آمنہ نے حیرت سے منہ کھولے پہلے زرقا ن اور پھر سدرہ کی طرف دیکھتے گئی جو زرقا ن کی اس حرکت پر دائیں طرف سے اتے نوجوان کے سینے کا حصہ بنی تھی۔۔۔۔
آمنہ حیرت سے گنگ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ گئی۔۔۔جبکہ اسکے بریسلیٹ سے اتی وہ آواز پھر زرقا ن کے کانوں میں گونجی۔۔۔۔
وہ اج یونی میں فوٹ بال کوچ کی جوب پر آیا تھا اتے ساتھ ایک نرم و نازک وجود کو اپنے اتنے پاس محسوس کرتے تھما ۔۔۔۔
اس وجود سے اٹھتی خوشبو انتہائی مسحور کن تھی کہ وہ بے قابو ہوتا ایک گہرا سانس بھرتا رہ گیا۔۔۔
تیس سال کی عمر میں اج تک اُس کے ساتھ ایسا نہیں ہوا تھا کہ کسی نرم و نازک وجود کو اپنے اور انتہائی نزدیکی پر اُسکے دل کی دنیا اس طرح ترہم برہم ہوئی ہو۔۔۔۔
جانے کیسی بیخودی تھی کہ وہ اپنے سینے سے لگی اس لڑکے کے۔پیٹ کے گرد اپنے ہاتھوں کا حصار باندھ گیا۔۔۔۔
سدرہ جو زرقا ن کی حرکت کی وجہ سے اپنا توازن برقرار نہ رکھتی ہوئی دائیں طرف گرنے لگی تھی جب اُسکی پشت ایک مضبوط مردانا سینے سے ٹکرائی ۔۔۔۔
پل میں وہ ستل ہوئی اُسے مخالف کی گرم سانسیں اپنی گردن پر پڑتی محسوس ہوئی ایسا لگا جیسے مخالف نے ایک گہرا سانس بھرا ہو اُسکی سانسیں تیز ہوئی گھبراہٹ سے ماتھے پر پسینہ چمکہ جب مخالف کی اگلی حرکت پر اُسکی آنکھیں حد درجہ پھیلی ۔۔۔
اپنا سر جھکا کر اپنے پیٹ پر دیکھا جہاں دو مضبوط مردانا سفید بازوں کو باندھا گیا تھا۔۔۔سدرہ کو لگا اُسکا دل اُچھل کر اُسکے حلق تک میں آگیا ہو۔۔۔۔
چھوڑو مجھے انگریز کہی کے شرم بیچ کھائی ہے۔۔۔دانت پیستے اردو میں بولتے سدرہ نے مزاحمت کرتے خود کے گرد بندھا حصار توڑنا چاہا۔۔۔
اسکے الفاظوں پر مخالف کے لبوں پر تبسم بکھرا ۔۔۔۔
آواز سے تو پیاری تھی خوشبو بھی پیاری تھی پتہ نہیں چہرہ کیسا ہوگا۔۔۔مخالف نے دل میں سوچتے اُسے اپنے حصار سے آزاد کیا۔۔۔
سدرہ پل میں غصے سے پیچھے مڑی ۔۔۔کالے بال اُسکے چہرے پر بکھرے۔۔۔
سامنے کھڑے نوجوان کے لبوں پر مسکراہٹ دیکھتے تو اُسکا بچا کچا خون بھی جل کر راکھ ہوا ۔۔۔۔
براؤن انکھوں والا کالے بال جسے جیل کی مدد سے سیٹ کیا گیا تھا۔۔کھڑی مغرور ناک اور گلابی لب جو مسکراہٹ میں ڈھلے تھے اور دودھ جیسی رنگت مضبوط توانا سینا سدرہ کو وہ انگریز ہی لگا۔۔۔۔
جبکہ مخالف تو اس خوبصورت لڑکی کو دیکھتے تھم ہی گیا تھا اُسکے نین نقش اُسکے بال اُسکی خوشبو اُسکی آواز واللہ سب دل کو چھو لینے والے تھے ۔۔۔۔گول گول براؤن ہی آنکھیں جن میں غصّہ تھا چھوٹی سی ناک جو غصّہ کے سبب لال تھی درمیانے لب اور نچلے لب کے نیچے موجود وہ تل ،،،،اب وہ فدا نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔۔۔۔
پتہ نہیں کیا سمجھتے ہیں سب کو اپنی ان گوریوں کی طرح سمجھا ہوا ہے جن کو ہاتھ بھی لگا لو تو اُنھیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا گھدا کہیں گا انگریز لفنگر ۔۔۔۔سامنے کھڑے نوجوان کو دیکھتے دھیمی آواز میں وہ اپنے جلے دل کا سارا غبار نکال رہی تھی یہ سمجھ کر کے سامنے کھڑا انسان اردو سے نہ واقف ہے۔۔۔
نہیں میں نے آپکو گوریوں کی طرح نہیں سمجھا آپ تو دیسی ہے آپ سے اٹھتی مہک بھی دیسی ہے خیز آئندہ خیال رکھیے گا یوں کسی سے ٹکڑا نہ جائیے گا میری سوا کیونکہ یہ اب مجھے گوارا نہیں ہے کہ آپ میرے علاوہ کسی کے اتنے قریب جائے اور کوئی آپکی یہ صندلی سی خوشبو محسوس کر پائے۔۔۔سدرہ کے پاس جھکتے گھمبیر مردانا خوبصورت آواز میں گویا ہوا۔۔۔سدرہ اُسکے قریب انے پر دو قدم پیچھے ہوئی جب وہ اُسکے اور قریب آیا۔۔۔
مخالف اردو بول سکتا تھا سدرہ کا رنگ خفت سے سرخ ہواا
جبکہ مخالف کے الفاظوں پر اُسکا دل تیز دھڑکنے لگا جیسے سینے سے ابھی باہر نکل ائے گا۔۔۔اُسکی دل کی تیز دھڑکن مخالف بخوہی سن سکتا تھا اُسکے لبوں پر مسکان اور گہری ہوئی ایک گہری نظر سدرہ پر ڈالتے وہ آگے بڑھا۔۔۔۔
سب کے سب عجیب ہے اس یونی میں۔۔۔سدرہ نے گہرا سانس بھرتے اپنے آپکو نورمل کرنا چاہا لیکن ایسا کہاں ممکن تھا گھمبیر آواز میں بولے گئے جملہ اب بھی اُسکے کانوں میں گونج رہے تھے ۔۔۔۔
اسکو چھوڑو اُدھر دیکھو اب سے یونی میں تمہیں کوئی بھی کسی بھی قسم کی مدد چائیے ہو تم مجھ سے کہنا ٹھیک ہے ۔۔۔زرقا ن نے آمنہ کے فق چہرے کے آگے چٹکی بجائے اُسکا دھیان اپنی جانب مذبول کرواتے ہوئے کہا۔۔۔
لیکن کیوں۔۔۔آمنہ نے آنکھوں کو اٹھا کر دھڑکتے دل سے پوچھا آخر وہ کیوں اتنا مہربان ہو رہا تھا اُس پر ۔۔۔
کیونکہ یہاں صرف میں ہی تمہاری مدد کر سکتا ہوں میرے علاوہ اور کوئی تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ۔۔۔زرقا ن نے اپنے کولر کو صحیح کرتے امنہ کی طرف دیکھتے کہا ۔۔۔
چلو یہاں سے اور تم اب میری دوست کے اس پاس بھی نظر مت انا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا سمجھے ۔۔۔۔سدرہ تیزی سے امنہ کی طرف ائی اور اُسکا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں لیتی غصے سے زرقا ن کو دیکھتے کہا اور آگے بڑھی۔۔۔۔
زرقان نے دور جاتی امنہ کی پشت کو تکا جب
آمنہ نے گردن پیچھے موڑ کر زرقا ن کو دیکھا جو اُسی کی طرف دیکھ رہا تھا امنہ کے دیکھنے پر مسکرا گیا۔۔۔
آمنہ نے جلدی سے اپنا رخ سیدھا کیا اور اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے اپنے آپ کو کوسا۔۔۔۔




کیا دل آگیا ہے تمہارا اُس پر۔۔۔۔زرقا ن ابھی اپنے دوستوں کے پاس واپس ایا تھا جب اُسکی گرل فرینڈ نے انگلش میں اُس سے پوچھا۔۔۔
زرقا ن کے ماتھے پر بلوں کا جال بچھا ۔۔۔
نہیں وہ میری ٹائپ کی نہیں۔۔۔زرقا ن نے اپنی گرل فرینڈ کی قمر میں ہاتھ ڈالتے اُسے اپنے نزدیک کیا۔۔۔
مسکرا تو تم ایسے رہے تھے اسکو دیکھ کر اور تمھاری یہ نظریں بھی اُس پر جم گئی تھی۔۔۔صوفیہ نے زرقا ن کے گال پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
وہ میری عادت ہے بیچاری بول نہیں سکتی اور تمہیں تو پتہ ہے میرا دل کتنا نرم ہے بس اسی لیے ترس اگیا مجھے اُس پر اور ویسے بھی وہ خوبصورت ہے اور زرقا ن کی خوبصورت چیزوں سے نظر نہیں ہٹتی ۔۔۔زرقان کہتا اُسکے لبوں پر جھک ایا ۔۔۔۔۔۔
اسکے بقول وہ امنہ سے ترس کھا کر بات کر رہا تھا زرقا ن کو خود نہیں پتہ تھا وہ کیوں امنہ سے وہ سب کہہ ایا ہے ۔۔۔کیوں اُس نے امنہ سے معافی مانگی اور شاید اس انجان پن کی وجہ سے وہ اس فیلنگ کو ترس کا نام دے گیا تھا۔۔۔۔





لاسٹ لیکچر کا وقت ہوگیا تھا پانی کی بوتل کو منہ سے لگائے وہ پانی پینے میں مصروف تھی جب دروازے پر کھڑے شخص کو دیکھتے اُسے پانی اپنے گلہ میں اٹکتا محسوس ہوا۔۔۔۔کالی آنکھیں حیرت سے پھیلی۔۔۔
پوری کلاس میں ایک تیز مردانا پرفیوم کی خوشبو پھیل گئی تھی پوری کلاس دروازے کی طرف متوجہ تھی۔۔۔۔لیکن انابیہ اُسے لگ رہا تھا اُس کا وہم ہے جس انسان کو وہ دو دن سے لگاتار سوچ رہی ہے وہ اُسکے سامنے کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔
لیکن یہ سچ تھا ۔۔۔سفید شرٹ جس کی آستینوں کو کہنیوں تک موڑا ہوا تھا کالی سنجیدہ آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے بلیک پینٹ میں ایک ہاتھ میں ٹیپ تھامے دوسرے ہاتھ کو پینٹ کی جیب میں پھنسانے اور ہاتھ میں پہنی گھڑی وہ سنجیدہ نظروں سے پوری کلاس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
سفید خوبرو چہرے پر ایسی سنجیدگی اور دبدبہ نظر آرہا تھا کہ کلاس میں موجود ہر طلباء چپ چاپ اُسکی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔
انابیہ نے اپنی آنکھیں جھپکتے یقین کرنا چاہا کہ آیا سامنے وہی شخص ہے یہ نہیں۔۔
یقین ہونے پر انابیہ کی دل کی دھڑکن تیز ہوئی حسام کی سحر انگیز شخصیت اُسے اپنے دل و دماغ پر حاوی ہوتی محسوس ہوئی۔۔۔۔
وہ جو ارجنٹ بیس پر اپنی سورس لگا کر اس یونی میں انگلش ہسٹری کا پروفیسر صرف و صرف اپنی متائے حیات کے لیے بن کر آیا تھا پوری کلاس میں نظر دوڑاتے اُسکی نظر دوسری بینچ پر بیٹھی انابیہ پر پڑی دل و دماغ میں سکون بھرتا چلا گیا محبوب کا دیدار بےچین دل و دماغ میں چین بھر دیتا ہے۔۔۔۔کالے لباس میں وہ دمکتی ہوئی سیدھا اُسکی آنکھوں کے ذریعہ دل میں اُتری تھی۔۔۔۔
انابیہ جو یک تک حسام کو دیکھ رہی تھی اچانک حسام کے خود کی طرف دیکھنے پر ہڑبڑائی ہاتھ میں تھمی بوتل جھٹکے سے نیچے گری اور وہ شرمندگی سے اپنی آنکھیں بند کر گئی کیونکہ پوری کلاس اُسکی طرف متوجہ ہوگئی تھی۔۔۔
حسام اپنا نچلا لب دانتوں تلے دبائے اپنی بیوی کی اس ادا پر مسکراہٹ ضبط کرتا رہ گیا۔۔۔۔۔
سو کلاس ائی ایم یور نیو پروفیسر آف انگلش ہسٹری(کلاس میں آپکا انگلش ہسٹری کا نیوپروفیسر ہوں)۔۔۔حسام بھاری قدم اٹھاتا کلاس میں داخل ہوتے ڈائز کے پاس آتے گویا ہوا ۔۔۔
اسکی مردانا مضبوط آواز پوری کلاس میں گونجی ۔۔۔۔
انابیہ نے بھی اپنی آنکھیں کھولیں اور بوتل اٹھانے کے لیے نیچے جھکی۔۔اور حسام کے کہے گئے لفظوں پر اُسے حیرت ہوئی یہ نیو پروفیسر تھے ۔۔۔۔
انابیہ کو نیچے جھکتے دیکھ حسام کے ماتھے پر بل پڑے ۔۔۔دوپٹہ گردن سے چپکا ہونے کے پاس فائٹنگ فروک میں اُسکے نشیب و فراز صاف ظاہر تھے اور جھکنے پر اُسکا وجود اور بجلیاں گرا رہا تھا۔۔۔
ایک نظر انابیہ کو دیکھتے اُس نے پوری کلاس میں نظر دوڑائیں جہاں لڑکیوں سے زیادہ لڑکے موجود تھے ۔۔۔۔
اسکے ماتھے کی رگ ظاہر ہوئی۔۔پورے وجود میں غصّہ بھرا ۔۔اُسکا بس نہ چلا ابھی انابیہ کو یہاں سے کہیں اور لے جائے ۔۔
خود پر ضبط کے پہرے بٹھاتے اُس نے اپنی نظریں انابیہ کے وجود سے ہٹائیں ۔۔۔
لیٹ می انٹریڈیوز مائے سیلف ۔۔۔حسام نے اپنی تنی آبرو سمیت کہا۔۔۔
اور انابیہ نہ جانے کیوں اپنی ساری توجہ اُس پر مرکوز کر گئی۔۔۔
میں اپنے بارے میں زیادہ کچھ تو نہیں بتاؤنگا سوائے میرے نام کے ۔۔۔اور میرا نام ہے حسام وارث ۔۔۔حسام کی سنجیدگی بھری آواز پھر گونجی
حسام۔۔۔انابیہ نے زیرِ لب اُسکا نام دوہرایا ایسا لگا جیسے یہ نام وہ سالوں سے جانتی ہے اور اُسکا دل یہ نام لیتے ہوئے تیز دھڑکا انابیہ کو سمجھ نہ آیا اُسکا دل کیوں اس طرح تیز دھڑک رہا ہے جبکہ اُسکی آنکھیں جیسے ضد کر بیٹھی ہے کہ صرف سامنے کھڑے اس خوبرو نوجوان کو ہی دیکھتی جاؤ ۔۔۔۔وہ بنا پلکیں جھپکائے حسام کو دیکھ رہی تھی صرف وہی نہیں کلاس کی ہر لڑکی کی نظر اس حسین نوجوان پر جم گئی تھی۔۔۔
جسے صرف و صرف اپنی بیوی کی نظریں ہی خود پر بھلی لگ رہی تھی باقی لڑکیوں کی نظر خود پر پڑتی اُسے سخت زہر لگ رہی تھی۔۔۔۔
انابیہ نے حسام کی کالی آنکھوں میں اپنے لیے شناسائی کی کوئی رمک دیکھنی چاہی لیکن نہ کام رہی ۔۔۔۔
ناؤ کم ٹو دی پوائنٹ سو سٹارٹ فور دی لیکچر ۔۔۔حسام نے کہتے ساتھ اپنا رخ پلٹا تھا لیکن انابیہ کا دلکش وجود دیکھتے اُسے لگ رہا تھا وہ اپنا آپا کھو بیٹھے گا کیونکہ یہ دلکش وجود جو وہ لیے بھری کلاس میں بیٹھی تھی یہ دلکشی دیکھنے کا حق صرف و صرف اُسکا تھا ۔۔۔۔
وہ لیکچر سمجھاتے سمجھاتے انابیہ کی ڈیسک کی طرف بڑھا اور انابیہ کی دھڑکن اپنی طرف بڑھتے اُسکے قدموں کے ساتھ ساتھ تیز ہوئی۔۔۔
ایک تو وہ اپنی نظروں اور دل سے بری طرح خائف ہو رہی تھی جو اُسکے قابو میں نہیں تھے ۔۔۔
نہایت قریب سے حسام کے وجود سے اٹھتی جان لیوا خوشبو محسوس کرتے اسے اپنے حواس کھوتے ہوئے محسوس ہوئے۔۔۔وہ اپنی سانس تک روک گئی اتنے قریب سے اتی حسام کی سنجیدگی بھری اوازسنتے ۔۔۔۔
حسام جو اب مزید برداشت نہ کرتے انابیہ کی طرف بڑھا تھا اُسکے نہایت نزدیک اتے بہت محتاط انداز میں اپنے ہاتھ میں تھامے پین سے اُسکے کندھے سے پیچھے جاتے دوپٹے کو بغیر کسی کی بھی نظروں میں لئے بغیر آگے کو کھنچا جو ایک جھٹکے میں انابیہ کے سینے تک پھیل چکا تھا۔۔۔۔
انابیہ جو حسام کی نزدیکی پر اپنی سانس تک روک گئی تھی حیرت سے اپنے سینے پر پھیلے دوپٹے کو دیکھے گئی۔۔۔
وہ سمجھی شاید دوپٹہ ریشمی ہے اسی لیے پھسل کر اُسکے گلے سے سینے تک آگیا ہے۔۔۔۔
حسام اپنی کارروائی کے بعد وہاں رکا نہیں تھا واپسی قدموں سے پلٹتے وہ واپس ڈائز کی طرف ایا۔۔۔
آج کے لیے اتنا ہی باقی کل ملاقات ہوتی ہے ۔۔سنجیدہ آواز میں ایک گہری نظر انابیہ پر ڈالی جو اُسکی طرف ہی دیکھ رہی تھی حسام کے دوبارہ اپنی طرف دیکھنے پر وہ اپنی آنکھیں پھیر گئی۔۔۔
اور حسام کلاس سے نکلتا چلا گیا۔۔۔