مثالِ عشق سیزن ٹو

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 7 (2)

ہیلو ۔۔۔۔سدرہ ابھی اپنے فون پر اپنے بھائی سے بات کرتے پیچھے مری تھی جب سامنے کھڑے جون کو دیکھتے وہ رکی۔۔۔۔۔
جون کو نظرانداز کرتے اُس نے آگے بڑھنا چاہا جب جون نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنی طرف کھینچا ۔۔۔سدرہ اُسکے سینے سے ٹکرائی۔۔۔۔
میں نے ہیلو کہا ہے ۔۔۔جوں نے اُسکے خوبصورت چہرے کو دیکھتے گھمبیر آواز میں کہا ۔۔۔۔
اور میں نے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔۔۔۔سدرہ نے اپنی کمر پر جمے اُسکے ہاتھوں کو ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کیوں۔۔۔جون نے اپنی گرفت اور مضبوط کی۔۔۔۔
اپنا ہاتھ ہتاؤ مجھے جانا ہے یہاں سے۔۔۔سدرہ نہ غصّہ سے لال ہوتی آنکھوں سے جون کی بھوری انکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔۔
تمیز سے بات کرو لڑکی کیا تمیز بھول۔گئی ہو۔۔۔۔جون نے اپنا ایک ہاتھ اُسکی پچھلی گردن پر رکھتے اُسکا چہرہ اپنے نزدیک کیا۔۔۔
نہیں ہے تمیز مجھ میں چھوڑو مجھے کس حق سے چھو رہے ہو مجھے تم ۔۔۔سدرہ جھٹپٹائی۔۔۔۔
حق کی بات مت کرو جانتی ہو اچھی طرح کیا حق ہے تم پر اور کتنا حق ہے ۔۔۔۔ویسے کل کیسے تم مجھ سے انجان بن گئی تھی۔ جانے کیا کیا بول گئی تھی مجھے سب کے سامنے ۔۔۔۔۔۔۔جون نے اُسکی گردن پر اپنی ناک ٹریس کرتے کہا۔۔۔۔
سدرہ نے اپنی بکھری سانس سنبھالی ۔۔۔۔
جنید ہت جاؤ پیچھے چھوڑ دو مجھے۔۔ اور انجان بنے ہی رہنا ہی اچھا ہے میں تمہیں نہیں جانتی کل جو بولا وہ کم تھا ۔۔۔۔۔اپنی گردن پر جون کی گرم و نرم لمس محسوس کرتے بھرائی آواز میں کہا۔۔۔۔
ان لبوں سے یہ نام سننے کے لئے کتنا ترسا ہوں میں ۔۔۔۔جون نے اُس کے لبوں پر انگلی رکھتے خمار سے بڑھی آواز میں اُسکے ہونٹوں کو دیکھتے کہا۔۔۔۔
ہت جاؤ پلیز چھوڑ دو مجھے ۔۔۔۔مجھے نہیں عادت تمہاری اس نزدیکی تھی جس طرح سالوں پہلے مجھے چھوڑ گئے تھے اُسی طرح اج بھی چھوڑ دو۔۔۔جس طرح انجان تھے ہم اسی طرح انجان ہی رہو ۔۔۔۔سدرہ نے اُسکی خمار بھری انکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔۔
اب اور انجان بن کر نہیں رہ سکتا ۔۔۔۔نہ تمہیں اب خود سے دور کر سکتا ہوں۔۔۔غلطی تھی میری جو سالوں پہلے تمہیں چھوڑ گیا تھا اب واپس آیا ہوں تو مجھے تم میرے پاس چائیے ہو۔۔۔جون نے سدرہ کی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔۔
سالوں پہلے بھی تم خود غرض تھے اب بھی خود غرض ہو تم ہمیشہ صرف اپنے بارے میں سوچتے ہو۔۔۔صرف اپنے بارے میں ۔۔۔۔سالوں پہلے جس شہرت کے لیے مجھے چھوڑ گئے تھے کیا ختم ہوگئی ہے وہ شہرت جو تم پلٹ ائے ہو اس دوزخ بھری زندگی میں ۔۔۔۔سدرہ اپے سے باہر ہوتی چیخی۔۔۔۔۔
سدرہ میری بات سنو۔۔۔جون نے اُسکے گال پر اپنے ہاتھ رکھتے نرمی سے کہا۔۔۔
خبردار جو میرا نام اپنے ہونٹوں سے ادا کیا خبردار میں تمہیں نہیں جانتی تم مجھے نہیں جانتے کوئی حق نہیں ہے تمہارا مجھ پر سمجھ ائی بات۔۔۔۔سدرہ جون کے سینے پر ہاتھ مارتی ہوئی چیخی۔۔۔۔
جب جون نے جھکتے اُسکی سانسوں کو اپنی گرفت میں لیا ۔۔۔۔
سدرہ تھمی اور جون سالوں بعد اُسی مدہوش کرتے لمس میں کھویا اُسکا لمس محسوس کرنے لگا ۔۔۔۔۔
اپنے ہونٹوں پر نہ جانے کتنے عرصے بعد اس لمس کو محسوس کرتے وہ بلکل ساکت ہوئی تھی۔۔۔نہ جانے کتنے آنسو اُسکی آنکھوں سے بہہ نکلے ۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ دور ہوا۔۔۔سدرہ روتے ہوئے اپنا سر اُسکے سینے پر رکھ گئی۔۔۔۔
کیوں آئے ہو اب ۔۔۔نہیں انا چائیے تھا تمہیں واپس ۔۔۔میں معاف نہیں کرونگی تمہیں۔۔۔بلکل بھی نہیں کرونگی معاف۔۔۔سدرہ نے روتے ہوئے کہا۔۔۔
نہیں کرنا معاف بس میرے ساتھ رہنا۔۔۔جون نے اُسکی قمر سہلاتے ہوئے کہا۔۔۔
سدرہ جون کی بات پر ہوش میں ائی ایک جھٹکے سے جون سے دور ہوتے اُس نے روتی آنکھوں سے اُسے دیکھا۔۔۔۔
نہیں رہو گی تمھارے ساتھ کبھی نہیں رہو گی سناتم نے ہر بار وہ نہیں ہوگا جو تم چاہو گے۔۔۔۔۔۔۔بھرائی آواز میں کہتی وہ وہاں سے بھاگتی چلی گئی اور جون بےبسی سے اُسکی پشت کو تکتا رہ گیا۔۔۔۔۔
💗💗💗💗💗
انابیہ اور لیزا ایک ساتھ کھڑی تھی جب بیہ کے کپڑوں پر جوس گرا ۔۔۔
بیہ نے ایک نظر لیزا کو دیکھا جو ڈانس دیکھنے میں مگن تھی پھر چپ چاپ واشروم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔
بیہ کو باہر جاتا دیکھ کر حسام بھی اُسکے پیچھے ایا۔۔۔
بیہ ابھی گراؤنڈ کو پار کرتے اندر واشروم کی طرف بڑھ رہی تھی جب پشت سے اُبھرتی آواز پر رکی۔۔۔۔
انابیہ۔۔۔انابیہ آواز پر پیچھے پلٹی۔۔۔جہاں وہی لڑکا کھڑا تھا جو اُسے ہمیشہ دیکھا کرتا تھا۔۔۔
اس لڑکے کے چہرے پر جمی مسکراہٹ دیکھتے انابیہ کو کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا۔۔۔
حسام جو انابیہ کے پیچھے ہی آرہا تھا کسی پروفسیر کے روکنے پر رک کر اُن سے بات کرنے لگا۔۔۔۔
جی۔۔۔انابیہ نے جوابا کہا ۔۔۔
آئی لو یو۔۔۔وہ لڑکا زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھتے ایک ہی منٹ میں گلاب کا پھول بیہ کی طرف بڑھائے اپنے دل کی بات کہہ گیا۔۔۔۔
بیہ کو گھبراہٹ ہوئی یہ سب دیکھتے اور سنتے۔۔۔۔یہاں کوئی بھی نہیں تھا سب فنکشن کی جگہ پر تھے ۔۔۔اُسے اب ڈر لگنے لگا تھا۔۔۔
ائی ایم سوری میں آپکا پروپوزل نہیں قبول کرسکتی۔۔۔۔بیہ نے نرمی سے انگلش میں کہا۔۔۔
پر کیوں نہ جانے کتنے مہینوں سے میں تمہیں دیکھ رہا ہوں تم سے بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں تم مجھے نظرانداز کرتی ہو میں پیار کرتا ہو تم سے۔۔۔۔وہ لڑکا یکدم کھڑے ہوتے بیہ کے بازو اپنی گرفت میں لیتے چیخا ۔۔
اور بیہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلی۔۔۔۔
چھوڑو مجھے۔۔۔کیا پاگل پن ہے یہ میں نہیں کرتی تم سے پیار زبردستی ہے کیا کوئی۔۔۔بیہ نے اپنے کندھے پر رکھے اُسکے ہاتھوں کو ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔۔
کرنا تو پڑے گا مجھ سے پیار جب تم اور میں ایک ہوجائے گے تب تو کرونگی ہی مجھ سے پیار میں پوری تیاری کے ساتھ ایا ہو۔۔۔۔اُس لڑکے نے اپنی جیب سے کلوروفوم سے بھیگا رومال نکالا اور بیہ کی خوف سے زبان بند ہوئی وہ نفی میں سر ہلاتے خوف سے پھیلی آنکھوں سے اُس لڑکے کو۔دیکھ رہی تھی۔۔۔دل میں شدت سے اپنی حفاظت کی دعا کی ۔۔۔۔۔
جب اُس لڑکے نے تیزی سے اُسکے منہ پر رومال رکھا کچھ سیکنڈ کی مزاحمت تھی اور بیہ ہوش سے بیگانہ ہوتی اُس لڑکے کی باہوں میں تھی۔۔۔
اپنی فتح یابی پر مسکراتے اُس لڑکے نے بیہ کی گردن پر جھکتے اپنا غلیظ لمس چھوڑنا چاہا جب کسی چٹانی گرفت میں اُسے اپنا کندھا محسوس ہوا۔۔۔۔
حسام جلدی سے پروفیسر سے بات کرتے انابیہ کے پیچھے ایا تھا لیکن یہاں پر نظر آتا منظر دیکھتے اُسے اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا سانسوں میں تنگی سی محسوس ہوئی۔۔۔
وہ تیز قدم بڑھاتا ایک جھٹکے میں اُس لڑکے تک اتے اُسکا کندھا اپنی فولادی گرفت میں لیے ایک جھٹکے سے بیہ سے دور کر گیا تھا ۔۔۔لڑکے کو زمین پر دھکا دیتے اُس نے نرمی سے بیہ کو اپنی باہوں میں تھاما اُسے اپنے سینے میں بھینچے اُس نے اُسکے ماتھے پر بوسا دیا اور زمین پر نرمی پر لٹایا۔۔۔۔
اور جب وہ پلٹا تو اُسکی سیاہ آنکھیں خون میں ڈوبی ہوئی تھی اُس نے ایک جھٹکے میں زمین پر پڑے اُس لڑکے کو کولر سے پکڑا ۔۔۔
تیری ہمت کیسے ہوئی اُسے ہاتھ لگانے کی۔۔۔کہتے ساتھ اُس نے اپنے مضبوط ہاتھوں کا مکا اُسکے مُںہ پر رسید کیا۔۔۔۔
بیوی ہے میری ۔۔۔لیپرڈ کی بیوی ہے جسے تو نے ہاتھ لگایا جس کے قریب جانے کی تو نے کوشش کی۔۔۔اور اپنی موت کو بلاوا دیا۔۔۔میں اسکو چھونے والی ہواؤں کا بھی دشمن ہو تو سوچ پھر تیرا کیا حشر کرونگا۔۔۔۔حسام بغیر رکے اُسکے مُںہ پر ڈر پر ڈر مکا مارتے کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
وہ لڑکا پورا خونم خون تھا حسام کے طاقتور وار کو وہ برداشت نہیں کر پایا تھا ہوش و خرد سے بے گانہ ہوا وہ۔۔۔۔
لیکن حسام۔کا جنوں تھا جو ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہا تھا ۔۔۔آخری مکا اُسکے منہ پر مارتے وہ بیہ کی طرف بڑھا۔۔۔۔
بیہ کے قریب جاتے اُسے اپنے مضبوط بازوں میں بھرا اور قدم باہر کی طرف بڑھائے۔۔۔۔
اپنے سینے پر رکھے بیہ کے چہرے کو دیکھتے اُسکے پورے وجود میں سکون دور گیا۔۔۔
پارکنگ میں اپنی گاڑی میں لاتے احتیاط سے بیہ کو پچھلی سیٹ پر لٹایا۔۔جبکہ بیک مرر سے نظریں پیچھے لیتی اپنی متائے جان پر ہی تھی۔۔۔۔
قدر دور سنسان سڑک پر اُس نے اپنی گاڑی روکی ۔۔گہرے سانس بھرتے اپنے غصے پر قابو کرنا چاہا ۔۔گاڑی کا دروازہ کھولتے وہ پچھلی سیٹ پر انابیہ کے پاس ایا اُسے ایک جھٹکے میں اپنے سینے کا حصہ بنایا۔۔۔۔
انابیہ کے لمس کو محسوس کرتے اُسکے پورے وجود میں سرور سا دور گیا جتنی تڑپ جتنی اذیت اُسکے وجود میں بھری ہوئی تھی وہ سب اُسے ختم ہوتی محسوس ہوئی ۔۔۔۔
انابیہ کی گردن میں منہ چھپائے اُس نے گہرا سانس بھرتے اُسکی خوشبو اپنی نس نس میں بسائی۔۔۔
سیاہ آنکھیں وارفتگی سے بیہ کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔۔۔وہ اپنی پلکیں تک نہ جھپک رہا تھا۔۔۔
کانپتے ہاتھوں کی انگلیوں سے بیہ کی بند پلکوں کو چھوا تو جیسے اُسکے مردہ جسم میں زندگی پھونک دی ہو ۔۔۔
اس نے اُسکے گالوں پر نرمی سے اپنی اُنگلیاں پھیری۔۔۔
تم تو جانتی بھی نہیں ہوگی جانم تمہارے اُس حسین چہرے کو اپنے نزدیک دیکھنے اسے چھونے کے لئے میں کتنا تڑپا ہو۔۔۔۔ہر پل صرف تمہیں سوچا ہے ۔۔۔انابیہ کے لبوں پر اپنی انگلی نرمی سے پھیرتے حسام نے گھمبیر آواز میں یہ لفظ ادا کیے۔۔۔۔
جانتی ہو ان کالی آنکھوں میں اپنے لیے انجان پن دیکھتے کتنی تکلیف ہوئی تھی مجھے ایسا لگا تھا جیسے کسی نے جان لے لی ہو میری۔۔۔تین سال تمہارے بنا رہا تم سے الگ ہر ایک دن مجھے بوجھ لگا ہر ایک دن ۔۔۔ایسی تکلیف اپنے وجود میں اُترتی محسوس کرتا تھا جس کو لفظوں میں ادا نہیں کرسکتا میں۔۔۔۔۔حسام کی سیاہ آنکھیں نم تھی۔۔۔
لیکن پھر مجھے تمھاری تکلیف یاد ائی ۔۔۔کس طرح ۔۔۔کس طرح تمہارے سامنے میں نے کسی دوسری عورت کو اپنی محبت کہا۔۔۔کس طرح تمہارے سامنے میں دوسری عورت کو لے ایا۔۔۔اور پھر۔۔۔حسام نے بھرائی آواز میں کہا۔۔۔اُسے لگ رہا تھا جیسے یہ لفظ ادا کرتے اُسکے گلے شدید درد اٹھ رہا ہو۔۔۔۔
پھر انہی ہاتھوں سے تمھاری۔۔۔تم۔۔ہاری جان لے لی میں نے ہمارے بچے کا قاتل بن گیا میں بیہ۔۔۔بیہ کے ماتھے سے ماتھا ٹکائے وہ رو گیا اُسکے آنسو بیہ کے شفاف چہرے پر گرے ۔۔۔
میں کیسے اتنا خود غرض ہوگیا میں کیسے اتنا بےضمیر ہوگیا کہ اپنی بیوی کو ہی اپنے ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔۔۔۔اپنے رب سے روز معافی مانگتا ہوں اپنے بچے کو قتل کیا ہے میں نے اپنی بیوی کو مارا ہے گناہ ہوا ہے مجھ سے گناہ۔۔۔حسام کے آنسو اُسکی داڑھی سے ہوتے ہوئے بیہ کی گردن تک گر رہے تھے لیکن وہ بول رہا تھا نہ جانے کتنا غبار تھا جو دل میں بھرا ہوا تھا اُسکے۔۔۔۔۔۔
یہ تو رب کا کرم ہے مجھ پر اُسکا احسان ہے جو تمہیں واپس لوٹا دیا ۔۔۔اور ابکی بار میں تمہیں خود سے دور نہیں جانے دونگا میں بلکل بھی نہیں۔۔۔جانتی ہو ڈر گیا ہو میں اُن راتوں سے جب ۔۔۔جب مجھے لگتا تھا تم نہیں ہو زندہ تب ۔۔تب مجھے یہ رات وحشت ناک لگتی تھی تنہائی سے ڈر گیا ہو جو مجھے دستی تھی۔۔۔میں ۔۔۔میں سو نہیں پاتا تھا گناہوں کا بوجھ ہی اتنا زیادہ تھا۔۔۔اب واپس وہ سب محسوس نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔بیہ تمہارا حسام بہت ڈر گیا اُن راتوں سے جب وہ ساری ساری رات تکلیف دہ سوچے سوچتے اپنی آنکھ تک بند نہیں کر پاتا تھا۔۔۔حسام بیہ کے ماتھے پر اپنا سر رکھے سارا اپنے دل کا غبار نکال رہا تھا۔۔۔۔۔
بس اب نہیں روۓ گے ۔۔۔اب ہم نئی یادیں بنائے گے تمھاری اور میری یادیں اپنا ایک گھر بنائے گے ایک فیملی میں تُم اور ہمارے بچے بس۔۔۔میں نہیں چاہتا تمہیں کچھ بھی یاد آئے اور پھر تم خود مجھ سے اور دور ہوجاؤ میں بلکل نہیں چاہتا۔۔۔حسام نے اُسکی بند انکھوں کو دیکھتے کہا جب اُسکی نظر بیہ کے گلابی لبوں پر گئی ۔۔۔
اُسے شدید پیاس کا احساس ہوا۔۔۔گلا خشک ہوتا محسوس ہوا۔۔۔وہ نرمی سے اُسکے لبوں پر جھک ایا ۔۔۔نرمی سے اُسکے لبوں کا لمس محسوس کرتے وہ کسی دوسری دنیا میں کھو گیا تھا۔۔۔۔
کافی دیر تک وہ انتہائی نرمی سے بیہ کے ہونٹوں کو محسوس کرتا رہا پھر دل کے لاکھ منع کرنے کے باوجود وہ پیچھے ہتا۔۔۔۔
تشنگی تھی جو ختم نہیں ہوئی تھی اب بھی دل کیا تھا اُسکے ہونٹوں سے اپنی تشنگی مٹاتا رہے۔۔۔۔
بہت جلد تم پھر سے میرے پاس ہوگی جب میں تمہارے پور پور کو اپنی شدت سے بھگو دونگا اور تب ان آنکھوں میں اجنبیت نہیں ہوگی شناسائی ہوگی اور ان لبوں پر مجھ سے محبت کا اطراف۔۔۔دوبارہ جھکتے اُسکے لبوں کو ہلکا سا چھوتے وہ پیچھے ہوا۔۔۔
ایک نشانی دینا بنتا ہے جانا مقالات کی کوئی نشانی تو ہونی ہی چایئے اتنے لمبے ہجر کے بعد کچھ پل قربت کے ملے ہیں تھوڑا فائدہ تو اٹھایا جا ہی سکتا ہے۔۔حسام کہتا انابیہ کا گاؤن اُسکے کندھے سے نیچے کرتا اُسکے دل کے مقام پر جھک ایا پنے لب رکھتے شدت سے وہاں اپنا نشان چھوڑا اور بیہ سے دور ہوا ۔۔۔۔
بیہ کی فروک کندھے سے صحیح کرتے وہ دوبارہ اُسے اپنے سینے کا حصہ بنا چکا تھا دل تھا کہ ہمک ہمک کر باہوں میں موجود وجود میں گم ہونے کا اصرار کر رہا تھا لیکن وہ اپنے جزباتوں کو سلا گیا تھا۔۔۔
اُسکی محبت اُس وقت اُسکے پاس تھی اُسکے انتہائی نزدیک اُسکے علاوہ اُسے کچھ نہیں چائیے تھا وہ سالوں بعد اُسکی خوشبو محسوس کر پایا تھا اُسکے لمس کو محسوس کرتے وہ جی اٹھا تھا یہ چند قربت کے لمحے اُسکے لیے ایسے تھے جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل گیا ہو ۔۔۔۔۔
کلوروفوم کا اثر ختم ہونے والا تھا حسام جو آنکھیں موندے بیہ کے سر پر اپنی تھوڑی رکھے بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔بیہ کو خود سے دور کرتے صحیح طرح سے اُسے سیٹ پر لٹایا۔۔۔گہری نظر بیہ کے وجود پر ڈالتے وہ گاڑی سے باہر نکلا ۔۔۔۔
گاڑی کا دروازہ بند کرتے اُس نے اپنی پاکٹ سے سگریٹ نکال کر جلائی جبکہ نظریں شیشے کے پار لیتے وجود پر تھی جو اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔
بیہ جو ہوش میں آچکی تھی اپنی نظریں نہ کھول پائی سر میں ایک ٹیس سی اُبھرتی محسوس ہوئی اپنی تمام تر ہمت لگاتے اُس نے اپنی آنکھیں کھولی تو نظر سیدھا گاڑی کی چھت سے ٹکرائیں ناک کے نتھنوں میں ایک تیز مردانا پرفیوم کی خوشبو ٹکرائیں جو پوری گاڑی میں پھیلی ہوئی تھی۔۔۔
اپنے آپکو ایک گاڑی میں دیکھتے وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی سب کچھ ایک فلم کی طرح اُسکے ذہن میں چلنے لگا خوف سے اُسکا دل دھڑکا جب اُسکی نظر گاڑی کے باہر کھڑے حسام پر پڑی۔۔۔۔
حسام کو سامنے دیکھتے اُسکے دل میں موجود خوف کم ہوا ایک تحفظ کا احساس ہوا جانے کیوں۔۔۔
حسام جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا گاڑی کا دروازہ کھولتے اپنا ہاتھ اگے بڑھایا۔۔۔۔۔
انابیہ نے پہلے اُسے دیکھا اور پھر اُسکے بڑھے ہوئے ہاتھ کو کچھ پل کی دیری کے بعد اُس نے اپنا ہاتھ حسام کے ہاتھ میں دیا ۔۔۔اور باہر نکل ائی۔۔۔
اب دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے حسام کی نگاہیں بیہ کو تک رہی تھی اور بیہ کی نظریں حسام کے جوتوں پر۔۔۔۔
میں وہ لڑکا میرے ساتھ زبردستی کر رہا تھا میں یہاں کیسے ائی۔۔۔بیہ نے نم آواز میں حسام کے جوتوں کو تکتے ہوئے پوچھا۔۔۔
حسام اُسکی بھرائی آواز سنتے اپنے لب بھینچ گیا۔۔۔۔
اس نے آپکے ساتھ کچھ نہیں کیا آپ محفوظ ہے میں آپکو یہاں لے ایا تھا ایسی حالت میں آپکو آپکے گھر نہیں چھوڑ سکتا تھا اسی لیے آپکے ہوش میں انے کا انتظار کیا۔۔۔۔حسام نے دونوں ہاتھ اپنی پینٹ کی جیب میں ڈالتے کہا۔۔۔۔
اور آپ نے میری حفاظت کیوں کی۔۔۔بیہ اچانک سے حسام کی آنکھوں میں دیکھتے پوچھ بیٹھی ۔۔۔
میرے دل نے کہا ۔۔۔حسام نے پل میں جواب دیا۔۔۔۔
اگر میری جگہ کوئی اور ہوتی تب بھی آپ اُسکی مدد کرتے۔۔۔۔نہ جانے کیوں سامنے کھڑے انسان سے بات کرنا اُسے اچھا لگ رہا تھا اسی لیے سوال پر سوال کیا جبکہ ح حسام کے جواب پر دل تو دھڑکا تھا۔۔۔۔
آپکی جگہ کوئی اور ہوتی تب میں اُسکی حفاظت بھی کرتا لیکن دل تب شاید اتنا فکر مند نہیں ہوتا جتنا آپکی یہ حسین سیاہ آنکھیں بند دیکھتے ہوا تھا۔۔۔۔حسام نے گھمبیر لہجے میں بات کی اور بیہ کو لگا اُسکا دل اچھل کر حلق میں آگیا ہو حسام کی بات پر۔۔۔۔
اور آپکا دل اتنا فکرمند کیوں تھا۔۔۔نہ جانے وہ کیا جاننا چاہتی تھی۔۔۔۔
اس کا جواب میرے پاس بھی نہیں آپکو مل جائے تو مجھے بھی بتا دی جئے گا کیونکہ میں بھی اس جواب کا بےصبری سے انتظار کر رہا ہو۔۔۔حسام نے اُسکے بالوں پر لگی گھاس کو اپنے ہاتھ سے ہٹاتے ہوئے کہا اور بیہ کو لگا اُسے اج دل کا دورہ ضرور پر جائے گا جتنی تیز وہ دھڑک رہا تھا چہرے پر بھی سرخی چھائی۔۔۔
اور حسام اُسکے چہرے پر اتنی سی بات پر سرخی دیکھتے یہ سوچ کر اپنے لب دانت تلے ڈبا گیا اگر اس لڑکی کو پتہ چل جائے کہ حسام نے اُسکی بیہوشی میں کیا کیا ہے تو نہ جانے اس چہرے پر کیا رنگ کھلے گے ۔۔۔
اب چلے اگر اعتبار ہے تو آپکو آپکے گھر چھوڑ دو ۔۔۔حسام نے اُسکے سرخ چہرے کو دلچسپ نگاہوں سے دیکھتے کہا۔۔۔
بیہ نے حسام کی بات پر کچھ پل اُسے دیکھا اور پھر اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
مطلب وہ اُس پر اعتبار کر چکی تھی حسام کو اپنے وجود میں اج سکون ہی سکون بھرتا محسوس ہوا ۔۔۔۔
حسام نے بیہ کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا جب بیہ گاڑی میں بیٹھی۔۔۔اُسکا گاؤن جو تھوڑا سا باہر تھا حسام نے جھکتے اُسکا گاؤن گاڑی کے اندر کیا اور بیہ کو اب اپنے پیٹ میں تتلیاں ارتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔اعتبار اُسے حسام پر ہو ہی گیا تھا جس طرح وہ اُسے اُس لڑکے سے محفوظ کر گیا تھا اُسکی عزت بچا گیا تھا ۔۔۔۔
حسام مسرور سا اتے ڈرائیونگ سیٹ پڑ بیٹھا۔۔۔
پورا راستہ بیہ نے اپنی نظریں شیشے کے پار نظر اتے مناظر پر رکھی تو حسام وقفے وقفے سے اُسکی طرف دیکھتا رہا۔۔۔
کتنا سکون بخش احساس تھا اُسکی محبت اُسکے برابر والی سیٹ پر براجمان تھی۔۔۔۔
کامل کے گھر کے باہر گاڑی رکنے پر بیہ نے حسام کی طرف دیکھا ۔۔۔
بہت شکریہ آپ نے اج میری عزت بچائیں اور مجھے محفوظ میرے گھر تک چھوڑا میں آپکا احسان کبھی نہیں بھولو گی۔۔۔دھیمی آواز میں کہتی وہ حسام کے دل کا چین و سکون چھین گئی ۔۔۔۔
اچھی بات ہے آپ میرا احسان مت بھولئے گا ہوسکتا ہے آپکو جلد اس احسان کے بدلے ایک احسان مجھ پر کرنا ہو ۔۔۔حسام نے زو معنی بات کی جو بیہ کے سر سے گزر گئی۔۔۔۔
اب میں جاؤ۔۔۔۔بیہ کے اس طرح پوچھنے پر حسام کے لبوں پر مسکراہٹ آ ٹھہری ۔۔۔۔
جی بلکل اب آپ جائے کل یونی میں آپ سے ملاقات ہوتی ہے۔۔۔حسام نے مسکراہٹ لیے کہا اور بیہ نے مسکرانے کی سعی کی ۔۔۔
تیز دھڑکتے دل کو سمنبھالتے وہ جلدی سے گاڑی سے باہر نکلی اُسے یقین تھا جتنا تیز اُسکا دل دھڑک رہا تھا حسام نے ضرور اُسکی دھڑکنیں سن لی ہونگی۔۔۔۔۔
گھر کے اندر داخل ہونے سے پہلی وہ پلٹی اور حسام کو دیکھا جو اب بھی گاڑی میں بیٹھا اُسی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔فوراً سے اپنا رخ موڑا اب لبوں پر دھیمی سے مسکان تھی وہ گھر کے اندر داخل ہوئی ۔۔
بیہ کے گھر میں داخل ہوتے ہی اُس نے اپنی گاڑی سٹارٹ کی جب اُسکی نظر سامنے سے اتے کامل پر پڑی جو اپنی گاڑی روکتے خونخوار نظروں سے اُسی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔
حسام دل جلانے والی مسکان لیے اُسے دیکھتے فلائنگ کس پاس کرتے فل رفتار میں گاڑی آگے بھاگا لے گیا ۔۔۔کامل نے غصّہ سے اسٹیئرنگ پر اپنا ہاتھ مارا۔۔۔
اپنی سیٹ سے پھولوں کا بکے اور گفٹ تھامے وہ اندر بڑھا اُس نے صرف حسام کو یہاں دیکھا تھا بیہ کو اُسکی گاڑی سے نکلتا نہیں دیکھا تھا اسی لیے حسام کی بچت ہوگئی تھی اگر وہ بیہ کو حسام کی گاڑی سے نکلتے دیکھ لیتا تو ضرور کچھ نہ کچھ بُرا تو ضرور ہوتا۔۔اب بھی وہ گھر کی سیکورٹی بڑھانے کا سوچ چکا تھا۔۔۔۔۔
💗💗💗💗
کامل کمرے میں داخل ہوا تو نظر اپنی بیوی کے بھیگے سراپے پر پڑی جو شائد ابھی شاور لے کر نکلی تھی نیلے رنگ کی سادہ ویلویٹ فروک پہنے جو اُسکی گوری رنگت پر حد سے زیادہ جج رہا تھا۔۔۔۔
کامل نے لایا ہوا سامان اپنی پشت پر چھپایا ۔۔۔
کامل آپ ۔۔۔فلک جو اپنے دھیان میں کھڑی اپنے بال سکھا رہی تھی کامل کو دیکھتے کہا۔۔
جی میں ۔۔۔کامل نے اُسکے کھلتے چہرے کو محبت پاش نظروں سے دیکھتے کہا۔۔۔۔
آپ نے اج لیٹ نہیں انا تھا۔۔۔فلک نے اپنی آنکھیں چھوٹی کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔
کیا کرے آپ سے دوری برداشت جو نہیں ہوتی حیاتی اسی لیے جلدی چلے ائے۔۔۔کامل نے اُسکے قریب اتے کہا۔۔۔
اچھا اور یہ کیا چھپا رہے ہیں آپ دکھائے مجھے۔۔۔فلک نے اُسکی پشت پر چھپی چیزیں دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔۔
کامل نے زرا سی بھی دیر کیے بنا اپنی حیاتی کے سامنے سرخ گُلابوں کا بکے کیا۔۔۔
یہ آپ میرے لیے لائے ہے ۔۔۔فلک خوشی سے چیخی ۔۔۔
جی بلکل آپ کے لیے ۔۔۔۔کامل نے اُسکی پشت کو تھامتے اپنے نزدیک کرتے کہا۔۔۔
یہ بہت خوبصورت ہے کامل۔۔۔فلک نے پھولوں کی مہک کو محسوس کرتے کہا۔۔۔
آپ سے کم ہے حیاتی۔۔۔کامل نے اپنے پھول کو دیکھتے کہا جو اس وقت خوشی سے لال کھلا ہوا گلاب ہی لگ رہی تھی۔۔۔۔
آپ اور کچھ بھی لائے ہے نہ میرے لیے وہ بھی دکھائے ۔۔۔فلک نے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے کامل کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
وہ ہم آپکو دکھائے گے نہیں پہنائے گے ۔۔۔کامل نے اپنی ناک فلک کی ناک سے رب کرتے ہوئے بوجھل لہجے میں کہا۔۔۔۔
فلک کی آنکھوں میں چمک اُبھری کامل کی بات پر جب کامل نے اُسکی پشت کو اپنی گرفت سے آزاد کرتے اپنے ہاتھ میں تھامے باکس سے دو خوبصورت ڈائمنڈ کے ٹوپس نکالے اور فلک کے کان میں نرمی سے پہنائے ۔۔
فلک محبت بھری نظروں سے اپنے شوہر کو دیکھے گئی جس کا پیار وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا تھا۔۔۔۔
یہ دیکھے۔۔۔کامل نے اُسکا رخ شیشے کی طرف کرتے اُسے اُسکا عکس دکھایا۔۔۔۔
یہ خوبصورت ہے۔۔فلک نے اپنے کان میں پہنے ٹوپس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔
لیکن۔۔۔پھر شیشے میں نظر آتے کامل کے عکس کو دیکھا۔۔۔
لیکن ۔۔۔کامل نے اپنی آبرو اچکا کر پوچھا۔۔۔
یہ زیادہ خوبصورت ہے۔۔۔۔فلک نے شیشے میں نظر آتے ان دونوں کے عکس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو ایک ساتھ انتہائی پیارے لگ رہے تھے۔۔۔۔
یہ تو واقعی میں خوبصورت ہے چلے لائے اب میرا گفٹ دے۔۔۔۔کامل نے فلک کے کندھے پر تھوڑی رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کون سا گفٹ ۔۔۔فلک نے آبرو اچکا کر پوچھا۔۔
آج ویلنٹائن ڈے ہے نہ تو اس حساب سے میرا گفٹ بھی بنتا ہے۔۔۔کامل نے اُسکی کان کی لو پر اپنے لب رکھتے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔
کوئی نہیں ہم نہیں مانتے یہ ویلینٹائن دے اس حساب سے نو گفٹ۔۔۔فلک نے لبوں پر مسکراہٹ لیے کہا۔۔۔
آپکے ماننے یہ نہ ماننے سے کیا ہوتا ہے بیگم گفت تو ہم اپنا لے کر رہے گے ۔۔۔کامل نے دانت پیستے کہا اور ایک جھٹکے میں فلک کو اپنی باہوں میں بھرا۔۔۔فلک نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے کامل کی آنکھوں میں دیکھا جہاں نظر اتے شوخ جذبوں کی لہر دیکھتے وہ سمجھ گئی اج پھر وہ اُسے اپنی محبت کی بارش میں بھگوئے گا اج پھر ایک اور رات اُنکے ملن کی گواہ بنے گی ۔۔۔۔
💗💗💗💗
امنہ اپنی بکھری سانسیں بحال کرتی باہر ائی تھی جب اُسے سامنے سے سدرہ اتی دکھائی دی۔۔۔
حسینہ گھر چلتے ہے مجھے یہاں کچھ اچھا نہیں لگ رہا ۔۔۔سدرہ نے امنہ سے کہا۔۔۔
ٹھیک ہے گھر چلتے ہے تمھاری طبیعت ٹھیک ہے آنکھیں لال ہو رہی ہے۔۔۔۔امنہ نے اشارہ کرتے اُس سے پوچھا ۔۔۔
نہیں مجھے نہیں لگ رہا میری طبیعت ٹھیک ہے گھر چلتے ہے۔۔۔سدرہ اُسے کیا بتاتی یہ آنکھیں اُس ہرجائی کو سالوں بعد سامنے دیکھتے لال ہوئی ہے اسی لیے یہی بہانہ کہا۔۔۔
چلو چلے ۔۔۔امنہ خود بھی یہاں سے جانا چاہتی تھی اج اگر وہ ہوش میں نہیں اتی تو جو ہوجاتا اُسکے بعد وہ کس طرح سب کا سامنا کرتی یہی سوچ نے اُسکے ہاتھ پاؤں پھولا دیے تھے۔۔۔لیکن وہ زرقان سے اج کے بارے میں سوال ضرور کرے گی کہ وہ اُسکے قریب کیوں ایا تھا۔۔۔۔
💗💗💗💗
بیہ کہاں گئی۔۔۔۔شاداب جو ابھی اپنا ڈانس ختم کرتے واپس ایا تھا لیزا سے مخاطب ہوا۔۔
وہ گھر چلے گئی ہے اُسکا میسج ایا تھا میرے پاس ۔۔لیزا نے منہ بناتے جواب دیا۔۔۔
چلو پھر ہم بھی چلتے ہے۔۔۔شاداب نے لیزا کا حسین چہرہ دیکھتے کہا۔۔
لیزا بھی کافی تھک گئی تھی اسی لیے بنا بحث کوئی اثبات میں سر ہلا گئی۔۔۔۔
ابھی وہ دونوں چل رھے تھے جب شاداب کو ایک جگہ جمع دیکھے لیزا نے پیچھے مڑ کر اُسکی طرف دیکھا۔۔
کیا ہوا کیوں ایک جگہ جم گئے ہو۔۔۔لیزا نے چیخ کر کہا ۔۔۔۔
چیخو مت تم دو پیار کرنے والوں کو تنگ کردو گی۔۔۔شاداب نے دانت پیستے کہا ۔۔۔۔
کیا بول رہے ہو۔۔لیزا حیرت سے اُس کے پاس ائی جب اُسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھتے اُسکا چہرہ سرخ ہوا۔۔۔۔۔
شرم نہیں آتی تمہیں یہ سب دیکھتے ہوئے۔۔۔۔لیزا نے فوراً سے اپنی نظریں سامنے سے ہٹاتے ہوئے کہا جھاں ایک کپل ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے کس کر رہے تھے۔۔۔۔۔
انکو شرم نہیں آرہی ایسے کھلم کھلا یہ سب کرتے ہوئے۔۔۔شاداب نے بےشرموں کی طرح ہنستے ہوئے کہا۔۔۔۔
ویسے یہ اچھا ہے تم لوگوں کے ملک کا بیڈ روم کی ضرورت ہی نہیں پڑتی جہاں مرضی وہاں شروع ہوجاؤ۔۔۔شاداب نے اپنے قدم آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔
لیزا نے اُسکی بات پر اپنی نظریں گھمائیں۔۔۔۔اُسے اب شرم سی محسوس ہو رہی تھی شاداب سے ۔۔۔۔
اب ایسا بھی نہیں ہے۔۔ لیزا نے اپنی نظریں جھکائے کہا۔۔۔۔
تو پھر کیسا ہے۔۔۔شاداب نے اُسکی جھکی نظروں کو دیکھتے کہا۔۔۔
مطلب ویسا جیسا تم بول رہے ہو۔۔۔لیزا نے جھنجھلا کر جگہ۔۔۔۔۔
اور میں کیا بول رہا ہوں ۔۔۔شاداب سمجھ گیا وہ شرما رہی ہے اسی لیے تنگ کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
وہی کس وغیرہ وہ سب ۔۔۔لیزا نے سرخ چہرے سے کہا۔۔۔
مجھے نہیں پتہ تھا یہاں کی لڑکیاں شرماتی بھی ہے ۔۔۔شاداب نے گہری نظروں سے لیزا کے سرخ چہرے کو دیکھتے کہا۔۔۔۔
کیوں یہاں کی لڑکیاں کیا دوسری مخلوقات ہوتی ہے۔۔۔لیزا نہ اپنی آبرو اُچکاتے ہوئے کہا۔۔۔
باقی لڑکیوں کا نہیں پتا لیکن ایک لڑکی یہاں کی بہت پیاری ہے۔۔۔۔شاداب نے لیزا کے چہرے کے قریب اپنا چہرہ کیے دھیمی آواز میں کہا ۔۔۔
لیزا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔۔۔
بلکل ایک بندریا کی طرح۔۔۔شاداب نے اپنا جملہ مکمل کیا اور لیزا کی مسکراہٹ سمٹی۔۔۔۔
اب وہ کھا جانے والی نظروں سے شاداب کو دیکھ رہی تھی۔۔۔جسے دیکھتے شاداب آگے بھاگا
تم ۔۔۔تم کینگرو ہو۔۔۔رک جاؤ میں اج تمہیں چھوڑو گی نہیں ۔۔لیزا شاداب کو بھاگتے دیکھ چیخی اور اُس کے پیچھے بھاگی۔۔۔۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial