قسط: 8
تم کہاں جا رہے ہو جنید ۔۔۔۔۔سدرہ نے اُسکے کمرے میں اتے ہوئے اُسے اپنی پیکنگ کرتے دیکھتے پوچھا۔۔۔
کہیں بھی لیکن یہاں نہیں رہو گا ایسی دوزخ بھری زندگی نہیں گزار سکتا میں۔۔۔۔جنید نے اپنے کپڑے بیگ میں رکھتے کہا۔۔۔
لیکن کیوں جنید اور یہ دوزخ بھری زندگی تو نہیں ہے کیا میرا ساتھ تمہیں دوزخ بھرا لگتا ہے۔۔۔۔سدرہ نے جنید کے قریب اتے اُسکا کاندھا پکڑتے اُسکا رخ اپنی طرف کرتے کہا۔۔۔۔
تمہارا ساتھ دوزخ بھرا نہیں ہے جان ۔۔۔لیکن یہ زندگی جس میں نہ ہی میں اپنی کوئی خواہش پوری کر سکتا ہو نہ ہی یہاں کوئی آسائش ہے ۔۔۔جنید نے اُسکے گال پر اپنا ہاتھ رکھا جو نم آنکھیں لیے اُسی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
لیکن یہی تو زندگی ہے جنید تم ایسے کیسے مجھے چھوڑ کر جاسکتے ہو تایا ابو کو چھوڑ کر جا سکتے ہو ہم اسی زندگی میں خوش رہ تو رہے ہے۔۔۔سدرہ کی آنکھ سے آنسو بہہ نکلے۔۔۔
نہیں اس غربت کی زندگی میں صرف تم لوگ خوش ہو میں نہیں ۔۔۔میں اپنی زندگی کو بدلنا چاہتا ہوں ایسی زندگی جہاں ہر چیز ہو ہر آسائش ہو مجھے کسی چیز کے لیے ترسنا نہ پڑے ۔۔۔۔جنید کی آنکھوں میں اب بس نئی زندگی کے خواب تھے سدرہ کے آنسو اُسکی تڑپ وہ نہیں دیکھ پا رہا تھا۔۔۔
تو تم مجھے چھوڑ جاونگے جسے اپنی محبت کہتے جو جو تمھارے نکاح میں بندھی ہے ۔۔۔۔سدرہ چیخی تھی۔۔۔۔
میں اونگا واپس ۔۔۔بہت جلد پھر ہم دونوں ساتھ ہونگے۔۔۔جنید نے سدرہ کا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹا کر اپنا بیگ اٹھایا اور تیز قدم بڑھاتے باہر نکلا۔۔۔
جنید رک جاؤ خدا کا واسطہ تمہیں روک جاؤ۔۔۔سدرہ اُسکے پیچھے لپکی۔۔۔۔
جب دروازے پر تایا نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر روکا۔۔
تایا ابو روک لے اُسے میں نہیں رہ سکتی۔۔۔۔اُس ظالم کی پشت کو تکتی وہ بھیگی آواز میں روتے ہوئے بولی جو باہری دروازے کی طرف بڑھتا رک گیا تھا۔۔۔۔
جانے دو بیٹا اُسے اس وقت اُسکی آنکھوں پر دولت کا نشا چڑھا ہوا ہے جو اتنی آسانی سے نہیں ہٹے گا۔۔۔۔تایا ابو نے اپنے بیٹے کی خود غرضی پر زخمی لہجے میں گویا ہوئے۔۔۔۔
سدرہ نے روتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
جنید پلیز ایک بار میری بات سن لو تمہیں میری قسم رک جاؤ میں نہیں رہ سکتی تمھارے بنا بھائی آپ کچھ بولے نہ روکے نہ اُسے۔۔۔۔سدرہ کی روتی آواز پر اُسکے بھائی بھابھی نے اپنی آنکھیں مینچی۔۔۔۔
جا تو رہے ہو اس گھر سے یہ مت سمجھنا واپسی کے دروازے تمھارے لیے بند ہونگے لیکن شاید جب تم واپس اؤ تب ہم میں سے کوئی بھی پہلے جیسا نہ رہے۔۔۔۔اپنے والد صاحب اور سدرہ کی ہچکیاں سنتے جنید کا دل ایک پل کو ترپا لیکن پھر سب کی باتوں کو انسنا کرتے سدرہ کی چیخوں کو ان سنا کرتے وہ دہلیز پار کر گیا۔۔۔۔
جنید کے دہلیز پار کرتے ہی سدرہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہوتے زمین پر گری ۔۔۔۔تایا ابو نے بھی تڑپ کر اس بنا ماں باپ کی بچی کو دیکھا جس کا سہارا انہوں نے اپنے بیٹے کو بنایا تھا جو اج خود اُس بچی کو بیسہارا کر گیا تھا۔۔۔۔
جب سدرہ کو ہوش آیا وہ تب سے ایک جیگتی جاگتی لاش بن گئی تھی تب اُسے سنبھالا امنہ نے تھا امنہ صرف یہ بات جانتی تھی کہ سدرہ کا نکاح اُس کے کزن سے ہوا لیکن وہ کزن جون ہے یہ بات اُسے نہیں معلوم تھی نہ ہی اُس نے کبھی سدرہ کے شوہر کو دیکھنے کا تجسس کیا تھا اسی لیے سدرہ یونی میں جون سے پہلی ملاقات میں انجان بن گئی تھی۔۔۔
وہ اپنے۔دل کے سارے جذباتوں کو سلا گئی تھی ۔۔۔اپنے دل کو سخت کر گئی تھی لیکن تھی تو ایک لڑکی نازک سی اب بھی وہ سب یاد کرتے اُسکی آنکھوں سے آنسو جاری تھے جنید کے جانے کے بعد بہت مشکلوں سے انکا گھر سنبھلا تھا تایا کی طبیعت اب بھی خراب رہتی تھی۔۔۔۔
اج پانچ سال بعد دوبارہ جنید کا لمس محسوس کرتے اُسکے دل میں سوئے ہوئے جذبات پھر سے جاگنے لگے تھے۔۔۔اُسے اچھی طرح یاد تھا کس طرح پورے گھر والوں کے سامنے جنید نے ضد میں آکر اس سے نکاح کیا تھا۔۔۔وہ اُسے اپنی محبت کہتا تھا تو کیا اتنا اسان ہوتا ہے اپنی محبت کو چھوڑ دینا۔۔۔
بیڈ پر لیتی وہ پرانی باتوں کو یاد کر رہی تھی آنسو آنکھوں سے نکلتے تکیہ میں جذب ہو رہے تھے۔۔۔۔آنکھیں بند کرتے ہی اج کا واقعہ پوری آب و تاب سے اُسکی آنکھوں کے چھلمن پر اُبھرا جسے جھٹکتے اُس نے سونے کی کوشش کی۔۔۔۔۔
وہ اتنی جلدی جنید کو معاف نہیں کر سکتی تھی بلکل بھی نہیں۔۔




اپنے کمرے کی بالکنی میں کالی سینڈو اور بلیک ٹراؤزر پہنے سگریٹ کے گہرے کش لگاتا وہ اپنی سوچوں میں اُلجھا ہوا تھا۔۔۔۔
پانچ سال پہلے اُس نے لیپرڈ کو دیکھا تھا یہی آسٹریلیا کی سر زمین پر مہنگی گاڑی برانڈڈ سوٹ پہنے اور اُسے دیکھتے ہی اُس کے دل میں بھی ایسی زندگی جینے کی خواہش جاگی ۔۔۔اُسے اپنی سادہ محبت بھری زندگی جس میں گزر بسر ہو ہی رہا تھا وہ بری لگنے لگی۔۔۔
اس نے بہت مشکلوں سے لیپرڈ سے ملاقات کی جہاں لیپرڈ نے اُسکا ٹیسٹ لیا ایک فائٹ کے ذریعے اور اُسے اپنے ساتھ ہونے کی پیشکش کی۔۔۔۔جنید کو اور کیا چائیے تھا۔۔۔۔
پھر وہ اپنی اُس محبت بھری زندگی کو چھوڑ آیا جس میں اُسکے والد تھے اُسکی چھوٹی سی معصوم سی محبت اُسکی بیوی تھی اج بھی سدرہ کی چیخے اُسکے ذہن میں گونجتی اُسے اذیت دیتی ہے۔۔۔۔۔
اُسے وہ پل یاد کرتے اذیت ہوتی ہے جب وہ اس آسائش بھری زندگی کے لیے سدرہ کو چھوڑ آیا تھا۔۔۔جنید سے اُسکا نام جون رکھ دیا گیا تھا۔۔۔۔یہاں سب اُسے جون کے نام سے جانتے تھے۔۔۔وہ خوش تھا اپنی اس زندگی میں لیکن رات ہوتے ہی اُسے تنہائی بری طرح دستي تھی۔۔۔
اج اُسکے پاس سب کچھ تھا سب کچھ ۔۔۔لیکن پھر بھی کمی تھی محبت کی کمی جیل سے نکلتے ہی جب اُسے پتہ چلا حسام آسٹریلیا میں ہے وہ ایک پل کی دیر کیے بنا یہاں چلا آیا تھا دل میں امید تھی شاید وہ اپنی بیوی سے مل پائے گا۔۔۔۔
اور پھر اُسکی سدرہ سے پہلی ملاقات ہوئی جب سدرہ کی آنکھوں میں اپنے لیے بیگانگی دیکھتے اُسکا دل جلا اور اج اُسکا لمس محسوس کرتے جیسے اُسکے زخمی دل کو سکون ملا تھا۔۔۔
اب بھی سدرہ کی آنکھوں میں نظر اتی اپنے لیے نفرت اور اُسکے لبوں سے ادا ہوئے لفظ اُس سے بھول نہیں پا رہے تھے وہ اپنے والد صاحب سے بھی ملنا چاہتا تھا لیکن ہمت نہیں تھی۔۔۔۔
سگریٹ کا آخری کش لیتے اُس نے دھواں ہوا میں چھوڑا اور اندر کی طرف بڑھا اب وہ یہاں تھا بہت جلد وہ سدرہ کو بھی منہ لے گا اُسے یقین تھا۔۔۔۔





بیہ شاداب کو اج کہیں گھمانے لے جاؤ یہاں آیا ہے تو اچھا ہے یہاں کی جگہوں کے بارے میں جان لے گا۔۔۔۔کامل نے بیہ کی طرف دیکھتے کہا جو عروہ کے ساتھ بیٹھی ہنستے ہوئے ناشتہ کر رہی تھی۔۔۔۔
جی بھائی میں اج یونی کے بعد لے جاتی ہوں ۔۔۔بیہ نے اثبات میں سر ہلا کر کہا۔۔۔
یونی جانے کی کیا ضرورت اج جاؤ باہر انجوائے کرو دونوں ساتھ میں ایک دوسرے سے باتیں کرو تو ایک دوسرے کو مزید جان پاؤں گے۔۔۔کامل کی بات پر فلک نے اچھنبے سے اُسکی طرف دیکھا۔۔۔۔
شاداب اور بیہ نے بھی ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔۔۔کامل کی آخری بات اُن دونوں کو عجیب لگی۔۔۔۔
جی بھائی ۔۔۔بیہ کے کہنے پر کامل نے اپنا سر ہلایا۔۔۔
پھو میں بھی چلو گی آپ دونوں کے ساتھ۔۔۔عروہ نے فوراً سے کہا۔۔۔
اُسکی بات پر سب مسکرا دئیے۔۔۔۔
جی پھو کی جان آپ بھی چلے گی ہمارے ساتھ ۔۔۔بیہ نے عروہ کے گال کھینچ کر کہا ۔۔۔
ناشتہ کرتی فلک اپنے شوہر کو دیکھتے کچھ کچھ تو سمجھ گئی تھی کامل نے شاداب کو یہاں کیوں ہلایا ہے لیکن وہ ابھی کامل سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی جب تک اُسے یقین نہ ہوجائے۔۔۔۔۔




شجیہ نے خضر کے سینے سے سر اٹھاتے اُسے دیکھا جو گہری نیند میں تھا۔۔۔پورے کمرے میں گلابوں کی مہک پھوٹ رہی تھی کل خضر نے اُسے سرپرائز دیا تھا اور پھر ساری رات وہ خضر کی سُلگتی قربت میں تھی۔۔۔۔
اج جو وہ کرنے جا رہی تھی اُسکے بعد یقیناً خضر اُس سے بہت غصّہ ہوتا یہ اُس سے شدید ناراض لیکن اُسے یہ کرنا تھا ۔۔۔۔اور اس بیچ نہ جانے کتنے دنوں کا ہجر وہ اپنے اور خضر کے درمیان لے انے والی تھی۔۔۔۔۔
بیساختہ اوپر کو ہوتے اُس نے خضر کی کھڑی مغرور ناک پر اپنے لب رکھے پھر خضر کی بھوری چمک دار آنکھوں پر جو اس وقت بند تھی ۔۔۔۔نظر اُسکے عنابی لبوں پر گئی تو اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں تلے دباتے وہ دھیرے سے اُس پر جھک ائی نرمی سے اپنا لمس چھوڑتے وہ خضر سے پیچھے ہونے لگی جب خضر نے ایک جھٹکے میں اُسکی قمر میں ہاتھ ڈالتے کروٹ بدلتے اُس پر حاوی ہوتے اُسکی سانسیں بند کی۔۔۔۔
اس اچانک افتاد پر شجیہ کی نیلی آنکھیں حیرت سے پھیلی جبکہ لبوں پر بڑھتی خضر کی شدت کو محسوس کرتے اُسکی دل کی دھڑکنوں میں تلاطم مچا۔۔۔۔۔
اپنی سانسیں رکنے پر اُس نے خضر کو کندھے سے پکڑ کر پیچھے کرنا چاہا جب خضر ایک پل کے لیے اُس سے دور ہوا ۔۔۔۔
شجیہ نے خضر کی بھوری شوخ خمار بھری نظروں میں دیکھتے لمبا سانس بھرا۔۔۔۔
آپ ۔۔آپ جاگ رہے تھے۔۔۔۔شجیہ نے خفا نظروں سے خضر کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
اتنی حسین بیوی پہلو میں ہے جو اپنے ان میٹھے لبوں کا لمس میرے چہرے کے ہر نقش پر ثبت کر رہی ہے تو کیسے اُسکا شوہر سو سکتا ہے۔۔۔تمہارے ان لبوں کی نرمی نے میرے تمام جذباتوں کو پھر سے اجاگر کردیا ہے جانم جنہیں اب سولانا مشکل ہے۔۔۔۔خضر نے شجیہ کی ناک سے اپنی ناک مس کرتے بھاری گھمبیر خمار بھری آواز میں کہا۔۔۔
شجیہ نے خضر کے کہنے پر اپنے لب دانتوں تلے کچلے۔۔۔۔
ہونہہ نہیں کرو یہ ظلم میں اپنی چیز پر برداشت نہیں کرونگا۔۔۔خضر نے شجیہ کے لب اُسکی دانتوں کی گرفت سے آزاد کروائے۔۔۔۔
خضر صبح ہوگئی ہے باہر جانا ہے۔۔۔۔خضر کو اپنی گردن میں جھکتے دیکھ شجیہ نے اُسے روکنا چاہا۔۔۔۔
تین دن کے لیے آؤٹ آف سٹی جا رہا ہو ۔۔مطلب تم سے تین دن کی دوری ۔۔۔جو میرے لیے سوہان روح ہے اسی لیے ابھی ایک ایک پل میں صرف و صرف تمھاری قربت میں گزارنا چاہتا ہوں تاکہ ان پلوں کو یاد کرتے تین دن آسانی سے کاٹ سکو ۔۔۔خضر نے اپنا بیتاب لمس شجیہ کی گردن پر چھوڑتے کہا۔۔۔
شجیہ نے خضر کی بات پر اپنی آنکھیں بند کی جو کام وہ کرنے جا رہی تھی اُس کے لئے اچھا ہی تھا خضر یہاں موجود نہ ہوتا۔۔۔اپنے ہاتھ اپنی گردن پر جھکے خضر کے گھنے سلكي بالوں میں پھیرتے وہ اپنی آنکھیں بند کئے تیز ہوتے تنفس کے ساتھ اُسکا لمس برداشت کر رہی تھی۔۔۔۔
اپنے بالوں میں چلتی شجیہ کی انگلیوں کو محسوس کرتے خضر شجیہ کی شرٹ کندھے سے کھسکا گیا تھا وہاں شدت سے اپنے لبوں کا لمس چھوڑتے وہ شجیہ کا تنفس بری طرح بکھیر گیا تھا۔۔۔۔
میں پھر۔۔۔حویلی چلی جاؤنگی خضر بچوں کے ساتھ۔۔۔شجیہ نے گہری سانس لیتے خضر سے کہا۔۔۔۔
جو تم چاہو بس ابھی مجھے تنگ مت کرو اور میری شدتوں میں میرا ساتھ دو۔۔۔۔خضر کہتا دوبارہ شجیہ کے لبوں کو اپنی گرفت میں لے گیا۔۔۔شجیہ بھی اپنی آنکھیں بند کئے خضر کے لمس کو برداشت کر رہی تھی جس میں شدت تھی ۔۔۔اور شاید یہ اُنکے وصل کی آخری رات تھی اُسکے بعد نہ جانے کتنے دنوں کا ہجر اُن دونوں کے درمیان آجانا تھا۔۔۔
خوشبو شجیہ، عزیر اور خضر سے بہت زیادہ اٹیچ ہوگئی تھی اب پہلے کی طرح ڈرتی نہیں تھی ۔۔۔خضر اور شجیہ کو بھی ایک بیٹی مل گئی تھی اور عزیر کو ایک بڑی بہن ۔۔۔۔




ایڈیلیڈ شہر سے ایک گھنٹے کی مسافت پر دو پہاڑوں کے درمیان ایک نہایت حسین جھرنا ہے جسے واٹر فال گلی کہتے ہے۔۔۔۔
انابیہ شاداب لیزا اور عروہ اس وقت یہاں موجود اس حسین نظارے کو دیکھتے انجواۓ کر رہے تھے شام کا وقت تھا سیاحوں کی ریل پیل یہاں بھی تھی۔۔۔۔
پلیز بیہ میری تصویریں لو نہ۔۔۔۔لیزا نے بیہ سے کہا جس نے بغیر کچھ سوچے سمجھے نفی میں سر ہلایا۔۔۔
جی نہیں تمہیں تصویریں بلکل بھی پسند نہیں آتی سارا وقت تم اسی میں برباد کرونگی۔۔۔۔بیہ نے منع کیا جب لیزا نے اپنے ہونٹ کے اوپر ہونٹ کرتے اُسے معصوم شکل سے دیکھا۔۔۔۔
لیزا کی معصوم سی شکل دیکھ کر بیہ کو تو کچھ نہ ہوا لیکن شاداب کا دل ضرور اُسکے بھرے بھرے ہونٹوں کو دیکھتے اپنی سپیڈ سے تیز دھڑکا تھا۔۔۔
میں لیتا ہوں تمھاری تصویریں بندریاں۔۔۔شاداب نہ اپنے گلے میں ٹانگے کیمرے کو صحیح کرتے لیزا سے کہا ۔۔۔
ہائے سچی تم کتنے اچھے ہو۔۔۔لیزا خوشی سے چیخی۔۔۔۔جبکہ وہ اُسکا بندریا کہنے نوٹس نہیں کرسکی تھی۔۔۔
کل تک تو میں کینگرو عجیب اور نہ جانے کیا کیا تھا۔۔۔شاداب نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے لیزا کے حسین چہرے کو دیکھتے پوچھا۔۔۔
جو پیلے رنگ کی لونگ فروک اور بلیو جینز میں کھلے بالوں اور سادہ چہرے کے ساتھ حسین لگ رہی تھی۔۔۔۔۔
نہیں تو میں نے تو وہ سب کچھ نہیں کہا تم نے غلط سنا ہوگا۔۔۔لیزا نے اپنی گول چھوٹی چھوٹی آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے معصومیت سے جھوٹ بولا۔۔۔
بیہ اپنی دوست کی چالاکی پر نفی میں سر ہلا گئی۔۔۔
شاداب سے لیزا کی شکل دیکھتے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہوا۔۔۔
تم دونوں لو تصویریں میں اور عروہ یہی پاس بیٹھے ہیں۔۔۔لیزا نے عروہ کے بال صحیح کرتے ہوئے کہا۔۔۔
اور لیزا اور شاداب سے تھوڑی دور بیٹھے اس خوبصورت جھرنے کو دیکھنے لگی جو قدرت کا شاہکار تھا اس جھرنے کو دیکھتے لگتا تھا جیسے آنکھوں میں ایک ٹھنڈک سی اُتر رہی ہو یہاں چلتی سرد ہوائیں اُسے بھلی لگ رہی تھی۔۔۔۔
لیزا مختلف قسم کے پوس بنا رہی تھی اور شاداب اُسکی ڈھیر ساری تصویریں اپنے پاس محفوظ کیا جا رہا تھا کبھی کبھی وہ اُسکی بچوں جیسی حرکتوں پر ہنس دیتا۔۔۔۔اُسے لیزا کو دیکھنا اچھا لگ رہا تھا ۔۔وہ جب جب پوس بنا کر اُسکی طرف دیکھ کر ہنستی شاداب کو اپنا دل سینے سے باہر نکلتا محسوس ہوتا۔۔۔۔
جب ایک لڑکا لیزا کے پاس ایا۔۔۔شاداب کی مسکراہٹ پل میں سمٹی ۔۔۔
یس ۔۔۔لیزا نے اپنے پاس کھڑے اس ہینڈسم سے لڑکے کو دیکھتے پوچھا۔۔۔
آپ بہت پیاری ہے میں کب سے آپکو دیکھ رہا تھا کیا نام ہے آپکا۔۔۔۔وہ لڑکا انگریز تھا خالص انگریزی میں لیزا سے مخاطب ہوا۔۔۔
لیزا اپنی تعریف پر فوراً سے لال گلاب ہوئی۔۔۔شاداب کی نظروں کو یہ منظر انتہا کا چبھا اُس لڑکے کے بولے گئے لفظ بھی اُس نے با آسانی سنے تھے۔۔۔جلتی پر تیل کا کام لیزا کی مسکراہٹ اور چہرے کی سرخی نے کیا۔۔۔
شاداب کی تیوری چڑھی کیمرے نیچے کیے وہ اپنی جبڑے بھینچے لیزا تک ایا۔۔۔
چلو یہاں سے۔۔۔لیزا کا ہاتھ اپنی سخت گرفت میں لیے اُس نے لیزا سے کہا جو حیرت سے اُسکا ہاتھ میں مقید اپنے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
شاداب نے اپنی لال ہوتی سبز انکھوں سے اُس لڑکے کی طرف دیکھا جو اس لمبے چوڑے نوجوان کی لال آنکھوں دیکھتے ہی واپس پلٹ گیا تھا۔۔۔
لیکن کیوں اور مجھے اسکو میرا نام تو بتانے دیتے۔۔۔کتنا ہینڈسم تھا وہ ۔۔۔مجھے تو لگتا اُسے مجھ سے پیار۔۔۔۔لیزا آنکھوں میں چمک لئے بولی جا رہی تھی یہ جانے بنا کہ یہ لفظ شاداب کے دل پر تیزاب کا کام کر رہے ہیں۔۔۔
چپ کرو بندریا کہیں کی کوئی پیار ویار نہیں ہوا ہے اتنی جلدی کوں سا پیار ہوجاتا ہے۔۔۔ اور کہاں وہ اتنا ہینڈسم تھا۔۔۔شاداب نے سخت لہجے میں کہا۔۔۔
تم بیوقوف ہونے کے ساتھ ساتھ اندھے بھی ہو ۔۔پیار تو پل میں ہوجاتا ہے ۔۔پھر دھیرے دھیرے وہ سفر طے کرتا ہے پہلے محبت میں بدلتا ہے پھر عشق میں اور آخر میں جنون بن جاتا ہے۔۔۔لیزا نے شاداب کے ماتھے پر اپنی دو اُنگلیاں مارتے ہوئے کہا۔۔۔
اور پتہ کیسے چلتا ہے کہ ہم کون سا سفر طے کر رہے ہیں۔۔۔شاداب نے اُسکی شربتی آنکھوں میں دیکھتے پوچھا ۔۔۔
یہ تو مجھے بھی نہیں پتہ بیہ کو پتہ ہے اُس سے پوچھتے ہیں اور تم اگر نہ بھگاتے اُسے تو شاید وہ اظہار بھی کے دیتا۔۔۔لیزا نے کندھے اچکا کر افسوس سے کہا۔۔۔
شاداب اُسکی بات پر اپنے جبڑے بھینچ گیا ایک نظر اُس لڑکے پر ڈالی جو اب بھی لیزا کو دیکھ رہا تھا اور لیزا کا ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں لیے وہ اُسے اپنے سائے میں چھپاتے بیہ کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔
نہ محسوس انداز میں وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آرہے تھے جسکا اُن دونوں کو ہی اندازہ نہیں تھا۔۔۔۔




وہ لاسٹ پیریڈ میں کلاس میں داخل ہوا تھا۔۔۔یونی اتے ہی وہ اسے کہیں نظر نہیں آئی یہ سوچ کر وہ کلاس میں ایا کہ بیہ شاید کلاس میں ہوگی لیکن اُسے یہاں بھی نہ پاتے حسام نے اپنے جبڑے بھینچے۔۔۔۔
کلاس میں موجود اسٹوڈنٹ کی فکر کیے بنا وہ تیز قدموں سے کلاس سے باہر نکلا۔۔۔۔
جون بیہ کہاں ہے۔۔۔جون کو فون لگاتے اُس نے سیدھا سوال کیا۔۔۔
سر میں آپکو یہی بتانا چاہتا تھا لیکن مجھے وقت نہیں ملا۔۔۔جون کی دھیمی آواز فون میں گونجی۔۔۔
سر میڈم کامل خان کے کزن کے ساتھ شہر سے دور ایک واٹر فال پر گئی ہے۔۔۔جون کی بات سنتے حسام نے ضبط سے اپنی آنکھیں بند کی اپنے جبڑے وہ اتنی طاقت سے بھینچے ہوئے تھا کہ اُسکے ماتھے کی رگیں واضح ہورہی تھی ۔۔۔۔
وہ وہاں ایک غیر مرد کے ساتھ گھوم رہی تھی حسام کے وجود میں اشتعال بھرتا چلا گیا۔۔۔اُسکا شدت سے دل کیا کامل خان کا گلا دبانے کا وہ سمجھ گیا تھا کامل خان نے کیوں شاداب خان کو بلایا ہے۔۔۔اور یہی سوچ اُسکے وجود میں بیچینی بھر گئی تھی۔۔۔اس وقت اُسے اپنا آپ جلتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔
تیز قدموں سے وہ یونی سے باہر نکلا۔۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے وہ جتنی تیز گاڑی چلا سکتا تھا چلا رہا تھا۔۔۔
تقریباً ایک گھنٹے کا سفر اُس نے پندرہ منٹ میں طے کیا تھا واٹر فال کے مقام پر اتے ہی ٹھندی ہواؤں نے اُسکا استقبال کیا ۔۔۔
نظریں بیقراری سے بیہ کو ڈھونڈ رہی تھی جبکہ چہرے پر صاف اضطراب واضح تھا۔۔۔۔
جب وہ اُسے دکھائی دی سبز شیفون کی گھیر دار فروک میں جھرنے سے قدرے دور بیٹھی مسکراتے ہوئے کالے کھلے بال جو ہوا کے باعث اُسکے چہرے سے اٹھکھیلیاں کر رہے تھے۔۔۔سانولی رنگت ہرے لباس میں دمک رہی تھی تیکھے نین نقش وہ کسی بات پر ہنس رہی تھی اور یو معلوم ہو رہی تھی جیسے وہ بھی اس حسین چھڑنے کی طرح قدرت کا شاہکار ہو۔۔۔
اُسے نظروں کے سامنے دیکھتے حسام کے تڑپتے دل کو چین ملا۔۔۔جب اُسکے ساتھ بیٹھے شاداب پر اُسکی نظر پری اور اُسے اپنے ضبط کا دامن چھوٹتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔لمبے دھک بھرتا وہ اُن تک ایا ۔۔۔۔
اہمممم۔۔۔بیہ کے قریب جاتے حسام نے اپنے سخت تاثرات پر قابو پاتے گلا کھنکھارا وہ تینوں جو عروہ کی بات پر ہنس رہے تھے آواز پر سامنے کی طرف متوجہ ہوئے جہاں کھڑے حسام کو دیکھتے بیہ کو حیرت ہوئی ۔۔۔
سفید شرٹ اور بلیو پینٹ میں وہ ہمیشہ کی طرح شاندار لگ رہا تھا۔۔۔
حسام کی نظروں کا ارتکاز صرف بیہ تھی تو بیہ بھی اُسکی کالی آنکھوں میں دیکھے گئی تھی۔۔۔
ارے سر آپ۔۔۔لیزا نے جلدی سے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔۔۔بیہ نے لیزا کی آواز پر ہوش میں اتے فوراً سے اپنی نظروں کو پھیرا ۔۔۔
جی میں وہ دراصل میں یہاں اج وزٹ کرنے ایا تھا تو اتفاق سے آپ دونوں پر نظر پر گئی ۔۔۔۔حسام نے بیہ سے اپنی نظریں ہٹاتے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
جی سر ہم بھی یہاں وزٹ کرنے آئے تھے۔۔۔آئے نہ سر جوائن کرے آپ ہمیں۔۔۔۔لیزا نے حسام کو پیشکش کی۔۔۔بیہ نے لیزا کی بات پر گڑبڑا کر اُسکی طرف دیکھا۔۔۔
حسام کو سامنے دیکھتے پھر اُسکے دل نے دغا دے دی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی ریس میں بھاگ رہا ہو۔۔۔۔
جی ضرور ۔۔۔حسام نے بغیر کسی تکلف کے کہا اور بیہ اور شاداب کے بیچ میں بچے چھوٹے سے فاصلے پر یو بیٹھا کہ بیہ کا کندھا اُسکے کندھے سے مس ہوا۔۔۔بیہ کرنٹ کھاتے اچھلی اور اپنے اور حسام کے بیچ تھوڑا سا فاصلہ بنا گئی جو حسام کو انتہائی چبھا لیکن کر بھی کیا سکتا تھا اسی لیے خاموشی سے بیٹھ گیا۔۔۔
اس نے ایک نظر شاداب کو دیکھا جو اُسکی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔شاداب کو دیکھتے ہی حسام کا دل تو کیا ابھی اسکو اسی جھرنے کے پانی میں پھینک دے جو اُسکی بیوی کے ساتھ یہاں گھومنے ایا ہوا تھا۔۔لیکن پھر بہت مشکلوں سے لیپرڈ والے خیالات کو سلاتے اُس نے زبردستی شاداب کو دیکھتے مسکرانے کی کوشش کی۔۔۔۔
شاداب بھی حسام کی طرف دیکھتے مسکرا گیا۔۔۔
آپ بھائی ہے ان کے۔۔۔حسام نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔
نہیں یہ میرے کزن ہے ۔پاکستان سے آئے ہیں۔۔۔اس سارے وقت میں وہ اب بولی تھی دل تھا جو ایک سو تیس کی رفتار سے دھڑکے جا رہا تھا اور پیٹ میں الگ سے تلتلیان ارتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اُسے حسام کو اپنے نزدیک بیٹھا دیکھ کر ۔۔۔اوپر سے حسام کے وجود سے اٹھتی مردانا پرفیوم کی خوشبو اُسکے حواسوں پر چھا رہی تھی۔۔۔۔
اچھا۔۔کیا بات ہو رہی تھی۔۔۔حسام نے بات اگے بڑھانی چاہی اور یہ سب کرتے اور بولتے وقت اُسے کتنی شرمندگی ہو رہی تھی یہ وہی جانتا تھا۔۔۔کیسے اپنے اسٹوڈنٹ کے بیچ میں وہ آکر بڑے مزے سے بیٹھ گیا تھا بیشک اُس میں سے ایک اُسکی بیوی تھی لیکن پھر بھی باقی دو تو اُسکے اسٹوڈنٹ ہی تھے۔۔۔۔
بیہ ہمیں پیار کے سفر کے بارے میں بتا رہی تھی ۔۔۔لیزا نے بیہ کے آنکھیں دکھانے کے باوجود حسام کو بتایا۔۔۔
دلچسپ پھر تو میں بھی سننا چاہو گا۔۔۔حسام نے گہری نظروں سے بیہ کو دیکھتے کہا جو اچانک یو حسام کے دیکھنے پر اپنی سیاہ آنکھیں جھکا گئی ۔۔۔
چلو بیہ بتاؤ پہلی منزل سے۔۔۔شاداب نے پُر جوش ہوتے پوچھا۔۔۔اور حسام نے اُسکی زبان سے ادا ہوئے نام پر اپنی آنکھیں بند کی کیوں یہ انسان چاہ رہا تھا اُسکے اندر کا لیپرڈ نکل کر باہر آجائے جسے وہ بہت مشکلوں سے سُلایا ہوا ہے بیہ کا نام شاداب کی زبان سے سنتے اُسے لگا جیسے اُسکے جسم پر کسی نے پیٹرول ڈال کر آگ لگا دی ہو۔۔۔۔
پہلی منزل پسند ہوتی ہے ہم کسی کو دیکھتے ہے اور وہ ہمیں پسند آجاتا ہے۔۔۔۔لیکن یہ پسند کچھ دنوں بعد بدل جاتی ہے جسے آجکل کے ٹرینڈ کے مطابق ہم کرش کا نام دیتے ہیں۔۔۔بیہ نے اپنا سارا دھیان عروہ پر لگایا جو اپنی سبز انکھوں سے حسام۔کو ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
حسام کا روم روم سماعت بنا انابیہ کو سن رہا تھا یہ آواز کانوں میں رس گھولنے جیسی تھی جسے وہ ساری زندگی سن سکتا تھا۔۔۔
بیہ کی بات پر شاداب اور لیزا نے فوراً سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر اپنی اپنی آنکھیں پھیر لی۔۔۔۔
دوسری منزل پیار ہوتی ہے ۔۔۔جہاں سب اچھا لگتا ہے نیا نیا احساس ہوتا ہے لیکن پیار میں اگر وہ ہم سے چھین جائے یا دور چلے جائیے ہمیں زیادہ تکلیف نہیں ہوتی ہم بھول جاتے ہیں۔ پیار میں ہم پابند نہیں ہوتے اپنے محبوب کے ۔۔۔۔تیسری منزل محبت ہے جس میں محبوب سے پیارا کوئی نہیں ہوتا محبوب ہوتا ہے تو سارا دن حسین ہوتا ہے محبوب نہیں تو سارا دن ساری رات اُداس ۔۔۔محبت میں ہمیں اپنا بھی خیال ہوتا ہے اور محبوب کا بھی ہم اپنی پسند کو بھی اول ترجیح دیتے ہیں اور محبوب کی بھی۔۔۔بیہ نے عروہ کے بال صحیح کرتے ہوئے کہا۔۔۔لیزا تھوڑی تلے ہاتھ رکھے اُسے انتہائی غور سے سن رہی تھی۔۔۔
چوتھی منزل۔۔۔اور وہ ہے عشق ۔۔۔جو بھلائے نہ بھولے جسے بھولنے کی لاکھ کوشش کرلو وہ نہیں بھول پاؤں گے آپ کبھی نہیں ساری زندگی نہیں ۔۔۔۔جس میں کبھی اپنی ذات کا خیال اتا ہی نہیں ہے محبوب کے منہ سے نکلی ہر بات پتھر کی لکیر بن جاتی ہے محبوب آپ پر ہزاروں ستم بھی کر لے وہ آپکا عشق ہی رہتا ہے ۔۔محبوب کی پسند آپکی پسند ۔۔۔اُسے جو نہیں پسند آپ اُس سے قطع کنارا کر لیتے ہو ۔۔عشق وہ ہے جس میں محبوب کے بغیر ایک پل بھی رہنا مرنے کے مترادف ہوتا ہے عشق وہ ہے جس میں محبوب کی ایک جھلک ہی آپکے لیے کافی ہوتی ہے عشق وہ ہے جس میں آپ محبوب کا نام جپتے رہو عشق وہ ہے جس میں آپ محبوب کے ایک حکم پر اپنا سر تک قلم کرنے کو تیار ہو جاؤ۔۔۔مختصر لفظوں میں عشق موت ہے۔۔۔جس میں آپکو آپکا محبوب مل جائے تو عید ورنہ عمر بھر کا غم آپکا نصیب ۔۔۔۔بیہ نے ایک ضبط کے عالم میں کہا۔۔
اور حسام وہ یک تک بیہ کے چہرے کو دیکھے گیا ایک فسوں تھا جو وہ باندھ گئی تھی۔۔۔اُسکی نظریں بیہ کے حسین چہرے سے ہٹنے سے انکاری تھی۔۔۔۔
لیزا اور شاداب بھی سن ہوگئے تھے ۔۔۔
اپنے اوپر نظروں کی تپش محسوس کرتے بیہ نے اپنا رخ موڑ کر حسام کی آنکھوں میں دیکھا جہاں سے لپکتے جذبات دیکھتے اُسکی سانسیں بے ربط ہوئی وہ یک تک حسام کی سیاہ آنکھوں میں دیکھے گئی جہاں ہلکی ہلکی نمی کے ساتھ ایک محبت کا جہاں آباد تھا۔۔۔۔
حسام بیہ کی آنکھوں میں دیکھتا جیسے اُسے پیغام دینا چاہتا تھا کہ اُسکے دل میں چھپے جذبوں کو پہنچان لو ۔۔۔
اور جنوں بیہ تم نے جنون تو بتایا نہیں۔۔۔۔لیزا فوراً سے ہوش میں اتی بولی۔۔۔
لیزا کی آواز پر اُن دونوں کا فسوں ٹوٹا۔۔بیہ نے جلدی سے سرخ چہرے کے ساتھ اپنا رخ مورا جب حسام کی سنجیدہ خوبصورت آواز اُسکے کان کے پردوں سے ٹکرائیں۔۔۔۔
جنون پانچویں منزل ہے۔۔۔جس میں محبوب کو ہر حال میں پانا ہوتا ہے آپکو محبوب ہر لمحہ اپنے پاس چایئے ہوتا ہے جس میں محبوب کی ذرا سی دوری پر آپ پاگل ہوجاتے ہو ۔۔۔اُسکی ذرا سی نظراندازی آپکی جان سولی پر لے اتی ہے جہاں اُسکی ذرا سی تکلیف بھی آپکو اپنی لگتی ہے جہاں اُسکے آنسو آپکو اذیت دیتے ہیں ۔جہاں محبوب پر صرف آپکی نظریں ہی آپ برداشت کر پاؤں جہاں اُسکی ایک جھلک اُسکے ایک بال پر بھی آپ کسی کی نظر نہ پڑنے دو۔۔۔جہاں آپ اُسکی ذات پر مکمل طور پر اپنا حق حاصل کر سکو۔۔۔۔۔۔حسام نے زمین پر کسی غیر مرئی نقطے کو تکتے ہوئے شدت بھرے لہجے میں کہا ۔۔۔بیہ نے ایک جھٹکے سے اُسکی طرف دیکھا۔۔۔
میرے خیال سے اب چلنا چایئے رات ہونے والی ہے۔۔۔شاداب نے لیزا کے خوبصورت چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بیہ اور حسام کی باتوں کو سن کر وہ سمجھ گیا تھا ابھی وہ پہلی منزل ہے جہاں لیزا اُسکی پسند ہے اب یہ پسند کب تک رہنے والی ہے یہ وہ نہیں جانتا تھا۔۔۔
ہاں چلو۔۔۔لیزا نے بھی جلدی سے کہا۔۔۔حسام بھی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہو۔۔۔اور جھکتے عروہ کو اپنی گود میں اٹھایا۔۔۔
بیہ نے اٹھتے عروہ کو حسام کی گود میں دیکھتے عروہ کے بال حسام کے بٹن سے ہتائے ایسا کرتے حسام کے سینے سے اُسکی اُنگلیاں ٹچ ہوئی ۔۔۔بیہ نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ واپس کھینچا۔۔اس لمس سے اسکے وجود میں سنسنی سی دور گئی۔۔۔اپنے سینے پر بیہ کی انگلیوں کے لمس سے حسام کو وجود میں ایک سکون سا دوڑتا محسوس ہوا بیہ کے جلدی سے اپنا ہاتھ ہٹانے پر وہ اپنی مسکراہٹ ضبط کرتا رہ گیا۔۔۔۔
شاداب نے عروہ کو حسام کی گود سے لیا لیزا نے الوادعی کلمات حسام سے کیے بیہ اس سارے وقت میں خاموش تھی وہ اپنے منہ سے ایک لفظ نہ بولی کہتی بھی کیسے اس انسان کے آس پاس ہونے سے منہ پر جیسے قفل پر جاتا تھا۔۔۔
حسام نے دور جاتی بیہ کی پشت کو گہری نظروں سے تکا جس طرح وہ اُسکی آنکھوں میں دیکھتے سب بھول جاتی تھی حسام کو لگ رہا تھا وہ بہت جلد اپنی منزل تک پہنچ جائے گا۔۔۔لیزا کو۔یہاں دیکھتے اسکو تھوڑا سا سکون ملا تھا شاداب کی آنکھوں میں وہ لیزا کے لیے پسندیدگی محسوس کر چکا تھا