قسط: 11
کامل نے فلک کے کمرے میں اتے دروازہ بند کیا۔۔پلٹتے ہی اُسکی نظر اپنی زندگی پر گئی جو سارے جہاں سے بیگانہ اپنی بھوری آنکھیں بند کئے گہری نیند میں محو تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کامل نے قدم فلک کی طرف بڑھائے بیڈ پر بیٹھتے اُس نے اپنے پاؤں جوتوں کی قید سے آزاد کیے اور آرام سے فلک کے سرہانے بیٹھتے اُس نے احتیاط سے فلک کے ماتھے پر آئے بالوں کو پیچھے کیا۔۔۔
ذرا سا جھکتے اپنے دہکتے لب فلک کی پیشانی پر رکھے ۔۔۔۔۔کیسا جادو تھا اس لمس میں فلک کے لمس کو محسوس کرتے اُسے اپنی ساری تھکن اُترتی محسوس ہوتی تھی۔۔۔۔
دھیرے سے لب سرائیت کرتے اُسکی بند ہوئی آنکھوں پر آئے پلکوں پر ٹھہری نمی نے کامل خان کے لبوں کو ہلکا سا نم کیا۔۔۔۔۔۔
اپنے کامل کو معاف کردو میری جان میری زندگی۔۔۔۔تمہیں اُن نازک مراحل میں یہ سب برداشت کرنا پر رہا ہے۔۔۔پر میرا یقین کرو تم سے زیادہ مجھے یہ ہجر دیمک کی طرح ہلکے ہلکے ختم کر رہا ہے۔۔۔کامل نے فلک کی گردن میں منہ چھپائے گھمبیر آواز میں کہا ۔۔۔۔
دھیرے سے اپنا ہاتھ فلک کی قمیض کے اندر سے اُسکے پیٹ پر رکھا۔۔۔
ہمارا بچا ناجائز نہیں ہے۔۔ اور قسم ہے مجھے اپنی محبت کی میں اُس عورت کا انجام نہایت ہی بُرا کرونگا جس نے ہمارے بچے کو ناجائز کہا ہے۔۔۔۔۔اپنے بابا کو معاف کردو بیٹا جو اُس وقت تمہیں اور تمھاری ماما کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔۔تمہارے بابا اپنے فرض کے آگے مجبور ہے ۔۔۔فلک کے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہی کامل خان کی سبز آنکھیں نم ہوئی تھی ۔۔۔ اپنی اولاد سے مخاطب ہوتے ہوئے اُسکے دل میں عجیب سے احساسات رونما ہوئے تھے۔۔۔
فلک کی گردن میں منہ دیے اُس نے گہرا سانس بھرتے اُسکی مہکتی خوشبو اپنے وجود میں اتاری تھی۔۔۔۔۔
مجھ پر غصّہ کرنا مجھے بُرا بھلا بولنا چاہے تو مجھے مار بھی لینا لیکن مجھ سے نفرت مت کرنا تمھاری ان آنکھوں میں نفرت نہیں دیکھ سکتا میں اپنے لیے ۔۔۔کامل نے فلک کی گردن سے منہ نکالتے اُسکی بند آنکھوں کو دھیرے سے اپنی انگلیوں کی پوروں سے چھوا۔۔۔۔
نظر بھٹک کر اُسکی ناک میں موجود بالی پر گئی ۔۔۔۔احتیاط سے اُس نے اپنے لب اُس چمکتی بالی پر رکھے ۔۔۔۔لب سفر کرتے اُسکے گلابی لبوں تک آئے اور کامل خان کی تشنگی میں اضافہ ہوا۔۔۔۔
دھیرے سے جھکتے اُس نے فلک کے گلابی لبو پر اپنا نرم لمس چھوڑا تھا۔۔۔کچھ تھا اس لمس میں ایک سکون سا جو یہ لمس محسوس کرتے ہی اُسکے وجود میں سرور سرایت کر جاتا تھا۔۔۔۔۔۔
پیٹ پر رکھا ہاتھ فلک کے وجود پر بیباکی سے سفر کرنے لگا۔۔۔شدت سے دل کیا اس وجود کو اپنی شدتوں میں بھگونے کا۔۔۔۔۔۔تشنگی تو مٹنی تھی نہیں لیکن فلک اُسکے لمس سے ضرور جاگ جاتی جو وقت کے ساتھ ساتھ شدت پکڑ رہا تھا۔۔۔کامل نے بہت مشکل سے خود پر ضبط کرتے فلک کے لبوں کو آزادی دی تھی لیکن ہاتھ ابھی بھی بیباکی اور حق سے اُسکے وجود کی دلکشی کو محسوس کر رہے تھے۔۔۔۔۔
کامل نے اپنی جیب سے موبائل نکالا۔۔دھیرے سے لب فلک کے لبوں پر رکھتے اُس نے یہ لمحہ کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا تھا۔۔۔
کبھی فلک کے گال پر کبھی اُسکی ناک پر اور کبھی اُسکی گردن پر اپنے لب رکھتے اُس نے یہ لمحے موبائل میں محفوظ کیے ۔۔۔۔
تصویریں لینے کے بعد دھیرے سے جھک کر اُسکے پیٹ پر اپنے لب رکھے۔۔۔اور فلک کی گردن میں منہ دیے اپنی آنکھیں بند کی تھی ۔۔۔۔اُسے سکون صرف فلک کے قریب ہونے پر ہی ملتا تھا۔۔۔۔۔بیچین دل کو اب راحت ملی تھی۔۔۔۔اُسکا چین سکون اور قرار صرف ایک وجود کے پاس تھا اور وہ تھی فلک ۔۔۔۔۔
آج جب فلک نے اُسکے بچے کو ناجائز کہا تھا تب کامل خان کو اپنا وجود ٹکڑے ٹکڑے ہوتا محسوس ہوا تھا۔۔۔اس میں غلطی فلک کی نہیں تھی وہ یہ بھی جانتا تھا۔۔۔جبکہ سائرہ کو وہ اب کسی صورت بھی نہیں چھوڑنے والا تھا کیونکہ معاملہ اب ذرا پرسنل ہوگیا تھا۔۔۔۔۔



خضر نے کمرے میں اتے نہایت نرمی سے شجیہ کو بیڈ پر لٹایا تھا۔۔خضر کی آنکھوں میں قربت کی طلب دیکھتے ۔۔۔شجیہ کے ہاتھ پسینے سے بھرے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
خضر نے ایک جھٹکے سے اپنی شرٹ اپنے وجود سے علیحدہ کی ۔۔۔
ڈر لگ رہا ہے۔۔۔خضر نے شجیہ پر جھکتے اُسکی نیلی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔
نہیں تو ۔۔۔شجیہ نے پلکیں جھکا کر دھیمی آواز میں کہا ۔۔۔اُسے ڈر تو لگ رہا تھا خضر کی قربت سے۔۔۔۔دل کی دھڑکنیں الگ تال پر دھڑک رہی تھی لیکن خود کو مضبوط بھی تو دیکھانا تھا۔۔۔۔
سوچ لو۔۔۔میری شدت بھری قربت برداشت کر پاؤں گی ۔۔۔خضر نے شجیہ کے گال پر اپنی ناک ٹریس کرتے گھمبیر آواز میں پوچھا۔۔اور شجیہ کو لگا اُسکا دل سینے سے نکل کر باہر آجائے گا۔۔۔۔۔۔۔
سوچ لیا۔۔۔شجیہ نے اپنے آپکو مضبوط کرتے کہا۔۔۔
میری جان تمہیں اپنا اعتماد بھروسہ اور محبت سونپ رہا ہو اُمید کرتا ہو ان سب کو سمنبھال کر رکھو گی۔۔۔۔۔خضر نے شجیہ کی نیلی آنکھوں میں دیکھتے نرمی سے کہا۔۔۔
آپکی محبت آپکا بھروسہ میں یہ سب سمنبھال کر رکھو گی۔۔۔کبھی بھی کبھی بھی زندگی میں شجیہ خضر شجاعت چوہدری آپکا اعتبار نہیں توڑے گی بس بدلے میں مجھے اپنے شوہر کی محبت چاہئے ۔۔۔شجیہ نے اپنا ہاتھ خضر کی داڑھی پر رکھتے آنکھوں میں محبت کے دیپ جلانے کہا۔۔۔۔۔
محبت تو دھیرے دھیرے تم سے ہو ہی گئی ہے دن با دن بڑھتی بھی جائے گی۔۔۔۔خضر شجاعت چوہدری کی محبت پر اُسکے دل پر صرف اور صرف شجیہ خضر شجاعت چوہدری کا حق ہے۔۔۔اور ہمیشہ رہے گا۔۔۔۔خضر نے کہتے ساتھ اپنے لب شجیہ کی پیشانی پر ثبت کیے تھے۔۔۔شجیہ کے چہرے کے ہر نقش کو چھوتا وہ شجیہ کی دھڑکنیں بڑھا گیا ۔۔۔۔۔
نظر شجیہ کے ادھ کھلے گلابی لبوں پر گئی تو پوری شدت کے ساتھ وہ اُسکے لبوں پر جھک ایا۔۔۔۔۔۔۔
شدت سے شجیہ کی سانسیں پیتے وہ شجیہ کی سانسیں بند کر گیا تھا۔۔۔۔۔
شجیہ نے خضر کی سینڈو کو اپنی مٹھیوں میں جکڑا تھا۔۔۔۔۔۔۔
خضر نے شجیہ کے لبوں کو آزادی بخشی شجیہ کی پلکیں اُسکے عارض پر جھکی ہوئی تھی اُس میں ہمت نہیں تھی خضر کی لو دیتی آنکھوں میں دیکھنے کی۔۔۔
مجھے تو لگتا تھا جس طرح میری بیوی میری آنکھوں میں دیکھتے محبت کا اظہار کرتی ہے میری قربت میں وہ میری شدتوں کا ساتھ دے گی۔۔۔خضر کی بےباک سرگوشی پر شجیہ کا رنگ سرخ کندھاڑی ہوا۔۔۔زبان تو تالو سے چپک گئی تھی۔۔۔۔
مجھے یہ نیلی آنکھیں اپنی قربت میں جھکی نہیں چایئے۔۔۔خضر نے شجیہ کی تھوڑی پکڑ کر اُسکی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔۔اور پھر اُسکی گردن میں جھک ایا۔۔۔۔۔نرمی سے اپنے دہکتے لب اُسکی گردن پر رکھتے وہ شجیہ کو اپنی قربت میں پگھلاتا چلا گیا۔۔۔شجیہ کے کندھے سے قمیض نیچے کرتے وہ بخودی میں اپنے لب اُسکی کندھے پر رکھ گیا ۔۔۔شجیہ کے ہاتھ خضر کے سر پر گئے اُسکے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیرتے وہ اپنی گردن اور کندھے پر اُسکا لمس برداشت کر رہی تھی۔۔۔۔خضر کے لمس میں شدت محبت اور جنونیت سب تھا۔۔۔۔۔
خضر کے لب اب حدود کو پار کرتے اُسکے پورے جسم پر سرائیت کر رہے تھے۔۔اور شجیہ کی سانسیں اتھل پٹھل ہورہی تھی۔۔۔۔دھیرے دھیرے وہ اپنے اور شجیہ کے درمیان کی ہر دوری کو مٹاتا چلا گیا۔۔۔۔کمرے کی معنی خیز خاموشی میں دونوں کی بکھرتی سانسوں کا شور گونج رہا تھا۔۔۔۔شجیہ اپنے وجود پر خضر کی شدتیں برداشت کرتے آسودگی سے مسکرا دی۔۔۔اُسے نہیں پتہ تھا اتنی جلدی اُن دونوں کے درمیان سب صحیح ہو جائے گا۔۔۔اُسکا شوہر اُسے اپنی بیوی تسلیم کر لے گا۔۔۔لیکن جو کچھ بھی تھا وہ بہت خوبصورت تھا۔۔۔۔۔۔اس بات سے بےخبر کہ جلد کوئی آکر اُسے اس خوبصورت آشیانے سے دور لے جائے گا۔۔۔۔




فجر کی اذان جب کامل کے کانوں پر پڑی تب وہ نیند سے جاگا اُس وجود کے پاس اُسے انتہا کا سکون محسوس ہوتا تھا اتنی راتوں سے وہ جو جاگ رہا تھا بےچینی سے اج جاکر وہ آرام دھ نیند سویا تھا۔۔۔
اُس نے ایک نظر فلک کو دیکھا جو ویسے ہی لیتی ہوئی تھی۔۔۔۔۔کامل نے دھیرے سے اٹھ کر اُس کے ماتھے پر اپنے لب رکھے تھے۔۔۔۔ فلک کے پہلو پر رکھا اپنا ہاتھ ہٹاتے اُس نے نہایت آرام سے اُسکی ناک میں پہنی وہ بالی نکالی تھی۔۔۔اُسے اپنی ہٹیلی پر رکھتے وہ گہرا مسکرایا ۔۔۔۔
جانے کا وقت ہوا بیگم لیکن بہت جلد آرام سے تمہیں اپنی باہوں میں جکڑے صبح دیر تک سوؤں گا۔۔۔۔کامل نے فلک کے گال پر اپنے لب رکھے اور اُسکی بالی کو جلدی سے اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ڈالا ۔۔۔۔
فلک سے دور جانا مشکل ہوتا تھا اُس کے لئے لیکن جانا بھی ضروری تھا۔۔بس کچھ دِن اور تھے جیسے ہی سائرہ کی طرف سے ہلکا سا بھی کلیو ملتا وہ اُسکی زبان کھینچنے والا تھا اپنے بچے کو نہ جائز بولنے پر۔۔۔
جس طرح خاموشی سے وہ ایا تھا ویسے ہی کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔



خضر اپنے سینے پر سر رکھی شجیہ کو دیکھ رہا تھا اپنی انگلیوں سے اُسکے برہنہ بازو پر لکیر بناتے وہ گہری سوچ میں تھا۔۔صبح اٹھتے ہی شجیہ کو اپنے پاس بکھری حالت میں دیکھتے اپنی قربت میں رنگا دیکھ وہ سرشار ہوا تھا۔۔۔۔
وہ اپنے دل کے بدلتے حالات کی وجہ سے مجبور ہوتے شجیہ کی طرف اپنے قدم بڑھا گیا تھا۔۔۔۔جس طرح اُس نے شجیہ کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت دیکھی تھی وہ اُس پر یقین کر بیٹھا تھا آخر کب تک جھٹلاتا۔۔۔وہ بھی کھل کر اپنی زندگی جینا چاہتا تھا۔۔۔فلک کی بات اور پھر کل شجیہ کہ منہ سے یہ بات سنتے کہ ایک سال بعد وہ الگ ہوکر کسی اور کا گھر بسائے گی اُسکے وجود میں ایک درد سا بھر گیا تھا۔۔۔۔اُسے شجیہ کی عادت ہونے لگی تھی اور محبت ۔۔۔محبت تو خضر شجاعت چوہدری کو شجیہ کی پہلی جھلک دیکھتے ہی ہوگئی تھی۔۔۔جس کو اُس نے سلا دیا تھا۔۔۔۔یہ لڑکی چند دنوں میں ہی اُسکے دل میں اپنا گھر بنا گئی تھی۔۔۔
آخر کیسے وہ اُسکو نظرانداز کر سکتا تھا اُسکی خوشبو اُسکے آس پاس ہونا اُسے تقویت بخشتا تھا۔۔اور خضر شجاعت چوہدری دھیرے دھیرے اس نیلی انکھوں والی لڑکی کا اسیر ہوگیا تھا۔۔جو لہجہ وہ دوسروں کے ساتھ استعمال کرتا تھا ویسا سخت لہجہ شجیہ کے لیے استعمال کرتے اُسے خود بھی نہایت بُرا لگتا تھا اور پھر جب اُس نے سامیہ کو جواب دیتے اسکی زبان بند کروائی تھی وہ بات خضر کے دل میں اُسکی جگہ بنا گئی تھی۔۔۔۔۔
محبت پر یقین وہ رکھتا نہیں تھا اُسے لگتا تھا کوئی بھی لڑکی جو اُسکی زندگی میں شامل ہوگی وہ صرف اُسکے پیسوں اور رتبے کو دیکھ کر ہی ہوگی لیکن شجیہ کی آنکھوں میں کوئی لالچ نہیں تھا۔۔۔وہ تو اُس سے اُسکی محبت چاہتی تھی پیسے نہیں ۔۔۔شجیہ کے لیے اپنے بدلتے جذبات سے وہ بخوبی واقف تھا لیکن اُسے یہ ڈر تھا اگر وہ شجیہ کے سامنے اُن جذبوں کا اظہار کر دے گا تو شاید شجیہ اُسے ٹھکرا دے گی اُسکا مذاق بنائے گی۔۔۔لیکن ایسا کچھ بھی نہ تھا پاس لیتا وجود اُس سے ہر غرض سے پاک محبت کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اگر اُسکی بیوی اُس سے محبت کرتی تھی اُس سے اُسکی محبت کی تمنائی تھی تو خضر شجاعت چوہدری پر یہ فرض بنتا تھا کہ وہ اُسے اپنی محبت سے نوازے۔۔۔۔۔
خضر نے جھکتے اُس کے کندھے پر اپنے لب رکھے تھے۔۔۔۔۔
شجیہ نے خضر کی حرکت پر اپنا چہرہ مزید اُسکے سینے میں چھپایا تھا ۔۔۔
خضر گہرا مسکرایا مطلب وہ جاگ رہی تھی۔۔۔
صبح بخیر۔۔۔خضر نے کروٹ بدلتے شجیہ پر جھکتے کہا جو چہرے پر حسین مسکراہٹ سجائے اُسکی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔نیلی انکھوں میں رت جگے کی لالی صاف واضح تھی۔۔۔۔
ماما بابا کے جانے کے بعد یہ پہلی صبح ہے جب میں مسکراتے ہوئے اٹھا ہوں ۔۔۔۔۔۔خضر نے شجیہ کے بال کان کے پیچھے کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اچھا جی اور وہ کیوں۔۔۔شجیہ نے خضر کی کھڑی مغرور ناک کو اپنی انگلیوں سے دباتے ہوئے پوچھا۔۔۔
وہ یوں کہ اج میرے پہلو میں ایک ایسی لڑکی موجود ہے جس کے ہونے سے میرے وجود میں سکون سا بھر گیا ہے جسکی محبت نے میرے دل پر موجود سختی کے لبادے کو توڑ دیا ہے۔۔ خضر نے شجیہ کی گردن پر اپنے دیے گئے نشان پر انگوٹھا پھیرتے کہا۔۔۔۔
اوہ اچھا جی ۔۔۔ایسی بات ہے۔۔لیکن آپ تو اس لڑکی سے محبت نہیں کرتے۔۔۔شجیہ نے خضر کے ماتھے پر آئے بالوں کو اپنے ہاتھ سے صحیح کرتے دھیمی آواز میں کہا ۔۔
کیا رات کو میرا عملی اظہار کافی نہیں تھا۔۔۔خضر نے شجیہ کی بات پر اُسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
چوہدری صاحب کبھی کبھار لفظی اظہار بھی ضروری ہوتا ہے۔۔۔شجیہ نے اپنی ناک سکورتے ہوئے کہا۔۔۔
تو پھر سنو۔۔مجھے اس نیلی انکھوں والی لڑکی سے محبت ہوگئی ہے شاید تب جب یہ نیلی انکھوں والی لڑکی لال سوٹ میں میرے گھوڑے کے پاس کھڑی اُسے پیار کر رہی تھی۔۔۔خضر نے کہتے اپنا لب دانت تلے دبائے شجیہ کے حیرت زدہ چہرے کو دیکھا تھا۔۔۔
مطلب تب آپ نے مجھے دیکھا تھا۔۔۔آپ مجھے پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔۔۔شجیہ نے حیرت سے پوچھا۔۔۔
خضر نے اثبات میں سر ہلایا تھا ۔۔۔
مطلب آپ تب سے مجھ سے محبت کرتے تھے خضر۔۔۔شجیہ کے خوشی سے پوچھنے پر خضر ایک دم سے گڑبڑایا ۔۔۔۔
نہیں۔۔۔مطلب ہاں۔۔۔مطلب جب تمہیں میں نے دیکھا تھا تم اچھی لگی تھی ۔۔۔بہت اچھی لگی تھی ۔۔۔۔اور پھر کئی دنوں تک میں تمہارے بارے میں سوچتا رہا تھا۔۔۔پھر بہت مشکلوں سے تمہارا خیال ذہن سے جھٹکا ۔۔۔اور پھر کچھ ہی دن بعد تم سامنے تھی۔۔۔۔۔اور پھر دھیرے دھیرے تمہارے سامنے ہونے پر اور ہمارے رشتے کا احساس کرنے پر مجھے بھی ہوگئی محبت تم سے۔۔۔خضر نے پہلی نفی کی لیکن شجیہ کی غصّہ بھری نظر محسوس کرتے اُس نے ساری سچائی اُس کے سامنے کہی ۔۔۔۔
اوہ تو یہ بات ہے۔۔شجیہ نے اپنے ہونٹوں کو گول کرتے کہا۔۔۔
اچھا یہ بتائے مجھے پہلی نظر میں دیکھتے آپ نے میرے بارے میں کیا سوچا تھا۔۔۔۔شجیہ نے چمکتی انکھوں سے سوال کیا۔۔۔۔
یہی کہ کوئی اتنا پیارا بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔خضر نے شجیہ کی چھوٹی سی ناک کو اپنے لبوں سے چھوتے ہوئے شوخ لہجے میں کہا۔۔۔۔
اور تم نے۔۔۔خضر نے سوال کیا جبکہ اب نظریں اُسکی گردن سے نیچے تک کا سفر کر رہی تھی جو کنفرٹر کھسکنے سے واضع ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔
بابا کے کھڑوس صاحب جی ۔۔۔شجیہ نے مسکراتے ہوئے چڑانے والے انداز میں کہا۔۔۔
بیگم مجھے لگتا جس حالت میں آپ میرے سامنے ہے اُس حالت میں آپکو مجھ سے پنگا نہیں لینا چاہیئے۔۔۔خضر کے کہنے پر شجیہ نے اُسکی نظروں کے ارتکاز میں دیکھا تھا اور لال ہوتی فوراً سے اپنے اوپر کمفرٹر کھینچا ۔۔۔۔۔
بہت بیشرم ہے آپ۔۔۔شجیہ نے اپنی نظریں جھکائے منمناتے ہوئے کہا۔۔۔خضر اُسکی بات اور حرکت پر ہنس پڑا ۔۔۔۔شجیہ اُسکی ہنسی میں کھو گئی بیشک وہ مسکراتے ہوئے حسین لگتا تھا ۔۔۔۔۔
کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔خضر نے چپ ہوگئے سوال کیا۔۔۔
یہی کہ میرا شوہر ہنستا ہوا کتنا حسین لگتا ہے ۔۔شجیہ نے خضر کے دونوں گال کھینچتے ہوئے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔
آپ بدلہ تو لونگا میں بیگم۔۔۔خضر نے کہتے ساتھ شجیہ کے دونوں گالوں پر شدت سے اپنے لب رکھے۔۔۔۔شجیہ نے مسکراتے اپنی آنکھیں بند کی ۔۔۔۔
جاؤ فریش ہوجائو ۔۔۔۔پھر ہم آج شاپنگ پر بھی چلے گے۔۔۔خضر نے شجیہ کو اپنی گرفت سے آزاد کرتے ہوئے کہا۔۔۔
پہلے اپنی آنکھیں بند کریں اور سامنے دیوار کو دیکھے ۔۔خبردار جو میری طرف دیکھا تو۔۔۔شجئہ کے کہنے پر خضر نے اپنی مسکراہٹ ضبط کی وہ سمجھ گیا تھا وہ کیوں ایسا بول رہی ہے۔۔۔ خضر نے اثبات میں سر ہلاتے اپنا رخ بدلہ۔۔۔
شجیہ جلدی سے کمفرٹر اپنے اوپر لیپٹے واشروم کی طرف بھاگی تھی۔۔۔اور پیچھے خضر اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتا مسکرا گیا تھا۔۔اُسے اب زندگی کے اصل معنی سمجھ آرہے تھے۔۔۔۔
یہ اُسکی ز ندگی کا سب سے خوبصورت دن تھا ۔۔۔۔



فلک جب اُٹھی تو اپنے آپ کو اپنے بیڈ پر پایا کل کمرے میں اتے ہی وہ انتہا کا روتے ہوئے کب ہوش و خرد سے بے گانہ ہوئی اُسے نہیں پتہ تھا۔۔۔اور اب جاکر اُسکی آنکھ کھلی تھی۔۔۔۔
اپنے وجود پر کسی کا حصار سا محسوس ہوا کمرے میں ایک الگ سی خوشبو بھی پھیلی ہوئی تھی ۔۔اپنا سر جھٹک کر اپنے بال سمیٹے تھے اُسکے ساتھ جو کچھ ہوچکا تھا وہ بہت تکلیف دہ تھا لیکن اب اُسے مضبوط بننا تھا اپنے بچے کے لئے۔۔۔۔
اپنے قدم بڑھاتی وہ آئینے کے سامنے ائی تھی۔۔۔۔اپنے چہرے کو دیکھتے اُسے حیرت ہوئی اُسکی نوز رنگ غائب تھی۔۔۔۔۔۔
لگتا ہے کل کہیں گر گئی ہوگی۔۔۔فلک نے خود سے کہا۔۔اور الماری کی طرف بڑھی۔۔۔وہ اپنے آپکو مضبوط کر چکی تھی اپنی زندگی ایک نئے طریقے سے شروع کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔
فلک نے نیلے رنگ کا شینیل کا سوٹ نکالا ۔۔یہ کمرہ اسکا تھا جہاں انے سے پہلے ہی خضر نے اُسکا سارا سامان رکھوا دیا تھا۔۔۔۔۔۔اور فریش ہونے واشروم میں چلی گئی ۔۔۔کچھ دیر بعد وہ باہر نکلی نیلا رنگ اُسکی سفید رنگت پر حد سے زیادہ جج رہا تھا۔۔۔۔
اپنے بھورے بالوں کو سکھاتے اُنہیں اپنی پشت پر کھلا چھوڑا تھا۔۔۔۔ہونٹوں پر ڈارک پنک رنگ لپسٹک لگائے دراز سے دوسری نوز رنگ نکالے پہنتے کانوں میں چھوٹے سے جھمکے ڈالے ۔۔۔اپنی بھوری آنکھوں میں کاجل کی لکیر کھینچے وہ تیار تھی۔۔۔۔ایک نظر آئینے میں خود کو دیکھتے گہرا سانس بھرا تھا۔۔۔یہ سب آسان تو نہ تھا ۔۔۔۔اُس شخص کو بھول جانا اُسکی باتوں کو بھول جانا لیکن یہی اُسکے لیے اور اُسکے بچے کے لیے بہتر تھا۔۔۔
اپنا دوپٹہ کندھے پر پھیلاتی وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی تھی۔۔۔۔
لاؤنچ میں اتے ہی اُسکی نظر خضر پر پڑی جو سفید رنگ کے ٹو پیس میں اپنی شاندار شخصیت کے ساتھ ٹیبل پر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔شجیہ کو دیکھتے اُسکے ہونٹوں کو مسکراہٹ نے چھوا تھا جو پنک رنگ کے سوٹ میں دوپٹہ سر پر لیے بھیگے بالوں کو پشت پر چھوڑے۔۔۔شرمائیں لجھائی سی کچن سے باہر نکلی تھی۔۔۔چہرہ بنا میکپ کے پاک جس پر خضر کی قربت کے رنگ صاف نظر آتے اُسے حسین سے حسین تر بنا گئے تھے ۔۔۔اُسکی نہیں کم سے کم اُسکے دوست کی زندگی تو سدھڑی ۔۔۔فلک نے اللہ کا شکر ادا کیا
اسلام علیکم ۔۔۔فلک نے ٹیبل پر اتے کرسی پیچھے کرتے سلام کیا ۔۔
شجیہ جو خضر کے کپ میں چائے ڈال رہی تھی نظر اٹھا کر فلک کو دیکھا اور دل ہی دل میں اُسکی نظر اتاری وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی۔۔۔۔
وعلیکم السلام ۔۔۔۔خضر نے سنجیدگی سے جواب دیا اور اُسکی طرف دیکھا۔۔۔۔
خضر مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔فلک نے بیٹھتے سنجیدہ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔شجیہ بھی خضر کی برابر والی کرسی پر بیٹھتے فلک کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
بولو۔۔خضر نے ایک نظر شجیہ کو دیکھتے کہا۔۔۔
مجھے جوب کرنی ہے۔۔۔میں گھر پر بیٹھے بور ہو جاؤ گی۔۔۔فلک کی بات پر خضر کا منہ کو جاتا ہاتھ تھما۔۔۔
پر تمھاری طبیعت۔۔۔خضر نے اُسے اُسکی حالت کے بارے میں اندازہ کروانا چاہا۔۔۔
پلیز خضر اگر گھر پر رہی تو محتلف قسم کی سوچوں کو سر پر سوار کرتے اندر ہی اندر ختم ہوجاؤ گی۔۔۔۔فلک نے متلجی لہجے میں کہا۔۔۔
ٹھیک ہے میں کچھ کرتا ہو۔۔۔۔خضر نے اُسکی حالت کے پیشِ نظر نرمی سے جواب دیا۔۔۔یہ بات کامل کو بتانا بہت ضروری تھی۔۔۔۔
ٹھیک ہے پر میں اج کہیں باہر جانا چاہتی ہو شجیہ کے ساتھ۔۔۔فلک کے کہنے پر خضر نے شجیہ کو دیکھا جو مسکرا رہی تھی۔۔۔۔
ٹھیک ہے مجھے کچھ بہت ضروری کام ہے میں اتا ہو پھر چلتے ہے۔۔۔خضر نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے کہا۔۔۔
فلک نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔خضر کو کھڑا ہوتے دیکھ شجیہ بھی اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی جب خضر نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر واپس بٹھایا۔۔۔اور جھکتے عقیدت سے اپنے لب شجیہ کے ماتھے پر رکھے۔۔۔
آرام سے بیٹھ کر ناشتہ کرو۔۔۔میں جلدی اجائونگا۔۔۔۔خضر نے شجیہ کے گال پر اپنا ہاتھ رکھتے نرمی سے کہا۔۔۔شجیہ فلک کے سامنے اُسکی حرکت پر اپنا سرخ ہوتا چہرہ جھکا گئی۔۔۔۔
اوئے ہوئے۔۔۔فلک کے کہنے پر شجیہ کا جھکا سر مزید جھکا۔۔جبکہ خضر نے فلک کو گھور کر دیکھا تھا۔۔۔۔
اور پھر ایک نظر شجیہ پر ڈالتے وہ نکلتا چلا گیا۔۔۔
میں بہت خوش ہو میری جان تمہارے لیے آخر تمھاری محنت رنگ لے ہی ائی۔۔۔فلک نے شجیہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے محبت سے کہا۔۔۔
مجھے نہیں پتہ تھا فلک اللہ اتنی جلدی میری سن لے گا خضر کا دل میری طرف مائل کر دے گا۔۔۔شجیہ نے فلک کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
میری جان اللہ سب کی سن لیتا ہے کچھ کی دعائیں وہ جلدی پوری کر دیتا ہے تو کچھ کی صحیح وقت انے پر۔۔۔فلک کی بات پر شجیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
تمہیں بھی اپنا بہت سارا خیال رکھنا چاہئے۔۔۔یہ چھوڑو میں تمہارے لیے فریش فروٹ لاتی ہو۔۔۔شجیہ کے کہنے پر فلک نے اثبات میں سر ہلایا تھا تھوڑی دیر بعد ہی شجیہ اُسکے لیے فریش پھل لے ائی تھی۔۔۔اور پھر شجیہ اُسے اپنی باتوں میں مصروف کر گئی۔۔کامل کے بارے میں اُس نے کوئی بات بھی فلک سے کرنا بہتر نہیں سمجھی تھی اگر فلک سب کچھ بھول کر خود کے لئے جینے لگی تھی تو یہ بہتر تھا۔۔۔۔۔
گھر میں۔تمام۔ملازمین صفائی میں لگی اپنی نئی مالکن کو خوشی سے دیکھ رہے تھے جن کے انے سے اُنکے سنجیدہ سے صاحب جی مسکرائے تھے۔۔۔۔اج بھی ناشتہ اُس نے خود بنایا تھا ۔۔۔۔



شجیہ آصف خان۔۔۔۔عنابی لبوں نے بڑی دلکشی سے یہ لفظ ادا کیے ۔۔۔۔
جی اور انکا پیچھا کرتے ڈیفنس کے ایک گھر میں داخل ہوتے دیکھا تھا۔۔۔منیجر کے کہنے پر اُس نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔
ٹیبل پر پڑی شجیہ کی تصویر اٹھاتے اُس نے اپنی پتھر جیسی کالی آنکھوں سے تکا تھا۔۔ہونٹوں پر مسکراہٹ جمی ہوئی تھی اور منیجر اپنے بوس کی یہ مسکراہٹ دیکھتے سخت پریشان تھا کیونکہ یہ مسکراہٹ صرف اُسکے لبوں پر تب ہی نمودار ہوتی تھی جب وہ اپنے ہاتھوں سے کسی کی جان لیتا تھا ۔۔
سر کیا ۔۔کیا کرنا ہے۔۔انکا۔۔۔منیجر کے پوچھنے پر اُس نے اپنی سرد نظریں اُسکی طرف مرکوز کی تھی۔۔۔۔
لیو کو لاؤ ۔۔۔۔منیجر کو اپنی نیلی انکھوں والی سفید بلی کو لانے کا حکم دیا۔۔۔کچھ ہی دیر میں لیو اُسکے سامنے تھا۔۔۔
لیو کی چین اُتار کر اُس میں ایک منی کیمرا فٹ کرتے اُس نے واپس اُسے اُسکے گلے میں ڈالا تھا۔۔۔
اور ایک نوٹ اٹھا کر اپنے ہاتھ سے اُس پر کچھ لکھا۔۔۔
یہ دونوں اُس تک پہنچ جانا چایئے۔۔اج شام سے پہلے پہلے۔۔۔۔سرد آواز میں کہتا وہ واپس اپنی نظریں شجیہ کی تصویر پر مرکوز کر گیا تھا۔۔۔اور منیجر اثبات میں سر ہلاتا لیو کو لیے کمرے سے باہر نکلا ۔۔۔
اُسے انتہاء کی حیرت ہو رہی تھی کہاں اُس نے اس بلی کے لیے ایک معصوم سے انسان کی جان تک لے لی تھی اور کہاں اب وہ یہی بلی کسی انجان لڑکی کو بھیج رہا تھا۔۔۔لیکن منیجر شجیہ کی اہمیت کا اندازہ لگا چکا تھا کیونکہ آج سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔۔۔اگر جو وہ سوچ رہا تھا وہ سچ تھا تو اُسے شجیہ پر رحم آرہا تھا کیونکہ لیپرڈ کو جب کوئی چیز پسند آجاتی ہے وہ اُسے کسی بھی حال میں حاصل کر لیٹا تھا۔۔چاہے اُسکے لیے کسی کی جان بھی کیوں نہ لینی پڑے ۔۔۔


