قسط: 12
اُسکی حالت دیکھی ہے ایسے میں وہ جوب کرے گی بلکل نہیں۔۔۔کامل نے خضر کی بات سنتے ہی نفی میں سر ہلایا۔۔۔ویسے ہی فلک کی طبیعت صحیح نہیں رہتی تھی ۔۔۔۔
اگر وہ گھر پر رہی تو فضول سوچوں کو سر پر سوار کرتے اپنی حالت اور خراب کر لے گی۔۔۔۔خضر نے سخت نظروں سے کامل کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔وہ کامل کے فلیٹ پر ایا تھا جس کا صرف کامل اور اُسے ہی پتہ تھا۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے پھر وہ جوب کرے لیکن میری کمپنی میں ۔۔۔کامل نے حتمی فیصلہ سنایا۔۔۔
پاگل ہے تو وہ تُجھے پہچان نہیں جائے گی۔۔۔خضر نے اُسے عقل دلائی۔۔۔
وہ خان گروپ آف کمپنی میں کام کرے گی ۔۔۔۔تو کیسے پہنچانے گی جب اُسکے سامنے کامل خان اپنی اصل شناخت میں آئے گا۔۔۔کامل نے اپنی آنکھ ونک کرتے کہا۔۔۔
خطرہ خودی اپنے سر رکھ رہا ہے۔۔خیر میں جا رہا ہو۔۔۔خضر نے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
کہاں۔۔۔کامل نے آبرو اچکا کر پوچھا۔۔۔
شاپنگ پر لے کر جانا ہے اپنی بیگم کو۔۔۔خضر نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
سالے کمینے میں وہی بولوں تیرے چہرے پر یہ مسکراہٹ اور خوشی کیوں ہے۔۔۔خوش رھے یار تو۔۔۔کامل نے خضر کو گلے لگاتے خوشی سے کہا۔۔خضر مسکرا گیا۔۔۔۔
چل اب جا۔۔۔کامل کے کہنے پر خضر اثبات میں سر ہلاتا باہر نکلتا چلا گیا۔۔پیچھے کامل سائرہ کے پاس جانے کے لیے تیار ہونے چلا گیا۔۔۔




میم یہ آپکے لیے ایا ہے۔۔۔۔ملازمہ نے ایک نیلے رنگ کی باسکٹ شجیہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔جو فلک کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔
میرے لیے۔۔شجیہ نے اچھنبے سے باسکٹ تھامتے ہوئے پوچھا۔۔
دیکھو تو صحیح ہو سکتا ہے خضر نے بھیجا ہوگا۔۔۔۔فلک کے کہنے پر شجیہ نے باسکٹ کھولی ۔۔۔۔۔۔
اوہ یہ کتنی پیاری ہے۔۔۔۔شجیہ نے نیلی آنکھوں والی سفید بلی کو باہر نکالتے ہوئے پیار سے کہا ۔۔۔
واقعی میں یہ بہت پیاری ہے۔۔فلک نے بھی بلی کے سر پر پیار کرتے ہوئے کہا۔۔۔شجیہ حسین مسکراہٹ کے ساتھ بلی کے سر پر ہاتھ پھر رہی تھی۔۔۔۔اور کہیں دور اندھیرے کمرے میں بیٹھا وہ وجود ہاتھ میں حرام مشروب کا گلاس پکڑے دیوانگی سے ایل ای ڈی میں نظر اتے شجیہ کے حسین چہرے کو تک رہا تھا۔۔۔
شجیہ کی نظر اُس لیٹر پر پڑی اُس نے جلدی سے وہ اٹھایا۔۔۔جبکہ خضر کا سوچتے وہ لال گلابی ہو رہی تھی۔۔۔۔۔
نیلی آنکھوں والی لڑکی کے لیے ادنا سے تحفہ۔۔۔۔اُمید کرتا ہوں پسند آئے گا ۔۔۔۔شجیہ نے ایک حسین مسکراہٹ کے ساتھ یہ نوٹ پڑھا تھا۔۔۔۔
باہر گاڑی رکنے کی آواز پر وہ سمجھ گئی کہ خضر ایا ہے اور پھر کچھ ہی پلو بعد خضر اندر اتا دکھائی دیا۔۔۔
شجیہ کے ہاتھ میں سفید بلی کو دیکھتے اُسے حیرت ہوئی۔۔۔۔۔
خضر نے شجیہ کے پاس اتے محبت سے اُسکی پیشانی چومی۔۔۔شجیہ اپنی نظریں جھکا گئی۔۔۔
میں اتی ہوں اپنا بیگ لے کر۔۔فلک اُن دونوں کو اکیلا چھوڑتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔
آپکا بہت بہت شکریہ ۔۔خضر یہ بہت پیاری ہے۔۔۔شجیہ نے خوشی سے بھرپور مسکراہٹ لیے خضر کی طرف دیکھتے کہا جس کی آنکھوں میں الجھن اُبھری تھی۔۔۔۔
اُس نے تو یہ بلی نہیں بھیجی تھی پھر کس نے بھیجی تھی۔۔۔
تم جاؤ چادر لے آو۔۔۔خضر کے کہنے پر شجیہ نے جلدی سے بلی کو نیچے اُتارا تھا اور اثبات میں سر ہلاتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔
خضر نے جھکتے تنی آبرو سے اس بلی کو دیکھا تھا۔۔۔نظر اُس بلی کے گلے میں موجود چین پر پڑی۔۔خضر نے ہاتھ آگے بڑھاتے وہ چین اپنے ہاتھ سے چھوئی۔۔۔
نظر پاس رکھے نوٹ پر گئی ۔۔۔جس پر لکھی تحریر پڑھتے خضر کا سنجیدہ چہرہ پل بھر میں سخت ہوا۔۔۔۔بھوری آنکھیں پل بھر میں لال ہوئی ۔۔۔آخر کون تھا یہ جس نے شجیہ کو یہ گفٹ بھیجا تھا۔۔۔نوٹ پر لکھی تحریر سے وہ یہ تو سمجھ گیا تھا کہ جو کوئی بھی ہے وہ لڑکا ہے۔۔۔اور یہی بات خضر کے خون میں اُبال پیدا کر گئی تھی۔۔۔
خضر نے نوٹ اپنے ہاتھ میں بھینچا تھا ایک نظر اس معصوم سی بلی کو دیکھا ۔۔۔۔اب وہ اس بلی کو شجیہ کے آس پاس بلکل بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔۔
اپنے خاص ملازم کو آواز دیتے اُس نے جلدی سے اس بلی کو یہاں سے دور کسی کیٹ ہاؤس میں بھیجنے کو کہا تھا لیکن جاتے جاتے وہ بلی کی گردن سے وہ چین نکالنا نہیں بھولا تھا۔۔۔وہ ائی ایس ائی میں ہیکر ایسے ہی نہیں بن گیا تھا وہ اس چین کو دیکھتے ہی پہچان گیا تھا کہ اس میں کیمرا فٹ ہے تبھی اُس نے شجیہ کو اندر جانے کا کہا ۔۔۔
خضر نے اپنے پاؤں کے نیچے چین رکھتے اُس چین کے بچوں بیچ موجود پرنٹڈ شیشے کو کچلا تھا۔۔۔۔
ملازم سے صفائی کا کہتے اُس نے فوراً سے کامل کو فون ملایا تھا۔۔۔
خضر کہاں گئی وہ بلی۔۔۔شجیہ نے لاؤنچ میں اتے اِدھر اُدھر دیکھتے پوچھا۔۔۔
پتہ نہیں میں فون پر مصروف تھا میرے خیال سے کہیں باہر چلی گئی ہوگئی۔۔۔خضر نے کندھے اُچکاتے انجان بنتے کہا۔۔۔
ایسے کیسے کہیں جا سکتی ہے کتنی پیاری تھی وہ رکے میں باہر دیکھ کر اتی ہو۔۔۔شجیہ فکرمندی سے کہتے باہر جانے لگی جب خضر نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنی طرف کھینچا۔۔۔شجیہ خضر کے سینے سے ٹکرائیں۔۔۔
بیگم وہ نہیں ہے پتہ نہیں کب باہر نکلی ہوگی اور ہوسکتا ہے اب وہ بہت دور چلی گئی ہو۔ ۔خضر نے شجیہ کے سر سے ڈھلکتی چادر کو صحیح کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
پر خضر وہ بہت پیاری تھی اور آپ نے مجھے گفٹ کی تھی اور میں آپکے پہلے گفٹ کی حفاظت تک نہ کر پائیں۔۔۔شجیہ نے خضر کے کورٹ کے بٹن سے کھیلتے ہوئے اُداس لہجے میں کہا۔۔۔۔
میری جان کوئی بات نہیں ہم ابھی ایک نئی بلی لے لیں گے ٹھیک ہے۔۔۔۔۔اور پھر تم اُسکی اچھی طرح حفاظت کرنا اور خیال رکھنا۔۔۔خضر نے شجیہ کا چہرہ تھوڑی سے تھامتے ہوئے کہا۔۔۔
اگر آپ دونوں کا رومانس ختم ہوگیا ہے تو شاپنگ پر چلے۔۔۔۔فلک نے شوخ لہجے میں اُن دونوں کی طرف دیکھتے کہا۔۔شجیہ فوراً سے پیچھے ہٹی۔۔۔۔۔
خضر نے پورے حق کے ساتھ شجیہ کا ہاتھ پکڑ کر قدم باہر بڑھائے تھے ۔ فلک بھی اُن دونوں کو دیکھتی آگے بڑھی تھی ۔۔۔۔




یہ کیا ہے۔۔۔خضر نے ایک لوکل بازار کے باہر گاڑی روکتے شجیہ سے پوچھا۔۔۔
یہ بازار ہے۔۔۔شجیہ نے معصومیت سے کہا۔۔۔
لیکن یہاں کتنی بھیڑ ہے ہم اچھا خاصا مال میں چلتے ۔۔۔خضر نے اس پاس لوگوں کی بھیڑ دیکھتے کہا۔۔۔شجیہ کا خوشی سے دمکتا چہرہ فوراً سے اُداسی میں ڈھلا تھا۔۔اور خضر کو اُس کے چہرے پر دکھتی یہ اُداسی انتہائی بری لگی ۔۔۔
نہیں بہت مزا آئے گا شجیہ چلو ۔۔فلک نے خوشی سے کہتے اپنی طرف کا دروازہ کھولا۔۔۔
آپ اپنے ان گارڈز کو اور گاڑی کو کہیں اور چھوڑ کر آئے دیکھے کیسے سب عجیب نظروں سے ہمیں دیکھ رہے ہیں۔۔۔شجیہ نے اپنی گاڑی سے پیچھے کھڑی گارڈز کی گاڑی کو دیکھتے کہا۔۔۔۔اور گاڑی سے باہر نکلی۔۔۔
جبکہ خضر نے گاڑی آگے بڑھائیں۔۔۔کافی مشکل سے اُسے ایک جگہ ملی تھی پارکنگ کے لیے گاڑی سے باہر نکلتے ہی اُس نے اس بازار کو دیکھا تھا جو ایک بہت بڑے گراؤنڈ میں لگا ہوا تھا۔۔۔جبکہ لوگوں کے چلنے سے جو دھول اٹھ رہی تھی۔۔۔وہ الگ ۔۔خضر نے نفی میں سر ہلاتے اپنا ماسک نکال کر پہنا تھا۔۔۔اپنا دمیج ہاتھ اپنی پینٹ کی جیب میں ڈالے وہ شجیہ اور فلک کی طرف بڑھا تھا جو کچھ دور ہی ساتھ کھڑی تھی۔۔۔
خضر کے انے پر وہ دونوں جلدی سے بازار میں داخل ہوئی۔۔۔۔۔
اور اندر داخل ہوتے ہی اُسے لگا تھا جیسے بھگدڑ مچ گئی ہو۔۔۔اُدھر اُدھر دائیں بائیں عورتیں ہی عورتیں۔۔اُن کے بیچ بیچ میں چلتے مرد حضرات ۔۔۔جن کو کچھ لینا نہ بھی ہو تب بھی وہ ایسے بازاروں میں گھس جاتے ہیں۔۔۔۔
خضر احتیاط سے چلتا اُن دونوں کے پیچھے ایا تھا جو اُس کو اکیلا چھوڑتے اپنی ہی دنیا میں مگن تھے۔۔۔۔۔۔
شجیہ ۔۔۔خضر نے شجیہ کے قریب جاتے کہتے اُس کا ہاتھ تھاما تھا۔۔۔۔۔
خضر ہاتھ چھوڑ دے یہاں عجیب لگ رہا ہے۔۔۔شجیہ نے ہلکی آواز میں آگے چلتے ہوئے کہا۔۔۔
جبکہ خضر نے اُسکے ہاتھ پر گرفت مضبوط کی۔۔۔۔۔
کہ یکدم ایک بڑھی عمر کی عورت خضر کے کندھے سے ٹکرائی ۔۔۔
ائی لڑکے تمیز سے چلو جان بوجھ کر کیوں ٹکڑا رہے ہو۔۔۔انٹی نے اپنے لال لپسٹک لگے ہونٹوں سے یہ الفاظ ادا کیے اور خضر کو لگا کسی نے اسکو کھائی سے نیچے پھینک دیا ہو ۔۔۔جھوٹا الزام اور وہ بھی منہ پر۔۔۔توبہ توبہ۔۔۔
میں نہیں ٹکرایا آپ سے انٹی آپ ٹکرائی ہے۔۔خضر نے اپنی سنجیدہ آواز میں کہا ۔۔۔۔
ہائے اللہ انٹی کس کو بولا کم سے کم تم سے عمر میں دو سال چھوٹی ہی ہونگی میں۔۔۔اور ایک تو چوری اُس پر سے سینا زوری۔۔۔خاتون کی بات پر خضر نے ایک نظر انکو دیکھا پیٹ انکا باہر تھا ہاتھ اور پاؤں بھی کافی موٹے موٹے تھے چہرے پر جھریوں کے نشان بھی تھے جن کو فاؤنڈیشن کی گہری تہہ سے چھپانے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔اور پھر بھی وہ خضر کو اپنی عمر سے بڑا کہہ رہی تھی۔۔۔۔خضر کو اب اپنی عمر پر شک ہورہا تھا۔۔۔۔سامنے کھڑی عورت اُس سے عمر میں کافی بڑی تھی۔۔۔۔
فلک اور شجیہ سائیڈ پر کھڑی اپنی ہنسی ضبط کر رہے تھے۔۔۔۔۔
سوری انٹی۔۔۔انکی طرف سے میں معذرت کرتی ہو۔۔۔شجیہ نے آگے بڑھ کر نرمی سے کہا اور خضر کا ہاتھ تھامے اُسے لیے آگے بڑھ گئی۔۔۔فلک نوز رنگ کا سٹول دیکھتے وہاں چلی گئی تھی۔۔۔
اور خضر اپنا سر نفی میں ہلا گیا۔۔۔۔
اؤ گڑیا۔۔۔دیکھو سیل لگی ہے اؤ پیاری۔۔۔۔۔ایک سٹال پر سے اتی آواز پر خضر نے غصے بھری نظروں سے وہاں موجود آدمی کو دیکھا تھا جو گٹکا کھاتے شجیہ کو دیکھ کر کہہ رہا تھا۔ لیکن خضر کی غصے بھری نظریں محسوس کرتے وہ سیدھا ہوا۔۔۔۔ اور شجیہ اُسے نظرانداز کرتی وہاں موجود چپلوں کو دیکھنے لگی تھی ۔۔۔۔
خضر نے شجیہ کا ہاتھ پکڑا اور اُسے اس سٹال سے اگے لے گیا۔۔۔
خضر کیا کر رہے ہیں کتنی پیاری چپلیں تھی وہاں پر۔۔شجیہ نے خضر سے کہا۔۔۔
پیاری تھی اور وہ جو تمہیں دیکھ کر گڑیا اور پیاری بول رہا تھا میرا دل چاہ رہا تھا اُسکا وہی گنڈا سا لال منہ توڑ دو۔۔۔خضر کی بات پر شجیہ نے اپنی مسکراہٹ ضبط کی۔۔۔۔
یہاں سب ایسے ہی بولتے ہیں ۔۔۔وہ دیکھے۔۔ہر جگہ جہاں سے خواتین گزر رہی ہیں وہ سب کو یہی بول رہے ہیں۔۔۔شجیہ کی بات پر خضر نے اطراف میں نظر گھمائیں تھی اور شجیہ کی بات سچ ہی تھی۔۔۔۔
شجیہ اُسے لیے ایک سٹال پر ائی جب فلک بھی اپنی نوز رنگ لیتی وہاں ائی تھی اور پھر شجیہ اور فلک نے وہاں سے اپنے اپنے لیے سوٹ خریدے۔۔۔۔جبکہ خضر تو چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
شجیہ چلو وہ کھاتے ہے۔۔۔فلک کے کہنے پر وہ دونوں ایک چاٹ شاپ کی طرف بڑھی خضر نے کپڑوں کی تھیلی اپنے ہاتھ میں تھامی۔۔۔عورتوں سے بچتا بچاتا وہ اُن دونوں تک پہنچا تھا۔۔۔۔
یہاں اُس نے ایک بات نوٹ کی تھی اگر عورتوں کو ذرا سا دھکا لگ جائے تو اُن کے اندر کٹپا کی روح آجاتی ہے۔۔۔اور یہاں پر ماہا یود بھی چھر سکتی ہے ۔۔۔
خضر اور وہ دونوں ایک ٹیبل پر بیٹھے تھے شجیہ اور فلک تو چات مانگا کر اُسے کھانے میں مگن تھی اور خضر نے حیرت سے اپنی آبرو اُچکائی تھی اُن دونوں کی پلیٹ دیکھتے جس میں اُسے حد سے زیادہ مرچیں نظر آرہی تھی۔۔۔۔۔
وہ یہاں کبھی بھی نہ اتا لیکن اپنی بیوی کی خوشی کے لیے وہ یہاں ایا تھا ۔۔شجیہ کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ رقصا تھی جس کے لیے اب خضر شجاعت چوہدری کچھ بھی کر سکتا تھا۔۔۔۔
خضر نے دوبارہ بازار کی طرف دیکھا جب اُسکی نظر ایک منظر پر تک گئی جہاں دو لڑکے آگے چلتی لڑکیوں کا کبھی دوپٹہ کھینچتے تو کبھی اُنکے کندھے پر ہاتھ مارتے اور وہ لڑکیاں جب پلٹ کر دیکھتی تو وہ انجان بن جاتے ۔۔۔۔خضر نے اپنے جبڑے بھینچے تھے۔۔۔۔
ایک نظر اُن دونوں کو دیکھا جو سکون سے بیٹھی کھا رہی تھی۔۔۔
میں ابھی ایا۔۔۔خضر کہتا فوراً سے وہاں سے اٹھا تھا۔۔۔۔
اُن لڑکوں کے پیچھے جاتے اُن کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔
ذرا اُدھر انا مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔خضر نے آرام سے سنجیدہ لہجے میں کہا۔۔۔
اسکی بات سنتے وہ دونوں لڑکے نہ سمجھی سے اُسکے ساتھ ائے ۔۔۔خضر ایک سٹال کی بیک سائڈ پر رکا۔۔۔پیچھے پلٹ کر دیکھا تو وہ دونوں لڑکے بھی اگئے تھے۔۔۔
بازار کیا لینے آئے تھے۔۔خضر کی بات پر اُن دونوں لڑکوں نے اچھنبے سے اُسکی طرف دیکھا خضر کو اکیلا دیکھ کر اور اُسکے دمیج ہاتھ کو دیکھتے وہ اُس کو لوٹنے کا فل پلین بنا چکے تھے۔۔۔۔
ابے سالے چپ چاپ نکال جو بھی ہے تیرے پاس۔۔۔ایک لڑکے نے اپنی جیب سے چاقو نکالتے خضر سے کہا۔۔۔
پہلے میری بات کا جواب دو پھر میں سب دے دیتا ہوں تمہیں۔۔خضر نے اطمینان سے کہا۔۔۔
لڑکیاں دیکھنے اے تھے تھوڑی چھیڑ چھاڑ بھی ہوجاتی ہے اور مست۔۔۔ابھی اُس لڑکے نے اپنا جملہ بھی پورا نہیں کیا تھا جب خضر کا مضبوط ہاتھ کا مکّہ اُسکے منہ پر پڑا وہ نیچے زمین پر گرا۔۔۔۔
دوسرے لڑکے نے اپنے ساتھی کو زمین پر گرتا دیکھ چاقو سے خضر پر وار کرنا چاہا جب خضر نے اپنے ہاتھ سے اُسکا وار روکتے اُسکے سر پر انتہائی زور سے اپنا سر مارا ۔۔۔
وہ دونوں لڑکے اتنی زیادہ عمر کے نہیں تھی اور نہ ہی انہیں کوئی تجربہ تھا اسی لیے زمین پر لیتے درد سے تڑپ اٹھے۔۔۔خضر نے فوراً سے اپنے گارڈز کو فون کیا اور یہاں انے کا حکم دیا۔۔۔
عورت عزت اور محبت کرنے کے لیے بنائی گئی ہے چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے نہیں اج کسی کی بہن پر اپنی گندی نظریں اور ہاتھ اٹھاؤ گے کل کو تمھاری بہن کو کوئی تم جیسا ہی گندی نظروں سے دیکھے گا۔۔۔احتیاط کرو۔۔۔خضر نے لڑکے کا گال تھپتھپاتے ہوئے سخت لہجے میں کہا۔۔۔اور اپنے گارڈ کو اُن دونوں کو پولیس کے حوالے کرنے کا کہتے وہ شجیہ اور فلک کی طرف بڑھا تھا لیکن وہ دونوں یہاں تھی ہی نہیں۔۔۔۔
خضر نے فکرمندی سے اُنہیں اُدھر اُدھر دیکھا۔۔۔
یہاں پر دو لڑکیاں بیٹھی تھی کہاں گئی ہے وہ۔۔۔خضر نے دوکاندار سے پوچھا جو خضر کی براؤن سرد آنکھیں دیکھتے گھبرا گیا تھا۔۔۔۔
وہ اُس طرف گئی ہے۔۔۔دوکاندار کے اشارہ کرنے پر خضر نے جلدی سے اپنے قدم اُس طرف بڑھائے تھے جبکہ نظریں اضطرابی سے چاروں طرف اُن دونوں کو تلاش رہی تھی جب وہ سامنے نظر ائی۔۔۔۔چوریاں پہنتے ہوئے۔۔۔۔
خضر نے سکون بھرا سانس بھرا ۔۔۔۔۔
چلے۔۔خضر نے اُن دونوں کے پاس اتے ہوئے کہاں۔۔۔۔۔۔
بس خضر میں یہ چوریاں پہن لو۔۔شجیہ نے کہتے ساتھ اپنا ہاتھ چوڑی والی کی طرف بڑھایا جب خضر نے اُسکا ہاتھ تھاما اور احتیاط سے شجیہ کی پسند کردہ لال چوڑیاں اُسکے ہاتھ میں پہنائی۔۔بھرے بازار میں اُسکی بیباکی پر شجیہ کا رنگ سرخ اناری ہوا تھا۔۔جبکہ فلک اپنی مسکراہٹ ضبط کرتی رہ گئی ۔۔۔اچانک سے آنکھوں کے سامنے کامل کا چہرہ لہرایا ۔۔۔پورے جسم میں اذیت سی گزرتی محسوس ہوئی ۔۔کاش وہ دونوں بھی ساتھ ہوتے اور اس طرح وہ بھی فلک سے اپنی محبت کا اظہار چھوٹی چھوٹی چیزوں میں کرتا۔۔۔۔سر جھٹک کر اپنے دماغ سے یہ خیال جھٹکا۔۔۔۔
خضر نے پیمنٹ کرتے شجیہ کا ہاتھ تھاما تھا اور باہر نکلتا چلا گیا پیچھے چوڑی والی ہنستی رہ گئی۔۔۔۔۔
خضر نے گاڑی میں اتے اپنے منہ سے ماسک اُتارا تھا اُسکا پورا منہ پسینے سے بھر گیا تھا۔۔۔۔۔شجیہ نے فوراً سے اپنے دوپٹے سے اُسکے چہرے سے پسینہ صاف کیا ۔۔۔۔اُسے تھوڑی سی شرمندگی ہوئی کہاں وہ محلوں میں رہنے والا آدمی اور کہاں اب وہ اسکی خاطر ایک چھوٹے سے بازار میں گرمی میں اُسکے ساتھ گھوم رہا تھا۔۔۔
خضر ائی ایم سوری اور اینڈ تھنکیو۔۔۔۔شجیہ نے مسکراتے ہوئے کہا فلک تو اپنے موبائل میں مصروف تھی۔۔۔۔گاڑی سٹارٹ کرتے خضر نے شجیہ کی بات پر اُسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔
اور یہ دونوں کس لیے۔۔۔خضر نے پوچھا۔۔۔
سوری اس لیے کہ میری خوشی کی خاطر آپکو اُس چھوٹے سے بازار میں انا پرا ۔۔اور تھنکیو بھی اسی کے لیے۔۔۔۔شجیہ کے کہنے پر خضر مسکرا گیا ۔۔۔
تمھاری خوشی میرے لیے سب سے پہلے ہے اور اپنی بیوی کی یہ حسین مسکراہٹ دیکھنے کے لیے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں۔۔۔خضر نے گھمبیر لہجے میں کہا۔۔۔
میں بھی یہی پر ہو ۔۔فلک نے اُن دونوں کا دیہان اپنی طرف کروایا ۔۔۔شجیہ نے مسکراتے سیٹ کی پشت سے اپنا سر ٹکایا تھا جبکہ خضر اب خاموشی سے ڈرائورنگ کر رہا تھا۔۔۔




اکیا ہو رہا ہے۔۔۔۔خضر نے شجیہ کی قمر سے ہاتھ گزار کر اُسکے پیٹ پر رکھا۔۔۔۔۔
الماری میں کپڑے رکھتی شجیہ مسکرائی تھی۔۔۔
کچھ نہیں۔۔۔۔شجیہ نے الماری بند کرتے ہوئے کہا جب خضر نے اپنے لبوں کا لمس اُسکی گردن پر چھوڑنا شروع کیا۔۔۔۔۔
شجیہ اپنی آنکھیں بند کریں اُسکا لمس برداشت کرنے لگی خضر کے لب گردن سے کندھے تک سفر کرتے محسوس کرتے شجیہ نے اپنے پیٹ پر رکھے اُسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔۔۔۔
خضر نے ایک جھٹکے سے اُسکا رخ سیدھا کیا اور شجیہ کو مہلت دیئے بنا اُسکے گلابی لبوں پر جھک آیا۔۔۔نرمی سے شجیہ کے لبوں پر اپنا نرم لمس چھوڑتے اُسکے دماغ میں صبح والا نوٹ اور اُس پر لکھی تحریر لہرائی اور اُسکی شدت میں اضافہ ہوا۔۔۔۔شجیہ کو اٹھاتے اُسکی دونوں ٹانگیں اپنی قمر پر باندھے وہ شدت کے ساتھ شجیہ کے لبوں پر اپنا لمس چھوڑنے لگا ۔۔۔۔جس نے بھی وہ حرکت کری تھی وہ اُسے جلد از جلد ڈھونڈ کر انتہائی خطرناک سزا دینا چاہتا تھا جس نے اُسکی بیوی پر نظر رکھی تھی۔۔۔۔۔
اپنی سانس بند ہونے پر شجیہ نے خضر کا کولر جکڑ کر اُسے جھنجھوڑا تھا۔۔۔خضر شجیہ کے لبوں کو آزادی دئیے بنا ہی اُسے لیے بیڈ پر لیتا تھا ۔۔۔۔آخر اُس پر رحم کھاتے اُس نے اُسکے لبوں کو آزادی بخشی تھی۔۔۔۔۔اور پھر اُسکی گردن میں جھک آیا تھا۔۔۔شجیہ نے گہرا سانس بھرتے اپنے ہاتھ خضر کی پشت پر رکھے ۔۔۔اج جتنی شدت خضر کے لمس میں تھی وہ اُسے روک نہیں پائی تھی اور جانتی تھی وہ رکے گا بھی نہیں۔۔۔اور خضر جو صبح والی بات پر حد درجہ پریشان اور تعیش میں تھا اُسے صرف ایک ہی چیز پرسکون کر سکتی تھی اور وہ تھا شجیہ کا لمس۔۔۔۔
کمرے کی لائٹس بند کرتے وہ شجیہ پر اپنی قربت اپنی شدتیں برساتا چلا گیا ۔۔۔۔۔



کیا ہوا ہے تم یہاں باہر کیا کر رہے ہو۔۔۔۔گھر کی ملازمہ نے آکر جھون سے پوچھا جو لیپرڈ کے کمرے کے باہر کھڑا تھا جبکہ اندر سے توڑ پھوڑ کی آوازیں بڑھتی ہی جا رہی تھی۔۔۔
کیا چاہتی ہو اندر جاکر بھوکے چیتے کا کھانا بن جاؤ سر ابھی بہت غصے میں ہے۔۔۔جهون نے دانت پیستے ہوئے کہا۔۔۔۔
اور کیوں غصے میں ہے۔۔۔ملازمہ نے پوچھا۔۔۔
میں یہ تمہیں نہیں بتا سکتا اور اگر چاہتی ہو کہ اس گھر میں زندہ رہ کر کام کر سکو تو اس کمرے کے اس پاس بھی مت بھٹکنا ۔۔۔۔۔جهون کی بات پر وہ ملازمہ منہ بناتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔۔پیچھے جهون کمرے سے اتی توڑ پھوڑ کی آواز پر سر نفی میں ہلا گیا۔۔۔۔۔
انڈر ورلڈ کا سب سے خونخوار اور ظالم انسان ایک لڑکی کے لیے اج پورا کمرہ تباہ کر بیٹھا تھا۔۔۔
تیز تیز سانس لیتے وہ اپنا غصّہ ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔جو کسی آدمی کو شجیہ کے انتہائی نزدیک دیکھ کر اُس کے پورے بدن میں پھیل گیا تھا۔۔۔جس طرح خضر شجیہ کے پاس تھا اُس سے یہی ظاہر ہو رہا تھا کہ اُن کے مابین کوئی بہت گہرا اور مضبوط رشتا ہے۔۔۔اور یہی بات لیپرڈ کے غضب میں اضافہ کر رہی تھی۔۔۔۔
اُسے رہ رہ کر وہ منظر یاد آرہا تھا جب خضر نے شجیہ کے ماتھے پر اپنے لب رکھے تھے اور وہ اپنی نظروں کو جھکاتے بلش کر گئی تھی۔۔۔
بہت بری بات ہوئی یہ تو ۔۔۔اب مجھے تمہیں بیوہ کرنا پڑے گا۔۔۔تمہیں تو ہر حال میں میرا ہونا ہے میرے پاس ہونا ہے میری باہوں میں ۔۔۔۔تو تم وہاں کیا کر رہی ہو لیکن فکر نہیں کرو۔۔۔۔لیپرڈ کا خود سے وعدہ ہے تمہیں اپنے پاس لے کر آئے گا۔۔۔۔بہت پاس۔۔۔شجیہ کی تصویر کو ہاتھ میں پکڑے وہ انتہائی جنونیت سے بولا تھا۔۔۔اس وقت اُسکی آنکھوں میں ایسی دہشت تھی کہ اگر کوئی انسان اُسکے سامنے ہوتا تو یقیناً ڈر سے بیہوش ہوجاتا ۔۔۔۔
دیوار کی پشت سے اپنی پشت ٹکائے وہ دیوانہ وار شجیہ کی تصویر کو دیکھنے لگا۔۔۔پورے کمرے کا نقشا بدلہ ہوا تھا کوئی بھی چیز صحیح نہیں تھی سب ٹوٹی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔



فلک نے خان گروپ آف کمپنی کی۔عمارت کے باہر رکتے گہرا سانس بھرا تھا۔۔۔۔کل خضر نے اُسے بتایا تھا کہ اُس نے اپنے ایک دوست کے آفس میں اُسکے لیے بات کی ہے۔۔۔وہ یہاں اسسٹنٹ کی جوب پر رکھی گئی تھی۔۔۔
فلک کو حیرت ہوئی تھی لیکن پھر خضر نے بتایا اُس کے دوست کو کچھ عرصے کے لیے ایک سیکٹری چایئے اُسکے بعد اُسکی پرانی سیکٹری آجائے گی۔۔۔
کالے رنگ کی شلوار قمیض میں ریشمی دوپٹہ سینے پر پھیلائے بھورے بالوں کو سٹریٹ کیے پشت پر کھلا چھوڑے آنکھوں میں کاجل اور ناک میں اپنی نوز رنگ پہنے وہ بنا میکیپ سے پاک انتہائی پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔۔
اسلام علیکم میں فلک فاطمہ یہاں سیکٹری کی جوب کے لیے اپوانٹ ہوئی ہو۔۔۔فلک نے ریسپشن پر آکر کہا۔۔۔
جی جی میم آپ یہاں سے سیکنڈ فلور پر چلے جائیے مسٹر خان آپکا اپنے آفس میں انتظار کر رہے ہیں۔۔ریسپشن پر موجود لڑکی نے رسانیت سے کہا فلک نے اثبات میں سر ہلاتے اپنے قدم لفٹ کی طرف بڑھائے تھے۔ ۔۔۔
سیکنڈ فلور پر اتے ہی اُس نے چاروں طرف دیکھا تھا جہاں ہر کوئی اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھا۔۔۔۔
ایکسکیوز می کیا آپ بتا سکتی ہے مسٹر خان کا آفس کہاں ہے۔۔۔فلک نے پاس سے گزرتی لڑکی سے پوچھا۔۔۔
جی یہاں سے بلکل سامنے ۔۔۔۔لڑکی نے سامنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔فلک نے شکریہ کہتے اپنے قدم اُس طرف بڑھائے تھے۔۔۔
کامل خان جو اپنی کرسی پر بیٹھا اپنی زندگی کا ہر ایک بڑھتا قدم دیکھ رہا تھا مسکراہٹ کے ساتھ اپنی کرسی سے اٹھا اور دروازے کی طرف پشت کئے گلاس وال سے باہر دیکھنے لگا۔۔۔۔
فلک نے آہستہ سے دروازہ نوک کیا۔۔۔
کم۔۔۔۔اندر سے بھاری گھمبیر آواز سنتے اُس نے اپنے قدم اندر بڑھائے تھے ڈارک گرین رنگ کے تو پیس میں اُسکی طرف پشت کئے کامل خان کو دیکھتی وہ تھوڑا گھبرائی تھی۔۔۔
اسلام علیکم سر میں فلک فاطمہ۔۔۔فلک نے تھوک نگلتے اپنا تعارف کروایا اور اُسکے اس تعارف پر کامل خان نے اپنے لب بھینچے تھے اُس نے اپنے نام کے آگے اُسکا نام نہیں لگایا تھا اور یہ بات اُس کے دل میں ایک چھبن سی پیدا کر گئی تھی۔۔۔۔
کامل ایک دم سے پلٹا۔۔۔اور فلک کی آنکھیں حیرت سے پھیلی۔۔۔۔ناک بال ہونٹ قد سب کچھ تو کامل سے ملتا تھا۔۔۔کوئی اتنا ہوبہو کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔وہ حیرت سے کامل خان کی طرف دیکھتے گئی۔۔۔اور کامل اُسکی گہری نظریں محسوس کرتے پزل ہوا جس طرح سے وہ دیکھ رہی تھی اُس سے صاف واضح ہو رہا تھا کہ اُسے پہنچاننے کی کوشش کر رہی ہے۔۔۔۔۔
کامل نے اپنا گلا کنھکھاڑا۔۔۔فلک نے فوراً سے اُس پر سے اپنی نظریں بتائی اُسکے کامل کا رنگ تو سانولا تھا اور آنکھیں ایسی سبز چمکتی آنکھیں تو نہیں تھی اُسکی۔۔۔۔
بیٹھے ۔۔۔کامل نے اپنی کرسی پر بیٹھتے گہری نظروں سے فلک کا چہرہ دیکھتے کہا۔۔۔کامل کی نظر اُسکی ناک میں پہنی بالی پر اٹک گئی کل ہی تو وہ اُسکی ناک سے اتار لایا تھا اور اب پھر اُس نے پہنی ہوئی تھی مطلب اُسکی بیوی نوز رنگ کی دیوانی تھی ۔۔۔۔۔
فلک کچھ بھی کہے بغیر کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔
آپ شادی شدہ ہے ۔۔کامل کے سوال پر فلک کی آبرو تنی تھی۔۔۔ویسے ہی اس کمرے میں اُسے اپنے کامل کی خوشبو محسوس ہو رہی تھی لیکن سامنے بیٹھا انسان اُسکے بولنے کا انداز چلنے کا انداز کچھ بھی تو کامل جیسا نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
جی ہاں۔۔۔لیکن آپکا یہ سوال پوچھنے کا مقصد۔۔۔۔فلک نے سنجیدہ لہجے میں پوچھا۔۔۔۔اور کامل خان کا دل گویا سکون سے بھر گیا۔۔یہ لفظ سنتے۔۔۔
وہ آپکا نام اپنے فلک فاطمہ کہا اسی لیے۔۔۔کامل نے وضاحت دی۔۔۔فلک نے جواباً کچھ نہ کہا بس خاموش رہی ۔۔۔۔
تو مس فلک آپ اج سے میری اسسٹنٹ ہے مجھے امید ہے آپ جانتی ہوگئی۔۔۔کہ ایک سیکٹری کی کیا جوب ہوتی ہے۔۔۔یہ میرا شیڈول ہے اسے آپ نوٹ کر لے اور وہ سامنے آپکا آفس۔۔۔۔۔کامل نے اپنے ہاتھوں کو باہم ملاتے ہوئے کہا ۔۔۔فلک نے اثبات میں سر ہلاتے سامنے اپنے آفس کو دیکھا تھا جو اس آفس سے صاف نظر آرہا تھا ۔۔۔
فلک نے ٹیبل پر سے ایک فائل اٹھائیں اور کمرے سے نکلتی چلی گئی ۔۔۔کامل نے کمرے میں پھیلی اُسکی خوشبو میں گہرا سانس بھرا تھا اب وہ سامنے تھی اُسکی نظروں سے وہ اُسے گھنٹوں بیٹھا دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔
اُسے سامنے آفس میں کرسی پر بیٹھا دیکھ کامل گہرا مسکرایا۔۔۔۔
وہ اپنے بالوں کو جوڑے میں بدلتی لیپ ٹاپ آن کیے اپنی آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے اپنے کام میں مگن تھی اور کامل خان اپنا سارا اہم کام چھوڑے کرسی کی پشت پر اپنے دونوں ہاتھ اپنے سر کے نیچے رکھتے مگن انداز میں اُسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
تو بیگم کی چار چار آنکھیں ہے ۔۔۔لیکن ماشااللہ کیا خوبصورت لگ رہی ہے۔۔۔۔۔۔کامل نے خود سے کہا ۔۔۔
فلک نے آفس میں اتے ہی اُس دیوار کو حیرت سے دیکھا تھا جہاں سے اُسے اس پار کا کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا فلک نے دیکھا تو سائیڈ پر ایک بٹن تھا ۔۔اُسے لگا جیسے یہ بٹن دبانے سے وہاں سے بھی کوئی اس طرف کا دیکھ نہیں پائے گا۔۔اسی لیے جلدی سے وہ بٹن دبایا جس سے ایسی آواز گونجی جیسے اس دیوار پر ایک اور ان وزیبل دیوار لگ گئی ہو۔۔۔
ایک لمبی سانس لیتے وہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی اور کامل خان اپنی معصوم بیوی کی اس معصوم سی چالاکی پر دھیمے سے مسکرا گیا ۔۔وہ جانتا تھا فلک نے ایسا ضرور کرنا ہے لیکن یہ فلک کی غلط فہمی تھی کہ کامل اس پار کا کچھ بھی نہیں دیکھ پائے گا وہ اب بھی آرام سے بیٹھا اپنی بیوی اپنی ز ندگی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔