قسط: 13
خضر شجاعت چوہدری نام ہے سر بزنس کی دنیا میں کافی نام ہے اُسکا اور۔۔۔اور میم اُسکی بیوی ہے۔۔۔۔منیجر نے ماتھے پر آئے پسینے کو صاف کرتے ہوئے کہا اُسکی بات پر وہ جو روکنگ چیئر پر جھول رہا تھا تھما ۔۔کالی سخت لہو رنگ آنکھیں بند کرتے اُس نے مینجر کے آخری لفظوں کو برداشت کیا ۔۔۔۔
نمبر ملاؤ ۔۔۔لیپرڈ کی سخت آواز سنتے منیجر نے جلدی سے خضر کا نمبر ملایا تھا جو اُس نے معلوم کیا تھا۔۔
خضر اس وقت اپنے آفس میں بیٹھا ضروری فائل کو چیک کر رہا تھا۔۔جب اُسکا موبائل بجا۔۔۔۔انجان نمبر دیکھتے اُس نے فون اٹھایا ۔۔۔۔
کون۔۔۔خضر نے اپنی آبرو آپس میں ملاتے ہوئے پوچھا۔۔۔
دیوانہ۔۔۔شجیہ آصف کا دیوانہ۔۔۔تمھاری بیوی انتہا کی خوبصورت ہے۔۔اور اُسکی چمکتی نیلی آنکھیں آفف۔۔لیپرڈ نے ہنستے ہوئے یہ الفاظ کہے۔۔۔
اپنی زبان کو لگام دو۔۔۔ورنہ ایک پل نہیں لگائو گا تمھاری یہ گندی زبان کھینچنے میں اگر اب میری بیوی کا نام اپنی زبان سے لیا تو بخدا نہایت عبرت ناک انجام کرونگا میں تمہارا۔۔۔۔۔۔کسی انجان شخص کے منہ سے نکلتے شجیہ کے نام اور الفاظ پر خضر فورا سے اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا خوں میں اُبال اٹھتے محسوس ہوئے اُسکا بس نہ چلا کہ فون پر موجود انسان کو ابھی اپنے سامنے لا کر ایسی بھیانک موت دے کہ دیکھنے والے کا روم روم کانپ جائے۔۔۔
کول مین آرام سے جانتا ہوں اپنی بیوی کے لیے کسی غیر کے منہ سے ایسے الفاظ سنتے کیسا لگتا ہے۔۔لیکن فکر نہ کرو وہ تمھاری بیوی رہے گی نہیں بہت جلد بہت جلد وہ لیپرڈ کی کوین بنے گی۔ اُسکے پاس ہوگی۔۔۔۔۔لیپرڈ نے کہتے فون بند کیا۔۔۔خضر کا چہرہ سرخ ہوا بھوری آنکھوں میں پل بھر میں سرخی نمایاں ہوئی ہاتھوں اور ماتھے کی نسیں اشتعال سے پھولی۔۔۔۔یہ الفاظ سنتے اُسکا دل سب کچھ تہس نہس کرنے کا چاہ رہا تھا اُسکا دل کیا ساری دنیا کو آگ لگا دے ۔۔۔۔
اُس نے جلدی سے اپنے فون میں شجیہ کا نمبر تلاشنہ چاہا لیکن نمبر ہوتا تو ملتا۔۔۔۔فوراً سے گھر کی لینڈ لائن پر کال۔ کی لیکن کسی نے نہ اٹھائی۔۔۔خضر نے تعیش میں اتے موبائل سامنے دیوار پر دے مارا جو فوراً سے دو حصوں میں تقسیم ہوا۔۔۔یکدم خضر کو خیال ایا اج صبح ہی وہ شجیہ کو ہاسپٹل چھوڑ کر ایا تھا۔۔۔۔لیپرڈ کے منہ سے وہ سب سنتے اُسے شدت سے شجیہ کی فکر ہوئی تھی اُسکی بیوی خطرے میں تھی اُسکی عزت خطرے میں تھی۔۔۔خضر جتنی تیز اپنے قدم بڑھا سکتا تھا بڑھا رہا تھا۔۔۔
آدھے گھنٹے کا فاصلہ پندرہ منٹ میں طے کرتا وہ ہاسپٹل ایا تھا۔۔۔بھاگتے قدموں سے وہ آصف صاحب کے روم کی طرف بڑھا تھا۔۔۔۔
ایک جھٹکے سے روم کا دروازہ کھولا اور سامنے شجیہ کو دیکھتے اُسکے دل کو تھوڑا سکون ملا ۔۔۔بگڑتی دل کی دھڑکن یکدم صحیح ہوئی۔۔۔۔دماغ کی تنی نسیں اُسے سامنے بیٹھا دیکھ ڈھیلی پڑی۔۔۔
کیا ہوا خضر ۔۔۔اچانک سے کمرے کا دروازہ کھلنے پر شجیہ اور نسرین بیگم چونکے سامنے خضر کو دیکھ کر شجیہ نے فکر مندی سے پوچھا۔۔۔خضر کی لال ہوتی آنکھیں اُسے فکرمند کر گئی تھی۔۔۔۔۔
اسلام علیکم ۔۔۔خضر نے سنجیدگی سے نسرین کے سامنے سر جھکا کر کہا۔۔
وعلیکم السلام بیٹا۔۔۔نسرین نے پیار سے خضر کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا۔۔۔جبکہ شجیہ اب بھی خضر کی طرف فکرمند نظروں سے دیکھ رہی تھی وہ اُسکے چہرے سے بھانپ گئی تھی کہ وہ بیچین ہے پر کیوں یہ اُسکی سمجھ سے باہر تھا۔۔۔۔
کیسی طبیعت ہے اب۔۔خضر نے آصف صاحب کی طرف دیکھتے انکا حال جاننا چاہا ۔۔
بابا ٹھیک ہے آپ طبیعت میں بہتری آرہی ہے۔۔ڈاکٹر کا کہنا ہے انشاءاللہ جلد ہی وہ کوما سے باہر آجائے گے۔۔۔شجیہ نے جواب دیا۔۔۔۔
خیریت آپ ایسے اچانک یہاں اگئے ۔۔۔شجیہ نے خضر کے پاس کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا۔۔۔
ہاں وہ میں تمہیں لینا ایا تھا۔۔۔خضر نے اپنی داڑھی کھجاتے ہوئے کہا۔۔۔
ہاں بیٹا جاؤ ویسے بھی شام ہونے والی ہے مغرب سے پہلے گھر پہنچ جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔۔۔نسرین نے فوراً سے کہا ۔۔صبح سے اپنی بیٹی کے چہرے پر حیا اور محبت کے رنگ دیکھ کر وہ انتہاء کی خوش تھی۔۔نہ جانے کتنی بار وہ اپنے رب کا شکر ادا کر چکی تھی۔
شجیہ نے اپنا بیگ اٹھایا آصف صاحب کے ماتھے پر پیار دیتی وہ نسرین سے ملتی خضر کے ہمراہ باہر نکلی تھی۔۔۔
خضر نے کمرے سے نکالتے ہی شجیہ کا ہاتھ تھاما تھا جبکہ بھوری نظریں اطراف کا جائزہ لے رہی تھی۔۔۔
اپنا منہ ڈھانپو شجیہ اور اپنے بال بھی۔۔۔خضر ہے سخت آواز میں اطراف میں دیکھتے کہا۔۔۔
خضر کی بات پر شجیہ نے اچھنبے سے اُسکی طرف دیکھا پھر دیہان اپنے دوپٹے پر گیا جو سر سے ڈھلک کر کندھوں پر گر گیا تھا۔۔۔۔۔
شجیہ نے جلدی سے دوپٹہ سر پر لیا جبکہ دوپٹہ سے اپنا چہرہ بھی اچھی طرح ڈھانپا ۔۔۔ذہن میں سو سوال گڈ مڈ کر رہے تھے لیکن نظرانداز کر گئی۔۔۔۔



پورے راستہ خضر نے شجیہ سے کوئی بات نہیں کی تھی جبکہ شجیہ بھی اُسکا لال ہوتا ہاتھ جو اسٹیئرنگ پر مضبوطی سے رکھا گیا تھا ۔۔اور لال ہوتی آنکھیں دیکھتی چپ تھی۔۔۔
خضر کیا ہوا ہے۔۔۔شجیہ نے گھر میں داخل ہوتے ہی خضر سے پوچھا جس نے ابھی بھی گاڑی سے نکلتے ہی اُسکا ہاتھ تھام لیا تھا۔۔۔۔
کچھ نہیں ہوا تُم ٹینشن نہ لو بس کچھ آفس کا کام تھا اسی لئے تھوڑا فکر مند تھا۔۔خضر نے شجیہ کی بات پر اُسکے پریشان چہرے کی طرف دیکھتے نرمی سے کہا۔۔گاڑی میں بھی وہ اپنی طرف اٹھتی اُسکی پریشان نظریں محسوس کر چکا تھا لیکن وہ تب کچھ بھی بولنے کی حالت میں نہ تھا دماغ میں اُس فون کال سے گونجتے الفاظ گھوم کر اُسکے سینے میں جلن سی پیدا کر گئے تھے۔۔۔۔۔
اچھا پھر آپ روم میں جائے میں آپکے لئے کافی بنا کر لاتی ہو۔۔۔شجیہ نے جلدی سے کہا۔۔خضر اثبات میں سر ہلاتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا جبکہ شجیہ نے کچن کا رخ کیا۔۔۔
کمرے میں ادھر اُدھر چکر لگاتا اپنے بھینچے لبوں کے ساتھ وہ اپنے اوپر ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا اج جو ہوا تھا وہ قطعی نظرانداز نہیں کر سکتا تھا آخر کون تھا وہ شخص جو شجیہ کو جانتا تھا اُسکی باتوں سے وہ اتنا تو سمجھ گیا تھا جو کوئی بھی ہے وہ اُسکی دشمنی میں شجیہ کو ہتھیار نہیں بنا رہا ۔۔۔۔وہ واقعی میں شجیہ کے پیچھے ہے۔۔اور جو کوئی بھی ہے خضر اسکو نہ چھوڑنے کی قسم کھا بیٹھا تھا۔۔۔
شجیہ کے کمرے میں انے پر وہ صوفے پر بیٹھا تھا۔۔جب شجیہ کافی کا کپ لیے اُسکے برابر میں بیٹھی۔۔۔۔
خضر مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔۔۔شجیہ نے خضر کے کندھے پر اپنا سر رکھتے دھیمی آواز میں کہا ۔۔
بولو ۔۔شجیہ کے بالوں سے اُٹھی مدہوش کن خوشبو کو اپنی روح تک میں جذب کرتے اسے سکون سا ملا تھا ورنہ جب سے وہ فون کال ائی تھی وہ تڑپتا جلتا بیچین تھا۔۔۔۔
میں یونی پھر سے جوائن کرنا چاہتی ہو میری ڈگری ابھی تک مکمل نہیں ہوئی خضر۔۔لیکن اگر آپ منع کردے گے تو پھر نہیں جاؤنگی۔۔۔آپ کا فیصلہ مجھے زیادہ عزیز ہے۔۔شجیہ نے اپنے ناخن کو دیکھتے خضر سے کہا۔۔
جبکہ خضر نے اُسکی بات پر اپنی آنکھیں مینچی تھی اگر وہ فون کال اُسکے پاس نہ ائی ہوتی تو وہ بغیر کسی جھجھک اور دیری کے لیے اُسے جانے دیتا ۔۔۔لیکن اب وہ ڈر گیا تھا شجیہ کی حفاظت کو لیتے۔۔۔۔ایسے میں وہ اُسے یونی کیا کمرے سے باہر اپنی پناہوں سے باہر نہ جانے دیتا ۔۔۔۔
شجیہ نے آس بھری نظروں سے خضر کے چہرے کی طرف دیکھا جو سنجیدہ تھا۔۔۔خضر نے اپنی بھوری آنکھیں شجیہ کی نیلی آنکھوں میں ڈالی۔۔
ٹھیک ہے تم یونی جا سکتی ہو لیکن ایک شرط پر۔۔۔خضر نے کافی کا کپ ٹیبل پر رکھتے۔۔شجیہ کی قمر میں اپنا ہاتھ ڈالتے اُسے اپنے مزید قریب کرتے کہا۔۔۔
کون سی شرط ۔۔۔شجیہ نے انتہائی قریب خضر کے چہرے کو دیکھتے پوچھا جس کی گرم لو دیتی سانسیں اُسکے ہونٹوں پر پڑتی اُسکی سانسوں میں روانی پیدا کر گئی تھی۔۔۔۔
یہی کہ پھر تم مجھے بلکل نظرانداز نہیں کرونگی۔۔۔اتنا سا بھی ۔۔یونی سے اتے ہی تمہارا سارا وقت صرف میرا ہوگا۔۔۔خضر نے اپنی پرتپش سانسیں شجیہ کے لبوں پر چھوڑتے گھمبیر لہجے میں کہا۔۔۔
میرا سارا وقت صرف اور صرف آپکا ہی تو ہے۔۔۔شجیہ نے اپنی باہیں خضر کی گردن میں ڈالتے ہوئے اٹھلاتے لہجے میں کہا۔۔۔
بلکل اور ہونا بھی چایئے۔۔۔خضر نے کہتے ساتھ شجیہ کے گلابی لبوں کو فوکس کرتے اُن پر جھکنا چاہا جب شجیہ نے اُسکے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھا۔۔۔
اور شرارت بھری نظروں سے خضر کی بھوری آنکھوں میں دیکھا۔۔۔
دھیرے سے اپنے لب خضر کے لبوں کے قریب لاتے اپنا ہاتھ ہٹایا اور تیزی سے اپنے لب خضر کے لبوں پر رکھے۔۔۔۔۔
خضر کی آنکھیں تحیر سے پھیلی لیکن لبوں پر ایک نرم لمس محسوس کرتے وہ کب تک حیرانگی میں رہتا شجیہ کی گردن میں اپنا ہاتھ ڈالے وہ بھی شجیہ کے لبوں کے لمس کو پوری شدت سے محسوس کرنے لگا۔۔۔۔
جو تن بدن ،دل و دماغ شدید جلن اور اشتعال سے تپ رہے تھے اُن میں شجیہ کے لمس نے ٹھندی ہوا جیسا اثر کیا تھا ۔۔۔۔۔
ایک دوسرے کے لمس کو محسوس کرتے وہ ایک دوسرے سے الگ ہوئے تھے۔۔۔شجیہ نے پھولی سانسوں سے خضر کی لو دیتی بھوری آنکھوں میں جھانکا جہاں پہلے یہ چمک نامدار تھی جو اب صاف واضح ہے۔۔۔۔
اہم اہم۔۔۔۔خضر نے اپنا گلا کھنکھارتے آنکھوں میں شوخ سی چمک لیے شجیہ کی طرف دیکھا۔۔۔
شجیہ نے فوراً سے اپنا سرخ قندھاری چہرہ خضر کے سینے میں چھپایا ۔۔۔خضر اُسکے گرد اپنا حصار باندھتے ہنس دیا۔۔۔فلوقت دماغ پُر سکون ہوگیا تھا اور وجہ تھا پاس بیٹھا وجود۔۔۔جو اب اُسکی زندگی تھا اُسکے جینے کی وجہ۔۔۔۔




آج اُسے افس میں کام کرتے پانچواں دن تھا اور ان پانچوں دن وہ جب جب مسٹر خان کے سامنے گئی تھی اُسے عجیب سا محسوس ہوتا تھا۔۔۔دل اُسے اندیشہ کرتا یہ ہی تمہارا کامل ہے۔۔۔لیکن دماغ فوراً سے دل کی نفی کرتا۔۔۔لنچ ٹائم پر اُسکے لیے لنچ دِن میں کم سے کم دو بار اُسکے لیے فریش جوس مہیا ہوتا تھا اور وہ حیرت سے گنگ رہ جاتی ایسا نہیں تھا صرف اُسکے لیے ہی یہ سب تھا اُس نے باقی ایمپلائز کو بھی دیکھا تھا یہ سب چیزیں باقی ورکرز کو بھی مہیا کی جاتی تھی اب اُسے کوں بتاتا کہ اُسکے شوہر نامدار نے صرف اُسکی وجہ سے پورے آفس کے لیے بھی یہ چیز مہیّا کروائی تھی ۔۔۔لیکن ایک چیز میں اُسکا دماغ بھنا اٹھا جب سے وہ یہاں ائی تھی اُسکے پاس کوئی کام ہی نہیں تھا۔۔۔اگر اُسے کوئی کام ملتا تو وہ بھی صرف بیٹھ کر کرنے کا۔۔۔۔
وہ سخت جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہوگئی تھی۔۔ ابھی بھی افس کے باہر وہ اپنی گاڑی کے انتظار میں کھڑی انہی باتوں کو سوچ رہی تھی۔۔۔۔جب اُسکی نظر روڈ کے اُس پار کھڑے ٹھیلے پر پڑی گول گپے دیکھتے اُسکی بھوک بڑھی ویسے بھی آجکل اُسے حد سے زیادہ بھوک لگنے لگی تھی۔۔۔۔
اُس نے روڈ کروس کرنے سے پہلے اطراف میں دیکھا جہاں گاڑی بہت دور تھی۔۔۔
سائرہ جو اپنے گھر کی طرف جا رہی تھی سامنے روڈ پر فلک کو دیکھتے اُس کی آنکھوں میں غصّہ لہرایا۔۔۔فلک کے الفاظ یاد اے تو اس نے اپنی گاڑی کی رفتار تیز کی۔۔۔۔۔
اپنے قریب تیز رفتار میں اتی گاڑی کو دیکھتے فلک کا وجود سن ہوا۔۔دماغ ماؤف ہوا ۔۔پورا وجود پسینے سے بھیگا۔۔۔جب کسی مضبوط ہاتھ نے اُسے جھٹکے سے اپنے قریب کھینچا۔۔۔سائرہ کی گاڑی اُس سے تھوڑے فاصلے پر ہی تھی۔۔۔۔
سائرہ نے بیک مرر سے پیچھے دیکھ کر اسٹیئرنگ پر اپنا ہاتھ مارا تھا اور اپنی گاڑی آگے بھگا لے گئیں ۔۔۔
فلک نے خوف سے مینچِی آنکھیں اپنے آپکو ایک مضبوط گرفت میں محسوس کرتے کھولی۔۔۔
کامل نے دور جاتی گاڑی کا نمبر فوراً سے اپنے دماغ میں بٹھایا۔۔جبکہ اب نظریں بیقراری سے فلک کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
ٹھیک ہے آپ۔۔۔کامل نے فلک کے ماتھے پر چمکتا پسینہ صاف کرتے نرم لہجے میں پوچھا۔۔۔وہ فلک کو آفس سے جاتا دیکھ خود بھی باہر نکلا تھا جب سامنے کا نظر اتا منظر دیکھتے اُسکی روح فنا ہوئی تھی اُسے لگا اگر وہ وقت پر نہیں پہنچے گا تو اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔۔۔وہ دیکھ چکا تھا فلک کی غلطی نہیں تھی۔۔۔وہ پوری طرح دیکھ کر ہی روڈ کروس کر رہی تھی۔۔۔۔
وہ ۔۔۔وہ گا۔۔گاڑی۔۔۔فلک کے زبان سے خوف کی وجہ سے الفاظ ادا ہی نہیں ہو رہے تھے۔۔۔۔
ریلیکس ٹھیک ہے آپ کچھ نہیں ہوا آپ کو۔۔۔۔کامل نے اُسکے گال پر ہاتھ رکھتے تسلی دلائی۔۔۔۔
فلک نے آنکھیں مینچ کر گہرا سانس بھرا آنکھیں کھولتے ایک نظر روڈ کی طرف دیکھا جہاں پر گاڑیاں روا دوا تھی حواس کچھ بحال ہوئے تو اپنے انتہائی قریب مردانا کلون کی خوشبو محسوس کرتے اس نے سامنے کامل خان کو دیکھا ایک پل کے لیے اُسے لگا یہ اُسکا کامل ہے ۔۔۔۔
قمر پر رکھے کامل خان کے لمس کو محسوس کرتے اب اُسکی آنکھیں تحیر سے پھیلی تھی۔۔۔۔
اُس نے سبز انکھوں میں اپنی بھوری آنکھیں ڈالتے کچھ تلاشنا چاہا شاید شناسائی کی کوئی رمک۔۔۔۔
وہ سب کچھ نظرانداز کر جاتی شاید اُسکی آواز مہک آنکھیں نین نقش سب لیکن یہ لمس یہ لمس وہ کیسے نظرانداز کرسکتی تھی۔۔۔یہ لمس تو وہ آنکھیں بند کئے بھی پہچان جائے۔۔۔۔۔یہ لمس تو اُسکے وجود پر سرائیت کرتا اُسکی روح میں جذب ہوا تھا ۔۔۔۔
فلک کی دل۔ کی دھڑکن بڑھی وہ یک تک کامل خان کو دیکھتی گئی۔۔۔
کامل بھی شاید اُسکی حالت پہچان گیا تھا وہ کیا سوچ رہی تھی یہ بھی۔۔۔اُس نے آرام سے فلک کی قمر سے اپنا ہاتھ ہٹایا تھا اور اس سے تھوڑی دوری بنائیں۔۔۔۔
کامل خان کے دور ہونے پر فلک ہوش میں ائی۔۔۔
آپ۔۔آپ۔۔۔فلک نے کچھ بولنا چاہا لیکن کامل نے اُسکی بات کاٹی۔۔۔
آپکی گاڑی آگئی ہے مس فلک اور آئندہ دیہان سے روڈ کروس کی جئے گا۔۔۔کامل نے پاس رکتی اُسکی گاڑی کو دیکھتے سخت آواز میں کہا اور اپنے قدم آگے بڑھائے۔۔۔
فلک نے نم انکھوں سے اُسکی پشت کو تکا۔۔۔
یہ آنسو بھی نہ بڑے دغا باز ہوتے ہے ہم جتنی مرضی خود سے وعدہ کر لے ہم روۓ گے نہیں لیکن جب اذیت حد سے بڑھ جاتی ہے نہ تو یہ بہہ نکلتے ہے لاکھ ضبط کرنے کے بعد بھی۔۔۔۔
فلک نے جلدی سے اپنے آنسو پوچھے۔۔۔
مجھے کیوں لگ رہا ہے آپ کامل ہے یہ پھر میں اُس شخص کو اپنے ذہن پر اتنا حاوی کر چکی ہو کہ کسی بھی غیر کو کامل سمجھ رہی ہو۔۔۔۔لیکن دل کیوں ہر بار مسٹر خان کو دیکھتے یہ کہتا ہے جیسے یہ کوئی غیر نہیں ہے تمہارے اپنے ہے بہت اپنے۔۔۔فلک نے گاڑی میں بیٹھتے اپنا سر سیٹ کی پشت سے ٹکاتے سوچا۔۔۔۔
کامل نے فلک کی گاڑی کو آگے بڑھتا دیکھ اپنی گاڑی آگے بڑھائیں تھی۔۔جس طرح اج فلک اُسے دیکھ رہی تھی اس سے واضح ہو رہا تھا وہ اُسکے لمس کو پہچانتی ہے
کامل بیساختہ مسکرا گیا۔۔لیکن اگر وہ اس لمس کو پہچان گئی تھی تو کامل کے لیے مشکل بھی کھڑی ہوسکتی تھی۔۔۔۔
یکدم اُسکے دماغ میں وہ گاڑی ائی جس نے فلک پر حملے کی کوشش کی تھی۔۔۔اُسکا نمبر جیسے ہی دماغ میں دہرایا تو کچھ یاد انے پر اُسکے جبڑے تنے۔۔۔۔چہرے پر غضب چھلکا۔۔۔
پہلے تمہیں پیار سے ڈیل کر رہا تھا سائرہ محترمہ لیکن اب آپ نے میری زندگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔۔اب تو رحم کی اُمید مت کریے گا۔۔۔۔کامل نے دانت پیستے ہوئے کہا اور فلک کی گاڑی کا پیچھا کیا جب تک فلک کی گاڑی خضر منشن میں داخل نہ ہوئی وہ تب تک اُسکی گاڑی کا پیچھا کرتا رہا۔۔۔
فلک کو گھر کے اندر جاتا دیکھ اُس نے ایک گہرا سانس بھرا۔۔۔موبائل نکالتے خضر کا نمبر ڈائل کیا جو بند تھا اُسے حیرت ہوئی اج تک تو کبھی اُسکا نمبر بند نہیں ہوا تھا۔۔۔۔
سر جھٹکتے اپنی گاڑی اپنے فلیٹ کی طرف موڑی۔۔۔۔



خضر اپنا لیپ ٹاپ لیے کاؤنچ پر بیٹھا ہوا تھا۔۔جبکہ شجیہ فریش ہو رہی تھی۔۔۔
اچانک سے اُسکے لیپ ٹاپ پر ایک ویڈیو ریسیو ہوئی۔۔۔خضر نے ایک نظر واشروم کے بند دروازے کو دیکھا ۔۔اور ویڈیو کو اوپن کیا لیکن۔۔اُس میں نظر آتے شجیہ کے چہرے کو دیکھتے اُسکا چہرہ تنا۔۔۔۔
اپنے ہاتھ کی مٹھی بھینچے اُس نے وہ پوری ویڈیو دیکھی جب میں وقتاً فوقتاً شجیہ کی تصویریں تھی صبح ہسپتال جاتے ہوئے کی نسرین کے پاس بیٹھنے کی خضر کے ساتھ واپس آنے کی ۔۔۔۔
خضر کو لگا اُسکا سر پھٹ جائے گا۔۔۔۔آخر کون تھا یہ چاہتا کیا تھا۔۔خضر نے اپنے جبڑے بھینچے ۔۔۔۔ایسا لگا کسی نے جلتے ہوئے لاوے میں اُسے پھینک دیا ہوا۔۔پورا وجود سلگ اٹھا تھا۔۔۔
جب آخر میں گونجتی آواز میں نے اُسکے پور پور میں آگ لگا دی۔۔۔۔
کیسے ہو خضر شجاعت چوہدری ۔۔۔تُو کیسا لگا تمہیں میری طرف سے دیا گیا ایک تحفہ۔۔۔تمھاری بیوی۔۔۔اوہ سوری سوری یار میرا دل جل گیا یہ کہتے ہوئے ۔۔۔میری کوین کی ہر ایک پل پر نظر ہے میری۔۔۔۔کیا کرو دل ہی نہیں بھرتا اُسکی یہ خوبصورت نیلی جھرنے جیسی آنکھیں دیکھتے۔۔۔اب تمہارا دل جلا ہوگا۔۔۔جانتا ہو۔۔۔
خضر کی برداشت یہی تک تھی اُس نے جھٹکے سے لیپ ٹاپ بند کیا۔۔۔ہاتھ کی مٹھی بنائے اپنے لبوں پر رکھتے اُس نے اپنے اوپر ضبط کرنے کی کوشش کی۔۔۔لیکن ناکام
۔۔
اب پانی سر کے اوپر پہنچ گیا تھا وہ اب کسی صورت اس انسان کو نہیں چھوڑنے والا تھا۔۔۔خضر کو یہ الفاظ سنتے ایسا لگا جیسے کسی نے دہکتے کوئلے اُسکے وجود پر انڈیل دیے ہو۔۔۔۔
شدید غصے میں وہ اپنی جگہ سے اٹھا تھا بھوری لہو رنگ آنکھوں میں غضب کی سختی اور سرد پن تھا۔۔۔۔
ابھی وہ کمرے سے باہر جاتا جب شجیہ واشروم سے بھیگے بالوں کے ساتھ باہر نکلی۔۔۔خضر تھما ۔۔
کہیں جا رہے ہیں آپ۔۔۔شجیہ نے پوچھا۔۔۔
خضر نے کچھ بھی کہہ بغیر اُسے انتہائی شدت سے اپنے سینے میں بھینچا۔۔۔۔
اپنی جلتی آنکھیں بند کئے اُس نے شجیہ کے وجود سے اُٹھی مسحور کن خوشبو محسوس کی۔۔۔
میں جلدی انے کی کوشش کرونگا ایک ایمرجنسی کام آگیا ہے۔۔۔تم یہاں کمرے میں ہی رہنا ۔۔۔گھر سے باہر کیا تم اُس کمرے سے بھی باہر نہیں نکلو گی ۔۔۔میں فلک کو یہی تمھارے پاس بھیج رہا ہوں۔۔۔خضر نے شدت سے اپنے لب شجیہ کے ماتھے پر ضبط کرتے نرمی سے کہا۔۔۔
خیریت تو ہے نہ۔۔۔شجیہ نے فکرمندی سے پوچھا۔۔۔نہ جانے کیوں اُسے صبح سے ایسا لگ رہا تھا جیسے خضر کسی پریشانی میں مبتلا ہے۔۔۔۔
سب ٹھیک ہے تم اپنا اورفلک دونوں کا خیال رکھنا۔۔۔خضر نے نرمی سے اُسکے گال پر اپنا انگوٹھا پھیرتے ہوئے کہا۔۔
شجیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔سر پر دوپٹہ لیتی۔۔۔آیت ال کُرسی پڑھتی اُس نے خضر پر پھونکی تھی۔۔۔
خضر ایک بار پھر اپنے لب اُسکے گال پر رکھتا باہر نکلا۔۔۔۔ساتھ ہاتھ میں اپنا لیپ ٹاپ لینا نہیں بھولا تھا
کمرے سے باہر نکلتے ہی اُسکی آنکھوں میں جو نرم تاثر شجیہ کے سامنے تھا وہ بدلہ اب بھوری آنکھوں میں دہشت ناچ رہی تھی۔۔۔۔
تنی رگوں کے ساتھ وہ لاؤنچ تک ایا تھا۔۔جہاں اُسے فلک اتی ہوئی نظر ائی۔۔۔
شجیہ کے پاس کمرے میں جاؤ۔۔۔اور دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھنا۔۔۔خضر نے فلک کے پاس اتے سخت لہجے میں کہا۔۔فلک نے اثبات میں سر ہلایا۔۔خضر کی لال آنکھیں دیکھتے وہ سمجھ گئی تھی کچھ نہ کچھ تو گڑبڑ ہے لیکن کیا یہ اُسے نہیں پتہ تھا۔۔۔
خضر باہر نکلتا چلا گیا جبکہ فلک ملازمہ کو کھانے کا کہتی شجیہ کے کمرے کی طرف بڑھی تھی۔۔۔۔



اچھا ہوا تو یہی آگیا مجھے تُجھ سے ایک ضروری بات کرنی تھی۔۔۔کامل نے فلیٹ کا گیٹ کھولتے سامنے خضر کو دیکھتے کہا۔۔۔
خضر تیزی سے اندر ایا۔۔۔۔
کیا ہوا ہے تُجھے ۔۔۔کامل نے خضر کے سخت چہرے کو دیکھتے پوچھا۔۔۔
جس پر خضر نے کچھ بھی بولے بنا اپنا لیپ ٹاپ آن کرتے ویڈیو آن کی۔۔۔اور یہ ویڈیو دیکھتے اور آخر میں گونجتے لفظوں کو سنتے کامل خان کا چہرہ بھی تنا تھا۔ بات اُسکے دوست کی عزت کی تھی۔۔۔۔
کون ہے یہ۔۔۔۔کامل نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔
وہی پتہ کرنے یہاں ایا ہو شجیہ کے سامنے نہیں کر سکتا تھا۔۔۔خضر نے کہتے تیزی سے اپنی انگلیاں لیپ ٹاپ پر چلائی۔۔۔۔
آج سائرہ نے فلک پر حملہ کرنے کی کوشش کی اگر میں وقت پر نہ اتا تو بہت کچھ غلط ہوچکا ہوتا۔۔۔کامل نے سخت لہجے میں اپنے دونوں ہاتھوں کو باہم ملا کر کسی غیر مرئی نقطے کو تکتے کہا۔۔۔
اُسکا فلک سے کیا لینا دینا۔۔۔خضر نے اپنے ہاتھ روکتے کامل کی جانب دیکھتے پوچھا۔۔۔
پتہ نہیں شاید وہ فلک کے بولے گئے لفظوں کا بدلہ لینا چاہتی تھی۔۔۔کامل۔نے کندھے اچکا کر کہا ۔۔۔
میں اج ہی اُسکا دماغ ٹھکانے لگاتے اُس سے ساری انفارمیشن لینے والا ہو۔۔۔کامل کی بات پر خضر نے گہرا سانس بھرا۔۔۔
دیہان سے کوئی غلطی نہ ہو۔۔۔خضر نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔کامل نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔
کچھ پتہ چلا۔۔۔کامل نے پوچھا۔۔
جھون۔۔۔خضر نے سکرین پر نظر آتآ نام زیرِ لب دہرایا۔ سکرین پر لوکیشن اور باقی ساری ڈیٹیل نظر آرہی تھی ۔۔۔۔
کیا۔۔کامل نے پوچھا۔۔۔
جب خضر نے اُسکے آگے لیپ ٹاپ کیا۔۔۔
تُجھے لگتا ہے ایک کمپنی میں کام کرنے والا منیجر یہ حرکت کرے گا۔۔۔کامل نے اچھنبے سے پوچھا۔۔۔
نہیں ہے تو کوئی اور اس کے پیچھے صبح فون پر اُس نے ایک غلطی کی تھی اور وہ غلطی تھی اُس نے اپنا نام بتایا تھا لیپرڈ۔۔۔۔خضر نے اپنی داڑھی رب کرتے ہوئے کہا۔۔۔
یہ کیسا نام ہوا۔۔۔ایسے نام تو ۔۔۔کامل نے بات ادھوری چھوڑی ۔۔
ایسے نام انڈر ورلڈ میں رکھے جاتے ہیں۔۔۔دونوں یک زبان بولے۔۔۔۔
لیکن ایسا کیسے ہوسکتا ہے بھابھی کو اس نے دیکھا کیسے۔۔۔کامل نے حیرانگی سے پوچھا ۔۔
میں نہیں جانتا لیکن اُس نے میری بیوی پر نظر رکھی ہے کسی بھی قیمت پر میں اُسے چھوڑنے نہیں والا۔۔سائرہ کا معاملہ اج ہی حل کرو ۔ہو سکتا ہے کوئی کنیکشن نکل آئے لیپرڈ اور سائرہ کا۔۔۔خضر نے جبڑے بھینچتے ہوئے کہا۔۔۔
کامل نے اُسکی بات پر اثبات میں سر ہلایا۔۔۔