قسط: 14
کیا ہوا ہے خضر کو ۔۔۔فلک نے کمرے میں داخل ہوتے شجیہ سے پوچھا جو بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔
پتہ نہیں صبح سے مجھے کافی پریشان سے دکھ رہے ہیں ابھی بھی کچھ ایمرجنسی کام کا کہتے باہر گئے ہے ۔۔شجیہ نے بتایا ۔۔
تم نے کھانا کھایا۔۔۔شجیہ نے فلک کے تھکے چہرے کو تکتے ہوئے پوچھا۔۔۔
نہیں منگوایا ہے۔۔۔فلک نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
ٹھیک ہو ۔۔۔شجیہ نے فلک کا سر اپنی گود میں رکھتے اُسکے بالوں میں اپنی انگلیاں چلاتے ہوئے پوچھا۔۔
ہاں بھی نہیں بھی۔۔۔فلک نے اپنی آنکھیں موندتے جواب دیا۔۔۔۔۔
خیریت۔۔۔شجیہ نے اچھنبے سے پوچھا۔۔۔۔
شجیہ اگر آپکا دل و دماغ دو الگ الگ بات کرے تو کس کی سُننی چایئے۔۔۔۔فلک نے سوال کیا۔۔۔
ہمیشہ اپنے دل کی سننّی چایئے کیونکہ کبھی کبھار دل وہ سب محسوس کر لیتا ہیں جو دماغ محسوس نہیں کر پاتا ۔۔۔۔شجیہ نے اپنا نظریہ بتایا۔۔۔۔
فلک نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔
اج جو کچھ ہوا وہ نظرانداز نہیں کر سکتی تھی بلکل بھی نہیں اپنی قمر پر رکھا مسٹر خان کا ہاتھ وہ لمس وہ کیسے نظرانداز کر جاتی اب بھی ذہن میں سو سوال گڈ مڈ کر رہے تھے ۔۔۔۔کیا مسٹر خان ہی کامل ہے۔۔۔ملازمہ کی آواز پر وہ اپنی سوچوں کے محور سے نکلی۔۔۔
کھانا کھاتے اُس نے اپنا دیہان شجیہ کی باتوں میں لگایا جو اُسے اج سارے دن کی راود سنا رہی تھی۔۔۔



کامل سائرہ کے گھر میں داخل ہوا تو ہر طرف اندھیرا تھا وہ سائرہ کو اپنے انے کے مطلق بتا چکا تھا۔۔گھر میں غیر معمولی خاموشی دیکھتے وہ الرٹ ہوا ۔۔۔باہر کوئی گارڈ بھی نہیں تھا جس کا مطلب تھا وہ کامل کے انے کا سنتے اُنہیں یہاں سے بھیج چکی تھی ۔۔۔
خضر اور اُسکی ٹیم کے کچھ ممبر بھی اُسکے ساتھ تھے جنہوں نے فلیٹ کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا سائرہ کے بھاگنے کا کوئی چانس ہی نہیں تھا۔۔
کامل نے اپنے قدم سائرہ کے روم کی طرف بڑھائے اور سامنے نظر آتا منظر دیکھتے اُس نے با مشکل اپنا چٹخے اعصاب ڈھیلے کیے تھے سامنے سائرہ ایک بیہودہ سی نائٹی جو با مشکل اُسکے بدن کو ڈھانپی ہوئی تھی ہاتھ میں حرام مشروب پکڑے ایک ادا سے بیڈ پر نیم دراز تھی ۔۔۔
کامل نے فوراً سے اپنی نظروں کا ارتکاز دوسری طرف کیا۔۔۔
کیسی لگ رہی ہو میں۔۔۔سائرہ نے کامل کے قریب اتے اُسکے گال پر انگلی ٹریس کرتے خمار اور نشیلی آواز میں پوچھا۔۔۔
کامل نے اپنی آنکھوں میں نرم تاثر لاتے اُسکی طرف دیکھا تھا جو ایک مشکل امر تھا۔۔۔
ہمیشہ کی طرح حسین۔۔۔کامل نے ایک جھٹکے سے اُسکا رخ مورتے پشت اپنے سینے سے قریب کی لیکن بیچ میں کچھ فاصلہ رہنے دیا۔۔۔۔
تمہارے اُس پارٹی کا کیا ہوا جو کسی چیف گیسٹ کے لیے رکھی گئی تھی۔۔۔کامل نے سرسری لہجے میں پوچھا۔۔۔
چیف گیسٹ نے منع کردیا ہے کوئی پارٹی نہیں کرنی ۔۔۔سائرہ نے اپنے کامل کے ہاتھ اپنے بازو سے ہٹاتے اپنے پیٹ پر باندھتے کہا۔۔۔۔
کون ہے یہ چیف گیسٹ۔۔۔کامل نے یکدم اپنی گرفت اُسکے پیٹ پر انتہائی سخت کی سائرہ کو لگا اُسکا پیٹ اُبل کر باہر آجائے گا۔۔۔
تمہیں جان کر کیا کرنا ہے ۔۔سائرہ نے اپنے پیٹ پر سے اُسکا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کرتے پوچھا۔۔۔
سائرہ محترمہ سیدھی شرافت سے بتاؤ کون ہے وہ چیف گیسٹ ۔۔کامل نے سائرہ کا رخ پلٹتے اُسکے بال اپنی سخت گرفت میں لیتے سرد لہجے میں پوچھا۔۔۔۔
کون ہو تم۔۔۔سائرہ نے کامل کی سرد سبز آنکھیں اور ویشی گرفت محسوس کرتے اسپاٹ لہجے میں پوچھا۔۔
یہ تمہارے لیے نہ جاننا ہی بہتر ہے اب جو پوچھا ہے وہ بتاؤ۔۔۔کامل نے اُسکے بالوں میں جھٹکا دیتے ہوئے سخت آواز میں کہا۔۔۔
گارڈز۔۔۔سائرہ چیخی۔۔۔
غلط سب گارڈز کو تو تم مجھ سے ملنے کی وجہ سے چھٹی دے چکی ہو کوئی بھی نہیں ہے اب یہاں سوائے تمہارے اور میرے۔۔۔کامل نے طنزیہ لہجے میں اُسکا سفید پڑتا چہرہ دیکھتے کہا۔۔۔
اب سیدھی طرح بتاؤ کون ہے وہ انڈر ورلڈ کا آدمی جو تمہارے ساتھ ملا ہوا ہے۔۔۔دیکھو میں عورت پر ہاتھ نہیں اٹھاتا لیکن گولی ضرور مار سکتا ہو۔۔۔۔کامل نے اپنی گن نکالتے اُسکے سر پر تانتے ہوئے سرد آواز میں کہا۔۔۔۔
سائرہ نے ایک نظر کمرے میں لگے کیمرے کو دیکھا اور مسکرائی ۔۔۔کامل نے اُسکی نظروں کے ارتکاز میں دیکھا تو نفی میں سر ہلا گیا۔۔۔
بند ہے وہ جسے دیکھتے تم زہریلی ہنسی ہنس رہی ہو ۔۔۔کامل کی بات پر سائرہ کے مسکراتے لب سمٹے۔۔۔۔
وہ سمجھ گئی تھی اب اُس کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
لیپرڈ ہے وہ۔۔۔وہی انڈر ورلڈ سے ہمارے ساتھ ہے۔۔۔سائرہ کی بات سنتے کامل کی آبرو تنی تھی مطلب خضر صحیح تھا۔۔۔ان سب کے پیچھے لیپرڈ تھا اور وہی شجیہ کے پیچھے پڑ چکا تھا ۔۔۔
اندر آجاؤ۔۔۔کامل نے اپنا کان میں لگے چھوٹے سے آلے کو پریس کرتے کہا۔۔۔
یہ چادر اپنے وجود پر لیپٹو۔۔۔تم جیسی عورت ۔۔۔عورت کہلانے کے لائق نہیں ہے جو پیسوں کی لالچ میں دوسری عورتوں اور بچیوں کی عزت بیچ دیتی ہے۔۔۔کامل نے ایک جھٹکے سے بیڈ کی چادر کو کھینچ کر سائرہ کے اد برہنہ جسم کو ڈھانپا۔۔۔
تم بچو گے نہیں تمہیں کیا لگتا ہے میرے ساتھ دھوکا کرتے تم جیت گئے ہو نہیں وہ لیپرڈ ہے تم سے بھی ایک ہاتھ آگے رہنے والا ۔۔۔۔۔اُسے پکڑنا نہ ممکن ہے۔۔اور نہ تم اُسے پکڑ پاؤں گے ۔۔سائرہ پھنکاری ۔۔۔۔
ابھی کامل کچھ کہتا کہ خضر اندر ایا جس کا چہرہ سخت تھا یقیناً وہ سائرہ کی بات سن چکا تھا۔۔۔خضر کے ساتھ اپنی لیڈی افسر کو کامل نے ڈریسنگ روم میں لے جانے کہ اشارہ کیا تاکہ سائرہ کے وجود کو صحیح کپڑوں میں دھکا جا سکے ۔۔۔
صحیح تھا تو ان سب کے پیچھے وہ لیپرڈ ہے۔۔۔اگے کا رستہ اور اُس تک پہنچنے کا راستہ بھی یہی بتائے گی۔۔۔۔کامل نے خضر کی طرف دیکھتے کہا جو گن کی نوک سے اپنا ماتھا رب کر ربا تھا۔۔۔۔
سائرہ کے باہر نکلتے ہی خضر نے اُسکی طرف قہر بھری نظروں سے دیکھا۔۔
کہاں ملے گا یہ لیپرڈ۔۔۔خضر کا لہجہ انتہاء کا سرد تھا۔۔۔۔
یہ میں نہیں جانتی یہ کوئی نہیں جانتا سوائے اُسکے منیجر جھون کے جو ہر وقت اُس کے ساتھ ہوتا ہے ۔۔۔سائرہ نے اپنا ہاتھ لیڈی افیسر سے چھروانے کی کوشش کرتے ہوئے دانت پیستے کہا۔۔۔
بچیاں کہاں ہے جن کی ڈیلنگ ہونے والی ہے۔۔۔خضر نے دوسرا سوال داغا۔۔۔
اُسکے مینشن میں جہاں وہ رہتا ہے ۔۔۔سائرہ کے کہنے پر خضر نے اپنے جبڑے بھینچے۔۔۔۔۔
جون کہاں ملے گا۔۔۔کامل نے جون کے متعلق پوچھا۔۔۔
میں نے کہاں نہ مجھے نہیں پتہ میری اج تک اُن سے ملاقات نہیں ہوئی۔۔۔جب مجھے لڑکیوں کو اُن تک پہنچانا ہوتا ہے تب اُنکے اڈے پر چھوڑ اتی ہو جہاں صرف و صرف اُنکے گارڈ ہوتے ہیں باقی مجھے نہیں پتہ۔۔۔۔سائرہ چیخی تھی۔۔جب کامل کے اشارے پر لیڈی آفیسر نے اُسکے منہ پر رکھ کر تھپڑ رسید کیا ۔۔۔
لے کر جاؤ اچھی طرح سے خدمات انجام دینا انکی کوئی کسر نہیں رہنی چاہئے۔۔۔سب کچھ تب ہی اگلے گی یہ۔۔کامل کی بات پر لیڈی آفیسر کھینچتی ہوئی سائرہ کو باہر لے گئی۔۔۔
مگرمچھ کو جال تک لانے کے لیے اُسکے آگے اپنی مچھلی پھینکنے کی ضرورت پڑتی ہے۔۔۔۔کامل کہتا ہوا کمرے سے نکلتا چلا گیا جبکہ خضر اُسکے جملے کے اصل معنی سمجھتا اپنے جبڑے بھینچ گیا ۔۔۔




دوپہر کے بارہ بجے وہ گھر میں ایا تھا ۔۔۔کامل تو صبح ہوتے ہی اپنے افس چلا گیا تھا ۔۔۔۔کمرے میں داخل ہوتے اُسکی نظر اپنی بیوی پر پڑی جو ناراض چہرہ لئے آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بال۔سلجھا رہی تھی ۔۔۔۔
خضر کو ایک نظر دیکھتے شجیہ نے اپنی آنکھیں پھیری تھی اور یہ خضر کو انتہائی نگوار گزرا۔۔۔۔۔
تو بیگم ناراض ہے۔۔خضر نے شجیہ کے قریب اتے اُسکا چہرہ اپنی طرف کرتے پیار سے پوچھا۔۔
شجیہ نے پھر اپنا چہرہ موڑنا چاہا جب خضر نے اُسکی تھوڑی پر گرفت سخت کی۔۔۔۔
ناراضگی دکھانے کے ہزار طریقے ہوتے ہیں لیکن یہ رخ
پھیرنے والا طریقہ مجھے قطعی منظور نہیں۔۔۔خضر کا لہجہ سنجیدہ تھا۔۔۔۔
شجیہ نے ناراض نظروں سے خضر کی بھوری آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔۔
ایسا بھی کون سا کام تھا آپکو جو پوری رات آپ گھر ہی نہیں آئے پوری رات میں جاگتی آپکا انتظار کرتی رہی ذہن میں کیسے کیسے وسوسے آرہے ہیں تھے یہ صرف میں جانتی ہو۔۔۔شجیہ نم لہجے میں کہتی خضر کے سینے کا حصہ بنی۔۔۔۔
آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔۔۔کچھ انتہائی ضروری کام تھا اگر نہیں کرتا تو مسئلہ ہوجاتا ۔۔۔خضر نے اپنا حصار شجیہ کے گرد باندھتے نرم لہجے میں کہا۔۔۔
وعدہ کرے ۔۔شجیہ نے خضر کے سینے پر تھوڑی رکھتے اُسکے چہرے کی جانب دیکھتے کہا ۔۔
وعدہ۔۔خضر نے شجیہ کے ماتھے پر اپنے لب رکھتے ہوئے
کہا۔۔۔
آپ فریش ہوجائے کپڑے نکال دیے ہیں میں نے میں ناشتہ کا انتظام کرتی ہو۔۔۔شجیہ کہتی کمرے سے نکلی ۔۔خضر بھی فریش ہونے چلا گیا۔۔سائرہ کو سیو جگہ پہنچاتے اُسے کافی وقت لگ گیا تھا۔۔۔اور وہ حد سے زیادہ تھک گیا تھا۔۔۔
فلک کو شجیہ نے خود ہی آفس بھیج دیا تھا وہ شجیہ کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی تھی لیکن شجیہ کے اسرار کرنے پر وہ آفس کے لیے نکل گئی تھی۔ ۔۔



فلک اپنے ہاتھ میں فائل تھامے کامل کے آفس میں داخل ہوئی تھی۔۔۔
اندر مسٹر خان کو نہ پا کر اُسے حیرت ہوئی۔۔۔ابھی وہ پلٹتی جب موبائل کی ٹون پر اُسکی نظر ٹیبل پر رکھے کامل کے فون پر پڑی۔۔۔اور وہی جم گئی ۔۔۔
دھیمے قدم اٹھاتے وہ فون تک ائی تھی فون کے وال پیپر پر نظر آتی اپنی تصویر دیکھتے اُسے حیرت ہوئی۔۔یہ اُسکی تصویر تھی جس میں وہ کسی بات پر ہنس رہی تھی۔۔۔۔
کانپتے ہاتھوں سے اُس نے فون اٹھایا۔۔۔۔دل کی دھڑکنوں میں امتشار پھیلا۔ ۔
دھڑکتے دل سے اُس نے فون کی گیلری اوپن کی۔۔۔اور اُس میں نظر آتی تصویریں دیکھتے اُسے لگا اُسکے پیروں کے نیچے سے زمین ہل گئی ہو۔۔۔۔
ایک نہیں پوری گیلری ہی اُسکی تصویروں سے بھری ہوئی تھی کچھ تصاویر میں کامل نے اُسکے چہرے اُسکے لبوں اور گردن پر اپنا لمس چھوڑا تھا ۔۔۔
یہ سب کیا تھا۔۔۔اُسکا سر زور سے چکرایا ۔۔۔تصاویر دیکھتے اُسکی نظر ایک تصویر پر تک گئی جس میں کامل تھا وہی کالی آنکھیں سانولی رنگت۔۔۔۔
آنکھیں کب برسنا شروع ہوئی اُسے پتہ ہی نہ چلا ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوئی وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔۔۔
یہ کیا ہوا تھا اُسکے ساتھ اور کیوں اس کے جواب صرف ایک انسان کے پاس تھے۔۔۔۔
موبائل ہاتھ سے چھوٹتے زمین پر گرا تھا۔۔۔۔
رونا کب ہچکیوں میں بدلہ اُسے پتہ ہی نہ چلا۔۔۔۔
یکدم آفس کا دروازہ کھلا اور کامل اندر ایا اپنی ٹیبل کے پاس فلک کو شدت سے روتا دیکھ اور پاس اپنا موبائل دیکھ جہاں اُسکی تصاویر لگی ہوئی تھی۔۔۔
کامل نے اپنی آنکھیں مینچِی۔ ۔۔۔
فلک نے دروازہ کھلنے کی آواز پر اُس طرف دیکھا اور کامل کو وہاں دیکھتے وہ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اُٹھی تھی بھوری آنکھوں میں غصّہ لہرایا۔۔۔
کون ہو تم بولو ۔۔۔کامل ہو یا مسٹر خان یہ پھر تمہیں میں دھوکے باز کہو۔۔۔جواب دو۔۔۔فلک نے کامل کا گریبان پکڑتے اُسے جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا۔۔۔
کامل نے اپنا ہاتھ فلک کے بازو پر رکھنا چاہا جسے فلک نے ایک جھٹکے سے جھٹکا۔۔
خبر دار جو مجھے ہاتھ لگایا بہت استعمال کر لیا تم نے میرا۔۔۔بہت۔۔۔تمہیں ذرا شرم نہ ائی میرے وجود سے کھیلتے ہوئے نکاح کیا تھا نہ نکاح کی اہمیت کو تو جانتے ہونگے۔۔۔تمہارے ہوتے ہوئے بھی میرا بچہ ناجائز کہلایا۔۔۔۔فلک نے کامل کے سینے پر اپنے دونوں ہاتھ دھرتے اُسے پیچھے کو دھکا دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اسکے سخت الفاظ سنتے خضر کی شریانیں کھولنے لگی تھی۔۔۔
فلک اب تمہارے منہ سے میں کوئی فضول بات نہیں سنو گا۔۔۔سمجھ ائی ایک بار خاموشی سے میری بات سنو۔۔۔کامل نے اُسکے دونوں ہاتھ سختی سے اپنی گرفت میں لیتے۔۔اپنے لہجے کو حد درجہ نرم کرتے کہا۔۔۔
نہیں سننی مجھے تمہاری کوئی بات طلاق دو ابھی کہ ابھی طلاق دو مجھے۔۔کامل نے جھکتے شدت سے فلک کے لبوں کو اپنی سخت گرفت میں لیتے اُسکے الفاظ چرائے۔۔۔۔
شدت سے اُسکی سانسیں پیتا وہ فلک کو نڈھال کر گیا۔۔۔۔اپنے ہونٹوں پر بڑھتی کامل کی شدت محسوس کرتے وہ اُسکے شرٹ کندھوں سے اپنی مٹھیوں میں جکڑ گئی ۔۔۔
کامل جو اُسکے زبان سے ادا ہوئے لفظوں کی سزا دینے کے لیے اُسکے لبوں پر جھکا تھا۔۔۔اتنے دنوں بعد اُسکا لمس محسوس کرتے بہکتا چلا گیا ۔۔
شدت سے اُسکے بالائی لب کو اپنے لبوں سے چھوتے وہ اُسکی سانسیں اپنی سانسوں میں اُلجھا گیا۔۔۔
فلک اپنی سانس بحال نہ ہوتے دیکھ اپنی آنکھیں بند کرتی کامل کی باہوں میں جھول گئی۔۔۔۔
فلک کے ڈھیلے پڑتے وجود کو محسوس کرتے کامل پیچھے ہٹا۔۔۔اپنے کندھے پر گرتے فلک کے چہرے کو دیکھتے اُس نے گہرا سانس بھرا ۔۔۔۔
فلک کے بھیگے لال لب انگھوٹے سے صاف کرتے اُس نے ایک جھٹکے سے اُسے اپنے مضبوط بازؤں میں بھرا۔۔۔۔۔
محترمہ میں طاقت ہے نہیں میری شدت برداشت کرنے کی اور چلی ہے مجھ سے لڑنے ۔۔۔۔۔کامل نے فلک کے بیہوش وجود کو دیکھتے کہا۔۔اور اُسے لیے باہر نکلا۔۔۔
طلاق کا لفظ سنتے اُسکا دماغ جس حد تک گھوما تھا یہ بات صرف وہی جانتا تھا اور یہ بہت چھوٹی سزا تھی جو اُس نے فلک کے لفظوں کی دی تھی ۔۔۔وہ بھی صرف اُسکی حالت کے پیشِ نظر ورنہ وہ سخت سزا دیتا فلک کو ان لفظوں کی۔۔۔
کسی نے بھی نظر اٹھا کر اس طرف دیکھا تو اپنا رزیگنیشن لیٹر وصول کرنے کے لیے تیار رہے۔۔۔۔کامل نے افس سے نکلتے سخت سرد آواز میں کہا اسکی بات پر سب نے گھبرا کر اپنی نظریں جھکائی تھی۔۔۔۔اور کامل خان اپنی زندگی کو لیتے آفس سے باہر نکلا۔۔۔
اپنے فلیٹ پر اتے آرام سے اُس نے فلک کو اپنے کمرے میں بیڈ پر لٹایا۔۔۔۔
اُسکے سرہانے بیٹھتے وہ اُسکے تیکھے نقوش کو تکتے اپنی پیاسی نگاہوں کو تقویت بخش رہا تھا۔۔۔۔
بھینی بھینی سانسوں کی مہک اور فلک کے گداز وجود کو دیکھتے جذباتوں میں طغیانی سی ائی تھی۔۔۔
سوتے ہوئے جتنی حسین وہ لگ رہی تھی کامل جانتا تھا ابھی اٹھ کر اُس نے شیرنی بن جانا ہے۔۔۔
فلک کی گردن میں منہ دیتے اُس نے گہرا سانس بھرا۔۔۔
دور ہوتے ایک نظر اسکو دیکھتے وہ کچن کی طرف بڑھا تاکہ اُسکے لیے جوس اور کچھ کھانا بنا سکے۔۔۔




فلک نے اپنی آنکھیں کھولی دماغ نے شعور پر انے پر تھوڑا وقت لیا۔۔۔انجان کمرے کو دیکھتے وہ ایک جھٹکے سے اُٹھی۔۔اُسے یاد آیا وہ تو آفس میں تھی کامل کے پاس پھر اپنے ہونٹوں پر ایک دہکتا لمس محسوس ہوا تھا۔۔۔فلک نے بیساختہ اپنے لبوں کو چھوا۔۔۔
قدموں کی آواز پر سامنے دیکھا تو کامل خان چہرے پر حسین مسکراہٹ لیے اندر آرہے تھے فلک کا خون جل اٹھا۔۔۔۔۔۔
تم۔۔۔فلک نے کچھ بولنا چاہا جب کامل نے تیزی سے ٹرے پاس رکھی ٹیبل پر رکھتے بیڈ پر اتے اُسکے اطراف میں اپنے دونوں ہاتھ رکھتے اُسکے چہرے کے نزدیک اپنا چہرہ کیا۔۔فلک کی زبان تالو سے چپکی کامل کی اتنی نزدیکی پر۔۔۔۔
تم نہیں آپ ۔۔۔آپ کا شوہر ہوں میں۔۔۔تو آپ۔۔۔مجھے آپ کہہ کر مخاطب کرے۔۔۔کامل نے اپنی پر تپش سانسیں فلک کے گلابی ہوتے چہرے پر چھوڑتے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔
جیسی آپ نے حرکتیں کی ہے ۔۔ایسے میں آپ کو آپ نہیں تم ہی کہنا چایئے اور ۔۔اور دور رہ کر بات کرے مجھ سے۔۔فلک نے کامل کے سینے پر ہاتھ رکھتے اپنے آپکو مضبوط رکھتے جواب دیا۔۔۔جب کامل نے اُسکے وہی ہاتھ پکڑ کر اُسے بیڈ پر لٹایا۔۔فلک کی سانسیں اتھل پتھل ہوئی ۔۔اُس نے سرامیگی نگاہوں سے کامل کی طرف دیکھا جو اُسکے چہرے پر جھکا ہوا تھا اُسکی ناک فلک کی ناک سے مس ہو رہی تھی۔۔۔۔
جتنا دور رہنے کی بات کرے گی کامل خان اتنی شدت سے آپکی روح میں سما جائے گا۔۔کامل نے فلک کی ناک کی ٹپ کو اپنے لبوں سے چھوتے ہوئے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔
فلک کی آنکھیں لباب نمکین پانی سے بھری۔۔۔
اس شخص کی قربت اُسکی کمزوری تھی جس کا فائدہ وہ خوب اچھی طرح اٹھا رہا تھا اب بھی اُسکی دل کی دھڑکنیں منتشر ہوتی اُسکی پسلیوں سے سر ٹکڑا رہی تھی۔۔۔
وہ سب کیوں کیا مجھے میرے ہر سوال کا جواب چایئے۔۔۔کیوں مجھے اکیلا چھوڑا مجھے تنہا کرا کیوں رات کے اندھیرے میں مجھ سے ملے کیوں اپنی
قربت میری جھولی میں ایسے ڈالی جیسے میں کوئی فقیر ہو۔۔کیوں اپنے بچے کے لیے نہ جائز لفظ سن کر بھی آپ خاموش رہے جواب دے مجھے۔۔۔
فلک نے کامل کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامتے روتی آواز میں کامل سے پوچھا۔۔
اُسکے لفظوں میں چھپی اذیت کامل خان محسوس کر سکتا تھا ضبط سے اُسکی سبز آنکھیں لال ہوئی۔۔۔۔
اگر اُس کے سچ کہنے سے اُسکی بیوی کے دل سے اُسکے لیے بدگمانی دور ہو سکتی تھی تو اُسے کوئی جھجھک کوئی پریشانی نہیں تھی اُسے سچ بتانے میں ۔۔۔۔
یقین کرے گی آپ میرا۔۔۔کامل نے اُسکی بھوری نم آنکھوں سے آنسو اپنے لبوں سے چنتے پوچھا۔۔۔
جب صرف نکاح کے بولوں پر آپکو اپنا سب کچھ مان کر بغیر آپکے بارے میں سب کچھ جانے اپنا آپ سونپ سکتی ہو تو پھر کیوں نہیں کرونگی میں یقین۔۔۔فلک نے کامل کے کندھے سے اُسکی شرٹ جکڑے اُسکے لبوں کا لمس اپنی آنکھوں پر محسوس کرتے لرزتی آواز میں کہا۔۔۔
فلک کی بات پر کامل نے اُسکے برابر میں لیٹتے اُسے اپنے سینے میں بھینچا اور سب سچائی بتاتا چلا گیا۔۔۔
کامل نے فلک کی سکسی محسوس کرتے سر جھکا کر اُسکی طرف دیکھا جو اُسکے سینے لگی رو رہی تھی ۔۔۔
ایک جھٹکے سے وہ کروٹ بدلتے اُس پر حاوی ہوا۔۔۔
یہ رونا اس بات کا ہے کہ میں ائی ایس ائی ایجنٹ ہو یہ اس بات کا کہ میں نے آپ سے یہ بات چھپائی۔۔۔کامل نے اُسکے سرخ رخسار پر بہتے آنسو صاف کرتے پوچھا۔۔۔
فلک نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔
پھر ۔۔۔کامل نے اُسکے نفی میں سر ہلانے پر پوچھا۔۔۔
مجھے اس بات پر رونا آرہا ہے کہ آپ نے اُس لڑکی صائمہ سے پیار کا ۔۔ناٹک کیا۔۔۔فلک نے کامل کی شرٹ پر لگے بٹن کو اپنی انگلی سے چھوٹے بھرائے لہجے میں کہا۔۔۔
کامل خان کو لگا وہ ہنس پڑے گا واقعی میں عورت سب کچھ برداشت کر جاتی ہے لیکن دوسری عورت کو کبھی نہیں چاہے وہ نام ہی کی کیوں نہ ہو۔۔۔۔اب بھی وہ سب کچھ نظرانداز کیے اُسکی ایک بات کو لے کر رو رہی تھی۔۔۔
میں نے کبھی اُسے نظر اٹھا کر دیکھا نہ تھا اور نہ ہی کبھی چھوا تھا۔۔اور اُسکا نام صائمہ نہیں سائرہ ہے۔۔۔کامل نے اپنی ہنسی ضبط کرتے فلک کی آنکھوں میں دیکھتے دھیمے نرم لہجے میں کہا۔۔
آپ کو اُسکا نام تک یاد ہے کامل۔۔۔فلک نے روتے ہوئے کہا۔۔۔کامل نے اُسکے لبوں کو دیکھا نچلا لب روتے ہوئے اُسکے اوپری لب پر آگیا تھا اور تھوڑی پر ہلکا سا گڑھا بھی نظر آرہا تھا۔۔۔
کامل نے جھکتے اپنے دانت فلک کی تھوڑی پر گاڑھے۔۔فلک نے درد سے سسکی بھری ۔۔۔۔
سچ والا پیار تو میں آپ سے ہی کرتا ہو اور ہمیشہ کرتا رہو گا انجانے میں فرض کے آگے مجبور ہوتے میں نے آپ کو بہت تکلیف دی ہے کیا آپ اپنے شوہر کو معاف کردے گی۔۔۔کامل نے فلک کے بال کان کے پیچھے کرتے پیار بھڑے لہجے میں کہا۔۔۔
آپ نے جو بھی کیا وہ آپکا فرض تھا اس ملک کی عزت بچانے کے لیے کیا اُن معصوم لڑکیوں کو بچانے کے لیے ۔۔۔اور مجھے آپ پر فخر ہے کہ آپ میرے شوہر ہے ۔۔۔فلک نے تھوڑا سے اٹھتے کامل کی کھڑی مغرور ناک پر اپنے لبوں کا لمس چھوڑتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔ ۔
کامل نے فلک کی بھوری آنکھوں میں دیکھا اور اُسکے گلابی لبوں پر جھک ایا۔۔
اپنی سانسیں اُسکی سانسوں سے مہکاتے وہ اپنا نرم لمس فلک کے لبوں پر چھوڑنے لگا۔۔۔
فلک نے دھیرے سے اپنی انگلیاں کامل کے بالوں میں ڈالی۔۔۔کتنے دنوں بعد وہ یہ لمس محسوس کر رہی تھی۔۔۔
اُسکی خوشی اُسکا سکون اُسکا آرام صرف ایک انسان میں تھا اور وہ تھا اُسکا شوہر۔۔۔۔
کامل کی شدت میں اپنی شدت شامل کرتی وہ کامل خان کو سرشار کر گئی ۔۔۔کامل نے کچھ دیر بعد فلک کے لبوں کو آزادی دی۔۔۔۔
فلک کو دیکھا جو گہرا سانس بھرتی اپنی گلابی ہوتی آنکھوں اور بھیگے لبوں سے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔چہرہ حد درجہ سرخ تھا۔۔۔کامل نے جھکتے اسکے ہر ایک نقش پر اپنا بیتاب لمس چھوڑا فلک اپنی آنکھیں بند کئے گہرے سانس بھرتے کامل کا لمس اپنے وجود پر محسوس کر رہی تھی۔۔
کامل کے ہاتھ بیباکی سے اُسکے وجود پر سرایت کرتے اُسکے وجود میں سنسنی سی ڈورا گئے تھے۔۔
کامل نے فلک کی گردن پر اپنا لمس چھوڑا ۔۔اپنے دہکتے لبوں کی بوچھاڑ فلک کی گردن پر کرتے وہ کندھوں سے اُسکی شرٹ کھسکا گیا۔۔۔اپنے پیار کی نشانیاں دیتے وہ فلک کو سسکنے پر مجبور کر گیا۔۔۔۔
آرام سے فلک کو پلٹتے وہ اُسکی شرٹ کی زپ ایک جھٹکے سے کھولتے اُسکی برہنہ قمر پر اپنے لب رکھ گیا۔۔۔۔۔فلک گہرا سانس لیتے اپنے آپکو انے والے لمحات کے لیے مضبوط کر رہی تھی۔۔۔
رات گزرتے کامل نے اُسکے پور پور کو اپنی شدت سے بھگایا تھا اُس نے فلک کو اتنی نرمی سے چھوا تھا جیسے کوئی پھول ہو اور واقعی میں وہ ایک پھول کی طرح ہی تھی۔۔۔
گزرتی رات تمام شکوہ شکایت اُنکے درمیان سے مٹاتی چلی گئی۔۔۔فلک نے تمام شکوہ دور کرتے آنکھیں موندتے
اپنا آپ کامل کے حوالے کیا تھا۔۔۔اور کامل اُس پر اپنی محبت کی برسات کرتا چلا گیا۔۔۔۔
کامل نے جو کچھ کیا تھا وہ اپنے ملک کی بچیوں کی عزت کی حفاظت کرنے کے لئے کیا تھا۔۔۔سائرہ کا انجام ویسے ہی بہت غلط ہونے والا تھا ۔۔۔۔




سورج کی کرنیں جیسے ہی کامل کی آنکھوں پر۔پڑی اُس نے اپنی سبز چمکتی آنکھیں کھولی۔۔۔نظر سیدھا اپنے سینے پر سر رکھے اپنی حیاتی (میری جان ) پر گئی ۔۔۔لبوں پر گہری مسکراہٹ نے احاطہ کیا۔ ۔
اُن دونوں کے درمیان سب صحیح ہوگیا تھا۔۔۔ورنہ اُسے تو سب اپنے ہاتھوں سے سرکتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔۔۔
کامل نے کروٹ بدلتے فلک کے چہرے کو تکا ۔۔کیسی تشنگی تھی جو بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔۔۔
وہ اُسکی کالی شرٹ میں سوئی ہوئی انتہاء کی معصوم اور حسین لگ رہی تھی ۔۔۔کامل نے جھکتے اُسکے پیٹ پر اپنے دہکتے لب رکھے ۔۔۔
اپنے پیٹ پڑ کامل کے لبوں کا لمس محسوس کرتے فلک نے اپنی آنکھیں کھولی نظر سیدھا کامل کے کالے بالوں پر گئی۔۔۔
اُسے کامل کے لمس سے گُدگُدی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔فلک نے جھرجھری لی۔۔۔۔کامل فلک کے ہلنے پر سمجھ گیا وہ اٹھ گئی ہے۔۔۔
کامل نے اوپر ہوتے اُسکی بھوری انکھوں میں دیکھا۔۔۔۔
کامل آپکی آنکھیں یہ اصلی ہے۔۔۔فلک نے کامل کی آنکھ کو اپنی انگلی سے چھوتے ہوئے اشتیاق سے پوچھا۔۔۔
آپکو نقلی لگ رہی ہے۔۔کامل نے اپنی آنکھ بند کرتے پوچھا۔۔
ہاں پہلے آپ نے کالے لینس لگائے تھے کیا پتہ یہ بھی نقلی ہو۔۔۔فلک نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔۔
آپکو میری کالی آنکھیں نہیں پسند تھی۔؟ ۔۔کامل نے اُسکے اُسکے لبوں پر اپنی انگلی رب کرتے پوچھا۔۔۔
نہیں وہ پسند تھی پر یہ زیادہ پسند ہے آپ تو سانولی رنگت میں بھی انتہاء کے پیارے لگتے تھے مجھے اور اب تو آپ اور حسین ہوگئے ہیں۔۔۔ماشاللہ سے میرا شوہر کتنا پیارا ہے۔۔۔فلک نے بھوری انکھوں میں چمک لیے کامل کی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے کہا۔۔
تعریف کا کام تو میرا تھا نہ پر یہاں اُلٹا ہوگیا ہے بیگم یہاں خاوند کی تعریف کر رہی ہے۔۔۔کامل نے اُسکی ناک میں پہنی بالی کو اپنی انگلی کی پوروں سے چھوا ۔۔۔
ضروری نہیں جس طرح عورت کی تعریف اُسکے لیے ایک غذا کی طرح اثر کرتی ہے ویسے ہی شوہر بھی اپنی تعریف کروانے کا حقدار ہے میرے خیال سے ایک بیوی کو اپنے شوہر کی تعریف لازمی کرنی چاہیئے اس سے پہلے کوئی باہری عورت اُسکی تعریف کرتے اُسے اپنی جانب راغب کرے ۔۔۔۔فلک نے بڑی سمجھداری کی بات کہی۔۔۔کامل کی آبرو داد دینے والے انداز میں اُچکی ۔۔۔۔
واہ کیا بات ہے اس خان کی خانی اتنی سمجھدار ہے۔۔۔کامل نے اُسکے دونوں گالوں پر اپنے لب ثبت کرتے کہا۔۔۔
میں پہلے سے ہی سجھدار ہو آپکو اج پتہ ہے۔۔۔فلک نے فخریہ لہجے میں کہا۔۔۔
کامل اگر آپ ایجنٹ ہے تو خضر بھی اجنٹ ہے ۔۔فلک نے کچھ یاد انے پر پوچھا۔۔۔
ہاں ۔۔۔کامل نے اُسکے ہاتھوں کو اپنے لبوں تک لاتے کہا۔۔۔
خضر کو سب پتہ تھا اور شجیہ کو بھی۔۔۔فلک نے کامل کی طرف دیکھتے پوچھا۔۔۔
خضر بھی میری طرح فرض کے آگے مجبور ہے اور بھابھی کو کچھ نہیں پتہ۔۔۔اب اور کوئی سوال نہیں جلدی سے فریش ہو جاؤ پھر ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔۔۔کامل نے اُسکے واہ ہوئے لبوں پر بوسا دیتے کہا اور اُسکے اوپر سے اٹھا۔۔
ڈاکٹر کے پاس کیوں۔۔فلک نے اچھنبے سے پوچھا۔۔۔
بیگم آپ بھول گئی ہے آپکے ساتھ ایک اور جان جری ہے جس کی حفاظت اور صحت سب سے زیادہ ضروری ہے اسی کے چیک اپ کے لئے ہم جا رہے ہیں۔۔کامل نے بیڈ سے اٹھتے فلک کے بالوں کو بکھیرتے ہوئے کہا۔اور اُسکے ماتھے پر بوسا دیتے کمرے سے باہر نکلا۔۔۔۔
فلک پیچھے مسکرا گئی ایک ہی دن میں اُسے اپنی زندگی جو کل تک ایک بوجھ لگتی تھی وہ خوشگوار لگنے لگی تھی۔۔۔حسین تر۔۔من پسند شخص جو ساتھ تھا۔۔۔
وہ چاہتی تو کامل کو کبھی نہ معاف کرتے اپنا اور اُسکا رشتا داؤ پر لگا دیتی۔ ۔۔۔لیکن کامل نے جس وجہ سے اُس سے جھوٹ بولا تھا جس وجہ سے اُس سے دوری بنائیں تھی وہ وجہ بہت اہم تھی۔۔۔۔۔



سر۔۔۔سائرہ کو ائی ایس ائی کی ٹیم نے پکڑ لیا ہے۔۔۔جون کی بات پر اُسکا حرام مشروب پیتا ہاتھ رکا۔۔۔
ہمیں جلد سے جلد یہاں سے اُن لڑکیوں کو لے کر نکلنا ہوگا سائرہ کچھ بھی بتا سکتی ہے۔۔۔جون نے فکر مندی سے کہا۔۔۔
تیاری کرو جون تمھاری میم کو لے کر انا ہے۔۔۔لیپرڈ نے صوفے سے اٹھتے سامنے دیوار پر لگی لارج سائز شجیہ کی تصویر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔
جون نے اثبات میں سر ہلایا اور ویسے ہی جھکی نظروں سے باہر نکلتا چلا گیا تھا پورا کمرہ شجیہ کی تصویروں سے بھرا ہوا تھا اگر غلطی سے بھی وہ نظر اٹھا کر اُسکی ایک بھی تصویر دیکھ لیتا تو لیپرڈ کا کوئی بھروسہ نہیں تھا وہ اُسے بینائی سے محروم کر دیتا۔۔۔