قسط: 16
اندھیرے کمرے میں وہ حسرت اور رشک بھری نظروں
سے سامنے لیتے وجود کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
آنکھوں میں حسرت کے ساتھ ساتھ اُداسی اور گہرے دکھ کی رمک بھی تھی۔
شجیہ نے دھیمے سے اپنی آنکھیں واں کی نظریں سیدھا سفید سیلنگ سے ٹکرائی۔۔۔
آٹھ گئی آپ۔۔ایک نرم میٹھی سی آواز پر شجیہ نے اپنے برابر میں دیکھا ۔۔۔۔
آنکھیں جھپک کر اپنے دماغ کو جگہ پر لانے کی کوشش کی۔۔۔
آنکھیں کھولتے دوبارہ سامنے دیکھا جہاں کالی ساڑھی میں کالے بالوں کو اپنی پشت پر پھیلائے وہ گندمی رنگت کی حامل لڑکی تیکھے نین نقش اور گلابی ہونٹوں پر ایک دھیمی مسکراہٹ لیے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔
شجیہ سب کچھ یاد اتے ہی ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔۔
میں کہاں ہو کون ہو تم ۔۔مجھے جانا ہے یہاں سے ۔۔۔شجیہ تیزی سے کہتے بیڈ سے اترنے لگی جب انابیہ نے اُسکا ہاتھ تھاما۔۔۔
رک جاؤ۔۔۔میری بات سنو۔۔۔انابیہ نے شجیہ کا ہاتھ پکڑ کر اُسے روکتے کہا ۔۔
مجھے کچھ نہیں سننا مجھے یہاں سے جانا ہے خضر کے پاس پلیز مجھے جانے دو۔۔۔شجیہ کی آنکھیں نم تھی اُس کا دل کٹ رہا تھا خضر سے دوری پر ۔۔۔
یہاں سے تم نہیں نکل سکتی وہ تمہیں جانے ہی نہیں دے گا ۔۔۔صبر رکھو اپنے رب سے رہائی کی دعا مانگو ۔۔۔۔انابیہ نے نرمی سے کہا۔۔۔
شجیہ نڈھال سی ہوتی بیڈ پر بیٹھی آنسو نیلی انکھوں سے بہتے اُسکے گالوں کو بھگوتے چلے گئے ۔۔
آخر ایسا کیا کردیا میں نے جو وہ میرے پیچھے پر گیا ہے۔۔۔میں اپنے شوہر سے بہت پیار کرتی ہو مجھے اُنکے پاس واپس جانا ہے میں نہیں رہ سکتی اُنکے بنا میں مر جاؤں گی ۔۔۔۔شجیہ اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپائے رو پڑی ۔۔۔
چپ ہوجاؤ میں جانتی ہو تمہارے لیے یہ صحیح نہیں ہے بس اپنے رب سے مدد مانگو وہ بہت قادر ہے رحمان ہے مدد کرے گا رحم کرے گا تم پر۔۔۔انابیہ نے شجیہ کو اپنے گلے لگاتے کہا۔۔۔
آپ۔آپ کون ہے۔۔۔۔شجیہ نے حیرت سے پوچھا ۔۔کیونکہ لیپرڈ یہاں کہیں نہیں تھا صرف یہی لڑکی تھی اور جس طرح وہ اتنے پیار سے بات کر رہی تھی شجیہ کو حیرت ہوئی۔۔۔۔
میں۔۔۔میں ایک بدنصیب بیوی ہو جس کا شوہر اُسکے سارے حقوق تو پورے کرتا ہے پر محبت نہیں کرتا جو کسی غیر مرد کی نظر مجھ پر پڑنے نہیں دیتا لیکن خود بھی ایک پیار بھری نظر مجھ پر ڈالنا گوارا نہیں کرتا۔۔۔وہ بدنصیب بیوی جس کے سامنے وہ ایک پریوں جیسی خوبصورت لڑکی کو لایا ہے یہ کہہ کر کہ وہ اُسکی محبت ہے۔۔۔انابیہ نے دھیمے لہجے شجیہ کی نیلی آنکھوں میں دیکھتے تلخئ سے کہا۔۔۔
شجیہ کو لگا وہ سانس نہیں لے پائی گی یہ سب کیا ہوا تھا اُسکے ساتھ۔۔۔
آپ اُسکی بیوی ہے۔۔۔شجیہ نے اٹکتی آواز میں پوچھا۔۔۔
ہاں میں ہی لیپرڈ کی بیوی ہو۔۔۔انابیہ نے شجیہ کا ہاتھ اپنے سانولے ہاتھ میں دیکھتے کہا۔۔۔۔
مجھے معاف کردے میری وجہ سے یہ ہوا بخدا میں آپکے شوہر کو نہیں جانتی میری دنیا تو بس اتنی چھوٹی سی تھی جس میں ۔۔۔میں تھی میرے شوہر میرے ماں باپ اور میری دوست۔۔۔سب کے ذکر پر شجیہ کی آنکھیں پھیر بھر ائی۔۔۔
ہونہہ ! تمہیں معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے،یہ تو میرا نصیب ہے یہاں اگر تُم نہ ہوتی تو کوئی اور ہوتی۔۔۔،یہ اُسکی عادت ہے ہر خوبصورت چیز کو حاصل کرنے کی۔۔۔۔انابیہ نے نفی میں سر ہلاتے کہا ۔۔۔
میں کوئی چیز نہیں ہو۔۔شجیہ نے نیلی آنکھوں میں غصّہ لیے کہا۔۔
جانتی ہو لیکن لیپرڈ کا تو یہی اصول ہے جو چیز اسکو پسند ہے وہ حاصل کر لیتا ہے چاہے وہ ایک جیگتی جاگتی انسان ہو یا کوئی بےجان چیز۔۔۔انابیہ کی بات پر شجیہ کے چہرے پر غصّہ لہرایا۔۔۔
ابھی شجیہ کوئی جواب دیتی جب ڈھر کی آواز سے گیٹ کھلا اور تیز قدموں سے وہ اندر ایا۔۔۔
انابیہ نے فوراً سے اُسکی طرف دیکھا۔۔۔
ہاتھ چھوڑو انکا۔۔۔لیپرڈ نے آنکھوں میں سختی لیے سرد آواز میں انابیہ سے کہا جس نے ایک جھٹکے سے شجیہ کا ہاتھ چھوڑا ۔۔
شجیہ نے حیرت سے انابیہ کی طرف دیکھا جس نے لیپرڈ کی بات پر فوراً سے اُس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ ہٹایا تھا۔۔۔۔
جاؤ اپنے کمرے میں اور یہاں نظر نہ انا مجھے تُم۔۔۔لیپرڈ کی سخت آواز پر انابیہ ایک زخمی نظر اُس پر ڈال کر کمرے سے جانے لگی جب شجیہ کی آواز پر تھمی۔۔۔
یہ یہی رہے گی تمہیں کوئی مسئلہ ہے تو تم جا سکتے ہو۔۔۔شجیہ نے سرد آواز میں کہا۔۔۔
جیسا آپ کہے۔۔۔۔لیپرڈ نے نرمی سے کہتے اپنے قدم شجیہ کی طرف بڑھائے ۔۔
شجیہ کے لیے نرم لہجہ سنتے انابیہ کا دل سو ٹکڑوں میں تقسیم ہوا تھا۔۔۔وہ اپنی آنکھیں بند کرتے خود پر ضبط کرتی رہ گئی ۔۔۔جب لیپرڈ کا اگلا قدم اُسکے وجود میں ایک اذیت سی بھر گیا۔۔۔
لیپرڈ نے آگے بڑھ شجیہ کا وہی ہاتھ تھامتے اُس پر اپنا ہاتھ رکھتے انابیہ کا لمس مٹانا چاہا۔۔۔۔
شجیہ کی آنکھیں بيقینی سے پھیلی ایک جھٹکے سے اس نے اپنا ہاتھ لیپرڈ کے ہاتھ سے نکالا اور الٹے ہاتھ کا تھپڑ تیزی سے لیپرڈ کے گال پر رسید کیا۔۔۔
انابیہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا۔۔۔لیپرڈ کا چہرہ ایک طرف کو ڈھلکا کالی پتھر آنکھیں پل میں لال ہوئی۔۔۔۔
آئندہ مجھے ہاتھ مت لگانا اور نہ ہی اپنی ان گندی نظروں سے دیکھنا میں کوئی عام لڑکی نہیں ہو جو تمھاری ان کالی سرد آنکھوں کو دیکھتے یہ تمہارے سخت چہرے کو دیکھتے ڈر جاؤنگی میں شجیہ خضر شجاعت چوہدری ہو اگر اب مجھے ہاتھ لگایا تو تمہارے ہاتھ کو توڑ کر تمہارے دوسرے ہاتھ میں رکھ دونگی۔۔۔۔
شجیہ نے ایک ایک لفظ انتہائی سرد آواز میں کہا ۔۔۔اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔
لیپرڈ نے اپنی کالی لہو رنگ آنکھوں سے شجیہ کی طرف دیکھا اور مسکرا دیا۔۔۔۔
آپ آرام کرے اج کی شام بہت خاص ہونے والی ہے۔۔۔لیپرڈ نے اپنی جگہ سے اٹھتے نرم لہجے میں کہا اور انابیہ کا ہاتھ سختی سے تھامے وہ کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔۔
لیپرڈ کے جاتے ہی شجیہ نے دروازہ بند کیا اور دروازے سے ٹیک لگاتے نیچے بیٹھتی چلی گئی ۔۔۔
جتنی مضبوطی کے ساتھ ابھی کچھ پل پہلے وہ لیپرڈ سے مخاطب تھی اب اتنی ہی ٹوٹ چکی تھی۔۔۔۔
نیلی آنکھوں سے بھل بھل آنسو نکلتے اُسکے سرخ عارض کو بھگوتے چلے گئے تھے ۔۔۔
کاش ۔۔کاش میں غصے میں آکر گھر سے نہ نکلتی تو اج یہاں نہ ہوتی۔۔۔خضر کہاں ہے آپ آجائے پلیز آپکی شجیہ کو آپکی ضرورت ہے۔۔۔زیرِ لب کہتی وہ گھٹنوں میں اپنا منہ چھپائے شدت سے رو دی۔۔۔۔
سوات کے جنگلات میں بنے اس لکڑی کے الیشان گھر کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا ۔۔سوائے لیپرڈ کے خاص آدمیوں کے۔۔۔برف سے ڈھکا اندر سے نہایت گرم تھا کہ گھر کے اندر موجود لوگوں کو ٹھنڈ کا اثر نہیں ہوتا تھا۔۔۔



وہاں کیوں گئی تھی۔۔۔لیپرڈ نے کمرے میں اتے انابیہ کو دونوں بازو سے پکڑتے اپنے نزدیک کرتے پوچھا۔۔۔
میں دیکھنے گئی تھی کہ اب میرے محبوب شوہر کو کیا بھایا ہے جسے وہ اپنی محبت مان بیٹھا ہے۔۔۔انابیہ نے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے کہا۔۔۔جبکہ لیپرڈ اُسکے لہجے میں ازیت محسوس کر سکتا تھا۔۔۔
تم اُنکے پاس اب نہیں جاؤنگی ۔۔لیپرڈ نے انابیہ کی بات نظرانداز کرتے ایک جھٹکے سے اُسے چھوڑتے سخت آواز میں کہا ۔۔۔
واہ واہ ۔۔اپنی بیوی اپنے محرم کے لیے تم اور دوسری عورت کے لیے آپ ۔۔۔کیا عزت ہے۔۔۔انابیہ نے تمسخرانہ لہجے میں کہا۔۔۔
اِدھر دیکھو میری طرف ۔۔۔کیا میں خوبصورت نہیں ۔۔۔سب کچھ تو تمہیں دیتی ہُوں تمہارے سارے حقوق تو پورے کرتی ہو تو پھر ایسا کیا ہے اُس میں جو مجھ میں نہیں۔۔۔۔انابیہ نے ایک جھٹکے سے اپنا ساڑھی کا پلوں ہٹاتے کہا۔
لیپرڈ کی آنکھوں میں پل میں سرخی اُبھری تھی۔۔۔اُس نے تیزی سے انابیہ کی قمر میں اپنا ہاتھ رکھتے اُسے اپنے انتہائی نزدیک کیا۔۔اور شدت سے اُسکے لبوں پر جھک ایا۔۔۔۔
اپنے لبوں پر لیپرڈ کی گرفت محسوس کرتے انابیہ نے اُسکے دونوں کندھوں کو تھامتے اُسکے لبوں پر بھی اپنا لمس چھوڑنا شروع کیا۔۔۔۔
کالی گھنی آنکھوں سے آنسو بہتے لیپرڈ کے گال کو بھی ہلکا سا نم کر گئے تھے۔۔۔
شدت سے ایک دوسرے کی سانسیں پیتے دونوں سب چیزوں سے بیگانہ ہوگئے تھے۔۔۔۔
مت کرو۔۔۔اُسے چھوڑ اؤ وہ شادی شدہ ہے۔۔۔لیپرڈ کے آزادی دینے پر انابیہ نے گہرا سانس بھرتے التجائی لہجے میں کہا۔۔۔۔
لیپرڈ کچھ بھی جواب دیے بنا اُسکی گردن میں جھک ایا گردن کندھوں اور گہرے گلے سے نظر آتے اُسکے بدن پر اپنے لب رکھتے لیپرڈ سب کچھ نظرانداز کر گیا تھا۔۔
یہ بات سچ ہے کہ تمہارا وجود میرے اندر ایک سرور سا بھر دیتا ہے جب جب تمہیں چھوتا ہوں تمہیں محسوس کرتا ہوں تو ایک انجانا سا سکون پورے وجود کا احاطہ کرتا ہے لیکن ۔۔۔لیپرڈ نے کہتے اُسکے دل کے مقام پر اپنے دانت گاڑھے ۔۔۔پوری گردن اُسکے دیے گئے نشانوں سے بھر گئی تھی ۔۔۔۔
لیپرڈ نے انابیہ کی سرخ ہوتی آنکھوں میں دیکھا وہ درد ضبط کرتی اُسکی پُر تپش اور شدت بھرے بوسے اپنے وجود پر محسوس کر رہی تھی۔۔۔
لیکن۔۔۔انابیہ نے لیپرڈ کی کالی آنکھوں میں دیکھتے پوچھا۔۔۔
لیکن تم سے محبت نہیں ہے ۔۔نہ کبھی ہوگی۔۔میرے باپ کی دشمن کی بیٹی ہو جسے میں نے قبول کیا لیکن محبت نہیں کی ۔۔۔لیپرڈ نے سائڈ سمائل کرتے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔۔
انابیہ کی آنکھوں میں اذیت کا ایک طوفان سا تھا جو اُبھرا تھا ۔۔۔کالی آنکھیں نم ہوئی تھی۔۔۔ وہ بس چپ چاپ لیپرڈ کو دیکھنے لگی جو اُسکی آنکھوں میں دیکھتے اپنے لب بھینچ گیا تھا۔۔۔
محبت تمہیں اُس سے بھی نہیں ہے۔۔۔نہ کبھی ہوگی تمھاری عادت ہے ہر خوبصورت چیز اپنی ملکیت میں لانے کی اور تُم وہی کر رہے ہو۔۔۔محبت اسے نہیں کہتے۔۔۔اسے فقط غرور کہتے ہے اسے حوس کہتے ہے محبت تو قربانی دینے کا نام ہے۔۔۔انابیہ لیپرڈ کے چہرے کو دیکھتی بولی تھی جب لیپرڈ کا ہاتھ اٹھا تھا اور اُسکے نرم و نازک گال کو لال کرتا چلا گیا۔۔۔
انابیہ لڑکھڑاتی پیچھے کو گری تھی ٹیبل پر رکھی چھڑی اُسکے ہاتھ پر لگتی اُسکے ہاتھ کو زخمی کر گئی ۔۔۔۔
انابیہ کے ہاتھ سے رستا خون دیکھتے وہ تھما تھا دل میں چھبن سی محسوس ہوئی
کچھ بھی بولے بنا وہ کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔۔انابیہ کو تکلیف اپنے ہاتھ میں لگی چوٹ سے محسوس نہیں ہورہی تھی ۔۔سینے میں موجود دل تھا جس پر لیپرڈ نے اپنے لفظوں سے چھڑی چلائی تھی جس سے رستا خون اُسے تکلیف دے رہا تھا۔۔۔
لیپرڈ کے جاتے ہی میڈ اندر ائی ۔۔۔فوراً سے اتے اُس نے انابیہ کے ہاتھ کی پٹی کی ۔۔۔انابیہ تلخئ سے مسکرا دی پہلے زخم دیتا تھا اور پھر دوسروں کے ہاتھوں مرہم لگواتا تھا کیسا ستمگر تھا وہ۔۔۔
زخم دیتے ہو کہتے ہو سیتے رہو،،،،

جان لے کر کہو گے کہ جیتے رہو ،،،

پیار جب جب زمین پر اُتارا گیا،،،

زندگی تُجھ کو صدقے میں وارا گیا،،،




اپنے آفس میں اتے اُس نے فوراً سے اپنا لیپ ٹاپ کھولا تھا۔۔۔۔جلدی سے انابیہ کے کمرے کی فوٹیج نکالی اور سامنے اُسے بہتی آنکھوں کے ساتھ ڈریسنگ کرواتے دیکھ اُس نے سکون بھرا سانس لیا ۔۔۔۔
ایک نظر شجیہ کے کمرے کی طرف دیکھا جہاں وہ گھٹنوں میں سر دیے رو رہی تھی۔۔۔اپنی کرسی پر بیٹھتے وہ اپنا سر کرسی کی پشت سے ٹکا کر اپنی آنکھیں موند گیا۔۔۔۔
انابیہ کے الفاظ اُسکے دماغ میں گونجے۔۔ اُس نے اپنے جبڑے بھینچے۔۔۔۔
لیکن حقیقت تو یہی تھی جسے وہ جھٹلا رہا تھا۔۔۔بچپن سے یہی تو اُسکی عادت تھی ہر خوبصورت چیز ہمیشہ اُسے اپنی تحویل میں چایئے ہوتی تھی۔۔۔اور جب جب انابیہ اُسے آئینہ دکھاتی تھی وہ اپنا رخ موڑ لیتا تھا۔۔۔خود کی سچائی سامنے انے کے ڈر سے۔۔۔
ہیلو جون ۔۔لیپرڈ نے جون کو فون ملایا۔۔۔
آج ہی اُس خضر شجاعت چوہدری کا کام ختم ہونا چائیے۔۔۔اج بی کا مطلب ہے اج ہی۔۔۔سختی سے ارڈر دیتا وہ فون بند کر گیا تھا۔۔۔۔
آنکھیں بند کرتے شجیہ کو سوچنا چاہا لیکن انابیہ کا دلکش سراپا لہرایا ۔۔ایک جھٹکے سے اُس نے اپنی آنکھیں کھولی۔۔۔



شجیہ کو نہیں پتہ تھا کہ کیا وقت ہوا ہے۔۔۔اس کمرے میں کوئی کھڑکی تک نہ تھی کہ اُسے کچھ اندازہ ہوتا۔۔۔صوفے پر ایک طرف سکر کر بیٹھی وہ مسلسل خضر کو یاد کر رہی تھی لب اللہ سے دعا گو تھے۔۔۔۔
یکدم دروازہ بجا شجیہ نے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا تو انابیہ تھی جس کے ہاتھ میں ایک نیلے رنگ کا سوٹ موجود تھا۔۔۔
شجیہ کی نظر اُسکے ہاتھ پر پڑی جہاں پر پٹی کی گئی تھی۔۔۔
میں یہ سوٹ لائی تھی یہ پہن کر فریش ہوجاؤ۔۔۔تھوڑا ریلیکس فيل کروگی ۔۔۔انابیہ نے سوٹ شجیہ کے پاس رکھتے نرم لہجے میں کہا۔۔۔
آپکو مجھ سے نفرت سی محسوس نہیں ہوتی ۔۔شجیہ نے حیرت سے یہ سوال پوچھا۔۔۔
نہیں جب اپنے ہی سکے میں کھوت ہو تو دوسروں کو خراب نہیں سمجھتے۔۔۔انابیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔
آپ میری مدد کرے نہ اگر اپ کے پاس فون ہے تو پلیز میرے شوہر کو فون کردے وہ آجائے گے یہاں میرے بغیر وہ بہت پریشان ہو رہے ہونگے۔۔۔شجیہ نے خضر کو یاد کرتے بھرائی آواز میں کہا۔۔۔
میں تمھاری کیا مدد کرو پورے نو مہینے سے میں نے خود اپنی ماں کی شکل نہیں دیکھی ہے۔۔۔اور ہم کہاں ہیں یہ میں بھی نہیں جانتی یہ ایک زنداں ہے جہاں ہم دونوں ہی ایک طرح سے قید ہے بس فرق صرف اتنا کہ میرا دل اس زنداں کے درندے کا ہوگیا ہے وہ درندہ میرے دل پر قابض ہے۔۔اور اُس درندے کا دل تمہیں اپنی محبت مان بیٹھا ہے۔۔۔۔انابیہ نے غیر مرئی نقطے کو تکتے دھیمی آواز میں کہا ۔۔۔
شجیہ رونے لگی وہ یہاں سے جانا چاہتی تھی وہ انابیہ سے مدد مانگ رہی تھی جو خود اُسکی طرح بےبس ہے۔۔۔۔
آپ دونوں کو سر نے لاؤنچ میں بلایا ہے۔۔۔ملزمہ کے کہنے پر اُن دونوں۔ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔۔۔
شجیہ کا دل کسی انہونی سے دھڑکا۔۔۔۔انابیہ کے کہنے پر اُس نے جلدی سے اپنے کپڑے بدلے تھے ۔۔
نیلی فروک میں دوپٹہ سر پر اچھی طرح اوڑھے نیلی سمندر جیسی آنکھوں میں رونے کے باعث سرخی لیے اُس نے انابیہ کے ساتھ اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔
اور باہر نکلتے اُسے لگا۔۔ وہ کسی کارٹون کی دنیا میں بنے گھر میں آگئی۔۔۔۔لکڑی سے بنا یہ گھر نہایت ہی خوبصورت تھا۔۔۔
لاؤنچ میں اتے ہی اُسکی نظر لیپرڈ پر پڑی جو صوفے پر بیٹھا ایک گہری مسکراہٹ ہونٹوں پر سجایا ہوا تھا۔۔۔
شجیہ کا دل اب تیز دھڑک رہا تھا۔۔اس نے دائیں طرف دیکھا جہاں جون کے ساتھ دو آدمی اطراف میں کھڑے تھے۔۔۔اور اُن دونوں کی ہی نظریں شجیہ کے وجود پر جمی تھی شجیہ کے دیکھنے پر کالی داڑھی والے نے اپنی نظریں پھیر لی تھی جبکہ بھوری داڑھی والا مستقل شجیہ کو دیکھے جا رہا تھا۔۔۔۔
آئے لیپرڈ کی کوین بیٹھے۔۔لیپرڈ نے نرم پیار بھرے لہجے میں شجیہ سے کہا جس نے تنفر سے اُسکی طرف دیکھا ۔۔۔جبکہ وہاں موجود ایک وجود نے اپنی مٹھی بھینچے خود پر ضبط کیا
انابیہ نے زخمی نگاہوں سے لیپرڈ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔جس نے اس پر ایک بھی نظر نہیں ڈالی تھی۔۔۔
کیوں بلایا ہے مجھے۔۔۔۔شجیہ نے سخت لہجے میں پوچھا۔۔۔
کچھ دکھانے کے لیے ۔۔لیکن میں جانتا ہوں جو آپکو دکھانے لگا ہو اُسکے بعد آپ نہیں میں بہت خوش ہوگا۔۔۔لیپرڈ کی بات پر شجیہ کو یقین ہوگیا تھا کہ کچھ تو بہت بُرا ہوا ہے۔۔۔۔
یکدم سامنے لگی ٹیوی سکرین چلی اور وہاں پر نظر آتا چہرہ دیکھتے شجیہ مسکرائی۔۔
سامنے ہی سکرین پر خضر اپنے گھر میں لاؤنچ میں بیٹھا ہوا تھا شجیہ اُسکے چہرے سے اندازہ لگا چکی تھی کہ وہ پریشان ہے ۔۔۔یقیناً وہ شجیہ کے لیے ہی پریشان تھا ۔۔
جلدی سے وہ آگے بڑھی لیکن اگلا نظر آتا منظر دیکھتے اُس کے پاؤں تھمے۔ سانسیں اکھڑتی ہوئی محسوس ہوئی دل دھڑکنا بھول گیا۔۔۔۔اُسے لگا اُسکے اس پاس سب چیزیں ختم ہوگئی اُسکی زندگی ختم ہوگئی۔۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے خضر کے اس پاس کالے لباس میں ملبوس آدمی آئے ۔۔۔
اور خضر کو ایک بھی موقعہ دیے بنا اُسکے سامنے کھڑے جون نے اُس پر گولیاں برسائی۔۔۔۔۔
خضر۔۔۔۔
شجیہ سکرین پر نظر آتا یہ منظر دیکھتے چیخی تھی اُسکی چیخ اتنی دلدوز تھی کہ انابیہ کا دل ڈوب کر اُبھرا سکرین پر نظر آتا منظر دیکھتے وہ بھی رو دی تھی۔۔۔
شجیہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی اُسکی ٹانگوں سے جان نکل سی گئی تھی۔۔۔
سامنے سکرین پر پل میں خضر کا وجود خون میں رنگا تھا اور بےجان ہوتا پیچھے صوفے پر گرا تھا ۔۔۔
دیکھتے دیکھتے اُس نے اپنی آنکھیں بند کی تھی ۔۔۔
اور شجیہ اُسکی نیلی آنکھوں سے سمندر بہہ نکلا یہ سب دیکھتے۔
زوروں سے نفی میں سر ہلاتے اُس نے اپنے ہاتھ زمین پر مارے تھے۔۔۔۔زبان کچھ کہنے سے انکاری تھی اور جب کہا تو فقط اتنا۔۔۔
خضر،خضر،خضر۔۔۔۔صرف یہ لفظ یہ نام اپنے ہونٹوں سے ادا کرتی وہ سامنے سکرین کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
دوپٹہ کب کا سر سے اُتر کر گلے میں گرا تھا۔۔بھورےبال لہراتے اُسکے بھیگے چہرے کو چھو رہے تھے۔۔۔۔وہ پاس جانا چاہتی تھی اپنے خضر کے چہرے کو چھونا چاہتی تھی لیکن ٹانگے بےجان ہوگئی تھی۔۔۔۔
بہت مشکل سے وہ اُٹھی قدم گھسیٹتے وہ سکرین تک ائی کانپتا ہاتھ دھیرے سے خضر کی بند ہوتی آنکھوں پر رکھا ۔۔اور وہ سسک پڑی ۔۔۔
اٹھے خضر آنکھیں کھولیں۔۔۔اٹھے ۔۔اور آئے مجھے بچانے جلدی سے میں انتظار کر رہی ہو۔۔اٹھ جائے نہ۔۔۔سکرین پر نظر آتے خضر کے چہرے پر ہاتھ رکھتی وہ اُس سے مخاطب تھی اور یہ منظر وہاں پر موجود تین لوگوں ما دل چیڑ گیا تھا ۔۔
بس اور جان نہیں تھی اُس میں کہ وہ کھڑے ہو پاتی نیچے زمین پر گھٹنوں کے بل گرتی چلی گئی ۔۔۔۔
آآآآآء۔۔۔شجیہ نے اپنے بال مٹھئیوں میں جکڑے۔۔۔
چھین لیا ۔۔۔چھین لیا مجھ۔۔سے میرا سب کچھ۔۔۔خضر۔۔۔میرے خضر۔۔۔اللہ۔۔۔۔اللہ۔اللہ مجھے میرے خضر چائیے واپس چایئے۔۔۔مجھے وہ چایئے ۔۔میرے خضر کو واپس بھیج دے مت چھینے ورنہ پھر مجھے بھی مار دے۔۔ مجھے میرے خضر چایئے۔۔۔۔یہ اللہ ۔۔۔روتے ہوئے اپنا ہاتھ زمین پر مارتی اُس نے شدت سے چیختے یہ لفظ ادا کیے اپنے رب کو پُکارا۔۔۔۔
میں کیوں زندہ ہو یا اللہ، خضر, بابا ,میرے خضر ،مجھے نہیں جینا ۔۔۔۔میرے ساتھ یہ نہیں ہوسکتا مجھے میرا شوہر چایئے۔۔۔پلیز، اللہ ۔۔۔بابا ۔۔بابا آجائے ۔۔۔وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی ماتم کنہ تھی۔۔۔اپنے بابا کو پکارتی اور بیٹیاں جب تکلیف میں ہو تو اپنے باپ کو ہی یاد کرتی ہے ۔۔وہ تکلیف میں تھی اور یہ تكيلف ایسی تھی جو وہ برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔اس وقت وہ سب کچھ بھول گئی تھی اس پاس کون تھا کون نہیں تھا۔۔۔سب کچھ۔۔۔
بس اُسے کچھ یاد تھا تو یہ کہ سامنے اُس کے شوہر کو گولیوں سے مار کر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تھا بس۔۔۔
اسکی یہ حالت دیکھتے انابیہ شدت سے رو دی۔۔۔اور وہاں۔ موجود ایک وجود کا دل کیا اُسے اپنے سینے میں بھینچ لے۔۔۔۔
یکدم وہ اُٹھی۔۔۔اس نے جون کی طرف دیکھا اب اُسکی آنکھوں میں آنسو کے ساتھ ساتھ ایسا قہر تھا کہ جون دیکھتے گھبرا گیا۔۔۔۔
پاس کھڑے گارڈ کو سمجھنے کا موقعہ دیے بنا اُس نے اُسکی گن لی لوڈ کی اور سیدھا جون کے دونوں ہاتھوں پر گولی مارتے ایک اُسکے سینے پر ماری۔۔۔۔۔
وہاں موجود سب کی آنکھیں حیرت سے پھیلی جون زمین پر گرتا چلا گیا۔۔۔اُسکے دونوں ہاتھ سے اور اُسکے سینے سے خون نکلتا زمین کو بھگو رہا تھا۔۔۔۔
تم نے چھینا مجھ سے میرا شوہر میں تمہیں جان سے مار دونگی۔۔۔۔شجیہ کہتی ابھی اور گولیاں جون کے سینے میں پیوست کرتی جب لیپرڈ نے جلدی سے آگے بڑھتے اُسکی گردن کی مخصوص نس دبائیں اور اُسے لیے روم کی طرف بڑھا۔۔۔انابیہ نے نفرت سے یہ منظر دیکھا۔۔۔
وہ ایک ظالم سے دل لگا چکی تھی۔۔۔اور اس چیز کا پچھتاوا اُسکو ساری زندگی ہونا تھا۔۔۔
یہ منظر دیکھتے اُس وجود نے آگے بڑھنا چاہا جب دوسرے وجود نے اُسکا ہاتھ تھام کر اُسے روکا۔۔۔کسی کی سنہری آنکھوں میں غضب کی سرخی چھائی تھی۔۔۔۔
جون کے وجود کو جلدی سے لیتے وہ لوگ ہسپتال بھاگے تھے۔۔۔



مجھے جانا ہے مجھے مر جانا چایئے۔۔میں کیوں زندہ ہو جب خضر نہیں ہے تو شجیہ کیوں زندہ ہے اُنکے بغیر تو میری کوئی زندگی ہی نہیں میرا دل تو اُنکے سینے میں دھڑکتا تھا۔۔۔تو اب یہ کیوں دھڑک رہا ہے یہ سانسیں کیوں چل رہی ہے۔۔۔شجیہ نے ہذیانی انداز میں انابیہ کو جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا۔۔۔
انابیہ کو وہ دیوانی لگی ۔۔
ہاں وہ دیوانی ہی تو تھی اپنے خضر کی جس سے اُس نے عشق کیا تھا ۔۔ہے اور کرتی رہے گی۔۔۔۔وہ اُسکی دیوانی تھی ہے اور رہی گی۔۔۔۔۔
خضر شجاعت چوہدری ہے تو ہی شجیہ کا وجود ہے وہ نہیں تو کچھ نہیں ۔۔۔
شجیہ صبر رکھو۔۔۔انابیہ اب کیا کہتی اُسی کے شوہر نے ہی تو سامنے کھڑی معصوم لڑکی کا سہاگ چھینا تھا۔۔۔۔
صبر۔۔۔شجیہ کہتی زوروں سے ہنسی۔۔یہ اذیت سے بھری ہنسی تھی۔۔۔۔۔
کیسے کرو صبر۔۔۔۔۔مجھ سے نہیں ہوگا۔۔جانتی ہو محبت ہے وہ میری عشق ہے ۔۔۔تم تو جانتی ہوگی نہ تم بھی تو اُس ظالم خونی سے محبت کرتی ہو۔۔۔۔شجیہ نے اُس سے تصدیق چاہی انابیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔
میں اپنے شوہر سے عشق کرتی ہو۔۔۔وہ میری رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔۔۔اتنی کہ اُن کو کچھ ہو تو میری سانسیں بند ہوجائے ۔۔۔۔لیکن دیکھو میں سانس لے رہی ہو میں زندہ ہو ۔۔۔میں زندہ کیوں ہو۔۔۔شجیہ کو دیکھ کر اب انابیہ کو لگ رہا تھا وہ ضبط نہیں کر پائے گی جب سے شجیہ ہوش میں ائی تھی ایسی ہی باتیں کی جا رہی تھی۔۔۔۔
انابیہ نے پاس کھڑی نرس کو اشارہ کیا جس نے جلدی سے آکر شجیہ کے بازو پر نیند کا انجکشن لگایا تھا۔۔
مجھے ۔۔۔میرے خضر۔۔۔خضر۔۔۔شجیہ کہتی نیند میں چلی گئی تھی۔۔۔۔انابیہ نے نہایت آرام سے اُسے بیڈ پر لٹایا تھا ۔۔
جتنی حسین وہ تھی اتنا ہی اُسکے نصیب میں دکھ لکھ دئیے گئے تھے۔۔انابیہ نے شجیہ کے بال صحیح کرتے سوچا۔۔۔
اُس پر کمفرٹڑ ڈالتے لائیٹس بند کرتے وہ باہر نکلی تھی۔۔۔۔
باہر نکلتے ہی اُسے سامنے ہی لیپرڈ نظر ایا۔۔۔
ابھی مت جانا اُس کے پاس اُس وقت وہ ایک بھوکی شیرنی ہے جس کے شوہر کو تُم نے مارا ہے تمہیں مارنے سے وہ ذرا سا بھی نہیں ہچکچائے گی۔۔۔
انابیہ نے اسپاٹ آواز میں کہتے اپنی نظریں اُس پر سے پھیری ۔۔۔
واپس اُدھر میری طرف دیکھو اس چیز کا حق تمہارے پاس نہیں ہے۔۔لیپرڈ کا اشارہ اُسکی آنکھیں پھیرنے پر تھا۔۔۔
تمہیں ذرا احساس ہے تم اُس معصوم لڑکی کے ساتھ کیا کر رہے ہو تم نے اُسکے شوہر کو مار دیا اور یہ بات ایک بیوی کو مردہ کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔۔۔تم اُسے حاصل تو کر لو گے زبردستی سے لیکن وہ اب ایک زندہ لاش بن کر ملے گی تمہیں۔۔۔۔ایسے کام مت کرو جس کا خمیازہ تمہیں ساری زندگی بھگتنا پڑے گا۔۔۔انابیہ نے لیپرڈ کو آئینہ دکھایا۔۔۔۔
کچھ زیادہ ہی تمھاری زبان چلنے لگی ہے شاید میری سزائیں بھول گئی ہو جو تمہیں اپنے اس وجود پر برداشت کرنی پڑتی ہے۔۔۔لیپرڈ نے اُسکی تھوڑی اپنی سخت گرفت میں لیتے دبی دبی آواز میں کہا۔۔۔
نہیں بھولی اور نہ ساری زندگی بھولوں گی لیکن تم ایک نہ ایک دن ضرور پچھتاؤ گے۔۔۔۔انابیہ کی آنکھیں نم ہوئی تھی اُسکی وحشی گرفت اپنی تھوڑی پر محسوس کرتے۔۔۔۔۔
لیپرڈ نے ایک جھٹکے سے اُسے چھوڑا تھا اور واپس پلیٹ گیا۔۔۔۔۔
انابیہ نے نفی میں سر ہلایا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔




خضر آپکو بچے پسند ہے۔۔۔شجیہ نے چاکلیٹ کھاتے خضر کے سینے سے سر اٹھا کر اُسکی طرف دیکھتے پوچھا۔۔۔۔
خضر نے سامنے چلتی سکرین پر لگی فلم کو دیکھتے محض اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
اچھا۔۔۔مجھے بھی۔۔۔بہت پسند ہے بچے۔۔۔۔شجیہ نے خضر کے چہرے کو دیکھتے کہا جس کا سارا دہان صرف و صرف ٹیوی پر تھا۔۔۔
خضر پانچ بچے اچھے ہوتے ہیں نہ انشاءاللہ ہمارے پانچ بچے ہونگے ۔۔۔شجیہ نے چاکلیٹ کھاتے اپنی آنکھیں چھوٹی کرتے خضر سے کہا جس نے پھر اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔
نہیں دس بچے ٹھیک ہوتے ہیں۔۔۔شجیہ نے دانت پیستے پوچھا۔۔۔خضر نے اب بھی اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔شجیہ نے غصے سے منہ پھولا کر سامنے ٹیوی کی طرف دیکھا جہاں اب ہیروئن بری مہارت سے ویلن لڑکی سے لڑ رہی تھی شجیہ کی آبرو آپس میں ملی اُس نے پلٹ کر خضر کی طرف دیکھا ۔۔جس کے چہرے پر ایک حسین مسکراہٹ تھی۔۔۔
پل بھر میں اُس کے پورے وجود مو جلن سی پیدا ہوئی تھی۔۔۔۔
اُس نے ایک جھٹکے سے خضر کے پاس آکر اُس کے چہرے کے نزدیک اپنا چہرہ کیا۔۔کچھ اس طرح کے ٹیوی کی سکرین اب خضر کو نظر نہیں آرہی تھی۔ ۔۔
کیا ہوا۔۔۔شجیہ کے چہرے کو اپنے قریب دیکھتے خضر نے اپنی آبرو اچکا کر پوچھا۔۔۔
اگر اُس انگریزن کو دیکھ لیا ہو تو ایک نظر کرم اپنی اُس حسین و جمیل گھر والی پر بھی ڈال لے جو کب سے آپ سے بات کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔۔۔شجیہ نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے ادا کیے۔۔۔۔
خضر نے اپنے ہونٹوں پر امدنے والی مسکراہٹ ضبط کی۔۔۔شجیہ کی قمر میں ہاتھ ڈالتے اُس نے ایک جھٹکے میں کروٹ بدلی تھی۔۔۔شجیہ پر ایک گہری گھٹا سا چھاتے اُس نے شجیہ کے بال کان کے پیچھے کیے ۔۔
میرا سارا دیہان تو میری اس حسین و جمیل گھر والی پر ہی ہے۔۔۔خضر نے شجیہ کے گلابی ہونٹوں پر اپنی پر تپش سانسیں چھوڑتے ہوئے گھمبیر لہجے میں کہا۔۔۔
جھوٹ نہیں بولے میں نے ابھی آپ سے پوچھا دس بچے اچھے آپ نے تب بھی ہاں میں سر ہلایا میں نے پوچھا پانچ بچے آپ نے تب بھی اثبات میں سر ہلایا۔۔۔شجیہ نے خضر کے بٹن سے کھیلتے ہوئے منہ بناتے کہا۔۔۔
بچے جتنی خدا کی دین ۔۔۔چاہے جتنے بھی بچے ہو ہمارے سب کے لیے میرا پیار برابر ہوگا۔۔۔خضر نے شجیہ کا گال اپنی انگلیوں سے سہلاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
اور میرے لیے کم ہو جائے گا؟۔۔۔شجیہ نے جلدی سے پوچھا۔۔۔
ہونہہ آپ تو میری زندگی ہے آپکی بدولت تو وہ اس دنیا میں آئے گے تو کیسے میرا پیار کم ہوگا میرا پیار وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جائے گا۔۔۔خضر نے شجیہ کے ماتھے پر اپنے لب رکھتے ہوئے کہا۔۔۔شجیہ مسکرا دی اُسکی بات پر۔۔۔
انجیکشن کے زیرِ اثر نیند میں بھی وہ اپنے اور خضر کے بارے میں سوچ رہی تھی بند آنکھوں سے آنسو نکلتے تکیے میں جذب ہو رہے تھے۔۔۔اُسے تو نیند بلکل نہ اتی ۔۔لیکن نرس نے کافی ہیوی دوز لگائی تھی جس کی وجہ سے اُسکی آنکھیں تک نہیں کھل پا رہی تھی۔۔۔۔