مثالِ عشق

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 17

گہری رات نے اپنے پر پھیلا لیے تھے۔۔۔۔انابیہ نم آنکھوں سے لیپرڈ کی طرف دیکھ رہی تھی جو لاؤنچ میں بیٹھا مسلسل حرام مشروب پی رہا تھا۔۔۔۔۔
جبکہ سامنے گارڈ کھڑے تھے۔۔۔۔
لیپرڈ نے یہ آخری گلاس اپنے لبوں سے لگایا اور گٹاگٹ اپنے وجود میں اتارتا چلا گیا۔۔۔۔
اُسکی آنکھیں دھیرے دھیرے بند ہوتی گئی اور سر ایک طرف کو ڈھلکا۔۔۔۔
انابیہ جلدی سے نیچے ائی۔۔۔
اُنہیں کمرے میں چھوڑ ائے۔۔۔ایک نظر لیپرڈ کے بھاری وجود کو دیکھتے اُس نے پیچھے پلٹ کر اُن دو گارڈز سے کہا جنہوں نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا اور چمکتی انکھوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔۔۔۔
لیپرڈ کو بازو سے پکڑتے اُسے لیے انابیہ کے پیچھے پیچھے آئے ۔۔۔
بس آپ جائے شکریہ آپکا۔۔۔۔لیپرڈ کو بیڈ پر لیتا دیکھ انابیہ نے نرم لہجے میں اُن دونوں سے کہا جو اثبات میں سر ہلاتے باہر نکلے تھے ۔۔۔
کمرے سے باہر نکلتے ہی بھوری داڑھی والے نے اپنی جیب سے ایک کالے رنگ کا چھوٹا سا ریموٹ نکالا اور بٹن دبایا۔۔۔۔پورے گھر میں لگے کیمرے بند ہوئے۔۔۔
کالی داڑھی والے نے اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھا اور محتاط انداز میں چاروں طرف دیکھتے وہ ایک طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
💗💗💗
گہری سانس بھرتے وہ اس کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔دروازہ بند کرتے اُس نے بیتاب نگاہوں سے بیڈ پر لیتے اُس وجود کو دیکھا تھا جس کی چلتی سانسیں اُسکی زندگی کی علامت تھی ۔۔۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی اُسکے وجود کی مدھم اور بھینی بھینی مہک اُسکے نتھنوں سے ٹکراتی اُسکے وجود میں زندگی سی بھر گئی تھی۔۔۔۔
دھیرے قدم اٹھاتے وہ اُس تک آرہا تھا ۔۔۔بھوری آنکھیں اُس وقت نم تھی۔۔۔
اُسکے قریب اتے اُسکی بھیگی پلکیں اور گالوں پر مٹے مٹے آنسوؤں کے نشان دیکھتے اُس نے اپنے لب بھینچے ۔۔۔۔
نہایت احتیاط سے اُسکے بیڈ کے سرہانے بیٹھتے اُس نے اُسکا ڈرپ لگا ہاتھ تھاما ۔۔
اُسکی بند آنکھ سے نکلتا آنسو جھکتے اپنے لبوں سے پیا ۔۔۔
شجیہ کی پلکیں لرزی ۔۔آنسو تیزی سے بہتے تکیہ بھگونے لگے پلکیں تیزی سے نم ہوئی۔۔۔۔
اور پاس بیٹھتے وجود کے چہرے پر مسکراہٹ دور گئی وہ پہچان گئی تھی اُسے اُسکے لمس کو اُسکی خوشبو کو۔۔۔۔
شجیہ ۔۔۔نہایت دھیمی آواز میں اُس نے اُسکے کان میں سرگوشی کی۔۔۔اور شجیہ نے اپنا نچلا لب دانت تلے دباتے اپنی سسکی روکی آنکھیں اب بھی بند تھی۔۔۔
خضر کے دل آنکھیں کھولو۔۔۔خضر نے اُسکے کان کی لو کو اپنے لبوں میں لیتے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔
شجیہ نے زوروں سے نفی میں سر ہلایا۔۔۔
میں۔۔میں آنکھیں کھولو گی تو آپ غائب ہو جائے گے ۔۔میں نہیں کھولو گی آنکھیں۔۔۔شجیہ نے بھرائی آواز میں کہا۔۔۔
وہ ہر بار جب بھی نیند سے جاگتی تھی اُسے اس پاس کہیں خضر نظر نہیں اتا تھا اور آنکھیں بند کیے وہ اپنی اور خضر کی دنیا میں کھو جاتی تھی جہاں اُسکا خضر تھا اور وہ تھی ۔۔۔شاید اسی ڈر سے وہ اپنی آنکھیں نہیں کھول رہی تھی۔۔۔۔
خضر نے اُسکی بات پر شدت سے اُسکے گال پر اپنا لمس چھوڑا۔۔۔
نہیں جاؤنگا کہیں بھی اپنی آنکھیں کھولو جاناں۔۔۔اور دیکھو تمہارا خضر تمہارے پاس ہے۔۔۔خضر نے اُسکا حسین چہرہ جو ایک ہی دن میں مرجھا گیا تھا دیکھتے کہا۔۔۔
وعدہ کرے۔۔۔شجیہ نے روتی آواز میں کہا۔۔۔ایک مان تھا جو خضر نے دیا تھا کہ وہ اُس سے کیا وعدہ کبھی نہیں توڑے گا۔۔
وعدہ ۔۔خضر نے فوراً سے کہا۔۔۔شجیہ نے دھیمے سے اپنی آنکھیں کھولی۔۔۔۔
بھیگی نیلی آنکھیں پل میں خضر کے چہرے پر ٹکی۔۔ تو حیرت میں پھیلی خضر نے اُسکی آنکھیں حیرت میں پھیلی دیکھ اپنے چہرے پر لگی نقلی بھوری داڑھی اتاری ۔۔۔۔
شجیہ نے ویسے ہی لیٹے اپنا کانپتا ہاتھ اگے بڑھا کر خضر کے چہرے کو چھوا۔۔۔جیسے یقین کرنا چاہا تھا وہ حقیقت میں ہے یہ نہیں۔۔۔۔
جیسے ہی اُسکا ہاتھ اُسکے لبوں سے پر ٹچ ہوا۔۔۔شجیہ کی آنکھوں سے سمندر بہہ نکلا۔۔۔
وہ ایک جھٹکے میں اُٹھی۔۔۔گھٹنوں کے بل بیڈ پر بیٹھتے اُس نے بیقینی سے خضر کے چہرے کو چھوا۔۔۔۔
خضر۔۔۔تڑپتی آواز میں کہتے اُس نے بیتابی سے خضر کے چہرے پر اُسکی گردن اُسکے دل کے مقام پر اپنے لب رکھے۔۔۔۔نیلی آنکھوں سے آنسو بہتے جا رہے تھے نیلی فروک میں دوپٹہ سے بےنیاز بکھرے بالوں میں شدت سے روتی وہ خضر کو ترپا گئی تھی۔۔۔۔
آپ ٹھیک ہے۔۔۔میرے خضر ٹھیک ہے۔۔۔خضر ۔۔۔شجیہ دیوانوں سے کہتی خضر کے چہرے کے ہر نقش کو چوم رہی تھی۔۔۔۔اور خضر اُسکا اپنے لیے پیار دیکھ کر سٹل ہوگیا تھا ۔۔۔۔
کیا کوئی اتنا پیار بھی کر سکتا تھا کسی سے ۔۔۔۔
ہاں کر سکتا تھا سامنے موجود لڑکی اُس سے فقط محبت نہیں عشق کرتی تھی وہ لڑکا جسے اُسکی محرومی کی وجہ سے ہر کسی نے طعنے کسے اُسے کم تر محسوس کروایا جس کے ساتھ فقط اُسکے دادا ، پھوپھو اور اُسکی دوست مخلص تھی۔۔۔۔
اُس سے ایک نیلی انکھوں والی لڑکی نے عشق کیا تھا۔۔۔
خضر کو یکدم ایک غرور سا ہوا ۔۔۔اور ہوتا بھی کیوں نا اُسکی محبت اُس سے عشق کرتی تھی اُسکی بیوی اُس سے عشق کرتی تھی ۔۔۔
میں ڈر گئی تھی۔۔۔میں مر جاتی خضر ۔۔۔میں مر جاتی ۔۔۔میں نہیں رہ سکتی آپکے بنا۔۔۔آپکی شجیہ آپکے بنا سانس تک نہیں لے سکتی۔۔۔۔شجیہ نے خضر کے سینے کے گرد اپنے ہاتھ سختی سے باندھتے روتے ہوئے کہا۔۔۔
خضر نے شدت سے اُسے خود میں بھینچا۔۔۔۔
ہشش جانم میں اگیا ہوں نہ تمھارے پاس رونا بند کرو ۔۔اب میں ہوں تمہارے پاس۔۔۔خضر کی آنکھیں ضبط سے لال ہوئی ۔۔شجیہ کی کمر سہلاتے اُس نے اُسے چپ کروانا چاہا۔۔۔
،آپ کو اُس نے گولیاں ماری وہ خون آپکے سینے یہاں سے خون۔۔۔خون نکل رہا تھا۔۔۔۔آپکی آنکھیں بھی بند تھی خضر ۔۔۔میں نے کتنی آوازیں دی آپکو ۔۔۔۔اپ نے میری ایک نہیں سنی۔۔۔۔میں نے خود دیکھا اُس نے آپکو گولیوں سے مارا تھا خضر۔۔خضر مجھے لگ رہا تھا میری سانسیں بند ہو گئی ہے۔۔۔وہ گولیاں مجھے اپنے وجود میں اُترتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔آپ نہیں تھے خضر میں بہت روئ ہو۔۔۔۔
بے ربط جملے کہتی وہ خضر کے سینے کو ٹٹولتی خضر کا دل چیر گئی تھی۔۔۔۔۔۔
میں ٹھیک ہو شجیہ ۔۔تمہارے سامنے ہو زندہ ہو بھلا خضر شجاعت چوہدری اپنی نیلی انکھوں والی حسین بیوی کو چھوڑ کر جا سکتا ہے کبھی ۔۔۔نہیں کبھی نہیں۔۔۔۔اُدھر دیکھو اب ان آنکھوں سے آنسو نہیں نکلنے چایئے۔۔۔خضر نے شجیہ کو ہوش میں نہ اتا دیکھ اُسکے دونوں کندھے جھنجھوڑتے ہوش میں لانا چاہا۔۔۔
شجیہ چپ ہوئی ۔۔ایک۔ دم سٹل اور پھر تیزی سے خضر کے گلے لگی۔۔۔
آنسو تھم گئے تھے لیکن سسکیاں اب بھی جاری تھی۔۔۔۔۔
بس میری جان بلکل بھی ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہے میں ٹھیک ہو ہم ٹھیک ہے ہم جلد یہاں سے چلے جائیے گے۔۔۔خضر نے شجیہ کے بالوں پر اپنے لب رکھتے کہا۔۔
خضر مجھے یہاں نہیں رہنا مجھے یھاں سے لے چلے ۔۔۔مجھے اُس سے خوف اتا ہے مجھے اُسکی نظریں اپنے وجود پر گڑھتی محسوس ہوتی ہے۔۔۔مجھے اب سکون چایئے مجھے صرف آپ چایئے اپنے پاس اور ہماری چھوٹی سی وہی دنیا جہاں ہم خوش تھے ساتھ تھے کوئی غم نہ تھا۔۔۔۔شجیہ نے دھیمی آواز میں خضر کے سینے پر سر رکھتے کہا۔۔۔
شجیہ کی بات پر خضر نے اپنے جبڑے بھینچے ۔۔۔اُسکا دل کیا تھا لیپرڈ کو ابھی جاکر زندہ درگور کر دے ۔۔۔شجیہ کی بات پر اُس نے کیسے ضبط کیا تھا یہ وہی جانتا تھا۔۔۔
انشاءاللہ میری جان ہم یہاں سے چلے جائیے گے اپنی اُسی دنیا میں۔۔۔بہت جلد یہ تمھارے خضر کا تم سے وعدہ ہے۔۔۔۔خضر نے اُسکے بالوں سے اٹھتی مہک کو اپنے وجود میں اُتارتے کہا۔۔۔
ابھی وہ پاس تھی اُسکے قریب وہ اُسکا لمس محسوس کر پا رہا تھا دو دن سے جلتے تڑپتے دل کو راحت ملی تھی۔۔۔۔رگوں میں سکون خون بن کر دوڑنے لگا تھا ۔۔۔۔
پر اُس نے تو آپکو گولیاں ماری تھی۔اور یہ ہاتھ ۔۔۔۔شجیہ نے خضر کے سینے سے منہ اٹھاتے اُسکی طرف دیکھتے نم انکھوں میں حیرت لیے اُس سے پوچھا۔۔۔
وہ بہت لمبی کہانی ہے جو فرصت میں اپنی بیگم کو سناؤ گا ابھی مجھے تمہیں جی بھر کر دیکھنے دو محسوس کرنے دو۔۔۔رگوں میں جو تڑپ تمھاری دوری سے بھری ہے اُسے تمہارے لمس سے سکون میں بدلنے دو۔۔۔خضر نے شجیہ کے چہرے کے حد درجہ قریب اپنا چہرہ لاتے گھمبیر خمار زدہ آواز میں کہا۔۔۔
خضر نے شجیہ کی نیلی آنکھوں میں دیکھتے اپنے لب اُسکے لبوں پر رکھتے شدت سے اُسکی سانسیں پی ۔۔۔
شجیہ نے اپنی نم پلکیں اپنے سرخ عارض پر جھکاتے اُسکے کندھوں پر اپنا ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔۔
اپنی آنکھیں بند کئے وہ خضر کا لمس محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔
اور خضر مسرور سا ہوتے اُسکے لبوں کا جام پیتے اپنی تشنگی مٹا رہا تھا۔۔۔
خضر کروٹ بدلتے اُس پر حاوی ہوا اور شجیہ اپنی آنکھیں بند کر گئی۔۔۔
شجیہ کی گردن پر اپنے لب رکھتے وہ ایک سرور سا اپنے وجود میں دوڑتا محسوس کر رہا تھا۔۔اپنے بالوں پر گردش کرتے شجیہ کے ہاتھ محسوس کرتے اُسکے بوسوں میں اور شدت در ائی تھی۔۔۔۔
شجیہ نم آنکھیں لیے خضر کی شدتیں برداشت کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔اور خضر اُسکے پور پور پر اپنا لمس چھوڑ رہا تھا۔۔۔۔کانوں میں گونجتی اُسکی پیار شدت بھری سرگوشیاں سنتے وہ آسودگی سے مسکرائی ۔۔۔
خضر کو اپنے سامنے دیکھ اُسکا دل سکون میں تھا ۔۔۔یہ بات اُسکے لیے موت کے مترادف تھی کہ خضر اب اس دنیا میں نہیں ہے۔۔۔ وہ سب دیکھتے اُس پر کیا کیا گزری تھی یہ وہی جانتی تھی ۔۔۔خضر کے بغیر وہ زندگی کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔۔
اگر خضر ابّھی نہ اتا تو یقیناً وہ اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی جس بات کا ادراک خضر کو بھی تھا۔۔۔
💗💗💗💗
انابیہ نے لیپرڈ کے جوتے اُتارے اُسکا سر تکیہ پر رکھتے اُس نے اُس پر لحاف دھکا۔۔۔۔
دھیرے سے اُسکے پاس بیٹھتے اُسکے بالوں میں اپنی انگلیاں چلاتے وہ لیپرڈ کے خوبرو چہرے کو تکنے لگی۔۔۔۔۔
کاش تم میری تھوڑی سی قدر کر لیتے۔۔۔کاش جتنا پیار میں تُم سے کرتی ہو بدلے میں صرف تھوڑا سا ہی پیار کر لیتے۔۔۔۔کاش تمہیں یہ خبر دیتے ہوئے کہ تُم بابا بننے والے ہو مجھے اس بات کا ڈر نہیں لگتا کہ تم میرے بچے ہمارے بچے کو قبول کروگے بھی یہ نہیں ۔۔۔یہ پھر یہ بھی اپنی ماں کی طرح تمھاری زندگی اور تمہارے اس محل میں ایک بیکار چیز کی طرح پڑے رہے گا۔۔۔نم آواز میں کہتی وہ اُس سے مخاطب تھی جو آنکھیں بند کیے گہری نیند میں غرق تھا۔۔اُسکی آواز میں ایسی اذیت اور تکلیف تھی کہ سننے والے کا دل سو ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتا۔۔۔۔
کاش تم بھی مجھ سے محبت کرتے۔۔۔لیپرڈ کے سینے پر اپنا سر رکھتی وہ اپنی ٹانگیں بیڈ پر رکھتی اپنی آنکھیں موند گئی تھی۔۔۔۔
💗💗💗💗
ہیلو۔۔کیسے ہے آپ کامل شجیہ کیسی ہے اور خضر۔۔۔۔فلک ابھی ابھی فرش ہوکر اپنے بیڈ پر بیٹھی تھی جب اُسکے نمبر پر کامل کی کال ائی۔۔۔
سب ٹھیک ہے بھابھی مل گئی ہے حیاتی آپ کیسی ہے اور ہمارا بچا کیسا ہے۔۔۔کامل نے شیشے کے اُس پار لیتے جون کو دیکھتے نرم آواز میں پوچھا۔۔۔
وہ ٹھیک ہے بس اپنے بابا کو یاد کر رہا ہے بہت شدت سے۔۔۔فلک نے لبوں پر ایک حسین مسکراہٹ لیے کہا۔۔۔۔
ہمارے شہزادے اور اُسکی ماما کو تھوڑا سا انتظار کرنا پڑے گا اُسکے بعد وہ اور اُسکی ماما ہمیشہ کے لیے میرے پاس ہوگی۔۔۔کامل کی بات پر فلک کے ہونٹوں پر جمی مسکراہٹ اور گہری ہوئی۔۔۔۔۔
آپ نے اپنا اور بیبی کا بہت سارا خیال رکھنا ہے ۔۔۔میرے لیے ۔۔جب میں اؤ تو آپ دونوں مجھے صحت یاب چایئے ۔۔۔اب میں فون رکھتا ہو۔۔۔ کامل نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فلک سے کہا۔۔۔۔
فلک نے ایک لمبی سانس بھری اُسکی بات پر۔۔۔
آپ بھی اپنا خیال رکھیے گا ۔۔اور ائی لو یو ۔۔۔۔فلک نے دھیمی آواز میں کہا۔۔۔کامل کے لبوں پر مسکراہٹ دور گئی اُسکے لفظ سنتے ۔۔۔
آئی لو یو ٹو ۔۔۔۔کامل نے کہتے ساتھ فون بند کیا۔۔۔
ایک نظر سامنے دیکھا جہاں جون کا علاج چل رہا تھا۔۔۔۔
اس پاس دوسرے آفیسر بھی تھے۔۔۔۔
اُسے کل کا منظر یاد ایا۔۔۔۔
،ایک دن پہلے۔۔۔💗💗💗
تو یہاں ریلیکس انداز میں کیسے بیٹھ سکتا ہے جب بھابھی اُس لیپرڈ کی تحویل میں ہے۔۔۔۔کامل نے غصے سے خضر کو دیکھتے کہا جو نہایت اطمینان سے صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔۔
خضر تُجھے بھابھی کی کوئی فکر ہے بھی یا نہیں کوئی جواب کیوں نہیں دے رہا ہے تو۔۔۔کامل کو اُسکے جواب نہ دینے پر شدید تعیش ایا۔۔۔۔
کیا کہا تو نے ۔۔مجھے اُسکی فکر نہیں ہے۔۔۔میں یہاں ایک ایک ایک پل گن رہا ہو اُسکے پاس جانے کا ۔۔۔کیا مجھے جلدی نہیں ہے اُس تک پہنچنے کی۔۔۔مجھ سے پوچھ کتنا بےبس ہو میں ۔۔۔میں اپنی بیوی کو اُس کی قید سے۔۔۔میرے لیے ایک ایک لمحہ کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔۔۔خضر ڈھاڑا تھا۔۔۔
میں بس انتظار کر رہا ہو۔۔مجھے اچھے سے پتہ ہے وہ اپنے کتوں کو ضرور بھیجے گا خضر شجاعت چوہدری کو مارنے۔۔۔۔خضر نے اپنی داڑھی رب کرتے ہوئے کہا۔۔۔
کامل سمجھ گیا تھا وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے۔۔۔۔
گہری رات نے کراچی پر اپنے پر پھیلائے تھے ایسے میں کالے لباس میں ملبوس جون اپنے ساتھیوں کے ہمراہ خضر پلیس میں داخل ہوا تھا۔۔۔
محتاط انداز میں چلتے وہ چاروں طرف دیکھ رہا تھا جہاں ہر طرف اندھیرا تھا۔۔۔یہاں انے سے پہلے وہ پتہ کر چکا تھا خضر اس وقت اپنے گھر میں ہے۔۔۔
خضر کے کمرے کے دروازے کو ایک جھٹکے سے کھولتے اُس نے بیڈ پر لیتے خضر پر گولیاں چلائیں۔۔۔لیکن سامنے روئی کو دیکھ کر اُسکا ماتھا تنکا۔۔۔۔تیز قدم بڑھاتا وہ بیڈ تک ایا تھا ایک جھٹکے سے لحاف اٹھایا اور سامنے تکیہ دیکھتے اُس نے اپنی آنکھیں مينچی۔۔۔یکدم کانوں میں سیٹی کی آواز گونجی۔۔۔آواز کے ارتکاز میں سامنے دیکھا تو سامنے ہی دروازے کے بیچ و بیچ خضر کھڑا تھا۔۔۔۔
خوش آمدید۔۔۔۔ایک جھٹکے سے کامل نے ونڈو سے اندر چھلانگ لگا کر بلکل جوں کے پاس کھڑے ہوتے ایک آنکھ ونک کرتے کہا۔۔۔
اتنا حیران مت ہو جون۔۔۔۔تم نے یہاں انا تھا یہ بات خضر شجاعت چوہدری تو نہیں جانتا تھا لیکن ائی ایس ائی اجنٹ خضر شجاعت چوہدری ضرور جانتا تھا۔۔خضر نے اپنی پشت پر اپنے ہاتھ رکھتے دھیمی مگر سخت آواز میں کہا۔۔۔
جون کی آنکھیں پھیلی تھی۔۔اُس نے تیزی سے اپنی گن لوڈ کرتے خضر کا نشانہ لیا۔۔۔
چچچ۔۔۔گولیاں تو ساری تم جوش میں اتے بیچارے تکیہ پر برسا چکے ہو ۔۔۔اور تمہارے سارے ادمی اس وقت اپنی خاطر تواضح سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔۔۔کامل نے اُسکے ہاتھ سے گن لیتے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔
چلو اب سیدھی شرافت سے بتاؤ میری بیوی کہاں ہے۔۔۔خضر نے اُسکے قریب اتے بھوری انکھوں میں سرخی لیے سرد و سپاٹ آواز میں پوچھا۔۔۔۔
مجھے نہیں پتہ۔۔۔۔جوں کے کہنے پر کامل نے رکھ کر اُسکے منہ پر تھپڑ رسید کیا۔۔۔
سوات میں ہے۔۔۔وہ لیپرڈ کے وؤڈ ہاؤس میں ۔۔۔۔جوں نے کامل کے زور دار تھپڑ سے نکلنے والا خون صاف کرتے بتایا۔۔۔۔
خضر نے اپنی مٹھیاں بھینچی۔۔۔دل کو راحت تو نہیں ملی تھی یہ سن کر راحت تو تب ملنی تھی جب وہ سامنے ہوتی اُسکے قریب۔۔۔۔
چلو پھر کیوں نہ ایک چھوٹا سا ڈراما بنایا جائے تمہارے اُس لیپرڈ کو اُلّو بنائے کے لیے۔۔۔۔خضر نے انگوٹھے سے اپنی داڑھی رب کرتے کہا۔۔۔
اور پھر خضر نے وہ سب ناٹک کیا ۔۔۔جون کے ہاتھ میں ایک نقلی گن تھمائی خضر کے وجود سے نکلتا خون بھی نقلی تھا۔۔۔آس پاس خضر کے ہی ٹیم کے ممبرز تھے جو بلیک لباس میں ملبوس تھے۔۔۔۔
ویڈیو بنانے کے فوراً بعد ہی جوں کو آفسیر نے ہتکڑی لگا دی تھی۔۔۔۔
لیپرڈ کے ووڈ ہاؤس میں سیکیورٹی بہت زیادہ تھی۔۔۔وہاں صرف جون اور اُسکے قریبی گارڈز کو ہی جانے کی اجازت تھی۔۔۔۔
خضر نے اپنے چہرے پر بھوری داڑھی لگائی تھی۔۔۔سفید رنگت بھوری آنکھیں اور بھوری ہی داڑھی وہ بلکل ایک انگریز لگ رہا تھا۔۔۔۔اپنے دیمج ہاتھ پر اُس نے ایک نقلی ہاتھ لگا لیا تھا۔۔۔
کامل نے بھی فوراً سے اپنی سبز انکھوں کو کالی آنکھوں میں بدلہ تھا۔۔۔چہرے پر کالی گھنی داڑھی لگائے وہ بھی اپنا سراپا بلکل بدل گیا تھا۔۔۔
اپنی ٹیم اور جون کو لیے وہ لوگ سوات کے لیے نکلے تھے اور اس سارے سفر میں خضر کا دل صرف و صرف شجیہ کو دیکھنے کے لیے بیچین تھا۔۔۔کامل نے جاتے وقت فلک کو دیکھا تک ہی نہ تھا وقت ہی نہیں تھا اتنا کہ وہ اُس سے بات بھی کر پاتا اپنے موبائل میں اُسکی تسویر کھولے وہ پورے راستے اسے دیکھتا رہا تھا۔۔۔۔
سوات پہنچتے وہ سب سے پہلے بیس میں گئے تھے وہاں سے جون اور اپنے وجود پر ٹریکنگ ڈیوائس لگوا کر وہاں سے صرف وہ دونوں اور جون آگے کے سفر پر نکلے تھے۔۔۔پیچھے ٹیم تیار بیٹھی۔ تھی۔۔۔۔۔۔
گھنے جنگلات سے ہوتے ہوئے وہ ووڈ ہاؤس میں پہنچے تھے جس کے مین گیت پر اُنہیں روک کر اُن تینوں کی تلاشی لی گئی تھی۔۔۔کامل اور خضر محتاط انداز میں چاروں طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔
بہتے دریا کے کنارے پر بنا یہ ووڈ ہاؤس باہر سے انتہا کا حسین لگتا تھا۔۔۔
اندر قدم بڑھاتے خضر کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا نہ جانے وہ کس حال میں ہوگی۔۔۔کیا کر رہی ہوگی ۔۔کہیں اُس لیپرڈ نے اُسے ہاتھ تو نہیں لگایا۔۔اور یہ سوچ اتے ہی اُسکے سینے میں الاؤ سا دہک جاتا تھا ۔۔۔ایسا لگتا تھا جیسے پورے بدن پر کسی نے جلتے کوئلے انڈیل دیے ہو۔۔۔۔
اؤ اؤ جون اُمید کرتا ہو جو کام تمہیں دیا تھا وہ پوری ایمانداری سے مکمل کر کے آئے ہوگئے۔۔۔سامنے صوفے پر بیٹھتے لیپرڈ نے مسکراتے ہوئے یہ الفاظ کہے۔۔۔اور خضر نے بمشکل اپنے اوپر ضبط کیا تھا۔۔۔لیپرڈ کو سامنے دیکھتے اُسکا دل کیا تھا ابھی اُسے ایسی موت دے کہ وہ تڑپ تڑپ کر مرے ۔۔۔۔
جون نے اثبات میں سر ہلایا اور لیپرڈ کے سامنے یو ایس بی رکھی۔۔۔۔
جسے دیکھتے لیپرڈ کی مسکان اور گہری ہوئی ۔۔۔۔
لگاؤ۔۔۔۔خضر کی طرف اشارہ کرتے اُس نے ٹیوی کی طرف دیکھا۔۔۔۔
کامل کو لگا وہ ہنس دے گا ۔۔۔
خضر شجاعت چوہدری پہلا انسان تھا جو خود اپنی موت کی ویڈیو لوگوں کو دکھا رہا تھا۔۔۔۔
خضر نے ویڈیو لگا کر ایک نظر لیپرڈ کو دیکھا جس نے ملازم کو شجیہ کو بلانے کا کہا تھا۔۔۔
آنکھیں بیتابی سے اُسکے انے کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔۔اور پھر اُسے وہ نظر ائی ۔۔۔نیلی فروک میں دوپٹہ سے اپنا آپ ڈھانپے نیلی آنکھوں میں ڈر اور سرخی لیے ۔۔۔نیلی آنکھوں میں کسی انہونی کے ہونے کا خوف تھا جو صرف و صرف خضر شجاعت چوہدری ہی پڑھ سکتا تھا۔۔۔۔۔
سامنے اُسے صحیح سلامت دیکھتے خضر کی رکی سانس بحال ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔لال گلابی چہرہ اُسکی دوری پر کملا سا گیا تھا۔۔۔
لیپرڈ کی نظریں شجیہ پر محسوس کرتے خضر اپنے لب بھینچ گیا تھا۔۔۔یہ سب اُسکی برداشت سے باہر تھا مجبوراً وہ برداشت کر رہا تھا۔۔۔
اور پھر اُسکی وڈیو چلتے شجیہ کا ماہی بے آب کی طرح تڑپتا وجود اُسکے آنسو اُسکی آہیں سنتے خضر شجاعت چوہدری کو اپنے وجود میں ایسی بے بسی اُترتی محسوس ہوئی جو اُسکے روۓ روۓ کو ایک اذیت و تکلیف میں جھونک گئی تھی۔۔۔۔۔
اُسکا دل کیا شجیہ کے تڑپتے بلکتے وجود کو اپنی باہوں میں بھر لے اُسے اپنے سینے میں بھینچ کر یہاں سے دور لے جائے ہر تکلیف و پریشانی سے دور۔۔۔لیکن فلوقت وقت اُسکے حق میں نہیں تھا۔۔۔۔
اور پھر اُس نے اپنی بیوی کا جلالی روپ دیکھا۔۔۔جہاں اُس نے ایک پل میں جون کے وجود کو خونم خون کر دیا تھا۔۔۔یہاں اُسکا شیرنی والا روپ دیکھتے خضر سرشار سا ہوا تھا۔۔۔اور کامل کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی۔۔۔۔
خضر کا دل کیا تھا ابھی جاکر اپنی شیرنی کے چہرے پر اپنے لبوں کا لمس چھوڑ دے۔۔۔وہ اُسکی تڑپ اور اُسکی اس حرکت سے اپنے لیے اُسکی محبت کا اندازہ لگا چکا تھا اور یہی بات تھی جو خضر شجاعت چوہدری کے وجود میں سرشاری سی بھر گیا تھا۔۔۔۔
لیپرڈ کو شجیہ کے بیہوش کرتے اُسے اٹھانے پر خضر اپنا آپا کھو چکا تھا وہ جھٹکے سے اگے بڑھا تھا جب کامل نے اُسکا ہاتھ تھام کر اُسے روکا تھا ۔۔۔اور دونوں جوں کے زخمی وجود کو لیتے اس ووڈ ہاؤس سے باہر گئے تھے۔۔۔اُسے اپنی بیس میں موجود ہاسپٹل میں چھوڑتے وہ دونوں واپس آئے تھے ۔۔۔
پورے گھر کے کمرے وہ ہیک کر چکا تھا۔۔۔کامل نے لیپرڈ کی ڈرنک میں نشہ اور گولیاں بھی ملا دی تھی۔۔۔ایک تو حرام مشروب اور پھر نیند کی گولیاں۔۔۔۔دونوں نے ہی لیپرڈ کو گہری نیند میں سلا دیا تھا ۔۔۔
خضر شجیہ کے پاس چلا گیا تھا جبکہ کامل فوراً سے واپس بیس ایا تھا ۔۔۔۔
💗💗💗
سونا نہیں ہے۔۔۔خضر نے شجیہ کی نیند سے بھاری ہوتی پلکوں۔ کو چھوتے پوچھا۔۔۔
۔وہ رات بھر نہیں سوئی تھی صرف اس ڈر سے کہیں خضر چلا نہ جائے ۔۔۔اور خضر کو اب اُسکی فکر ہونے لگی تھی ۔۔۔۔
نہیں میں سو جاؤنگی پھر آپ چلے جائے گے مجھے لگ رہا ہے یہ ایک آنکھ خواب ہے جو میری پلکیں جھپکتے ہی ٹوٹ جائے گا۔۔۔اور میں ایسا نہیں چاہتی۔۔۔۔شجیہ نے خضر کی ناک پر اپنے لب رکھتے ہوئے بھرائی آواز میں کہا۔۔۔
اتنا ڈر ۔۔ کل تو میری بیوی نے شیرنی کی طرح بغیر ڈرے ایک انسان پر گولیاں چلائیں تھی۔۔۔۔خضر نے اُسکے گال کو اپنے ہاتھ کی پوروں سے سہلاتے ہوئے آبرو ریز کرتے کہا۔۔۔
یہ ڈر صرف آپکے لیے ہے آپکو کھو دینا کا، آپکو کوئی تکلیف نہ پہنچائے اس کا،آپکے دور چلے جانے کا،باقی سب کے سامنے شجیہ نہیں ڈرتی۔۔۔بلکل بھی نہیں اُس انسان نے میرے شوہر پر گولیاں چلائیں تھی اُسے میں زندہ نہ چھوڑتی ۔۔۔شجیہ نے خضر کے گال پر اپنا ہاتھ رکھتے پیار و شدت سے یہ الفاظ ادا کیے۔۔۔۔
تمھاری اُس محبت پر خضر شجاعت چوہدری اپنے آپ کو بھی قربان کر دے میری جان۔۔۔ویسے گن چلانی کہاں سے سیکھی ہے زوجہ خضر۔۔۔۔خضر نے اُسکے لبوں سے اپنے لب مس کرتے پوچھا۔۔۔۔
آپکی بیوی مستقبل کی ڈی ایس پی ہے خضر شجاعت چوہدری اُسے انڈر اسٹیمت مت کرئے گا مجھے گن چلانے کے ساتھ ساتھ ہڈیاں تورنی بھی اتی ہے۔۔۔شجیہ نے فخریہ لہجے میں کہا لہجے میں شرارت کا عنصر بھی شامل تھا۔۔۔۔
اوہو یہ تو بہت بری بات ہوئی مطلب تمہیں جب غصّہ آئے گا تم مجھ پر بھی گن تان سکتی ہو یہ میری بھی ہڈی توڑ سکتی ہو۔۔۔خضر نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
نہیں میں آپ پر ہاتھ تھوڑی اٹھاؤ گی بس آپ نے کچھ ایسی ویسی حرکت کی تو میرے یہ دانت ہے نہ یہ ان سے کام لونگی۔۔۔شجیہ نے اپنے دانتوں کی نمائش کرتے کہا۔۔۔
اور وہ کیسے۔۔۔۔خضر نے سوالیہ لہجے میں پوچھا۔۔۔
وہ ایسے۔۔۔شجیہ نے کہتے ساتھ اپنے دانت زور سے خضر کے بازو پر گاڑھے۔۔۔خضر نے اپنے لب بھینچے۔۔۔۔لیکن افف نہ کہا۔۔۔
شجیہ کے پیچھے ہٹنے پر خضر نے ایک نظر اپنے بازو پر دیکھا جہاں اُسکے چھوٹے چھوٹے دانتوں کے نشان واضح تھے۔۔۔
اگر تم ایسے کروگی تو میں بھی ایسے ہی نشان یہاں تمھاری گردن پر ثبت کرونگا۔۔۔خضر نے شجیہ کی گردن پر اپنی انگلی ٹریس کرتے ہوئے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔
ہم یہاں ایک انتہائی مشکل میں پھنس چکے ہیں اجنٹ خضر ۔۔۔اب ہمیں یہاں سے نکلنا ہے اور آپکو رومانس سوجھ رہا ہے۔۔۔شجیہ نے اپنی گردن پر رقص کرتی اُسکی انگلی تھامتے اُسے یاد دلایا ۔۔۔خضر اُسے سب کچھ بتا چکا تھا۔۔۔اپنے بارے میں ۔۔۔
کیا کر سکتے ہیں جب اتنی حسین بیوی ہو جس سے آپکو انتہا کی محبت ہو تب رومانس کچھ زیادہ ہی کرنے کا دل چاہتا ہے۔۔۔خضر کی بےباک بات پر شجیہ کا رنگ سرخ اناری ہوا۔۔۔
یکدم خضر کے ہاتھ میں پہنی گھڑی پر لال بتی جلی۔۔۔
چلو اٹھو میری جان گھر جانے کا وقت ہوا جاتا ہے۔۔۔خضر نے شجیہ کے ماتھے پر بوسا دیتے پیار سے کہا اور اُسے اپنی گرفت سے آزاد کیا۔۔۔
خضر۔۔۔وہ آپکو نقصان تو نہیں پہنچائے گا ۔۔۔شجیہ نے ایک ڈر کے تحت پوچھا۔۔۔
ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے زوجہ خضر ۔۔۔میرا وعدہ ہے۔ ہم سب یہاں سے صحیح سلامت واپس جائے گے اپنی اُسی خوشیوں بھری زندگی میں۔۔۔خضر نے اُسکے بال سوارتے ہوئے مضبوطی سے کہا۔۔۔شجیہ نے اثبات میں سر ہلایا اُسکی بات پر۔۔۔جب خضر نے وعدہ کر لیا تھا تو اُسے یقین تھا وہ ضرور اُسے پورا کرے گا۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial