مثالِ عشق

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 18

خضر کے ہاتھ میں موجود گھڑی میں ظاہر ہوتی لال بتی اس بات کی نشاندھی تھی کہ کامل اور اُسکی ٹیم وّوڈ ہاؤس کے قریب ہے۔۔۔
باہر سے فائرنگ کی آواز آرہی تھی۔۔۔خضر بس شجیہ کو محفوظ یہاں سے نکالنا چاہتا تھا پھر لیپرڈ سے وہ نمٹنے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔۔
گولیوں کی آواز سنتے لیپرڈ اٹھا اسے پل لگا تھا سب کچھ سمجھنے میں۔۔اُس نے انابیہ کو دیکھا جو خود بھی گولیوں کی آواز سنتے پریشانی سے لیپرڈ کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔
اس کمرے سے باہر مت نکلنا بیہ ۔۔۔لیپرڈ نے الماری سے اپنی گن نکالتے انابیہ کو اُسکے نیک نیم سے پُکارا۔۔۔۔
کتنے عرصے بعد اپنا یہ نام اُس نے اس ظالم کے منہ سے سنا تھا۔۔۔
کس نے حملہ کیا ہے۔۔۔انابیہ نے بیڈ سے اٹھتے پوچھا۔۔۔
ائی ایس آئی کا۔۔۔۔لیپرڈ کے کہنے پر انابیہ کا دل خوف سے دھڑکا باہر سے اتی گولیوں کی آوازیں لمحہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔
تمہیں کیسے پتہ ۔۔۔انابیہ نے کانپتی آواز میں پوچھا۔۔۔
ابھی ان سب باتوں کا وقت نہیں ہے تم اس کمرے سے نہیں نکلو گی بیہ۔۔۔لیپرڈ نے اُسکے پاس اتے آنکھوں میں سختی لیے اُس سے کہا۔۔۔۔
اور اُسکا جواب سنے بغیر کمرے سے باہر نکلا۔۔۔۔
پیچھے انابیہ نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا جو انجانے خوف سے دھڑک رہا تھا۔۔۔
💗💗💗💗
خضر شجیہ کا ہاتھ پکڑے لاؤنچ میں ایا تھا جب پیچھے سے گونجتی آواز پر رکا۔۔۔شجیہ نے خضر کے کندھے پر گرفت مضبوط کی۔۔۔
کہاں بھاگ رہے ہو خضر شجاعت چوہدری ۔۔۔مجھ سے ملو گے نہیں۔۔۔لیپرڈ نے خضر کی پشت کو تکتے ہوئے کہا۔۔۔
تم سے آرام سے ملنے کا بندوبست کر رکھا تھا فلهال تمھاری بہن کو گھر چھوڑنے جا رہا تھا اُسکے بعد تُم سے بھی مل لیتا۔۔۔خضر نے شجیہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھامتے پلٹ کر طنزیہ کہا۔۔۔۔
اتنی بھی کیا جلدی ہے ۔۔۔۔حیران تو ضرور ہوگئے ہوگے کہ لیپرڈ کو کیسے پتہ چلا تمہارے بارے میں وہ کیا ہے نہ لیپرڈ ایک ہاتھ آگے رہتا ہے ۔۔لیپرڈ نے گن کی نوک سے اپنی آبرو رب کرتے ہوئے سر جھٹکتے کہا۔۔۔
خضر نے جبڑے بھینچ کر اُسکی طرف دیکھا شجیہ بس خاموشی سے لیپرڈ کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
میں وہی بولو اتنا شارپ بزنس مین اتنے بڑے گھر میں بغیر کسی گارڈ اور سیکیورٹی کے اکیلا کیسے بیٹھ کر اپنی موت کا انتظار کر سکتا ہے۔۔۔۔لیپرڈ کی کالی آنکھیں اس وقت لال ہو رہی تھی۔۔۔۔اُسکے لہجے میں سختی تھی۔۔۔
پھر میرے دماغ نے کام کیا اور میں نے وہ کیا جس سے تم مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اچھا ہوا تُم بھی اگئے ۔۔۔دونوں دوستوں کو ساتھ دکھا دیتا ہوں ۔۔۔۔کامل کے انے پر لیپرڈ نے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا ۔۔
کامل نے خضر کی طرف دیکھا۔۔۔کیا کچھ تھا جو اُن سے مس ہوگیا تھا۔۔۔
جون کے ساتھ دو انجان چہروں کو دیکھتے میں پہلی نظر میں سمجھ گیا تھا کہ یہ بہروپیے ہے تم دونوں کیا سمجھتے ہو میرے وؤد ہاؤس سے آسانی سے جب دل چاہے گا جاؤ گے اؤگے اور مجھے پتہ نہیں چلے گا تو یہ تمھاری غلط فہمی ہے۔۔۔یہاں پر ارتے ایک پرندے کی خبر بھی لیپرڈ کو ہو جاتی ہے۔۔۔شک یقین میں تب بدلہ جب اپنی ڈرنک میں نشہ اور گولیاں محسوس کی ۔۔۔اور تب ہی تمھاری اس معصوم سی بیوی کو اٹھا لایا ۔۔۔کہ اگر میری بازی مجھ پر پلٹ جائے تو میرے پاس کوئی نہ کوئی راستہ بچے جس سے وار کیا جاسکے۔۔۔تم دونوں ائی ایس ائی اجنٹ ہو یہ بات تو تب ہی پتہ چل گئی تھی جب میرے آدمیوں نے تم دونوں کا پیچھا کیا تھا جوں کو اپنی بیس میں لے جاتے۔۔۔لیپرڈ کی بات سنتے خضر اور کامل نے اپنے جبڑے بھینچے تھے جبکہ شجیہ کو گھبراہٹ ہو رہی تھی اُسے لگ رہا تھا سب ختم ہونے والا ہے ۔۔۔
کمرے کا دروازہ کھلتے اور وہاں پر موجود فلک کو دیکھتے وہ تینوں حیران ہوئے۔۔۔کامل خان کو لگا اُسکی سانس رک گئی ہو سامنے ہی فلک جس کے ہاتھوں کو رسی سے باندھا گیا تھا منہ پر ٹیپ لگا کر اُسکی آواز بند کی گئی تھی ۔۔۔۔بکھرے بال اور روتا وجود۔۔۔۔اور اُسکے سر پر تنی بندوق دیکھتے کامل کو اپنے وجود سے جان نکلتی محسوس ہوئی۔۔۔۔
سبز آنکھیں فوراً سے لال ہوئی۔۔۔نسیں اشتعال سے پھولی۔۔۔
اُسے چھوڑو لیپرڈ۔۔۔کامل بولا نہیں ڈھاڑا تھا ۔۔۔خضر نے اپنی بھوری آنکھیں مينچی ۔۔۔۔۔
کیا تڑپ ہے لگتا ہے بہت محبت کرتے ہو۔۔۔لیپرڈ نے فلک کے پاس اتے اُسکے بال پکڑتے کامل سے کہا۔۔۔
اُسے ہاتھ مت لگانا تمہارے ہاتھ کاٹ کر پھینک دونگا میں۔۔۔کامل اپنی جگہ سے آگے بڑھتا چلایا جب لیپرڈ نے اُسکے پیروں کے پاس فائر کیا۔۔۔۔
ایک قدم اگے نہیں بڑھانا ۔۔۔۔شجیہ کو دو مجھے اور یہاں سے جانے دو اور بدلے میں بچا لو اپنی بیوی اور دوست کی زندگی۔۔۔لیپرڈ کے کہنے پر شجیہ نے نیلی نم انکھوں سے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا جو خضر کے ہاتھ میں محفوظ تھا اُس نے ایک نظر فلک کی طرف دیکھا جو نم انکھوں سے اُسکا ارادہ سمجھتے نفی میں سر ہلا رہی تھی۔۔۔اور پھر کامل کی طرف جو آنکھوں میں بےبسی لیے فلک کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
دھیمے سے اپنا ہاتھ خضر کے ہاتھ سے نکالتی وہ خضر کو پتھر کا کر گئی تھی۔۔۔۔
لب خاموش تھے آنکھیں بہہ رہی تھی۔۔۔۔
خضر نے نفی میں سر ہلا کر شجیہ کا ہاتھ پکڑنا چاہا جب شجیہ نے نفی میں سر ہلاتے اپنا ہاتھ پیچھے کیا ۔۔۔۔
مجھے جانے دے خضر بس یہ بات یاد رکھیے گا شجیہ آپکی تھی آپکی ہے اور آپکی ہی رہے گی۔۔۔میں موت کو گلے لگا لونگی لیکن آپکا نام آپکی زوجیت سے کبھی خود کو الگ نہیں کرونگی ۔۔دھیمی آواز میں کہتی وہ خضر کو پریشان کر گئی ۔۔۔۔
شجیہ میں قسم کھاتا ہوں میں سب کچھ تحس نہس کردونگا اگر تم نے اپنا ایک قدم بھی اگے بڑھایا پاگل پن مت کرو واپس اؤ میرے پاس۔۔۔خضر نے شجیہ کا بازو پکڑنے کی کوشش کرتے سخت آواز میں کہا۔۔۔
نہیں ۔۔ہمارا ساتھ شاید یہی تک تھا۔۔۔فلک ماں بننے والی ہے اُسکے بچے کا سوال ہے۔۔۔میں اُسکی زندگی اُسکے بچے کی زندگی خطرے میں نہیں ڈال سکتی دو میاں بیوی کے درمیان جدائی کا باعث نہیں بن سکتی ایک باپ کو اُس کے بچے سے جدا نہیں کر سکتی خضر۔۔۔۔اٹکتی آواز میں کہتی وہ خضر کے دل کے سو ٹکڑے کر گئی تھی ۔۔۔کیا اُسے اس پر یقین نہیں تھا ۔۔کیا شجیہ کے لیے خضر کی محبت کوئی معنی نہیں رکھتی تھی جو وہ اُسے جُدائی اور ہجر کی اس آگ میں جھونک رہی تھی۔۔۔
اور میں۔۔۔میرا کیا۔۔۔جانتی ہو مر جاؤنگا تم سے دوری پر۔۔۔کیا مجھ پر اتنا یقین نہیں کہ میں تمہیں اور سب کو یہاں سے صحیح سلامت واپس لے کر جاؤنگا۔۔۔خضر نے تھوک نگلتے کہا آواز گلے میں اٹکتی محسوس ہوئی۔۔۔ایسا لگا پورا گلا خشک ہوگیا ہو۔۔۔
یقین ہے۔۔آپ پر۔۔لیکن میں فلک کے لیے کوئی رسک نہیں لے سکتی۔۔۔۔خضر پلیز۔۔۔۔دیکھے کامل بھائی کو اُنکی آنکھوں میں فلک اور اپنے بچے کے لیے کیسی تڑپ ہے ۔۔۔اگر میری قربانی سے وہ دونوں مل سکتے ہیں تو میں قربان ہونے کو تیار ہو۔۔۔شجیہ نے دوپٹہ اپنی مٹھیوں میں جکڑے ایک نظر کامل کو دیکھتے خضر سے کہا۔۔۔
اور میری آنکھوں میں جو تڑپ تمہارے لیے ہے وہ ۔۔۔وہ تمہیں نظر نہیں آرہی ۔۔۔خضر نے ضبط کے ساتھ سوال کیا بھوری انکھوں میں سرخی کی تہہ جم چکی تھی دل سے خون رس رہا تھا۔۔۔۔
شجیہ نے کوئی بھی جواب دیۓ بنا اپنے قدم اگے بڑھائے اور خضر شجاعت چوہدری کی آنکھ سے ایک آنسو نکلتا داڑھی میں جذب ہوا۔۔۔۔
لیپرڈ کا دیہان سارا شجیہ کی طرف تھا ۔۔۔۔انابیہ جو نم نگاہوں سے اپنے کمرے کے باہر کھڑی یہ دیکھ رہی تھی اُس نے کامل کی طرف دیکھا اور پھر اُسکے ہاتھ میں موجود گن کو ۔۔۔۔
یہ ایک ہی ذریعہ تھا جس سے لیپرڈ پیچھے ہت سکتا تھا اُس نے شجیہ کی طرف دیکھا جو اپنے قدم لیپرڈ کی طرف بڑھا رہی تھی۔۔۔
تیزی سے آگے بڑھتے اُس نے کامل کہ آگے اتے اُسکا ہاتھ گن سمیت اٹھا کر اپنے سر پر تانا اور کامل کو آنکھوں سے اشارہ کیا۔۔۔۔کامل نے فوراً سے اُسکا اشارہ سمجھتے اُسے بازو سے تھاما۔۔اور گن اُسکے ماتھے پر رکھی۔۔۔
رک جائے بھابھی ۔۔۔اگر اپنی بیوی کی زندگی چاہتے ہو تو ایسی وقت فلک کو کھولو اور اپنی گن نیچے کرو۔۔۔کامل نے تیزی سے شجیہ سے کہا اور پھر لیپرڈ سے مخاطب ہوا۔۔۔
خضر نے تیزی سے آگے بڑھتے شجیہ کا ہاتھ تھام کر اُسے اپنی طرف کھینچا جو اُسکے سینے سے ٹکرائیں۔۔۔۔شجیہ کے پیٹ پر اپنا ہاتھ رکھتے خضر نے اُسکی پشت کو شدت سے اپنے سینے میں بھینچا تھا۔۔۔۔
کامل کی گرفت میں انابیہ کو دیکھتے لیپرڈ کا ہاتھ جس سے اُس نے فلک کے بال دبوچے تھے ڈھیلا پڑتے اُسکا پہلو میں گرا تھا۔۔۔۔
آنکھیں ساکت ہوئے اور لب خاموش ۔۔۔۔۔دل کو دھرکن پل کے لیے رکی۔۔۔۔
میں ۔۔میں جانتی ہو میرا وجود تمہارے لیے عزرہ ہے پر ۔۔۔اگر تمہارے لیے تمہارا وارث تمہارے وجود کا حصہ کچھ معنی رکھتا ہے تو پلیز چھوڑ دو اسکو خود کو حوالے کردو قانون کے ۔۔۔ انابیہ نے بہتی آنکھوں سے لیپرڈ کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
اور لیپرڈ کا وجود تھما پتھر کا ہوا۔۔۔کیا وہ باپ بننے والا تھا یہ بات اُسے معلوم ہوئی بھی تو کب جب وہ اس دوراہے پر کھڑا تھا جہاں اُسے شکست بلکل قبول نہیں تھی۔۔۔۔
لیپرڈ نے انابیہ کی آنکھوں میں دیکھا جہاں ایک اذیت رقم تھی پورے حال میں خاموشی تھی سب خاموشی سے لیپرڈ اور انابیہ کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔
انابیہ کی آنکھوں میں ایک اُمید سی تھی مہم سی کہ وہ شاید پیچھے ہت جائے۔۔۔
لیپرڈ نے اس پاس کھڑے اپنے گارڈز کو گن نیچے کرنے کہ اشارہ کیا۔۔۔فلک کے ہاتھ کھولتے اُسے اس نے کامل کی طرف کیا اور خود بھی اپنی گن اپنے پیروں کے پاس رکھی۔۔۔
انابیہ مسکرا دی اُسے اُمید تھی اور لیپرڈ اُسکی اُمید پر پورا اترا تھا۔۔۔۔
کامل نے جلدی سے انابیہ سے دور ہوتے فلک کو تھاما تھا۔۔اُسکے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامتے وُہ اُسکے آنسو صاف کرتا وہ اُسکے صحیح ہونے کی تصدیق کر رہا تھا۔۔۔۔۔ ۔۔۔
تم ٹھیک ہو میری جان ۔۔۔کامل نے دھیرے سے اُس کے منہ سے ٹیپ ہٹا کر اُسکے گال پر اپنا ہاتھ پھیرتے پیار سے پوچھا۔۔۔
فلک نے روتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا تھا اور جھٹکے سے کامل کے سینے کا حصہ بنی۔۔۔۔۔کامل نے شدت سے اُسے خود میں بھینچا ۔۔
وہاں پر موجود لیپرڈ کے گارڈز کو خضر کی ٹیم نے اریست کر لیا تھا۔۔۔۔
لیپرڈ نے ایک نظر خضر کو دیکھا جو شجیہ کا رخ اپنی طرف کیے اُس سے کچھ کہہ رہا تھا۔۔۔
ایک انا کا پہاڑ تھا جسے وہ توڑنا نہیں چاہتا تھا بدلہ حرص حسد۔۔۔اُس نے ایک جھٹکے سے جھکتے اپنے پیروں میں گری گن اٹھائی ۔۔۔۔
انابیہ جو اُسکی طرف بڑھ رہی تھی لیپرڈ کو گن اٹھا کر خضر کی طرف رخ کرتے دیکھ وہ تھمی ۔۔۔۔
اپنے قدم تیزی سے خضر کی طرف بڑھائے۔۔۔۔
خضر اور شجیہ کے قریب اتے اُن دونوں کو ایک طرف کو دھکا دیا اور خود سامنے ائی۔۔۔
لیپرڈ کی گن سے نکلتی گولیاں جو وہ خضر کے وجود میں پیوست کرنا چاہا رہا تھا وہ دیکھتے دیکھتے انابیہ کے وجود میں پیوست ہوئی۔۔۔۔۔
دو محبت کرنے والوں کو بچاتے اُس نے اپنے آپکو قربان کیا تھا ۔۔۔
انابیہ۔۔لیپرڈ چیخا تھا۔۔۔گن سائڈ میں پھینکتے وہ انابیہ کے گرتے وجود تک پہنچا۔۔۔۔
خضر اور شجیہ زمین پر گرے انابیہ کے وجود کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔
بیہ۔۔۔بیہ ۔۔گھٹنوں کے بل جھکتے اُس نے انابیہ کا سر اپنی گود میں رکھا تھا۔۔۔کالی پتھر جیسی آنکھوں میں نمی بھری تھی۔۔۔۔
محبت۔۔۔نہ ۔۔محبت چھوٹا لفظ ہے عشق تھی وہ اُسکا۔۔۔جو اُسے اب سمجھ ایا تھا جب وہ اُسکے سامنے اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔۔لیکن کیا اب اس عشق کی ضرورت تھی یہ اسکا کوئی فائدہ تھا ۔۔۔نہیں بلکل نہیں۔۔۔اب یہ عشق کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔۔۔
بیہ ۔۔پلیز اپنی آنکھیں بند مت کرنا ۔۔میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دونگا ہمارا بچا ۔۔بیہ۔۔۔۔انابیہ کی بند ہوتی آنکھوں کو دیکھتے لیپرڈ نے روتے ہوئے یہ الفاظ کہے ۔۔۔۔
انابیہ کے حسین چہرے پر مسکراہٹ ائی۔۔۔
اُس نے اپنا ہاتھ بری ہمت سے اٹھاتے لیپرڈ کی ان بہتی آنکھوں کو چھوا جن میں اج اس پل اسکے لیے محبت نظر آرہی تھی۔۔۔
ان۔۔ان کا ۔۔کالی ۔۔آنکھوں میں ساری زندگی۔۔۔۔آپ۔ ۔اپنے لیے محبت دیکھنے کی تمنا کی ۔۔۔تھی ۔۔۔اور وہ کب دکھائی دی۔۔۔جب میری سانسیں مجھے دغا دے رہی ہے۔۔ انابیہ کی کالی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ہونٹوں پر مسکراہٹ جبکہ لفظوں میں اذیت تھی۔۔۔۔
لیپرڈ نے ایک سسکی بھری۔۔۔۔اُسکی بات۔پر۔۔۔۔
پلیز میں جانتا ہو میں بہت برا ہوں تمہیں بہت ٹکیلف دی ہے۔۔میں کسی اور سے محبت نہیں کرتا تم سے کرتا ہوں پلیز ایک موقعہ تو خدا بھی اپنے بندوں کو دیتا ہے ۔۔۔مجھے بھی ایک موقعہ دو یو چھوڑ کر مت جاؤ۔۔۔لیپرڈ ۔۔۔نہ اب اس ہارے ہوئے شخص کو لیپرڈ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس میں اب وہ غرور وہ آکر وہ انا نہیں تھی۔۔۔اب تو اُسکے ہمیشہ تنے رہنے والے کندھے جھکے ہوئے تھے۔۔۔
وہ مغرور کالی آنکھیں جن میں غرور ہوتا تھا دوسروں کے لئے حقارت اور سامنے لیتی آخری سانسیں بھرتی لڑکی کے لیے نفرت۔۔۔اج ان میں آنسو تھے محبت تھی اور وہ بھی اسی لڑکی کے لیے جس سے وہ نفرت کا پرچار کرتا تھا۔۔۔۔۔
وہ ایک موقعہ اُس سے مانگ رہا تھا۔۔۔جو اپنی زندگی کی آخری سانسیں بھر رہی تھی۔۔زندگی ہر کسی پر رحم نہیں کھاتی ہر کسی کو موقعہ نہیں ملتا۔۔۔۔
بہت۔۔دیر کردی مہربان یہ کہتے ۔۔کہتے۔۔۔انابیہ نے بس ا۔۔۔آپ سے۔۔مو۔۔محبت کی ہے۔۔۔اب تھوڑا سکون سے مر سکونگی یہ الفاظ جو تمہارے لبوں سے سن لیے۔۔۔انابیہ نے لیپرڈ کے گال پر اپنا خون میں رنگا ہاتھ رکھتے ہوئے ہچکی بھرتے کہا۔۔۔
دو پیار کرنے والوں کو جدا نہیں کرتے۔۔۔اب کہیں بھی دو پیار کرنے والے دیکھو تو اُن کو ملانے کی کوشش کرنا جدا کرنے کی نہیں۔۔۔تم جب جب یہ کروگے تب تب تُم اپنے پاس مجھے محسوس کروگے۔۔۔انابیہ نے کہتے ایک آخری ہچکی بھری ۔۔۔اپنی آنکھوں میں اپنے ظالم ہمسفر کا عکس سجائے وہ اپنی وہ دلکش کالی آنکھیں بند کر گئی تھی جس میں محبت سموئے وہ اپنے حسام کو دیکھا کرتی تھی۔۔۔۔
بیہ۔۔انابیہ کا چہرہ اپنے سینے میں۔بھینچے وہ پوری شدت سے چلایا ۔۔۔۔۔۔
پلیز نہیں۔۔۔یہ خدا۔۔۔۔نہیں۔۔۔بیہ۔۔ہے ربط جملے کہتا وہ شدت سے رو دیا تھا۔۔۔۔
محبت کے بدلے محبت ہر کسی کو نہیں ملتی اور نہ ہی زندگی ہر کسی کو موقعہ دیتی ہے۔۔۔یہ محبت تب ہی کیوں محسوس ہوتی ہے جب وہ انسان آپ سے دور چلا جاتا ہے۔۔۔جو آپکے پاس رہتے آپ سے آپکی محبت بھیگ کی طرح مانگتا ہے جبکہ آپکی محبت پر اُسکا حق ہوتا ہے۔۔۔۔
بہتر یہی ہے جب کوئی پورے دل سے اپنی آنکھوں میں آپکے لیے بےانتہا محبت لے کر اپنی جھولی پھیلائے آپکے در پر آپکی محبت مانگنے آئے تو اُسکی جھولی کو اپنی محبت سے بھر دو اُسے یہ احساس کرواؤ کہ ہاں اُس نے آپ سے محبت کرکے کوئی غلطی نہیں کی۔۔۔۔اُس نے اگر آپ سے محبت کی ہے تو بدلے میں آپ نے اُسے دھتکارا نہیں بلکہ اُسکی زندگی بھی اپنی محبت سے بھر دی ۔۔۔
یہ انا یہ غرور کسی کام کا نہیں سب کچھ فانی ہے جتنی زندگی ہے اُسے محبت کے ساتھ گزارے آپس کی رنجشوں کو بھلا کر محبت کا جواب محبت سے دے کر۔۔۔
آج وہ تہہ دامن رہ گیا تھا اُسکی باہوں میں ایک بےجان وجود پڑا تھا جو اُسکی ایک پیار بھری نظر ایک پیار بھرے جملے کے لیے ترستا تھا۔۔۔جسکو اُس نے اپنی انا اپنے بدلے میں جھونک دیا تھا۔۔۔
اس کہانی میں انابیہ نے اپنے آپ کی قربانی دیتے شجیہ کی محبت کو بچایا تھا۔۔۔اس کہانی میں اگر کوئی قربان ہوا تھا تو وہ انابیہ تھی جس نے کسی کی محبت کو بچانے کے لیے خود کو قربان کیا تھا۔۔۔
اپنے بچے کو قربان کیا تھا جو ابھی اس دنیا میں ایا ہی نہ تھا۔۔
ہر ایک کی آنکھیں نم تھی سامنے انابیہ کے خون میں لت پت بےجان وجود کو دیکھتے اور حسام کو روتا دیکھتے۔۔۔۔شجیہ خضر کے سینے سے لگی اُس پر اپنی گرفت سخت کر گئی تھی۔۔۔کامل نے فلک کو مزید خود میں بھینچا تھا۔۔۔۔
خضر کے اشارہ کرنے پر دو گارڈز آگے بڑھے تھے۔۔۔۔
لیپرڈ کو بازو سے پکڑتے اُنہوں نے انابیہ سے دور کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔
لیپرڈ کی بہتی آنکھوں سے نکلتا سمندر تھما۔۔۔۔اُس نے خود سے دور ہوتے انابیہ کے چہرے کو دیکھا اور پھر اپنے ہاتھوں کو اُس نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی دنیا ختم کی تھی اپنی محبت کی جان لی تھی۔۔۔۔
دھیرے دھیرے وہ اُس سے دور ہوتا جا رہا تھا۔۔۔اور لیپرڈ کا وجود ڈھیلا پڑتا جا رہا تھا۔۔۔
“داستان ہے یہ کہ اُس معصوم حسینہ نے جیسے چاہا وہ تھا اندر سے ہرجائی” ۔۔۔🥺
“سنگ دل سے دل لگا کے بیوفا کے ہاتھ آکر اُس نے ایک دن موت ہی پائی”۔ ۔😭
انابیہ اور لیپرڈ کی کہانی کا یہ اختتام تھا لیکن بیہ اور حسام کی کہانی کی شروعات ہوئی تھی۔ ۔۔
💗💗💗
بات ہوئی تمھاری خضر سے۔۔۔فلک نے بیڈ پر لیتے ہوئے شجیہ سے پوچھا جو الماری سے کپڑے نکال رہی تھی فلک کی بات پر پلٹی ۔۔۔
آنسوؤں کا گولا گلے میں اٹکا۔۔۔
نہیں۔۔۔وہ مجھ سے بہت زیادہ ناراض ہے فلک۔۔۔دو دن ہوگئے جب سے یہاں چھوڑ کر گئے ہے ایک بھی بار مجھ سے بات نہیں کی۔۔۔۔گھر تک نہیں آئے وہ۔۔۔شجیہ نے فلک کے پاس بیٹھتے نم آواز میں کہا ۔۔۔۔
بیوقوف شوہر ناراض ہے تو مناؤ نہ اُس کو۔۔۔فلک نے اپنا ماتھا پیٹتے نفی میں سر ہلاتے کہا۔۔۔
پر وہ گھر تو ائے۔۔۔شجیہ نے چرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اسلام علیکم بھابھی۔۔۔۔فلک شجیہ کو جواب دینے لگی تھی جب دروازے پر کھڑے کامل کی آواز سنتے وہ چپ ہوئی۔۔۔۔
وعلیکم اسلام بھائی ۔۔۔شجیہ نے بیڈ سے کھڑے ہوتے کامل کے پیچھے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
وہ نہیں ایا بھابھی۔۔۔۔شجیہ کو بیقراری سے پیچھے خضر کو تلاش کرتے دیکھتے کامل نے بتایا۔۔۔۔
شجیہ کا اُداس چہرہ مزید اُداس ہوا۔۔۔وہ اثبات میں سر ہلاتی کمرے سے باہر نکلی۔۔۔۔
کامل نے شجیہ کے جاتے کمرے کا دروازہ بند کیا پلٹ کر اپنی بیوی کو دیکھا جو ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ لیے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
اپنے پیروں سے جوتے اُتارتے کامل اُسکے انتہائی نزدیک بیڈ پر اوندھے منہ لیٹتے اُسکے پیٹ پر اپنا سر رکھ گیا۔۔۔۔۔
فلک نے کامل کے بالوں پر اپنی اُنگلیاں چلائی۔۔۔
تھک گئے ہے۔۔۔فلک کے پوچھنے پر کامل نے ویسے ہی نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
کامل۔۔۔اماں سے کب بات کرے گے ۔۔۔اپنے پیٹ پر کامل کے لبوں کا لمس محسوس کرتے فلک نے پوچھا۔۔۔۔
کامل نے اٹھتے فلک کے پاس اتے اسے اپنے سینے سے لگایا تھا۔۔۔
بہت جلد۔۔۔کامل نے اُسکے بالوں سے اٹھتی مسحور کن خوشبو اپنے وجود میں بھرتے کہا۔۔۔
کب کامل میری صحت دیکھے میں حویلی جانے سے ڈر گئی ہو اب۔۔۔میں کیا جواب دونگی میری سمجھ سے سب باہر ہے۔۔۔فلک نے چڑچڑے پن سے کہا۔۔
آجکل ویسے ہی اُسکے موڈ بدلتے رہتے تھے۔۔۔۔
کامل نے اُسکی بات پر فلک کو دیکھا جس کے گال بھر اے تھے ہاتھ اور پاؤں بھی پھول رہے تھے اُسکے وجود میں ہوتی تبدیلیاں اب نظر انے لگی تھی۔۔۔۔
آپ غصّہ کیوں کر رہی ہے۔۔۔غصّہ آپکی صحت کے لیے بلکل اچھا نہیں ہے۔۔۔میں بات کر لونگا حویلی میں آپ ٹینشن نہ لے ۔۔کامل نے واپس اُسکا بازو پکڑتے اُسے اپنے سینے پر لٹاتے پیار سے کہا۔۔۔
فلک نے اُسکی شرٹ پر لگے بٹن کو اپنی انگلیوں میں لیے کھینچا اور کامل نفی میں سر ہلا گیا۔۔۔
کامل نے اسکو مزید خود میں بھینچے اپنی آنکھیں بند کی۔۔۔وہ بہت تھک گیا تھا لیپرڈ کی گرفتاری اور پھر اور کام ۔۔۔۔سکون تو یہاں تھا اُسکا ۔۔۔فلک کے پاس۔۔۔
ابھی اُسے آنکھیں بند کئے کچھ دیر ہی ہوئی تھی جب فلک کی آواز گونجی۔۔۔
کامل۔۔فلک نے اُسکے سینے پر سر رکھے ہی اُسے آواز دی۔۔۔
ہمم۔۔۔کامل نے نیند میں جواب دیا۔۔۔
مجھے ہنسنا ہے۔ مجھے ہنسائے آپ۔۔۔فلک نے منہ بناتے کہا ۔۔۔
کامل نے ایک لمبی سانس لی اپنی بیوی کی اس فرمائش پر۔۔۔۔
میری جان کوئی کامیڈی فلم دیکھ لو۔۔۔کامل نے ویسے ہی آنکھیں بند کیے جواب دیا۔۔ ۔
نہیں مجھے آپ ہنسائے گے اٹھے نہ آپ مجھے اگنور کر رہے ہیں۔۔۔فلک نے اُسکے سینے سے اپنا سر اٹھاتے اُسکے سوتے چہرے کی طرف دیکھتے کہا ۔۔
کامل نے بمشکل اپنی آنکھیں کھول کر اپنی ضدی بیوی کو دیکھا۔۔۔
اور اٹھ بیٹھا۔۔۔۔
کیسے ہنساؤ۔۔۔کامل نے اُسکے پاس بیٹھتے پوچھا۔۔۔
وہ آپکو پتہ ۔۔فلک کے لٹھ مارنے والے انداز میں کہا ۔۔۔۔
کامل کو سمجھ نہ ایا کیا کرے۔۔۔اپنے ہاتھوں کو اپنے ماتھے تک لے جاتے اپنی اُنگلیاں ہلاتے اُس نے اپنی زبان باہر نکالی تھی۔۔۔
فلک نے سنجیدہ چہرے سے اُسکی طرف دیکھا۔۔۔
یہ کیا ہے کامل آپ مجھے منہ چڑا رہے ہیں۔ ۔۔۔فلک نے اپنی آنکھیں چھوٹی کیے اُس سے پوچھا۔۔۔
نہیں تو یہ تو فنی فیس بنا رہا ہو۔۔۔۔۔۔۔کامل نے سیدھا ہوتے بتایا۔۔۔۔
ہی ہی ہی ۔۔۔مجھے تو بہت ہنسی ائی آپکا یہ فنی فیس دیکھتے یہ فنی فیس نہیں ہے اسے منہ چڑانا۔ بولتے ہیں اور آپ نے کہاں سے سیکھا یہ۔۔۔۔۔فلک نے ہنسنے کی ایکٹنگ کرتے غصے سے کہا۔۔۔
یہ جب میں آرہا تھا تب ایک بچا اپنی گاڑی کے شیشے سے باہر نکلتے ایسے کر رہا تھا تو مجھے ہنسی ائی مجھے لگا آپ بھی ہنسے گی لیکن خیر مجھے تو ایسے ہی ہنسانا اتا ہے اب آپکو ہنسی نہیں آرہی یہ میرا قصور تو نہیں میں چلا سونے۔۔۔آجائے۔۔۔۔کامل نے کندھے اچکا کر کہا اور فلک کا بازو لیے واپس بیڈ پر لیٹنے لگا۔۔۔
جب فلک نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر روکا۔۔۔
کامل اُس بچے نے آپکو منہ چڑایا تھا اور آپکو ہنسی آرہی تھی۔۔۔فلک نے دونوں ہاتھ اپنے پہلو پر رکھتے پوچھا۔۔۔
ہاں ۔۔کامل نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔فلک نے نفی میں سر ہلایا تھا جیسے بہت افسوس کی بات ہو۔۔۔
آپکو ہنسانا نہیں آتا پر مجھے ہنسنا ہے اب آپ میرے ساتھ مسٹر بین دیکھے۔اور ہنسے ۔۔فلک نے کہتے ساتھ سائڈ ٹیبل سے ریموٹ اٹھاتے ٹیوی آن کیا۔۔۔۔
اور کامل کے کندھے پر سر رکھے ٹیوی دیکھنے لگی۔۔۔۔کامل خان نے اپنی چھوٹی سی بیوی کو دیکھا جو چھوٹے سے چھوٹے فنی سین میں بھی زور دار قہقہہ لگا رہی تھی کامل مسکرا گیا۔۔۔اور اُسکے سر پر اپنے لب رکھے ۔۔۔۔ خود بھی ٹیوی کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔
اپنی تھوڑی دیر پہلے اپنی کی گئی حرکت یاد ائی۔۔۔
ائی ایس ائی کا بہترین آفسیر اپنی بیوی کو ہنسانے کے لیے فنی فیس بنا رہا تھا کتنا مضحکہ خیز تھا۔۔۔۔
💗💗💗💗
شجیہ اپنے کمرے میں اتے بیڈ پر اوندھے منہ گرتی رو دی تھی۔۔۔۔
خضر اُس سے اُس بات پر ناراض تھا جو موقعہ کی نزاکت کی وجہ سے اُس نے کی تھی۔۔۔۔۔
غصے سے اپنے بیڈ سے وہ اُٹھی تھی۔۔۔۔۔
بیڈ پر پڑا اپنا موبائل اٹھاتے اُس نے خضر کو فون ملایا۔۔۔۔لیکن دوسری طرف سے فون نہ اٹھانے پر اُس نے غصے سے وائس میل کیا ۔۔۔
اگر شام تک آپ گھر نہیں آئے خضر شجاعت چوہدری تو پھر شجیہ شجاعت چوہدری کو مردہ پائے گئے۔۔۔۔۔غصے بھری آواز میں کہتے اُس نے اپنا موبائل بند کیا ۔۔۔۔
اور سکون سے شاور لینے واشروم کی طرف بڑھ گئی تھی یقین جو تھا کہ اب وہ ہر صورت گھر ائے گا چاہے کچھ بھی ہوجائے۔۔۔۔۔
💗💗💗💗
خضر اپنے آفس میں بیٹھا فائل ریڈ کر رہا تھا۔۔۔جب شجیہ کی کال موبائل پر ائی۔۔۔
خضر نے کال اٹھانے کے لیے ہاتھ اگے بڑھایا جب اُسے اپنی ناراضگی یاد ائی۔۔۔وہ شجیہ سے ناراض تھا کس طرح وہ اُسکے حصار سے نکل کر چلی گئی تھی۔۔۔۔۔اُس نے ایک مرتبہ بھی اُسکے بارے میں نہیں سوچا تھا اور یہی بات خضر کے دل میں چب گئی تھی۔۔۔۔۔
کچھ پل بعد کال۔بند ہوئی اور شجیہ کا وائس میل ریسیو ہوا۔۔۔خضر نے فوراً سے موبائل اٹھا کر اُس کا وائس میل سنا۔۔۔اور سنتے ہی اُسکے آبرو تنی۔۔۔اپنے جبڑے بھینچے وہ اپنی کرسی سے اٹھا تھا۔۔۔
بیگم آپ اب سزا کے لیے تیار ہو جائے۔۔۔۔۔بھوکے شیر کو اپ نے خود جگایا ہے۔۔۔خضر موبائل اپنی جیب میں رکھتے تصور میں شجیہ سے مخاطب ہوا اور آفس سے نکلتا چکا گیا ۔۔۔۔۔
دو دن پہلے وہ شجیہ اور فلک کو خضر پلیس لے ایا تھا اور اُنہیں چھوڑتے وہ اپنے افس آگیا تھا دو دن سے وہ گھر نہیں گیا تھا اور وجہ یہ تھی کہ وہ ناراض تھا اپنی بیگم سے۔۔۔۔
لیپرڈ کو حراست میں لے لیا گیا تھا اور انابیہ کا جنازہ بھی پڑھوا لیا گیا تھا۔۔۔۔
💗💗💗
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial