قسط: 2
صبح کامل کی آنکھ کھلی تو نظر اپنے سینے پر بھکری حالت میں لیتی فلک پر پڑی۔۔۔۔
اُسکے چہرے پر مسکان آگئی ۔۔۔نکاح کا مطلب وہ اچھی طرح سمجھتا تھا۔۔۔اور کل جب وہ اُسکے قریب ایا تھا تب وہ سوچ چکا تھا اب وہ فلک کو نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔ہے شک انکا نکاح ایک ایسی صورتحال میں ہوا تھا جو کافی عجیب تھی لیکن وہ دل سے اس نکاح کو قبول کر چکا تھا اور اُسے یقین تھا میاں بیوی کے پاک رشتے میں محبت اللہ تعالیٰ خود ڈال دیتے ہیں اور کل جس طرح فلک نے اُسے اپنا حق لینے سے روکا نہیں تھا وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ بھی اس رشتے کو دل سے قبول کر چکی ہے۔۔۔۔
کامل کی نظر اُسکی بند ہوتی آنکھوں سے لے کر اُسکے گلابی ہونٹوں پر ارکی۔۔۔تشنگی بڑھ گئی تھی وہاں سے نظر سرک کر اُسکی دودھیا گردن پر پڑی جہاں اُسکی شدتوں کے نشان واضح تھے۔۔۔
جھکتے اپنے لب اپنے دیۓ گئے نشانوں پر رکھے۔۔۔
اپنی گردن پر کل رات کی طرح سلگتا لمس محسوس کر کے فلک کی نظر کامل کے بالوں پر گئی جو اُسکی گردن پر جھکا ہوا تھا۔۔۔۔
شرم و حیا سے چہرہ لال ہوا تھا۔۔۔
کامل۔۔۔فلک نے کامل کے شانے پر اپنا ہاتھ رکھ کر اُسے پُکارا۔۔۔۔
کامل فلک کے پکارنے پر اُس سے دور ہوا ۔۔۔۔نظر فلک کے لال ہوتے چہرے پر پڑی۔۔۔۔۔
صبح بخیر۔۔۔کامل نے اُسکی چھوٹی سی سرخ ناک کو چومتے ہوئے کہا ۔۔۔
اسکے عمل سے فلک کی پلکیں اُسکے سرخ عارض پر جھکی۔۔۔۔
کامل۔۔۔۔وہ جو اُسکے بالوں کی مہک اپنے سانسوں میں بسا رہا تھا اُسکے بولنے پر اُسکی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔اُسکی آنکھوں میں موجود سوال وہ پڑھ چکا تھا پھر بھی پوچھا۔۔۔
آپ مجھے چھوڑ دے گے کیا یہاں سے باہر جاتے ہی ۔۔۔فلک نے اپنا ڈر واضح کیا۔۔۔
فلک اگر مجھے آپکو چھوڑنا ہوتا تو کل آپکی طرف اپنے قدم نہیں بڑھاتا نہ ہی آپ سے اپنا حق وصول کرتا ۔۔۔۔اب آپ میری بیوی ہے میرے وجود کا حصہ اور میں اپنے وجود کے حصہ کو کیسے خود سے جدا کر سکتا ہوں۔۔۔کامل نے نرم لہجے میں اُسکی شہد رنگ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
کامل کی بات پر فلک کی آنکھیں خوشی سے چمکی۔۔۔۔
ابھی آپ مجھے آپ کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں کل کیسے تم کہاں تھا آپ نے۔۔۔۔فلک نے اُسکی گردن کے گرد اپنے بازوں کا حصار بناتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اُسکی بات پر کامل مسکرا گیا۔۔۔اور فلک اسکو دیکھتی رہی ۔۔۔وہ مسکراتا ہوا حسین لگتا تھا۔۔۔۔
تب آپ میری کچھ نہیں لگتی تھی اب آپ میری بیوی ہے میری محبت میری عزت کی حقدار ۔۔۔ایسا نہیں ہے کہ میں عورت کی عزت نہیں کرتا لیکن کبھی ایسی نوبت ہی نہیں ائی کہ کسی کو تم یہ آپ کہہ کر مخاطب کرو۔۔۔کامل نے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔۔
اچھا جی۔۔۔فلک نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر اُسکے دونوں گال پر پڑتے گڑھے کامل بیخود ہوتا اُن گرہوں پر اپنے لب رکھ گیا۔۔۔۔
ہاں جی۔۔۔۔۔کامل نے اُسکے دونوں گال پر اپنے لب پیوست کرتے ہوئے کہا ۔۔
میں نے بھی صرف آپکو آپ بولا ہے کیونکہ مجھ اماں کی ایک بات یاد آگئی تھی کہ شوہر مجازی خدا ہوتا ہے اُسکی ہمیشہ عزت کرنی چاہئے ۔۔۔۔فلک نے کسی دادی اماں کی طرح کہا۔۔۔
اچھا اور کیا سکھایا ہے اماں نے۔۔کامل اُسکے گال پر اپنی ناک ٹریس کرتا ہوا بولا۔۔۔
اور ۔۔۔کچ ۔۔کچھ نہیں ۔۔۔فلک نے ہکلاتے ہوئے کہا۔۔۔
آپکو پتہ ہے میں نے آپکو ایک دو بار کلاس میں دیکھا تھا کسی بات پر ہنستے ہوئے اور تب سے مجھے آپکے یہ گڑھے پسند تھے۔۔۔کامل نے اُسکے دمپلز پر انگلی رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
اور میں نے شاید آپکو ایک دفعہ دیکھا تھا منہ پھولا کر سب سے آخری سیٹ پڑ بیٹھے ہوئے اور تب آپ مجھے بلکل نہیں اچھے لگے تھے۔۔۔فلک نے اُسکی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔
ہاں آپ جیسی حسن پڑی اور امیر لڑکی مجھ غریب سے لڑکے پر کیوں نظر ڈالے گی۔۔۔کامل نے شکوہ کیا تھا۔۔۔۔
میں کسی لڑکے پر نظر نہیں ڈالتی تھی۔۔۔اور بات امیری یہ غریبی کی نہیں ہے۔۔بس آپ ہو میرے ساتھ پھر جیسے بھی رکھے گے میں رہ لونگی۔۔۔۔فلک نے اپنے لب اُسکی تھوڑی پر رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
سوچ لو۔۔۔میرے پاس بڑی گاڑی نہیں ہے گھر ہے لیکن وہ بھی بڑا نہیں ہے ۔۔۔رہ لوگی تم میرے ساتھ۔۔۔۔کامل نے اُسکی حرکت پر مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
بلکل بس آپ ہونے چاہیئے میرے پاس۔۔۔پھر جہاں جیسے رکھے گے رہ لونگی بس شرط یہ ہے میرا شوہر میرے پاس ہو۔۔۔۔۔فلک نے اُسکی آنکھوں میں دیکھتے مضبوطی سے کہا تھا۔۔۔
اتنا پیار ہوگیا مجھ ساولے سے وہ بھی ایک دات میں۔۔۔۔اُسکی باتوں پر سرشار ہوتے اُسکے ماتھے پر اپنے لب رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
محبت کا نہیں پتہ وہ بھی ہو جائے گی کیونکہ اللہ نے ہمیں ایک مضبوط رشتے میں باندھا ہے جس میں محبت خود بہ خود پیدا ہو جاتی ہے۔۔فلک نے اُسکے گال پر اپنے لب رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کامل اسکی بات پر خاموش ہوتا اُسکی گردن پر جھک گیا اور اپنا لمس چھوڑنے لگا جب دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔۔۔
کامل فوراً سے اُس پر سے اٹھا۔۔۔
سردار نے آپ دونوں کے جانے کا انتظام کر دیا ہے باہر آپکا انتظار کر رہے ہیں وہ ۔۔دروازے کے پار سے اتی آواز پر کامل نے فلک کو جلدی سے فریش ہونے کا اشارہ کیا اس چھوٹے سے کمرے میں ایک کونے پر واشروم بھی بنا ہوا تھا۔۔۔۔
فلک نے کامل کی شرٹ پہنی ہوئی تھی وہ فوراً سے واشروم کی طرف بھاگی۔۔۔
فلک کی سپیڈ دیکھ کر کامل کو حیرت ہوئی لیکن جب بات سمجھ میں ائی تو چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔۔۔









فلک باہر نکلی تو رات والے کپڑوں میں ہی تھی۔۔۔وہ اب رات سے زیادہ۔ حسین لگ رہی تھی وجہ شاید یہ تھی کہ اُس پر کامل کی قربت کا رنگ چڑھ گیا تھا۔۔۔۔فلک نے شرٹ کامل کی طرف بڑھائیں جس نے فوراً سے شرٹ پہنی تھی۔۔اور فلک کا ہاتھ تھام لیا تھا۔۔۔۔
کامل آپ فریش تو ہو جائے۔۔۔فلک نے اُسے دروازے کی طرف بڑھتا دیکھ بولا تھا۔۔۔
ابھی پہلے یہاں سے نکلتے ہیں پھر فریش ہو جاؤں گا میں۔۔۔کامل کا لہجے اب بہت سنجیدہ تھا۔۔۔۔
وہ فلک کو لے کر باہر نکلا تو باہر کوئی بھی نہیں تھا کامل اُسے لئے اُس چھوٹے سے گھر سے باہر ایا تو سامنے ہی اُسے جیپ نظر ائی۔۔۔جس کے ساتھ ہی ایک خوش شکل نوجوان کھڑا تھا ۔۔۔۔
فلک منہ دھاپو اپنا۔۔۔۔کامل کی آواز پر فلک نے جوڑے کے ساتھ کا دوپٹہ جو اُسکے گلے میں تھا فوراً سے منہ پر لیا۔۔۔۔۔
آجاؤ آپکو چھوڑ دو۔۔۔اُس نوجوان کے کہنے پر کامل فلک کو لے کر جیپ میں سوار ہوا۔۔۔
کامل۔۔۔فلک کامل کے کان میں بولی وہ بلکل کامل کے بازو سے لگی ہوئی تھی۔۔۔۔
ہم۔۔۔کامل نے فقط ہم کہا ۔۔
آپکو عجیب نہیں لگ رہا جب یہ لوگ ہمیں لے کر آئے تھے تو کتنے سارے تھے اور ابھی گھر میں بھی کوئی نہیں دکھا مجھے اور یہ اکیلا ہمیں لے کر جا رہا ہے اسکی شکل دیکھے یہ تو مجھے پڑھا لکھا تمیز دار بندہ لگتا ہے اُن میں سے نہیں لگ رہا ۔۔۔۔وہ جو فلک کی بات بڑی غور سے سُن رہا تھا اُسکی آخری بات پر اُسکی آبرو تنی ۔۔۔۔۔
آپکی بہتری اسی میں ہے بیگم کہ آپ مجھ پر اپنی نظریں رکھے اسکو مت دیکھے۔۔۔۔باقی جو بھی ہو ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے اُن سے ہم واپس جا رہے ہیں یہی بہت ہے۔۔کامل نے سخت آواز میں کہا۔۔۔
میں نے کب اُس پر نظر رکھی ۔۔۔فلک نے منہ بناتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اُنکی باتوں پر جیپ چلاتے وجود کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں اُنکی جیپ انکے ہوٹل کے سامنے تھی ہوٹل کا پتہ کامل نے بتایا تھا۔۔۔
وہ جیسے ہی وہاں پر اترے۔۔۔سامنے اُن کی یونی کے پروفیسر فوراً سے اُن کی طرف بڑھے۔۔۔
فلک کامل کا بازو چھوڑ چکی تھی۔۔۔۔
کہاں گئے تھے تم دونوں۔۔۔پروفیسر نے پوچھا۔۔۔
جس پر کامل نے اپنے اور فلک کے نکاح کو چھپا کر سب بتا دیا۔۔۔
چلو شُکر ہے آپ دونوں واپس اگئے جائے اپنے اپنے روم میں فریش ہوجائے۔۔۔۔پروفیسر کی بات پر فلک نے ایک نظر کامل پر ڈالی جو ایک کونے میں کھڑا فون پر مصروف تھا اُسکے پاس فون کیسے ایا یہ سوال اُسکے ذہن میں گونجا لیکن نظرانداز کرتی ہوئی۔ اور اپنے روم کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔۔








اچھی طرح سو کر فریش ہوکر وہ اپنے روم سے نکلی تھی تاکہ کامل سے مل سکے۔۔۔۔لیکن اُسے تو اُسکے روم کا ہی نہیں پتہ تھا۔۔۔
ہیلو کامل کے روم کا آپکو پتہ ہے۔۔۔۔فلک نے یونی کے ایک لڑکے سے پوچھا۔۔۔
کامل خان کی بات کر رہی ہے آپ۔۔۔لڑکے نے حیرت سے پوچھا۔۔۔
جی۔۔فلک نے کہا۔۔۔
وہ تو کب کا چلا گیا ہے۔۔لڑکے کی بات پر اُس کے قدم ڈگمگائے آنکھوں میں بے یقینی در ائی۔۔۔۔
کہیں باہر گئے ہے کیا۔۔۔۔اُس نے دل سے دعا کی تھی کہ جواب مثبت ہو۔۔۔
نہیں وہ یہاں سے چلا گیا ہے ۔۔لڑکا بولتا ہوا آگے بڑھ گیا۔۔۔
پیچھے وہ بھاگتی ہوئی ہوٹل ریسیپشن تک گئی تھی۔۔۔
کامل خان نے یہاں چیک آؤٹ کب کیا ہے۔۔۔دھڑکتے دل سے یہ سوال اُس نے پوچھا تھا۔۔۔
میم صبح 10 بجے وہ یہاں سے چلے گئے تھے۔۔۔ریسیپشن پر موجود لڑکی نے رسانیت سے کہا۔۔۔
اُسکی بات پر اُسے لگا وہ سانس نہیں لے پائے گی اُسے تو اُسکا پتہ گھر کچھ نہیں معلوم تھا سوائے نام کے وہ کہا ڈھونڈے گی اُسے ۔۔۔پھر ایک اُمید جاگی کے پروفیسر کو پتہ ہوگا اُسکا ایڈریس یونی کے ڈاکومنٹ میں لکھوایا تو ہوگا۔۔۔۔
وہ بھاگتی ہوئی باہر کی طرف بڑھی تھی جہاں پروفیسر تھے۔۔۔
سر کیا آپ مجھے کامل خان کا ۔۔۔اد۔۔۔ایڈریس بتا سکتے ہے۔۔۔اُسکی آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئی تھی۔۔۔۔
کامل بیٹا اُس کا صحیح ایڈریس مجھے نہیں پتہ پر وہ کشمیر کے کسی گاؤں سے تعلق رکھتا ہے ۔۔۔پروفیسر جو جانتے تھے وہ بتا چکے تھے۔۔۔۔
کیسے ڈھونڈو گی میں کیسے جا سکتے ہیں چھوڑ کر مجھے۔۔۔میرے وجود پر اپنی چھاپ چھوڑ کر وہ مجھے کیسے تنہا کر کے جا سکتے ہیں۔۔۔میں سب کو کیا جواب دونگی۔۔۔ساری باتیں جھوٹی نکلی سب فریب تھا ۔۔۔سب فریب اور میں سچ مان بیٹھی اپنا آپ لٹا بیٹھی۔۔۔۔وہ زبان سے کچھ نہیں بول رہی تھی بس ساکت آنکھوں سے پروفیسر کا چہرہ دیکھ رہی تھی لیکن سینے میں موجود خون کا لوتھڑا ٹرپ اٹھا تھا صدائے دے رہا تھا ۔۔۔۔موٹی موٹی شہد رنگ آنکھوں سے بارش کی بوندوں کی طرح آنسو بہہ نکلے۔۔۔۔
سچ ہی تو تھا جس عورت کا شوہر اُسے چھوڑ جائے وہ ہزار لوگوں کی موجودگی میں بھی تنہا ہوتی ہے۔۔۔۔
وہ مجھے۔۔۔مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔۔۔یہ الفاظ اُسکی زبان سے ادا ہوئے تھے اور آنکھوں کے سامنے یکدم اندھیرا چھا گیا تھا اور وہ ایک جھٹکے سے زمین بوس ہوئی تھی ۔۔۔۔
اُسکا اعتبار ٹوٹا تھا اور اس شخص نے توڑا تھا جس پر وہ اپنا تن من لٹا بیٹھی تھی اور وہی شخص ایک دِن کا وصل اُسکی جھولی میں ڈال کر اُسے تنہا چھوڑ گیا تھا۔۔۔۔








دو ماہ بعد۔۔۔
ہم نے تم دونوں کا رشتا طے کردیا ہے۔۔۔فاطمہ امّاں کی بات پر وہ دونوں حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے تھے ۔۔۔۔
پر امّاں میں ایسا نہیں چاہتا ۔۔۔فلک میری اچھی دوست ہے ۔۔۔۔خضر نے انکے فیصلے سے نفی کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
فلک بلکل چپ بیٹھی ہوئی تھی کچھ بچا ہی کب تھا اُسکے پاس بولنے کے لئے ۔۔۔۔
ہم پوچھ نہیں رہے بتا رہے ہے۔۔۔۔فاطمہ اماں کا فیصلہ اٹل تھا۔۔۔
خضر نے ایک نظر انکے اسپاٹ چہرے پر ڈالی اور وہاں سے اٹھتا چلا گیا بچپن سے جانتا تھا فاطمہ امّاں کو وہ اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹتی تھی چاہے کچھ بھی ہوجائے وہ اُسکی نہیں سنے گی۔۔۔۔
خضر کے جاتے ہی فلک بھی انکے کمرے سے نکلتی چلی گئی۔۔۔انہوں نے اپنی بیٹی کی پشت کو تکا نہ جانے کیا ہوا تھا اُسے جو ایسی چپ چپ سے ہوگئی تھی نہ پہلے کی طرح ہنستی تھی اور نہ پہلے کی طرح شوخ و چنچل بچی تھی۔۔۔۔۔








خضر بات کرنی ہے تم سے۔۔۔۔فلک نے خضر کے روم میں اتے ہوئے کہا۔۔۔۔خضر جو الماری میں سے اپنے کپڑے نکال رہا تھا اُسکی بات پر مکمل طور پر اُسکی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔
بولو۔۔۔خضر نے اُسکے پاس اتے ہوئے کہا جو اُسکے بیڈ پر ایک جگہ بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔
اور پھر فلک اُسے دو مہینے پہلے ہوئے اپنے ساتھ سارے ظلم کی داستان سناتی گئی۔۔۔۔
جسے لمحہ با لمحہ سنتے خضر نے اپنے ہاتھ کی مٹھی بنائیں تھی۔۔۔۔۔
فلک اتنا سب کچھ ہوگیا تمہارے ساتھ اور تم نے اپنے دوست کو نہیں بتایا۔۔۔خضر نے اُسکے گال پر بہہ جانے والے آنسو صاف کرتے ہوئے نرم لہجے کہا۔۔۔
خضر پلیز مجھے اُس سے ملوا دو۔۔۔میں کیسے رہ رہی ہو اُسکے بغیر یہ بات صرف میں جانتی ہوں۔۔۔۔اپنے وجود میں اُسکی نشانی لئے ۔۔۔۔میں اپنی ماں سے نظر نہیں ملا پاتی ۔۔خضر۔۔۔فلک نے روتے ہوئے خضر کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہا جس کی خود کی آنکھیں لال ہوگئی تھی۔۔۔۔۔
تمہیں پتہ ہے میں اُس انسان سے نفرت کرنا چاہتی ہوں لیکن یہ میرے بس میں نہیں کہی نہ کہیں میں اج بھی یہی سوچتی ہوں وہ آئے گا اور مجھے لے جائے گا اور مجھے میری اسی سوچ سے نفرت ہے۔۔۔
فلک کا ضبط کا پیمانہ ٹوٹا تھا وہ خضر سے اپنی ساری باتیں شیئر کرتی ائی تھی تو کیسے ممکن تھا وہ یہ بات چھپا لیتی۔۔۔۔۔
دو مہینے پہلے جب اُسے ہوش آیا تھا وہ بلکل چپ سی ہوگئی تھی وہ پوری رات اُس نے ہوٹل کی لوبی میں اُسکا انتظار کرتے گزاری تھی لیکن وہ ظالم شخص نہیں ایا تھا ۔۔۔۔۔۔
اُسکے بعد وہ واپس حویلی آگئی ہے اُس نے یونی جانا چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔نہ کسی سے بات کرتی اور نہ پہلے کی طرح ہنستی کھیلتی۔۔۔۔ہر وقت فون اپنے پاس رکھتی کہ شاید کامل اُسکا فون نمبر معلوم کر کے اسے فون کرے گا۔۔۔لیکن نہیں نہ اُس نے انا تھا اور نہ وہ ایا اور نہ کوئی رابطہ کیا۔۔۔۔
آج صبح ہی اُسے پتہ چلا تھا کہ اُسکے وجود میں ایک ننھی سی جان بھی پل رہی ہے اور یہاں اُسکا ضبط ٹوٹا تھا ۔۔۔۔۔۔وہ خضر کو سب بتاتی چلی گئی جو اتنے دن سے دل میں چھپائے بیٹھی تھی۔۔۔۔۔۔
میرا وعدہ ہے اپنی دوست سے ۔۔۔میں اُسے ڈھونڈ کر ضرور لاؤ گا۔۔۔۔خضر نے ایک عزم سے کہا ۔۔۔
بس تم نے رونا نہیں ہے اور نہ ہی یہ بات کسی کو بتانی ہے۔۔۔یہ بات تمہارے اور میرے درمیاں ہی رہنی چاہئے ۔۔۔۔۔خضر نے اُسکے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
فلک کی آنکھوں میں اطمینان اُترا تھا۔۔۔خضر کی بات پر جانتی تھی خضر کبھی اپنا وعدہ نہیں توڑتا ۔۔۔۔
اب جاؤ جلدی سے جاکر سو جاؤ مجھے شہر کے لیے نکلنا ہے۔۔۔خضر نے اُسکا گال تھپتھپا کر کہا ۔۔۔
اسکی بات پر وہ اثبات میں سر ہلاتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی۔۔۔اُسکے جاتے ہی خضر کے چہرے کے تاثرات سخت ہوئے تھے کامل جہاں کہیں بھی تھا وہ اُسے ضرور ڈھونڈ نکالے گا اور پھر فلک کے بہہ ہر آنسو کا بدلا بھی لے گا۔۔۔وہ یہ وعدہ خود سے کر چکا تھا۔۔۔۔
اور خضر شجاعت چوہدری اپنے وعدوں سے پھرتا نہیں ہے۔۔۔۔۔







فلک اپنے کمرے میں آکر بیڈ پر بیٹھی اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھے۔۔۔مسلسل اُس ایک رات کو اپنے دماغ میں دوہرا رہی تھی۔۔۔۔
اُسے نہیں پتہ تھا ایک ہی دن میں وہ شخص اُسکی نس نس میں بس جائے گا۔۔۔۔
وہ اُس انسان سے نفرت نہیں کر پا رہی تھی دل تھا جو ابھی بھی اُسکے نام پر دھڑک رہا تھا اور دل کّب ہماری سنتا ہے۔۔۔لیکن سامنے انے پر وہ اتنی جلدی معاف کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی۔۔۔۔







وہ ہسپتال میں بیٹھی مسلسل نیلی آنکھوں سے آنسو بہائے جا رہی تھی نسرین بھی ایک جگہ بیٹھی مسلسل دعا پڑھ رہی تھی۔۔۔۔۔
آصف صاحب کا ایکسڈنٹ ہوگیا تھا گھر واپسی اتے ہوئے لوگ جلدی سے اُنہیں ہسپتال لے آئے تھے وہ جو یونی میں تھی اچانک سے بابا کے نمبر پر سے انے والی کال پر مسکرا کر کال اٹھا گئی لیکن آگے سے جو سننے کو ملا اُسکے پیروں سے زمین نکل گئی تھی۔۔۔۔
ڈاکٹر کیسے ہے میرے بابا۔۔۔۔ڈاکٹر کے باہر انے پر وہ جلدی سے اُنکی طرف لپکی ۔۔۔۔۔
دیکھئے سر پر بہت گہری چوٹ ائی ہے خون بھی بہت بہہ گیا ہے جلد از جلد آپریشن کرنا ہوگا۔۔۔۔ڈاکٹر نے مایوس کن جواب دیا۔ ۔۔
ٹھیک ہے آپ کرے نہ پھر آپریشن۔۔۔۔شجیہ نے جلدی سے کہا۔۔۔
آپ پیمنٹ جمع کر وا دے ہم آپریشن کی تیاری کرتے ہیں۔۔۔ڈاکٹر بولتا ہوا واپس اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
شجیہ جلدی سے کاؤنٹر کی طرف بڑھی اور جب آپریشن کی رقم سنی تو اُسکا دل بند ہوگیا ۔۔۔اتنی رقم وہ کہاں سے لائے گی کچھ سمجھ نہ ایا۔۔۔۔
اپنے کانوں سے جلدی سے بالیاں اتاری ۔۔۔۔اور نسرین کی طرف بڑھی جس نے بیٹی کے چہرے کو دیکھ کر پہنچان لیا تھا اور فوراً سے اپنے کان میں سے بالی اُتار کر رکھی یہ دو چیزیں ہی تو تھی جو آصف صاحب نے اُن دونوں کو تحفے میں دی تھی۔۔۔
امی آپ بیٹھے میں ابھی اتی ہوں۔۔۔شجیہ جلدی سے بولتی ہوئی چادر صحیح کرتی ہوئی باہر نکلی ۔۔۔۔
ہاسپٹل سے پیدل چلتی وہ مارکیٹ تک ائی تھی پیروں میں درد ہوگیا تھا لیکن یہ تکلیف اُس تکلیف سے کم تھی جو اُسکے بابا جھیل رہے تھے۔۔۔۔
جلدی سے جیولری کی دکان میں داخل ہوتے اپنے ہاتھ میں دبی بالیاں دوکاندار کی طرف بڑھائی ۔۔۔
یہ بیچنی ہے۔۔۔۔ایک آخری نظر اپنے بابا کے تحفے کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
دوکاندار نے بالیاں اٹھا کر وزن کی اور دس ہزار روپے اُسکی طرف بڑھا دیئے ۔۔۔۔
کیا اتنے ہی ملے گے ۔۔۔ایک نظر پیسوں پر ڈال کر پوچھا۔۔۔
جی ۔۔۔دوکاندار نے یک لفظی جواب دیا ۔۔۔
پیسے کم تھے لیکن کچھ نہ ہونے سے بہتر کچھ ہونا تھا۔۔۔۔
پیسے اٹھا کر اپنی جیب میں رکھتے وہ دوکان سے باہر نکلی تھی۔۔۔۔۔
اب کیا کروں کہاں سے لاؤ پیسے۔۔۔۔اپنے آپ سے بولتی اور آنکھوں میں ائی نمی کو روکتی وہ معصوم لڑکی سڑک کے ایک کنارے پر بیٹھ گئی ۔۔۔مغرب کی اذان چاروں طرف گونجی اُس نے اپنا سر آسمان کی طرف کیا اور اپنی آنکھیں بند کی جب اُسکے دماغ میں اُسکے بابا کے بولے گئے لفظ گونجے۔۔۔۔۔
(سچ کہہ رہا ہوں بیٹا کبھی بھی کسی بھی مدد کی ضرورت ہو اور میں نہ ہو تمہارے پاس تو اُن سے جاکر مانگ لینا مدد وہ ضرور مدد کرے گے)
آخری راستہ یہی بچا ہے۔۔۔خود سے بولتے ہوئے اُس نے اپنے لئے رکشہ رکوایا پتہ وہ جانتی تھی آصف صاحب نے اُسے بتا رکھا تھا کہ کبھی کوئی مصیبت آئے تو وہ وہاں جا سکے۔۔۔۔۔







ایک عالیشان بنگلے کے باہر وہ کھڑی کشمکش میں تھی۔۔۔۔
اور پھر ہمت کر کے قدم اندر بڑھائے جب چوکیدار نے اسکو روکا۔۔۔۔
چوہدری صاحب سے ملنا ہے۔۔۔۔آصف کی بیٹی ہوں۔۔۔۔چوکیدار کے پوچھنے پر اُس نے کہا۔۔۔۔
جس نے فوراً سے کریدل اٹھا کر اندر سے پوچھا تھا ایا اُسے اندر انے دینا ہے یہ نہیں۔۔۔۔
جاؤ بچے۔۔۔چوکیدار نے شفقت بھرے لہجے میں کہا۔۔تو اُس نے قدم اندر بڑھائے ۔۔۔۔۔
اندر اتے ہی ایک بوڑھی عمر کے آدمی نے اُسے لاؤنچ میں بٹھا دیا تھا سب نوکر کام میں لگے ہوئے تھے اور وہ یہ سب کچھ حیرت سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
وسیع لاؤنچ میں بیٹھی وہ مسلسل گھبراہٹ کے ساتھ اپنے ہاتھ آپس میں مسلتی اپنی نیلی غزالی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی لب مسلسل کوئی دعا پڑھنے میں مصروف تھے۔
نیلی آنکھوں میں نمی کی آمیزش تھی ۔۔۔۔دل بھی بری طرح دھڑک رہا تھا۔۔۔۔۔
ابھی وہ چاروں طرف ہی دیکھ رہی تھی جب سیڑھی پر سے اترتے کالے چمکدار جوتوں پر اُسکی نظر پری ۔۔۔
نظریں جوتوں سے ہوتے ہوئے اُسکے چہرے تک ائی۔۔۔سفید رنگت بھوری آنکھیں۔۔۔چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی سلکی کالے بال جو پیشانی پر بھکرے ہوئے تھے۔۔۔کھڑی مغرور ناک۔۔۔کسرتی جسم کالی شرٹ اور کالی آفس پینٹ میں ملبوس۔۔۔۔وہ وجاہت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔۔۔لیکن ایک جگہ اُسکی نیلی آنکھیں ٹھہر گئی۔۔۔آنکھوں میں حیرت ابھری۔۔۔۔۔
اس حسین نوجوان میں ایک کمی تھی اور وہ تھی کہ اُسکےایک ہاتھ کا پنجا نہیں تھا۔۔۔۔۔اور دوسری طرف اس نے ایک نظر اُس پر ڈال کر اپنی نظر اُس پر سے ہٹا لی تھی لیکن اس ایک نظر میں بھی وہ اسکا پوری طرح جائزہ لے چکا تھا۔۔۔۔۔۔
سفید رنگت گالابی لب نیلی آنکھیں اپنے گرد اچھے سے چادر اوڑھے وہ ایک غریب گھرانے کی عزت دار لڑکی لگ رہی تھی ۔۔۔۔
وہ سیڑھی سے اترتا اُس کے سامنے رکھے صوفے پر بیٹھ گیا چال میں ایک غرور سا تھا۔۔۔۔۔
کہو کیا کام ہے لڑکی۔۔۔بھاری مضبوط مردانا آواز سن کر اس نے گھبرا کر اپنی نظریں اُسکے ہاتھ سے ہٹائیں تھی ۔۔۔۔۔
وہ خود بھی اُسکی نظر اپنے ہاتھ پر محسوس کر چکا تھا۔۔۔۔
وہ میں آپ کے اسطبل میں جو آصف کام کرتے ہیں اُنکی بیٹی ہوں۔۔۔بابا کا ایکسڈنٹ ہوگیا ہے۔۔۔۔سر پر بہت گہری چوٹ ائی ہے ۔۔۔۔۔ڈاکٹر نے جلد آپریشن کا کہا ۔۔۔۔ورنہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔اٹک اٹک کر نم آواز میں اتنا بول کر اُس نے اپنی جھکی نیلی نظریں اٹھا کر اُسکی طرف دیکھا جس کا چہرہ اسپاٹ تھا اُسکے چہرے سے کوئی تاثر نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔۔
وہ بس اپنی گہری بھوری آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
مجھے ۔۔۔پیسے چایئے۔۔۔بابا نے کہا تھا آپ سے مدد مانگ لو ۔۔۔۔اُسے کچھ نہ بولتے دیکھ وہ مزید بولی۔۔یہ بولتے ہوئے وہ شرمندگی کی تہا گہرائیوں میں ڈوب چکی تھی کہاں اُس نے آج تک کسی سے کوئی چیز مانگی تھی لیکن اج وہ مجبور تھی اُسکے بابا کی زندگی کا سوال تھا۔۔۔۔
اُسکی بات پر سامنے موجود وجود کی بھوری آنکھیں ایک پل کے لئے چمکی۔۔۔۔
ٹھیک ہے تیار ہُوں پیسے دینے کے لیے لیکن میری ایک شرط ہے ۔۔۔۔مقابل کی بات پر وہ جو خوش ہوتے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی آخری بات پر چونکی۔۔۔۔۔
کیسی ۔۔کیسی شرط ۔۔۔۔نیلی آنکھوں میں ڈر چمکا تھا۔۔۔۔
تمہیں مجھ سے شادی کرنی ہو۔۔۔مقابل نے اُسکی نیلی خوف زدہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کیا مذاق ہے یہ آپ کیسے کسی کی مجبوری کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔۔۔بابا نے کتنے بھروسہ سے آپکے پاس مجھے مدد لینے بھیجا تھا کہ اُن کے مالک ضرور مدد کرے گے ۔۔لیکن آپ ۔۔۔
چپ ہوجاؤ لڑکی ۔۔۔پوری بات سننے سے سے پہلے اتنا چیخو مت۔۔۔۔وہ جو اُسکی بات پر بے یقین ہوکر اپنی جگہ سے اٹھ کر بغیر رکے بولی جا رہی تھی مقابل کی تیز آواز پر زبان بند ہوئی۔۔۔۔
میں نے اصل شادی نہیں کہیں کنٹرکٹ میرج کا بولا ہے۔۔۔صرف ایک سال کے لئے وہ بھی پھر تمہیں آزاد کردونگا۔ ۔۔اس شادی میں کچھ بھی اصل نہیں ہونگا ہم اجنبیوں کی طرح ایک کمرے میں رہے گے لیکن باہر سب کو یہی ظاہر کرنا ہے کہ ہم ایک میاں بیوی ہے۔۔۔۔مقابل بے تاثر آواز میں اُس سے دو قدم کی دوری پر کھڑے ہوتے بولا۔۔۔۔۔
اوہ واؤ آپ امیروں نے ہم غریبوں کو سمجھ کیا رکھا ہیں آپ مجھ سے میرے وجود کا سودا کر رہے ہیں۔۔۔شجیہ نے چیختے ہوئے کہا۔۔۔
زبان سمنبھالوں لڑکی تم۔۔۔۔نکاح کرونگا تم سے پورے شرعی طریقے سے تمہیں اپنی بیوی بناؤ گا ۔ تمہارے وجود کو ہاتھ تک نہیں لگاؤ گا میں ۔۔۔۔۔۔۔لیکن ایک سال بعد آزادی۔۔۔۔خضر نے تیز آواز میں کہا ۔۔۔
اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں اپنے بابا کی زندگی کے لئے مجھ سے ایک سال کے لئے کانٹریکٹ میرج کرو یہ پھر ۔۔۔اگے تم خود سمجھدار ہو۔۔۔۔باہر کوئی تمھاری مدد کرے یا نہ کرے یہ کس کو پتہ ہے۔ ۔خضر نے کندھے اچکا کر کہا ۔۔
اسکی بات پر شجیہ سوچ میں پڑ گئی۔۔۔پھر اچانک نظروں کے سامنے آصف صاحب کا خون میں لٹ پٹ وجود لہرایا۔۔۔۔وہ صحیح تو کہہ رہا تھا آخری راستہ تھا یہ جس پر بہت اُمید سے چل کر وہ ائی تھی اب باہر اُن ماں بیٹی کی مدد کرنے والا کون تھا۔۔۔
ٹھیک ہے چوہدری صاحب میں تیار ہوں۔۔۔شجیہ نے کچھ منٹوں میں جواب دیا تھا اپنے بابا کے لئے وہ ایک سال تو قربان کر ہی سکتی تھی اور ویسے بھی ناٹک ہی تو کرنا تھا سامنے کھڑے وجود کی بیوی بننے کا۔۔۔۔
وہ جو اُسکے حسین چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ ہوش میں ایا۔۔۔۔
ٹھیک ہے پیسے پہنچ جائے گے ہسپتال نام بتاؤ۔۔۔۔خضر نے فون پر کچھ ٹائپ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔شجیہ نے جلدی سے ہسپتال کا نام بتایا۔۔۔
بیٹھ جاؤ لڑکی تمہارے بابا کا آپریشن شروع ہوگیا ہے۔۔۔خضر نے بے تاثر آواز میں کہا۔۔۔اسکی بات پر شجیہ ایک طرف سکر کر صوفے پر بیٹھ گئی اور وہ بلکل اُس کے سامنے بیٹھا اپنے فون پر مصروف تھا۔۔۔کچھ ہی منٹ بعد شجیہ کے سامنے جوس اور بھی بہت سی کھانے کی چیزیں لا کر سجا دی گئی تھی ۔۔۔۔
جسے اُس نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا وہ بس یک تک خضر کے حسین چہرے کو دیکھ رہی تھی اور خضر یہ سب نوٹ کرتا اپنا غصّہ ضبط کر رہا تھا۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں مولوی ایک وکیل اور تین افراد لاؤنچ میں داخل ہوئے۔۔۔شجیہ سمجھ گئی تھی اب وقت آگیا ہے اپنے آپ کی قربانی دینے کا۔۔۔۔
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ شجیہ آصف خان سے شجیہ خضر شجاعت چوہدری بن گئی تھی شجیہ کی نظریں صرف اور صرف خضر پر ہی جمی ہوئی تھی جس کا چہرہ بے تاثر تھا۔۔۔۔
میم یہ کنٹرکٹ پپیر ہے پڑھ کر دستخط کر دیے۔۔۔۔وکیل کے کہنے پر اُس نے خضر سے نظریں ہٹائیں جب خضر نے اُسکی طرف دیکھا جس کی نیلی آنکھیں اور چھوٹی سی ناک لال ہورہی تھی ۔۔۔۔بھورے بال چادر سے جھلک رہے تھے۔۔۔وہ انتہاء کی خوبصورت تھی جو اب بنا پڑھے کنٹرکٹ پیپر سائن کر گئی تھی خضر نے اسکی حرکت پر اپنے لب بھینچے۔۔۔۔کیسے وہ بنا پڑھے ہی سائن کر رہی تھی۔۔۔۔