قسط: 20 باب 2
شجیہ کچن میں کھڑی ملازمہ کے ساتھ مل کر ناشتہ تیار کر رہی تھی خضر داجی اور فاطمہ اماں سب لاؤنچ میں بیٹھے اپنی باتوں میں مگن تھے۔۔۔۔
موبائل کی آواز پر شجیہ نے جلدی سے پاس پڑا اپنا فون اٹھایا ۔۔۔سکرین پر نسرین کا نام جگمگاتا دیکھ اُسے فکر ہوئی۔۔۔جلدی سے فون يس کرتے کان سے لگایا۔۔۔۔
آگے سے جو خبر ملی وہ سنتے اُسکا دل خوشی سے جھوم اٹھا ۔۔۔۔نیلی آنکھوں میں لبالب نمکین پانی جمع ہوا ۔۔ایک جھٹکے سے فون وہاں رکھتے وہ کچن سے باہر نکلی ۔۔۔
خضر ،خضر ۔۔۔شجیہ چیختی ہوئی لاؤنچ میں ائی۔۔۔اُسکی چیخ پر خضر فوراً سے صوفے سے اٹھا فاطمہ اماں اور داجی نے بھی فکرمندی سے اُسکی طرف دیکھا جو نم آنکھیں لیے بھاگتی ہوئی لاؤنچ میں ائی تھی۔۔۔۔
کیا ہوا شجیہ ۔۔خضر نے اُسکے دونوں ہاتھوں کو تھامتے فکر مندی سے پوچھا۔۔۔
خضر ۔۔وہ بابا کو ہوش آگیا ہے۔۔۔شجیہ نے گہرا سانس بھرتے خضر کی آنکھوں میں دیکھتے خوشی سے کہا۔۔۔۔
یہ اللہ شکر ۔۔۔فاطمہ اماں نے فوراً سے شجیہ کی بات پر اللہ کا شکر ادا کیا۔۔۔۔
ہم ہاسپٹل چلتے ہیں ابھی۔۔۔داجی نے کہتے اپنے قدم باہر بڑھائے تھے۔۔۔شجیہ داجی کی بات پر اثبات میں سر ہلائے خضر کے ہاتھوں سے ایک جھٹکے میں اپنے ہاتھ نکالتے اُنکے پیچھے تیز قدموں سے بھاگی۔۔۔۔
خضر خاموشی سے آنکھوں میں سنجیدگی لیے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتا گیا جسے ایک جھٹکے میں شجیہ چھوڑ گئی تھی۔۔۔۔خضر کے دل میں ایک ٹییس سی اُبھری شجیہ کا اُسکا ہاتھ چھوڑنا اُسے کانٹوں میں گھسیٹ گیا تھا۔۔۔۔
خضر کی آنکھوں میں ایک انڈھیکا سا خوف جھلکا اُس نے اپنی بھوری انکھوں سے فاطمہ اماں کی طرف دیکھا ۔۔۔جو اپنے بھانجے کی آنکھوں میں نظر اتا خوف بھانپ گئی تھی۔۔۔۔
شجیہ آپکی بیوی ہے اُسے آپ سے کوئی الگ نہیں کرے گا آپ بفکر رہے اور چلے ہسپتال۔۔۔فاطمہ اماں نے خضر کے پاس اتے نرم آواز میں رسانیت سے کہا۔۔۔
خضر نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔اور اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے وہ نہیں جانتا تھا آصف صاحب اُسکے اور شجیہ کے رشتے کو اپنائے گے یہ نہیں۔۔۔لیکن وہ اب کسی حال میں شجیہ کو نہیں چھوڑ سکتا تھا۔۔۔
پورے راستے شجیہ اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے ونڈو سے باہر دیکھ رہی تھی اُس نے ایک دفعہ بھی خضر کی طرف نہیں دیکھا تھا اور خضر کو یہ بات حد سے زیادہ چبھی تھی۔۔۔۔
ہسپتال کے سامنے گاڑی رکتے شجیہ تیزی سے گاڑی سے باہر نکلی ۔۔۔۔
تیز رفتاری سے وہ اپنے قدم بڑھاتی جلد از جلد اپنے بابا کے پاس جانا چاہتی تھی۔۔۔۔
خضر نے لال ہوتی بھوری انکھوں سے اُسکی قمر پر لہراتے بھورے بال دیکھتے اپنے جبڑے بھینچے ۔۔۔۔
سیڑھیاں چڑھتے یکدم اُسکا پاؤں لڑکھڑایا ۔۔۔خضر جو اپنے لب بھینچے اُسکے پیچھے آرہا تھا اُسے يو تیز چلتا دیکھ اس کے غصّہ کا گراف بڑھا۔۔۔۔۔اور اُسکے گرتے وجود کو دیکھتے جلدی سے اُسے تھاما۔۔۔۔
دیہان کہاں ہے تمہارا ابھی گر جاتی ۔۔۔خضر نے شجیہ کو قمر سے تھامتے کھڑا کیا اور غصے سے اُسکے سرخ ہوتے چہرے کی طرف دیکھتے کہا جو شائد ہسپتال میں سب کے سامنے اتنی نزدیکی پر سرخ ہوا تھا۔۔۔
بیگم جانتا ہو آپ کے لیے یہ بات بہت خوشی کی ہے لیکن اس خوشی میں آپ اپنے آپ سے غافل ہوجائے یہ مجھے قطعی منظور نہیں۔۔۔شجیہ سے دور ہوتے اُس نے شجیہ کے سینے پر پھیلا دوپٹہ جو گاڑی سے باہر نکلتے اُسکے سر سے پھسل گیا تھا اُسکے سر پر درست کرتے سینجدگی سے کہا۔۔۔
خضر کی بات پر شجیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔
خضر نے شجیہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھامتے اپنے قدم آصف صاحب کے کمرے کی طرف بڑھائے ۔۔۔
کمرے کے باہر رکتے اُس نے شجیہ کو اندر جانے کا اشارہ کیا جو اُسکی بھوری انکھوں میں دیکھتے دھڑکتے دل سے کمرے کے اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔
خضر وہی دیوار پر اپنی پشت ٹکائے کھڑا ہوگیا فاطمہ اماں اور داجی بھی اُسکے پاس اتے باہر رکھی گئی کرسیوں پر بیٹھ گئے تھے ۔۔۔
وہ تینوں ہی یہی چاہتے تھے کہ شجیہ پہلے آرام سے اپنے بابا سے مل لیں ۔۔۔



کمرے میں قدم رکھتے ہی اُسکی نظر آصف صاحب پر پڑی جو بیڈ پر نیم دراز اُسکی طرف ہی دیکھ رہے تھے۔۔۔
اپنی اُنہیں شفقت اور محبت نظروں سے۔۔۔ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے۔۔۔
کتنے عرصے بعد اُس نے اپنے بابا کو ہنستا مسکراتا دیکھا تھا اپنے بابا کی ان آنکھوں کو دیکھا تھا جہاں ہر غرض سے پاک اُس کے لیے محبت تھی۔۔۔۔
نیلی آنکھوں سے آنسو تیزی سے بہہ نکلے۔۔۔۔اُسکے قدم اپنی جگہ جم گئے تھے وہ آگے نہیں بڑھ پا رہی تھی۔۔۔۔۔
اُسے یکدم اپنے بابا کا خون میں رنگا وہ وجود یاد آیا اُس وقت اُسے لگا تھا جیسے اُسکی سانسیں بند ہوگئی ہو۔۔۔۔
اپنے باپ کو تکلیف میں دیکھنا کتنا اذیت دہ لمحہ ہوتا ہے یہ ایک اولاد اچھی طرح جانتی ہے۔۔۔۔
اتنے عرصے بعد اپنی نازوں میں پلی بیٹی کو دیکھتے آصف صاحب کی آنکھیں بھی نم ہوئی۔۔۔اپنے باہیں واہ کیے اُنہوں نے شجیہ کو اشارہ کیا ۔۔۔جو اُنکے اس طرح کرنے پر بھاگتی اُنکے سینے میں منہ چھپائے ۔۔۔شدت سے رو دی تھی۔۔۔۔
نسرین کی آنکھیں نم ہوئی دونوں باپ بیٹی کو دیکھتے۔۔۔۔
بس میری لاڈو بابا ٹھیک ہے ۔۔۔آصف صاحب نے اُسے چپ نہ ہوتا دیکھ اُسکا چہرہ اپنے سامنے کرتے پیار سے کہا۔۔۔
بابا میں نے آپکو بہت یاد کیا میں بہت روئی بھی تھی۔۔۔۔میں نے کتنے دونوں سے آپکے ہاتھوں سے کھانا نہیں کھایا۔۔۔میں نے کتنے دنوں سے آپکی یہ آواز نہیں سنی بابا۔۔۔آپکے بنا کہنے کو تو سب کچھ تھا پر اصلیت میں بابا کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔۔کتنے دنوں میں سے آپکے منہ سے اپنے لیے لاڈو سننے کے لیے ترس گئی تھی بابا۔۔۔میں نے روز اللہ سے دعا کی کہ میرے بابا جانی کو جلدی ٹھیک کردے۔۔۔۔کسی دو سال کی بچی کی طرح وہ اپنے بابا کے سامنے بیٹھی روتے ہوئے اُنہیں سب کچھ بتا رہی تھی ۔۔۔
ایک بیٹی کے لیے باپ کیا معنی رکھتا ہے یہ وہ خود جانتی تھی ایک وہی مرد تو ہوتا ہے جس پر وہ آنکھیں بند کئے بھروسہ کر لیتی ہے۔۔۔۔جو اُسے کبھی دھوکا نہیں دیتا جس کا بس چلے تو وہ اپنی بٹیا کی آنکھوں میں خوشی اور اُسکے اچھے نصیب کے لیے اپنے آپکو قربان کردے ۔۔۔۔۔
بس میری لاڈو۔۔۔اب بابا ٹھیک ہے اب بابا خود اپنی لاڈو کو کھانا کھلائے گے ۔۔۔بس بابا کی لاڈو کو بابا کی ایک بات ماننی ہے ۔۔۔اپنی بیٹی کی باتوں پر آصف صاحب کی آنکھوں میں ٹھہری نمی بڑھنے لگی تھی انہوں نے پیار سے اُسکے آنسو صاف کرتے محبت بھرے لہجے میں کہا۔
کیا۔بابا ۔۔شجیہ نے ہچکی بھرتے پوچھا ۔۔۔
رونا نہیں ہے۔۔لاڈو جانتی ہے لاڈو کے بابا اُسکی ان نیلی انکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتے ۔۔۔یہ بات تو لاڈو مانے گی اپنے بابا کی۔۔۔۔۔آصف صاحب نے محبت سے کہا۔
میں نہیں رو رہی بابا ۔۔۔یہ آنسو ہے نہ خود بہ خود آپکو سامنے صحیح سلامت دیکھتے بہہ نکلے ہے ورنہ آپ تو جانتے ہیں آپکی لاڈو کتنی بہادر ہے بلکل اپنے نام کی طرح بس آپکے سامنے وہ کمزور پڑتی ہے ۔۔کیونکہ وہ جانتی ہے کہ آپ اُسکی کمزوری کا فائدہ نہیں اٹھائے گے اُسکا مذاق نہیں بنائے گے بلکے اپنے ان محفوظ بازؤں میں اسے بھر کر اُسے ہر مشکل سے بچا لے گے ۔۔۔۔شجیہ نے اپنے بہتے آنسوؤں کو صاف کرتے مان بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔
اور آصف صاحب مسکرا دئیے اپنی لاڈو کی بات پر۔۔۔
یکدم اُسے خضر یاد ایا ۔۔۔وہ کیسے اپنے بابا کو سچ بتائے گی اُنکے کندھے پر سر رکھے وہ اپنے اندر ہمت پیدا کرنے لگی اُنہیں سچ بتانے کی۔۔۔۔
بابا مجھے آپکو کچھ بتانا ہے۔۔ میں چاہتی ہو آپ مجھے سمجھے گے میں نے آج تک آپ سے کوئی بات نہیں چھپائی بابا اور یہ بات بہت اہم ہے جو میں اب آپ سے بلکل نہیں چھپا سکتی۔۔۔۔۔شجیہ نے انکے کندھے سے سر اٹھا کر اُنکی طرف دیکھتے کہا دل زوروں سے دھڑک رہا تھا۔۔۔
نسرین بھی بیٹی کے چہرے کو دیکھتے سمجھ گئی وہ کیا کہنا چاہ رہی ہے۔۔۔
آصف صاحب کے چہرے پر الجھن اُبھری۔۔۔۔اور پھر شجیہ اُنہیں سب بتاتی چلی گئی۔۔۔۔۔شجیہ نے ایک نظر اُن کے بيقین چہرے کی طرف دیکھا۔۔۔
آصف صاحب نے اُسکے ہاتھ پر سے اپنا ہاتھ ہٹایا۔۔۔اور شجیہ کی دل کی دھڑکن مدھم پڑی۔۔۔
بابا خضر مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں میرا یقین کرے وہ مجھے بہت خوش رکھتے ہیں میں جانتی ہو میری غلطی ہے میں نے خضر سے کنٹرکٹ میرج کی ۔۔پر بابا خضر برے نہیں ہے ۔۔میں نے اس رشتے کو پوری ایمانداری سے نبھایا ہے بابا۔۔۔۔۔پر آپ میرے لیے سب سے زیادہ اہم ہے آپکا ہر فیصلہ مجھے منظور ہے بابا۔۔۔شجیہ کی آواز دھیمی ہوئی ساتھ ہی نیلی آنکھوں میں پھر نمی چمکی۔۔۔۔۔۔۔اُسکی نظریں خود بہ خود جھکتی چلی گئی اپنی بابا کی آنکھوں میں دیکھنے کی اُس میں ہمت ہی نہیں تھی۔۔۔۔
اُنہیں اندر بلائے ۔۔۔آصف صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔۔
شجیہ نے روتی آنکھوں سے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔دھیمے قدم اٹھاتی وہ دروازے تک ائی تھی۔۔۔نہ جانے بابا نے کیا فیصلہ کیا ہوگا۔۔۔اگر وہ اُسے خضر سے الگ ہونے کا فیصلہ سنا دیتے تو۔۔اور یہی سوچ سوچتے اُسے اپنے قدموں سے جان نکلتی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔
شجیہ کے باہر اتے وہ جو بیچینی سے بار بار اپنی گردن اور داڑھی رب کر رہا تھا اُسکی طرف متوجہ ہوا جو نیلی بھیگی انکھوں سے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔
شجیہ کی آنکھوں میں نظر اتا ڈر اور سرخی دیکھتے خضر کا دل دھڑکا۔۔۔۔
آپ کو اندر بلایا ہے۔۔۔شجیہ نے بھرائی آواز میں کہا۔۔۔
خضر نے آگے بڑھتے اُسکی پلکوں پر ٹھہری نمی کو اپنی پوروں سے صاف کیا اُسکا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھامتے اپنے لبوں تک لاتے چوما۔۔۔
تمہیں مجھ سے کوئی الگ نہیں کرسکتا کوئی بھی نہیں۔۔۔شجیہ کی نیلی آنکھوں میں۔دیکھتے خضر نے مضبوطی سے یہ لفظ ادا کیے اور اُسے لیے اندر داخل ہوا۔۔۔داجی اور فاطمہ اماں بھی فوراً سے اندر بڑھے۔۔۔



کمرے میں گہری خاموشی تھی داجی فاطمہ اماں ایک طرف رکھے گئے صوفے پر بیٹھے آصف صاحب کے کچھ بولنے کے انتظار میں تھے۔۔
اور سامنے کھڑے اُن دونوں کی دل کی دھڑکن تیز دھڑکتی انکا جینا محال کر رہی تھی۔۔۔
آصف صاحب نے خضر کی طرف دیکھا اور پھر اُسکے ہاتھ میں مقید اپنی بیٹی کے ہاتھ کو۔۔۔
نظر خضر کی بھوری انکھوں پر پڑی جہاں ایک ضد ایک جنون سا تھا۔۔۔جیسے وہ کچھ بھی ہوجائے شجیہ کو نہیں چھوڑے گا ۔۔۔اور پھر اُنکی نظر اپنی بیٹی پر پڑی۔۔۔جو بھیگے چہرے کے ساتھ کھڑی اُنکے فیصلہ کی منتظر تھی۔۔۔اپنی بیٹی کے چہرے اور آنکھوں سے وہ اُسکی خضر کے لیے محبت کو محسوس کر چکے تھے۔۔۔
خضر نے آصف صاحب کی طرف دیکھا جبکہ شجیہ کے اندر ہمت نہیں تھی اپنی نظریں اٹھانے کی۔۔۔
آپکا بہت بہت شکریہ۔۔۔آپ نے مجھ غریب باپ کی بیٹی کو اپنے گھر کی عزت بنایا ایک باپ صرف اپنی بیٹی کی خوشی چاہتا ہے یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں خوش رھے اُسکا ہمسفر اُس سے انتہاء کی محبت کرے اور عزت دے۔۔۔۔میں آپکا جتنا شکریہ ادا کرو اتنا کم ہے ۔۔۔ آصف صاحب نے اپنے دونوں ہاتھوں کو جوڑتے داجی کی طرف دیکھتے عاجزی بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
ایسے آپ ہمیں شرمندہ نہ کرے آپ بیٹی کے باپ ہے ۔۔آپ نے ہمیں اپنی بیٹی دی ہے جسے آپ نے محنت اور محبت سے پالا ہے ۔۔۔آپ ہاتھ جوڑتے اچھے نہیں لگتے۔۔۔۔داجی نے فوراً سے اپنی جگہ سے اٹھتے آصف صاحب کی طرف بڑھتے اُنکے جڑے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
اور شجیہ اُس نے اپنی نیلی آنکھیں اٹھا کر اپنے بابا کی طرف دیکھا جو آج بھی ہمیشہ کی طرح اُسکی جھولی میں اُسکی خوشیاں ڈال گئے تھے۔۔۔۔
خضر نے اپنی بھوری انکھوں میں چمک لیے شجیہ کی طرف دیکھا۔۔۔جیسے کہا تھا ۔۔۔
دیکھا تمہارا اور میرا ساتھ تاقیامت رہے گا ہمیں کوئی الگ نہیں کرسکتا۔۔اُس رب نے ہمیں ایک دوسرے کے لیے ہی بنایا ہے۔۔۔
بس میری ایک خواہش پوری کردے میں اپنی بیٹی کو اپنے گھر سے رخصت کرنا چاہتا ہوں۔۔۔آصف صاحب کی بات پر داجی اور فاطمہ اماں نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔
آصف صاحب کی بات پر خضر کا چہرہ جس پر ابھی کچھ دیر پہلے مسکراہٹ دور گئی تھی سمٹی۔۔۔جبکہ شجیہ خضر کا چہرہ دیکھتے اپنی مسکراہٹ ضبط کر گئی تھی۔۔۔۔۔




خضر کہاں لے جا رہے ہیں۔۔۔شجیہ نے خضر سے پوچھا جو کمرے میں سب کو باتوں میں لگا دیکھ اسکا ہاتھ پکڑ کر باہر لے ایا تھا۔۔۔
ایک خالی کیبن میں داخل ہوتے خضر نے دروازہ بند کرتے شجیہ کی پشت کو دروازے سے لگا کر اُسے اپنے حصار میں قید کیا۔۔۔
کیا ہوا ہے۔۔۔اپنے چہرے پر پڑی خضر کی گرم جھلستی سانسیں محسوس کرتے شجیہ نے خضر کی بھوری آنکھوں میں دیکھتے پوچھا۔۔۔
تم نے مجھے نظرانداز کیا تو کیا کیسے۔۔۔خضر کی بات پر شجیہ کی ائبرو۔ آپس میں ملی۔۔۔
اُس نے کب اُسے نظرانداز کیا تھا۔۔۔۔
میں نے کب کیا۔۔۔۔شجیہ نے پوچھا۔۔۔
پورے راستے تم نے مجھے ایک بار بھی نہیں دیکھا ۔۔۔خضر نے اُسکی نیلی انکھوں میں دیکھتے اپنا چہرہ مزید اُسکے قریب کرتے اُسکے ہونٹوں پر اپنی گرم لو دیتی سانسیں چھوڑی ۔۔۔۔۔
ایم
مجھے تمھاری ذرا سی بھی نظراندازی نہیں گوارا شجیہ ۔۔۔مجھے اپنے چہرے پر پڑتی تمھاری ان نیلی محبت بھری نظروں کی عادت ہے ۔۔ہر لمحہ میں تمہارے ہونٹوں سے نکلے ان۔لفظوں کی جس میں تم مجھ سے اپنی محبت کا اظہار کرتی ہو مجھے اسکی عادت ہے۔۔تمہارے یہ ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے انکی نرماہٹ کو محسوس کرنے کی مجھے عادت ہے اور عادت بہت جان لیوا ہوتی ہے۔۔۔۔خضر نے اُسکی آنکھوں پر اپنا لمس چھوڑا پھر اُسکے لبوں کو ہلکے سے اپنے لبوں سے چھوا۔۔۔اُسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ سے چھوتے اُس نے گھمبیر آواز میں یہ لفظ ادا کیے۔۔۔۔۔
اور شجیہ کی سانسیں اتھل پتھل ہوئی۔۔۔خضر کے ہاتھ اُسکی کمر پر گردش کرتے اُسکی دل کی دھڑکن میں طغیانی لے آئے تھے۔۔۔۔
خضر یہ ہسپتال ہے۔۔اپنے لبوں پر خضر کو جھکتے دیکھ شجیہ نے کہنا چاہا۔۔۔۔
فرق نہیں پڑتا۔۔۔خضر نے کہتے ساتھ شجیہ کے گلابی لبوں کو اپنی گرفت میں لیا۔۔۔۔
نرمی سے اُسکی سانسیں پیتے وہ اپنی تشنگی مٹانے لگا۔۔۔جو اسکے لبوں کا لمس محسوس کرتے بڑھتی ہی جا رہی تھی۔۔۔۔




دو دن بعد۔۔۔
آج وہ دن تھا جسکا اُن دونوں لڑکوں کو بے صبری سے انتظار تھا۔۔۔۔
پورے دو دن سے وہ اپنی اپنی بیویوں سے دور تھے اور یہ دو دن جس طرح اُن دونوں نے گزارے تھے یہ وہی دونوں جانتے تھے۔۔۔۔
کامل۔خان تو جلتے انگاروں پر سوار ہوگیا تھا جب وہ صبح اٹھتے فلک کو واپس خضر پیلس لایا تھا اور وہاں سے اُسکی بیوی کو اُس سے دور کر دیا گیا تھا۔۔۔۔جبکہ آخری مقالات میں شجیہ کو اپنے انتہائی قریب محسوس کرتے خضر اُسی لمس میں کھوتے دن گزار رہا تھا ۔۔۔
وائٹ رنگ کے کرتے شلوار میں کالی واسکٹ پہنے وہ دونوں انتہائی خوبرو لگ رہے تھے۔۔۔چہرے سے جھلکتی خوشی اور چمک اُنہیں مزید خوبرو بنا رہی تھی ۔۔۔
دونوں لڑکیوں کو آصف صاحب کی طرف بھیج دیا گیا تھا۔۔۔برات نے وہی جانا تھا۔۔۔
فاطمہ اماں فلک اور شجیہ کے پاس تھی ۔۔۔خضر اور کامل کے ساتھ داجی اور میجر مہمد اور اُنکے کچھ جاننے والے تھے۔۔۔۔
حویلی سے چاچی نے بھی شرکت کی تھی۔۔۔یہ کہنا صحیح ہوگا اُنکی شرکت صرف نام کی تھی ۔۔۔۔
جبکہ سامیہ نے انے سے انکار کر دیا تھا۔۔۔۔