مثالِ عشق

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 20 باب 3

چھوٹے سے علاقے میں ایک گھر کے باہر گاڑی رکی تھی ۔۔۔۔خضر اور کامل گاڑی سے اُترتے مسکرائے۔۔۔
دروازے پر کھڑے آصف صاحب اور اُنکے گھر والوں نے انتہائی خوش اسلوبی سے اُن سب کا ویلکم کیا تھا آصف صاحب نے آگے بڑھتے پھولوں کے ہار خضر کامل کو پہنائے۔۔۔اور اُنہیں لیے اندر کی طرف بڑھے۔۔۔
چھوٹا سا یہ گھر نہایت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔۔۔
گھر میں موجود ڈرائنگ روم میں اُنکے بیٹھنے کا بندوبست کیا گیا تھا ڈرائنگ روم کافی بڑا تھا جس میں گاؤں تکیے لگا کر زمین پر بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔۔۔۔
چاچی نے ناک منہ چڑھا کر یہ سب دیکھا ۔۔اتنی سادگی اُنہیں ایک آنکھ نہ بھائی ۔۔۔
دوسرے کمرے میں پیچ اور پنک رنگ کی کام ہوئی وی شلوار قمیض میں دوپٹہ کو سر پر سیٹ کیے اپنا پور پور اپنے محرم کے لیے سجائے وہ دونوں انتہاء کی پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔
ہلکے سے میکپ میں لائیٹس سی جیولری پہنے۔۔۔تیز دھڑکتی دل کی دھڑکنوں کے ساتھ اپنا چہرہ جھکائے ہونٹوں پر نرم سی مسکراہٹ لیے بیٹھی وہ انے والے لمحات کا سوچتی لال گلابی ہو رہی تھی۔۔۔۔
نسرین بیگم اور فاطمہ اماں نہ جانے کتنی بار اُن دونوں کی بلائے لے چکی تھی۔۔۔۔۔
داجی میجر مہمد اور آصف صاحب مولوی کے ہمراہ لڑکیوں کی طرف آئے تھے۔۔۔۔
نکاح کی رسم شروع ہوتے ہی شجیہ کے ہاتھ کانپے تھے۔۔۔تب آصف صاحب نے آگے بڑھتے اُسے اپنے بازوں کے ہلکے میں لیا۔۔۔۔شجیہ کی آنکھ سے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔کہاں آسان ہوتا ہے یہ لمحہ ایک لڑکی کے لئے جس پر نکاح کے بعد سب سے زیادہ حق اُسکے شوہر کا ہوجاتا ہے۔۔اُسکے باپ کا اُس پر سے حق ختم ہوجاتا ہے۔۔۔۔
فلک نے نم انکھوں سے شجیہ اور آصف صاحب کی طرف دیکھا اپنے بابا کی کمی اج اُسے شدت سے محسوس ہوئی۔۔۔جب اپنے کندھے پر۔ایک نرم لمس محسوس کرتے اُس نے اس طرف دیکھا تھا جہاں اُسکی اماں کھڑی آنکھوں میں محبت لیے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
دونوں نے قبول ہے کہتے اپنا آپ دوبارہ اپنے اپنے محرم کے حوالے کیا ۔۔۔۔
مولوی صاحب کے ڈرائنگ روم میں اتے ہی دونوں لڑکوں کی طرف سے نکاح کی رسم ادا کی گئی تھی ۔۔اپنے نکاح میں اپنی اپنی محبت کو قبول کرتے وقت جو سکون جو خوشی اُس وقت اُن دونوں نے محسوس کی تھی وہ نہ قابلِ بیان تھی۔۔۔۔سب سے گلے ملتے اُن دونوں نے مبارک باد وصول کی۔۔۔
آصف صاحب نہایت عاجزی سے خضر کے سامنے کھڑے ہوئے شاید ایک جھجھک سی تھی ایک عرصہ اُنہوں نے خضر کے لیے نوکری کی تھی اور اب اچانک رشتا بدل گیا تھا۔۔۔۔
بابا ۔۔خضر کہتے ساتھ اُنکے گلے لگا۔۔۔
آپکی لاڈو کو اپنی ملکہ بنا کر لے جا رہا ہو آپ جتنا پیار تو شاید ہی اُس سے میں کرسکو لیکن یہ وعدہ کرتا ہوں اُسے خوش رکھو گا۔۔۔اُنکے گلے لگے خضر نے دھیمی آواز میں کہا۔۔۔
آصف صاحب مسکرا دئیے اُسکی بات پر۔۔۔
آپکا بہت بہت شکریہ ۔۔خضر سے الگ ہوتے آصف صاحب نے کہا۔۔
شکریہ آپکا بابا جو اپنی بیٹی آپ نے میرے حوالے کی ۔۔۔۔آپ نے بیٹی دی ہے۔۔شکریہ آپکو نہیں کہنا چاہئے شکریہ تو مجھے آپکا ادا کرنا چایئے۔۔۔۔خضر نے انکا ہاتھ پکڑتے نرمی سے کہا۔۔۔
آصف صاحب نے اپنے رب کا شکر ادا کیا جنہوں میں اُنکی بیٹی کے نصیب میں ایک نیک لڑکا لکھا تھا جو دوسروں کی عزت کرنا جانتا تھا۔۔۔
نکاح کی رسم ادا ہوتے ہی دونوں لڑکیوں کو ڈرائنگ روم میں لایا گیا تھا۔۔۔۔
اُن دونوں کو ڈرائنگ روم داخل ہوتے دیکھ خضر اور کامل اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔۔
سامنے اُن دونوں کو دلہن بنا دیکھتے دونوں لڑکوں کی دل کی دھڑکنیں منتشر ہوئی تھی وہ یک تک اُن کو دیکھتے گئے جو سہج سہج کر قدم اٹھاتی اُن تک آرہی تھی ۔۔۔۔
شجیہ کا ایک ایک بڑھتا قدم خضر کی دل کی دھڑکن کو بڑھا گیا تھا نیلی انکھوں میں شرم و حیا لیے وہ کبھی اپنی پلکوں کی جھل من اٹھاتے اُسکی طرف دیکھتی تو کبھی اپنی نظروں کو جھکا لیتی ۔۔۔
ہائے یہ ادا۔۔۔اس ادا پر خضر شجاعت چوہدری نثار ہوا تھا۔۔۔۔
فاطمہ اماں کے ہاتھ سے فلک کا ہاتھ تھامے اُس نے احتیاط سے اُسے اپنے ساتھ بٹھایا دونوں لڑکیوں نے اپنے لیے کپڑے ایسے سیلکٹ کیے تھی جن میں وہ آرام سے بیٹھ سکتی تھی ۔۔۔۔۔۔
دا پتھان قربان ستا پر ما جان دی
(یہ پٹھان قربان ہے آپ پر میری جان)
کامل نے فلک کے کان کے پاس جھکتے سرگوشی کی۔۔۔
فلک کو سمجھ تو نہ ایا تھا کہ کامل نے کیا کہا ہے لیکن کامل۔کی اس قدر نزدیکی پر اور اُسکی گرم سانسیں اپنے کان پر محسوس کرتے اُسکا۔رنگ لال ضرور ہوا ۔۔۔۔
اتنی بھی سادگی اچھی نہیں لگتی اب دیکھو گاؤں کے سردار کا نکاح اور وہ بھی اتنا سادہ۔۔۔چاچی نے نخوت سے کہا ۔۔۔۔
شجیہ نے آصف صاحب کی طرف دیکھا ۔۔اُنکی جتنی حثیت تھی اُس حساب سے اُسکے بابا نے سب کچھ بہت اچھے سے کیا تھا اور شجیہ کی ہی خواہش تھی اُسکا نکاح سادگی سے کیا جائے۔۔۔۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق جس شادی میں کم خرچہ کیا جائے اُس شادی میں رب کریم کی طرف سے برکتیں نازل ہوتی ہے۔۔۔۔
غرض یہ کا سادگی سے نکاح کرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔۔۔بلکہ ہم سب کو چایئے کہ سادگی سے شادی کرے۔۔۔تاکہ کسی باپ پر اسکی بیٹی کی شادی بوجھ نہ بنے۔۔۔۔شجیہ نے سنجیدگی سے چاچی کی طرف دیکھتے جواب دیا جو منہ بناتی چپ ہوئی۔۔۔جبکہ خضر اپنی بیوی کی سوچ پر مسکرا گیا۔۔۔۔
شجیہ کے کہنے پر ہی سادگی سے نکاح طے ہونا پایا تھا اور اُسکی بات پر کسی کو اعتراض بھی نہیں تھا۔۔
مہمانوں کے ملنے ملانے کے بعد رخصتی کا وقت کا وقت آیا۔۔۔۔شجیہ اپنے بابا کے سینے سے لگی خوب روئی کچھ۔ ایسا ہی حال فلک کا بھی تھا ۔۔۔۔۔کامل اپنی فیملی کے ساتھ کراچی میں اپنے فارم ہاؤس میں ہی شفٹ ہوگئے
سب سے ملتے وہ دونوں اپنی اپنی گاڑیوں میں سوار ہوئی تھی۔۔۔
خضر آپ نے وہ کیا جو میں نے کہا تھا آپ سے۔۔۔گاڑی میں بیٹھتے شجیہ نے خضر سے پوچھا۔۔۔
ہاں جی تمھاری کوئی بات ہم ٹال سکتے ہے۔۔۔خضر نے اُسکا ہاتھ اپنے لبوں سے چومتے کہا جس پر شجیہ اپنا سر جھکائے مسکرا دی۔۔۔۔
کراچی کے ایک سرکاری ہسپتال کے باہر کامل اور خضر کی گاڑی رکی تھی۔۔۔۔
اور اُنکے پیچھے ایک اور گاڑی ۔۔۔۔
خضر اور کامل نے احتیاط سے اُن دونوں کو گاڑی سے باہر نکالا ۔۔۔۔
شجیہ اور فلک نے ہسپتال کی طرف دیکھا جہاں ڈھیروں لوگ پریشانی سے بھوکے پیٹ اپنے پیاروں کو لیے بیٹھے سخت گرمی میں انکے علاج کے لیے خوار ہورہے تھے کوئی ہاتھ میں دوائیوں کی پرچی تھامے میڈیکل کی طرف بھاگ رہا تھا تو کوئی پانی یہ کھانے کا انتظام کر رہا تھا کوئی اسٹریچر پر لیتے اپنےعزیز کی اُمید باندھ رہا تھا۔۔۔۔غرض یہ ہر طرف نفرہ نفری تھی۔۔۔۔۔
گاڑی کی ڈگی میں رکھے گئے کھانے کے باکس اٹھاتے فلک اور شجیہ اندر کی طرف بڑھی کامل اور خضر نے اپنے ہاتھوں میں جوس اور پانی کے کا ٹن تھامے۔۔۔۔
یہ اُنکے نکاح کا کھانا تھا جو اُنہوں نے ان لوگوں میں تقسیم کرنے کا سوچا تھا ۔۔۔
وہ دونوں پہلی دلہنیں تھی جو اپنے نکاح کا کھانا ایک سرکاری ہسپتال میں بیٹھے لوگوں میں تقسیم کر رہی تھی۔۔۔۔
نرم مسکراہٹ لیے لوگوں کی طرف کھانے کے باکس بڑھاتے وہ سب کو حیران کر گئی تھیں۔۔۔۔نہ جانے کتنے لوگوں نے اُن چاروں کو اپنی نیک دعاؤں سے نوازا تھا۔۔۔۔نہ جانے کتنے لوگ وہاں ایسے تھے جن کی جیبوں میں کھانے کے پیسے نہیں تھے ۔۔جو بھوکے پیٹ وہاں موجود تھے۔۔۔۔یہ کوئی اپنی جیب میں پڑے چند پیسوں کو دیکھتے یہ سوچ رہا تھا کہ ان پیسوں سے وہ کیا لے جس سے اُسکے ساتھ موجود اُسکے عزیز کا پیٹ بھر جائے۔۔۔۔
یہ کوئی پبلسٹی سٹنٹ نہیں تھا۔۔۔یہ ایک احساس تھا ۔۔یہ انسانیت تھی۔۔۔۔۔اگر آپکو اللہ نے اتنی توفیق دی ہے کہ آپ کسی کے کام اسکو اُسکی مدد کر سکو تو کبھی پیچھے مت ہٹنا بلکہ خوش ہونا کہ اللہ نے آپکو اس قابل بنایا ہے۔۔۔
💗💗💗
ایک سال بعد۔۔۔
کیا سوچا ہے پھر۔۔۔خضر نے ہسپتال کے ایک کمرے کے باہر کھڑے ہوتے کامل سے پوچھا۔۔۔
میں اُسے لے کر آسٹریلیا جا رہا ہو۔۔۔کامل نے اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے خضر سے کہا۔۔۔
یہی اُسکے لیے بہتر ہے اگر باہر جاکر اُسکا علاج اچھے سے ہوسکتا ہے تو میں یہ بھی کرونگا۔۔۔کامل نے خضر کی طرف دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
ٹھیک ہے پھر تیاری کرو جانے کی۔۔۔خضر نے اُسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھتے کہا۔۔۔کامل نے اثبات میں سر ہلایا اُسکی بات پر ۔۔
💗💗💗
عروہ بیٹا ماما کو تنگ مت کرو جلدی سے کھانا کھا لو ۔۔فلک نے اپنی ڈھیر سالہ بیٹی کی طرف چمچ بڑھاتے کہا ۔۔جو اپنے لب آپس میں ملائے اپنا منہ نہیں کھول رہی تھی۔۔۔۔
بلکل اپنے باپ پر گئی ہے آپ ۔۔بہت تنگ کرتے ہیں آپ دونوں مجھے اب ماما رو دے گی ۔۔۔فلک کی آنکھوں میں نمی چمکی ۔وہ پچھلے ایک گھنٹے سے عروہ کو کھانا کھلانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن عروہ کھا لے مجال ہے۔۔۔۔
کیا برائی ہو رہی ہے میری بیٹی سے میری۔۔۔۔کامل نے کمرے میں اتے عروہ کو اپنی گود میں لیتے فلک کی طرف دیکھتے پوچھا۔۔۔
جی نہیں برائی نہیں ہو رہی تھی۔۔۔آپکی یہ بیٹی کھانا نہیں کھا رہی لے اب خود ہی کھلائے تھک گئی ہو میں ۔۔۔فلک نے کامل کے پاس اتے اُسکے آگے باؤل بڑھاتے ہوئے کہا جب کامل نے ایک جھٹکے سے اُسکی قمر میں ہاتھ ڈالتے اُسے اپنے نزدیک کیا تھا۔۔۔
اور عروہ اپنے باپ کی اس حرکت پر تالیاں بجانے لگی۔۔۔
بہت تیز ہے آپکی بیٹی ۔۔۔فلک نے چمچ دوبارہ عروہ کی طرف بڑھاتے کہا جس نے ابکی بار آرام سے کھا لیا تھا۔۔۔
جی نہیں میری بیٹی سب سے زیادہ معصوم ہے۔۔۔کامل۔نے فوراً سے نفی کرتے اپنی بیٹی کے گال پر پیار کیا۔۔۔
ہاں ایک آپ معصوم اور آپکی بیٹی معصوم میں تو بہت تیز ہو۔۔۔فلک نے نروٹھے پن سے اُسکے حصار میں کھڑے کہا۔۔
نہیں میری حیاتی تو سب سے زیادہ معصوم ہے۔۔۔کامل نے اُسکے لبوں پر بیباک گستاخی کرتے نرمی سے کہا۔۔۔
عروہ کے سامنے کامل کی اس حرکت پر فلک کا رنگ گلابی ہوا۔۔۔۔
ما ماما کسی۔۔۔اپنے دونوں ہونٹوں کو آگے کرتے عروہ نے بھی فلک کو کس کرنا چاہا ۔۔۔۔فلک مسکراتی آگے ہوئی۔۔۔۔اور دونوں اپنی بیٹی کی حرکت پر ہنس دیے۔۔۔۔
کامل کی طرح سبز آنکھیں ۔۔۔پٹھانی نین نقش وہ ہو بہو کامل جیسی تھی۔۔۔۔۔کامل اور فلک کی بیٹی عروہ خان ۔۔۔۔
💗💗💗💗
ہسپتال گئے تھے آپ۔۔۔۔فلک نے کامل کے سینے پر سر رکھتے اُس سے پوچھا ایک نظر اپنی بیٹی کو دیکھا جو اپنے کارٹ میں سو رہی تھی۔۔۔۔
ہم۔۔۔۔کامل نے فلک کی قمر میں ہاتھ ڈالتے اُسے ایک جھٹکے سے اپنی گرفت میں لیتے کروٹ بدلی ۔۔۔۔
کیسی ہے وہ۔۔۔فلک نے کامل کی پلکوں کو چھوتے پوچھا۔۔۔
ٹھیک نہیں ہے وہ کوما سے باہر انے کے بہت کم چانسز ہے باہر ملک جانا پڑے گا ۔۔۔۔کامل نے اُسکی ناک سے اپنی ناک مس کرتے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔
ہم جا رہے ہیں پھر باہر ملک۔۔۔فلک نے اپنے ہاتھ کامل کی گردن میں باندھتے پوچھا۔۔۔
ہاں جانا پڑے گا۔۔۔کامل نے اُسکے دونوں گالوں پر اپنا۔لمس چھوڑتے کہا۔۔۔
تھک گئے ہے۔ ۔۔۔کامل کے لبوں کا لمس اپنے گالوں پر محسوس کرتے فلک نے پوچھا۔۔
ہاں اور وہی دور کر رہا ہو۔۔۔کامل نے کہتے اُسکی گردن میں اپنا منہ چھپایا اور وہاں اپنا لمس چھوڑا ۔۔فلک اُسکے بالوں میں اپنی اُنگلیاں چلاتی اُسکا لمس اپنی گردن پر محسوس کرنے لگی۔۔۔۔
جب کامل اُسکے چہرے پر جھکتے اُسکے لبوں پر اپنے لب رکھ گیا تھا۔۔۔ایک دوسرے کے لمس کو محسوس کرتے وہ ایک دوسرے میں کھوتے چلے گئے تھے۔۔۔۔
اُنکی زندگی حسین تھی ایک دوسرے کے ساتھ۔۔۔کامل خان کے لئے اُسکی حیاتی اور اُسکی بچی اُسکی زندگی تھے جن کے بنا وہ اپنی زندگی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔۔۔
اور فلک اُسکے لیے اُسکا یہ نرم مجاز پٹھان جو صرف اُسکے معاملے میں نرم ہوتا تھا اور اُسکی بیٹی اُسکی زندگی تھی۔۔۔۔
💗💗💗💗
خضر نے اپنے کمرے میں قدم رکھا تو چہرے پر مسکراہٹ دور گئی۔۔۔
سامنے اُسکی متائے حیات اُسکے بیٹے کے پیٹ پر ہاتھ رکھے گہری نیند میں تھی ۔۔
دونوں ماں بیٹا ۔۔مجھے بھول کر نیند کے مزے لے رہے ہیں۔۔۔خضر نے دھیمی آواز میں خود سے کہا۔۔۔اور بیڈ تک ایا۔۔۔
نظر اپنے بیٹے پر گئی ۔۔۔اُسکا عزیر بلکل اپنی ماں کی طرح ۔۔۔چھوٹے چھوٹے معصوم سے نین نقش۔۔۔اُس نے نہایت نرمی سے اُسکے چھوٹے سے ہاتھ کو اپنے لبوں سے چھوا۔۔۔
نظر اپنی بیوی پر گئی جو اب اپنی نیلی آنکھیں کھولے اُسکی طرف مسکراتے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا خضر اُسکے قریب ہو اور وہ اُسکی موجودگی سے غافل رہے وہ تو اپنے شوہر کو اُسکی اہٹ سے بھی پہچان لیتی تھی۔۔
کیسی ہو میری جان۔۔۔خضر نے شجیہ کے پاس اتے اُسے اپنے حصار میں لیتے پوچھا۔۔۔
ٹھیک ہو ۔۔۔مل لیے آپ اپنے بیٹے سے۔۔۔۔شجیہ نے خضر کے ماتھے پر بکھرے بالوں کو سنوارتے پوچھا۔۔۔
بیٹے سے مل لیے لیکن اُسکی ماں سے ملنا ابھی باقی ہے۔۔۔خضر نے شجیہ کے لبوں کو فوکس میں لیتے کہا۔۔۔
خضر کی نظروں کا ارتکاز اپنے لبوں پر محسوس کرتے شجیہ کی پلکیں لرزی۔۔۔
خضر نرمی سے اُسکے ہونٹوں پر جھک ایا ۔۔۔اُسکی سانسوں میں اپنی سانسیں شامل کرتا وہ اُس سے دور ہوا۔۔۔
تمہارا جتنا شکریہ ادا کرو اتنا کم ہے میری جان ۔۔۔کس کس چیز کا شکریہ کرو۔۔۔مجھ سے محبت کرنے کے لیے مجھے باپ کے مرتبے پر فائز کرنے کے لیے میرے ہر سُکھ دکھ میں میرے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے۔۔۔خضر نے شجیہ کے ماتھے پر بوسا دیتے کہا۔۔۔۔
آپ بس میرے ساتھ رہے میرے پاس مجھ سے اسی طرح محبت کرتے رہے۔مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔۔۔آپ سے محبت کرنا مجھ پے فرض تھا ۔۔۔اور میں یہ فرض مرتے دم تک نبھاؤں گی۔۔۔مجھے اگر پوری دنیا کو چیخ چیخ کر بھی یہ بتانا پڑے کہ میں آپ سے محبت کرتی ہو میں بتاونگی۔۔۔میں فخر سے کہتی ہو مجھے میرے شوہر سے محبت ہے مجھے آپ سے عشق ہے خضر شجاعت چوہدری ۔۔۔شجیہ نے خضر کی گلے کی اُبھرتی ہڈی پر اپنے لب رکھتے کہا۔۔۔۔
میری دنیا مکمل ہے جس میں تم ہو اور ہماری یہ پیار کی چھوٹی سی نشانی ہے۔۔۔۔۔خضر نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔۔
بلکل ہماری دنیا مکمل۔ہے۔۔۔شجیہ نے خضر کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھتے مسکراہٹ لیے کہا۔۔۔
خضر شجیہ کے لبوں پر جھکنے لگا جب ایک ننھی سی آواز گونجی۔۔۔
چوہدری شاحب۔۔۔۔اپنی آنکھیں جھپکتے وہ آٹھ کر بیٹھتے اپنے باپ کو پکار رہا تھا۔۔۔۔شجیہ ہنس پڑی۔۔۔
خضر نے تیز نظروں سے اپنے اس چھوٹے پیکٹ کو دیکھا جس نے اُسکے اور اُسکی بیوی کے بیچ میں اتے انکا سپشل مومنٹ خراب کیا تھا۔۔۔
ایک یہی لفظ تھا جو وہ صاف بولتا تھا۔۔۔۔نہ جانے کب شجیہ کے منہ سے یہ لفظ سنتے وہ خضر کو اسی نام سے بلانے لگا تھا۔۔۔۔
چوہدری صاحب کے بچے تھوڑی دیر اور نہیں سو سکتا تھا مجھے اپنی بیوی سے صحیح طرح سے ملنے تو دیتا۔۔۔۔خضر نے شجیہ سے دور ہوتےعزیر کے پاس اتے اُسکے نزدیک اپنا سر رکھتے کہا۔۔۔
نہیں۔۔۔ممی میری ہے۔۔۔عزیرنے جلدی سے کہا۔۔۔
کیا کہا۔۔وہ میری ہے۔۔۔خضر نے غصے بھری نظروں سے اُسکی بات پر اُسکی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
نہیں میری ہے۔۔۔وہ بھی اسی کا بیٹا تھا۔۔۔۔
میری ہے وہ۔۔باپ کون سا کسی سے کم تھا۔۔۔
میری ہے میری ہے میری ہے۔۔۔۔خضر کے بالوں کو اپنی مٹھیوں میں بھینچے کھینچتے وہ چیختا ہوا بولا ساتھ ساتھ نیلی انکھوں میں تیزی سے آنسو بھی جمع ہوئے۔۔۔اور خضر اُسکی حرکت پر بھونچا کر رہ گیا۔۔۔
دیکھا رلا دیا میرے بچے کو بس ماما۔کی جان میں آپکی ہو ۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔اپنے بیٹے کو روتا دیکھ شجیہ نے جلدی سے اُسے اپنی گود میں اٹھایا ۔۔۔۔
خضر کو تو اُسکی بات پر پتنگے ہی لگ گئے تھے۔۔۔
اور جو تمہارے بیٹے نے مجھے غنجا کرنے کی کوشش کی ہے اُسکا کیا۔۔۔خضر نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے کہا۔۔۔
ہوئے تو نہیں نہ اتنے گھنے بال ہے ایک دو ٹوٹ جائے گے تو کچھ ہو نہیں جائے گا۔۔۔شجیہ کہتی کمرے سے نکلتی چلی گئی اور خضر نفی میں سر ہلا گیا۔۔۔
پھر اپنے بیٹے کی حرکت یاد ائی تو مسکرا گیا۔۔۔۔
💗💗💗
تین سال بعد۔،،،
کیا اُسے بتا دینا چاہیے اس بارے میں۔۔۔خضر نے فون پر دوسری طرف کامل سے پوچھا۔۔۔۔
نہیں ڈاکٹر نے منع کیا ہے ماضی کی کوئی بات اُسکے سامنے ائی تو اُسکی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے میں رسک نہیں لے سکتا میں نے صرف اُسے بہن کہا نہیں مانا بھی ہے ۔۔۔کامل نے لون میں کی طرف دیکھتے کہا جہاں انابیہ فلک اور عروہ بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔
ان تینوں سالوں میں وہ بھی بدل گیا ۔۔۔اگر اُسے غلطی سے بھی پتہ چلا کہ انابیہ زندہ ہے وہ ایک قہر برپا کر دے گا جانتے ہو یہ بات تم بھی۔۔۔خضر نے پریشانی سے کہا۔۔۔
میں اُسے کبھی انابیہ کے پاس انے نہیں دونگا۔۔۔بہت مشکلوں سے اُسکی جان بچائی ہے اللہ نے دوبارہ اُسکی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتا میں۔۔۔۔کامل کا لہجہ سخت ہوا۔۔۔
آج اُسے آزادی مل رہی ہے انڈر ورلڈ کے سارے راز بتانے پر اُسکی سزا میں کمی کردی گئی تھی ۔۔۔۔خضر نے اُسے انفورم کیا۔۔۔
کامل نے پریشانی سے اپنا ماتھا رب کیا۔۔۔اور اپنا فون بند کرتے جیب میں رکھا۔۔۔
ایک نظر انابیہ کے ہنستے چہرے کو دیکھا ڈاکٹر نے اُسکے وجود سے پانچ گولیاں نکالی تھی۔۔۔بہت کوششوں کے بعد اُسکا آپریشن کامیاب ہوا تھا لیکن وہ کوما۔میں۔چلی گئی تھی۔۔۔
تین سال پہلے وہ انابیہ فلک اور عروہ کو لئے آسڑیلیا آگیا تھا ۔۔جہاں پر علاج ہونے پر انابیہ ہوش میں آگئی تھی لیکن دماغ پر گہرا اثر پڑنے کی وجہ سے وہ اپنی یاداشت کھو چکی تھی۔۔۔کامل نے اُسے اپنی بہن کے نام سے یہاں سب سے انٹرڈیوز کروایا تھا اُسکے سارے لیگل ڈاکومنٹ پر بھی وہ کامل خان کی بہن تھی۔۔۔۔اور اُسے وہ بہنوں کی طرح ہی عزیز تھی۔۔۔۔
انابیہ کو فقط اتنا بتایا گیا تھا کا اُسکا چھوٹا سا ایکسڈنٹ ہوا ہے جس کی وجہ سے اُسکی یاداشت چلی گئی ہے۔۔اور وہ اس بات پر یقین بھی کر بیٹھی تھی۔۔۔۔
کامل نہیں چاہتا تھا لیپڑد کبھی انابیہ تک پہنچے کیونکہ ڈاکٹرز کے مطابق ماضی کی کوئی بھی بات دوبارہ انابیہ کی جان کو خطرے میں ڈال دے گی جو کامل نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔
بس یہی اُسکی زندگی تھی اور وہ اس میں بہت خوش تھا لیکن انابیہ تک اُسکا لیپرڈ نہیں پہنچ پائے گا یہ اُسکی غلط فہمی تھی انابیہ اور لیپرڈ کے دل آپس میں جڑے تھے ایک نہ ایک دن وہ دونوں آمنے سامنے انے والے تھے۔۔۔اور تقدیر بہت جلد ایسا کرنے والی تھی۔۔
💗💗💗
خضر نے فون رکھتے شجیہ کی طرف دیکھا جو عزیر کے ساتھ کھیل رہی تھی ان تین سالوں میں وہ اپنی ڈگری مکمل کر چکی تھی اور اب ڈی ایس پی کے توڑ پر اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہی تھی ۔۔۔
اپنی اس چھوٹی سی فیملی میں وہ بہت خوش تھا۔۔۔وہ اپنے رب کا جتنا شُکر ادا کرتا اتنا کم تھا جس نے اُسکی زندگی میں شجیہ جیسی ہمسفر لکھی تھی۔۔۔
جس نے اُسکی خامی کو خامی نہ سمجھتے اُس سے محبت کی تھی۔۔۔۔
💗💗💗💗
سینٹرل جیل سے قدم باہر رکھتے تیز دھوپ اُسکی آنکھوں میں پڑی اور وہ اپنی آنکھیں مینچ گیا۔۔۔
اور آنکھیں بند کرتے ہی ایک نازک سا مسکراتا سراپا اُسکی آنکھوں کے پردوں پر لہرایا ۔۔۔
چند لمحے بعد اُس نے اپنی آنکھیں کھولی ۔۔۔۔اور اس پاس دیکھا۔۔۔اور اُسے شدت سے یہ محسوس ہوا کہ یہ دنیا تو اسکے کسی کام کی نہیں تھی۔۔جو اُسکی دنیا تھی اُسے وہ خود اپنے ہاتھوں سے دور کر چکا تھا۔۔۔
اب بس شدت سے اُسے اپنی موت کا انتظار تھا۔۔۔کالی آنکھوں میں اب کوئی تاثر نہیں تھا سنجیدہ چہرہ مزید سنجیدگی میں ڈوب گیا تھا اُسے دیکھتے ایسا گمان ہوتا تھا جیسے وہ کوئی روبوٹ ہے۔۔۔
اور دل وہ ۔۔۔وہ مردہ ہو چکا تھا۔۔
یہاں خضر،شجیہ، کامل فلک کا سفر ختم ہوا تھا اور اب لیپرڈ اور انابیہ کی کہانی کا صفحہ شروع ہوا تھا۔۔جہاں محبت تھی نفرت تھی جنون تھا تڑپ تھی۔۔۔
💗💗💗
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial