قسط: 3
شجیہ نے ایک نظر خضر کو دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
ابھی ابھی اُسکا نکاح سامنے موجود انسان سے ہوا تھا ۔۔۔۔وہ اُسکا شوہر اُسکا محرم بن گیا تھا۔۔۔۔۔۔
لڑکی ہمیں اج ہی حویلی کے لئے نکلنا ہے تاکہ سب کو تمہارے بارے میں معلوم ہو سکے ۔۔۔خضر بے تاثر آواز میں گویا ہوا ۔۔۔۔
شجیہ کو اُسکی بات پر حیرت ہوئی بھلا وہ کیسے اپنی ماں اور باپ کو چھوڑ کر جا سکتی تھی۔۔۔۔
لیکن۔۔۔میرے بابا۔۔۔شاجیہ نے بولنا چاہا۔۔۔۔
پیسے پُہنچ گئے ہے علاج بھی شروع ہوگیا ہے اُسکے علاوہ تمھاری مان کا بھی پورا خیال رکھا جائے گا صرف دو دِن کی بات ہے پھر ہم یہاں واپس آجائے گے ۔۔۔۔
اُسکے بعد تُم اس گھر میں رہنا چاہو تو رہ سکتی ہو لیکن اگر نہیں رہنا چاہتی تو بھی تمھاری مرضی ہے لیکن جب بھی مجھے تمھاری ضرورت ہوئی تمہیں یہاں انا پڑے گا۔۔۔
خضر نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔
آخری بار بابا سے مل لوں پھر چلتے ہیں۔۔۔شجیہ نے ایک نظر اُس مغرور انسان کی پشت کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
چلو۔۔۔باہر گاڑی تیار ہے۔۔۔خضر نے کہتے ساتھ اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے۔۔۔۔۔
شجیہ نے اُسکی نظراندازی پر اپنی آبرو ریز کردی۔۔۔۔خضر نے مشکل سے صرف تین سے چار بار اُسکی طرف دیکھا ہوگا۔۔۔۔۔
کالی چمکدار گاڑی کو دیکھتے شجیہ کی آنکھیں چمکی۔۔۔اُسے گاڑیاں بہت پسند تھی۔۔۔وہ بی ایس انگلش کر رہی تھی اُسکا ارادہ سی ایس ایس کرنے کا تھا لیکن اب اُسے اپنا خواب ٹوٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔
خضر جاکر گاڑی کی پچھلی نشست پر براجمان ہوا۔۔۔۔
شجیہ اپنی اُنگلیاں چٹخاتی ہوئی کنفیوز سی پچھلا دروازہ کھول کر خضر سے فاصلہ رکھے بلکل دروازے کے ساتھ چپک کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔۔
یکدم اُسے اپنے پیٹ پر کسی کا دہکتا ہوا لمس محسوس ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے۔۔۔خضر اُسے اپنے قریب کھینچ چکا تھا۔۔۔۔
شجیہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلی۔۔۔۔سُرخ و سفید رنگت میں سرخیاں گهلی۔۔۔۔۔۔۔
شجیہ نے فوراً سے خضر کی طرف دیکھا جس کی آنکھیں اور چہرہ دونوں بے تاثر تھا۔۔۔۔
دروازہ صحیح سے بند نہیں ہوا ہے اسی طرح دروازے سے لگ کر بیٹھی رہتی تو سیدھا زمین پر گر چکی ہوتی۔۔۔۔۔خضر نے کہتے ساتھ اُسکے پیٹ پڑ سے اپنا ہاتھ بٹایا۔۔۔اپنے وجود سے دہکتے لمس کے ہٹنے پر شجیہ نے سکون بھرا سانس بھرا تھا۔۔۔
اتنے قریب سے خضر کے وجود سے اٹھتی مردانا پرفیوم کی خوشبو اُسکے حواسوں کو جھنجھوڑ گئی تھی۔۔۔
شجیہ نے جلدی سے اپنے سر سے سرکتی چادر صحیح کرتے خضر سے تھوڑا فاصلہ بنایا۔۔۔۔۔
پورے راستے وہ وقفے وقفے سے اُس یونانی دیوتاؤں جیسے حسن رکھنے والے شخص کو دیکھ رہی تھی جو سب کو یکسر نظرانداز کئے ۔۔۔اپنے ہاتھ میں موجود موبائل پر مصروف تھا۔۔۔۔
کیسا انسان ہے ہر وقت موبائل میں ہی گھسا رہتا ہے۔۔۔۔شجیہ کی بڑبڑاہٹ خضر کے تیز کانوں سے ٹکرائیں تھی۔۔۔۔خضر نے اپنے جبڑے بھینچے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی عمر کے بڑے لوگوں سے تمیز سے بات کرتے ہیں اور جب اُن کے بارے میں بڑبڑا رہے ہوتے ہے تب بھی تمیز کا خاص خیال رکھنا چایئے۔۔۔۔۔خضر نے ایک نظر شجیہ کے ہونک بنے چہرے کو دیکھ کر واپس اپنی نظریں موبائل پر مرکوز کی۔۔۔۔۔
نہیں تو میں تو نہیں بڑبڑا رہی۔۔۔آپ کے کان بج رہے ہیں۔۔۔۔۔شجیہ نے گڑبڑا کر کہا۔۔۔۔اور اپنی زبان دانتوں تلے دبائیں۔۔۔۔۔
خضر نے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں اُنکی گاڑی ہسپتال کے باہر تھی۔۔۔۔
شجیہ حیرت سے ان گارڈز کی فوج کو دیکھ رہی تھی جو خضر کے گاڑی سے اترنے سے پہلے ہی باہر تعینات ہوگئی تھی۔۔۔۔
ہوش تو تب ایا جب گاڑی کا دروازہ بند ہونے کی آواز کانوں سے ٹکرائیں۔۔۔۔۔
شجیہ نے جب خضر کو باہر دیکھا تو خود بھی باہر نکلی۔۔۔۔ارد گرد لوگ حیرت اور ستائش سے اُن دونوں کو دیکھ رہے تھے۔۔۔
ایک اگر یونانی دیوتاؤں جیسا تھا تو دوسری آسمان سے اُتری اپسرا کی مانند تھی۔۔۔۔۔
شجیہ کا دل دھڑکا تھا اپنی ماں کے بارے میں سوچتے ہوئے۔۔۔۔۔
خضر کے بھاری قدموں کے پیچھے چلتی ہاسپٹل کے اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔۔۔
جہاں سامنے ہی اُسے اُسکی مان نظر ائی۔۔۔۔
اماں ۔۔۔شجیہ نے اُنہیں پُکارا جو ہاتھ میں تسبیح لئے ورد کر رہی تھی شجیہ کی آواز پر انہوں نے اپنا سر اٹھایا تو شجیہ کے ساتھ کھڑے اس حسین مرد کو اجنبی نظروں سے دیکھا۔۔۔۔۔
لاڈو ۔۔۔۔تیرے بابا کا علاج شروع ہوگیا ہے پتہ نہیں کون نیک بندہ تھا جس نے مدد کی۔۔۔۔۔نسرین نے عاجزانہ لہجے میں کہا۔۔۔۔
اماں یہی ہے وہ ابا کے مالک جنہوں نے مدد کی۔۔۔شجیہ نے خضر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔جو لا پرواہ سا وہاں کھڑا تھا۔۔۔۔۔دونوں ہاتھ اپنی پینٹ کی جیب میں ڈالے۔۔۔۔۔
بہت بہت شکریہ آپکا ہماری مدد کرنے کا۔۔۔۔نسرین نے شکریہ کہا۔۔۔۔۔اور شجیہ نے اُسے بتانے کے لئے لفظ سوچ رہی تھی کہ کیسے اپنی مان کو بتائے اپنے نکاح کے بارے میں۔۔۔۔۔
چلے اب۔۔۔۔۔خضر نے اپنے ہاتھ میں پہنی گھڑی پر ایک نظر ڈالتے ہوئے شجیہ سے پوچھا تھا۔۔۔نسرین کے شکریہ کا اُس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔۔۔جو بات شجیہ کو انتہائی بری لگی تھی۔۔۔۔۔
کہاں۔ ۔نسرین نے الجھن بھرے لہجے میں کہا بھلا وہ اُنکی لاڈو کو کہاں لے جانے کی بات کر رہا ہے۔۔۔جبکہ شجیہ نے غصے سے خضر کی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔کیا ضرورت تھی اس طرح بولنے کی ۔۔۔
اماں مجھے تُم سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔۔شجیہ نے نسرین کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ایک طرف لے جاتے کہا۔۔۔خضر نے ایک نظر شجیہ کے حسین چہرے کو دیکھا تھا جہاں ڈر بھی تھا اور معصومیت بھی وہ بار بار اپنے سر سے سرکتی چادر کو صحیح کر رہی تھی اور خضر اُسکی یہی بات نوٹ کر رہا تھا۔۔۔۔شجیہ کا اس طرح کرنا جانے کیوں اُسے اچھا لگ رہا تھا۔۔۔۔
وہ ایک لمبی سانس چھوڑتا۔۔۔۔وہی کھڑا اُسکی طرف دیکھنے لگا۔۔۔جو اپنی چپل میں مزین پاؤں کو کبھی دائیں کرتی کبھی بائیں کرتی اپنی اماں سے کچھ بات کر رہی تھی۔۔۔۔
وہ بہت حسین تھی اور خضر کو وہی صحیح لگی۔۔۔جو ایک سال کے لیے اُسکی بیوی بن سکتی تھی۔۔۔۔اُسے پتہ تھا اب جب وہ حویلی جائے گا تو اُسکے اور فلک کے رشتے کے بارے میں کوئی بات نہیں کرے گا ۔۔۔۔۔۔






اماں میرا نکاح ہوگیا ہے چوہدری صاحب سے اور ابھی میں نے اُنکے ساتھ اُنکی حویلی جانا ہے۔۔۔۔شجیہ نے بولتے ساتھ اپنی آنکھیں بند کی تھی ۔۔۔۔
یہ کیا بول رہی ہے لاڈو۔۔۔۔نسرین نے حیرت سے پوچھا۔۔۔
جس پر شجیہ اسے سب بتاتی چلی گئی۔۔۔۔۔
تو اپنے وجود کا سودا کر ائی ہے لاڈو۔۔۔۔یہ کیا کیا تو نے ۔۔۔نسرین نے اُسکے بازو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔۔۔۔
نہیں اماں ایسا کچھ نہیں ہے ہم میاں بیوی بے شک ہے لیکن کبھی اس رشتے کے تقاضے پورے نہیں کریں گے۔۔۔اماں میرا یقین رکھ صرف ایک سال کی بات ہے پھر سب ختم ہوجائے گا۔۔۔۔۔شجیہ نے نسرین کو سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اور جب تیرے باپ کو ہوش آجائے گا تو کیا بولوں گی میں بول مجھے۔۔۔۔نسرین نے آصف صاحب کی طرف شجیہ کا دہان دلایا۔۔۔۔۔
اماں بابا کو بھی میں سچ بتا دونگی ۔۔۔۔لیکن اگر میں یہ نہیں کرتی تو بابا نہیں ملتے ہمیں واپس اماں ۔۔۔ہم کہاں سے لاتے اتنے پیسے۔۔۔شجیہ نے اُسے اصلیت بتائیں۔۔۔۔
اب مجھے جانا ہوگا ۔۔۔شجیہ نے ایک نظر خضر کو دیکھ کر کہا جی واپس اپنے موبائل میں مصروف تھا۔۔۔۔
میری بچی ۔۔۔۔اللہ تجھے اپنے امآن میں رکھے۔۔۔۔میری بچی اپنا خیال رکھنا۔۔۔۔نسرین کو بات سمجھ آگئی تھی اسی لیے اُسے گلے لگا کر دعا دی۔۔۔شجیہ کی آنکھیں بھی نم ہوئی۔۔۔پہلی مرتبہ اپنے ماں باپ سے دور جا رہی تھی بے شک دو دِن کے لئے جا رہی تھی لیکن جا تو رہی تھی ۔۔۔۔۔
شجیہ نے نسرین کے ماتھے پر پیار کیا اُسکی شروع کی عادت تھی جب بھی اُسے کسی پر پیار اتا وہ اُسکے ماتھے پر اپنے لب رکھتی تھی۔۔۔۔
اپنا اور بابا کا خیال رکھنا۔۔۔۔شجیہ نے ہدایت دی اور ایک الوداعی نظر اپنی مان کو دیکھتے۔۔۔وہ خضر کی جانب بڑھی۔۔۔دل ایک بار اپنے جان سے عزیز بابا کو دیکھنے کا کیا لیکن یہ مجبوری ۔۔۔۔۔۔
شجیہ کے واپس اتے ہی خضر کچھ بھی بولے بنا۔۔۔باہر کی طرف بڑھ گیا اور اُسکے ساتھ کھڑے گارڈ ۔۔۔شجیہ کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔۔۔۔۔
شجیہ حیرت سے پیچھے مڑ کر سانڈ جیسی جسامت کے آدمیوں کو دیکھتی تیز قدموں سے خضر کی جانب بڑھ کر اُسکے ہم قدم ہوئی تھی ورنہ ان گارڈ کو دیکھ کر وہ ڈر گئی تھی۔۔۔۔۔۔






گاڑی میں بیٹھتے ہی اس بار شجیہ نے دروازہ صحیح سے بند کیا تھا۔۔۔اور گاڑی گاؤں کے راستے پر گامزن ہوگئی تھی۔۔۔۔۔
اور شجیہ باہر کے مناظر میں کھو گئی تھی ۔۔اپنے بابا اور اماں کا چہرہ آنکھوں کے پردوں پر لہرایا تو نیلی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ نکل کر سرخ و سفید گال کی زینت بنا۔۔۔۔۔
ایک نظر پلٹ کر اُس مغرور انسان کو دیکھا جو اب لیپ ٹاپ پر مصروف ہوگیا تھا۔۔۔شجیہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی ماتھے پر ننھے ننھے سے بل پڑے۔۔۔۔
آخر کیا تھا یہ شخص جو کسی روبوٹ کی مانند لگتا تھا۔۔۔۔
شجیہ نے اپنا سر جھٹکا ایک نظر اُسکی مہارت سے لیپ ٹاپ پر چلتی انگلیوں کو دیکھتی وہ اپنا سر جھٹک کر سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا گئی۔۔۔۔۔
دِن بھر کی تھکن کا اثر تھا آنکھیں بند کرتے ہیں گہری نیند اُس پر مہربان ہوگئی۔۔۔۔






رات کا وقت تھا ۔۔۔۔۔جہاں ہر طرف سناتا اور خاموشی کا راج تھا ایسے میں سبز آنکھوں والا وجود مکمل کالے لباس میں حویلی کے اندر کودا تھا۔۔۔۔۔۔
ایک نظر اطراف میں دیکھتے۔۔۔۔وہ مہارت کے ساتھ ایک کمرے کی بالکنی کے نیچے کھڑا ہوا اور سائڈ پر لگے پائپ پر مہارت سے چڑھتے۔۔۔وہ بالکنی میں کودا تھا مسکراتی نظروں سے گلاس وال کو کھلا دیکھ وہ سرشار سا ہوتا اپنے قدم اندر کمرے کی طرف بڑھا گیا تھا۔۔۔۔۔
کمرے میں نیم اندھیرا ہو رکھا تھا ایک سائڈ پر رکھے گئے لیمپ کی روشنی میں۔۔۔۔بیڈ پر موجود وہ نسوانی حسین وجود دھیمی دھیمی سانسیں بھرتا گہری نیند میں معلوم ہوتا تھا۔۔۔۔۔
قدم اُس نسوانی وجود کے پاس اٹھے۔۔۔۔۔
بیڈ پر موجود جگہ میں بیٹھتے۔۔۔سبز آنکھوں میں چمک لئے اُس نے اُس حسین وجود کے حسین چہرے پہ بکھرے۔۔۔بھورے بالوں کی لٹو کو اپنی شہادت کی انگلی سے ہٹایا تھا۔۔۔۔۔
بند آنکھوں سے ہوتے ہوئے نظر اُسکے گلابی لبوں پر آن ٹھہری جو آپس میں پیوست ہوئے تھے ۔۔۔شہادت کی انگلی۔۔۔سے گلاب کی پنکھڑی سے بھی نرم و نازک لبوں کو سہلایا تھا ۔۔۔حلق میں کانٹے سے چب اٹھے تھے ان لبوں کا جام پینے کے لئے دل نے بہت بری طرح اُکسایا تھا۔۔۔۔
خود پر سے ضبط کھوتے وہ خمار سے سرخ سے ہوتی سبز آنکھوں سمیت اُسکی گردن میں جھک ایا۔۔۔۔
ایک گہرا سانس بھرتے اُس کندن جیسے وجود کی روح پرور خوشبو اپنے وجود میں اتاری ۔۔۔۔
اپنے دہکتے لب اُسکی گردن پر رکھے وہ اُسکے وجود کے میٹھے لمس سے خود کے وجود میں پھیلی بیچینی کو دور کر رہا تھا۔۔۔۔۔
سامنے موجود وجود کی نیند بہت پکی تھی یہ تو وہ سونے کا ناٹک کر رہی تھی۔۔۔۔اتنی گہری نیند میں کوئی نہیں سوتا ۔۔۔۔
اُس نے اپنا سر اُسکی گردن سے نکالتے۔۔۔اپنی سبز آنکھوں سے سائڈ ٹیبل پر رکھی چیز کو دیکھا تو آنکھوں میں سختی اور غصے کا تاثر اُبھرا۔۔۔۔۔
سلیپنگ پلز کا پتہ اٹھا کر اپنی مٹھی میں بھینچا تھا۔۔۔۔
ایک سخت نظر فلک کے سوئے وجود پر ڈالی تھی۔۔۔۔۔۔
سزا ملے گی تمہیں۔۔۔ حیاتی (میری جان) ان سب چیزوں کی اپنی آنکھوں کو اتنا رُلانے کی خود پر ظلم ڈھانے کی سب کی سزا ملے گی۔۔۔۔سبز آنکھوں میں وحشت لئے وہ فلک کے کان کے پاس سرگوشی میں بولتے اُسکے کان کی لو کو اپنے دانتوں میں چبا گیا تھا لیمپ کی روشنی میں صرف اُسکی سبز آنکھیں اور عنابی لب نظر آرہے تھے۔۔۔۔
اپنی جیب میں رکھے موبائل پر میسج کی آواز پر وہ فلک سے دور ہوا تھا۔۔۔
فلک کے ماتھے پر اپنے لب رکھتے وہ ایک گہری نظر اُسکے وجود پر ڈالتے۔۔۔جتنی خاموشی سے کمرے میں داخل ہوا تھا اتنی ہی خاموشی سے کمرے سے نکلا۔۔۔۔بالکنی میں کھڑے ہوتے ایک آخری نظر اُس نرم و نازک وجود پر ڈالی تھی اور پھر جس طرح ایا تھا اُسی طرح اُس حویلی سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔






خضر اپنے لیپ ٹاپ پر مصروف تھا جب گاڑی کو جھٹکا لگنے سے یکدم شجیہ کا سر اُسکے کندھے پر گرا۔۔۔۔۔
خضر حیران ہوا۔۔۔۔ایسا نہیں تھا وہ ساتھ میں موجود وجود کو بھول گیا تھا لیکن اُسکا ایسے اچانک سے اُسکے قریب انا۔۔۔خضر کو عجیب لگا ۔۔۔۔
چادر سرک کر کندھے پر اگری تھی کالے گھنے سلکی بال اُسکے چہرے کو ڈھانپ گئے تھے۔۔۔۔
ز ندگی میں پہلی بار خضر کے ساتھ یہ صورتِ حال پیش ائی تھی ورنہ وہ اپنے نزدیک کسی نسوانی وجود کو برداشت نہیں کرتا تھا سوائے فلک اور فاطمہ اماں کے ۔۔۔۔۔۔
خضر نے اپنا دیمج ہاتھ شجیہ کے کندھے کے گرد رکھا۔۔۔۔۔اور دوسرے ہاتھ سے جلدی سے لیپ ٹاپ بند کر کے اسکے چہرے پر آئے بالوں کو پیچھے کیا۔۔۔۔
یہ نظارا ایسا تھا جیسے چاند کو کالے بادلوں نے ڈھانپ دیا ہو۔۔۔اور جیسے ہی بادل ہٹے۔۔۔۔چاند اپنی پوری اب و تاب سے چمکنے لگا۔۔۔۔۔
خضر مہبوت ہوتا شجیہ کو دیکھیں گیا اتنا مکمل حسن۔۔۔۔معصومیت اور اعتماد کے ساتھ۔۔۔وہ چند پل اُسکے چہرے کے نقش دیکھتا رہا ۔۔۔بند نیلی آنکھیں ۔۔ جو سامنے والے کو سمندر کی طرح اپنے اندر غرق کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی چھوٹی سی ناک۔اور گلابی بھرے بھرے لب۔۔۔پھولے گال وہ حسن کی مورت تھی جسے خدا نے فرصت سے بنایا تھا۔۔۔۔۔
یہ کیا کر رہا تھا وہ کیوں اس لڑکی پر سے نظر نہیں ہٹ رہی تھی اُسکی۔۔۔۔حسن تو اس نے بہت دیکھا تھا پھر کیوں وہ اُسکے چہرے سے نظریں ہٹا پا رہا تھا۔۔۔۔جب سے وہ اُسکے سامنے ائی تھی آنکھیں دغا دیتی اُسکو دیکھنے کی ضد کیے جا رہی تھی۔۔۔۔
خضر نے سٹپٹاتے اپنی نظریں اُسکے چہرے سے ہٹائیں تھی۔۔۔آرام سے اُسکا سر سیٹ کی پشت سے ٹکایا۔۔۔۔
اور اپنے آپکو سممبھالتے دوبارہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر بعد اُنکی گاڑی ایک وسیع حویلی کے سامنے رکی۔۔۔۔۔
گاڑی رکنے کی آواز پر شجیہ نے بھی اپنی آنکھیں کھولی اور حیرت سے باہر نظر اتا منظر دیکھا تھا جہاں ایک انہتائی خوبصورت حویلی اپنی پوری شان کے ساتھ کھڑی تھی۔۔۔۔۔
چلو ۔۔۔خضر نے اُسے محویت سے حویلی کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
خضر کی آواز پر وہ دھڑکتے دل سے اپنی چادر صحیح کرتی گاڑی سے باہر نکلی تھی۔۔۔۔۔
خضر نے آگے بڑھ کر پورے حق سے اُسکا ہاتھ تھاما تھا شجیہ نے خضر کے ہاتھ میں مقید اپنا ہاتھ دیکھا تھا ۔۔۔۔وہ سمجھ گئی تھی سب کے سامنے اچھے ایک دوسرے سے پیار کرنے والے میاں بیوی بننے کا وقت آگیا ہے ۔۔۔۔۔۔
خضر جیسے ہی حویلی میں داخل ہوا سامنے ہی فاطمہ اماں ۔۔۔داجی چاچی۔۔۔اور اُس ایک وجود کو بیٹھے دیکھا۔۔۔۔
جو خضر اور اُسکے ساتھ ایک حسین لڑکی کو دیکھتے فوراً سے اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے تھے۔۔۔۔۔
شجیہ سب کو ایک نظر دیکھ کر ڈر گئی تھی پتہ نہیں کیا ردعمل ہونا تھا سب کا۔۔۔اُسکی آنکھیں جھکی ہوئی تھی۔۔۔۔۔
جتنے حق سے خضر اُس لڑکی کا ہاتھ تھاما ہوا تھا اُنہیں کچھ کچھ پتہ لگ چکا تھا۔۔۔۔
خضر بچے۔۔۔۔کون ہے یہ۔۔۔فاطمہ اماں نے خضر کے سامنے اتے اپنے ازلی نرم لہجے میں پوچھا۔۔۔۔
بیوی ہے میری ۔۔۔فاطمہ اماں۔۔۔۔خضر نے شجیہ کے ہاتھ پر گرفت سخت کرتے بلند آواز میں کہا۔۔۔۔
اسکی بات پر سامنے کھڑے دو وجود بے یقین سے ہوئے تھے۔۔ جبکہ داجي اور فاطمہ اماں کی آنکھیں چمکی تھی۔۔۔۔
اُن دونوں کو بس یہی چائیے تھا خضر کی ز ندگی میں کوئی لڑکی شامل ہوجائے پھر چاہے وہ فلک ہو یا کوئی اور۔۔۔ویسے بھی شجیہ کا معصوم اور خوبصورت چہرہ دیکھتے وہ دونوں ہی مسکرا گئے تھے۔۔۔
جو لبوں پر ایک مسکراہٹ کے ساتھ خضر کے یہ الفاظ سن کر سر نیچے جھکا گئی تھی اُسے خود نہیں پتہ تھا اُسکے لبوں پر خضر کے یہ الفاظ سن کر مسکراہٹ کیوں ائی تھی۔۔۔۔
شاید دل کی بنجر زمین پر پھول کھلنے کی شروعات ہوئی تھی۔۔۔۔۔
اوہ ماشاللہ ماشاللہ دیکھے بابا کتنی پیاری ہے ہماری بہو ۔۔۔فاطمہ اماں نے شجیہ کا ماتھا چومتے ہوئے خوشی سے بھرپور چہرے سے کہا۔۔۔۔
ماشاءاللہ ۔۔۔۔داجی نے بھی مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔
اُنکی اتنی تعریف پر شجیہ کی رنگت لال ہوئی تھی ۔۔۔خضر کو اُسکے سفید چہرے پر اچانک سے اتی یہ لالی بہت بھائی تھی۔۔۔۔۔۔
ہن کہاں سے مل گئی ۔۔۔۔ضرور پیسے کے پیچھے ائی ہوگی۔۔۔۔چاچی نے زہر خند لہجے میں کہا۔۔۔اُنکی بات پر خضر کا چہرہ اسپاٹ ہوا تھا۔۔۔فاطمہ اماں اور داجی بھی سنجیدہ ہوئے تھے۔۔۔۔۔
شجیہ نے بھی سخت نظروں سے پیچھے کھڑی عورت کو ذرا سے دائیں جھکتے دیکھا تھا ۔۔جو جھلبل سے جوڑے میں میکپ کئے اُسے انڈیا کے سیریل کی۔ ساس لگی ۔۔۔۔
اوہ کتنی اچھی سوچ ہے آپکی۔۔۔۔شجیہ نے ویسے ہی تھوڑا سا دائیں جانب جھکے اُنکے چہرے کی طرف دیکھتے۔۔۔ہنستے ہوئے طنز مارا تھا۔۔۔۔۔
اور واپس سیدھی ہوتے اپنی چادر صحیح کی تھی ۔۔۔۔۔۔
اسکے انداز پر خضر کے عنابی لبوں کے گوشوں پر مسکراہٹ آ ٹھہری جسے وہ منہ موڑے چھپا گیا لیکن یہ اُسکی خام خیالی تھی کیونکہ فاطمہ اماں اور داجی اُسکی مسکراہٹ دیکھ چکے تھے۔۔۔۔اور وہ خود بھی شجیہ کے اس انداز پر مسکرا پڑے تھے۔۔۔۔
چاچی شجیہ کا طنز سنتے ہی پاؤں پٹختی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی اُنہیں سمجھ نہ ایا کیسے خضر کو اتنی حسین لڑکی مل گئی اُنکی نظر میں خضر کے ہاتھ کا پنچا نہ ہونا بہت بری خامي تھی لیکن وہ نہیں جانتی تھی اج بھی ایسی لڑکیاں موجود ہے جو سیرت پر مرتی ہے ۔۔۔۔صورت اُنکے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔۔۔۔۔۔
آجاؤ بچے یہ تو تمہیں یہی کھڑے رکھے گا ۔۔۔۔فاطمہ اماں نے شجیہ کا ہاتھ نرمی سے پکڑتے اندر لاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
شجیہ خاموشی سے چلتی اُنکے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی تھی جہاں داجي د پہلے سے براجمان تھے۔۔۔۔۔
داجي نے بھی شجیہ کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔۔خضر بھی سامنے صوفے پر بیٹھا اُنکی طرف متوجہ تھا۔۔۔۔
بیٹا ہم تمہارے داجی ہے۔۔۔اج سے ۔۔۔۔داجی نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔
اور میں تمھاری فاطمہ اماں۔۔۔۔فاطمہ اماں نے بھی اسکو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا جب شجیہ نے سامنے کھڑی لڑکی کی طرف دیکھا جو بلیک رنگ کی شلوار قمیض میں سینے پر ہاتھ باندھے اُسے ہی دیکھ رہی تھی سفید رنگت نرمل نین نقش۔۔۔۔
یہ خضر کی کزن ہے۔۔۔ثانیہ۔۔۔۔فاطمہ اماں نے اُسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھتے ہوئے کہا ۔۔خضر نے اپنے کب بھینچے تھے۔۔۔۔
اسلام علیکم ۔۔۔شجیہ نے خود ہی سلام کیا۔۔۔۔
جس کا جواب دیے بنا ہی وہ لڑکی وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔۔
کیا یہ بول نہیں سکتی۔۔۔۔شجیہ کو جو لگا وہ پوچھ لیا ۔۔۔داجی اور فاطمہ اماں جو ثانیہ کے اس عمل سے شرمندہ ہوگئے تھے۔۔۔شجیہ کے پوچھنے پر اپنی مسکراہٹ ضبط کر گئے۔۔۔۔۔
نہیں بس جب اُسکا دل چاہتا ہے تب وہ بولتی ہے۔۔۔فاطمہ اماں نے کہا۔۔۔۔۔
اور ایک نظر خضر کو دیکھا ۔۔جو اپنے موبائل میں مصروف ہوگیا تھا۔۔۔۔ثانیہ کا انداز وہ بھی دیکھ چکا تھا۔۔۔۔
چلو بیٹا ۔۔۔۔نوری آپکو خضر کا کمرہ دکھا دے گی تھوڑا آرام کریں آپ ۔۔۔پھر آپکو ایک اور وجود سے ملوانا ہے۔۔۔۔فاطمہ اماں نے اُسکا ماتھا چومتے ہوئے کہا یہ لڑکی اُنکے لاڈلے کی بیوی تھی اُنہیں عزیز تھی۔۔۔۔۔
شجیہ نے اثبات میں سر بلایا اور ایک نظر خضر کو دیکھا جس کو موبائل میں مصروف دیکھ اُس نے اپنے دانت پیسے تھے اور نوکرانی کے ساتھ کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی۔۔۔۔۔۔
اب آپ بتائے گے ۔۔۔فاطمہ اماں نے خضر سے کہا جس نے موبائل ایک طرف رکھ دیا تھا اور پوری طرح اُنکی طرف متوجہ ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
یہ میرے ایک ورکر کی بیٹی ہے مجھے پسند تھی اور وہ بھی مجھے پسند کرتی تھی تو میں نے اُس سے شادی کر لی۔۔۔۔خضر نے کندھے اچکاتے سادگی سے کہا۔۔۔وہ بات گھماتا نہیں تھا دو ٹوک بولتا تھا۔۔۔۔۔۔اس جھوٹ کو بھی اُس نے اتنی صفائی سے بولا تھا کہ فاطمہ اماں اور داجی یقین کر گئے تھے۔۔۔۔۔
اب چلتا ہوں تھک گیا ہُوں ۔۔۔خضر نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا اور دونوں کے ماتھے چومتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
پیاری ہے نہ۔۔۔فاطمہ اماں نے پُر جوشی سے داجی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ہم ۔۔اللہ دونوں کو ایک ساتھ ہمیشہ خوش رکھے ۔۔۔۔۔۔داجی نے صادق دل سے دعا دی۔۔۔۔۔۔







اِدھر ثانیہ نے کمرے میں آکر ایک نظر اپنے آپکو شیشے میں دیکھا تھا۔۔۔۔۔شجیہ کا خوبصورت چہرہ آنکھوں کے سامنے لہرایا تو نفرے سے اپنے دانت بھینچے تھے۔۔۔۔
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے جب داجی نے اُسکا رشتا خضر سے طے کیا تھا ۔۔جس پر وہ خضر کے منہ پر اُسے معذور بولتے ٹھکرا گئی تھی۔۔۔
لیکن آج خضر کی بیوی دیکھ کر اُسکے دل میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔۔۔
ایک ہفتے بعد ہی اُسکی شادی اُسکی پسند سے ہو رہی تھی وہ اُس پر خوش بھی بہت تھی لیکن ایک حسد دل میں انگڑائی لے چکا تھا۔۔۔۔