قسط: 6
خضر نے کمرے میں اتے ہی سگریٹ سلگا لی تھی۔۔۔۔دل کی جلن تھی کہ طلحہ کے لفظ یاد اتے ہی بڑھتی ہی جا رہی تھی۔۔۔۔
طلحہ کی گہری نظر اُسے جیسی ہی یاد ائی اُسکا دل کیا ابھی جاکر طلحہ کا منہ توڑ دے ۔۔۔۔یکدم ذہن میں خیال گونجا کہ وہ تو باہر ہی ہے اور طلحہ بھی باہر ہے فوراً سے قدم دروازے کی طرف بڑھے۔۔۔۔۔وہ باہر تھی اور طلحہ اُسے اب بھی اُن نظروں سے دیکھ رہا ہوگا یہ سوچ اُسکے خوں اُبال گئی تھی۔۔۔۔۔
شجیہ کو اندر اتا دیکھ وہ رکا تھا۔۔۔کمرے میں پھیلی سگریٹ کی خوشبو محسوس کرتے شجیہ نے خضر کی طرف دیکھا تھا جو بیڈ کے پاس کھڑا ہاتھ میں سگریٹ تھامے اُسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔
سگریٹ ختم ہوتے ابھی خضر کے ہاتھ کو جلا دیتا جب شجیہ جلدی سے اُسکی طرف بڑھتے اُسکے ہاتھ سے سگریٹ پھینک گئی تھی۔۔۔خضر جو پہلے ہی غصے سے بھرا بیٹھا تھا شجیہ کو اپنے پاس سے دور کیا ۔۔۔شجیہ بیساختہ لڑکھڑائی تھی۔۔۔
بولا ہے نہ دور رہو ۔۔۔خضر نے انتہائی سرد لہجے میں شجیہ کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا جو اپنے لب آپس میں بھینچے اسپاٹ نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
ہاتھ جل جاتا آپکا اسی لئے پھینکی تھی میں نے۔۔۔شجیہ نے کہتے اپنے قدم ڈریسنگ روم کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔۔جہاں پر فلک کے کہنے پر اُسکے لئے کپڑے دکھاوا دیے گئے تھے۔۔۔جب خضر کی بات پر اُسکے چلتے قدم تھمے تھے۔۔۔۔
آئیندہ اس کمرے سے باہر تمہارا دوپٹہ نہیں اترتا چایئے سر سے۔۔۔شجیہ کا اسپاٹ چہرہ اور بات پر خضر کو بھی اپنا جھٹکنا برا لگا تھا لیکن پھر سرد آواز میں گویا ہوا۔۔۔۔
شجیہ کے چہرے پر مسکراہٹ ائی تھی مطلب وہ اُس پر حق جتا رہا تھا ۔۔۔۔
شجیہ بغیر کچھ بولے ڈریسنگ روم میں چلی گئی تھی خضر نے شجیہ کی پشت کو تکا اُسکا ایسے بنا کوئی جواب دیے جانا بُرا لگا تھا۔۔۔۔
اور خود بھی اپنا کرتا اُتار بیڈ پر لیٹ گیا تھا وہ ہمیشہ شرٹ کے بغیر ہی سوتا تھا ۔۔۔۔
ابھی بھی وہ بیڈ پر لیتا سوچ رہا تھا۔۔۔طلحہ کی نظریں اور شجیہ کے لیے وہ الفاظ اُسے کیوں برے لگ رہے تھے اُسے غصّہ کیوں آرہا تھا۔۔۔
شاید وہ میرے نام کے ساتھ منسوب ہے اسی لیے مجھے غصّہ آرہا تھا اور کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔خضر نے پانی سوچوں کو جھٹکتے ہوئے کہا۔۔۔
لیکن تم تو اُسے اپنی بیوی مانتے ہی نہیں۔۔۔دل نے فوراً سے پوچھا۔۔۔۔
بیوی نہیں مانتا لیکن ہے تو نہ وہ ۔۔بس اسی لئے ۔۔۔اپنے دل کی آواز پر خضر گڑبڑایا تھا ۔۔اور کروٹ بدل کر اپنی آنکھیں موند لی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو سوچوں اُسکے دماغ میں گردش کر رہی تھی انکا جواب اُسکے پاس فل وقت نہیں تھا۔۔۔۔۔
شجیہ سفید رنگ کا سادہ سا سوٹ پہنے ڈریسنگ روم سے باہر ائی تھی۔۔۔بیڈ پر خضر کو کروٹ کے بل لیتےدکھ اُس انے ایک لمبی سانس بھری تھی ۔۔۔رات کی خاموشی اور کمرے میں خضر کی موجودگی اُسکے دل کی دھڑکنیں منتشر کرا گئی تھی۔۔۔۔۔
دھیمے قدم بڑھاتی وہ بیڈ کی دوسری طرف ائی تھی۔۔۔دھڑکتے دل سے اُس نے بیڈ پر تکیہ صحیح کرتے اپنی جگہ سمنبهالی تھی۔۔۔۔
بیڈ پر کسی اور کا وزن محسوس کرکے خضر نے چونکتے اپنی آنکھیں کھول کر پلٹ کر دیکھا تھا اور شجیہ کو آرام سے سیدھا لیتا دیکھ دل کی دھڑکنیں تو ہمیشہ کی طرح اُسے دغا دیتے بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
لڑکی۔۔۔۔۔خضر نے بولنا چاہا جب شجیہ نے اُسکی بات کاٹی۔۔۔۔۔
دیکھے چوہدری صاحب میں بلکل بھی صوفے پر نہیں سونے والی اور نہ ہی آپ اُس بیچارے صوفے پر پورے آئے گے۔۔۔۔اسی لیے میرے بیڈ پر لیٹنے پر آپ کچھ نہ ہی بولے تو ٹھیک ہے کیونکہ آپ نے میرے قریب انا ہے نہیں اور اگر میں آپکے ذرا بھی قریب ائی تو اپنے مجھے ایسے جھٹکنا ہے کہ میں نے بیڈ سے گر جانا ہے اسی لئے بیفکر ہوکر سو جائے۔۔۔۔شجیہ نے جلدی جلدی سے بول کر خضر کی طرف سے کروٹ بدلی تھی۔۔۔اُسے خود کو اندازہ نہیں تھا اُس نے کیا بولا ہے لیکن خضر کی سفید رنگت اُسکی آخری بات پر سرخ ہوئی تھی۔۔۔۔۔
خضر نے ایک نظر صوفے کو دیکھا واقعی میں وہ وہاں پر پورا نہیں آتا ۔۔۔اُسے سمجھ نہیں آتا کہ یہ لڑکی اُس کے سامنے اتنا کیسے بول لیتی ہے ۔۔جب اچھے اچھوں کی زبان اُسکے آگے بند ہوجاتی ہے لیکن یہاں اُسکی زبان شجیہ کے آگے بند ہوجاتی تھی۔۔۔۔۔
خضر نے نفی میں سر بلاتے اپنی آنکھیں بند کی تھی لیکن پاس لیتے وجود کی محصور کن حواسوں پر چھانے والی خوشبو اُسکے نتھنوں سے ٹکراتے اُسے سونے نہیں دے رہی تھی۔۔۔۔
دل تو جیسے ہمک ہمک کر پاس لیتے وجود کو اپنے بازوں کے حصار میں لینے کا بول رہا تھا ۔۔۔۔۔
بڑی مشکل سے اُسکی آنکھ لگی تھی۔۔۔۔



آدھی رات کا وقت تھا جب خضر کی آنکھ کھلی۔۔۔بچپن سے ہی اُسے آدھی رات کو بھوک لگتی تھی۔۔۔یہ عادت اُسکی فاطمہ اماں فلک اور داجی ہی جانتے تھے۔۔۔۔
خضر نے اٹھ کر ایک نظر شجیہ کو دیکھا تھا جو ایک ہاتھ اپنے گال کے نیچے رکھے ایک ہاتھ بیڈ پر اُسکی طرف کروٹ لیے معصومیت سے سو رہی تھی۔۔۔۔
خضر کا دل پھر دھڑکنا بھول گیا تھا۔۔۔
آخر کیا کششِ ہے تم میں جو بار بار میری توجہ تم پر مرکوز ہوجاتی ہے۔۔۔خضر نے شجیہ کے چہرے پر آئے بال ارام سے اُسکے کان کے پیچھے کیے تھے ۔۔۔اُسکی اُنگلیاں جیسے ہی شجیہ کے نرم گال پر ٹکرائی خضر کے جسم میں ایک عجیب سا احساس اس لمس سے اجاگر ہوا تھا۔ ۔ پورے بدن میں ایک برق رفتاری دور گئی تھی۔۔۔دل کیا تھا یونہی وہ اس کے نرم و نازک لمس کو محسوس کرتا رہے۔۔۔۔
جلدی سے اپنا ہاتھ پیچھے کرتے اُس نے سائڈ ٹیبل کی دراز سے اپنے لئے رکھی گئی چاکلیٹ نکالی تھی۔۔۔
چاکلیٹ وہ انتہائی شوق سے کھاتا تھا ۔۔۔۔شجیہ کے من موہنی صورت کو دیکھتے وہ چاکلیٹ کھا رہا تھا ۔۔۔۔
نیند میں اپنے انتہائی قریب سے اتی چاکلیٹ کی خوشبو جیسے ہی شجیہ کے نتھنوں سے ٹکرائی بھوک کا احساس شدت سے ہوا۔۔۔مندی مندی آنکھیں کھول کر جیسے ہی سامنے دیکھا خضر کی دھندلی سی شکل دکھائی دی جو بغیر شرٹ کے صرف سینڈو پہنے اُسکی طرف ہی دیکھتے کچھ کھا رہا تھا۔۔۔۔
شجیہ نے اپنی پلکیں جھپک کر صحیح سے دیکھا اور فوراً سے آٹھ بیٹھی تھی ۔۔نیلی آنکھوں میں اب بھی نیند کی سرخی تھی۔۔۔بغیر دوپٹہ کے وہ اپنے حسین سراپے کے ساتھ خضر کا چلتا منہ بند کروا گئی تھی۔۔۔پہلے ہی اس لڑکی کو دیکھ کر وہ عجیب سے احساسات میں گھر جاتا تھا۔۔۔اور اب ایسے ۔۔۔
آپ ۔۔آپ چاکلیٹ کھا رہے ہے۔۔۔خضر کی حالت سے لاپرواہ شجیہ نے اُس کے ہاتھ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔
خضر نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
مجھے بھی دے ۔۔۔شجیہ پوری طرح اُسکی طرف گھومتی آلتی پلٹی باندھ کر بیٹھتے اپنا سفید دودھیا ہاتھ اُسکے سامنے پھیلاتی معصومیت سے بولی تھی۔۔۔۔
یہ انداز خضر پر بجلی بن کر گر رہا تھا ۔۔۔۔کوئی اتنا حسین اتنا معصوم کیسے ہوسکتا ہے یہ تو یہ لڑکی ناٹک کر رہی ہے یہ پھر یہ اصل میں معصومیت کا پیکر ہے۔۔۔خضر سوچنے پر مجبور ہوگیا تھا۔۔۔۔
خضر نے اپنے ہاتھ میں موجود چاکلیٹ کو دیکھا جو جھوٹی تھی ابھی ق سائیڈ ٹیبل کی دراز سے دوسری چاکلیٹ نکال کر اُسے دیتا کہ شجیہ نے اُسکے ہاتھ سے چاکلیٹ لیتے فوراً سے کھانا شروع کی تھی ۔۔۔۔
اپنی جھوٹی چاکلیٹ اُسے کھاتا دیکھ خضر کی دل کی دھڑکنیں متشر ہوئی تھی۔۔۔وہ بس ساکت نگاہوں سے شجیہ کو دیکھ رہا تھا جو سب کچھ بھولے کھانے میں مگن تھی ۔۔۔کیا تھی یہ لڑکی کبھی انتہاء کی معصوم تو کبھی انتہاء کی تیز ۔۔۔۔
آپکو پتہ ہے مجھے روز رات کو بھوک لگتی ہے تو میری اماں میرے لیے رات کو کچھ نہ کچھ رکھ دیتی تھی۔۔۔۔شجیہ نے نسرین کو یاد کرتے ہوئے کہا نیلی آنکھوں میں نمکین پانی ٹھہر گیا تھا۔۔۔۔
مجھے بھی۔۔۔خضر نے نہ جانے کس خیال سے اُسکی طرف دیکھتے کھوئے لہجے میں کہا تھا۔۔۔۔
تم نے میرا جھوٹا کھایا ہے تمہیں عجیب نہیں لگ رہا ۔۔۔خضر کا لہجہ سنجیدہ تھا۔۔۔
خضر کی بات پر شجیہ نے اُسکی طرف دیکھا۔۔۔
آپ میرے شوہر ہے آپکا جھوٹا کھانے میں کیوں عجیب لگے گا اور ویسے بھی جھوٹا کھانے سے پیار بڑھتا ہے۔۔۔۔شجیہ نے کندھے اچکا کر کہا ۔۔۔لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ خضر کی دکھتی رگ پر بڑے آرام سے پیر رکھ چکی ہے۔۔۔۔۔
شجیہ کی بات پر وہ جو نارمل تھا اُسکا چہرہ پل میں تنا تھا ۔۔۔۔۔
لڑکی کب تمہارا بھوت اترے گا مجھے اپنا شوہر کہنا بند کرو یہ صرف ایک۔ کنٹرکٹ ہے اور پیار ویار نہیں ہے کچھ بھی اس دنیا میں۔۔۔۔خضر کا لہجہ سرد تھا۔۔۔اسکی بات پر شجیہ نے اُسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔
غلط پیار تو دنیا میں ہر طرف ہے۔۔۔اُسے محسوس کیا جاتا ہے اپنے دل کے دروازے کھولے جاتے ہے ۔۔۔اور میں اس کنٹرکٹ کو نہیں مانتی میری شادی ہوئی ہے اور الحمداللہ میں ایک شادی شدہ عورت ہو۔۔۔۔۔شجیہ نے خضر کی بھوری چمکدار آنکھوں میں اپنی نیلی سمندر جیسی آنکھیں ڈالتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا۔۔۔
میں بھی دیکھتا ہوں یہ پیار کب تک چلتا ہے جہاں تمہیں مجھ سے بہتر کوئی نظر آئے گا تمہارے سر سے یہ پیار کا بھوت اُتر جائے گا۔۔۔خضر نے استحضائیہ لہجے میں کہا۔۔۔۔
دیکھتے ہیں۔۔۔شجیہ نے کہتے ساتھ خالی ریپر کو اٹھا کر سائڈ ٹیبل پر رکھا۔۔۔اور لحاف اپنے گردن تک لیتے وہ سیدھی ہو کر لیٹ گئی۔۔۔۔
ویسے اماں کہتی تھی تمہارا شوہر تمھاری آدھی رات کی بھوک سے پریشان ہوجائے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے شوہر ہی ایسا دیا ہے جسکو میری طرح آدھی رات کو بھوک لگتی ہے۔۔۔اپنا لب دانت میں دباتی وہ خضر کے لال چہرے کو دیکھ رہی تھی جو اُسکی بات پر لال ہوا تھا۔۔۔وہ جب جب شوہر لفظ استعمال کرتی تھی خضر ضرور غصّہ ہوتا تھا ابھی خضر اُسکی طرف اپنی غصے بھری نظروں سے دیکھتا کہ شجیہ نے جلدی سے ہنستے لحاف منہ تک لیا اور اپنی کروٹ بدل لی۔۔۔۔
خضر نفی میں سر ہلا گیا ۔۔۔ہونٹوں پر خود بہ خود مسکراہٹ آگئی تھی جسے جلدی سے وہ سمیت گیا تھا شجیہ کے وجود کی مہک اُسے انتہا کی اچھی لگی تھی جو اُسکے حواسوں پر چھاتی اُسے سکون دے رہی تھی۔۔۔۔ ایک لمبی سانس بھرتے وہ اپنے کمرے سے نکلتا چلا گیا تھا۔۔۔۔
دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز پر شجیہ نے بھی نفی میں سر ہلایا تھا۔۔۔




فلک نے کمرے میں اتی ہی اپنی جویلری اتاری تھی۔ ۔۔تھکن سے برا حال ہوا تھا اب تو وہ ذرا سا چلتی بھی تھی تو تھک جاتی تھی۔۔۔۔۔
آرام دہ سوٹ لیتی وہ اپنی شرٹ کی زیب کھول رہی تھی جب کچھ محسوس کرتے اُسکے ہاتھ تھمے تھے۔۔۔۔
اُسکے علاوہ بھی کمرے میں کوئی موجود تھا جب اچانک سے اپنی آنکھوں پر کالی پٹی بندھنے پر اُسکی دل کی دھڑکن بند ہوئی تھی ڈر کی وجہ سے آواز اُسکے حلق میں ہی دب گئے تھے۔۔۔جان تو تب نکلنے لگی جب کسی ہاتھوں کا ٹھنڈا لمس اپنی برہنہ قمر پر محسوس کیا تھا۔۔۔۔
فلک نے تیزی سے جھٹپٹاتے دور ہونا چاہا۔۔۔جب اُس وجود نے اُسکے پیٹ کے گرد نرمی سے اپنا ہاتھ رکھا تھا جبکہ ایک ہاتھ بازو پر رکھتے وہاں اپنی گرفت سخت کی تھی۔۔۔اور اپنے دہکتے لب فلک کی گردن پر رکھے۔۔۔فلک کی آنکھ سے آنسو نکلتے اُسکے گال کو بھگو رہے تھے۔۔۔۔
کوئی غیر مرد اُسکے وجود پر اپنا لمس چھوڑ رہا تھا۔۔۔۔اپنی عزت کے لٹ جانے کا خوف اُسکی رگو میں دوڑتے خوں کو منجمد کر گیا تھا۔۔۔
ہشہش۔۔۔میں ہُوں ۔۔۔یہ آواز کانوں کے پردوں میں پڑتی یہ آواز تو جانی پہچانی تھی۔۔۔اس آواز کو تو وہ بھول ہی نہیں سکتی تھی اس آواز میں کی گئی اُسکے کانوں میں پیار بھری سرگوشیاں وہ کیسے بھلا سکتی تھی۔۔۔
کا۔۔۔مل۔۔۔لرزتے لبوں سے لرزتی آواز میں یہ الفاظ ادا ہوئے تھے ۔۔۔۔۔
جب کامل نے اُسکی آواز محسوس کرتے اسکی گردن پر اپنے دانت گاڑھے تھے فلک نے سسکی ضبط کی تھی اپنی۔۔۔۔
کامل نے اُسکے کندھوں سے شرٹ کھسکا کر وہاں اپنے لب رکھے تھے۔۔۔فلک کے لبوں سے سکسی نکلی تھی۔ ۔۔آنسو اُسکے پورے چہرے اور آنکھوں پر لگی پٹی کو بھی بھگو گئے تھے۔۔۔۔
جب کامل نے اُسے پلٹ کر اپنے سینے سے لگایا تھا ۔۔۔
آپ ۔۔۔کہاں تھے۔۔مجھے چھوڑ گئے آپ ۔۔پلٹ کر دیکھا تک نہیں مجھے۔۔۔کہاں گئے تھے۔۔۔کامل کی شرٹ اپنی متھی نے جکڑے وہ شدت سے روتے ہوئے اُس سے شکوے کر رہی تھی ۔۔۔
سب ٹھیک ہوجائے گا ایک دن آپ اور میں ساتھ ہونگے۔۔۔۔ان سب کے لیے آپ سے معافی چاہتا ہوں لیکن ابھی مجھے آپکی قربت میں سکون حاصل کرنا ہے بہت دن ہوگئے ہے مجھے آپکی قربت کے بنا رہتے ہوئے اور ان دنوں میں کامل خان کا وجود ادھورا ہوگیا تھا۔۔۔کامل نے فلک کی قمر سہلاتے اُسکا چہرہ اپنے چہرے کے نزدیک کیا تھا۔۔۔۔
فلک نے فوراً سے اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے اپنی آنکھوں پر لگی پٹی اتارنی چاہی جب کامل نے اُسکے ہاتھ اپنی گرفت میں لئے ۔۔۔
مجھے دیکھنا ہے آپکو۔۔۔فلک نے بےبسی سے کہا۔۔۔
کامل نے کوئی بھی جواب دیے بنا اُسکے گلابی لبوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا نرمی سے اُن پر اپنا لمس چھوڑتے وہ فلک کو بوکھلانے پر مجبور کر گیا تھا۔۔۔۔۔
اتنے دن وہ دور رہا تھا فلک اُس سے شکوہ کرنا چاہتی تھی لیکن وہ اُسے اپنی قربت میں بہکا رہا تھا۔۔۔
فلک کے لبوں کو آزادی بخشتے وہ اُسے اپنے بازؤں میں بھر گیا تھا ۔۔۔۔
بیڈ پر آرام سے اسکو لٹاتے وہ اُس پر کسی کالی گھٹا کی طرح چھاتے وہ اُسکی گردن پر اپنا لمس چھوڑ رہا تھا اور فلک تمام شکوہ بھولتے اپنا آپ اُسکے حوالے کر گئی تھی یہ جانے بغیر کہ یہ ظالم انسان اُسکی جھولی میں وصل کی رات ڈال کر اُسے پھر سے ہجر کی بھڑکتی اگ میں جھونک دے گا۔۔۔۔کامل نے کمرے کی تمام لائیٹس بند کر کے اُسکی آنکھوں سے پٹی ہٹائی تھی۔۔۔اندھیرے کمرے میں وہ صاف اپنے چہرے پر پڑتی خضر کی گرم لو دیتی تپش زدہ سانسیں محسوس کر سکتی تھی کامل کا چہرہ اب بھی وہ نہیں دیکھ پا رہی تھی۔۔۔۔
خضر کے بےباک ہاتھوں کا لمس اپنے پورے جسم پر سرائیت کرتا محسوس کرتے فلک کی سانسیں تیز ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔
کامل نے اُسکی گردن سے منہ نکالتے اُسکے لبوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا اپنے لبوں پر بڑھتی اُسکی شدت کو محسوس کرتے فلک نے اپنے دونوں ہاتھ اُسکی گردن میں ڈالتے اپنا آپ اُسکے حوالے کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔کمرے میں دونوں کی بھاری ہوتی سانسیں گونج رہی تھی۔۔۔۔۔
ہجر کی آگ میں جلتے دو وجود ایک دوسرے میں کھوئے اپنی ترپ دور کر رہے تھے۔۔۔۔




اپنے کندھے پر بکھری حالت میں۔لیتی فلک کو دیکھتے اُس نے ایک لمبی سانس لی تھی ۔۔۔۔سورج کی پہلی کرن زمین پر پڑھنے میں کچھ ہی دیر دی۔۔۔
فلک کی طرف اپنا چہرہ کرتے اُس نے شدت سے اپنے لب اُسکے ماتھے پر رکھے تھے۔۔۔۔۔۔۔
وہ جانتا تھا اب جو وہ کرنے جا رہا ہے وہ اس وجود کو اور تکلیف دے گا۔۔۔۔
لحاف کے اندر سے ہی اپنا ہاتھ اُس نے فلک کے برہنہ پیٹ پر رکھا تھا ۔۔۔ایک عجیب سا احساس اُسے محسوس ہورہا تھا۔۔۔ آنکھیں فوراً سے نم ہوئی تھی۔۔۔
اپنے اوپر ضبط کرتا وہ اٹھا تھا لیکن اپنے بازو کو فلک کے ہاتھ میں دیکھ کر وہ رکا تھا۔۔۔۔وہ نیند میں بھی اُسے اپنی گرفت میں لی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ارام سے اپنا بازو فلک کی گرفت سے نکالا تھا۔۔۔
اپنی شرٹ پہنے وہ آخری نظر فلک کے سوئے وجود پر ڈالے اپنے اوپر ضبط کرتا کھڑکھی کے پاس گیا تھا دل تھا جو کہہ رہا تھا اس وجود کو اپنے پاس رکھ لے کہیں ایسی جگہ وہ فلک کو لے کر چلا جائے جہاں کوئی بھی نہ ہو ۔۔۔۔
آنکھیں لال ہوگئی تھی ۔۔بہت ضبط کے ساتھ اُس نے کھڑکھی سے چھلانگ لگائی تھی ابھی وہ ایک قدم اگے بڑھتا جب اپنے گال پر پڑنے والے مکے سے وہ لڑکھڑایا تھا۔۔۔
نظریں گھما کر سامنے دیکھا تو سامنے خضر کو دیکھتے اُس نے اپنی آنکھیں بند کر کے کھولی تھی۔۔۔خضر نے اُسے اٹھنے کا موقع دیے بنا ہی اُسکے چہرہ پر ایک اور وار کیا تھا اپنے دیمجّ ہاتھ سے اُسے دھکا دیتے وہ ڈر پر ڈر اُس کے چہرے پر مکے مار رہا تھا۔۔۔جب کامل نے پلٹ کر ایک زور دار مکا اُسکے گال پر مارا تھا خضر پیچھے کو گرا تھا۔۔۔۔
تیری تو۔۔۔خضر نے کہتے ساتھ اگے بڑھ کر کامل کو مارنا چاہا تھا جب کامل نے اپنا پیر اُسکے گھٹنے پر مارتے اُسے گرایا تھا خضر نے بھی فوراً سے اُسکے ہاتھ کو موڑتے اُسے بھی زمین پر گرایا تھا۔۔۔۔
کیا کر رہا ہے یار مارے گا کیا۔۔۔کامل نے درد سے اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔۔۔
تو ہے ہی مار کے قابل۔۔۔خضر نے کہتے اسے گریبان سے اٹھایا تھا۔۔۔۔۔
کہاں تھا تو۔۔۔خضر نے کہتے ساتھ اُسے اپنے گلے لگایا تھا ۔۔۔کامل بھی مسکراتا ہوا اُسکے گلے لگا تھا۔۔۔۔
سالے میری دوست کے کمرے میں کیا کر رہا تھا۔۔۔خضر نے ایسے ہی اُسکے گلے لگے اُسکی پشت پر زور دار تھپڑ مارتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔
بہن بول۔۔۔اور میں تُجھے بتانے کا ارادہ نہیں رکھتا کہ میں اپنی بیوی کے کمرے میں کیا کر رہا تھا۔۔۔کامل نے بھی اُسکی پشت پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
تُجھے نہیں لگتا ہے جو تو کرنے جا رہا ہے اگر اُسے پتہ چل گیا تو وہ تُجھے شاید ہی کبھی معاف کرے۔۔۔۔۔خضر نے نیچے زمین پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
جانتا ہُوں لیکن۔ فرض تو ہر حال میں نبھانا ہے ۔۔۔کامل نے فلک کا چہرہ یاد اتے دیوار سے سر ٹکائے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔
تُجھے نہیں لگتا تو پہلے ہی اُسے بہت تکلیف دے چکا ہے۔۔۔خضر نے اپنے بال صحیح کرتے ہوئے کہا تھا۔۔۔
جانتا ہو لیکن اُنکی ہر تکلیف پر خود بھی تو ترپتا ہوں ۔اور تُجھے نہیں لگتا جو تو بھابھی کے ساتھ کر رہا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔۔۔۔کامل نے کہتے ساتھ اُسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔کامل کی بات پر شجیہ کا خوبصورت سراپا اُسکی آنکھوں کے پردوں لہرایا تھا۔۔۔۔۔
ابھی تیری بات ہو رہی ہے ۔۔۔خضر نے ہوش میں اتے ہی تیز نظروں سے کامل کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
یہ بول اپنے دل میں پیدا ہوتے جذباتوں سے نظریں چرا رہا ہے۔۔۔کامل نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔۔
چپ کرے گا تو کالے ادمی۔۔۔خضر نے اُسکے ساولے رنگ پر طنز کرتے ہوئے کہا۔۔۔
جا رہا ہوں میں خیال رکھنا میری بیوی کا ۔۔۔۔کامل نے کھڑے ہوتے اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے کہا اور خضر سے بلغیر ہوتے باہر کی طرف نکلتا چلا گیا۔۔۔
خضر نے اُسکی پشت کو تکا اور اندر ایا ۔۔۔۔
اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی میٹھی نرم آواز پر اُسکے قدم اپنی جگہ منجمد ہوئے تھے سامنے ہی شجیہ نماز کی طرح دوپٹہ باندھے قرآن پڑھنے میں مصروف تھی۔۔۔۔
خضر آرام سے اپنے قدم اٹھاتا صوفے پر بیٹھ گیا تھا جہاں سے صاف شجیہ کو دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔
نہ جانے کیسا سکون تھا اُسکی آواز میں خضر نے اپنی آنکھیں بند کی تھی ۔۔۔
یکدم آواز بند ہوئی اور ایک گرم مہکتی ہوئی سانس کی مہک اُسے اپنے چہرے پر پڑتی محسوس ہوئی تو جھٹکے سے اپنی آنکھیں کھولی تھی۔۔۔اپنے چہرے کے بے حد نزدیک شجیہ کا دوپٹہ کے ہالے میں چہرہ دیکھتے اُسکے دل کی دنیا تہہ بالا ہوئی تھی۔۔۔۔۔
شجیہ نے ایک نظر خضر کو دیکھا جو اپنی بھوری آنکھوں سے اُسکی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔گال تپ کر لال ہوئے تھے اُسکے خضر کی گہری نظروں کو خود پر محسوس کرتے۔۔۔۔۔
خضر سے دور ہوتی وہ دوپٹہ کو صحیح کرتی باہر نکلتی چلی گئی تھی اُسے صبح صبح اٹھنے کی عادت تھی فجر کی ازاں جیسے ہی اُسکے کانوں میں گونجی وہ اٹھ گئی تھی خضر کو کمرے میں نہ پاکر اسے عجیب لگا تھا کیا وہ ساری رات ہی کمرے میں نہیں آیا تھا۔۔۔دل دُکھا تھا پھر نماز پڑھنے کی غرض سے وہ وضو کرنے چلی گئی تھی۔۔۔
قرآن پڑھتے وہ اپنے اوپر خضر کی نظریں محسوس کر سکتی تھی۔۔۔۔۔قرآن کی تلاوت کرتے وہ خضر پر دم کر رہی تھی جب خضر نے اپنی بھوری آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔
شجیہ کے جاتے ہی خضر نے ایک لمبی سانس لی تھی۔۔۔۔اور صوفے کی پشت سے اپنا سر ٹکا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔