مثالِ عشق

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 8

فلک نے اپنی آنکھیں کھولی نظر سیدھا سفید چھت سے ٹکرائیں تھی۔۔۔۔سب کچھ یاد اتے ہی اُسکی خاموش بھوری آنکھوں سے آنسو موتیوں کی صورت میں بہتے تکیے کو بھگو رہے تھے۔۔۔۔۔
تم اٹھ گئی ۔۔۔شجیہ جو اُسکے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی فلک کے آنکھیں کھولنے پر اُس سے گویا ہوئی۔۔۔۔
فلک نے گردن گھوما کر اُسے دیکھا ۔۔۔اور اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔
شجيہ نے اُسکے آنسو صاف کیے لیکن آنسو پھر بہتے اُسکے سرخ عارض کو بھگو گئے تھے۔۔۔۔۔
اوہو رونا نہیں ہے تم نے ۔۔۔شجیہ نے ہلکے پھلکے لہجے میں فلک کے دوبارہ بہتے آنسوؤں کو صاف کیا جب فلک نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی شجيہ نے اُسکی مدد کی۔۔۔۔
کچھ بولنا چاہتی ہو تو بول دو یقین کرو دوست کہا ہے تم نے دوست کی بات اپنے دل تک ہی محدود رکھو گی۔۔۔شجيہ نے فلک کا ہاتھ تھامتے اُس پر دباؤ دیتے نرم لہجے میں کہا۔۔۔۔
شجيہ کی بات پر فلک کی آنکھیں پھر سے بھیگی تھی۔۔۔۔۔
اور پھر وہ سب بتاتی چلی گئی۔۔۔۔
شجيہ میں نہیں رہ سکتی اُس انسان کے بنا وہ میرا شوہر ہے میری محبت میں نہیں رہ سکتی اُس انسان کے بنا۔۔۔لیکن دیکھو اُسے میری کوئی فکر نہیں اُس نے پلٹ کر مجھے دیکھا ہی نہیں اور کل۔۔۔کل وہ ایا اُس نے پھر میری جھولی میں ایک وصل کی رات بھیک کی طرح ڈال دی اور اپنے ہجر میں جھونک گیا ۔۔۔۔فلک نے ہچکی بھرتے ہوئے شجيہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھامتے ہوئے کہا اُسکی بات پر شجيہ کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ نکلے اُس نے فوراً سے فلک کو اپنے گلے لگایا تھا۔۔۔۔۔
تم نے زیادہ ٹینشن نہیں لینی اپنا خیال رکھنا ہے اپنے بچے کے لئے۔۔۔۔شجيہ نے اُسکے چہرے پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
وہ مل جائے گے دیکھنا تم ایک دن تم وہ ایک ساتھ ہوگے ایک خوشحال زندگی گزارو کے انشاءاللہ۔۔۔شجيہ نے ایک اُمید سے کہا۔۔۔۔
مجھے نہیں لگتا ایسا کبھی ہوگا وہ انسان تو مجھے بھول ہی گیا ہے ۔۔۔کل بھی میں نے بنا شکوہ شکایت کیے اپنا آپ اُسکے حوالے کردیا۔۔۔دیکھ سکتی ہوں میری بے بسی مجھے جس انسان نے تکلیف دی اذیت دی میں اُسی انسان سے نفرت نہیں کر پا رہی ۔۔۔۔فلک نے اذیت بھری ہنسی کے ساتھ کہا۔۔۔۔
اللہ پر بھروسہ رکھو تم سب صحیح ہو گا اُنہیں ایک دن اپنے کیے پر ضرور پچھتاوا ہوگا اور وہ تمہارے پاس لوٹ آئے گے۔۔۔۔شجيہ نے یقین سے کہا اُسے حد سے زیادہ غصّہ آرہا تھا کامل پر جس کی وجہ سے فلک اتنی اذیت میں تھی۔۔۔۔
تُم اٹھو فریش ہوجاؤ میں جلدی سے کچھ اچھا سا بنوا کر لاتی ہو ۔۔۔۔شجيہ کے کہنے پر فلک نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔شجيہ اُسے چھوڑتی ہوئی باہر نکلی تھی۔۔۔۔۔
💗💗💗💗
وہ کچن میں جا رہی تھی جب اُسکی نظر سامیہ پر پڑی جس نے اسکو دیکھ کر اپنے قدم اُسکی طرف بڑھائے تھے جبکہ چاچی بھی لاؤنچ میں ہی صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔۔اور ڈھیروں کپڑے اُن کے آگے پھیلے ہوئے تھے ۔۔
صبح صبح ڈاکٹر ایا تھا خیریت تو تھی۔۔۔۔سامیہ نے اپنی آبرو اچکا کر طنزیہ نظروں سے شجيہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
اب میں آپکو کیا ہی بتاؤ دراصل کل میں نے کچھ کھایا نہیں تھا اور پھر تھکاوٹ بھی بہت ہورہی تھی تو مجھے ذرا سے چکر اگئے لیکن خضر اتنا پریشان ہوگئے کہ فوراً سے ڈاکٹر کو بلا لیا ۔۔۔پیار ہی اتنا کرتے ہے مجھ سے وہ۔۔۔۔شجيہ نے چہرے پر شرمگیں مسکراہٹ سجاتے ہوئے اپنے دوپٹے کو انگلی میں لپیٹتے ہوئے کہا تھا۔۔۔اسکی بات پر سامیہ نے کینہ توز نظروں سے اُسکی طرف دیکھا تھا جبکہ چاچی کی بھی نظریں ایسی ہی تھی۔۔۔۔۔۔
خضر جو بلیک تھری پیس میں اپنی شاندار شخصیت کے ساتھ نیچے ایا تھا شجيہ کی بات سنتے اُسکے ماتھے پر بل پڑے تھے۔۔۔۔اور آبرو واہ ہوئی تھی۔۔۔۔۔
اب میں جاؤ خضر کو بھوک لگی ہے نہ ناشتہ میرے ہاتھ کا بنا ہی کھاتے ہے وہ۔۔۔شجيہ نے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے کہا اور سائڈ سے ہوکر کچن کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔۔
سامیہ نے ایک نظر خضر کو دیکھا جس کی نظریں شجيہ کی پشت کو تک رہی تھی وہ پیر پٹھکتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی۔۔۔
خضر نے بیساختہ اپنے قدم کچن کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔۔
کچن میں اتے ہو اُسے سامنے شجيہ نظر ائی جو دوپٹہ کو اپنی قمر پر باندھے تیزی سے گیس پر رکھی پتیلی میں ہاتھ چلا رہی تھی۔۔۔۔۔
کچھ چائیے تھا آپکو۔۔۔شجيہ کی نظر دروازے میں استازدہ خضر پر پڑی تو اُس نے اپنی آبرو اچکا کر پوچھا ۔۔۔۔۔
مجھے جو چاہیئے ہوگا میں خود لے لونگا۔۔۔۔خضر نے سنجیدگی سے کہتے فریج میں سے جوس نکالا ۔۔۔۔۔
وہ کچن میں آ تو گیا تھا لیکن اب اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے اسی لئے جوس گلاس میں نکالتے اُسکی نظریں شجيہ پر ہی جمی تھی۔۔۔۔۔
باہر وہ سب کہنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔خضر نے گلاس ہاتھ میں تھامتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
خضر کی بات پر شجيہ کے چلتے ہاتھ رکے تھے۔۔۔۔
کون سی بات۔۔۔شجيہ نے کندھے اچکا کر پوچھا۔۔۔خضر نے اُسکی پشت پر بکھرے بھورے بالوں پر نظر ڈالی تھی وہاں سے نظر سفر کرتی شجيہ کی پتلی قمر پر ٹھہر گئی تھی غلے میں بیساختہ گلٹی اُبھری ۔۔۔۔۔
وہی۔۔کے میں تمہارے ہاتھ کا بنا کھانا شوق سے کھاتا ہو۔۔۔خضر نے اپنی بیقابو ہوتی نظروں کو قابو کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
تو اس میں غلط کیا ہے میں آپکی بیوی ہو میرے ہاتھ کا بنا کھانا آپ نے شوق سے ہی کھانا ہے ۔۔۔شجيہ نے فلک کے لیے ٹرے سجاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
غلط فہمی ہے لڑکی۔۔۔خضر کی زبان کو بریک لگی تھی کیونکہ شجيہ نے پوری قوت سے چمچ کو سلیپ پر رکھا نہیں مارا تھا۔۔۔۔
شجيہ خضر شجاعت چوہدری نام ہے میرا ۔۔۔شجيہ نے غصے بھری نظروں سے پلٹ کر خضر کو دیکھتے دانت پیستے ہوئے کہا ۔۔خضر کا جوس پیتا ہاتھ تھما تھا اُسکی بات پر۔۔۔۔۔
یہ پہلی لڑکی تھی جو اُسکی زبان بند کرنے کی ہمت رکھتی تھی ۔۔۔۔
شجيہ نے فوراً سے پلٹ کر ٹرے اٹھائی تھی اور اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے ۔۔۔۔
خضر نے مسکراتے ہوئے گلاس کو واپس رکھا تھا ہاں وہ مسکرا رہا تھا وہ انسان جو پتھر دل تھا جس نے اپنے اوپر مسکرانا حرام کر لیا تھا اج وہ مسکرایا تھا اپنی بیوی کی اس ادا پر۔۔۔۔۔
جب اپنے آپکو مسکراتے محسوس کیا تو خضر فوراً سے سنجیدہ ہوا ۔۔۔۔۔۔
💗💗💗💗
آج سامیہ کی رخصتی تھی اور شجيہ کا دل اُداس تھا اُسے بس اپنے بابا کے پاس جانا تھا لیکن۔اج سامیہ کی رخصتی کی وجہ سے اُس نے یہ بات خضر سے کرنی مناسب نہیں سمجھی تھی۔۔۔۔۔
فلک سے موبائل لیتے اُس نے نسرین سے بات کر لی تھی جنہوں نے اُسے آصف صاحب کی صحت یابی کے بارے میں بتایا تھا پر اُنہیں ابھی تک ہوش نہیں ایا تھا اور یہ بات پریشانی کی تھی ۔۔۔۔۔۔
ابھی بھی وہ اس بھاری بھرکم جوڑے کو دیکھ رہی تھی اور فلک صوفے پر بیٹھے اسکے تاثرات کو۔۔۔۔
میں نے آج تک اتنا بھاری جوڑا نہیں پہنا فلک اوپر سے یہ جیولری تو دیکھو میں مغلے اعظم کی کوئی ملکہ لگو گی۔۔۔برات سامیہ کی ہے اور تیار میں دلہن کی طرح ہوجائو۔۔۔شجيہ نے پریشانی سے فلک کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔۔۔۔
اماں اج سب سے آپکو ملوانے والی ہے آخر کار چوہدری کی بیوی ہو اس طرح تیار تو ہونا پڑے گا نہ۔۔۔۔۔فلک نے کندھے اچکا کر کہا۔۔۔۔۔
اب جاؤ جلدی سے چینج کر لو۔۔۔فلک کے کہنے پر شجیہ نے وہ لال رنگ کا لہنگا اٹھایا تھا۔۔۔ اور چینج کرنے چلی گئی تھی ۔۔۔۔اور فلک اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔
جب اُسے خضر اتا دکھائی دیا۔۔
طبیعت کیسی ہے تمھاری۔۔۔خضر نے نرم لہجہ میں پوچھا۔۔۔۔
ٹھیک ہے کیا تمہیں اُن کے بارے میں کچھ پتہ چلا۔۔۔فلک نے ایک اُمید سے پوچھا ۔۔۔
خضر نے اُسکی بات پر اپنے لب بھینچے نفی میں سر ہلایا تھا وہ صاف فلک کے چہرے پر اذیت محسوس کر سکتا تھا۔۔۔۔۔
کل۔ہم شہر کے لئے نکل رہے ہیں اور تُم بھی ہمارے ساتھ جاؤنگی۔۔۔اور میں کوئی نہ نہیں سنو گا۔۔۔خضر نے اُسکا اُداس چہرہ دیکھتے ہوئے کہا فلک بنا ایک لفظ بھی بولے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی خضر نے بھی قدم اپنے کمرے کی طرف بڑھائے تھے ۔۔۔۔۔
فلک ذرا اندر اؤ یار میری مدد کردو۔۔۔۔شجیہ نے ڈریسنگ روم سے آواز دی تھی وہ سمجھی تھی کہ فلک شاید باہر ہی ہے ۔۔۔خضر جو ابھی ابھی کمرے میں داخل ہوا تھا ڈریسنگ روم سے اتی شجیہ کی آواز پر وہ کشمکش میں پر گیا ۔۔۔۔۔
یار آجاؤ اندر دیر ہورہی ہے۔۔۔شجیہ کی آواز دوبارہ سنتے اُس نے قدم اپنے ڈریسنگ روم کی طرف بڑھائے تھے۔۔
یار دیکھو یہ زپ نہیں بند ہورہی۔۔۔۔شجیہ نے ڈریسنگ کا دروازہ کھلنے کی آواز پر بغیر مڑے ہی کہا۔۔۔خضر جیسے ہی ڈریسنگ روم میں داخل ہوا تھا سامنے نظر اتا منظر دیکھتے اُسکے چودہ طبق روشن ہوئے تھے۔۔۔سامنے لال رنگ کے لہنگے اور لال ہی چولی میں جو اُسکی قمر تک تھی جس کی زپ بند نہ ہونے کی وجہ سے اُسکی دودھیا بے داغ قمر خضر کی نظروں کے سامنے تھی۔۔۔۔
اُس نے کسی حصار میں باندھے اپنے قدم شجیہ کی طرف بڑھائے تھے
خضر نے دھیرے سے اپنے ہاتھ زپ پر رکھے تھے۔۔۔اپنے انتہائی قریب مردانا پرفیوم کی سحر انگیز خوشبو محسوس کرتے شجیہ ساکت ہوئی تھی۔۔۔۔۔
خضر نے اُسکی زپ آہستہ سے بند کی تھی اس بیچ اُسکی کھردری اُنگلیاں شجیہ کی نرم قمر پر ہلکی سی ٹچ ہوئی تھی شجیہ خضر کے لمس پر اپنی آنکھیں بند کر گئی تھی پل میں سانسوں نے رفتار پکڑی تھی۔۔۔۔دل کی دھڑکن تو خضر شجاعت چوہدری کی بھی بڑھی تھی ۔۔۔پاس موجود گداز حسین وجود کو محسوس کرتے ااُسکے لمس کو محسوس کرتے۔۔۔۔خضر کی نظر اُسکی گردن پر پڑی اس سےپہلے وہ اپنے اوپر سے اپنا اختیار کھوتا وہ جھٹکے سے شجیہ سے دور ہوا تھا۔۔۔شجیہ کہ بازوں پر رکھے اپنے ہاتھ بھی فوراً سے ہٹائے تھے۔۔۔۔۔
خضر کے دور ہٹتے ہی شجیہ پلٹی تھی اور حیرت سے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی جو لال چہرہ لیے اُسے ہی لال آنکھوں سے گھور رہا ہے۔۔۔۔
تمہیں اچھی طرح پتہ تھا نہ کہ فلک نہیں ہے یہاں یہ سب تم نے اپنی طرف میری توجہ حاصل کرنے کے لیے کیا ہے نہ۔۔۔خضر نے سخت لہجے میں فلک کی بیقينی سے پھیلتی نیلی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔
میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔۔۔اور اگر آپ میری طرف متوجہ ہوئے ہے تو اس میں غلط کیا ہے۔۔۔شجیہ نے بھی سنجیدگی سے کہا ۔۔۔۔
مطلب تم چاہتی ہی یہی ہو کہ میں تمہاری طرف متوجہ ہوں۔۔خضر کا لہجہ اب انتہائی حد تک سرد تھا۔۔۔
اگر میں ایسا چاہتی ہو تو بھی اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے آپ میرے شوہر ہے تو میری طرف ہی متوجہ ہوگے نہ آپ ۔۔۔شجیہ نے بھی آپکی بار پھر اسکی بھوری آنکھوں میں دیکھتے مضبوطی سے کہا۔۔۔۔
کیوں اپنے آپ کو ایک۔جہنم میں۔جھونک رہی ہو۔۔۔۔کچھ نہیں ملنا تمہیں یہ رشتا نبھا کر کنٹرکٹ ہوا ہے ایک سال تک بس ناٹک کرو اور چلی جاؤ۔۔۔خضر نے غصے سے تن فن کرتے شجیہ تک جاتے اُسکے بازو اپنی اہنی گرفت میں لیتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔
خضر نکاح ہوا ہے کوئی مذاق نہیں پہلے مجھے بھی کچھ بھی سمجھ نہیں ایا تھا عقل پر پردہ لگ گیا تھا بابا کی وجہ سے پریشان تھی اسی لیے سمجھ ہی نہیں پائی کہ اپنے آپکو ایک مضبوط رشتے میں جوڑ رہی ہو۔۔۔میں طلاق جیسا عمل نہیں کر سکتی ۔۔۔۔شجیہ نے خضر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا بازو پر بڑھتی گرفت سے اُسے تکلیف ہورہی تھی جسکو اُس نے اپنے چہرے سے ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔۔۔۔
نکاح نکاح نکاح بس یہ ایک لفظ ہی تمھاری زبان پر کیوں ہے ایک ایسے انسان کے ساتھ کیسے زندگی گزاروں گی جو تم سے محبت ہی نہیں کرتا بولو ۔۔۔خضر نے اُسکے چہرے پر غراتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔
اس نکاح کی میری نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔۔۔نہ کبھی ہوگی تم میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی میں سچ کہو تو پچھتا رہا ہو کہ میں نے تم سے ہی کیوں کنٹریکٹ میرج کی۔۔۔خضر نے ایک ایک لفظ انتہائی سرد لہجے میں ادا کیے تھی۔۔۔
کیونکہ میں آپکے نصیب میں لکھ دی گئی تھی آپکی گمشدہ پسلی تھی تو آپ تک انے کا کوئی نہ کوئی رستہ تو اُس خدا نے دیکھانا ہی تھا۔۔۔شجیہ نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ خضر کے دھڑکتے دل کے مقام پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔خضر اُسکی آنکھوں میں بڑھتی درد کی شدت سے سرخی کو اچھی طرح بھانپ گیا تھا لیکن اس لڑکی کے چہرے پر درد کا کوئی تاثر نہیں تھا نہ ماتھے پر بل تھے۔۔۔۔۔۔۔خضر نے ایک جھٹکے سے اُسکے بازو اپنی فولادی گرفت سے آزاد کیے تھے ۔۔۔۔۔
شجیہ ہلکا سا لڑکھڑائی تھی اُسکا یکدم چھوڑنے پر۔۔۔۔۔
خضر ایک بھی غلط نگاہ اُس پر ڈالے ڈریسنگ روم سے باہر نکلتا چلا گیا تھا خضر کے جاتے ہی شجیہ کی آنکھوں سے آنسو موتیوں کی صورت میں بہہ تھے۔۔۔۔وہ خضر کے سامنے رو کر اپنے آپ کو کمزور ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی اُسے اس بات سے آگاہ نہیں کرنا چاہتی تھی کہ اُسکا سخت لہجہ اور اُسکے بولے گئے سخت الفاظ اُسے تکلیف دیتے ہیں۔۔۔۔
ایک گہری سانس بھرتے اُس نے اپنے آپ ضبط کیا تھا آنسو صاف کرتی وہ ڈریسنگ روم سے باہر نکلی تھی۔۔۔۔۔
💗💗💗💗
حویلی کے وسیع لون کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ سجایا گیا تھا۔۔۔۔فلک ایک کونے میں ہرے رنگ کا لہنگا پہنے سوگوار حسن لیے بیٹھی ہوئی تھی اُس کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا باہر انے کو لیکن اگر نہ اتی تو فاطمہ امّاں اور داجی پریشان ہوجاتے۔۔۔۔۔
برات آگئی تھی اسٹیج پر کالی شیروانی پہنے زائد اور دلہن کا جوڑا پہنے سامیہ بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔۔جبکہ طلحہ کی بھی آنکھیں اج بیقراری سے پورے لون میں گھوم رہی تھی۔۔۔اور کچھ یہی حال سامیہ کا تھا حالانکہ شادی اُسکی پسند کی ہورہی تھی لیکن شجيہ کو دیکھ کر جو جلن اور حسد اُسکے دل میں بھر گیا تھا وہ اُسے خوش نہیں ہونے ڈے رہا تھا۔۔۔۔
خضر ایک طرف داجی کے ساتھ کھڑا مہمانوں سے مل رہا تھا کالے رنگ کی شلوار قمیض جسکی آستین کہنیوں تک موری ہوی تھی جیل سے سیٹ کیے گئے بال خوبرو حسین چہرہ اور اُس پر چھائی سنجیدگی اُسے روعب دار بنا رہی تھی۔۔۔۔۔
مہمانوں سے بات کرتے خضر کی نظر ایک طرف اُٹھی جہاں سے لال لہنگے میں دوپٹہ کو اچھی طرح کندھے پر سیٹ کیے بھورے بالوں کو جوڑے میں مقید کیے لال سرخی سے اپنے لبوں کو رنگے نیلی آنکھوں میں کاجل کی بریک لکیر کھینچے ماتھے پر بندیاں اور بھاری جھمکے ہار پہنے وہ کسی شہزادی کی طرح سہج سہج کر قدم بڑھاتی سب کو اپنی طرف دیکھنے پر مجبور کر گئی تھی۔۔۔پشت پر اپنے ہاتھ باندھے وہ مہبوت سا ہوتا شجیہ کے حسین چہرے کو ہی دیکھے جا رہا تھا ۔۔وہ ایک حسین مورت کی طرح تھی معصوم بھی بہادر بھی ۔۔۔۔خضر کی نظریں اُسکے چہرے سے ہٹنے سے انکاری تھی دل کی دنیا میں ہلکے ہلکے سے دھماکے ہوتے محسوس ہو رہے تھے۔۔۔۔اور دل کب کسی کے بس میں رہا ہے۔۔۔۔۔
فسوں تو تب ٹوٹا جب فاطمہ اماں اٹھ کر اُسکے پاس گئی۔۔۔
ماشاللہ ماشاللہ کتنی پیاری لگ رہی ہے ہماری بچی اللہ نظر سے بچائے۔۔۔فاطمہ اماں نے اُسکی بلائیں لیتے ہوئے کہا شجیہ اپنی تعریف پر اپنی نیلی آنکھیں جھکائے مسکرا دی تھی اور یہاں گیا تھا خضر شجاعت چوہدری کا دل اُسکے پہلو سے نکلتے شجیہ کے پیروں میں۔۔۔۔۔
فاطمہ اماں تقریب میں ائی ہر ایک خاتون سے شجیہ کا تعارف کر وا رہی تھی ۔اور شجیہ سب سے مسکرا کر مل رہی تھی۔۔۔خضر کی نظر ایک پل کے لیے بھی شجیہ پر سے نہیں ہٹی تھی۔۔اور یہ دیکھتے سامیہ نے اپنی مٹھیاں غصے سے بند کی تھی ۔۔۔۔۔اُسے ایک اندھیکی سی آگ اپنے اندر جلتی محسوس ہورہی تھی۔۔۔وہ یہ سمجھتی کہ خضر اُسے پسند کرتا ہے اور اُسکے چھوڑنے پر وہ غم منائے گا لیکن یہاں تو بازی ہی پلٹ گئی تھی۔۔۔۔۔
بہت بہت مبارک ہو آپ دونوں کو۔۔۔شجیہ نے اسٹیج پر اتے خوشنودی سے کہا اسکی بات پر سامیہ نے منہ بنایا تھا جبکہ اپنے سامنے ایک انتہائی حسین لڑکی کو دیکھ کر زائد کی آنکھوں میں ایک چمک سی اُٹھی تھی جو دور کھڑا خضر اچھی طرح پہچان گیا تھا اُس نے فوراً سے اپنی مٹھیاں بھینچتے اپنے قدم شجیہ کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔۔
آپ کون۔۔زائد نے مسکراتے ہوئے شجیہ سے پوچھا۔۔۔
یہ مسز خضر شجاعت چوہدری ہے۔۔۔خضر نے شجیہ کے پاس اتے اُسکی قمر سے ہاتھ گزار کر اُسکے پہلو پر استحاق سے اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔
خضر کے انے پر اور شجیہ کی قمر پر اُسکا ہاتھ دیکھ کر زائد کو حد درجہ ناگواری ہوئی۔۔۔
شجیہ نے نیلی آنکھوں سے خضر کی طرف دیکھا تھا اپنے پہلو میں رکھا اُس کا ہاتھ اُسکے وجود میں سنسنی سی بھر گیا تھا۔۔۔۔خضر نے شجیہ کے دیکھنے پر اپنی بھوری آنکھیں اُسکی نیلی آنکھوں میں گاڑھی تھی۔۔۔دور بیٹھی فلک یہ منظر دیکھتے مسکرا گئی تھی ۔۔۔۔فاطمہ اماں اور داجی بھی یہ منظر دیکھتے مسکرا گئے تھے ۔۔۔۔
واؤ اچھی بات ہے لیکن تمہیں یہ حسین لڑکی مل کہاں گئی۔۔۔زائد نہ جان بوجھ کر یہ بات کہی تھی خضر کی آبرو تنی تھی اُسکی بات پر۔۔۔۔
میرے نصیب میں لکھی تھی تو مجھ تک تو انا تھا۔۔۔خضر کی بات پر شجیہ کو لگا تھا وہ خواب دیکھ رہی ہے۔۔۔اُس نے مسکرانے کی سعی کی ۔۔۔۔
مجھے تو حیرت ہوتی ہے ایسی لڑکیوں پر جو پیسے کے لیے انسان کو دیکھیے بنا اُسکی خامی کو نظرانداز کر دیتی ہے۔۔۔سامیہ نے انتہائی کڑوے لہجے میں کہا تھا اسکی بات پر خضر کے ساتھ ساتھ شجیہ نے بھی اپنے لب بھینچے تھے۔۔۔۔
اور مجھے بھی حیرت ہوتی ہے ایسی لڑکیوں پر جو ظاہری خوبصورتی کو دیکھتے سامنے والے کی گندی فطرت کو نظرانداز کر دیتی ہے۔۔۔شجیہ نے اپنے غصے پر ضبط کرتے مسکراتے ہوئے ایک گہرا طنز کیا تھا وہ زائد کی نظریں اپنے اوپر محسوس کر چکی تھی۔۔۔ایک انسان کی آنکھیں اُسکی شخصیت کا کھلاصہ کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔۔۔
سامیہ اور زائد کے فق چہرے کو دیکھتے اور شجیہ کی بات پر خضر نے اپنا رخ موڑ کر اپنی مسکراہٹ ضبط کی تھی۔۔۔۔۔یہ اج کے دن کی دوسری مسکراہٹ تھی جو اُسکے چہرے پر اُبھری تھی۔۔۔۔۔اور وجہ اُسکی بیوی تھی۔۔۔
چلے میاں جی بھوک لگ رہی ہے کچھ کھاتے ہے یہاں کھڑے ہو کر وقت برباد نہیں کرنا چاہیئے بہت اہمیت کا حامل ہے یہ وقت۔۔شجیہ نے خضر کی طرف اپنا سر گھما کر میٹھے لہجے میں کہا تھا خضر نے اثبات میں سر ہلایا تھا اور وہاں سے شجیہ کو لئے اسٹیج سے اُترا تھا سامیہ اور زائد کی کینہ توڑ نظریں اُن دونوں پر ہی تھے۔۔۔۔
خضر میں زیادہ اچھی لگ رہی ہو آپکو۔۔۔شجیہ نے اپنی آنکھیں معصومیت سے گھماتے ہوئے کہا خضر نے اچھنبے سے اُسکی طرف دیکھا نیلی آنکھیں حسین چہرہ اُس سے ایک انگلی کی دوری پر تھا۔۔۔۔
ہاں۔۔خضر نے اُسکی نیلی آنکھوں میں دیکھتے ایک سحر میں جکڑے کہا شجیہ کے چہرے پر گہری ہوتی مسکراہٹ سے وہ ہوش میں ایا ۔۔
نہیں تو تمہیں کس نے کہا یہ کہ تم اچھی لگ رہی ہو۔۔خضر نے جلدی سے اپنی نگاہیں اُسکی نیلی نگاہوں سے ہٹاتے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
شجیہ نے غصے بھرا منہ بنایا تھا اُسکی بات پر۔۔۔
تو اپنا ہاتھ ہتائے میرے پہلو سے۔۔شجیہ نے دانت پیستے ہوئے کہا۔۔۔۔خضر نے اُسکے حسین چہرے کی طرف دیکھا جو اب غصے کے تاثرات لیے ہوئے تھا اور آرام سے اپنا ہاتھ اُسکے پہلو سے ہٹایا ۔۔۔۔۔
شجیہ نے غصے سے اُس پر سے اپنی نگاہیں پھیرتے اپنے قدم فلک کی طرف بڑھائے تھے جو ایک جگہ بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔
وہ خوشبو بھرا وجود جیسے ہی خضر کے قریب سے دور ہوا خضر ایک گہرا سانس بھرتا رہ گیا تھا اور ایک نظر اُس پر ڈال کر جو فلک کی طرف جا رہی تھی اپنے قدم داجی کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial