قسط 5
وہ تو آنسوؤں اور شکووں کے سہارے اپنا دل ہلکا کرکے کچھ محنت کے بعد سو گئی تھی۔۔۔مگر شہیر کی آنکھوں سے نیند چھین گئی تھی۔۔۔۔
وہ ساری رات آنکھوں میں کاٹے اُس کی باتوں کو سوچتا رہا ۔۔۔۔اُس کے الزموں سے بچنے کے جواز تلاشتا تھا مگر نور کی طرح اُسے بھی کوئ جواب نہیں ملا۔۔۔۔
تمام رات بے آرام۔۔۔بے سکون گزری اور صبح کی روشنی کمرے میں بکھرتے ہی وہ فریش ہو کر واپس جانے کے لیے تیار ہوگیا۔۔۔۔
رئیسہ بیگم کو اطلاع دینے اُن کے پاس آیا تو وہ ڈرائنگ روم میں نماز کے بعد تسبیح کرتے بیٹھی تھیں۔۔۔۔اُس کی بات سن کر حیران ہوئیں۔۔۔۔۔
بہن کی شادی ہے ۔۔۔اور تم واپس جانے کی بات کر رہے ہو۔۔۔۔۔حد ہوتی ہے شہیر۔۔۔
اُنہوں نے خفگی اور تاسف سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔حالانکہ ماند ماند چہرہ۔۔۔۔سرخ آنکھیں اس فرار کی وجہ واضح کر رہیں تھیں کہ کوئی تو بات ذہن پر سوار ہے اور یقینًا نور سے متعلق ہے۔۔۔۔
شادی میں ابھی وقت ہے مام۔۔۔۔۔میں دس بارہ دِن میں واپس اجاؤں گا۔۔۔۔۔۔اور آپ فکر مت کیجئے میں سب مینیج کرلوں گا۔۔۔۔۔
اُس نے اپنے ہمیشہ سے ٹھہرے پُر اطمنان انداز میں مختصر جواب دیا۔۔۔۔
لیکِن ۔۔۔۔۔۔اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔۔مگر جلدی آجانا۔۔۔۔۔
رئیسہ بیگم اچانک کچھ سوچ کر بات بدل گئی۔۔۔اُس نے سر اثبات میں ہلایا۔۔۔
کب نکلنے والے ہو۔۔۔۔
اُنہوں نے اُسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔
بس آدھے گھنٹے میں ۔۔۔۔ڈیڈ سے کچھ بات کرنی ہے اُس کے بعد۔۔۔۔
اُس نے ایک سرسری نگاہ کلائی پر بندھی گھڑی پر ڈالتے ہوئے بتایا۔۔۔
ٹھیک ہے تب تک میں تمہارے لیے ناشتہ بنا دیتی ہوں۔۔۔۔
رئیسہ بیگم نے سر ہلا کر مسکراتے ہوئے کہا اور اٹھ کر اندر کی جانب بڑھ گئیں ۔۔
لیکن بجائے کچن کے اُس کے روم کی طرف آئیں اور دروازہ آہستہ سے بجایا۔۔۔۔
نور اُسی وقت جاگ کر روم میں آئی تھی۔۔۔۔آنکھیں بھی پوری طرح نہیں کھلی تھی ۔۔۔رات کپڑے چینج کرنے کا ہوش ہی نہیں تھا۔۔۔۔اب بھی اُنہیں میں تھی۔۔۔۔شہیر کی غیر موجودگی پر شکر بھیج کے چینج کرنے کے ارادے میں تھی کے دروازہ بجنے پر واپس پلٹی۔۔۔۔۔
گڈ مارننگ بیٹا۔۔۔۔۔
دروازہ کھولتے ہوئے رئیسہ بیگم نے مسکرا کر کہا لیکِن وہ اُنہیں اتنی صبح اپنے کمرے نے دیکھ حیرت سے جواب دینا بھول گئی۔۔۔
مام آپ اتنی صبح۔۔۔سب ٹھیک ہے۔۔
وہ پیچھے ہوئی اُنہیں اندر آنے کا راستہ دیا اور ذہن پر پر زور دیتے ہوئے پوچھا تو وہ سر اثبات میں ہلاتے ہوئے اندر آئیں۔۔۔۔
تُم جلدی سے تیار ہوجاؤ۔۔۔تب تک میں تمہاری پیکنگ کر دیتی ہوں۔۔۔۔۔
بلکل نارمل انداز میں کہہ کر کبرڈ کی طرف بڑھیں ۔۔۔جب کے نور نا سمجھی سے اُنہیں دیکھنے لگی۔۔۔
لیکِن ۔۔مجھے کہاں جانا ہے۔۔۔۔
اُنہیں الماری سے اپنے کپڑے نکال کے اٹیچی میں رکھتے دیکھ کچھ توقف کے بعد حیرانگی سے پوچھا۔۔۔۔
شہیر دہلی جا رہا ہے۔۔۔۔اور میں چاہتی ہوں تم بھی اُس کےساتھ جاؤ۔۔۔
اُنہوں نے سرسري سا بتایا جب کے اُس کا نہ صرف حیرت سے منہ کھلا بلکہ ماتھے پر بے شمار لکیریں بھی پڑیں۔۔۔۔
کیوں۔۔۔۔۔
اُس نے بے ساختہ پوچھا۔۔۔۔رئیسہ بیگم نے پلٹ کے اُس کی جانب دیکھا اور اُس کے پاس آئیں۔۔
ناز کی شادی کے لیے وہاں سے کچھ لینا ہے۔۔۔۔۔اب میں تو گھر میں اتنا کام چھوڑ کر اُس کے ساتھ نہیں جا سکتی۔۔۔اور اُسے کہاں سمجھ آئیگی لیڈیز شاپنگ کی۔۔۔۔۔۔تم جاؤ گی تو آسانی سے سب ہوجائے گا۔۔۔۔
اُنہوں نے اپنے تئیں ایک بہانا بنایا مگر نور اتنی کم عقل نہیں تھی کے اُن کے تاثرات اور کوشش کو نہ سمجھتی۔۔ ۔۔وہ اُنہیں دیکھتی رہ گئی اور آخر کار رئیسہ بیگم کو چور کی طرح خود اپنی نظروں کا رخ موڑنا پڑا۔۔
یہ سوٹ تم ابھی پہن لو۔۔۔۔اچھا لگتا ہے تم پر۔۔۔۔اور سفر کے لیے بھی اچھا ہے۔۔۔ساتھ یہ شال لے لینا سردی بہُت ہوگی نا راستے میں۔۔۔
اُنہوں نے بات بدلی۔۔۔۔ گلابی رنگ کا لائٹ ورک والا سوٹ اور بلیک خوبصورت سی شال اُس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔۔
نہ۔۔۔۔نہیں مجھے نہیں جانا ہے۔۔۔میں یہیں رہ کر آپ کی ہیلپ کرواؤں گی پلیز۔۔۔۔۔۔
اُس نے اُن کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔
یہاں تو سب ہے بیٹا۔۔۔۔تمہارا شہیر کے ساتھ ہونا ضروری ہے ۔۔۔میری بات نہیں مانو گی ۔۔۔
اُنہوں بے بسی اور دکھی دل سے کہا تو نور نے نظریں جھکا کر بے دردی سے لب کاٹے۔۔۔
اُنہیں اچھا نہیں لگے گا۔۔۔۔اور میں زبردستی ۔۔۔۔
نظریںجھکائے دھیرے سے کہا لیکن رئیسہ بیگم نے اس کی بات کاٹی۔۔۔
اور اگر میں کہوں وہ خود ہی چاہتا ہے کہ تُم اُس کے ساتھ جاؤ تو۔۔۔۔
اُنہوں نے دانستہ جھوٹ بولا۔۔۔حالانکہ دل ہی دل میں شرمندہ بھی تھیں مگر اُنہیں فی الوقت یہی مناسب لگا۔۔۔کیوں کے ڈوبتی ناؤ کو بچانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔اور وقت بھی بہت کم تھا۔۔۔۔اُنہوں نے نور کو ناز کی شادی تک اسی لیے روکا تھا تاکہ اس عرصے میں دونوں کا دل کسی طرح بدل جائے۔۔۔۔اور اُن کی امیدیں ٹوٹنے سے بچ جائے۔۔۔۔
نور اُن کی بات سن کر حیران بھی تھی اور پریشان بھی۔۔۔۔۔حیران کہ وہ جو اُسے اپنے سامنے پا کے بھی بے چین ہوجاتا ہے اُسے ساتھ کیوں لےجانا چاہتا ہے۔۔۔۔
اور پریشان کے کہیں اُس کی گزری رات کی باتوں کی وجہ سے وہ اُس پر ترس یا رحم کھا کے احسان نہ کر رہا ہو جو کہ نور کو ہرگز منظور نہیں تھا۔۔۔۔
لیکِن ان دونوں سوچوں کے درمیان ایک یہ خیال بھی تھا کہ شاید وہ صرف اپنی ماں کے کہنے سے ایسا کر رہا ہے۔۔۔اور یہ خیال کچھ حد تک قابلِ قبول تھا۔۔۔۔
نُور جلدی سے تیار ہوجاؤ۔۔۔جاؤ۔۔۔
اُسے گم صم دیکھ رئیسہ بیگم نے پھر پکارا ۔۔۔اُس نے منع کرنا چاہا لیکن اُنہوں نے اُس کی ایک نہیں سنی۔۔۔
#####@
صبح بھیگی بھیگی سی اور فضا کہرے سے بوجھل تھی۔۔۔۔سرد ہواؤں کا زور بھی خاصا پر اثر تھا۔۔۔۔مگر وہ ہمیشہ سا لا پرواہ پرسکون کھڑا تھا۔۔۔۔سفید ہلکی سی شرٹ تھی اوپر کے دو بٹن بھی کھلے ہوئے تھے۔۔۔۔لیکِن ٹھٹھر ا دینے والی سردی کا شائبہ تک چہرے پر موجود نہیں تھا۔۔۔۔بس گہری خاموشی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور درد کا موسم جیسے آنکھوں میں آکر ٹہر گیا تھا۔۔۔
وہ لان میں گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔۔۔نظریں اُسی درخت پر تھیں ۔۔۔ گہری دھند میں اُنہیں لفظوں کو تلاش رہیں تھی جو خود اُس نے کبھی لکھے تھے۔۔۔۔جن سے جڑے لمحے سانپ کے طرح روح سے لپٹے ہوئے تھے اور پل پل ڈستے رہتے تھے۔۔۔۔
اپنی ماں کی پکار پر اُس نے فوراً آنکھیں بند کرکے کھولیں اور خود کو اُس احساس سے چھڑایا۔۔۔۔۔
یہ لو۔۔۔۔
اُنہوں نے اُس کی طرف جیکٹ بڑھائی۔۔۔
مام۔۔۔۔۔
اُس نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے بیزاری سے منع کرنا چاہا لیکن انکے گھورنے سے خاموش ہو گیا ۔۔۔۔۔
جلدی سے پہنو۔۔۔بہُت سردی ہے۔۔۔۔
اور ایک منٹ یہیں رکنا۔۔۔۔۔میں ابھی آئی۔۔۔۔۔
اُنہوں نے ڈانٹنے والے انداز میں کہا اور واپس اندر گئیں۔۔۔وہ بے دلی سے جیکٹ پہن کے کھلی ہی چھوڑے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور فون کی رنگ پر بلوٹوتھ نکال کر کان میں لگایا۔۔۔۔
اُس کی فون پر بات جاری ہی تھی رئیسہ بیگم نور کو لے کر باہر آئی اور فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا۔۔۔
آؤ نور۔۔۔۔۔آرام سے بیٹھو۔۔۔۔
اُنہوں نے پیار سے کہا۔ ۔۔۔نور ایک نظر اُس کی جانب دیکھ کر جھجھکتے ہوئے اندر بیٹھ گئی۔۔۔اُس نے فون پر بات کرتے ہوئے ہلچل محسوس کی تو سر سری سی نظر اُس جانب اٹھائی اور لمحے میں وہ نظر حیرت میں تبدیل ہو گئی۔۔۔اُس نے ماتھے پر بل ڈالے نور کو اور پھر اپنی ماں کو دیکھا۔۔۔
وہاں جا کر بس کام میں مت لگ جانا۔۔۔۔نور کا خیال رکھنا۔۔۔۔خیر سے جاؤ ۔۔۔۔
اُس کے سوالیہ تاثرات سے لاپرواہی برتتے ہوئے اُنہوں نے سنجیدگی سے کہا اور ایک مسکراہٹ نور کی جانب بھیج کے اندر چلی گئی۔۔۔
مام۔۔۔۔۔
اُس نے اپنی حیرت سے نکل کر فوراً پکارا۔۔۔نور بری طرح چونکی جب کے اُنہوں میں یوں نظر انداز کیا جیسے سنا ہی نہ ہو۔۔۔
مام۔۔۔۔۔
اُس نے دوسری دفعہ بے حد جھلا کر پکارا مگر وہ اُس کی نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی تیسری دفع۔ وہ پکارتے پکارتے رک گیا اور نور کی جانب دیکھا جو کچھ حیران اور پریشان تھی۔۔۔۔۔نا سمجھی سے اُسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
اور پھر اُس نے ضبط سے دانت بھینچ کر سٹرنگ کو سختی سے تھامے گاڑی سٹارٹ کرلی ۔۔۔۔جانتا تھا اگر رک کے کوشش بھی کریگا تو سوائے اموشنل بلیک میل کے کچھ نہیں ملےگا۔۔۔تبھی مجبوراً گاڑی آگے بڑھائی۔۔
صرف کچھ لمحے ہی نور اُسے لے کر کشمکش میں رہی کہ وہ کیوں اتنا سلگا ہوا ہے۔۔۔۔ پھر رئیسہ بیگم کی بے نیازی ۔۔۔ اُس کا ضبط بھرا انداز اور گاڑی کی تیز تر رفتار دیکھ سمجھ آگیا کے کیا ہوا ہے ۔۔۔۔اس کے دل شدت سے بھر آیا اور آنکھیں چھلک اٹھی۔۔۔تو اُس نے رخ کھڑکی کی جانب کر لیا۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی ماں کے آسانی سے مان جانے کا مقصد سمجھ کر کڑھتا رہ گیا۔۔۔اس زبردستی پر بہُت غصہ آیا۔۔کچھ دیر بعد گاڑی کی رفتار تو کم ہوئی مگر ذہنی انتشار نہیں۔۔۔۔جس حقیقت سے وہ بھاگنے کو گھر سے نکلا تھا وہ ہمسفر بھی بن گئی تھی۔۔۔۔۔منزل بھی۔۔۔اور وہ بے بس تھا۔۔۔۔۔
ایک ہاتھ سے اسٹرنگ تھامے دوسرے سے سگریٹ جلا کر اپنے تاثرات پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہا ۔۔۔لیکِن دل بری طرح مضطرب تھا۔۔۔۔اس لیے یہ کوششں ناکام ہی رہی۔۔۔
گاڑی کی رفتار نے سردی کی شدت میں بھی اضافہ کر دیا تھا۔۔۔۔اور ہلکی ہلکی پھوار بھی برس کر شیشے کو دھندلا کرتی جا رہی تھی۔۔۔۔ وہ لوگ گھر سے کافی دوری پر آگئی تھی تقریبا دس مِنٹ کا راستہ گزر چکا تھا۔۔۔
وہ کچھ دیر رئیسہ بیگم کی اس کوشش پر افسوس اور غصّہ کرتی رہی پھر اپنے آنسو ہتھیلی میں جذب کرکے اُس کی جانب دیکھا۔۔۔جس کے چہرے کے اطراف دھوئیں کی گرد گھوم رہی تھی۔۔۔۔اور تاثرات جبر کے تھے
گاڑی روک دیجئے۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے ایک ہاتھ کی تین اُنگلیوں کو دوسرے ہاتھ سے سختی سے پکڑ کر آہستہ سے کہا۔۔آواز میں نمی کا شمار نا معلوم سا تھا۔۔۔
شہیر کی نظریں سڑک سے ہٹ کر ایک سیکنڈ کو اسٹرنگ تک آئی اور دوبارہ وہیں لوٹ گئی۔۔۔نور کی جانب دیکھنے کی زحمت نہیں کی گئی۔۔۔
کس لیے۔۔۔۔۔۔
سرد سپاٹ لہجے میں لاپرواہی سے پوچھا گزری رات نور کی باتوں نے جو اثر کیا تھا اور ندامت اور افسوس کے جو احساس جاگے تھے وہ فل حال غصے میں کہیں گم ہوگئے۔۔۔۔اُس نے وائپر آن کیا کیوں کے اب شیشے کی اونٹ سے راستہ بوجھل ہوتا نظر آرہا تھا۔۔۔
مجھے نہیں جانا ہے ۔۔۔۔۔
نور نے نظریں اُس کے چہرے سے ہٹا کر جواب میں سختی سے کہا۔۔۔۔۔۔
تو پھر آنے کی ضرورت ہی کیا تھی ۔۔۔۔۔
وہ مانو خود سے بڑبڑا رہا تھا۔۔۔۔ لیکِن اُس نے اپنے غصے میں اس قدر بے حسی کا مظاہرہ کیا تھا کہ نور ساکت سی اُسے دیکھتی رہ گئی۔۔۔
میں اپنی مرضی سے نہیں آئی ہوں۔۔۔۔مجھے بھیجا گیا ہے۔ ۔۔ ۔۔
وہ اُس کی بے مروتی دیکھ ایک ایک لفظ پر زور دے کے غصّے سے بولی۔۔حالانکہ شہیر بھی اس بات سے واقف تھا مگر اُس وقت دماغ پر تاؤ سوار تھا ۔۔
وہاٹ ایور ۔۔۔اب خاموشی سے بیٹھو۔۔۔۔ڈسٹرب مت کرو مجھے۔۔۔۔۔
اُس نے سفاکی اور بیزاری سے کہتے ہوئے سگریٹ کا آخری کش لگا کر اُسے باہر پھینکا اور گاڑی کی رفتار تھوڑی بڑھائی۔۔۔
نور کو اپنی انسلٹ پر بہت رونا آیا اور وہ لاکھ کوششں کرکے بھی آنسو روک نہیں پائی۔۔۔۔مگر ساتھ شہیر پر بے حد غصّہ بھی آیا اور نفرت بھی محسوس ہوئی۔۔۔
گاڑی روکیے میں نے کہا۔۔۔۔
اُس نے بھرے ہوئے انداز میں وارن کرتے لہجے میں کہا مگر۔۔۔ایکدم سے اُسے طیش آگیا تھا۔۔۔ شہیر نے تب بھی بہُت بے دردی سے اُسے نظر انداز کیا۔۔۔جیسے وہ وہاں ہے ہی نہیں۔۔۔۔
اور نور کی برداشت بھی یہی تک تھی اُس نے ایک نظر اُسے نفرت سے دیکھا اور گاڑی کا دروازہ کھولا۔۔۔۔اس سے پہلے کے وہ انجام سے بے پرواہ چلتی گاڑی سے کود کر خود کو چوٹ پہنچاتی شہیر کے دماغ میں بجلی سی دوڑی اور اُس نے ہڑبڑا کر نُور کا ہاتھ پکڑے پوری طاقت سے اُسے اپنی طرف کھینچا۔۔۔۔
اور اس چکر میں گاڑی کا بیلنس اتنی بری طرح بگڑا کہ پکّی سڑک سے اتر کر ایک مضبوط پیڑ سے جا ٹکرائی اور زور کا جھماکا ہوا تمام پرزے ہل گئے ۔۔۔۔۔اور سامنے کا شیشہ ٹوٹ کر لاکھوں ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا جن میں سے کچھ ٹکڑے اُن دونوں کی جانب بھی اچھلے۔۔۔۔۔
جنہیں شہیر نے نور تک پہنچنے سے پہلے اُسے سیٹ کی طرف دھکیلتے ہوئے اُس کے آگے دیوار بن کر روکا۔۔۔۔اور چند ٹکڑے جیکٹ کے باوجود بازو میں چبھتے چلے گئے۔۔۔۔
نور نے مارے خوف کے اُس کی جیکٹ کو سختی سے تھام کر سر اُس کے کندھے میں چھپا کر آنکھیں میچ لی تھی۔۔۔۔دھڑکنیں خطرناک حد تک تیز ہوگئی تھیں۔۔۔۔۔۔
شہیر نے درد کے احساس پر لب بھینچے ۔۔۔۔ پیچھے ہو کر گہری سانس لی اور پھر ایکدم سے نور کو خود سے الگ کرکے اُس کا چہرہ ہاتھ سے جکڑا۔۔۔۔
وہ پہلے ہی خوف سے بے حال تھی۔۔۔۔اُس کے درشت انداز اور چہرے کو چھوتی سانسوں کے احساس پر مزید سہم سی گئی۔۔۔۔
دماغ خراب ہے تمہارا۔۔۔۔۔۔کیا بے وقوفی ہے یہ۔۔۔
وہ اُس کے چہرے پر جھکا۔۔۔۔ غضبناک لہجے میں بولا۔۔۔۔نور کی زبان تو مانو تالو سے لگ گئی تھی۔۔۔۔۔بدن پر رعشہ طاری تھا۔۔۔۔دھڑکنیں بے ربط تھیں اور سانسیں بے ترتیب۔۔ ۔۔
وہ اُسے ساکت سی بس دیکھ رہی تھی۔۔۔بھیگی سرخ آنکھیں میں وحشت ہی وحشت تھی۔۔۔۔۔۔۔شہیر نے اُس کی خاموشی پر غصے سے اُسے دور جھٹکا اور خود گاڑی سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔